تری یاد دل میں بسا کے چلے

متلاشی

محفلین
ایک تازہ غزل اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہے۔

تری یاد دل میں بسا کے چلے
ترا نام لب پر سجا کے چلے
بچا کچھ نہیں ہے مرے پاس اب
دل و جان سب ہی لٹا کے چلے
ملا درد جو بھی ترے عشق میں
وہ سینے میں اپنے چھپا کے چلے
کیا تم سے جو وعدۂِ عشق تھا
وہی قول پھر ہم نبھا کے چلے
رہی زندگی بھر وہی ضد مری
کبھی سر نہ اپنا جھکا کے چلے
جئے جو تو سر کو اُٹھا کے جئے
چلے گر تو گردن کٹا کے چلے
صدا پھر رہے گا یہ احساں مرا
مئے عشق سب کو پلا کے چلے
بھلا نہ سکے گا زمانہ مجھے
اسے خوں کے آنسو رلا کے چلے
اندھیروں کے ویراں نگر میں نصر
دیے عشق کے ہم جلا کے چلے
14-10-11
 

الف عین

لائبریرین
حاضر ہوں

تری یاد دل میں بسا کے چلے ترا نام لب پر سجا کے چلے
// پہلی بات تو یہ ‘کے چلےّ کی بہ نسبت ’کر چلے‘ زیادہ بہتر ہے۔ درد کی مشہور غزل ہے
فقیرانہ آئے صدا کر چلے۔۔ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
دوسرے، اس مطلع میں دونوں مصرعوں میں ترا/تری اچھا نہیں لگ رہا۔ کم از کم اسی پوزیشن پر (مصرع کا پہلا لفظ)۔ دوسرا مصرع بہت اچھا ہے لیکن اس کی مناسبت میں پہلا مصرع بھی کچھ بہتر خیال یا معنی کا ہو تو اچھا ہے جیسے
مہک تیری دل میں بسا کر چلے
ترا نام لب پر سجا کے چلے

بچا کچھ نہیں ہے مرے پاس ابدل و جان سب ہی لٹا کے چلے//پہلے مصرع کی روانی سدھاری جا سکتی ہے، دوسرے مصرع میں بھی ’سب ہی‘ کی جگہ ’سب کچھ‘ بہتر لگتا ہے۔اس پر وہ واقعہ یاد آ گیا کہ ابو بکر صدیقؓ نے اپنا سارا سرمایہ آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش کر دیا تو حضورؐ نے سوال کیا ’کچھ اپنے پاس چھوڑ کر بھی آئے ہوَ‘ تو ابو بکرؓ نے جواب دیا ’اللہ اور اس کے رسول کا نام ہی چھوڑ کر آیا ہوں‘۔ ایسا کچھ پہلے مصرع میں بھی مفہوم آ جائے تو اچھا ہے، یعنی اب کچھ بچا نہیں ہے تیرے نام یا تیری یادوں کے علاوہ۔

ملا درد جو بھی ترے عشق میںوہ سینے میں اپنے چھپا کے چلے
// یہ شعر بھی درست ہے لیکن بہتر ہو سکتا ہے۔
وہ دولت جو بخشی تھی تو نے ہمیں
کچھ ابہام شعر کا حسن ہوتا ہے،’ دولت بخشنے‘ میں یہ امکانات ہیں کہ عشق کی دولت، ی درد کی دولت ی رسوائی ۔۔ سبھی عزیز ہیں دولت کی طرح۔
کیا تم سے جو وعدۂِ عشق تھاوہی قول پھر ہم نبھا کے چلے
//پہلے مصرع میں الفاظ کی نشست اچھی نہیں،
کیا تھا جو تم سے وہی قولِ عشق
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے
کیسا رہے گا؟
رہی زندگی بھر وہی ضد مریکبھی سر نہ اپنا جھکا کے چلے // یہاں ’مری‘ کا صیغہ غلط ہے، ’ہماری‘ کا محل ہے۔ پہلا مصرع زیادہ رواں ہو سکتا ہے جیسے
ہماری یہی عمر بھر ضد رہی
یا
وہی ضد ہماری رہی عمر بھر

جئے جو تو سر کو اُٹھا کے جئے چلے گر تو گردن کٹا کے چلے // بہتر ہو کہ اسے یوں کر دیا جائے
جئے ہم تو سر کو اُٹھا کے جئے چلے بھی تو گردن کٹا کر چلے

صدا پھر رہے گا یہ احساں مرامئے عشق سب کو پلا کے چلے//صدا یا سدا؟
اس کے علاوہ صیغے کی بھی گڑبڑ ہے، جب مرا کہہ رہے ہو تو ’چلے‘ کیوں؟۔ یہاں ’ہم‘ کے صیغے کی ضرورت ہے۔
بھلا نہ سکے گا زمانہ مجھےاسے خوں کے آنسو رلا کے چلے //یہاں بھی ’مجھے‘ کا استعمال غلط ہے۔ شعر کا مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکا۔ سب کو خون کے آنسو کیوں رلا رہے ہو، کیا اتنے ظالم ہو تم؟

اندھیروں کی ویراں نگر میں نصردیے عشق کے ہم جلا کے چلے
//درست تو ہے، لیکن ’ویراں نگر‘ اور ’عشق کے دئے‘ ہندی فارسی ترکیبوں کا مجموعہ ہو گیا ہے۔
جیسے
اندھیروں کی ویران بستی میں ہمدیے پیار کے پھر جلا کر چلے
اس صورت میں مقطع ضروری سمجھو تو پھر کہو، لیکن میں ضروری نہیں سمجھتا۔
 

متلاشی

محفلین
استاذ گرامی جناب الف عین صاحب ذرا اب دیکھیں۔۔۔۔!

مہک تیری دل میں بسا کر چلے
ترا نام لب پر سجا کر چلے
مرے پاس اب کچھ بچا ہی نہیں
دل و جان سب کچھ لٹا کر چلے
وہ دولت جو بخشی تھی تو نے ہمیں
اسے اپنے دل میں چھپا کر چلے
وفا کا کیا تم سے جو عہد تھا
وہی قول اب ہم نبھا کر چلے
وہی ضد ہماری رہی عمر بھر
کبھی سر نہ اپنا جھکا کر چلے
جئے ہم تو سر کو اُٹھا کے جئے
چلے بھی تو گردن کٹا کر چلے
بھلا نہ سکے گا زمانہ ہمیں
کہ رازِ محبت بتا کر چلے
نصرؔ ظلمتوں کے اجڈ شہر میں
چراغِ محبت جلا کر چلے
14-10-11
 

الف عین

لائبریرین
وفا کا کیا تم سے جو عہد تھا
وہی قول اب ہم نبھا کر چلے
میں روانی نہیں ہے، میرا مشورہ نہ ماننے کی خاص وجہ؟

ھلا نہ سکے گا زمانہ ہمیں
کہ رازِ محبت بتا کر چلے
÷÷ یہ شعر اب بھی پسند نہیں آیا

نصرؔ ظلمتوں کے اجڈ شہر میں
چراغِ محبت جلا کر چلے
÷÷ اجڈ شہر؟ یہ لفظ میری سمجھ کے مطابق غلط ہے۔
 

متلاشی

محفلین
وفا کا کیا تم سے جو عہد تھا
وہی قول اب ہم نبھا کر چلے
میں روانی نہیں ہے، میرا مشورہ نہ ماننے کی خاص وجہ؟
استاذ گرامی میں عشق میں جو ق کی اضافت ہےاس سے بچنا چاہتا تھا۔۔گوکہ اجازت تو ہے مگر مجھے اچھی نہیں لگتی۔!
کیا تھا جو تم سے وہ عہدِ وفا
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے
استاذ گرامی یہ کیسا رہے گا۔۔۔؟
بھلا نہ سکے گا زمانہ ہمیں
مئے عشق سب کو پلا کر چلے
استاذ گرامی یہ کیسا رہے گا۔۔۔؟

نصرؔ ظلمتوں کے اجڈ شہر میں
چراغِ محبت جلا کر چلے
÷÷ اجڈ شہر؟ یہ لفظ میری سمجھ کے مطابق غلط ہے۔
استاذ گرامی اگر آپ یہ بھی بتا دیتے کہ یہ لفظ کیوں غلط ہے، تو اس کی درستگی میں آسانی رہتی۔ کیا اس کا تلفظ غلط استعمال کیا گیا ہے یا یہ کہ یہ کسی اور زبان کا لفظ ہے جو یہاں اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔ براہِ کرم جواب دیجئے ۔۔!
 

الف عین

لائبریرین
پہلے شعر میں ’اب‘ پر بھی مجھے اعتراض تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب پہلی بار یہ کام کرنے جا رہے ہو۔ جب کہ پہلے مصرع میں ماضی بعید کی بات ہے۔ اس کے علاوہ اگر تم عشق کی جگہ وفا ہی رکھنا چاہ رہے ہو تو یوں کر دو
وفا کا جو وعدہ کیا تھا کبھی
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے

بھلا نہ سکے گا زمانہ ہمیں
مئے عشق سب کو پلا کر چلے
اس میں بھی وہی بات ہے۔ دونوں مصرعوں میں معنوی تعلق؟زمانہ یوں ہی یاد نہیں رکھتا جب تک کہ کوئی کارنامہ انجام نہ دیا جائے۔ عشق کی شراب پلانا اوررازِ محبت سب کو بتانا ایسا کارنامہ ہے کیا؟

نصرؔ ظلمتوں کے اجڈ شہر میں
چراغِ محبت جلا کر چلے
اجڈ کا مطلب ہوتا ہے گنوار، غیر تہذیب یافتہ، کرلپ کی لغت سے نہیں بتا رہا ہوں، مکن ہے کہ وہاں کچھ اور (یا پاکستانی) معنی لکھے ہوں۔ ہندوستان میں تو انہو معنوں میں مستعمل ہے۔
 

متلاشی

محفلین
استاذ گرامی جناب الف عین صاحب ذرا اس غزل کو اب دیکھیں ۔۔۔
مہک تیری دل میں بسا کر چلے
ترا نام لب پر سجا کر چلے
مرے پاس اب کچھ بچا ہی نہیں
دل و جان سب کچھ لٹا کر چلے
وہ دولت جو بخشی تھی تو نے ہمیں
اسے اپنے دل میں چھپا کر چلے
کیا تھا جو تم سے کبھی قول عشق
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے
وہی ضد ہماری رہی عمر بھر
کبھی سر نہ اپنا جھکا کر چلے
جئے ہم تو سر کو اُٹھا کے جئے
چلے بھی تو گردن کٹا کر چلے
جہالت کے ظلمت کدے میں نصر
چراغِ محبت جلا کر چلے
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم، غیر مہذب شہر نہیں، اس کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور یہاں اجڈ جیسا اجڈ لفظ استعمال کرنے کے لئے ایسی کیا مجبوری ہے جو اسی کے لئے بضد ہو، دوسرے بہتر الفاظ آ سکتے ہیں یہاں۔ جیسے
نصر ظلمتوں کے بسیرے میں ہم
لیکن اس خیال کے ساتھ ’جلا کر‘ کی جگہ ’جلاتے چلے‘ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ لیکن ردیف کی مجبوری ہے۔
اس کے علاوہ میرے ذہن میں یہ سوال بھی بار ہا اٹھتا ہے کہ تمہارے تخلص کا تلفظ کیا ہے۔ عربی میں نصر کا تلفظ تو صاد پر جزم ہوتا ہے، زبر نہیں۔ لیکن اب تک اس پر گفتگو نہیں کی۔
اور ہاں، ایک میرا مشورہ پہلے بھی یہی تھا کہ اس شعر کو ماضی سے مسلسل کر دیا جائے تو بہتر ہے، یعنی پہلے بھی ایسا کر چکے ہو۔
کیا تھا جو تم سے وہی قول عشق
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے
کو’وہی‘ کی جگہ ’کبھی‘ کر دیا جائے تو کیسا رہے؟
 

متلاشی

محفلین
عزیزم، غیر مہذب شہر نہیں، اس کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور یہاں اجڈ جیسا اجڈ لفظ استعمال کرنے کے لئے ایسی کیا مجبوری ہے جو اسی کے لئے بضد ہو، دوسرے بہتر الفاظ آ سکتے ہیں یہاں۔ جیسے
نصر ظلمتوں کے بسیرے میں ہم
لیکن اس خیال کے ساتھ ’جلا کر‘ کی جگہ ’جلاتے چلے‘ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ لیکن ردیف کی مجبوری ہے۔
اس کے علاوہ میرے ذہن میں یہ سوال بھی بار ہا اٹھتا ہے کہ تمہارے تخلص کا تلفظ کیا ہے۔ عربی میں نصر کا تلفظ تو صاد پر جزم ہوتا ہے، زبر نہیں۔ لیکن اب تک اس پر گفتگو نہیں کی۔
اور ہاں، ایک میرا مشورہ پہلے بھی یہی تھا کہ اس شعر کو ماضی سے مسلسل کر دیا جائے تو بہتر ہے، یعنی پہلے بھی ایسا کر چکے ہو۔
کیا تھا جو تم سے وہی قول عشق
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے
کو’وہی‘ کی جگہ ’کبھی‘ کر دیا جائے تو کیسا رہے؟
استاذ گرامی جناب الف عین صاحب !
مقطع کو اگر یوں کر دیا جائے تو کیسا رہے گا۔۔۔؟
جہالت کے ظلمت کدے میں نصر
چراغِ محبت جلا کر چلے
آپ کی بات درست ہے۔ اور بھی کئی کرم فرماؤں نے میرے تخلص پر اعتراض کیا ہے جو کہ منطقی طور پر درست ہے ۔۔۔ مگر میں کیا کروں شروع ہی سے نصر (ص پر زبر کے ساتھ ) ہی میں اپنے نام کے ساتھ لکھتا ہوں ۔۔۔۔! کیا اسے غلط العام کا درجہ دے کر اسی طرح رہنا دیا جا سکتا ہے یا پھر اسے تبدیل کرنا ضروری ہے ۔۔۔؟ براہ کرم اپنی قیمتی رائے سے نوازیں ۔۔۔ شکریہ۔۔۔!
اور میں وہی کی جگہ کبھی کر دیا ہے ۔۔۔ کبھی واقعی زیادہ مناسب ہے۔۔۔ِ!بہت بہت شکریہ استاذ گرامی۔۔۔!
 

الف عین

لائبریرین
جہالت کے ظلمت کدے میں نصر
واقعی بہت اچھا مصرع ہے، پسند آیا۔
ایسے ہی مشق کرتے رہو تو آئندہ کافی بہتری آ جائے گی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
استاذ گرامی جناب الف عین صاحب ذرا اس غزل کو اب دیکھیں ۔۔۔
مہک تیری دل میں بسا کر چلے
ترا نام لب پر سجا کر چلے
مرے پاس اب کچھ بچا ہی نہیں
دل و جان سب کچھ لٹا کر چلے
وہ دولت جو بخشی تھی تو نے ہمیں
اسے اپنے دل میں چھپا کر چلے
کیا تھا جو تم سے کبھی قول عشق
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے
وہی ضد ہماری رہی عمر بھر
کبھی سر نہ اپنا جھکا کر چلے
جئے ہم تو سر کو اُٹھا کے جئے
چلے بھی تو گردن کٹا کر چلے

جہالت کے ظلمت کدے میں نصر
چراغِ محبت جلا کر چلے

بہت خوب! آخری دو اشعار زبردست ہیں
 
Top