ترکی اشعار مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
السلام علیکم

فارسی زبان کی عظمت و بزرگی کے تو سب قائل ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ اردو یقینا تہذیبی طور پر دختر فارسی یا بقول شخصے فارسی کی ہندوستانی بہن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زبان نے کسی دوسری زبان کا اثر قبول نہیں کیا جتنا فارسی نے عربی کا، اور اردو نے فارسی کا اثر قبول کیا ہے۔ مگر شاید کچھ افراد اس بات سے ناواقف ہوں کہ فارسی نے نہ صرف اردو بلکہ اپنے پڑوس کی دیگر زبانوں کو، جنہیں درباری زبانیں ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا، بھی متاثر کیا ہے۔ ان زبانوں میں عثمانی ترکی، کلاسیکی آذربائجانی اور چغتائی زبانیں شامل ہیں۔

چغتائی وسطی ایشیا کے ترکستان کی بیسویں صدی تک علمی و ادبی زبان تھی۔ تیموریوں، ایلخانیوں، اور ابتدائی مغلوں کی مادری زبان بھی چغتائی تھی، اور بابر نے بابرنامہ اسی چغتائی میں لکھا تھا۔ وسطی ایشیا میں سوویت یلغار کے بعد اس زبان کا خاتمہ ہو گیا کیونکہ بولشیوکوں کے حساب سے یہ زبان درباری ہونے کی وجہ سے اشتراکی و عوامی خیالات کے لیے موزوں نہ تھی۔ انہوں نے اسی چغتائی کو سادہ کر کے، اور اس میں مفرس کی تعداد کم کر کے ایک نئی زبان کی داغ بیل ڈالی جسے آج ازبک کہتے ہیں، جو چغتائی کا ہی تسلسل ہے۔ جبکہ دوسری طرف اویغر، قزاق، ترکمن اور قرغز چغتائی کا دور ختم ہونے کے بعد اپنی اپنی علاقائی ترک بولیوں کوترقی دے کر اسی میں ادب لکھنا شروع ہو گئے۔ فی الوقت چغتائی ادب کو اپنا ادب کہنے والی قوم ازبک ہے۔ اور ابھی بھی ازبک کے تیس-چالیس فیصد الفاظ فارسی-عربی کے ہیں۔

اناطولیائی ترکی کا معاملہ دلچسپ ہے۔ اسلامی دنیا میں سب سے پہلے اقتدار پانے والا ترک طائفہ سلجوقیان کا تھا۔ انہوں نے فتح تو ایران کو کیا، مگر خود عجمی ثقافت کے ہاتھوں مفتوح ہو گئے۔ سلجوقی مغلوں کی طرح پوری طرح سے ایرانی رنگ میں رنگے حکمران تھے، اور انہوں نے اپنی درباری اور سرکاری زبان بھی فارسی کو ہی مقرر کیا۔ یہی حال ایلخانی منگولوں (خاندانِ ہلاکو خان) کا ہے کہ وہ حاکم تو ایران کے تھے مگر محکوم فارسی و فارسی تہذیب کے، کہ چند سالوں کے اندر ہی انہوں نے ایرانیت اور اسلام کو پوری طرح سے اپنا لیا۔ اناطولیہ میں فارسی کا تسلط اسی طرح چودھویں صدی میں عثمانیوں کے عروج تک جاری رہا۔ عثمانی خلفا اگرچہ فارسی زبان و ادب کے دلدادہ تھے اور خود بھی فارسی میں شعر کہتے تھے، مگر وہ پہلے ترک حکمران تھے جنہوں نے فارسی کے بجائے ترکی کو سرکاری زبان مقرر کیا۔ مگر انہوں نے اناطولیائی ترکی کا روپ ہی پورا بدل دیا، اسے وہ اس حد تک فارسی کے قریب لے آئے جتنا لا سکتے تھے۔ بعض اوقات تو فرق ہی کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ فارسی کونسی ہے اور ترکی کونسی۔ اناطولیائی ترکی کی اُسی شکل کو ترکی عثمانی یا لسانِ عثمانیہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ اتاترک کی اصلاحات تک مستعمل رہی۔ ہاں، اتاترک کے دور تک یورپی ادب کے زیرِ اثرعثمانی ترکی جدید اردو کی طرح فطری ہو چکی تھی اور اس میں مصنوعیت ختم ہو چکی تھی۔ مگر قوم پرست اتاترک کے نزدیک چونکہ عثمانی خط اور عثمانی زبان ان عربوں کی یادگار تھی جو جنگ عظیم اول میں عثمانیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے تھے، اس لیے اس نے جدیدیت کے نام پر یکلخت رسم الخط تبدیل کر دیا، اور اپنی زبان میں مفرس اور معرب سے چھٹکارا پانے کا ارشاد سنا دیا۔ اور اس کے نتیجے میں ایک نئی ترکی زبان کی ایجاد کا کام شروع ہوا جو 1960 کے عشرے تک شدت سے جاری رہا۔ ہر بیرونی لفظ چن چن کر باہر نکالا گیا اور ان کی جگہ نئے نامانوس اور خود ساختہ الفاظ ٹھونسے گئے۔ اس لسانی اصلاحات کے نتیجے میں ترکوں کا اپنی ہی تاریخ سے تسلسل یکسر ختم ہوگیا۔ وہ اپنا ہی ادب اور تاریخ پڑھنے سے قاصر ہیں۔ 1960 کے پہلے تک کا جتنا ادب بھی شائع ہوتا ہے وہ نئی ترکی میں 'ترجمہ' ہو کر شائع ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ عثمانی دور کے ادب کو ایک ترک سے زیادہ ایک ایرانی اور ایک پاکستانی زیادہ بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکتا ہے۔ اس سے ہندوستان کے ان چند نادانوں کو سبق لینا چاہیے جو اردو کو دیوناگری خط میں رسمی طور پر لکھے جانے کی بات کرتے ہیں۔ دیوناگری میں اردو لکھنا اپنے ہی ہاتھ سے اردو کو گلا گھونٹنے کا مترادف ہوگا۔ ہمارا خط ہی ہماری تہذیب کا مخزن ہے، رومن یا دیوناگری صرف زبان کو ویران کریں گے، اور کچھ نہیں۔ خیر یہ تو الگ بحث ہے، موضوع کی طرف پلٹتا ہوں۔ مزے کی بات ہے، اتاترک خود ساری زندگی اسی خط میں اور اسی عثمانی ترکی میں لکھتا اور تقریر کرتا رہا۔ وہ عثمانی میں لکھ کر پریس کو دے دیتا، پریس والا مترجم اس میں سے سارے عربی-فارسی الفاظ نکال کر نئے الفاظ ٹھونستا تھا اور اخبار میں شائع کرتا تھا۔ کافی عرصے تک تو ترک بیچارے اخبار کی جعلی زبان سمجھنے سے ہی قاصر رہے، پھر آہستہ آہستہ تدریس کے ذریعے یہ جدید ترکی ملک میں رائج ہو گئی۔ اتاترک کی ساری تقریریں اور تحریریں بھی اب ترجمہ ہو کر شائع ہوتی ہیں۔ اتاترک کی شاید یہی خود بیزاری تھی جس کے باعث میں کبھی اس کے لیے مثبت خیالات نہیں پیدا کر پایا ہوں۔ ایک جیتی جاگتی خوبصورت ترین زبان کو جدیدیت اور قوم پرستی کے نام پر اُس نے برہنہ کر دیا۔ یعنی کل تک جس میں ساٹھ فیصد عربی-فارسی کے الفاظ تھے آج اس میں صرف پانج دس فیصد ہی ایسے الفاظ رہ گئے ہیں۔ ایزدِ بزرگ کا صد ہزار بار شکر کہ کسی نادان نے اردو کو چہرہ یوں بگاڑنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔۔۔۔ میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ صوتیاتی لحاظ سے عثمانی ترکی (بشمول جدید ترکی) جیسی خوبصورت اس کرہ ارض پر کوئی دوسری زبان نہیں۔ کانوں میں شہد گھولتی یہ زبان میں دن بھر سن سکتا ہوںِ۔

آذربائجانی بنیادی طور پر اناطولیائی ترکی کا ہی ایک علاقائی لہجہ ہے جو آذربائیجان میں بولا جاتا ہے۔ اہالیان آذربائجان آج سے پنج صد سال قبل فارسی گو شیعہ مسلمان تھے۔ مگر عثمانیوں کے آذربائجان پر تسلط کے بعد انہوں نے بتدریج ترکی زبان کو اپنا لیا۔ مگر عثمانیوں کے سنی المذہب ہونے اور آذربائجانیوں کے اہل تشیع ہونے کے باعث ترکوں اور آذربائجانیوں میں تعلق زیادہ دیر قائم نہیں رہا۔ بعد میں آذربائجان کے اردبیل سے صفوی اٹھے جنہوں نے ایران میں صفوی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس باعث صفویوں اور عثمانیوں کے آپسی تعلقات ہمیشہ کشیدہ ہی رہے۔ دوسری طرف آذری اس طرح بیسویں صدی تک پہلویوں کی آمد سے پہلے تک ایران پر راج کرتے رہے۔ آج بھی آذربائجان کا نصف سے زیادہ حصہ ایران میں ہی ہے۔ نیز ان کا ثقافتی دارالحکومت تبریز بھی ایران کا ہی نگینہ ہے۔ آذربائجانی پانچ سو سالوں سے بولتے تو ترکی آئے ہیں مگر ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے وہ ترکوں سے زیادہ ایرانیوں کے نزدیک ہیں، اور ان کی بیشتر آبادی قدیم ایرانیوں کی ہی اولاد ہے، یعنی نسلی طور پر ان کی اکثریت ترک نہیں ہے۔ آذربائجانی میں کبھی زیادہ اصلاحات نہیں ہوئیں اس لیے جدید آذربائجانی میں (جو فارسی آمیز کلاسیکی آذربائجانی کا جدید روپ ہے) تقریبا 20-30 فیصد تک الفاظ عربی فارسی کے ہیں۔ ایران میں آذری فارسی خط میں جبکہ جمہوریہ آذربائجان میں رومن خط میں لکھی جاتی ہے۔ ترکی اور آذری اتنی نزدیک ہیں کہ جسے ایک زبان آتی ہے وہ دوسری زبان بغیر کسی مشکل کے سمجھ سکتا ہے۔ ہاں بس آذری میں 'بیرونی' الفاظ کی تعداد زیادہ ہے۔

میرا یہ دھاگہ بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ کس طرح ہم ثقافتی طور پر ترکوں سے جڑے ہوئے ہیں، ہم ان سے اس سے کہیں زیادہ نزدیک ہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں، اور ان سے ہمارا صدیوں پر محیط گہرا ثقافتی رشتہ رہا ہے۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ ہم اس رشتے کی دوبارہ قدردانی کر سکیں۔ میں اس دھاگے میں میں وقتا فوقتا کلاسیکی ترکی اور آذری ادب ترجمے کے ساتھ شراکت گزاری کرنے کی کوشش کروں گا۔ امید ہے آپ سب لوگوں کو میری یہ کاوش پسند آئے گی۔ اپنی خراب اردو کے لیے دل سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ جانتے ہوئے کہ میں اردو میں ٹھیک طرح لکھنے سے قاصر ہوں، آپ میری اغلاط اور جملوں کی بچکانہ و عامیانہ ساخت سے درگزر فرمائیں گے۔

والسلام
 

حسان خان

لائبریرین
شعِب بھائی، سلسلۂ صفویہ کے پہلے بادشاہ شاہ اسمعاعیل صفوی کی یہ آذری ٖغزل ملاحظہ کیجئے۔

دلبرا عشقینده من تک کیمسه مشهور اولمادی
یا سنین تک حسنینه هیچ کیمسه مغرور اولمادی

اے دلبر! تیرے عشق میں میری طرح کوئی مشہور نہ ہوا
اور نہ کوئی تیری طرح اپنے حسن پر مغرور ہی ہوا

حور ایله باغِ بهشتی قیلدیلار تعریف، لیک
ایشیگین تک جنت و حسنین کیمی حور اولمادی

باغِ بہشت کی اور حور کی تعریف کرتے ہیں، لیکن
تیرے آستانے کی طرح کوئی جنت اور تیرے حسن کی طرح کوئی حور نہ ہوئی

تا که عشقین گلمه‌دی شاها، بو کؤنلوم تختینه
ای صنم، شهرِ وجودیم بیتِ معمور اولمادی

شاہا! جب تک تیرا عشق میرے دل کے تخت پر جاگزین نہ ہوا
اے صنم، (اس وقت تک) میرے وجود کا شہر بیتِ معمور نہ ہوا

نورِ عشقین، دلبرا، کؤنلومه تا کیم دوشمه‌دی
ظلمتِ کؤنلوم ائوی عالمده پرنور اولمادی

دلبرا! تیرے عشق کا نور، جب تک میرے دل پر پرتو فگن نہ ہوا
میرے دل کا ظلمت خانہ اس دنیا میں (ہرگز) پرنور نہ ہوا

خاکِ پایینی خطائی تا که چکدی چشمینه
گؤرمه‌دن اول دولتی، دشمن گؤزی کور اولمادی

اس وقت سے کہ جب سے 'خطائی' نے اپنی آنکھوں کا سرمہ تیری خاکِ پا کو کیا ہوا ہے
دشمن کی آنکھ، اس سے پہلے کہ وہ اُس جاہ و دولت پر نگاہ کرے، اندھی نہ ہوئی
(یا پھر: تم نے اس دولت کی جانب نہیں دیکھا، اور دشمن کی آنکھ اندھی نہ ہوئی)

(شاه اسماعیل صفوی 'خطائی')

رومن رسم الخط میں غزل:
Dilbəra, eşqində mən tək kimsə məşhûr olmadı
Ya sənin tək hüsninə heç kimsə məğrûr olmadı

Hûr ilə bağ-i beheşti qıldılar tarif, leyk
Eşigin tək cənnət-ü hüsnin kimi hûr olmadı

Ta ki, eşqin gəlmədi, şaha, bu könlüm təxtinə
Ey sənəm, şəhr-i vücûdim beyt-i mamûr olmadı

Nûr-i eşqin, dilbəra, könlümə ta kim düşmədi
Zülmət-i könlüm evi aləmdə pürnûr olmadı

Xak-i payini Xətayi ta ki çəkdi çeşminə,
Görmədən/Görmədin ol dövləti düşmən gözü kûr olmadı


یہ آخری مضمون جو شاعر نے مقطع میں باندھا ہے، میرے سر سے گزر گیا ہے۔ دیگر یہ کہ شعر میں دَن اور دِن کے ذرا سے اعرابی فرق سے آخری مصرعے کے مطلب بھی دو نکل رہے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
احتیاجیم یوخ، نه لازمدیر همانین کؤلگه‌سی
سایهٔ کویینده اولسام، بو کفایتدر منه
(خاقانی شیروانی، آذری)

Ehtiyacım yox, nə lazımdır hümanın kölgəsı
Saye-yi kûyində olsam, bu kifayətdir mənə

ہما پرندے کے سائے کی کیا ضرورت ہے، مجھے (اس کی) احتیاج نہیں؛ (بس) تیرے کوچے کے سائے میں رہوں، میرے لیے یہی کافی ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
حسان صاحب، ترکی زبانی وادب کے تعارف میں بارے میں آپ کا یہ پُر مغز مقالہ بہت معلوماتی ہے اور یہ عصری تقاضا ہے کہ فارسی اور عربی کی طرح اردو زبان کے ترکی کے ساتھ روابط کو بھی اجاگر کیا جائے کیونکہ یہ جنوبی یورپ میں ایک ابھرنے والا معاشی طور پر بڑی رفتار سے ترقی کرنے والا ایک اسلامی ملک ہے جس کے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں پیش رفت دونوں ممالک کے مستقبل کے لئے نہات خوش آئند ثابت ہو سکتی ہے۔

آپ نے اپنی اردو کے سلسلے میں کسرنفسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپ کی پوسٹ کے سارے قارئیں اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آپ کی تحریر ہم میں بیشتر کی نسبت اچھی ہے۔ براہ مہربانی اپنی تحریروں کا سلسلہ جاری رکھیں۔ ہمیں انتظار رہے گا۔

اگر گراں خاطر نہ ہو، تو براہ کرم اپنا ای میل ایڈریس، اسکائپ آئی ڈی، اور اگر آپ پاکستان میں مقیم ہیں، تو موبائل فون نمبر مجھے بذریعہ ذاتی پیغام ارسال کریں، ممنون ہوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
جی جناب۔ میں متفق ہوں آپ کی بات سے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ بات بہت عجیب لگتی ہے جب ہم ثقافت کے لیے ہمیشہ ہندوستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ مانا کہ ہندوستان کی اور پاکستان کی ثقافت میں کافی مشترک باتیں ہیں اور ان کو سراہنا چاہیے۔ مگر صرف ایک مشرق میں ہندوستان ہی تو نہیں ہے جو یہاں کے تہذیبی ارتقا پر اثر انداز ہوا ہے اور جس سے ہماری کچھ یکسانیت ہے۔ مغرب میں ایران، افغانستان، تاجیکستان، ترکی، آذربائجان اور وسطی ایشیا کی لوگ بھی تو ہیں جو مستقیما یا غیر مستقیما اس سرزمین پر ہزاروں سالوں تک لسانی، مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور اجتماعی طور پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ اور جن سے یہاں کے لوگوں نے بیشتر چیزیں اخذ کی ہیں۔ ایسے میں آخر کیا سبب ہے کہ ہم ہندوستان سے ثقافتی تبادلہ پر تو اتنا بے ثمر زور دیں، مگر جو ہمارے مغرب میں ممالک ہیں ان سے ثقافتی تبادلہ پر کوئی دھیان ہی نہ دے۔ حالانکہ اپنے مغرب کی طرف سمت کرنے سے پاکستان ثقافتی لحاظ سے غنی ہو سکتا ہے۔

ویسے تو ترکی اور پاکستان کے ہمیشہ سے بڑے قریبی تعلقات قائم رہے ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ترکی اور آذربائجان کے عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں (اس کے پیچھے کچھ تاریخی اسباب ہیں، ان کا بعد میں مفصل ذکر کروں گا)۔ مگر پھر بھی، معاشی اور سماجی طور پر پاکستان آج جس حالت میں ہے وہ اسی چیز کا متقاضی ہے کہ ہم ان دو مذکورہ جدید ترین مسلم ممالک سے اور مزید قریبی تعلقات پیدا کریں۔ اس سے انہیں کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، پاکستان کو ضرور فائدہ ہو گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
کؤنول تا کیم، غمیندن آشنادیر
قرار و صبردن مطلق جدادیر
دل جب تک تیرے غم سے آشنا ہے​
قرار و صبر سے مطلق جدا ہے​
کؤنول پند آلمادی، سئودی یوزونو
اونا بو دردِ محنتلر جزادیر
دل نے نصیحت نہیں مانی، اور تیرے چہرے سے پیار کر بیٹھا​
اب یہ محنتوں کا درد اس کی جزا ہے​
گل ای همدم، حذر قیل، عشقه دوشمه
بلادیر خوبلاری سئومک، بلادیر
چلو اے ہمدم، حذر کرو، (اور) عشق میں مت پڑو​
خوباں سے محبت کرنا بلا ہے، بلا ہے​
نولا عاشقلری اؤلدورسن، ای دوست
لبین بیر بوسه‌سی یوز خون‌بهادیر
کیا ہو/ہو جائے اگر تم عشاق کو قتل کر دو، اے دوست​
تیرے لبوں کا ایک بوسہ صد خون بہا (کے برابر) ہے​
کؤنول بیر یاره وئرمیشدیر خطائی
ائشیگینده سلاطینلر گدادیر
خطائی نے اپنا دل ایک یار کو دے دیا ہے​
جس کے آستانے پر سلطان گدا ہیں​
(شاہ اسماعیل صفوی 'خطائی'، آذری)
رومن رسم الخط میں یہ غزل:​
Könül ta kim, ğǝmindǝn aşinadır
Qǝrarü sǝbrdǝn mütlǝq cüdadır
Könül pǝnd almadı, sevdi yüzünü
Ona bu dǝrdi-möhnǝtlǝr cǝzadır
Gǝl ey hǝmdǝm, hǝzǝr qıl, eşqǝ düşmǝ
Bǝladır xubları sevmǝk, bǝladır
Nola aşiqlǝri öldürsǝn, ey dust
Lǝbin bir busǝsi yüz xunbǝhadır
Könül bir yarǝ vermişdir Xǝtai
Eşigindǝ sǝlatinlǝr gǝdadır
 

حسان خان

لائبریرین
ترکی کا قومی ترانہ، جسے استقلال مارشی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ترانہ ترکی کے ملی شاعر محمد عاکف ارسوی نے ترکی کی جنگِ آزادی کے دوران لکھا تھا، جب اتحادی ترکی پر چڑھائی کر بیٹھے تھے۔ اس لیے ترانے میں استعمال ہوئی دھن اور شاعری بھی کچھ جنگی انداز کی ہے اور ترانے سے جنگِ آزادی کی یاد ہر ترک کے ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے۔ اس کی شاعری کچھ اس طرز کی ہے کہ یہ ملی نغمہ کم بلکہ ایک مسلم ملک کے لیے جہاد پر ابھارنے کا جوشیلا ترانہ زیادہ لگتا ہے۔ خیر، مجھے یہ ترانہ بہت پسند ہے، اس لیے میں اسے آپ کے ساتھ سانجھا کرنا چاہتا ہوں۔ پورا سرکاری ترانہ تو خیر 10 بندوں پر مشتمل ہے، مگر عموما دھن کے ساتھ شروع کے دو بند ہی گنگنائے جاتے ہیں۔ میں فی الوقت انہیں دو بندوں کو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ پوری نظم انشاءاللہ پھر کبھی پیش کروں گا۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ میں اس خوبصورت ترانے کا ترجمہ ٹھیک سے نہیں کر پایا۔​
(استقلال مارشی)
قورقما، سونمه‌ز بو شفقلرده یوزن آل سنجاق
سونمه‌دن یوردیمڭ اوستنده توتن اڭ صوڭ اوجاق
او بنم ملتمڭ ییلدیزیدر، پارلایاجاق
او بنمدر، او بنم ملتمڭدر آنجاق
(ڈرو مت، یہ اشفاق پر لہرانے والا سرخ پرچم سرنگوں نہیں ہوگا​
اس وقت تک کہ جب تک میرے ملک میں جلنے والا سب سے آخری آتشدان تک نہ بجھ جائے​
وہ میری ملت کا ستارہ ہے، جو یونہی چمکتا رہے گا​
وہ (ستارہ) میرا ہے، وہ صرف میری ملت کا ہے (جو چمکتا رہے گا))​
چاتما، قربان اولایم، چهره‌ڭی أی نازلی هلال
قهرمان عرقمه بر گول، نه بو شدت، بو جلال
سڭا اولماز دوکولن قانلریمز صوڭرا حلال
حقیدر، حقه طاپان ملتمڭ، استقلال
(اے ہلالِ نازنیں! تیرے قربان جاؤں، یوں اپنے چہرے پر تیوریاں مت چڑھاؤ​
میری قہرمان قوم پر مسکراؤ، یہ شدت اور یہ جلال کس لیے؟​
نہیں تو ہمارا تجھ پر بہایا ہوا خون حلال نہیں ہوگا​
(کیونکہ) استقلال میری خدا کی پرستش کرنے والی ملت کا حق ہے)​
لاطینی رسم الخط میں:
Korkma, sönmez bu şafaklarda yüzen al sancak
Sönmeden yurdumun üstünde tüten en son ocak
O benim milletimin yıldızıdır, parlayacak
O benimdir, o benim milletimindir ancak
Çatma, kurban olayım çehreni ey nazlı hilâl
Kahraman ırkıma bir gül! Ne bu şiddet bu celâl
Sana olmaz dökülen kanlarımız sonra helâl
Hakkıdır, Hakk'a tapan, milletimin istiklâl
اس ترانے کو درج ذیل ربط سے سنا جا سکتا ہے:​
 
احتیاجیم یوخ، نه لازمدیر همانین کؤلگه‌سی
سایهٔ کویینده اولسام، بو کفایتدر منه
(خاقانی شیروانی، آذری)

Ehtiyacım yox, nə lazımdır hümanın kölgəsı
Saye-yi kûyində olsam, bu kifayətdir mənə

ہما پرندے کے سائے کی کیا ضرورت ہے، مجھے (اس کی) احتیاج نہیں؛ (بس) تیرے کوچے کے سائے میں رہوں، میرے لیے یہی کافی ہے۔
ہما کے سائے کی مجھ کو نہیں کوئی حاجت
ترے ہی کوچے کے سائے رہوں یہ کافی ہے ( پڑا رہوں ترے در پر یہ مجھ کو کافی ہے)
 

حسان خان

لائبریرین
عاشق و معشوقه بڭزر آسمان ایله زمین
کیم بری اغلادیغینجه بریسی خندان اولور
(احمد پاشا)
Âşık u ma'şûka benzer âsmân ile zemîn
Kim biri ağladığınca birisi handan olur
عاشق و معشوق، آسمان اور زمین کے مانند ہیں
کہ جب ایک روئے تو دوسرا خنداں ہو جاتا ہے
(یعنی جب آسمان روتا ہے اور بارش برساتا ہے توزمین تر و تازہ ہو کر مسکرا اٹھتی ہے)


ترکی الاصل الفاظ میں کوتاہ اور طولانی حرف ہائے علت کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس لیے اس شعر میں غزل کی بحر برقرار رکھنے کے لیے 'بریسی' کو لمبا کر کے 'بیریسی' پڑھا جائے گا۔ جبکہ olur عثمانی ہجوں میں لکھا تو 'اولور' جاتا ہے مگر عموما اس کا تلفظ 'اولُر' ہی ہوتا ہے، اس لیے یہاں بھی اسی طرح پڑھا جائے گا۔
 
ہما کے سائے کی مجھ کو نہیں کوئی حاجت
ترے ہی کوچے کے سائے رہوں یہ کافی ہے ( پڑا رہوں ترے در پر یہ مجھ کو کافی ہے)

کیا آمد ہے خلیل صاحب !!
مفہوم کو ہو بہو منتقل کردیا ہے، بہت خوب!
جزاک اللہ تلمیذ بھائی۔ پسندیدگی کا شکریہ
 

حسان خان

لائبریرین
خسته جانم نرگسِ بیمارڭه اولسون فدا
کوته عمرم طرهٔ طرارڭه اولسون فدا
جانم ای مه شیوهٔ رفتارڭه اولسون فدا
رنگ پژمرده‌م رخِ گلنارڭه اولسون فدا
(ملا تقی شیروانی 'بیخود')


میری خستہ جان تیری نرگسِ بیمار پر فدا ہو
میری کوتاہ عمر تیرے طرهٔ طرار پر فدا ہو
میری جان، اے چاند، تیرے شیوهٔ رفتار پر فدا ہو
میرا پژمردہ رنگ تیرے رخِ گلنار پر فدا ہو
 

حسان خان

لائبریرین
خاکِ پایڭ اولدوغوم گوردو دیدی کافر رقیب
طاش ایله باغرینی دوگوب 'یا لیتنی کنت تراب'
(حسن سزائی)
[(اے حبیب!) میرا تمہاری پاؤں کی خاک ہو جانا دیکھ کر کافر رقیب پتھر سے اپنا سینہ پیٹ کر کہتا ہے کہ کاش میں بھی مٹی ہوتا۔]​
 

ابوشامل

محفلین
حسان خان صاحب آج سے مجھے اپنا شاگرد سمجھئے۔ استقلال مارشی کا ایک ترجمہ میں نے مشہور مصنف ثروت صولت صاحب کی کتاب سے اپنے بلاگ پر نقل کیا تھا، ملاحظہ کیجیے۔ اس میں پورا ”استقلال مارشی“ ہے صرف وہ چند بند نہیں جو ترانے کی حیثیت سے پڑھے جاتے ہیں http://www.abushamil.com/istiklal-marsi/
 
Top