ترکی اشعار مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
گر دئرسه فضولی که :گؤزل‌لرده وفا وار"
آلدانما که، شاعر سؤزو، البته یالاندر
(فضولی)
Gər dersə Füzuli ki: "Gözəllərdə vəfa var",
Aldanma ki, şair sözü, əlbəttə, yalandır
ترجمہ: اگر فضولی کہے کہ خوباں میں وفا ہے، تو دھوکہ مت کھا جانا۔ کیونکہ شاعر کی باتیں یقینا جھوٹی ہوتی ہیں۔​
 
بہت خوب جناب حسان خان!
یہ تو فارسی کے بہت قریب ہے، اس قدر قریب کہ الفاظ کے ہجوں میں کہیں کہیں تبدیلی آئی ہے اور کچھ لفظ فارسی میں شاید نہیں ہوں گے۔ یہ تو ’’کمال‘‘ کا کمال ہے کہ ایک تختی بدل کر پوری ترکی ثقافت کو وسط ایشیا اور ایشیائے کوچک سے کاٹ کے رکھ دیا۔ الف بے بدلی تو پھر لہجہ بھی بدل گیا، لہجہ بدلا تو اجنبیت در آئی۔
یہاں اس محفل میں اس اجنبیت کو پاٹنے کا کریڈٹ آپ کو جاتا ہے۔ آپ کے لئے بہت سی دعائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
بہت خوب جناب حسان خان!
یہ تو فارسی کے بہت قریب ہے، اس قدر قریب کہ الفاظ کے ہجوں میں کہیں کہیں تبدیلی آئی ہے اور کچھ لفظ فارسی میں شاید نہیں ہوں گے۔ یہ تو ’’کمال‘‘ کا کمال ہے کہ ایک تختی بدل کر پوری ترکی ثقافت کو وسط ایشیا اور ایشیائے کوچک سے کاٹ کے رکھ دیا۔ الف بے بدلی تو پھر لہجہ بھی بدل گیا، لہجہ بدلا تو اجنبیت در آئی۔
یہاں اس محفل میں اس اجنبیت کو پاٹنے کا کریڈٹ آپ کو جاتا ہے۔ آپ کے لئے بہت سی دعائیں۔

جی۔ کلاسیکی ترکی اور آذربائیجانی زبانیں فارسی کے بے حد قریب ہیں، کیونکہ ان پر فارسی نے بہت گہرا اثر ڈالا تھا۔ یہی فارسی کا تعلق ترکی کو بالواسطہ اردو سے جوڑتا ہے۔ اور آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا کہ یہ کمال کا ہی کمال ہے کہ اس نے ترکی میں چیڑ پھاڑ کر کے ترک قوم کو اپنے مشرقی ورثے سے محروم کر دیا۔ اب اپنا کلاسیکی ادب تو درکنار، ایک اوسط ترک ۱۹۶۰ سے قبل کا لکھا بھی 'ترجمے' کے بغیر ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتا۔ البتہ آذربائیجان (خصوصاً ایرانی آذربائیجان) کی زبان ابھی بھی کافی حد تک وہی ہے اور وہاں کلاسیکی ادب پڑھ پانے والے کافی افراد موجود ہیں۔
پسندیدگی اور دعاؤں کے لیے بے حد شکریہ۔
 

حسان خان

لائبریرین
سید عمادالدین نسیمی (وفات ۱۴۱۷ عیسوی) کی ایک آذربائیجانی غزل:
سارے عربی/فارسی الفاظ سرخ رنگ میں ہیں۔​
میں علمِ عروض سے تو ناواقف ہوں، لیکن گمانِ غالب ہے کہ اس غزل کی بحر فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ہے۔​
ماهِ تاباندیر اوزون، أی آفتابِ خاوری
طلعتیندن منفعلدیر شمس و ماه و مشتری
زهره‌دیر آلنین، نگارا، قاشلارین قوسِ قزح
خطِ سبزین زلفون ایله جبرئیلین شهپری
عرشِ اعظمدیر جمالین، سدره بویون، أی گونش
صورتین جناتِ عدنین، لبلریندیر کوثری
مصحفِ حقدیر اوزون معنی ایچینده بی‌خلاف
زلف و قاش و کیرپیگیندیر اول کتابین خطلری
گؤرک ایچینده فردِ یکتاسان، ایا محبوبِ دل
شول جهتدن سجده قیلدی حسنونه حور و پری
دل بری قیلدیم سنین غیریندن، أی جان پاره‌سی
آنین اوچون، چون سن اولدون خسته کؤنلوم دلبری
أی نسیمی، سجده قیل حسنونه قارشو دلبرین
چونکه، خوبلار صورتیدیر حق تعالی مظهری
(نسیمی)
ترجمہ:
۱۔ اے مشرق کے آفتاب! تیرا چہرہ ماہِ تاباں ہے اور تیرے چہرے کے آگے سورج، چاند اور مشتری شرمندہ ہیں۔
۲۔ اے نگار! تیری پیشانی زہرہ ہے، اور تیری زلفیں قوسِ قزح؛ جبکہ تیرا سبز خط اور تیری زلفیں جبرئیل کا شہپر ہیں۔
۳۔ اے آفتاب! تیرا جمال عرشِ اعظم ہے اور تیری گردن سدرہ؛ نیز تیری صورت جنتِ عدن ہے، اور تیرے ہونٹ اس جنت کی کوثر۔
۴۔ معنی کے لحاظ سے بلاتردید تیرا چہرہ مصحفِ حق ہے؛ جبکہ تیری زلفیں، پلکیں اور بھویں اُس کتاب کے خطوط۔
۵۔ اے محبوبِ دل! چونکہ حسن میں تو فردِ یکتا ہے؛ اسی وجہ سے تیرے حسن کو حور و پری نے سجدہ کیا۔
۶۔ اے جان کے ٹکڑے! میں نے تیرے علاوہ ہر غیر سے اپنے دل کو آزاد کر لیا ہے؛ اس وجہ سے کہ تم میرے دلِ خستہ کے دلبر بن گئے ہو۔
۷۔ اے نسیمی! دلبر کے حسن کے بالمقابل سجدہ کر؛ کیونکہ صورتِ خوباں حق تعالیٰ کا مظہر ہوتی ہے۔

یہ غزل آذربائیجانی لاطینی خط میں:
Mahi-tabandır üzün, еy afitabi-хavəri​
Təl’ətindən münfəildir şəmsü mahü Müştəri​
Zöhrədir alnın, nigara, qaşların qövsi-qüzеh​
Хətti-səbzin zülfün ilə Cəbrəilin şəhpəri​
Ərşi-ə’zəmdir cəmalın, sidrə boyun, еy günəş​
Surətin cənnati-ədnin, ləblərindir kövsəri​
Müshəfi-həqdir üzün mə’ni içində biхilaf​
Zülfü qaşü kirpigindir ol kitabın хətləri​
Görk içində fərdi-yеktasan, əya məhbubi-dil​
Şol cəhətdən səcdə qıldı hüsnünə hurü pəri​
Dil bəri qıldım sənin qеyrindən, еy can parəsi​
Anın üçün, çün sən oldun хəstə könlüm dilbəri​
Еy Nəsimi, səcdə qıl hüsnünə qarşu dilbərin​
Çünki, хublar surətidir həq-təala məzhəri​
Nəsimi
 
السلام علیکم

فارسِ زبان کی عظمت و بزرگی کے تو سب قائل ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ اردو یقینا تہذیبی طور پر دختر فارسی یا بقول شخصے فارسی کی ہندوستانی بہن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زبان نے کسی دوسری زبان کا اثر قبول نہیں کیا جتنا فارسی نے عربی کا، اور اردو نے فارسی کا اثر قبول کیا ہے۔ مگر شاید کچھ افراد اس بات سے ناواقف ہوں کہ فارسی نے نہ صرف اردو بلکہ اپنے پڑوس کی دیگر زبانوں، جنہیں درباری زبانیں ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا، کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان زبانوں میں عثمانی ترکی، کلاسیکی آذربائجانی اور چغتائی زبانیں شامل ہیں۔

چغتائی وسطی ایشیا کے ترکستان کی بیسویں صدی تک علمی و ادبی زبان تھی۔ تیموریوں، ایلخانیوں، اور ابتدائی مغلوں کی مادری زبان بھی چغتائی تھی، اور بابر نے بابرنامہ اسی چغتائی میں لکھا تھا۔ وسطی ایشیا میں سویت یلغار کے بعد اس زبان کا خاتمہ ہو گیا کیونکہ ان کے حساب سے یہ زبان درباری ہونے کی وجہ سے اشتراکی و عوامی خیالات کے لیے موزوں نہ تھی۔ انہوں نے اسی چغتائی کو سادہ کر کے، اور اس میں مفرس کی تعداد کم کر کے ایک نئی زبان کی داغ بیل ڈالی جسے آج ازبک کہتے ہیں، جو چغتائی کا ہی تسلسل ہے۔ جبکہ دوسری طرف اویغر، قزاق، ترکمن اور قرغز چغتائی کا دور ختم ہونے کے بعد اپنی اپنی علاقائی ترک بولیوں کوترقی دے کر اسی میں ادب لکھنا شروع ہو گئے۔ فی الوقت چغتائی ادب کو اپنا ادب کہنے والی قوم ازبک ہے۔ اور ابھی بھی ازبک کے تیس-چالیس فیصد الفاظ فارسی-عربی کے ہیں۔

اناطولیائی ترکی کا معاملہ دلچسپ ہے۔ اسلامی دنیا میں سب سے پہلے اقتدار پانے والا ترک طائفہ سلجوقیان کا تھا۔ انہوں نے فتح تو ایران کو کیا، مگر خود عجمی ثقافت کے ہاتھوں مفتوح ہو گئے۔ سلجوقی مغلوں کی طرح پوری طرح سے ایرانی رنگ میں رنگے حکمران تھے، اور انہوں نے اپنی درباری اور سرکاری زبان بھی فارسی کو ہی مقرر کیا۔ یہی حال ایلخانی منگولوں (دودمانِ ہلاکو خان) کا ہے کہ وہ حاکم تو ایران کے تھے مگر محکوم فارسی و فارسی تہذیب کے، کہ چند سالوں کے اندر ہی انہوں نے ایرانیت اور اسلام کو پوری طرح سے اپنا لیا۔ اناطولیہ میں فارسی کا تسلط اسی طرح چودھویں صدی میں عثمانیوں کے عروج تک جاری رہا۔ عثمانی خلفا اگرچہ فارسی زبان و ادب کے دلدادہ تھے اور خود بھی فارسی میں شعر کہتے تھے، مگر وہ پہلے ترک حکمران تھے جنہوں نے فارسی کے بجائے ترکی کو سرکاری زبان مقرر کیا۔ مگر انہوں نے اناطولیائی ترکی کا روپ ہی پورا بدل دیا، اسے وہ اس حد تک فارسی کے قریب لے آئے جتنا لا سکتے تھے۔ بعض اوقات تو فرق ہی کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ فارسی کونسی ہے اور ترکی کونسی۔ اناطولیائی ترکی کی اُسی شکل کو ترکی عثمانی یا لسانِ عثمانیہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ اتاترک کی اصلاحات تک مستعمل رہی۔ ہاں، اتاترک کے دور تک یورپی ادب کے زیرِ اثرعثمانی ترکی جدید اردو کی طرح فطری ہو چکی تھی اور اس میں مصنوعیت ختم ہو چکی تھی۔ مگر قوم پرست اتاترک کے نزدیک چونکہ عثمانی خط اور عثمانی زبان ان عربوں کی یادگار تھی جو جنگ عظیم اول میں عثمانیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے تھے، اس لیے اس نے جدیدیت کے نام پر یکلخت رسم الخط تبدیل کر دیا، اور اپنی زبان میں مفرس اور معرب سے چھٹکارا پانے کا ارشاد سنا دیا۔ اور اس کے نتیجے میں ایک نئی ترکی زبان کی ایجاد کا کام شروع ہوا جو 1960 کے عشرے تک شدت سے جاری رہا۔ ہر بیرونی لفظ چن چن کر باہر نکالا گیا اور ان کی جگہ نئے نامانوس اور خود ساختہ الفاظ ٹھونسے گئے۔ اس لسانی اصلاحات کے نتیجے میں ترکوں کا اپنی ہی تاریخ سے تسلسل یکسر ختم ہوگیا۔ وہ اپنا ہی ادب اور تاریخ پڑھنے سے قاصر ہیں۔ 1960 کے پہلے تک کا جتنا ادب بھی شائع ہوتا ہے وہ نئی ترکی میں 'ترجمہ' ہو کر شائع ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ کہ عثمانی دور کے ادب کو ایک ترک سے زیادہ ایک ایرانی اور ایک پاکستانی زیادہ بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکتا ہے۔ اس سے ہندوستان کے ان چند نادانوں کو سبق لینا چاہیے جو اردو کو دیوناگری خط میں رسمی طور پر لکھے جانے کی بات کرتے ہیں۔ دیوناگری میں اردو لکھنا اپنے ہی ہاتھ سے اردو کو گلا گھونٹنے کا مترادف ہوگا۔ ہمارا خط ہی ہماری تہذیب کا مخزن ہے، رومن یا دیوناگری صرف زبان کو ویران کریں گے، اور کچھ نہیں۔ خیر یہ تو الگ بحث ہے، موضوع کی طرف پلٹتا ہوں۔ مزے کی بات ہے، اتاترک خود ساری زندگی اسی خط میں اور اسی عثمانی ترکی میں لکھتا اور تقریر کرتا رہا۔ وہ عثمانی میں لکھ کر پریس کو دے دیتا، پریس والا مترجم اس میں سے سارے عربی-فارسی الفاظ نکال کر نئے الفاظ ٹھونستا تھا اور اخبار میں شائع کرتا تھا۔ کافی عرصے تک تو ترک بیچارے اخبار کی جعلی زبان سمجھنے سے ہی قاصر رہے، پھر آہستہ آہستہ تدریس کے ذریعے یہ جدید ترکی ملک میں رائج ہو گئی۔ اتاترک کی ساری تقریریں اور تحریریں بھی اب ترجمہ ہو کر شائع ہوتی ہیں۔ اتاترک کی شاید یہی خود بیزاری تھی جس کے باعث میں کبھی اس کے لیے مثبت خیالات نہیں پیدا کر پایا ہوں۔ ایک جیتی جاگتی خوبصورت ترین زبان کو جدیدیت اور قوم پرستی کے نام پر اُس نے برہنہ کر دیا۔ یعنی کل تک جس میں ساٹھ فیصد عربی-فارسی کے الفاظ تھے آج اس میں صرف پانج دس فیصد ہی ایسے الفاظ رہ گئے ہیں۔ خدائے بزرگوار کا صد ہزار بار شکر کہ کسی نادان نے اردو کو چہرہ یوں بگاڑنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ ۔۔۔ میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ صوتیاتی لحاظ سے عثمانی ترکی (بشمول جدید ترکی) جیسی خوبصورت اس کرہ ارض پر کوئی دوسری زبان نہیں۔ کانوں میں شہد گھولتی یہ زبان میں دن بھر سن سکتا ہوںِ۔

آذربائجانی بنیادی طور پر اناطولیائی ترکی کا ہی ایک علاقئی لہجہ ہے جو آذربائیجان میں بولا جاتا ہے۔ اہالیان آذربائجان آج سے پنج صد سال قبل فارسی گو شیعہ مسلمان تھے۔ مگر عثمانیوں کے آذربائجان پر تسلط کے بعد انہوں نے بتدریج ترکی زبان کو اپنا لیا۔ مگر اُن کے سنی المذہب ہونے اور آذربائجانیوں کے اہل تشیع ہونے کے باعث ترکوں اور آذربائجانیوں میں تعلق زیادہ دیر قائم نہیں رہا۔ بعد میں آذربائجان کے اردبیل سے صفوی اٹھے جنہوں نے ایران میں صفوی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس باعث صفویوں اور عثمانیوں کے آپسی تعلقات ہمیشہ کشیدہ ہی رہے۔ دوسری طرف آذری اس طرح بیسویں صدی تک پہلویوں کی آمد سے پہلے تک ایران پر راج کرتے رہے۔ آج بھی آذربائجان کا نصف سے زیادہ حصہ ایران میں ہی ہے۔ نیز ان کا ثقافتی دارالحکومت تبریز بھی ایران کا ہی نگینہ ہے۔ آذربائجانی پانچ سو سالوں سے بولتے تو ترکی آئے ہیں مگر ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے وہ ترکوں سے زیادہ ایرانیوں کے نزدیک ہیں، اور ان کی بیشتر آبادی ایرانیوں کی ہی اولاد ہے، یعنی نسلی طور پر ان کی اکثریت ترک نہیں ہے۔ آذربائجانی میں کبھی زیادہ اصلاحات نہیں ہوئیں اس لیے جدید آذربائجانی میں (جو فارسی آمیز کلاسیکی آذربائجانی کا جدید روپ ہے) تقریبا 20-30 فیصد تک الفاظ عربی فارسی کے ہیں۔ ایران میں آذری فارسی خط میں جبکہ جمہوریہ آذربائجان میں رومن خط میں لکھی جاتی ہے۔ ترکی اور عثمانی اتنی نزدیک ہیں کہ جسے ایک زبان آتی ہے وہ دوسری زبان بغیر کسی مشکل کے سمجھ سکتا ہے۔ ہاں بس آذری میں 'بیرونی' الفاظ کی تعداد زیادہ ہے۔

میرا یہ دھاگہ بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ کس طرح ہم ثقافتی طور پر ترکوں سے جڑے ہوئے ہیں، ہم ان سے اس سے کہیں زیادہ نزدیک ہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں، اور ان سے ہمارا صدیوں پر محیط گہرا ثقافتی رشتہ رہا ہے۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ ہم اس رشتے کی دوبارہ قدردانی کر سکیں۔ میں اس دھاگے میں میں وقتا فوقتا کلاسیکی ترکی اور آذری ادب ترجمے کے ساتھ شراکت گزاری کرنے کی کوشش کروں گا۔ امید ہے آپ سب لوگوں کو میری یہ کاوش پسند آئے گی۔ اپنی خراب اردو کے لیے دل سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ جانتے ہوئے کہ میں اردو میں ٹھیک طرح لکھنے سے قاصر ہوں، آپ میری اغلاط اور جملوں کی بچکانہ و عامیانہ ساخت سے درگزر فرمائیں گے۔

والسلام
بہت مفید معلومات
شریکِ محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 
شعِب بھائی، سلسلهٔ صفویہ کے پہلے بادشاہ شاہ اسمعاعیل صفوی کی یہ آذری ٖغزل ملاحظہ کیجئے۔

دلبرا عشقینده من تک کیمسه مشهور اولمادی
یا سنین تک حسنینه هیچ کیمسه مغرور اولمادی

اے دلبر! تیرے عشق میں میری طرح کوئی مشہور نہ ہوا
اور نہ کوئی تیری طرح اپنے حسن پر مغرور ہی ہوا

حور ایله باغِ بهشتی قیلدیلار تعریف، لیک
ایشیگین تک جنت و حسنین کیمی حور اولمادی

باغِ بہشت کی اور حور کی تعریف کرتے ہیں، لیکن
تیرے آستانے کی طرح کوئی جنت اور تیرے حسن کی طرح کوئی حور نہ ہوئی

تا که عشقین گلمه‌دی شاها، بو کؤنلوم تختینه
ای صنم، شهرِ وجودیم بیتِ معمور اولمادی

شاہا! جب تک تیرا عشق میرے دل کے تخت پر جاگزین نہ ہوا
اے صنم، (اس وقت تک) میرے وجود کا شہر بیتِ معمور نہ ہوا

نورِ عشقین، دلبرا، کؤنلومه تا کیم دوشمه‌دی
ظلمتِ کؤنلوم ائوی عالمده پرنور اولمادی

دلبرا! تیرے عشق کا نور، جب تک میرے دل پر پرتو فگن نہ ہوا
میرے دل کا ظلمت خانہ اس دنیا میں (ہرگز) پرنور نہ ہوا

خاکِ پایینی خطائی تا که چکدی چشمینه
گؤرمه‌دن اول دولتی، دشمن گؤزی کور اولمادی

اس وقت سے کہ جب سے 'خطائی' نے اپنی آنکھوں کا سرمہ تیری خاکِ پا کو کیا ہوا ہے
دشمن کی آنکھ، اس سے پہلے کہ وہ اُس جاہ و دولت پر نگاہ کرے، اندھی نہ ہوئی
(یا پھر: تم نے اس دولت کی جانب نہیں دیکھا، اور دشمن کی آنکھ اندھی نہ ہوئی)

(شاه اسماعیل صفوی 'خطائی')

رومن رسم الخط میں غزل:
Dilbəra, eşqində mən tək kimsə məşhûr olmadı
Ya sənin tək hüsninə heç kimsə məğrûr olmadı

Hûr ilə bağ-i beheşti qıldılar tarif, leyk
Eşigin tək cənnət-ü hüsnin kimi hûr olmadı

Ta ki, eşqin gəlmədi, şaha, bu könlüm təxtinə
Ey sənəm, şəhr-i vücûdim beyt-i mamûr olmadı

Nûr-i eşqin, dilbəra, könlümə ta kim düşmədi
Zülmət-i könlüm evi aləmdə pürnûr olmadı

Xak-i payini Xətayi ta ki çəkdi çeşminə,
Görmədən/Görmədin ol dövləti düşmən gözü kûr olmadı


یہ آخری مضمون جو شاعر نے مقطع میں باندھا ہے، میرے سر سے گزر گیا ہے۔ دیگر یہ کہ شعر میں دَن اور دِن کے ذرا سے اعرابی فرق سے آخری مصرعے کے مطلب بھی دو نکل رہے ہیں۔
واہ بہت خوب :)
شاد و آباد رہیں
 

حسان خان

لائبریرین
Gül yanağın, dilbəra, bəs tazətərdir hər zaman
Qanlı yaşımdan tökər hər dəm gözüm baran ana
Şah İsmayıl Səfəvi
اے دلبر! تیرے پھول جیسے گال جو ہر پل اتنے تازہ تر ہوئے جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دم میری آنکھ اُن پر میرے خوں آلود اشکوں سے بارش برساتی رہتی ہے۔​

Eşqdir ol nəş’eyi-kamil kim, ondandır müdam
Meytəşviri-hərarət, neytə’siri-səda
Füzuli
عشق ہی وہ کامل سرخوشی ہے کہ جس کے باعث شراب میں حرارت کا جوش اور بانسری میں آواز کی تاثیر ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔​
 

حسان خان

لائبریرین
Koʻngli tilagan murodigʻa yetsa kishi
Yo borcha murodlarni tark etsa kishi
Bu ikki muyassar oʻlmasa olamda
Boshini olib bir sorigʻa ketsa kishi
Zahiriddin Muhammad Bobur
ترجمہ: یا تو انسان اپنی دل خواہ مراد تک رسائی حاصل کر لے، یا پھر انسان اپنی جملہ مرادوں کو ترک کر دے؛ اگر یہ دونوں کام بھی اِس دنیا میں سہل نہ ہوں تو انسان اپنا سر پکڑ کر (چپ چاپ) ایک طرف کو کھسک ہو جائے۔​
بابر کی مندرجہ بالا رباعی اُس کی مادری زبان چغتائی (ازبک) ترکی میں ہے، جسے استانبولی ترکی کے توسط سے ترجمہ کیا گیا ہے۔​
 

قیس

محفلین
السلام علیکم مکرمان محفل و استاذان زبان اردو و ترکی و فارسی ۔
آپ کے اس دھاگے نے میری کچھ مشکل آسان کی لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ بڑھا بھی دی ، خاکسار کی نصف بہترترکی سے ہیں اور عام طو ر پر تو گفتگو انگریزی میں ہوتی ہے لیکن دونوں ایک تکلیف ہے کہ انگریزی دونوں کو ہی اتنی آتی ہے کہ کیا حال ہے ، اور کچھ پکایا ہے ، آپ کے اس دھاگہ کو دیکھا تو امید پیدا ہوئی کہ زبان یار کچھ تو سمجھ آئے گی۔ اب احباب اس میں کچھ بتا دیں کہ کیا اسکو سیکھنے کا آن لائن کوئی طریقہ موجود ہے ۔ اور میرے لئیے بہتر ہوگا کہ اگر اردو کے ساتھ سکھائی جاتی ہو ۔ اگر آپ اس سلسلہ میں کچھ مدد فرمایں تو شکر گزار رہوں گا۔ والسلام
 

حسان خان

لائبریرین
السلام علیکم مکرمان محفل و استاذان زبان اردو و ترکی و فارسی ۔
آپ کے اس دھاگے نے میری کچھ مشکل آسان کی لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ بڑھا بھی دی ، خاکسار کی نصف بہترترکی سے ہیں اور عام طو ر پر تو گفتگو انگریزی میں ہوتی ہے لیکن دونوں ایک تکلیف ہے کہ انگریزی دونوں کو ہی اتنی آتی ہے کہ کیا حال ہے ، اور کچھ پکایا ہے ، آپ کے اس دھاگہ کو دیکھا تو امید پیدا ہوئی کہ زبان یار کچھ تو سمجھ آئے گی۔ اب احباب اس میں کچھ بتا دیں کہ کیا اسکو سیکھنے کا آن لائن کوئی طریقہ موجود ہے ۔ اور میرے لئیے بہتر ہوگا کہ اگر اردو کے ساتھ سکھائی جاتی ہو ۔ اگر آپ اس سلسلہ میں کچھ مدد فرمایں تو شکر گزار رہوں گا۔ والسلام

وعلیکم السلام۔
جناب تاحال میری نظر میں اردو میں لکھی کوئی ایسی کتاب یا ویب سائٹ نہیں گذری جو ترکی زبان سکھاتی ہو، البتہ نیٹ پر انگریزی میں ترکی زبان سے متعلق کافی مواد موجود ہے۔ اگر آپ کو درکار ہو تو مجھے ذاتی پیغام بھیجیے، میں آپ کو کچھ روابط دے دوں گا جو آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
گرچه رقیبِ مدعی هر دم خوارجلِق قیلور
همراه و همدم همتِ آلِ عبا بولسون سڭا
(عطائی)
ترجمہ: اگرچہ رقیبِ مدعی ہمیشہ خارجی پنا (یعنی خارجیوں والی حرکت؛ بغاوت) کرتا رہتا ہے لیکن میری دعا ہے کہ (اُس خارجی رقیب کے بالمقابل) تمہارے ہمراہ و ہمدم ہمیشہ آلِ عبا (پنجتن پاک) کی ہمت و استقامت رہے۔ اس شعر میں خارجیوں کی آلِ علی سے خصومت کی طرف تلمیح کی گئی ہے۔​
یہ شعر اگرچہ چغتائی (ازبک) ترکی میں ہے، لیکن اگر صرف بولسون کو اولسون کر دیا جائے تو یہ شعر عثمانی/آذربائجانی ترکی کا بھی شعر بن جائے گا۔​
 

قیس

محفلین
وعلیکم السلام۔
جناب تاحال میری نظر میں اردو میں لکھی کوئی ایسی کتاب یا ویب سائٹ نہیں گذری جو ترکی زبان سکھاتی ہو، البتہ نیٹ پر انگریزی میں ترکی زبان سے متعلق کافی مواد موجود ہے۔ اگر آپ کو درکار ہو تو مجھے ذاتی پیغام بھیجیے، میں آپ کو کچھ روابط دے دوں گا جو آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔

السلام علیکم ،
جناب حسان خان صاحب ! آپ کی حوصلہ افزائ کا بہت شکریہ ، محترم انگریزی سے تریکی تو مجھے بہت ساری کتب مل جاتیں ہیں لیکن اس دھاگے میں اردو سے ترکی زبان سے تعلق پیدا کرنا ہے براہ راست ۔
اگر ہم اسی دھاگے کو ترکی زبان سیکھنے کا ذریعہ بنا دیں؟
آپ تراجم تو تحریر فرما ہی رہے ہیں اس میں لفظی ترجمہ اورت ترکی الفاظ کا تلفظ شامل کردیں اسی طرح خودبخود ایک سیکھنے کا ذریعہ بن جائے گا
والسلام
 

حسان خان

لائبریرین
السلام علیکم ،
آپ تراجم تو تحریر فرما ہی رہے ہیں اس میں لفظی ترجمہ اورت ترکی الفاظ کا تلفظ شامل کردیں اسی طرح خودبخود ایک سیکھنے کا ذریعہ بن جائے گا
وعلیکم السلام
جنابِ گرامی، آپ نے ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ ان شاء اللہ کوشش کروں گا کہ آئندہ کوئی شعر پیش کرتے وقت آپ کی تجویز پر عمل پیرا ہوں۔ فی الحال ایک غزل کا مطلع مع تحلیل آپ کی خدمت میں پیش ہے:

منی جاندن اوصاندردی جفادن یار اوصانمز می
فلکلر یاندی آهمدن مرادم شمعی یانمز می
(فضولی)
Məni candan usandırdı, cəfadən yar usanmazmı
Fələklər yandı ahimdən, muradım şəm’i yanmazmı
ترجمہ: یار نے (جفاؤں سے) مجھے اپنی زندگی سے اکتا دیا، کیا یار اپنی جفا سے خود نہیں اکتائے گا؟؛ میری آہ سے افلاک تک جل اٹھے ہیں، کیا میری شمعِ مراد نہیں جلے گی؟​
منی (məni) = مجھے (استانبولی میں منی کے بجائے بنی کہیں گے۔)​
جاندن (candan) = جان سے (دن کا مطلب 'سے' ہے۔)​
اوصاندرمق (usandırmaq) = ناراحت کرنا، خستہ کرنا، بور کرنا، اکتانا​
اوصاندردی (usandırdı) = اُس نے خستہ کر دیا، اُس نے بور کر دیا​
جفادن (cəfadən) = جفا سے​
اوصانمز (usanmaz) = وہ بور نہیں ہوتا، وہ بور نہیں ہوگا​
می (mı) = علامتِ سوال​
اوصانمز می (usanmazmı) = کیا وہ بور نہیں ہوتا؟ کیا وہ بور نہیں ہوگا؟​
لر (lər) = علامتِ جمع​
فلکلر (fələklər) = افلاک​
یانماق (yanmaq) = جلنا​
یاندی (yandı) = وہ جل گیا​
آہمدن (ahimdən) = میری آہ سے​
مرادم شمعی (muradım şəm’i) = میری مراد کی شمع (شمعی میں 'ی' علامتِ مضاف ہے۔)​
یانمز می (yanmazmı) = کیا وہ نہیں جلتا؟ کیا وہ نہیں جلے گا؟​
 

قیس

محفلین
السلام علیکم جناب حسان خان صاحب !
ماشاء اللہ بہت عمدہ آپ کا شکریہ کہ آپ نے خاکسارکی تجویز کو قابل توجہ سمجھا ، اور اسکی تکمیل کے سلسلہ میں مثبت قدم اٹھانے شروع کئیے ، اسکے شکریہ ، اب چلے ہی ہیں تو جو الفاظ اردو میں دوسری زبانوں کے داخل ہوچکے ہیں ، کچھ انکی نشاندہی بھی ہوتی چلے ، جیسے کتنا خوبصورت لفظ ہے اکتانا اس کو ہم نے بور تو سمجھ لیا لیکن ہماری آیندہ کی نسل اکتائے گی نہیں بلکہ بور ہو گی ، جبکہ جب ہم چھوٹے تھے تو اسوقت نلکے کا بور ہوتا تھا ، :eek: آجکل بندہ بور ہوتا ہے۔

اسکےباوجود حسان صاحب آپکی اس کوشش کو میں خصوصا تہہ دل سے شکر گزار رہوں گا ، کہ آپ کی وجہ سے مجھے بھی ترکی زبان میں منہ ماری کا طریقہ آجایے گا ، اس لفظی ترجمے کا ایک دفعہ پھر تہہ دل سے شکریہ ،۔ والسلام
 

قیس

محفلین
السلام علیکم ، جناب حسان خان صاحب و دیگرصاحبان ، کیا ہوا ایک دم سے خاموشی ہو گئی کیا کوئی ناراضگی ہے؟ یا اب اس موضوع میں لکھنے کا دل نہیں؟ سبھی خاموش ہیں ، کچھ تو بیان ہو
 

حسان خان

لائبریرین

شکریہ استادِ محترم :)

السلام علیکم ، جناب حسان خان صاحب و دیگرصاحبان ، کیا ہوا ایک دم سے خاموشی ہو گئی کیا کوئی ناراضگی ہے؟ یا اب اس موضوع میں لکھنے کا دل نہیں؟ سبھی خاموش ہیں ، کچھ تو بیان ہو

وعلیکم السلام
نہیں جناب۔ کسی قسم کی ناراضگی نہیں ہے۔ میری نظروں سے تو جب بھی کوئی اچھا ترکی زبان کا شعر گزرتا ہے تو میں یہاں پوسٹ کر دیتا ہوں۔ :)

یہ لیجئے عہدِ عثمانی کے ایک شاعر 'باقی' کا اچھوتا تعلی کا شعر:
حیدرِ کراری‌یم میدانِ نظمِڭ باقیا
نوکِ خامه ذوالفقار و طبع دُلدُلدر بڭا
(باقی)
اے باقی! میں میدانِ نظم کا حیدرِ کرار ہوں؛ نوکِ خامہ میرے لیے ذوالفقار جبکہ طبیعت دلدل ہے۔

سلطان محمد فاتح کے پسر جم سلطان کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے:
قوندی چون کیم خانهٔ دلده بلا و درد و غم
بونجه مهمانه عجب یِیتر می بر بریان جگر
(جم سلطان)
چونکہ میرے دل کے مہمان خانے میں بلا، درد، اور غم رکے ہوئے ہیں، میں سوچتا ہوں کہ کیا اتنے مہمانوں کی ضیافت کے لیے ایک بریاں جگر کافی ہے؟
 
السلام علیکم ، جناب حسان خان صاحب و دیگرصاحبان ، کیا ہوا ایک دم سے خاموشی ہو گئی کیا کوئی ناراضگی ہے؟ یا اب اس موضوع میں لکھنے کا دل نہیں؟ سبھی خاموش ہیں ، کچھ تو بیان ہو
یہاں تو سچ مچ وہی صورت بن گئی ہے، جنابِ قیس ، کہ: ’’زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم‘‘، سو کیا عرض کریں۔
اور پھر قیس سے کوئی ناراض کیوں ہو گا بھلا!
 
Top