ترقی کیسے کریں

ترقی کیسے کریں یہ لڑی میں اُن لوگوں کے لئے شروع کررہا ہوں جو ترقی کرنا چاہتے ہیں پر اُنھیں کوئی راستہ بتانے والا نہیں مِلتا میں اِس لڑی میں قسط وار آپ کے لئے ایسے ایسے طریقے شئیر کرونگا جِن پر عمل کرکے کوئی بھی انسان دِنوں میں کامیاب ہوسکتاہے چلیں اَب بِنا وقت کو ضائع کئے ہوئے پہلی قسط ملاحظہ فرمائیں۔ اُمید کرتا ہوں آپ لوگوں کو پسند آئے گی اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اِس لڑی کو آگے چلاتارہوں تو کمنٹس کرکے میری حوصلہ افزائی کریں ۔

ترقی کیسے کریں قسط نمبر 1

چلیں جی پہلی ہی قسط میں ملاحظہ فرمائیں پہلی قسط سے آخری قسط کا نچوڑ آپ کو اِس مضمون میں مِل جائے گا ۔ "ترقی کرنے کا گُر یہ ہے کہ اپنی تربیت رُجحانات ،اُفتادِ طبع، خامیوں اور خوبیوں کو پیشِ نظر رکھ کر زندگی کا مقصد متعین کرنا اور پھر اِس مقصد کے حصول کے لئے اپنی تمام تر ذہنی و جسمانی صلاحیتوں اور شوق و ولولے کے ساتھ بھرپور سعی وکوشش کرنا۔ کوئی عظیم مہم ذوق و شوق اور جوش و ولولے کے بغیر سر نہیں کی جاسکتی۔"
اِس قسط کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں تاکہ آئندہ آنے والی قسط اِس سے بھی اچھی ہوپڑھنے کا بہت شکریہ
 
ترقی کیسے کریں قسط نمبر 2

"ترقی کیسے کریں" کامیاب زندگی کی وہ کلید ہے جس کے حصول کے لیے ہر انسان زندگی بھر بے قرار رہتا ہے۔ اِس لڑی کے مطالعہ سے آپ پر خوش حالی ، آرام و راحت اور مُسرت کے دروازے کُھل جائیں گے۔ اِس میں وہ اُصول اور قاعدے بیان کئے جائیں گے۔ جن پر عمل کرنے سے آپ کی دُنیا بدل جائے گی۔ یہ اپنے موضوع اور اندازِ بیان کے لحاظ سے اُردو زبان میں سب سے اچھی لڑی ثابت ہوسکتی ہے۔
 
ترقی کیسے کریں قسط نمبر 3

اِس لڑی میں آپ کو دیکھنے کو یہ سب مِل سکتا ہے لسٹ ملاحظہ فرمائیں۔
  1. یہ لڑی کیوں شروع کی گئی؟
  2. آپ کی زندگی کا مقصد
  3. کامیابی کی جانب پہلا قدم
  4. شریکِ زندگی کا تعاون
  5. جب ایک مقصد حاصل ہوجائے
  6. شوق پیدا کیجیے، ولولے سے کام لیجیے
  7. چھ کامیابی حاصل کرنے کے راز
  8. مقصدِ زندگی معین کرنے کا سائنسی طریقہ
  9. حصولِ مقصد کچھ مشکل نہیں
  10. پہلے خود کو پہچانئیے
  11. معائنہ خودی
  12. توجہ مقصد پر مُرتکز کرنے کا عمل
  13. مخالفت برداشت کرنے حوصلہ پیدا کیجیے
  14. جدوجہد کِس طرح کی جائے گی
  15. بیزاری ، خوف ، اور تشویش ہر گِز نہیں
  16. دُکھ درد باٹ لینا چاھئیے
  17. جواب نُما سوال
  18. بیوی بہترین مشیر اور صلاح کار
  19. جھوٹ بولنے والے انسانوں سے ترقی میں امداد
  20. ترقی کے راستے پر تیز گام چلئیے
  21. اپنے مشیر اور صلاح کار خود بنیے
  22. شریکِ زندگی سےبھی مدد لیجیے
  23. آپ کی بیوی کو آپ کے پیشے سے واقف ہونا چاھئیے
  24. شریکِ زندگی کی ذہانت شوہر کے لیے باعث ترقی ہوتی ہے
  25. قریبی رشتے داروں کی اعانت حاصل کیجیے
  26. دوستوں کو وسیلہ ترقی بنائیے
  27. دوستوں سے کِس قسم کی امداد ملتی ہے
  28. دوست کیسے پیدا کیے جائیں
  29. سچے دوست کی افادیت
  30. آڑے وقت کا سہارا
  31. راستے کی رُکاوٹیں
  32. عدم استقلال
  33. خود اعتمادی کا فقدان
  34. قطعی فیصلہ نہ کرسکنے کی خامی
  35. بروقت فیصلہ کیجیے
  36. فیصلے کے لیے درکار مواد جمع کیجیے
  37. مواد کو ذہن میں تولیے
  38. فیصلے کے درجہ حرارت کا خیال رکھیے
  39. سمجھوتہ کرلینا ہمیشہ ہی غلط نہیں ہوا کرتا
  40. فیصلے پر عملدرآمد ضرور کرنا چاھئیے
  41. ذرائع امداد
  42. ذخیرہ معلومات میں اضافے کی ضرورت
  43. بامقصد مطالعہ کیجیے
  44. ذہن کو بالیدگی دینے واحد طریقہ
  45. ترقی کی رفتار کو دیکھنے کا طریقہ
یہ سب آپ کو اِس لڑی میں سیکھنے کو مِل سکتاہے انشااللہ
 
آخری تدوین:
قسط نمبر 4
یہ لڑی کیوں شروع کی گئی ہے

کون انسان ایسا ہے جس کے دل میں ترقی کرنے کی تڑپ نہیں؟ کِس کے دل میں یہ آرزو نہیں ہوتی کہ وہ ترقی کرکے کامیاب زندگی بسر کرے ۔ خوشحال ، آسودگی ،آرام و راحت اور سکون اطمینان ترقی اور کامیابی ہی سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اِن کے لیے کون زندگی بھر کوشش نہیں کرتا رہتا ؟ کِس کے سینے میں یہ آرذو ہر وقت بے قرار نہیں رہتی کہ اُسے یہ نعمتیں ملیں؟

یہ نعمتیں دولت سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ دولت خوشحالی کا دوسرا نام ہے۔ اسی سے آرام و آسائش کی چیزیں میسر آتی ہیں۔ اِنہی چیزوں کی مدد سے زندگی راحت و آرام سے گزاری جاسکتی ہے اور دولت ترقی سے ملتی ہے۔

اِسی طرح دلی خوشی بھی ایک ایسی نعمت ہے جس کے لیے سب انسان زندگی بھر آرزو مند رہتے ہیں ۔ واقعہ بھی یہ ہی ہے کہ جس کسی شخص کو خوشی حاصل نہیں اُس کے پاس دراصل کچھ بھی نہیں ۔پہلے زمانے میں خوشی کے اسباب اور اُسے جانچنے کے معیار خواہ کچھ بھی ہوں۔ مگر آجکل اُس کا انحصار مادی چیزوں پر ہی ہے۔ یہ چیزیں روپے پیسے سے فراہم ہوتی ہیں اور روپیہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان ترقی کرتا چلا جائے اور کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا رہے ۔ اِس سے ثابت ہے کہ موجودہ دور میں ترقی کرنا ہر شخص کی پہلی اور سب سے بڑی ضرورت ہے۔

اِن باتوں کو سب جانتے اور سمجھتے ہیں مگر اُس کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سب کے سب اِنسان ترقی نہیں کرتے ۔ اِن میں سے بعض کوئی نفع بخش کام شروع کرنے کے تھوڑے عرصہ بعد ہی گھبرا اُٹھتے ہیں اور ناکامی کا اعتراف کرکے جدوجہد سے دستبردار ہوجاتے ہیں ۔ بعض انسان جو کام شروع کرتے ہیں اُسے کوشش اور محنت سے آگے بڑھاتے ہیں اور اُسکے ذریعے ترقی حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کردیتے ہیں۔ پھر بھی کامیابی سے دور ہی رہتے ہیں ۔ بعض اور لوگ کامیابی حاصل کرلیتے ہیں مگر اس کی راہ پر خاصے فاصلے تک چلے جانیکے بعد بھی منزل مراد تک نہیں پہنچتے آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ ترقی کرنے میں ناکام رہتے ہیں؟

میں نے اِس اہم سوال کا مکمل اور صحیح ترین جواب معلوم کرنیکے لیے باقاعدہ مہم شروع کی ۔ سب سے پہلے میں نے دُنیا کے کامیاب ترین انسانوں کی ایک فہرست تیار کی جو ترقی کے نقطہ عروج پر پہنچ چکے ہیں پھر اُن میں سے جن اشخاص تک رسائی ممکن ہوئی اُن سے یکے بعد دیگرے ملاقاتیں کیں ۔ ان ملاقاتوں میں میں نے ہر کامیاب انسان سے ایک سوال کیا۔ آپ کی ترقی کا راز کیا ہے؟ اور آپ نے کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے ہیں؟ یہ میری اِس تحقیقی مہم کا ایک رُخ تھا ۔ دوسرے رُخ پر میں نے بعض ایسے انسانوں سے بھی ملاقاتیں کیں جو ترقی کرنے کے معاملے میں ناکام ہوگئے تھے ۔ اِن دونوں قسم کے انسانوں کے جوابات پر غور وفکر کرنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ زندگی کے چند اُصول ہیں جن پرعمل کرنے سے ہرانسان ترقی کرسکتا ہے ۔ یہ اُصول اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل سیدھے سادے ہیں وہ لوگ جو ان پر دانستہ یا نادانستہ عمل پیرا ہوتے ہیں ، ترقی کرجاتے ہیں، اور کامیاب زندگی کی نعمت سے بہر ہ ہوتے ہیں ، جب کہ اِن پرعملدرآمد نہ کرنے والے ناکام ہوجاتے ہیں ۔

میں نے اِن اصولوں کو تحریر میں لاکر اُنہیں موجودہ زمانے کے انسانی حالات اور مسائل کے پہلو بہ پہلو رکھتے ہوئے اپنے طویل مشاہدے گہرے مطالعہ فطرت اور تحقیقی رجحان کی مدد سے چند قاعدوں کی شکل دی تاکہ ہر ذہنی سطح کا انسان اِن سے واقف ہوکرترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے ۔ انہیں قاعدوں کا مفصل بیان یہ لڑی ہے۔

مگر محض قاعدے بیان کردینا کسی بات کو ذہن نشین کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جو عالمانہ وقار اور شان تو رکھتا ہے تاہم سمجھنے سمجھانے کے لحاظ سے بوجھل طریقہ ہے چنانچہ لوگوں کے ذہنوں پر بار گزرتا ہے۔

میں نے ترقی کے قاعدے ہر قسم کے انسانوں کے دماغوں میں بہ آسانی اُتارنے کے لیے اِن کامیاب شخصیتوں کے حالات اور طریقوں کو بیان کیا ہے

جن پر وہ عمل کرتے رہے ہیں ۔ ان زندہ افسانوں کے مطالعے کے دوران پڑھنے والوں کو نہ صرف ترقی کے قاعدے معلوم ہوجاتے ہیں بلکہ چلتی پھرتی مثالوں سے وہ طریقے بھی اِن کے سامنے آتے رہتے ہیں جن سے ان قاعدوں کو عملی طور پر مفید مطلب بنایا جاتا رہا ہے ۔

میں نے جن کامیاب انسانوں کی مثالیں دی ہیں اِنہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اِن سے گھنٹوں باتیں کی ہیں اور اِن کے طورطریق کا قریب سے گہرا مطالعہ کرچکا ہوں ۔ ان میں سے متعدد اشخاص میرے شاگرد بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے شخصیت کی تعمیروترقی ، بہتر انسانی تعلقات اور موثر اندازِ گفتگو پر کافی بات چیت کی ہے۔

اِس لڑی کو پڑھنے سے لوگوں میں ترقی کے محرکات بیدار ہوں گے اور جب وہ حرکت میں آنے کے بعد ترقی کی زریں شاہراہ پر حوصلے اور جوش سے گامزن ہوں گے تو اُنہیں خوشحالی کی وہ بہشت سامنے نظر آنے لگے گی جس کے لیے ہر انسان اِس وقت سے تڑپنا شروع کرتا ہے جب ہوش سنبھالتا ہے اور اِس وقت تک تڑپتا رہتا ہے جب اِس دنیا سے اُٹھتا ہے۔
 
قسط نمبر 5

آپ کی زندگی کا مقصد

کامیابی کی جانب پہلا قدم

یہ بات 1910 کی ہے ۔ نیو یارک سٹی کی ایک درسگاہ کے بورڈنگ ہاوس میں دو نوجوان کمرہ شریک تھے ۔ اِن میں سے ایک کا نام کرو "ج" تھا اور دوسرے کا س ج ایک تصوری نوجوان تھا ۔ وہ ہر وقت ہوائی قلعے بناتا رہتا تھا ۔ وہ ایک زرخیز علاقے کے ایک خوشحال خاندان سے تھا ۔ اور اکاومی فنون میں تعلیم حاصل کررہا تھا ۔ دوسرا نوجوان س ایک دہقان کا بیٹا تھا ۔ وہ کچھ کرکے دکھانے کی دُھن میں تھا ۔ ایک دن اِن دونوں میں اِس موضوع پر باتیں ہورہی تھیں کہ وہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کیا کریں گے۔ دہقان کے بیٹے نے سینہ تان کر کہا ۔ میں کسی عظیم ادارے کا سربراہ بنوں گا۔ ج اِس کی یہ بات سُن کر بے اختیار ہنس دیا ۔ مگر دہقان کا بیٹا امیر ذادے کے تمسخر سے ذرا بھی بددِل نہیں ہوا۔ س ایک گاوں میں پیدا ہوا تھا جس کے ارد گرد جنگل ہی جنگل اور کھیت ہی کھیت تھے مگر اس کے دل میں قدرت نے ولولہ ترقی کی چنگاری رکھ دی تھی۔

اُسے سب سے پہلی جو ملازمت مِلی وہ ایک گودام کی کلرکی تھی ۔ کوئی اور ہوتا تو وہ افسردہ اورملول رہنے لگتا مگر س نے اِس کام کو انتہائی قابلیت سے انجام دیا ۔ ڈیوٹی کے بعد جتنا وقت بچتا اِس میں ہول سیل ڈپارٹ میں رضاکارانہ کام کرتا۔ چونکہ یہ اُس کا اپنا شوق تھا اِس لیے مالکو ں نے نہ اُجرت دی نہ شاباشی ، البتہ اتنی مہربانی ضرور کی کہ جب ایک اور بہتر جگہ نکلی تو اِس سرپھرے جوان کو لگا دیا۔

اُسے کئی بارمایوسیوں اور نامرادیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر ہمت کے راستے کا یہ ثابت قدم حوصلے کے قدموں سے چلتا ہی رہا۔

چند دن بعد اِس نے ایک اور ادارے میں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وہاں راستہ بند تھا۔ ادارے کےمالک صاحب کے رشتے دار اِس کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے ۔ وہ ایک اور ادارے میں گیا ۔ وہاں ترقی کے تمام مواقع صرف ان کے لیے تھے جو پرانے ملازم تھے ایک تیسرے ادارے میں ٹولہ بازی تھی۔ ایک چوتھے ادارے میں خوشامدیوں کے وارے نیارے ہورہے تھے۔ مگر س نے اپنی منزل نظروں سے اوجھل نہ ہونے دی اور آخر اس پر پہنچ کر ہی دم لیا ۔ اِس نے بیج نٹ پیکنگ کارپوریشن کا صدر بن کر دکھادیا۔ اور اِس کے بعد اِس ادارے کی بنیاد رکھی جو بلومون چیز کمپنی کے نام سے ملک بھر میں معروف ہے۔ اس کا نام ہے سامن وھٹنے۔

سامن وھٹنے نے نیویارک سٹی کی ایک درسگاہ کے بورڈنگ ہاوس میں جب اپنے کمرہ شریک نوجوان سے کہاتھا ۔ میں کسی عظیم ادارے کا سربراہ بنوں گا۔ اس وقت وہ جاگتے میں خواب نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ اس ولولے کو الفاظ کا جامہ پہنا رہاتھا۔ جو قدرت نے اس کے سینے میں عزم کے فانوس کے شکل میں روشن کررکھا تھا۔ آج وہ اس عزم کی کامیابی کے بعد امریکا کے کامیاب ترین صنعت کاروں میں شمار ہوتا ہے۔

سامن وھٹنے کو اتنی شاندار کامیابی کیوں حاصل ہوئی ؟ اس کے ساتھ کے ہزاروں نوجوان ایسی کامیابی کیوں حاصل نہیں کرسکےِ اِن سوالات کے جوابات میں کہا جاسکتا ہے کہ اس نے محنت کی چلئے مان لیا کہ اس نے محنت کی جان توڑ محنت کی ۔ مگر محنت کون نہیں کرتا۔؟ ہر شخص محنت مشقت اور جدوجہد کرتا ہے۔ شاید یہ کہا جائے کہ اس نے جس کام میں ہاتھ ڈالا اس کی ماہیت کو پوری توجہ سے ذہن نشین کیا۔ ہمیں یہ دلیل تسلیم ہے مگر یہ بھی کوئی مسکت دلیل نہیں۔ ہزاروں انسان ایسا ہی کرتے ہیں پھر بھی کامیاب نہیں ہوتے ۔ صحیح ترین جواب یہ ہے کہ وھٹنے نے اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کرلیا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ اس کی منزل کہاں ہے وہ لوگ جو مقصد کی روشنی میں کام کرتے ہیں ترقی کرکے کامیاب ہوجاتے ہیں۔

جب وھٹنے اوورٹائم کام کررہا تھا ۔ جب وہ ایک جگہ سے ترقی کرکے دوسری جگہ پہنچ رہاتھا ۔ جب وہ کاروبار کے گُر جاننے کے لیے اپنے دماغ پر زور ڈالتا تھا۔ اس دوران میں وہ تمام وقت اپنی منزل کی سیدھ باندھ کر دوڑ ، دوڑ رہا تھا۔

کسی انسان کے لیے زندگی کا مقصد نہ ہونا ۔ ناکامی اور نامرادی کے گڑھے میں گِرنا ہے۔ اِس کی زندگی کا کوئی محورنہیں ہوتا۔ اِس کی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔ اس کے دل میں کچھ کرنے یا کچھ بن کر دکھانے کی تڑپ بھی نہیں ہوتی ۔ وہ انسان جو بیکاری کے بھنور میں پڑے ہوئے ہاتھ پاوں ماررہے ہیں۔ یا جو اپنے موجودہ حالات سے نالاں ہیں مقصد نہ ہونے کی بیماری کے شکار ہیں کیوں کہ انھیں معلوم ہی نہیں کہ انہیں کیا کرنا چاھئیے۔
 
قسط نمبر 6

شریکِ زندگی کا تعاون

مردکے لیے مقصد زندگی معین کرنے کا کام اِس کی شریکِ زندگی بھی کرسکتی ہے ۔ اِس کی بالکل سیدھی سی وجہ یہ ہے ایک عورت اپنے شوہر کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے اسکی صلاحیتوں اور کمزوریوں کا تاڑجاتی ہے ۔ اگر اِس کے شوہر نے شادی ہوجانے کے بعد بھی اپنا کوئی مقصدِ زندگی معین نہ کیا ہوتو یہ فرض اِس کی شریکِ زندگی کو ادا کرنا چاھئیے اگر شوہر اپنا مقصد زندگی معین کرچکا ہوتو بیوی کو چاھئیے کہ اِس مقصد کے حصول کی جدوجہد میں اِس کی ہرطرح امداد کرے میریج گائڈ کے مصنفوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ مشترک مقصد ازدواجی زندگی کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے اس لیے بیوی کو چاھئیے کہ شوہر کے مقصد زندگی کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے ۔ میریج گائیڈ کے الفاظ میں کوئی منزل ہر وقت پیش ِ نظر رکھنا اور پھر اِس منزل تک پہنچنے کے لیے بھرپور سعی وکوشش کرنا زندگی کا سب سے زیادہ پُرلطف شغل ہے میاں بیوی مِل کر منصوبے بنائیں ۔ ان کو کامیاب کرنے کی تدبیریں سوچیں ۔ مشترک ارمانوں کے دونوں کے دل ساتھ دھڑکیں اور وہ کامیابیوں اور مایوسیوں میں برابر کے شریک ہوں۔

ولیم گراہام آئل کمپنی امریکا کا ایک باوقار صنعتی ادارہ ہے ۔ اسکے مالک ولیم گراہام کی عمر ابھی صرف چالیس سال کی ہے مگر آمدنی کے لحاظ سے دنیا کے کامیاب ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں ۔ میں نے ان سے اُن کی ترقی کی وجہ پوچھی ۔ وہ جواب میں بولے۔ "دُور رس منصوبہ بندی اور مِل جُل کر کام کرنا ۔ کس کا مِل جُل کر کام کرنا؟ گراہام اور اُن کی بیوی کا۔

اُن میاں بیوی کی داستان ترقی یہ ہے انھوں نے شادی کے فوراً بعد پراپرٹی ڈیلر کا کام شروع کردیا۔ ذرائع کیا تھے؟ صرف حصول کامیابی کا ولولہ اور محنت کرنے کا عزم ۔ ان کا دفتر ایک بزنس بلڈنگ کا ایک مختصر کمرہ تھا ۔ شوہر باہر کام کرتا، بیوی دفتر سنبھالتی شروع میں آمدنی زیادہ نہ ہوئی بلکہ کبھی کبھی تو اتنی قلیل ہوتی تھی کہ خرچ پورے کرنا دُشوار ہوجاتا۔ پھر آمدنی اتنی ہونے لگی کہ کچھ بچنے بھی لگا۔ رفتہ رفتہ اتنی رقم جُڑ گئی کہ انھوں نے اِس سے ایک مکان خرید لیا۔ پھر وہ خود عمارتیں تعمیر کرنے لگے۔ اس کام میں کافی منافع ہوا۔ وہ کوئی اور نفع بخش کام کرنے کی سوچنے لگے۔ یہ تیل کا کاروبار تھا۔ یوں ولیم گراہام آئل کمپنی وجود میں آئی اور اتنی کامیاب ہوئی کہ اس کی خطیر آمدنی داستانوں کا موضوع بن گئی ہے۔

اِن میاں بیوی کا طریقِ کار کیا ہے؟

یہ منصوبے بناتے اور مقصد معین کرتے وقت اپنی تربیت و رجحانات ، افتادِ طبع ، خوبیوں اور خامیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہیں چنانچہ ہر بار کامیاب رہتے ہیں۔
 
Top