ترجمہ قرآن مجید ،مترجم : شیخ محسن علی نجفی

صرف علی

محفلین
پارہ : وَمَآ اُبَرّیّ 13​
٥٣۔ اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتا، کیونکہ (انسانی) نفس تو برائی پر اکساتا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے،بےشک میرا پروردگار بڑا بخشنے، رحم کرنے والا ہے۔
٥٤۔ اور بادشاہ نے کہا: اسے میرے پاس لے آؤ، میں اسے خاص طور سے اپنے لیے رکھوں گا پھر جب یوسف نے بادشاہ سے گفتگو کی تو اس نے کہا: بے شک آج آپ ہمارے با اختیار امانتدار ہیں۔٭
٥٥۔ یوسف نے کہا : مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کریں کہ میں بلاشبہ خوب حفاظت کرنے والا، مہارت رکھنے والا ہوں۔
٥٦۔ اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ وہ جہاںچاہے اپنا مسکن بنا لے، ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے نوازتے ہیں اور نیک لوگوں کا اجر ہم ضائع نہیں کرتے۔٭
٥٧۔اور آخرت کا اجر توایمان اور تقویٰ والوں کے لیے زیادہ بہتر ہے ۔
٥٨۔ اور برادران یوسف (مصر) آئے اور یوسف کے ہاں حاضر ہوئے پس یوسف نے تو انہیں پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے۔٭
٥٩۔ اور جب یوسف ان کے لیے سامان تیار کر چکے تو کہنے لگے : (دوبارہ آؤ تو) باپ کی طرف سے اپنے ایک (سوتیلے) بھائی کو میرے پاس لانا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میںپورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں ؟
٦٠۔ پس اگر تم اس بھائی کو نہ لاؤ گے تو میرے پاس سے نہ تو تمہیںکوئی غلہ ملے گا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آنا۔٭
٦١۔ انہوں نے کہا: ہم اس کے والد سے اسے طلب کریںگے اور ہم ایساکر کے رہیں گے۔
٦٢۔ اور یوسف نے اپنے خدمتگاروں سے کہا: ان کی پونجی (جو غلے کی قیمت تھی) انہی کے سامان میںرکھ دو تاکہ جب وہ پلٹ کر اپنے اہل و عیال کی طرف جائیں تو اسے پہچان لیں، اس طرح ممکن ہے وہ واپس آجائیں۔٭
٦٣۔ پھر جب وہ اپنے والد کے پاس واپس گئے تو کہنے لگے: اے ہمارے ابا! ہمارے لیے غلے کی بندش ہو گئی لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تاکہ ہم غلہ حاصل کریں اوربے شک ہم بھائی کی حفاظت کریں گے۔٭
٦٤۔ یعقوب بولے: کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا ؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ سب سے بہترین رحم کرنے والا ہے۔٭
٦٥۔اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا ان کی پونجی انہیں واپس کر دی گئی کہنے لگے:اے ہمارے ابا! ہمیں اور کیا چاہیے؟دیکھئے! ہماری یہ پونجی ہمیں واپس کر دی گئی ہے اور ہم اپنے اہل وعیال کے لیے غلہ لائیںگے اور اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ غلہ زیادہ لائیںگے اور وہ غلہ آسانی سے (حاصل) ہو جائے گا۔٭
٦٦۔ (یعقوب نے) کہا: میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے ساتھ عہد نہ کرو کہ تم اسے میرے پاس ضرور واپس لاؤ گے مگر یہ کہ تم (کسی مشکل میں) گھیر لیے جاؤ پھر جب انہوں نے اپنا عہد دے دیا تو یعقوب نے کہا: ہم جو بات کر رہے ہیں اس پراللہ ضامن ہے۔٭
٦٧۔ اور یعقوب نے کہا: بیٹو! تم سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا اور میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتا، حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور بھروسا کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔٭
٦٨۔اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے والد نے انہیں حکم دیا تھا توکوئی انہیں اللہ سے بچانے والا نہ تھا مگر یہ کہ یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی جسے انہوں نے پور ا کر دیا اور یعقوب یقینا صاحب علم تھے اس لیے کہ ہم نے انہیں علم دیا تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٦٩۔ اور جب یہ لوگ یوسف کے ہاں داخل ہوئے تو یوسف نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی ۔ کہا : بے شک میں ہی تیرا بھائی ہوں پس ان لوگوں کے سلوک پر ملال نہ کرنا۔
٧٠۔ پھر جب (یوسف نے) ان کا سامان تیار کر لیا تو اپنے بھائی کے سامان میں پیالہ رکھ دیا پھر کسی پکارنے والے نے آواز دی : اے قافلے والو! تم چور ہو۔٭
٧١۔ وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے: تمہاری کیا چیز کھو گئی ہے؟
٧٢۔ کہنے لگے: بادشاہ کا پیالہ کھو گیا ہے اور جو اسے پیش کر دے اس کے لیے ایک بار شتر (انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں۔
٧٣۔ قافلے والوں نے کہا : اللہ کی قسم تم لوگوں کو بھی علم ہے کہ ہم اس سرزمین میں فساد کرنے نہیں آئے اورنہ ہی ہم چور ہیں۔٭
٧٤۔ انہوںنے کہا : اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟
٧٥۔ کہنے لگے: اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں (مسروقہ مال) پایا جائے وہی اس کی سزا میں رکھ لیا جائے، ہم تو ظلم کرنے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔٭
٧٦۔ پھر یوسف نے اپنے بھائی کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں کو (دیکھنا) شروع کیا پھر اسے اپنے بھائی کے تھیلے سے نکالا، اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی ورنہ وہ شاہی قانون کے تحت اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ اللہ کی مشیت ہو، جس کے ہم چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں اور ہر صاحب علم سے بالاتر ایک بہت بڑی دانا ذات ہے۔٭
٧٧۔(برادران یوسف نے) کہا: اگر اس نے چوری کی ہے (تو نئی بات نہیں) اس کے بھائی (یوسف)نے بھی تو پہلے چوری کی تھی، پس یوسف نے اس بات کو دل میں سہ لیا اور اسے ان پر ظاہر نہ کیا (البتہ اتنا ضرور) کہا: تم لوگ برے ہو (نہ کہ ہم دونوں) اور جو بات تم بیان کر رہے ہو اسے اللہ بہتر جانتا ہے۔٭
٧٨۔ وہ کہنے لگے:اے عزیز ! اس کا باپ بہت سن رسیدہ ہو چکا ہے پس آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیں ہمیں آپ نیکی کرنے والے نظر آتے ہیں۔
٧٩۔کہا : پناہ بخدا! جس کے ہاں سے ہمارا سامان ہمیںملا ہے اس کے علاوہ ہم کسی اور کو پکڑیں؟ اگر ہم ایسا کریں تو زیادتی کرنے والوں میں ہوں گے۔٭
٨٠۔ پھر جب وہ اس سے مایوس ہوگئے تو الگ ہو کر مشورہ کرنے لگے، ان کے بڑے نے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی یوسف کے بارے میں تقصیر کر چکے ہو؟ لہٰذا میں توا س سرزمین سے ہلنے والا نہیں ہوں جب تک میرے والد مجھے اجازت نہ دیں یا اللہ میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔٭
٨١۔ تم اپنے والد کے پاس جاؤ اور ان سے کہو: اے ہمارے ابا جان!آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے اور ہمیں جو علم ہوا اس کی ہم نے گواہی دے دی ہے اور غیب کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔
٨٢۔ اور اس بستی (والوں) سے پوچھیے جس میں ہم ٹھہرے تھے اور اس قافلے سے پوچھیے جس میں ہم آئے ہیں اور (یقین جانیے) ہم بالکل سچے ہیں۔
٨٣۔(یعقوب نے )کہا: بلکہ تم نے خود اپنی طرف سے ایک بات بنائی ہے پس بہترین صبر کروں گا امید ہے کہ اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے، یقینا وہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔٭
٨٤۔ اور یعقوب نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہاہائے یوسف اور ان کی آنکھیں (روتے روتے) غم سے سفید پڑ گئیں اور وہ گھٹے جا رہے تھے۔٭
٨٥۔ (بیٹوں نے ) کہا: قسم بخدا ! یوسف کو برابر یادکرتے کرتے آپ جان بلب ہو جائیں گے یا جان دے دیں گے۔
٨٦۔ یعقوب نے کہا : میں اپنا اضطراب اور غم صرف اللہ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور اللہ کی جانب سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔٭
٨٧۔ اے میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کے فیض سے مایوس نہ ہونا کیونکہ اللہ کے فیض سے تو صرف کافر لوگ مایوس ہوتے ہیں۔٭
٨٨۔ پھر جب وہ یوسف کے ہاں داخل ہوئے تو کہنے لگے: اے عزیز ! ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت تکلیف میں ہیں اور ہم نہایت ناچیز پونجی لے کر آئے ہیں پس آپ ہمیں پورا غلہ دیجیے اور ہمیں خیرات (بھی) دیجیے، اللہ خیرات دینے والوں کو یقینا اجر عطا کرنے والا ہے۔
٨٩۔یوسف نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ جب تم نادان تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا؟٭
٩٠۔ وہ کہنے لگے : کیا واقعی آپ یوسف ہیں ؟ کہا: میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے، اگر کوئی تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔٭
٩١۔ انہوں نے کہا: قسم بخدا! اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور ہم ہی خطاکار تھے۔
٩٢۔ یوسف نے کہا: آج تم پر کوئی عتاب نہیں ہو گا، اللہ تمہیں معاف کر دے گا اوروہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے٭
٩٣۔ یہ میرا کرتا لے جاؤ پھر اسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دو تو اس کی بصارت لوٹ آئے گی اور تم اپنے تمام اہل و عیال کو میرے پاس لے آنا۔٭
٩٤۔ اور جب یہ قافلہ (مصر کی سرزمین سے) دور ہوا تو ان کے باپ نے کہا: اگر تم مجھے بہکا ہوا نہ سمجھو تو یقینا مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔٭
٩٥۔ لوگوں نے کہا: قسم بخدا! آپ اپنے اسی پرانے خبط میں (مبتلا) ہیں۔
٩٦۔ پھر جب بشارت دینے والا آیا تو اس نے یوسف کا کرتا یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو وہ دفعتاً بینا ہوگئے ، کہنے لگے: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے؟٭
٩٧۔ بیٹوں نے کہا: اے ہمارے ابا! ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے دعا کیجیے، ہم ہی خطاکار تھے۔٭
٩٨۔(یعقوب نے) کہا: عنقریب میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروںگا،وہ یقینا بڑا بخشنے والا،مہربان ہے
٩٩۔جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھایا اور کہا : اللہ نے چاہا تو امن کے ساتھ مصر میں داخل ہو جائیے۔٭
١٠٠۔ اور یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب ان کے آگے سجدے میں گر پڑے اور یوسف نے کہا:اے ابا جان! یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا، بتحقیق میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا اور اس نے سچ مچ مجھ پر احسان کیا جب مجھے زندان سے نکالا بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈالاآپ کو صحرا سے (یہاں) لے آیا، یقینا میرا رب جو چاہتا ہے اسے تدبیر خفی سے انجام دیتا ہے، یقینا وہی بڑا دانا، حکمت والا ہے۔٭
١٠١۔ اے میرے رب ! تونے مجھے اقتدار کا ایک حصہ عنایت فرمایا اور ہر بات کے انجام کا علم دیا، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا میں بھی میرا سرپرست ہے اور آخرت میںبھی، مجھے (دنیاسے)مسلمان اٹھا لے اور نیک بندوں میں شامل فرما۔٭
١٠٢۔ یہ غیب کی خبروں کا حصہ ہیں جنہیں ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں وگرنہ آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنا عزم پختہ کر کے سازش کر رہے رہے تھے۔٭
١٠٣۔ اور آپ کتنے ہی خواہش مند کیوں نہ ہوں ان لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔٭
١٠٤۔اور (حالانکہ)آپ اس بات پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے اور یہ (قرآن) تو عالمین کے لیے بس ایک نصیحت ہے۔
١٠٥۔ اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ بغیر اعتنا کے گزر جاتے ہیں۔
١٠٦۔ ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لائے بھی ہیں تو اس کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔
١٠٧۔کیا یہ لوگ اس بات سے بے فکر ہیں کہ اللہ کی طرف سے کوئی عذاب انہیں گھیر لے یا ناگہاں قیامت کی گھڑی آ جائے اور انہیں خبر تک نہ ہو؟٭
١٠٨۔کہدیجیے:یہی میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار، پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور پاکیزہ ہے اللہ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔٭
١٠٩۔ اور آپ سے پہلے ہم ان بستیوں میں صرف مردوں ہی کو بھیجتے رہے ہیں جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے، تو کیا یہ لوگ روئے زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا؟ اور اہل تقویٰ کے لیے تو آخرت کا گھر ہی بہتر ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
١١٠۔ یہاں تک کہ جب انبیاء (لوگوںسے) مایوس ہو گئے اور لوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا تو پیغمبروں کے لیے ہماری نصرت پہنچ گئی، اس کے بعد جسے ہم نے چاہا اسے نجات مل گئی اور مجرموں سے تو ہمارا عذاب ٹالا نہیں جا سکتا۔٭
١١١۔ بتحقیق ان (رسولوں) کے قصوںمیں عقل رکھنے والوںکے لیے عبرت ہے، یہ (قرآن) گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ اس سے پہلے آئے ہوئے کلام کی تصدیق ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔

13 سورۃ رعد ۔ مکی ۔ آیات ٤٣​
بنام خدا ئے رحمن و رحیم
١۔ الف لام میم را، یہ کتاب کی آیات ہیں اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے لیکن اکثرلوگ ایمان نہیں لاتے۔٭
٢۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے آسمانوں کو تمہیں نظر آنے والے ستونوں کے بغیر بلند کیا پھر اس نے عرش پر سلطنت استوار کی اور سورج اور چاند کو مسخر کیا، ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت کے لیے چل رہا ہے، وہی امور کی تدبیر کرتاہے وہی نشانیوں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے شاید تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔٭
٣۔ اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر طرح کے پھلوں کے دو جوڑے بنائے، وہی رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔
٤۔ اور زمین میں باہم متصل ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں نیز کھیتیاں اور کھجورکے درخت ہیں جن میں سے کچھ دوہرے تنے کے ہوتے ہیںاورکچھ دوہرے نہیں ہوتے، سب کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے لیکن پھلوں میں (لذت میں) ہم بعض کو بعض سے بہتر بناتے ہیں، عقل سے کام لینے والوں کے لیے یقینا ان چیزوں میں نشانیاں ہیں۔٭
٥۔ اور اگر آپ کو تعجب ہوتا ہے توان (کفار) کی یہ بات تعجب خیز ہے کہ جب ہم خاک ہو جائیں گے تو کیا ہم نئی پیدائش میں ہوں گے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے منکر ہو گئے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میںطوق پڑے ہوئے ہیں اور یہی جہنم والے ہیں جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔٭
٦۔ اور یہ لوگ آپ سے بھلائی سے پہلے برائی میں عجلت چاہتے ہیں جب کہ ان سے پہلے عذاب کے واقعات پیش آ چکے ہیں اور آپ کا پروردگار ظلم و زیادتی کے باوجود لوگوں سے یقینا درگز کرنے والا ہے اور آپ کا رب یقینا سخت عذاب دینے والا (بھی) ہے۔
٧۔ اور جنہوںنے کفر اختیار کیاہے وہ کہتے ہیں: اس شخص پر اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی نازل کیوں نہیں ہوتی؟ آپ تو محض تنبیہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔٭
٨۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر مادہ (مونث) کیا اٹھائے ہوئے ہے اور ارحام کیا گھٹاتے اور کیا بڑھاتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز کی ایک (معین) مقدار ہے۔٭
٩۔ (وہ ) پوشیدہ اور ظاہر چیزوں کا جاننے والا بزرگ برتر ہے۔
١٠۔ تم میں سے کوئی آہستہ بات کرے یا آواز سے اور کوئی پردہ شب میں چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں (سرعام) چل رہا ہو (اس کے لیے) برابر ہے۔
١١۔ ہر شخص کے آگے اور پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے پہرے دار ( فرشتے) مقرر ہیں جو بحکم خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں، اللہ کسی قوم کا حال یقینا اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب اللہ کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیںہوتی اور نہ ہی اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے۔٭
١٢۔ وہی ہے جو تمہیں ڈرانے اور امید دلانے کے لیے بجلی کی چمک دکھاتا ہے اور بھاری بادلوں کو پیدا کرتاہے ۔
١٣۔ اور (بجلی کی) گرج اس کی ثنا کے ساتھ اور فرشتے اس کے خوف سے (لرزتے ہوئے) تسبیح کرتے ہیں اور وہی بجلیوں کو روانہ کرتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے گراتاہے جب وہ اللہ کے بارے میں الجھ رہے ہوتے ہیں اور وہ سخت طاقت والا ہے۔
١٤۔ صرف اللہ کو پکارنا برحق ہے اور وہ اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہیں وہ انہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے، ایسے ہی جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ پانی (از خود) ا س کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس تک پہنچنے والا نہیںہے اور کافروں کی دعا ۔(اسی طرح) محض بے سود ہی ہے۔
١٥۔ اور آسمانوں اور زمین میں بسنے والے سب بشوق یا بزور اور ان کے سائے بھی صبح و شام اللہ ہی کے لیے سر بسجود ہیں.٭
١٦۔ ان سے پوچھیے:آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ کہدیجئے: اللہ ہے، کہدیں: تو پھر کیا تم نے اللہ کے سوا ایسوں کو اپنا اولیاء بنایا ہے جو اپنے نفع و نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں؟ کہدیجئے: کیا بینا اور نابینا برابر ہو سکتے ہیں؟ کیا جنہیں ان لوگوں نے اللہ کا شریک بنایا ہے کیا انہوں نے اللہ کی خلقت کی طرح کچھ خلق کیا ہے جس کی وجہ سے پیدائش کا مسئلہ ان پر مشتبہ ہو گیا ہو؟ کہدیجئے: ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا، بڑا غالب آنے والا ہے۔٭
١٧۔ اللہ نے آسمانوں سے پانی برسایا پھر نالے اپنی گنجائش کے مطابق بہنے لگے پھر سیلاب نے پھولے ہوئے جھاگ کو اٹھایا اور ان (دھاتوں) پر بھی ایسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں جنہیں لوگ زیور اور سامان بنانے کے لیے آگ میں تپاتے ہیں، اس طرح اللہ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے، پھر جو جھاگ ہے وہ تو ناکارہ ہو کر ناپید ہو جاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے فائدے کی ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے، اللہ اسی طرح مثالیں پیش کرتا ہے۔٭
١٨۔جنہوںنے اپنے رب کی دعوت مان لی ان کے لیے بہتری ہے اور جنہوںنے اس کی دعوت قبول نہیں کی وہ اگر ان سب چیزوںکے مالک بن جائیں جو زمین میں ہیں اور اتنی دولت مزید بھی ساتھ ہو تو وہ (۔آخرت میں) ان سب کو (اپنی نجات کے لیے) فدیہ دے دیں، ایسے لوگوں کا برا حساب ہو گا اور جہنم ان کا ٹھکانا ہو گا اور وہ برا ٹھکانا ہے۔٭
١٩۔ کیا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جوکچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ برحق ہے، اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نابینا ہے ؟ نصیحت تو بس عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔٭
٢٠۔ جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور پیمان کو نہیں توڑتے۔ ٭
٢١۔ اور اللہ نے جن رشتوں کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں اور بر ے حساب سے بھی خائف رہتے ہیں۔٭
٢٢۔ اور جو لوگ اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرتے ہیں آخرت کا گھر ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔٭
٢٣۔(یعنی) ایسی دائمی جنتیں ہیں جن میں وہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آبا اور ان کی بیویوں اور اولاد میںسے جو نیک ہوں گے وہ بھی اور فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے۔٭
٢٤۔ (اور کہیں گے) تم پر سلامتی ہو یہ تمہارے صبر کا صلہ ہے، پس عاقبت کا گھر کیا ہی عمدہ گھر ہے۔٭
٢٥۔ اور جو لوگ اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں منقطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیںایسے ہی لوگوں پر لعنت ہے اور ان کے لئے ٹھکانا بھی برا ہوگا۔٭
٢٦۔ اللہ جس کی چاہے روزی بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے اور لوگ دنیاوی زندگی پر خوش ہیں جب کہ دنیاوی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک (عارضی) سامان ہے۔
٢٧۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ کہتے ہیں: اس (رسول) پر اپنے رب کی طرف سے کوئی معجزہ کیون نازل نہیںہوتا؟ کہ دیجئے: اللہ جسے چاہے گمراہ کر دیتا ہے اور جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتا ہے اپنی طرف اس کی رہنمائی فرماتا ہے۔٭
٢٨۔ (یہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل یادِ خدا سے مطمئن ہو جاتے ہیں اور یاد رکھو! یاد خداسے دلوںکو اطمینان ملتا ہے۔٭
٢٩۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیے ان کی نیک نصیبی ہے اور ان کے لیے بہترین ٹھکانا ہے۔
٣٠۔ (اے رسول )اسی طرح ہم نے آپ کو ایسی قوم میں بھیجا ہے جس سے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں تاکہ آپ ان پر اس (کتاب) کی تلاوت کریں جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے جبکہ یہ لوگ خدائے رحمن کو نہیں مانتے،کہدیجئے: وہی میرا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اسی پرمیں نے بھروسا کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے۔٭
٣١۔ اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا جس سے پہاڑ چل پڑتے یا زمین پھٹ جاتی یا مردے کلام کرتے (تو بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے) بلکہ یہ سارے امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں، کیا اہل ایمان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ہدایت دے دیتا اور ان کافروں پر ان کے اپنے کردار کی وجہ سے آفت آتی رہے گی یا ان کے گھروں کے قریب (مصیبت) آتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آ پہنچے، یقینا اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔٭
٣٢۔ اور آپ سے پہلے بھی رسولوںکا مذاق اڑایا گیا ہے پھر میں نے ان کافروں کو ڈھیل دی پھر میں نے انہیںگرفت میں لے لیا (تو دیکھ لو) عذاب کیساشدید تھا۔٭
٣٣۔ کیا وہ اللہ جوہر نفس کے عمل پر کڑی نظر رکھتا ہے (بے حس بتوں کی طرح ہو سکتا ہے جنہیں) ان لوگوں نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے؟ کہدیجئے: ان کے نام (اور اوصاف) بیان کرو (جیسے اللہ کے اسمائے حسنیٰ ہیں)،۔ کیا تم اللہ کو ایسی خبر دینا چاہتے ہو جسے وہ اس زمین میں نہیں جانتا یا یہ محض ایک کھوکھلی بات ہے؟ بلکہ دراصل کافروں کے لیے ان کی مکاری زیبا بنا دی گئی ہے اور ان کے لیے ہدایت کا راستہ مسدود ہے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے گمراہ کر دے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔
٣٤۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو زیادہ مشقت والا ہے اور انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔
٣٥۔ اہل تقویٰ سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان ایسی ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اس کے میوے اور ان کا سایہ دائمی ہیں، یہ ہے اہل تقویٰ کی عاقبت اور کافروں کا انجام تو آتش ہے۔٭
٣٦۔اور جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ آپ کی طرف نازل ہونے والی کتاب سے خوش ہیں اور بعض فرقے ایسے ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے، کہدیجئے: مجھے تو صرف یہ حکم ملا ہے کہ میں اللہ کی بندگی کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں، میں اسی کی طرف دعوت دیتا ہوںاور اسی کی طرف مجھے رجوع کرنا ہے۔٭
٣٧۔ اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی میں ایک دستور بنا کر نازل کیا ہے اور اگر آپ نے علم آ جانے کے بعد بھی لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میںآپ کو نہ کوئی حامی ملے گا اور نہ کوئی بچانے والا۔
٣٨۔ بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے اور انہیں ہم نے ازواج اور اولاد سے بھی نوازا اور کسی رسول کو یہ اختیا رنہیں کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے، ہر زمانے کے لیے ایک دستور ہوتاہے۔٭
٣٩۔ اللہ جسے چاہتاہے مٹا دیتاہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔٭
٤٠۔ اور جو وعدے ہم ان سے کر رہے ہیں خواہ ان کا کچھ حصہ ہم آپ کو (زندگی میں) دکھا دیں یا ہم آپ کو اٹھا لیں بہرحال آپ کے ذمے صرف پیغام پہنچانا اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔
٤١۔ کیا ان لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کا رخ کرتے ہیں تو اس کو اطراف سے کم کرتے چلے آتے ہیں؟ اللہ حکم صادر فرماتا ہے اس کے حکم کو پس پشت ڈالنے والا کوئی نہیں اور وہ بلادرنگ حساب کرلینے والا ہے.
٤٢۔ اور بےشک ان سے پہلے والوں نے بھی مکاریاں کی ہیں لیکن تمام تر تدبیریں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ ہر نفس کے عمل سے باخبرہے اور کافروں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ عاقبت کا مسکن کس کے لیے ہے۔
٤٣۔ اور کافر کہتے ہیں: کہ آپ رسول نہیں ہےں، کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ اور وہ جس کے پاس کتا ب کا علم ہے کافی ہیں۔٭
 

صرف علی

محفلین
14 سورۃ ابراہیم۔ مکی۔ آیات ٥٢​
بنام خدائے رحمن ورحیم
١۔ الف لام را،یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو انکے رب کے اذن سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں، غالب آنے والے قابل ستائش اللہ کے راستے کی طرف۔ ٭
٢۔ جس اللہ کی ملکیت میں آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات ہیںاور کافروں کے لیے عذاب شدید کی تباہی ہے۔
٣۔ جو آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی سے محبت کرتے ہیں اور راہ خدا سے روکتے ہیں اور اس میں انحراف لاناچاہتے ہیں یہ لوگ گمراہی میں دور تک چلے گئے ہیں۔
٤۔ ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں وضاحت سے بات سمجھا سکے پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتاہے ہدایت دیتا ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
٥۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا(اور حکم دیا)کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ اور انہیں ایام خدا یاد دلاؤ، ہر صبر وشکر کرنے والے کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔٭
٦۔ اور (یاد کیجیے) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ نے تمہیں جس نعمت سے نوازا ہے اسے یاد کرو جب اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات بخشی، وہ تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑا امتحان تھا۔٭
٧۔ اور (اے مسلمانو! یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے خبردار کیا کہ اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔٭
٨۔ اور موسیٰ نے کہا: اگر تم اور زمین میں بسنے والے سب ناشکری کریں تو بھی اللہ یقینا بے نیاز، لائق حمد ہے۔٭
٩۔ کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔(مثلا) نوح، عاد اور ثمود کی قوم اور جو ان کے بعدآئے جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے؟ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کرآئے توا نہوں نے اپنے ہاتھ ان کے منہ پر رکھ دیے اور کہنے لگے: ہم تو اس رسالت کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس میں ہم شبہ انگیز شک میں ہیں۔۔٭
١٠۔ ان کے رسول نے کہا: کیا (تمہیں) اس اللہ کے بارے میںشک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیںاس لیے دعوت دیتا ہے تاکہ تمہارے گناہ بخش دے اور ایک معین مدت تک تمہیں مہلت دے، وہ کہنے لگے: تم تو ہم جیسے بشر ہو تم ہمیں ان معبودوں سے روکنا چاہتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے، پس اگر کوئی کھلی دلیل ہے تو ہمارے پاس لے آؤ۔٭
١١۔ ان کے رسولوں نے ان سے کہا: بےشک ہم تم جیسے بشر ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے اور ہمارے اختیار میں نہیںکہ ہم تمہارے سامنے کوئی دلیل (معجزہ) اذن خدا کے بغیر پیش کریں اور مومنوں کو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔٭
١٢۔ اور ہم اللہ پر توکل کیوں نہ کریں جب کہ اس نے ہمارے راستے ہمیں دکھا دیے ہیں، (منکرو) جو اذیتیںتم ہمیں دے رہے ہو اس پر ہم ضرور صبر کریں گے اور توکل کرنے والوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔ ٭
١٣۔ اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا: ہم تمہیں اپنی سرزمین سے ضرور نکال دیں گے یا بہرصور ت تمہیںہمارے دین میں واپس آنا ہوگا، اس وقت ان کے رب نے ان پر وحي کی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے۔ ٭
١٤۔ اور ان کے بعد اس سرزمین میںہم ضرور تمہیں آباد کریں گے، یہ (خوشخبری) اس کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑے ہونے (کے دن) سے ڈرتا ہو او ر اسے میرے وعدہ عذاب کا خوف بھی ہو۔
١٥۔ اور انبیاء نے فتح و نصرت مانگی تو ہر سرکش دشمن نامراد ہو کر رہ گیا۔٭
١٦۔ اس کے بعد جہنم ہے اور وہاں اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔٭
١٧۔ جسے وہ گھونٹ گھونٹ کر پیے گا مگر وہ اسے نہایت ناگوار گزرے گا، اسے ہر طرف سے موت آئے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور اس کے پیچھے (مزید) سنگین عذاب ہو گا ۔٭
١٨۔ جن لوگوں نے اپنے رب کا انکار کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے آندھی کے دن تیز ہوا نے اڑا دیا ہو، وہ اپنے اعمال کا کچھ بھی (پھل) حاصل نہ کر سکیں گے، یہی تو بہت گہری گمراہی ہے۔٭
١٩۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیاہے ؟ اگروہ چاہے تو تمہیںتباہ کر دے اور (تمہاری جگہ) نئی مخلوق لے آئے۔٭
٢٠۔ اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
٢١۔ اور سب اللہ کے سامنے پیش ہوںگے تو کمزور لوگ ان لوگوں سے جو (دنیا میں) بڑے بنتے تھے کہیں گے: ہم تمہارے تابع تھے تو کیا تم اللہ کے عذا ب کا کچھ حصہ ہم سے ہٹا سکتے ہو؟ وہ کہیں گے: اگر اللہ نے ہمارے لیے کوئی راستہ چھوڑ دیا ہوتا تو ہم تمہیں بھی بتا دیتے، ہمارے لیے یکساں ہے کہ ہم فریاد کریں یا صبر کریں۔، ہمارے لیے فریاد کا کوئی راستہ نہیں۔٭
٢٢۔ اور (قیامت کے دن) جب فیصلہ ہو چکے گا تو شیطان کہ اٹھے گا: اللہ نے تمہارے ساتھ یقینا سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا پھر وعدہ خلافی کی اور میرا تم پرکوئی زور نہیں چلتا تھا۔ مگر یہ کہ میں نے تمہیں صرف دعوت دی اور تم نے میرا کہنا مان لیا ۔ پس اب تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ خود کو ملامت کرو (آج) نہ تو میں تمہارے فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہو، پہلے تم مجھے (اللہ کا شریک) بناتے تھے میں (اب) یقینا اس سے بیزار ہوں، ظالموں کے لیے تو یقینا دردناک عذاب ہے۔٭
٢٣۔ اور جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے وہ ان جنتوں میںداخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی وہ اپنے رب کی اجازت سے ہمیشہ ان میں رہیں گے، وہاں (آپس میں) ان کی تحیت سلام ہو گی۔ ٭
٢٤۔ کیا آپ نے نہیںدیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال پیش کی ہے کہ کلمہ طیبہ شجرہ طیبہ کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔؟٭
٢٥۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں اس لیے دیتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔٭
٢٦۔ اور کلمہ خبیثہ کی مثال اس شجرہ خبیثہ کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا گیا ہواور اس کے لےے کوئی ثبات نہ ہو ۔٭
٢٧۔اللہ ایمان والوں کو دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی قول ثابت پر قائم رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ اپنی مشیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔٭
٢٨۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں اتار دیا؟
٢٩۔ وہ جہنم ہے جس میں وہ جھلس جائیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے ۔
٣٠۔ اور انہوں نے اللہ کے لیے کچھ ہمسر بنا لیے تاکہ راہ خدا سے (لوگوں کو) گمراہ کریں، ان سے کہدیجئے: (کچھ دن) لطف اٹھا لو آخر کار تمہارا ٹھکانا آتش ہے۔
٣١۔ میرے ایمان والے بندوں سے کہ دیجئے:نماز قائم کریںاور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کریں، اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ سودا ہو گااور نہ دوستی کام آئے گی۔٭
٣٢۔ اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہارے روزی کے لیے پھل پیدا کیے اور کشتیوں کو تمہارے لیے مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میںچلے اور دریاؤں کو بھی تمہارے لیے مسخر کیا۔
٣٣۔ اور اسی نے ہمیشہ چلتے رہنے والے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا اور رات اور دن کو بھی تمہارے لیے مسخر بنایا۔
٣٤۔ اور اسی نے تمہیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے، انسان یقینا بڑا ہی بے انصاف، ناشکرا ہے۔٭
٣٥۔ اور (و ہ وقت یاد کیجیے) جب ابراہیم نے دعا کی: پروردگارا! اس شہر کو پر امن بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا ۔
٣٦۔ پروردگارا! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر رکھا ہے پس جو شخص میری پیروی کرے وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو یقینا بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔
٣٧۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میںسے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایا، اے ہمارے پروردگار! تاکہ یہ نماز قائم کریں لہٰذا تو کچھ لوگو ں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ یہ شکرگزار بنیں۔٭
٣٨۔ ہمارے رب ! جو کچھ ہم پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں تواسے جانتا ہے، اللہ سے کوئی چیز نہ تو زمین میں چھپ سکتی ہے اور نہ آسمان میں۔
٣٩۔ ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے عالم پیری میں مجھے اسماعیل اور اسحق عنایت کیے، میرا رب تو یقینا دعاؤں کا سننے والا ہے۔٭
٤٠۔ پروردگار مجھے قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، ہمارے پروردگار میری دعا قبول فرما۔٭
٤١۔ ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز۔٭
٤٢۔ اور ظالم جو کچھ کر رہے ہیں آپ اس سے اللہ کو غافل تصور نہ کریں، اللہ نے بےشک انہیں اس دن تک مہلت دے رکھی ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
٤٣۔ وہ سر اٹھائے دوڑرہے ہوںگے، ان کی نگاہیں خود ان کی طرف بھی لوٹ نہیں رہی ہوںگی اور ان کے دل (خوف کی وجہ) کھوکھلے ہوچکے ہو ں گے۔٭
٤٤۔ اور لوگوں کو اس دن کے بارے میں تنبیہ کیجیے جس دن ان پر عذاب آئے گا تو ظالم لوگ کہیں گے: ہمارے رب ہمیں تھوڑی مدت کے لیے ڈھیل دے دے۔ اب ہم تیری دعوت پر لبیک کہیں گے اور رسولوں کی اتباع کریں گے، (انہیں جواب ملے گا) کیا اس سے پہلے تم قسمیں نہیں کھاتے تھے کہ تمہارے لیے کسی قسم کا زوال و فنا نہیں ہے؟٭
٤٥۔ حالانکہ تم ان لوگوں کے گھروں میں آباد تھے جو اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے اور تم پر یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا اور تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کی تھیں۔٭
٤٦۔ اور انہوںنے اپنی مکاریاں کیں اور ان کی مکاریاں اللہ کے سامنے تھیں اگرچہ ان کی مکاریاں ایسی تھیں کہ جن سے پہاڑ بھی ٹل جائیں۔٭
٤٧۔ پس آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا، اللہ یقینا بڑا غالب آنے والا، انتقام لینے والا ہے۔
٤٨۔ یہ (انتقام) اس دن ہوگا جب یہ زمین کسی اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ہوں گے۔٭
٤٩۔ اس دن آپ مجرموں کو ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھیں گے۔٭
٥٠۔ ان کے لباس گندھک کے ہوں گے اور آگ ان کے چہروں پر چھائی ہوئی ہو گی۔٭
٥١۔ تاکہ اللہ ہر نفس کو اس کے عمل کی جزا دے، اللہ یقینا بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔
٥٢۔ یہ (قرآن) لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کی تنبیہ کی جائے اور وہ جان لیں کہ معبود تو بس وہ ایک ہی ہے نیز عقل والے نصیحت حاصل کریں۔٭

15 سورۃ حجر ۔ مکی ۔ آیات ٩٩​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ الف لام را ،یہ کتاب اور قرآن مبین کی آیات ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
پارہ : رُبَمَا 14​
٢۔ ایک وقت ایسا ہوگا کہ کافر لوگ آرزو کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔
٣۔ انہیں چھوڑ دیجئے کہ وہ کھائیں اور مزے کریں اور ( طویل )آرزوئیں انہیں غافل بنا دیں کہ عنقریب انہیںمعلوم ہو جائے گا۔٭
٤۔ اور ہم نے کسی بستی کو ہلاکت میں نہیں ڈالا مگر یہ کہ اس کے لیے ایک معینہ مدت لکھی ہوئی تھی۔
٥۔ کوئی قوم اپنی معینہ مدت سے نہ آگے نکل سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔٭
٦۔ اور (کافر لوگ) کہتے ہیں: اے وہ شخص جس پر ذکر نازل کیا گیا ہے یقینا تو مجنون ہے۔
٧۔ اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا؟٭
٨۔ (کہدیجئے) ہم فرشتوں کو صرف (فیصلہ کن) حق کے ساتھ ہی نازل کرتے ہیں اور پھر کافروں کو مہلت نہیں دیتے۔٭
٩۔ اس ذ کر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔٭
١٠۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی گزشتہ قوموں میںرسول بھیجے ہیں۔
١١۔ اور ان کے پاس کوئی رسول ایسا نہیں آیا جس کا انہوں نے استہزاء نہ کیا ہو۔
١٢۔ اسی طرح ہم اس ذکر کو مجرموں کے دلوں میں سے گزارتے ہیں،
١٣۔ کہ وہ اس (رسول) پر ایمان نہیں لائیں گے اور بے شک پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے۔
١٤۔ اور اگر ہم ان پرآسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ روز روشن میں اس پر چڑھتے چلے جائیں۔٭
١٥۔ تو یہی کہیںگے: ہماری آنکھوں کو یقینا مدہوش کیا گیا بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے۔٭
١٦۔ اور بتحقیق ہم نے آسمانوں میں نمایاں ستارے بنا دیے اور دیکھنے والوں کے لیے انہیں زیبائی بخشی۔
١٧۔ اور ہم نے ہر شیطان مردود سے انہیں محفوظ کر دیا ہے ۔
١٨۔ ہاں اگر کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو ایک چمکتا ہو اشعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے ۔٭
١٩۔ اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے اور ہم نے زمین میں معینہ مقدار کی ہرچیز اگائی۔٭
٢٠۔ اور ہم نے تمہارے لیے زمین میں سامان زیست فراہم کیا اور ان مخلوقات کے لیے بھی جن کی روزی تمہارے ذمے نہیں ہے۔٭
٢١۔ اور کوئی چیزایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں پھرہم اسے مناسب مقدار کے ساتھ نازل کرتے ہےں۔٭
٢٢۔ اور ہم نے باردار کنندہ ہوائےں چلائےں پھر ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہےں سےراب کےا (ورنہ) تم اسے جمع نہےں رکھ سکتے تھے۔٭
٢٣۔ اور بے شک ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی وارث ہیں۔
٢٤۔ اور بتحقیق ہم تم میں سے اگلوں کو بھی جانتے ہیں اور پچھلوں کو بھی جانتے ہیں۔٭
٢٥۔ اور آپ کا رب ہی ان سب کو (ایک جگہ) جمع کرے گا، بے شک وہ بڑا حکمت والا، علم والاہے۔
٢٦۔ بتحقیق ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا۔٭
٢٧۔ اور اس سے پہلے ہم لو (گرم ہوا) سے جنوں کو پیدا کر چکے تھے۔٭
٢٨۔ اور ( وہ موقع یاد رکھو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: میں سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔٭
٢٩۔ پھر جب میں اس کی تخلیق مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ ریز ہو جاؤ۔٭
٣٠۔ پس تمام کے تمام فرشتوں نے سجدہ کر لیا،
٣١۔ سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔
٣٢۔ اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟
٣٣۔ کہا: میںایسے بشر کو سجدہ کرنے کا نہیں ہوں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا ہے۔
٣٤۔ اللہ نے فرمایا: نکل جا! اس مقام سے کیونکہ تو مردود ہو چکا ہے ۔٭
٣٥۔ اور تجھ پر تاروز قیامت لعنت ہو گئی.٭
٣٦۔ کہا : پروردگارا! پھر مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دے دے۔٭
٣٧۔ فرمایا: تومہلت ملنے والوںمیںسے ہے
٣٨۔ معین وقت کے دن تک۔٭
٣٩۔ (ابلیس نے) کہا: میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے بہکایا ہے (لہذا) میں بھی زمین میں ان کے لیے (باطل کو) ضرور آراستہ کر کے دکھاؤں گا اور سب کو ضرور بالضرور بہکاؤں گا۔٭
٤٠۔ ان میںسے سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔
٤١۔ اللہ نے فرمایا: یہی راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔
٤٢۔ جو میرے بندے ہیں ان پریقینا تیری بالادستی نہ ہوگی سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔
٤٣۔ ان سب کی وعدہ گاہ جہنم ہے۔٭
٤٤۔ جس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لیے ان کا ایک حصہ مخصوص کر دیاگیا ہے۔٭
٤٥۔ (ادھر) اہل تقویٰ یقینا باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔٭
٤٦۔ (ان سے کہا جائے گا) سلامتی و امن کے ساتھ ان میں داخل ہوجاؤ۔
٤٧۔ اور ان کے دلوں میں جوکینہ ہو گا ہم نکال دیں گے وہ برادرانہ طور پر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوںگے۔
٤٨۔ جہاں نہ انہیں کوئی تکلیف پہنچے گی نہ انہیں وہاں سے نکالا جائے گا۔
٤٩۔ (اے رسول) میرے بندوں کو بتا دو کہ میں بڑا درگزر کرنے والا، مہربان ہوں۔٭
٥٠۔ اور یہ کہ میرا عذاب بھی یقینا بڑا دردناک عذاب ہے ۔
٥١۔ اور انہیںابراہیم کے مہمانوں کا حال بھی سنا دو۔
٥٢۔ جب وہ ابراہیم کے ہاں داخل ہوئے تو انہوں نے کہا: سلام! ابراہیم نے کہا: ہم تم سے خوفزدہ ہیں۔٭
٥٣۔ کہنے لگے: آپ خوف نہ کریں ہم آپ کو ایک دانا لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔
٥٤۔ کہا: کیا تم مجھے اس وقت خوشخبری دیتے ہو جب بڑھاپے نے مجھے گرفت میں لے لیا ہے؟ کس بات کی خوشخبری دیتے ہو؟
٥٥۔ کہنے لگے: ہم نے آپ کو سچی خوشخبری دی ہے آپ مایوس نہ ہوں۔
٥٦۔ ابراہیم بولے: اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں.٭
٥٧۔ پھرفرمایا: اے فرستادگان ! تمہاری مہم کیا ہے؟
٥٨۔ کہنے لگے: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
٥٩۔مگر آل لوط کہ ان سب کو ہم ضرور بچا لیں گے۔
٦٠۔ البتہ ان کی بیوی کے بارے میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ وہ ضرور پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گی۔
٦١۔ جب یہ فرستادگان آل لوط کے ہاں آئے ۔
٦٢۔ تولوط نے کہا: تم تو ناآشنا لوگ ہو۔
٦٣۔ کہنے لگے: ہم آپ کے پاس وہی چیز لے کر آئے ہیں جس کے بارے میں لوگ شک کر رہے تھے۔
٦٤۔ اور ہم تو آپ کے پاس امر حق لے کر آئے ہیں اور ہم بالکل سچے ہیں۔
٦٥۔ لہٰذا آپ اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کسی حصے میں یہاں سے چلے جائیں اور آپ ان کے پیچھے چلیں اور آپ میں سے کوئی شخص مڑ کر نہ دیکھے اور جدھر جانے کا حکم دیا گیا ہے ادھر چلے جائیں۔٭
٦٦۔ اور ہم نے لوط کو اپنا فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہی ان کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔
٦٧۔ ادھر شہر کے لوگ خوشیاں مناتے (لوط کے گھر) آئے۔٭
٦٨۔ لوط نے کہا: بلا شبہ یہ میرے مہمان ہیں لہٰذا تم مجھے رسوا نہ کرو۔٭
٦٩۔ اور اللہ سے ڈرو اورمجھے بدنام نہ کرو۔٭
٧٠۔ کہنے لگے: کیاہم نے تمہیں ساری دنیا کے لوگوں (کی پذیرائی ) سے منع نہیں کیا تھا؟٭
٧١۔ لوط نے کہا: یہ میری بیٹیاںہیں اگر تم کچھ کرنا ہی چاہتے ہو۔٭
٧٢۔ (اے رسول) آپ کی زندگی کی قسم! یقینا وہ بدمستی میں مدہوش تھے۔٭
٧٣۔ پھر سورج نکلتے وقت انہیں خوفناک آواز نے گرفت میں لے لیا۔
٧٤۔ پھر ہم نے کسی بستی کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا اور ہم نے ان پر کنگریلے پتھر برسائے۔
٧٥۔ اس واقعہ میں صاحبان فراست کے لیے نشانیاں ہیں۔ ٭
٧٦۔ اور یہ بستی زیر استعمال گزرگاہ میں (آج بھی) موجود ہے۔٭
٧٧۔ اس میں ایمان والوں کے لیے یقینا نشانی ہے ۔
٧٨۔اورایکہ والے یقینا بڑے ظالم تھے۔٭
٧٩۔ تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور یہ دونوں بستیاں ایک کھلی شاہراہ پر واقع ہیں۔
٨٠۔ اور بتحقیق حجرکے باشندوںنے بھی رسولوں کی تکذیب کی۔ ٭
٨١۔ اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں لیکن وہ ان سے منہ پھیرتے تھے۔
٨٢۔ اور وہ پہاڑوں کو تراش کر پر امن مکانات بناتے تھے ۔
٨٣۔ اور انہیں صبح کے وقت ایک خوفناک آواز نے گرفت میں لے لیا۔
٨٤۔ پس جو وہ کیاکرتے تھے ان کے کام نہ آیا۔
٨٥۔ اور ہم نے آسمانوںاور زمین اور ان کے درمیان موجودات کو برحق پیدا کیا ہے اور قیامت یقینا آنے والی ہے لہٰذا (اے رسول)ان سے باوقار انداز میں درگزر کریں ۔٭
٨٦۔ یقینا آپ کا رب خالق اور بڑا دانا ہے۔
٨٧۔ اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دہرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ہے۔٭
٨٨۔ (اے رسول) آپ اس سامان عیش کی طرف ہرگز نگاہ نہ اٹھائیں جو ہم نے ان (کافروں ) میں سے مختلف جماعتوں کو دے رکھاہے اور نہ ہی ان کے حال پر رنجیدہ خاطر ہوں اور آپ مومنوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔٭
٨٩۔ اور کہدیجئے: میں تو صریحاً تنبیہ کرنے والا ہوں۔
٩٠۔ جیسا (عذاب) ہم نے دھڑے بندی کرنے والوںپر نازل کیا تھا ۔٭
٩١۔جنہوںنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا.
٩٢۔پس آپ کے رب کی قسم ہم ان سب سے ضرور پوچھیں گے۔
٩٣۔ان اعمال کی بابت جو وہ کیاکرتے تھے.
٩٤۔ آپ کو جس چیز کا حکم ملا ہے اس کا واشگاف الفاظ میں اعلان کریں اور مشرکین کی اعتنا نہ کریں۔ ٭
٩٥۔ آپ کے واسطے ان تمسخر کرنے والوں سے نپٹنے کے لیے یقینا ہم کافی ہیں۔
٩٦۔ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا لیتے ہیں عنقریب انہیں (اپنے انجام کا) علم ہو جائے گا۔
٩٧۔ اور بتحقیق ہمیںعلم ہے کہ یہ جو کچھ کہ رہے ہیں اس سے آپ یقینا دل تنگ ہو رہے ہیں۔
٩٨۔ پس آپ اپنے رب کی ثنا کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں ۔٭
٩٩۔ اور اپنے رب کی عبادت کریںیہاں تک کہ آپ کو یقین (موت ) آ جائے ۔

16 سورۃ نحل ۔ مکی ۔ آیات ١٢٨​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ اللہ کا امر آگیا پس تم اس میں عجلت نہ کرو وہ پاک اور بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔
٢۔ وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو روح کے ساتھ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے (اس حکم کے ساتھ) کہ انہیں تنبیہ کرو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا تم میری مخالفت سے بچو ۔
٣۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیاہے اور جو شرک یہ لوگ کرتے ہیں اللہ اس سے بالاتر ہے۔
٤۔ اس نے انسان کو ایک بوند سے پیداکیا پھر وہ یکایک کھلا جھگڑالو بن گیا۔٭
٥۔ اور اس نے مویشیوں کو پیدا کیا جن میں تمہارے لیے گرم پوشاک اور فوائد ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔
٦۔ اور ان میں تمہارے لیے رونق بھی ہے اور جب تم انہیں شام کو واپس لاتے ہو اور صبح کو چرنے کے لیے بھیجتے ہو۔٭
٧۔اور وہ تمہارے بوجھ اٹھاکر ایسے علاقوں تک لے جاتے ہیں جہاں تم جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے، تمہارا رب یقینا بڑا شفیق، مہربان ہے۔
٨۔ اور (اس نے) گھوڑے خچراور گدھے بھی (اس لیے پید اکیے ) تاکہ تم ان پر سوار ہو اور تمہارے لیے زینت بنیں، ابھی اور بھی بہت سی چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیںعلم نہیں ہے۔٭
٩۔اور سیدھا راستہ (دکھانا) اللہ کے ذمے ہے اور بعض راستے ٹیڑھے بھی ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کرتا ۔٭
١٠۔ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہیں پینے کو ملتا ہے اور اس سے درخت اگتے ہیںجن میں تم جانور چراتے ہو۔٭
١١۔ جس سے وہ تمہارے لیے کھیتیاں، زیتون کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میں یقینا نشانی ہے۔٭
١٢۔ اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے اور ستارے بھی اس کے حکم سے مسخر ہیں،عقل سے کام لینے والوں کے لیے ان چیزوں میںیقینا نشانیاں ہیں۔٭
١٣۔ اور تمہارے لیے زمین میں رنگ برنگ کی جو مختلف چیزیں اگائی ہیں نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے ان میں یقینا نشانی ہے۔٭
١٤۔ اور اسی نے (تمہارے لیے) سمندر کو مسخر کیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیںتم پہنتے ہو اور آپ دیکھتے ہیں کہ کشتی سمندرکو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے تاکہ تم اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور شاید تم شکر گزار بنو۔
١٥۔ اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو گاڑ دیا تاکہ زمین تمہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے اور نہریں جاری کیں اور راستے بنائے تاکہ تم راہ پاتے رہو۔٭
١٦۔ اور علامتیں بھی (بنائیں) اور ستاروں سے بھی لوگ راستہ معلوم کر لیتے ہیں۔
١٧۔ کیا وہ جو پیداکرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرتا؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟٭
١٨۔ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو توانہیں شمار نہ کر سکو گے، اللہ یقینا بڑا درگزر کرنے والا، مہربان ہے۔٭
١٩۔ اور اللہ سب سے باخبر ہے جو تم پوشیدہ رکھتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔٭
٢٠۔ اور اللہ کو چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔
٢١۔ وہ زندہ نہیںمردہ ہیں اورانہیں اتنا بھی معلوم نہیںکہ کب اٹھائے جائیں گے۔
٢٢۔ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے لیکن جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل (قبول حق کے لیے) منکر ہیں اور وہ تکبر کر رہے ہیں۔٭
٢٣۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ جو کچھ پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے، وہ تکبر کرنے والوں کو یقینا پسند نہیں کرتا ۔
٢٤۔ جب ان سے کہا جاتاہے: تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے؟ توکہتے ہیں: داستانہائے پارینہ۔
٢٥۔ (گویا) یہ لوگ قیامت کے دن اپنا سارا بوجھ اور کچھ ان کا بوجھ بھی اٹھاناچاہتے ہیں جنہیں وہ نادانی میں گمراہ کرتے ہیں دیکھو! کتنا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں۔٭
٢٦۔ ان سے پہلے لوگوں نے مکاریاں کی ہیں لیکن اللہ نے ان کی عمارت کو بنیاد سے اکھاڑ دیا، پس اوپر سے چھت ان پر آگری اور انہیں وہاں سے عذاب نے آ لیا جہاں سے انہیںتوقع نہ تھی۔٭
٢٧۔ پھر اللہ انہیں قیامت کے دن رسوا کرے گا اور (ان سے) کہے گا: کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم جھگڑتے تھے؟ (اس وقت) صاحبان علم کہیںگے: آج کافروں کے لیے یقینا رسوائی اور برائی ہے۔
٢٨۔ فرشتے جن کی روحیں اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہے ہوں تب وہ کافر تسلیم کا اظہار کریں گے (اور کہیںگے) ہم تو کوئی برا کام نہیں کرتے تھے، ہاں! جو کچھ تم کرتے تھے اللہ یقینا اسے خوب جانتا ہے۔٭
٢٩۔ پس اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جہاں تم ہمیشہ رہو گے، تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا نہایت برا ہے۔٭
٣٠۔ اور متقین سے پوچھا جاتا ہے: تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں: بہترین چیز، نیکی کرنے والوں کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو بہترین ہے ہی اور اہل تقویٰ کے لیے یہ کتنا اچھا گھر ہے۔٭
٣١۔ یہ لوگ دائمی جنت میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں ان کے لیے جو چاہیں گے موجود ہو گا۔ اللہ اہل تقویٰ کو ایسا اجر دیتا ہے۔
٣٢۔ جن کی روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں) کہتے ہیں: تم پر سلام ہو! اپنے (نیک) اعمال کی جزا میں جنت میںداخل ہو جاؤ۔٭
٣٣۔ کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے (ان کی جان کنی کے لیے) ان کے پاس آئیں یا آپ کے رب کا فیصلہ آئے؟ ان سے پہلوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیابلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں۔٭
٣٤۔ آخرکار انہیں ان کے برے اعمال کی سزائیں ملیں اور جس چیز کا یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے اسی نے انہیں گھیر لیا۔
٣٥۔ اور مشرکین کہتے ہیں: اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اس کے علاوہ کسی اور چیز کی پرستش نہ کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام قرار دیتے، ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا، تو کیا رسولوں پر واضح انداز میں تبلیغ کے سوا کوئی اور ذمہ داری ہے؟٭
٣٦۔ اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو، پھر ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض کے ساتھ ضلالت پیوست ہو گئی، لہٰذا تم لوگ زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا تھا۔
٣٧۔ اگر آپ کو ان کی ہدایت کی شدید خواہش ہو بھی تو اللہ انہیں ہدایت نہیں دیتا جنہیں وہ ضلالت میں ڈال چکا ہو اور نہ ہی کوئی ان کی مدد کرنے والا ہو گا ۔٭
٣٨۔ اور یہ لوگ اللہ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں: جو مر جاتا ہے اسے اللہ زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں (اٹھائے گا)؟ یہ ایک ایسا برحق وعدہ ہے جو اللہ کے ذمے ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٣٩۔ تاکہ اللہ ان کے لیے وہ بات واضح طور پر بیان کرے جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں اور کافر لوگ بھی جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔
٤٠۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کر لیتے ہیں تو بے شک ہمیں اس سے یہی کہنا ہوتا ہے: ہو جا ! پس وہ ہو جاتی ہے ۔٭
٤١۔ اور جنہوں نے ظلم کا نشانہ بننے کے بعد اللہ کے لیے ہجرت کی انہیں ہم دنیا ہی میں ضرور اچھا مقام دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے، اگر وہ جانتے ہوتے.٭
٤٢۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے صبر کیا اور جو اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔
٤٣۔ اور ہم نے آپ سے سے قبل صرف مردان (حق) رسول بنا کر بھیجے ہیں جن ر ہم وحی بھیجا کرتے ہیں، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔٭
٤٤۔ (جنہیں) دلائل اور کتاب دے کر بھیجا تھا اور (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں۔٭
٤٥۔ جو بدترین مکاریاں کرتے ہیں کیا وہ اس بات سے بے خوف ہیںکہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر ایسی جگہ سے عذاب آئے کہ جہاں سے انہیں خبر ہی نہ ہو؟٭
٤٦۔ یا انہیں آتے جاتے ہوئے (عذاب الٰہی) پکڑ لے؟ پس وہ اللہ کو عاجز تو کر نہیں سکتے ۔٭
٤٧۔ یا انہیں خوف میںرکھ کر گرفت میں لیا جائے؟ پس تمہارا رب یقینا بڑا شفقت کرنے والا، مہربان ہے۔٭
٤٨۔ کیا انہوں نے اللہ کی مخلوقات میں ایسی چیز نہیں دیکھی جس کے سائے دائیں اور بائیں طرف سے عاجز ہو کر اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے جھکتے ہیں؟
٤٩۔ اور آسمانوں اور زمین میں ہر متحرک مخلوق اور فرشتے سب اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔٭
٥٠۔ وہ اپنے رب سے جو ان پر بالادستی رکھتا ہے ڈرتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔٭
٥١۔ اور اللہ نے فرمایا: تم دو معبود نہ بنایا کرو، معبود تو بس ایک ہی ہے پس تم صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔
٥٢۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کی ملکیت ہے اور دائمی اطاعت صرف اسی کے لیے ہے تو کیا تم اللہ کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو؟
٥٣۔ اور تمہیں جو بھی نعمت حاصل ہو وہ اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو تم اس کے حضور زاری کرتے ہو۔٭
٥٤۔ پھر جب اللہ تم سے تکلیف دور کر دیتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔٭
٥٥۔ اس طرح وہ ان نعمتوں کی ناشکری کرنا چاہتے ہیں جو ہم نے انہیںدے رکھی ہیں سو ابھی تم مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔
٥٦۔ اور یہ لوگ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے ان کے لیے حصے مقرر کرتے ہیں جنہیں یہ جانتے بوجھتے تک نہیں، اللہ کی قسم اس افترا کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔٭
٥٧۔ اور انہوں نے اللہ کے لیے بیٹیاں قرار دے رکھی ہیں جس سے وہ پاک و منزہ ہے اور (یہ لوگ) اپنے لیے وہ (اختیار کرتے ہیں) جو یہ خود پسند کرتے ہیں (یعنی لڑکے)۔٭
٥٨۔ اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے ۔٭
٥٩۔ اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کیا اسے ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دے یا اسے زیر خاک دبا دے؟ دیکھو! کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں؟٭
٦٠۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لیے بری صفات ہیں اور اللہ کے لیے تو اعلی صفات ہیں اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
٦١۔ اور اگر لوگوںکے ظلم کی وجہ سے اللہ ان کا مواخذہ کرتا تو روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا، لیکن اللہ انہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے پس جب ان کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو وہ نہ گھڑی بھر کے لیے پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔٭
٦٢۔ اور یہ لوگ وہ چیزیں اللہ کے لیے قرار دیتے ہیں جو خود (اپنے لیے) پسند نہیں کرتے اور ان کی زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے جب کہ ان کے لیے یقینا جہنم کی آگ ہے اور یہ لوگ سب سے پہلے پہنچائے جائیں گے.٭
٦٣۔ اللہ کی قسم! آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف ہم نے (رسولوں کو) بھیجا لیکن شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر کے دکھائے پس آج وہی ان لوگوں کا سرپرست ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
٦٤۔ اور ہم نے صرف اس لیے آپ پر کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ وہ باتیں ان کے لیے واضح طور پر بیان کریں جن میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں اور ایمان لانے والوں کےلیے ہدایت اور رحمت ثابت ہو۔٭
٦٥۔ اور اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کو زندہ کیا اس کے مردہ ہونے کے بعد، سننے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانی ہے۔٭
٦٦۔ اور تمہارے لےے موےشےوں مےں ےقےنا اےک سبق ہے، ان کے شکم مےں مو جود گوبر اور خون کے درمےان سے ہم تمہےں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔٭
٦٧۔ اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے تم نشے کی چیزیں بناتے ہیںاور پاک رزق بھی بنا لیتے ہو، عقل سے کام لینے والوں کے لیے اس میںایک نشانی ہے۔٭
٦٨۔ اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی پر وحی کی کہ پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں گھر (چھتے) بنائے۔٭
٦٩۔ پھر ہر (قسم کے) پھل (کا رس) چوس لے اور اپنے پروردگار کی طرف سے تسخیر کردہ راہوں پر چلتی جائے، ان مکھیوں کے شکم سے مختلف رنگوں کا مشروب نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں ایک نشانی ہے۔٭
٧٠۔ اور اللہ نے تمہیں پیداکیا پھر وہی تمہیں موت دیتاہے اور تم میں سے کوئی نکمی ترین عمر کو پہنچا دیا جاتاہے تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے، اللہ یقینا بڑا جاننے والا، قدرت والا ہے۔٭
٧١۔ اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میںفضیلت دی ہے، پھر جنہیں فضیلت دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کو دینے والے نہیں ہیں کہ دونوں اس رزق میں برابر ہو جائیں، کیا (پھر بھی) ہ لوگ اللہ کی نعمت سے انکار کرتے ہیں؟٭
٧٢۔ اور اللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں اور اس نے تمہاری ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کیے اور تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں توکیا.یہ لوگ باطل پر ایمان لائیں گے اور اللہ کی نعمت کا انکار کریں گے؟٭
٧٣۔ اور اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ ایسوں کی پوجا کرتے ہیں جنہیں نہ آسمانوںسے کوئی رزق دینے کا اختیار ہے اور نہ زمین سے اور نہ ہی وہ اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔٭
٧٤۔ پس اللہ کے لیے مثالیں نہ دیا کرو، (ان چیزوں کو) یقینا اللہ بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔٭
٧٥۔ اللہ ایک غلام کی مثال بیان فرماتا ہے جو دوسرے کامملوک ہے اور خود کسی چیز پر قادر نہیں اور دوسرا (وہ شخص) جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق دے رکھا ہے پس وہ اس رزق میں سے پوشیدہ و علانیہ طور پر خرچ کرتا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٧٦۔ اور اللہ دو (اور) مردوں کی مثال دیتا ہے، ان میں سے ایک گونگا ہے جو کسی چیز پر بھی قادر نہیںہے بلکہ وہ اپنے آقا پربوجھ بنا ہوا ہے، وہ اسے جہاں بھی بھیجے کوئی بھلائی نہیں لاتا، کیا یہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود صراط مستقیم پر قائم ہے؟٭
٧٧۔ اور آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ کے لیے (خاص) ہے اور قیامت کا معاملہ تو ایسا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا بلکہ اس سے بھی قریب تر، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔٭
٧٨۔ اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموںسے اس حال میںنکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ شاید تم شکر کرو.۔٭
٧٩۔ کیا انہوں نے ان پرندوں کو نہیں دیکھا جو فضائے آسمان میں مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا انہیں کسی نے تھام نہیں رکھا، ایمان والوںکے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں٭
٨٠۔ اور اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکون کی جگہ بنایا ہے اور اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے گھر بنائے جنہیں تم سفر کے دن اور حضر کے دن ہلکا محسوس کرتے ہو اور ان (جانوروں مثلاً بھیڑ) کی اون اور (اونٹ کی) پشم اور (بکرے کے) بالوں سے گھر کا سامان اور ایک مدت تک کے لیے (تمہارے) استعمال کی چیزیں بنائیں.٭
٨١۔ اور اللہ نے تمہارے لیے اپنی پیدا کردہ چیزوں سے سائے بنائے اور پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں اور تمہارے لیے ایسی پوشاکیں بنائیںجو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسی پوشاکیںجو تمہیں جنگ سے بچائیں، اس طرح اللہ تم پر اپنی ںپوری کرتاہے شاید تم فرمانبردار بن جاؤ۔ ٭
٨٢۔ پھر اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو (اے رسول) آپ کی ذمے داری تو صرف واضح انداز میں تبلیغ کرنا ہے۔
٨٣۔ یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچان لیتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میںسے اکثر تو کافر ہیں۔
٨٤۔ اور اس روز ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھائیںگے پھر کافروں کو نہ تو اجازت دی جائے گی اور نہ ہی ان سے اپنے عتاب کو دور کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
٨٥۔ اور جب ظالم لوگ عذاب کو دیکھ لیں گے تو نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔٭
٨٦۔ اور جنہوں نے شرک کیا ہے جب وہ اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! یہ ہمارے وہی شریک ہیں جنہیں ہم تیری بجائے پکارتے تھے تو وہ (شرکائ) اس بات کو مسترد کر دیں گے (اور کہیں گے) بے شک تم جھوٹے ہو۔
٨٧۔ اور اس دن وہ اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیںگے اور ان کی افترا پردازیاں ناپید ہو جائیں گی۔
٨٨۔ جنہوں نے کفر کیا اور (لوگوںکو ) راہ خدا سے روکاان کے لیے ہم عذاب پر عذاب کااضافہ کریں گے اس فساد کے عوض جو یہ پھیلاتے رہے۔٭
٨٩۔ اور (انہیں اس دن سے آگاہ کیجیے) جس روز ہم ہر امت میںسے ایک ایک گواہ خود انہیں میںسے اٹھائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بناکر لے آئیں گے اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔٭
٩٠۔ یقینا اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔٭
٩١۔ اور جب تم عہد کرو تو اللہ سے عہد کو پورا کرو اور قسموں کو پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو جب کہ تم اللہ کو اپنا ضامن بنا چکے ہو، جو کچھ تم کرتے ہو یقینا اللہ اسے جانتا ہے۔
٩٢۔ اور تم اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے پوری طاقت سے سوت کاتنے کے بعد اسے تار تار کر ڈالا، تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد کا ذریعہ بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ جائے، اس بات کے ذریعے اللہ یقینا تمہیں آزماتا ہے اور قیامت کے دن تمہیں وہ بات کھول کر ضرور بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے۔٭
٩٣۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔٭
٩٤۔ اور تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان فساد کاذریعہ نہ بناؤ کہ قدم جم جانے کے بعد اکھڑ جائیں اور راہ خدا سے روکنے کی پاداش میں تمہیں عذاب چکھنا پڑے اور (ایسا کیا تو) تمہارے لیے بڑا عذاب ہے۔٭
٩٥۔ اور اللہ کے عہد کو تم قلیل معاوضے میں نہ بیچو، اگر تم جان لو توتمہارے لیے صرف وہی بہتر ہے جو اللہ کے پاس ہے۔
٩٦۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے اور جن لوگوں نے صبر کیا ہے ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر ضرور دیں گے۔٭
٩٧۔ جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریںگے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیںگے ۔٭
٩٨۔ پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو راندہ درگاہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں۔٭
٩٩۔ شیطان کو یقینا ان لوگوں پر کوئی بالادستی حاصل نہ ہو گی جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔
١٠٠۔ اس کی بالادستی تو صرف ان لوگوں پر ہے جو اسے اپنا سرپرست بناتے ہیں اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔٭
١٠١۔ اور جب ہم ایک آیت کو کسی اور آیت سے بدلتے ہیں تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا نازل کرے، یہ لوگ کہتے ہیں: تم تو بس خود ہی گھڑ لاتے ہو، درحقیقت ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔٭
١٠٢۔کہدیجیے:اسے روح القدس نے آپ کے۔رب کی طرف سے برحق نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کو ثابت (قدم) رکھے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور بشارت (ثابت) ہو۔٭
١٠٣۔ اور بتحقیق ہمیں علم ہے کہ یہ لوگ ۔(آپ کے بارے میں) کہتے ہیں: اس شخص کو ایک انسان سکھاتا ہے، حالانکہ جس شخص کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن)تو واضح عربی زبان ہے۔
١٠٤۔ جو لوگ اللہ کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے، یقینا اللہ ان کی ہدایت نہیںکرتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔
١٠٥۔ جھوٹ تو صرف وہی لوگ افترا کرتے ہیں جو اللہ کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔
١٠٦۔جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ کا انکار کرے (اس کے لیے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں) لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔٭
١٠٧۔ یہ اس لیے ہے کہ انہوںنے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کیا ہے اور اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ۔٭
١٠٨۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور یہی لوگ غافل ہیں۔٭
١٠٩۔ لازماً آخرت میں یہی لوگ خسارے میںرہیں گے۔٭
١١٠۔ پھر آپ کا پروردگار یقینا ان لوگوں کے لیے جنہوں نے آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور صبر سے کام لیا ان باتوں کے بعد آپ کا رب یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔٭
١١١۔ اس دن ہر شخص اپنی صفائی کی حجتیں قائم کرتے ہوئے پیش ہو گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔٭
١١٢۔ اور اللہ ایسی بستی کی مثال دیتا ہے جو امن سکون سے تھی، ہر طرف سے اس کا وافر رزق اسے پہنچ رہا تھا، پھر اس نے اللہ کی نعمات کی ناشکری شروع کی تو اللہ نے ان کی حرکتوں کی وجہ سے انہیں بھوک اور خوف کا ذائقہ چکھا دیا۔٭
١١٣۔ اور بتحقیق ان کے پاس خود انہی میں سے ایک رسول آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا پس انہیںعذاب نے اس حال میں آ لیا کہ وہ ظالم تھے۔
١١٤۔ پس جو حلا ل اور پاکیزہ رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اس کی بندگی کرتے ہو۔
١١٥۔ اس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور اس چیز کو جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو حرام کر دیا ہے، پس اگر کوئی مجبور ہوتا ہے نہ (قانون کا ) باغی ہو کر اور نہ (ضرورت سے) تجاوز کا مرتکب ہو کر تو اللہ یقینا بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
١١٦۔ اور جن چیزوں پر تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگاتی ہیں ان کے بارے میں نہ کہو یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تم اللہ پر جھوٹ افترا کرو، جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیںوہ یقینا فلاح نہیں پاتے ۔٭
١١٧۔ چند روزہ کیف ہے اور پھر ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
١١٨۔ اور جنہوںنے یہودیت اختیارکی ہے ان پر وہی چیزیں ہم نے حرام کر دیں جن کا ذکر پہلے ہم آپ سے کر چکے ہیں اور ہم نے تو ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔
١١٩۔ پھر بے شک آپ کا رب ان کے لیے جنہوں نے نادانی میںبرا عمل کیا پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور اصلاح کر لی تو یقینا اس کے بعد آپ کا پروردگار بڑا بخشنے والا ، مہربان ہے۔٭
١٢٠۔ ابراہیم (اپنی ذات میں) ایک امت تھے اللہ کے فرمانبردار اور ( اللہ کی طرف) یکسو ہونے والے تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔٭
١٢١۔ (وہ) اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں برگزیدہ کیا اور صراط مستقیم کی طرف ان نکی ہدایت کی۔٭
١٢٢۔ اور ہم نے دنیا میں انہیں بھلائی دی اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہیں.٭
١٢٣۔ (اے رسول) پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسوئی کے ساتھ ملت ابراہیمی کی پیروی کریں اور ابراہیم مشرکین میں سے نہ تھے۔
١٢٤۔ سبت (کا احترام ) ان لوگوں پرلازم کیا گیا تھا جنہوں نے اس بارے میں اختلاف کیا اور آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گاجن میں یہ لوگ اختلاف کرتے تھے۔
١٢٥۔ (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیاہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔٭
١٢٦۔ اور اگر تم بدلہ لیناچاہو تواسی قدر بدلہ لو جس قدر تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اگر تم نے صبر کیا تو یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہترہے۔
١٢٧۔ اور آپ صبر کریں اور آپ کا صبر صرف اللہ کی مدد سے ہے اور ان (مشرکین) کے بارے میں حزن نہ کریں اور نہ ہی ان کی مکاریوںسے تنگ ہوں۔
١٢٨۔ اللہ یقینا تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
 

صرف علی

محفلین
17 سورۃ اسراء ۔ مکی ۔ آیات ١١١​
بنام خدائے رحمن و رحیم
پارہ :سُبحٰنَ الّذِی 15​
1۔ پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش میں ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم انہیںاپنی نشانیاں دکھائیں، یقینا وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔٭
٢۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتا ب دی اور اس (کتاب) کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت قرار دیا کہ میرے علاوہ کسی کو کارساز نہ بناؤ.
٣۔ اے ان لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں)سوار کیا تھا! نوح یقینا بڑے شکر گزار بندے تھے۔
٤۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ ضرور فساد برپا کرو گے اور ضرور بڑی طغیانی دکھاؤ گے۔٭
٥۔ پس جب دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے زبردست طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا پھر وہ گھر گھر گھس گئے اور یہ پورا ہونے والا وعدہ تھا.٭
٦۔ پھر دوسری بار ہم نے تمہیں ان پر غالب کر دیااور اموال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی۔٭
٧۔ اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا ۔(تو ہم نے ایسے دشمنوںکو مسلط کیا ) وہ تمہارے چہرے بدنما کر دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں اس طرح داخل ہوجائیں جس طرح اس میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے اسے تباہ کر دیں.٭
٨۔ امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کرے گا اور اگر تم نے (شرارت) دہرائی تو ہم بھی (اسی روش کو) دہرائیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔٭
٩۔ یہ قرآن یقینا اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور ان مومنین کوجو نیک اعمال بجا لاتے ہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
١٠۔ اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لیے ہم نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
١١۔ اور انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد بازہے۔٭
١٢۔ اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے پھر ہم نے رات کی نشانی کو ماند کر دیا اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور سالوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہم نے ہر چیز کو پوری تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔
١٣۔ اور ہم نے ہر انسان کا عمل اس کے گلے میںلٹکا رکھا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب پیش کریں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔٭
١٤۔ پڑھ اپنا نامہئ اعمال! آج اپنے حساب کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔٭
١٥۔ جوہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہدایت حاصل کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنے ہی خلاف گمراہ ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا اور جب تک ہم کسی رسول کو مبعوث نہ کریں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔
١٦۔ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔ ٭
١٧۔ اور نوح کے بعد کتنی نسلوں کو ہم نے ہلاکت میں ڈال دیا اور آپ کا رب ہی اپنے بندوں کے گناہوں پر آگاہی رکھنے، نگاہ رکھنے کے لیے کافی ہے ۔٭
١٨۔ جو شخص عجلت پسند ہے تو ہم جسے جو چاہیں اس دنیا میں اسے جلد دیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم کو مقرر کیا ہے جس میں وہ مذموم اور راندہ درگاہ ہو کر بھسم ہوجائے گا۔٭
١٩۔ اور جو شخص آخرت کا طالب ہے اور اس کے لیے جتنی سعی درکا رہے وہ اتنی سعی کرتا ہے اور وہ مومن بھی ہے تو ایسے لوگوں کی سعی مقبول ہو گی۔٭
٢٠۔ ہم (دنیا میں) ان کی بھی اور ان کی بھی آپ کے پروردگار کے عطیے سے مدد کرتے ہیں اور آپ کے پروردگار کا عطیہ ۔(کسی کے لیے بھی) ممنوع نہیں ہے۔٭
٢١۔ دیکھ لیجیے: ہم نے کس طرح ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے زیادہ بڑی اور فضیلت کے اعتبار سے بھی زیادہ بڑی ہے۔٭
٢٢۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنا ورنہ تو مذموم اور بے یار و مددگار ہو کر بیٹھ جائے گا۔٭
٢٣۔ اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا۔٭
٢٤۔ اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو: پروردگارا! ان پر رحم فرماجس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں(شفقت سے) پالا تھا۔٭
٢٥۔جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس پر تمہارا پروردگار زیادہ باخبر ہے، اگر تم صالح ہوئے تو وہ پلٹ کر آنے والوں کے لیے یقینا بڑا معاف کرنے والا ہے۔
٢٦۔اور قریبی ترین رشتہ داروں کو ان کا حق دیا کرو اور مساکین اور مسافروں کو بھی اور فضول خرچی نہ کیا کرو۔٭
٢٧۔ فضول خرچی کرنے والے یقینا شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔٭
٢٨۔ اور اگر آپ اپنے پروردگار کی رحمت کی تلاش میںجس کی آپ کو امید بھی ہو ان لوگوںکی طرف توجہ نہ کر سکیںتوان سے نرمی کے ساتھ بات کریں۔
٢٩۔ اور نہ تو آپ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھیں اور نہ ہی اسے بالکل کھلا چھوڑ دیں، ورنہ آپ ملامت کا نشانہ اور تہی دست ہو جائیں گے۔٭
٣٠۔ یقینا آپ کار ب جس کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ اور تنگ کر دیتا ہے، وہ اپنے بندوں کے بارے میںیقینا نہایت با خبر، نگاہ رکھنے والا ہے۔
٣١۔ اور تم اپنی اولاد کو تنگ دستی کے خوف سے قتل نہ کیا کرو، ہم انہیں رزق دیںگے اور تمہیں بھی، ان کا قتل یقینا بہت بڑا گناہ ہے۔٭
٣٢۔ اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یقینا یہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت براراستہ ہے۔٭
٣٣۔ اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے تم اسے قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلوم مارا جائے تو ہم نے اس کے ولی کو(قصاص کا) اختیار دیا ہے، پس اسے بھی قتل میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، یقینا نصرت اسی کی ہو گی۔٭
٣٤۔ اور تم یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جس میں بہتری ہو یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغ کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو، یقینا عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
٣٥۔ اور تم ناپتے وقت پیمانے کو پورا کر کے دو اور جب تول کر دو تو ترازو سیدھی رکھو، بھلائی اسی میں ہے اور انجام بھی اسی کا زیادہ بہتر ہے۔
٣٦۔ اور اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں ہے کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے باز پرس ہو گی۔٭
٣٧۔ اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو، بلاشبہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ ہی بلندی کے لحاظ سے پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو۔٭
٣٨۔ ان سب کی برائی آپ کے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔٭
٣٩۔ یہ حکمت کی وہ باتیں ہیں جو آپ کے پروردگار نے آپ کی طرف وحی کی ہیں اور اللہ کے ساتھ کسی اور کومعبود نہ بناؤ ورنہ ملامت کانشانہ اور راندہ درگاہ بنا کر جہنم میںڈال دیے جاؤ گے۔٭
٤٠۔ (اے مشرکین) کیا تمہارے رب نے تم کو بیٹوں کے لیے چن لیا اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا، بتحقیق تم لوگ بہت بڑی (گستاخی کی) بات کرتے ہو۔
٤١۔اور ہم نے اس قرآن میں (دلائل کو) مختلف انداز میںبیان کیا ہے تاکہ یہ لوگ سمجھ لیں مگر وہ مزید دور جا رہے ہیں۔٭
٤٢۔ کہدیجئے: اگر اللہ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوتے جیساکہ یہ لوگ کہ رہے ہیں تو وہ مالک عرش تک پہنچنے کے لیے راستہ تلاش کرتے۔٭
٤٣۔ پاکیزہ اور بالاتر ہے وہ ان باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
٤٤۔ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو موجودات ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثنا میں تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو، اللہ یقینا نہایت بردبار، معاف کرنے والاہے۔٭
٤٥۔ اور جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک نامرئی پردہ حائل کر دیتے ہیں۔
٤٦۔ اور ہم ان کے دلوں پر پردے ڈال دیتے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں میں سنگینی کر دیتے ہیں اور جب آپ قرآن میں اپنے یکتا رب کا ذکر کرتے ہیں تو وہ نفرت سے اپنی پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔٭
٤٧۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ جب یہ لوگ آپ کی طرف کان لگا کر سنتے ہیںتو کیا سنتے ہیں اور جب یہ لوگ سرگوشیاں کرتے ہیں تو یہ ظالم کہتے ہیں: تم (لوگ) تو ایک سحرزدہ آدمی کی پیروی کرتے ہو۔
٤٨۔ دیکھ لیں! ان لوگوں نے آپ کے بارے میں کس طرح کی مثالیں بنائی ہیں پس یہ گمراہ ہو چکے ہیں چنانچہ یہ کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔٭
٤٩۔ اور وہ کہتے ہیں: کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے؟
٥٠۔ کہدیجئے: تم خواہ پتھر ہو جاؤ یا لوہا۔٭
٥١۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے خیال میں بڑی ہو ۔(پھر بھی تمہیں اٹھایا جائے گا) پس وہ پوچھیں گے: ہمیں دوبارہ کون واپس لائے گا؟ کہدیجئے: وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا، پس وہ آپ کے آگے سر ہلائیں گے اور کہیں گے: یہ کب ہو گا؟ کہدیجئے: ہو سکتا ہے وہ (وقت) قریب ہو۔۔٭
٥٢۔ جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی ثنا کرتے ہوئے تعمیل کرو گے اور (اس وقت)تمہارایہ گمان ہو گا کہ تم (دنیا میں) تھوڑی دیر رہ چکے ہو۔٭
٥٣۔ اور میرے بندوں سے کہدیجیے: وہ بات کرو جو بہترین ہو کیونکہ شیطان ان میں فساد ڈلواتا ہے، بتحقیق شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔٭
٥٤۔ تمہارا رب تمہارے حال سے زیادہ باخبر ہے، اگر وہ چاہے تو تم پررحم کرے اور اگر چاہے تو تمہیں عذاب دے اور (اے رسول) ہم نے آپ کو ان کا ضامن بنا کر نہیں بھیجا۔٭
٥٥۔اور(اے رسول)آپ کا رب آسمانوں اور زمین کی موجودات کو بہتر جانتا ہے اور بتحقیق ہم نے انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور داؤد کو ہم نے زبور عطا کی ہے۔٭
٥٦۔کہدیجئے:جنہیں تم اللہ کے سوا (اپنا معبود) سمجھتے ہو انہیں پکارو، پس وہ تم سے نہ کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ ۔(ہی اسے) بدل سکتے ہیں۔
٥٧۔ جن (معبودوں) کو یہ پکارتے ہیںوہ خود اپنے رب تک رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ قریب ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خائف بھی، کیونکہ آپ کے رب کا عذاب یقینا ڈرنے کی چیز ہے۔٭
٥٨۔ اور کوئی بستی ایسی نہیں جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کریں یا سخت عذاب میں مبتلا نہ کریں، یہ بات کتاب (تقدیر) میں لکھی جا چکی ہے ۔٭
٥٩۔ اور نشانیاں بھیجنے سے ہمارے لیے کوئی مانع نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس سے پہلے کے لوگوں نے اسے جھٹلایا ہے اور (مثلا) ثمود کو ہم نے اونٹنی کی کھلی نشانی دی تو انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا اور ہم ڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں۔٭
٦٠۔ اور (اے رسول وہ وقت یاد کریں) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے رب نے لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے اور وہ درخت جسے قرآن میں ملعون ٹھہرایا گیا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کی آزمائش قراردیا اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ تو ان کی بڑی سرکشی میں اضافے کا سبب بنتا جاتا ہے۔٭
٦١۔ اور (یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے کہا:آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے کہا: کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے ؟
٦٢۔ پھر کہا: مجھے بتاؤ! یہی ہے وہ جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے؟ اگر تو نے مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دی تو قلیل تعداد کے سوا میں اس کی سب اولاد کی جڑیں ضرور کاٹ دوں گا۔
٦٣۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا : دور ہوجا! ان میں سے جو کوئی تیری پیروی کر ے گا تو تم سب کے لیے جہنم کی سزا ہی یقینا مکمل سزا ہے۔
٦٤۔ اور ان میں سے تو جس جس کو اپنی آواز سے لغزش سے دوچار کر سکتا ہے کر اور اپنے سواروں اور پیادوں کے ساتھ ان پر چڑھائی کر دے اور ان کے اموال اور اولاد میں ان کا شریک بن جا اور انہیں (جھوٹے) وعدوں میں لگا رکھ اور شیطان سوائے دھوکے کے انہیں اور کوئی وعدہ نہیں دیتا۔٭
٦٥۔ میرے بندوں پر تیری کوئی بالادستی نہیں ہے اور آپ کا پروردگار ہی ضمانت کے لیے کافی ہے۔٭
٦٦۔ تمہارا پروردگار وہ ہے جو سمندر میں تمہارے لیے کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل (روزی) تلا ش کرو، اللہ تم پر یقینا نہایت مہربان ہے۔
٦٧۔ او ر جب سمندر میں تمہیں کوئی حادثہ پیش آتا ہے توسوائے اللہ کے جن جن کو تم پکارتے تھے وہ سب ناپید ہو جاتے ہیں پھر جب اللہ تمہیں خشکی کی طرف نجات دیتا ہے تو تم منہ موڑنے لگتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ثابت ہوا ہے ۔
٦٨۔تو کیا تم اس بات سے خائف نہیں ہو کہ اللہ تمہیں خشکی کی طرف زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھر برسانے والی آندھی چلا دے، پھر تم اپنے لیے کوئی ضامن نہیںپاؤ گے۔٭
٦٩۔ آیا تمہیں اس بات کا خوف نہیں کہ اللہ تمہیں دوبارہ سمندر کی طرف لے جائے پھر تم پر تیز ہوا چلا دے پھر تمہارے کفر کی پاداش میں تمہیں غرق کر دے؟ پھر تمہیں اپنے لیے اس بات پر ہمارا پیچھا کرنے والا کوئی نہ ملے گا۔٭
٧٠۔ اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔٭
٧١۔ قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے پھر جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا پس و ہ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور ان پرذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔٭
٧٢۔ اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میںبھی اندھا ہی رہے گا بلکہ (اندھے سے بھی) زیادہ گمراہ ہو گا۔٭
٧٣۔ اور (اے رسول) یہ لوگ آپ کو اس وحی سے منحرف کرنے کی کو شش کر رہے تھے جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے تاکہ آپ (وحی سے ہٹ کر) کوئی اور بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کریں اس صورت میں وہ ضرور آپ کو دوست بنا لیتے.
٧٤۔ اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بلاشبہ آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہوجاتے۔٭
٧٥۔ اس صورت میں ہم آپ کو زندگی میں بھی دوہرا عذاب اور آخرت میں بھی دوہرا عذاب چکھا دیتے پھر آپ ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ پاتے۔
٧٦۔ اور قریب تھا کہ یہ لوگ آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑ دیں تاکہ آپ کو یہاں سے نکال دیں اور اگریہ ایسا کریں گے توآپ کے بعد یہ زیادہ دیر یہاں نہیںٹھہر سکیں گے۔٭
٧٧۔ یہ ہمارا دستور ہے جو ان تمام رسولوں کے ساتھ رہا ہے جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔
٧٨۔ زوال آفتا ب سے لے کر رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب و عشاء کی) نماز قائم کرو اور فجر کی نماز بھی کیونکہ فجر کی نماز (ملائکہ کے) حضور کا وقت ہے.٭
٧٩۔ اور رات کا کچھ حصہ قرآن کے ساتھ بیداری میں گزارو، یہ ایک زائد (عمل) صرف آپ کے لیے ہے، امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا.٭
٨٠۔ اور یوں کہیے: پروردگارا! تو مجھے (ہر مرحلہ میں ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور سچائی کے ساتھ (اس سے) نکال اور اپنے ہاں سے مجھے ایک قوت عطا فرما جو مددگار ثابت ہو۔
٨١۔ اور کہدیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔٭
٨٢۔ اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے تو شفا اور رحمت ہے لیکن ظالموں کے لیے تو صرف خسارے میں اضافہ کرتی ہے۔٭
٨٣۔ اور جب ہم انسان کو نعمتوں سے نوازتے ہیں تو وہ روگردانی کرتا ہے اور اپنی کروٹ پھیر لیتا ہے اور جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے۔
٨٤۔کہدیجیے: ہر شخص اپنے مزاج و طبیعت کے مطابق عمل کرتا ہے، پس تمہارا رب بہتر علم رکھتا ہے کہ کون بہترین راہ ہدایت پر ہے۔٭
٨٥۔ اور لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: روح میرے رب کے امر سے متعلق (ایک راز) ہے اور تمہیں تو بہت کم علم دیاگیا ہے۔٭
٨٦۔ اور اگر ہم چاہیں تو ہم نے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی ہے وہ سب سلب کر لیں، پھر آپ کو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔٭
٨٧۔ سوائے آپ کے رب کی رحمت کے، آپ پر یقینا اس کا بڑا فضل ہے۔
٨٨۔ کہدیجئے: اگر انسان اور جن سب مل کر اس قرآن کی مثل لانے کی کوشش کریں تو وہ اس کی مثل لا نہیں سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔
٨٩۔ اور بتحقیق ہم نے اس قرآن میں ہر مضمون کو لوگوں کے لیے مختلف انداز میں بیان کیا ہے لیکن اکثر لوگ کفر پر ڈٹ گئے۔
٩٠۔ اور کہنے لگے: ہم آپ پر ایمان نہیں لاتے جب تک آپ ہمارے لیے زمین کو شگافتہ کر کے ایک چشمہ جاری نہ کریں۔
٩١۔ یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایسا باغ ہو جس کے درمیان آپ نہریں جاری کریں۔
٩٢۔ یا آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں جیساکہ خو دآپ کا زعم ہے یا خود اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں۔
٩٣۔ یا آپ کے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک آپ ہمارے لیے ایسی کتاب اپنے ساتھ اتار نہ لائیں جسے ہم پڑھیں، کہدیجئے: پاک ہے میرا رب، میں توصرف پیغام پہنچانے والا انسان ہوں۔٭
٩٤۔ اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو اس پر ایمان لانے میںاور کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ کہتے تھے: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟
٩٥۔ کہدیجئے: اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے بس رہے ہوتے تو ہم آسمان سے ایک فرشتے کو رسول بنا کر ان پر نازل کرتے ۔٭
٩٦۔ کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ کافی ہے، وہی اپنے بندوں کا حال یقینا خوب جانتا اور دیکھتا ہے۔٭
٩٧۔ اور ہدایت یافتہ وہ ہے جس کی اللہ ہدایت کرے اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو آپ اللہ کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں پائیں گے اور قیامت کے دن ہم انہیں اوندھے منہ اندھے اور گونگے اور بہرے بناکر اٹھائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا، جب آگ فرو ہونے لگے گی تو ہم اسے ان پر اور بھڑکائیںگے۔٭
٩٨۔ یہ ان کے لیے اس بات کا بدلہ ہے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کا انکار کیا اور کہا: کیا جب ہم ہڈیاں اور خاک ہو جائیں گے تو کیا پھر ہم نئے سرے سے خلق کر کے اٹھائیں گے؟
٩٩۔ کیاانہوںنے یہ نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے پر قادر ہے؟اور اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں لیکن ظالم لوگ انکار پر تلے ہوئے ہیں۔٭
١٠٠۔کہدیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں پراختیار رکھتے تو تم خرچ کے خوف سے انہیں روک لیتے اور انسان بہت (تنگ دل) واقع ہوا ہے۔٭
١٠١۔اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو نو (٩) واضح نشانیاں دی تھیں یہ بات خود بنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے، جب موسیٰ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان (موسیٰ) سے کہا: اے موسی! میرا خیال ہے کہ تم سحرزدہ ہو گئے ہو۔٭
١٠٢۔ موسیٰ نے کہا: (اے فرعون دل میں) تو یقینا جانتا ہے کہ ان نشانیوں کو آسمانوں اور زمین کے پروردگار نے ہی بصیرت افروز بنا کر نازل کیا ہے اور اے فرعون! میرا خیال ہے کہ توہلاک ہوجائے گا۔
١٠٣۔ پس فرعون نے ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں زمین سے ہٹا دے مگر ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک ہی ساتھ غرق کر دیا۔
١٠٤۔ اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا: تم اس سرزمین میں سکونت اختیار کرو پھر جب آخرت کا وعدہ آ جائے گا تو ہم تم سب کو ایک ساتھ لے آئیں گے۔
١٠٥۔ اور اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور اسی حق کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے اور (اے رسول) ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔
١٠٦۔ اور قرآن کو ہم نے جدا جدا رکھا ہے تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل کیا ہے۔ ٭
١٠٧۔ کہدیجئے: تم خواہ ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ، اس سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب یہ پڑھ کرانہیں سنایا جاتا ہے تو یقینا وہ ٹھوڑیوںکے بل سجدے میںگرپڑتے ہیں.٭
١٠٨۔ اور کہتے ہیں: پاک ہے ہمارا پروردگار اور ہمارے پروردگار کا وعدہ پورا ہوا۔٭
١٠٩۔ اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں اور روتے جاتے ہیں اور ان کا خشوع مزید بڑھا دیتا ہے ۔
١١٠۔ کہدیجئے: اللہ کہ کر پکارو یا رحمن کہ کر پکارو، جس نام سے بھی پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں اور آپ اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھیں، نہ بہت آہستہ بلکہ درمیانی راستہ اختیار کریں۔٭
١١١۔ اور کہدیجئے: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ وہ ناتواں ہے کہ کوئی اس کی سرپرستی کرے اور اس کی بڑا ئی کماحقہ بیان کرو۔٭
 

صرف علی

محفلین
18 سورۃ کہف ۔ مکی۔ آیات ١١٠​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی قسم کی کجی نہیں رکھی۔٭
٢۔ نہایت مستحکم ہے تاکہ اس کی طرف سے آنے والے شدید عذاب سے خبردار کرے اور ان مومنین کو بشارت دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لیے بہتر اجر ہے۔
٣۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیںگے۔
٤۔اور انہیں تنبیہ کرے جو کہتے ہیںکہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے۔٭
٥۔ اس بات کا علم نہ انہیںہے اور نہ ان کے باپ دادا کو، یہ بڑی (جسارت کی) بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، یہ تومحض جھوٹ بولتے ہیں۔٭
٦۔ پس اگر یہ لوگ اس (قرآنی) مضمون پر ایمان نہ لائے توان کی وجہ سے شاید آپ اس رنج میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔٭
٧۔ روئے زمین پر جو کچھ موجود ہے اسے ہم نے زمین کے لیے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سب سے اچھا عمل کرنے ولا کون ہے ۔٭
٨۔ اوراس پر جو کچھ ہے اسے ہم (کبھی) بنجر زمین بنانے والے ہیں۔٭
٩۔ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار اور کتبے والے ہماری قابل تعجب نشانیوں میں سے تھے؟٭
١٠۔ جب ان جوانوں نے غار میںپناہ لی تو کہنے لگے: اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بارگاہ سے رحمت عنایت فرما اور ہمیں ہمارے اقدام میں کامیابی عطا فرما۔
١١۔ پھر کئی سالوں تک غار میں ہم نے ان کے کانوں پر (نیند کا) پردہ ڈال دیا۔
١٢۔ پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم دیکھ لیں کہ ان دو جماعتوں میں سے کون ان کی مدت قیام کا بہتر شمار کرتی ہے۔
١٣۔ ہم آپ کو ان کا حقیقی واقعہ سناتے ہیں، وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے انہیں مزید ہدایت دی۔٭
١٤۔ اور جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا پس انہوں نے کہا: ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے، (اگر ہم ایسا کریں) تو ہماری یہ بالکل نامعقول بات ہو گی۔
١٥۔ ہماری اس قوم نے تو اللہ کے سوا اوروں کو معبود بنایا ہے، یہ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوںنہیں لائے؟ پس اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنے والوں سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتاہے؟
١٦۔ اور جب تم نے مشرکین اور اللہ کے سوا ان کے معبودوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے تو غار میں چل کر پناہ لو، تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے معاملات میں تمہارے لیے آسانی فراہم کرے گا۔
١٧۔ اور آپ دیکھتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتاہے تو ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جاتا ہے اور جب غروب ہو تا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا جاتاہے اور وہ غار کی کشادہ جگہ میں ہیں،۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے، جسے اللہ ہدایت کرے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے آپ سرپرست و رہنما نہ پائیں گے۔٭
١٨۔ اور آپ خیال کریں گے کہ یہ بیدار ہیں حالانکہ وہ سو رہے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے رہتے ہیں اور ان کا کتا غار کے دھانے پر دونوں ٹانگیں پھیلائے ہوئے ہے اگر آپ انہیں جھانک کر دیکھیں توان سے ضرور الٹے پاؤں بھاگ نکلیں اور ان کی دہشت آپ کو گھیر لے۔٭
١٩۔ اسی انداز سے ہم نے انہیں بیدار کیا تاکہ یہ آپس میں پوچھ گچھ کر لیں، چنانچہ ان میں سے ایک نے پوچھا: تم لوگ یہاں کتنی دیر رہے ہو؟ انہوںنے کہا: ایک دن یا اس سے بھی کم، انہوں نے کہا : تمہارا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی مدت رہے ہو پس تم اپنے میں سے ایک کو اپنے اس سکے کے ساتھ شہر بھیجو اور وہ دیکھے کہ کون سا کھانا سب سے ستھرا ہے پھر وہاں سے کچھ کھانا لے آئے اور اسے چاہیے کہ وہ ہوشیاری سے جائے اور کسی کوتمہاری خبر نہ ہونے دے۔٭
٢٠۔ کیونکہ اگر وہ تم پر غالب آ گئے تو وہ تمہیں سنگسار کر دیںگے یا اپنے مذہب میں پلٹائیںگے اور اگر ایسا ہوا تو تم ہرگز فلاح نہیں پاؤ گے۔
٢١۔ اور اس طرح ہم نے (لوگوں کو) ان سے باخبر کر دیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (کے آنے) میں کوئی شبہ نہیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو کچھ نے کہا: ان (کے غار) پر عمارت بنا دو، ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے، جنہوںنے ان کے بارے میں غلبہ حاصل کیا وہ کہنے لگے: ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد بناتے ہیں۔٭
٢٢۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین ہیں، چوتھا ان کا کتا ہے اور کچھ کہیں گے کہ وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتاہے، یہ سب دیکھے بغیر اندازے لگا رہے ہیں اور کچھ کہیںگے: وہ سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے، کہدیجئے: میرا رب ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے ان کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہیں لہٰذا آپ ان کے بارے میں سطحی گفتگو کے علاوہ کوئی بحث نہ کریں اور نہ ہی ان کے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ دریافت کریں۔٭
٢٣۔اور آپ کسی کام کے بارے میں ہرگز یہ نہ کہیں کہ میں اسے کل کروںگا،٭
٢٤۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے اور اگر آپ بھول جائیں تو اپنے پروردگار کو یاد کریں اور کہدیجیے: امید ہے میرا رب اس سے قریب تر حقیقت کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا۔٭
٢٥۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو کا اضافہ کیا۔٭
٢٦۔ آپ کہدیجئے: ان کے قیام کی مدت اللہ بہتر جانتا ہے، آسمانوں اور زمین کی غیبی باتیں صرف وہی جانتا ہے، وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے، اس کے سوا ان کا کوئی سرپرست نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو اپنی حکومت میں شریک کرتا ہے۔
٢٧۔(اے رسول) آپکے پروردگار کی کتاب کے ذریعے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھ کرسنا دیں کوئی اس کے کلمات کو بدلنے والا نہیں ہے اور نہ ہی آپ اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ پائیں گے۔
٢٨۔ اور (اے رسول) اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت میں محدود رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اپنی نگاہیں ان سے نہ پھیریں، کیا آپ دنیاوی زندگی کی آرائش کے خواہشمند ہیں؟ اور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیاہے اور جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حدسے گزرا ہوا ہے۔٭
٢٩۔ اور کہدیجئے: حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، ہم نے ظالموں کے لیے یقینا ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیرے میںلے رہی ہوں گی اور اگر وہ فریاد کریںتو ایسے پانی سے ان کی داد رسی ہو گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا بدترین مشروب اور بدترین جائے گاہ ہے۔٭
٣٠۔ جو ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں تو ہم نیک اعمال بجا لانے والوں کا اجر ضائع نہیںکرتے ۔٭
٣١۔ ان کے لیے دائمی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ سونے کے کنگنوں سے مزین ہوں گے اور باریک ریشم اور اطلس کے سبز کپڑوں میں ملبوس مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، بہترین ثواب ہے اور خوبصورت منزل.٭
٣٢۔ اور (اے رسول) ان سے دو آدمیوں کی ایک مثال بیان کریںجن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عطا کیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگا دی اور دونوں کے درمیان کھیتی بنائی تھی۔٭
٣٣۔ دونوں باغوں نے خوب پھل دیا اور ذرا بھی کمی نہ کی اور ان کے درمیان ہم نے نہر جاری کی۔
٣٤۔ اور اسے پھل ملتا رہتا تھا، پس باتیں کرتے ہوئے اس نے اپنے ساتھی سے کہا: میں تم سے زیادہ مالدار ہوں اور افرادی قوت میں بھی زیادہ معزز ہوں۔٭
٣٥۔ اور وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا، کہنے لگا:میںنہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی فنا ہو جائے گا۔
٣٦۔ اور میںخیال نہیں کرتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر مجھے میرے رب کے حضور پلٹا دیا گیا تو میں ضرور اس سے بھی اچھی جگہ پاؤ ں گا۔٭
٣٧۔ اس سے گفتگو کرتے ہوئے اس کے ساتھی نے کہا : کیا تو اس اللہ کا انکارکرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا پھر تجھے ایک معتدل مرد بنایا؟٭
٣٨۔ لیکن میرا رب تو اللہ ہی ہے اور میںاپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔٭
٣٩۔ اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہیں کہا: ما شآء اللّٰہ لا قوۃ الا باللّٰہ؟ (ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہے طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ ہے) اگر تو مجھے مال اور اولاد میںاپنے سے کمتر سمجھتا ہے،٭
٤٠۔تو بعید نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تیرے باغ سے بہتر عنایت فرمائے اور تیرے باغ پر آسمان سے آفت بھیج دے اور وہ صاف میدان بن جائے۔٭
٤١۔ یا اس کا پانی نیچے اتر جائے پھر تو اسے طلب بھی نہ کر سکے۔٭
٤٢۔ چنانچہ اس کے پھلوں کو (آفت نے) گھیر لیا پس وہ اپنے باغ کو اپنی چھتوں پر گرا پڑا دیکھ کر اس سرمائے پر کف افسوس ملتا رہ گیا جو اس نے اس باغ پر لگایا تھا اور کہنے لگا: اے کاش! میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ۔٭
٤٣۔اور ۔(ہوا بھی یہی ہے کہ) اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کے لیے مددگار ثابت نہ ہوئی اور نہ ہی وہ بدلہ لے سکا۔٭
٤٤۔ یہاں سے عیاں ہوا کہ اقتدار تو خدائے برحق کے لیے مختص ہے، اس کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا انجام اچھا ہے۔٭
٤٥۔ اور ان کے لیے دنیاوی زندگی کی یہ مثال پیش کریں: یہ زندگی اس پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی روئیدگی گھنی ہو گئی پھر وہ ریزہ ریزہ ہو گئی، ہوائیں اسے اڑاتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
٤٦۔ مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اور ہمیشہ باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے پروردگارکے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور امید کے اعتبار سے بھی بہترین ہیں۔٭
٤٧۔ اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین کو آپ صاف میدان دیکھیں گے اور سب کو ہم جمع کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
٤٨۔ اور وہ صف در صف تیرے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے (تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا) تم اسی طرح ہمارے پاس آ گئے ہو جیساکہ ہم نے پہلی بار تمہیں خلق کیا تھا، بلکہ تمہیں تو گمان تھا کہ ہم نے تمہارے لیے وعدے کا کوئی وقت مقرر نہیں کیا ہے۔
٤٩۔ اور نامہئ اعمال (سامنے) رکھ دیاجائے گا، اس وقت آپ دیکھیں گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر ڈر رہے ہیں اور یہ کہ رہے ہیں: ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامہئ اعمال ہے؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کر لیا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ان سب کو حاضر پائیں گے اور آپ کا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔٭
٥٠۔ اور (یہ بات بھی) یاد کریں جب ہم نے فرشتوں سے کہا:آدم کوسجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ جنات میں سے تھا، پس وہ اپنے رب کی اطاعت سے خارج ہو گیا، تو کیا تم لوگ میرے سوا اسے اور اس کی نسل کو اپنا سرپرست بناؤ گے حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟یہ ظالموں کے لیے برا بدل ہے۔٭
٥١۔ میں نے انہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا مشاہدہ نہیں کرایا اور نہ خود ان کی اپنی تخلیق کا اور میں کسی گمراہ کرنے والے کو اپنا مددگار بنانے والا نہیں ہوں۔٭
٥٢۔ اور جس دن اللہ فرمائے گا: انہیں بلاؤ جنہیں تم نے شریک ٹھہرایا تھا تو وہ انہیں بلائیں گے لیکن وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور ہم ان کے درمیان ہلاکت کی ایک جگہ بنا دیں گے۔
٥٣۔ اور مجرمین اس دن آتش جہنم کا مشاہدہ کریں گے اور سمجھ جائیں گے کہ انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔
٥٤۔ اور بتحقیق ہم نے اس قرآن میں انسانوں کے لیے ہر مضمون کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو (ثابت ہوا ) ہے۔
٥٥۔ اور جب ان کے پاس ہدایت آ گئی تھی تو ایمان لانے اور اپنے پروردگار سے معافی طلب کرنے سے لوگوںکو کسی چیز نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جائے جو ان سے پہلوں کے ساتھ ہوا یا ان کے سامنے عذاب آ جائے۔٭
٥٦۔ اور ہم پیغمبروں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور تنبیہ کریں اور کفار باطل باتوں کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں تاکہ وہ اس طرح حق بات کو مسترد کر دیں، انہوںنے میری آیات کو اور ان باتوں کو جن کے ذریعے انہیں تنبیہ کی گئی تھی مذاق بنا لیا۔
٥٧۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی تو اس نے ان سے منہ پھیر لیا اور جو ان گناہوں کو بھول گیا جنہیں وہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا تھا؟ ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر یقینا پردے ڈال دیے ہیں تاکہ وہ سمجھ ہی نہ سکیں اور ان کے کانوں کو سنگین کر دیا ہے (تاکہ وہ سن نہ سکیں) اور اب اگرآپ انہیں ہدایت کی طرف بلائیں بھی تو یہ کبھی راہ راست پر نہیں آئیں گے۔٭
٥٨۔ اور آپ کا پروردگار بڑا بخشنے والا، رحمت کا مالک ہے، اگر وہ ان کی حرکات پر انہیں گرفت میں لینا چاہتا تو انہیں جلد ہی عذاب دے دیتا لیکن ان کے لیے وعدے کا وقت مقرر ہے، وہ (اس سے بچنے کے لیے) اس کے سوا کوئی پناہ گاہ ہرگز نہیں پائیں گے۔٭
٥٩۔ اور ان بستیوں کو ہم نے اس وقت ہلاکت میں ڈال دیا جب انہوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے بھی ایک وقت مقرر کر رکھا تھا۔٭
٦٠۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا: جب تک میں دونوں سمندروں کے سنگم پر نہ پہنچوں اپنا سفر جاری رکھوں گا خواہ برسوں چلتا رہوں۔٭
٦١۔ جب وہ ان دونوں کے سنگم پر پہنچ گئے تو وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے تو اس مچھلی نے چیر کر سمندرمیں اپنا راستہ بنا لیا ۔٭
٦٢۔جب وہ دونوں آگے نکل گئے تو موسیٰ نے اپنے جوان سے کہا : ہمارا کھانا لاؤ ہم اس سفر سے تھک گئے۔
٦٣۔ جوان نے کہا: بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی وہیں بھول گیا؟ اور مجھے شیطان کے سوا کوئی نہیں بھلا سکتا کہ میں اسے یاد کروں اور اس مچھلی نے تو عجیب طریقے سے دریا میں اپنی راہ بنائی ۔٭
٦٤۔ موسیٰ نے کہا: یہی تو ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، چنانچہ وہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس ہوئے۔
٦٥۔ وہاں ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے (خضر) کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اپنی طرف سے علم سکھایا تھا۔٭
٦٦۔ موسیٰ نے اس سے کہا :کیا میں آپ کے پیچھے چل سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ مفید علم سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے؟٭
٦٧۔ اس نے جواب دیا، آپ میرے ساتھ صبر نہیںکرسکیں گے۔
٦٨۔ اور اس بات پر بھلا آپ کیسے صبر کر سکتے ہیں جو آپ کے احاطہ علم میں نہیں ہے؟٭
٦٩۔ موسیٰ نے کہا: انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔٭
٧٠۔ اس نے کہا: اگر آپ میرے پیچھے چلنا چاہتے ہیں تو آپ اس وقت تک کوئی بات مجھ سے نہیں پوچھیں گے جب تک میں خود اس کے بارے میں آپ سے ذکر نہ کروں۔٭
٧١۔ چنانچہ دونوں چل پڑے یہاںتک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہوئے تو اس نے کشتی میں شگاف ڈال دیا، موسیٰ نے کہا: کیا آپ نے اس میں شگاف اس لیے ڈالا ہے کہ سب کشتی والوںکو غرق کر دیں؟ یہ آپ نے بڑا ہی نامناسب اقدام کیا ہے٭
٧٢۔اس نے کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے؟
٧٣۔موسیٰ نے کہا: مجھ سے جو بھول ہوئی ہے اس پر آپ میرا مؤاخذہ نہ کریں اور میرے اس معاملے میں مجھے سختی میں نہ ڈالیں.٭
٧٤۔پھر روانہ ہوئے یہاں تک کہ وہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس نے لڑکے کو قتل کر دیا، موسیٰ نے کہا : کیا آپ نے ایک بے گناہ کو بغیر قصاص کے مار ڈالا؟ یہ تو آپ نے واقعی برا کام کیا۔٭
 

صرف علی

محفلین
پارہ : قَالَ اَلَمَ 16​
٧٥۔ اس نے کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے؟
٧٦۔موسیٰ نے کہا: اگر اس کے بعد میں نے آپ سے کسی بات پر سوال کیا تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں میری طرف سے آپ یقینا عذر کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔
٧٧۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک بستی والوں کے ہاں پہنچ گئے تو ان سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے ان کی پذیرائی سے انکار کر دیا، پھر ان دونوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی پس اس نے اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے سکتے تھے۔ ٭
٧٨۔ انہوں نے کہا: (بس) یہی میری اور آپ کی جدائی کا لمحہ ہے، اب میں آپ کو ان باتوں کی تاویل بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔٭
٧٩۔ وہ کشتی چند غریب لوگوں کی تھی جو سمندر میں محنت کرتے تھے، میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنا دوں کیونکہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر (سالم )کشتی کوجبراً چھین لیتا تھا۔
٨٠۔ اور لڑکے (کا مسئلہ یہ تھاکہ اس) کے والدین مؤمن تھے اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ لڑکا انہیں سرکشی اورکفر میں مبتلا کر دے گا.
٨١۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا رب انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دے جو پاکیزگی میں اس سے بہتر اور محبت میں اس سے بڑھ کر ہو ۔
٨٢۔ اور (رہی) دیوار تو وہ اسی شہرکے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ موجود تھا اور ان کا باپ نیک شخص تھا، لہٰذا آپ کے رب نے چاہا کہ یہ دونوں اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور آپ کے رب کی رحمت سے اپنا خزانہ نکالیں اور یہ میں نے اپنی جانب سے نہیں کیا، یہ ہے ان باتوں کی تاویل جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔ ٭
٨٣۔ اور لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میںپوچھتے ہیں، کہدیجئے: جلد ہی اس کا کچھ ذکر تمہیں سناؤں گا۔٭
٨٤۔ بے شک ہم نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا اور ہم نے ہر شے کے (مطلوبہ) وسائل بھی اسے فراہم کیے۔
٨٥۔ چنانچہ پھر وہ راہ پر ہو لیا۔
٨٦۔ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اس نے سورج کو سیاہ رنگ کے پانی میں غروب ہوتے دیکھا اور اس کے پاس اس نے ایک قوم کو پایا، ہم نے کہا: اے ذوالقرنین! انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو (تمہیں اختیار ہے)۔٭
٨٧۔ ذوالقرنین نے کہا: جو ظلم کا ارتکاب کرے گا عنقریب ہم اسے سزا دیں گے پھر جب وہ اپنے پروردگار کی طرف پلٹایا جائے گا تووہ اسے برا عذاب دے گا۔
٨٨۔ لیکن جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو اسے بہت اچھا اجر ملے گا اور ہم بھی اپنے معاملات میں اس سے نرمی کے ساتھ بات کریں گے ۔
٨٩۔ پھر وہ راہ پر ہو لیا ۔
٩٠۔ یہاں تک کہ جب وہ طلوع آفتا ب کی جگہ پہنچا تو دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جن کے لیے ہم نے آفتاب سے بچنے کی کوئی آڑ نہیں رکھی۔٭
٩١۔ اسی طرح (کا حال تھا) اور جو کچھ ان کے پاس تھا ہمیںاس کی مکمل خبر تھی۔
٩٢۔ پھر وہ راہ پر ہو لیا۔
٩٣۔ یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان دونوں پہاڑوں کے اس طرف ایک ایسی قوم ملی جو کوئی بات سمجھنے کے قابل نہ تھی۔٭
٩٤۔ لوگوں نے کہا: اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج یقینا اس سرزمین کے فسادی ہیں کیا ہم آپ کے لیے کچھ سامان کا انتظام کریں تاکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند باندھ دیں؟٭
٩٥۔ ذوالقرنین نے کہا : جو طاقت میرے رب نے مجھے عنایت فرمائی ہے وہ بہتر ہے، لہٰذا تم محنت کے ذریعے میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان بند باندھ دوں گا۔٭
٩٦۔ تم مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو، یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کی درمیانی فضا کو برابر کر دیا تو اس نے لوگوں سے کہا: آگ پھونکو یہاں تک کہ جب اسے بالکل آگ بنا دیا تو اس نے کہا: اب میرے پاس تانبا لے آؤ تاکہ میں اس (دیوار) پر انڈیلوں۔٭
٩٧۔ اس کے بعد وہ نہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ ہی اس میںنقب لگا سکیں۔
٩٨۔ ذوالقرنین نے کہا : یہ میرے رب کی طرف سے رحمت ہے لہٰذا جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اسے زمین بوس کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے ۔٭
٩٩۔ اور اس دن ہم انہیں ایسے حال میںچھوڑ دیں گے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہو جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا پھر ہم سب کو ایک ساتھ جمع کریںگے۔
١٠٠۔ اور اس دن ہم جہنم کو کافروں کے سامنے پیش کریںگے۔
١٠١۔ جن کی نگاہیں ہماری یاد سے پردے میں پڑی ہوئی تھیں اور وہ کچھ سن بھی نہیں سکتے تھے۔٭
١٠٢۔ کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو سرپرست بنائیں گے؟ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے مہمان سرا بنا کر تیار رکھا ہے۔٭
١٠٣۔ کہدیجئے: کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے نامراد کون لوگ ہیں؟٭
١٠٤۔ جن کی سعی دنیاوی زندگی میں لاحاصل رہی جب کہ وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ درست کام کر رہے ہیں۔٭
١٠٥۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے اپنے پروردگار کی نشانیوں اور اللہ کے حضور جانے کاانکار کیا جس سے ان کے اعمال برباد ہو گئے لہٰذا ہم قیامت کے دن ان کے (اعمال کے) لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے.٭
١٠٦۔ ان کے کفر کرنے اور ہماری آیات اور رسولوں کا استہزاء کرنے کی وجہ سے ان کی سزا یہی جہنم ہے۔٭
١٠٧۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں ان کی میزبانی کے لیے یقینا جنت الفردوس ہے ۔٭
١٠٨۔ جہاںوہ ہمیشہ رہیں گے، وہاںسے کہیں اور جانا پسند نہیںکریں گے۔
١٠٩۔ کہدیجئے: میرے پروردگار کے کلمات (لکھنے) کے لیے اگرسمندر روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے اگرچہ ہم اتنے ہی مزید (سمندر) سے کمک رسانی کریں.٭
١١٠۔ کہدیجئے: میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں مگر میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود تو بس ایک ہی ہے لہٰذا جو اللہ کے حضور جانے کا امیدوار ہے اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرائے۔٭

19 سورۃ مریم ۔ مکی ۔ آیات ٩٨​
بنام خدائے رحمن ورحیم
١۔ کاف ، ہا، یا ، عین ، صاد ۔
٢۔ یہ اس رحمت کا ذکر ہے جو آپ کے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔٭
٣۔جب انہوںنے اپنے رب کودھیمی آواز میں پکارا ۔٭
٤۔عرض کی: پروردگارا! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور بڑھاپے کی وجہ سے سر کے سفید بال چمکنے لگے ہیں اور اے میرے رب! میں تجھ سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہا۔٭
٥۔ اور میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما۔
٦۔جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور میرے پروردگار! اسے۔ (اپنا) پسندیدہ بنا۔
٧۔ (جواب ملا) اے زکریا! ہم آپ کو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کانام یحییٰ ہے، اس سے پہلے ہم نے کسی کو اس کا ہمنام نہیں بنایا۔٭
٨۔ عرض کی: پروردگارا! میرے ہاں بیٹا کس طرح ہو گا جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بھی بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں؟٭
٩۔ فرمایا: اسی طرح ہو گا، آپ کے پروردگار کا ارشاد ہے: یہ تو میرے لیے آسان ہے، چنانچہ اس سے پہلے خود آپ کو بھی تو میں نے پیدا کیا جب کہ آپ کوئی چیز نہ تھے.٭
١٠۔ کہا: اے پروردگار! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما، فرمایا: آپ کی نشانی یہ ہے کہ آپ تندرست ہوتے ہوئے بھی (کامل) تین راتوں تک لوگوں سے بات نہ کر سکیں گے۔
١١۔ پھر وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اشارتاً کہا: صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔
١٢۔ اے یحییٰ!کتاب (خدا)کو محکم تھام لو اور ہم نے انہیں بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی۔٭
١٣۔اور اپنے ہاں سے مہر و پاکیزگی دی تھی اور وہ پرہیز گار تھے۔
١٤۔ اور وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش و نافرمان نہیں تھے۔
١٥۔ اور سلام ہو ان پر جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن انہوں نے وفات پائی اور جس دن انہیں زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔٭
١٦۔ اور (اے رسول!) اس کتاب میںمریم کا ذکر کیجیے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔٭
١٧۔ پھر انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا پس ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا، پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔
١٨۔ مریم نے کہا: اگر تو پرہیزگار ہے تو میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔
١٩۔ اس نے کہا: میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔٭
٢٠۔ مریم نے کہا : میرے ہاں بیٹاکیسے ہو گا؟ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔
٢١۔ فرشتے نے کہا: اسی طرح ہو گا، آپ کے پروردگار نے فرمایا: یہ تومیرے لیے آسان ہے اور یہ اس لیے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لیے نشانی قرار دیں اور ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ ہے۔
٢٢۔ اور مریم اس بچے سے حاملہ ہوگئیں اور وہ اسے لے کر دور چلی گئیں۔
٢٣۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگیں: اے کاش! میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔٭
٢٤۔ فرشتے نے مریم کے پائین پا سے آواز دی: غم نہ کیجیے! آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک نہر جاری کی ہے۔٭
٢٥۔ اور کھجور کے تنے کو ہلائیں کہ آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ ٭
٢٦۔ پس آپ کھائیں اور پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہدیں: میں نے رحمن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے اس لیے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔٭
٢٧۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں، لوگوں نے کہا: اے مریم! تو نے بہت غضب کی حرکت کی۔٭
٢٨۔ اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماںبدکردار تھی۔٭
٢٩۔ پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا لوگ کہنے لگے: ہم اس سے کیسے بات کریں جو بچہ ابھی گہوارے میںہے؟٭
٣٠۔ بچے نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔٭
٣١۔ اور میں جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایا ہے اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے ۔
٣٢۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔
٣٣۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا اور جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز زندہ کر کے اٹھایا جاؤںگا ۔
٣٤۔ یہ ہیں عیسی بن مریم، (اور یہ ہے) وہ حق بات جس میں لوگ شبہ کر رہے ہیں۔٭
٣٥۔ اللہ کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے، وہ (ایسی باتوں سے) پاک ہے، جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس سے فرماتا ہے: ہو جا سو وہ ہو جاتا ہے۔٭
٣٦۔ اور یقینا اللہ ہی میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے پس اس کی بندگی کرو، یہی راہ راست ہے۔٭
٣٧۔ مگر (مختلف) فرقوں نے باہم اختلاف کیا پس تباہی ان کافروں کے لیے ہو گی بڑے دن کے حاضر ہونے سے۔٭
٣٨۔ جس دن وہ ہمارے سامنے ہوں گے تو اس وقت کیا خوب سننے والے اور کیا خوب دیکھنے والے ہوںگے لیکن آج یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔٭
٣٩۔ اور (اے رسول) انہیں حسرت کے دن سے ڈرائیے جب قطعی فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور یہ ایمان نہیں لاتے۔٭
٤٠۔ اور ہم ہی زمین کے اور جو کچھ اس پر ہے سب کے وارث ہوں گے پھر وہ ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔
٤١۔ اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے، یقینا وہ بڑے سچے نبی تھے۔٭
٤٢۔ جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) سے کہا: اے ابا! آپ اسے کیوں پوجتے ہیں جو نہ سننے کی اہلیت رکھتا ہے اور نہ دیکھنے کی اور نہ ہی آپ کو کسی چیز سے بے نیاز کرتا ہے۔٭
٤٣۔ اے ابا! بتحقیق میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا پس آپ میری بات مانیں، میںآپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔٭
٤٤۔ اے ابا! شیطان کی پوجا نہ کریں کیونکہ شیطان تو خدائے رحمن کا نافرمان ہے۔٭
٤٥۔ اے ابا! مجھے خوف ہے کہ خدائے رحمن کا عذاب آپ کو گرفت میں لے لے، ایسا ہوا تو آپ شیطان کے دوست بن جائیں گے۔
٤٦۔ اس نے کہا: اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوںسے برگشتہ ہو گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کروں گا اور تو ایک مدت کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔٭
٤٧۔ ابراہیم نے کہا: آپ پر سلام ہو! میں آپ کے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا یقینا وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے.٭
٤٨۔ اور میں تم لوگوں سے نیز اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان سے علیحدہ ہو جاتا ہوں اورمیں اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا، مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے مانگ کر کبھی ناکام نہیں رہوں گا ۔
٤٩۔ پھر جب ابراہیم ان لوگوں سے اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پوجتے تھے ان سے کنارہ کش ہوئے تو ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے اور سب کو ہم نے نبی بنایا ۔٭
٥٠۔ اور ہم نے انہیں اپنی رحمت سے بھی نوازا اور انہیں اعلی درجے کا ذکر جمیل بھی عطا کیا ۔٭
٥١۔ اور اس کتاب میںموسیٰ کا ذکر کیجیے، وہ یقینا برگزیدہ نبی مرسل تھے۔٭
٥٢۔اور ہم نے انہیں طور کی داہنی جانب سے پکارا اور رازدار بنانے کے لیے انہیں قربت عطا کی۔
٥٣۔ اور ان کے بھائی ہارون کو ہم نے اپنی رحمت سے نبی بنا کر (بطور معاون) انہیں عطا کیا۔
٥٤۔ اور اس کتاب میں اسماعیل (بھی) کا ذکر کیجیے، وہ یقینا وعدے کے سچے اور نبی مرسل تھے۔٭
٥٥۔ وہ اپنے گھر والو ں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھے۔٭
٥٦۔ اور اس کتاب میںادریس کا (بھی) ذکر کیجیے، وہ یقینا راستگو نبی تھے۔٭
٥٧۔ اور ہم نے انہیں اعلیٰ مقام پر اٹھایا۔
٥٨۔ یہ وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایاجو اولاد آدم میں سے ہیں اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں اٹھایا اور ابراہیم و اسماعیل کی اولاد میں سے اور ان لوگوں میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی اور برگزیدہ کیا، جب ان پر رحمن کی آیات کی تلاوت کی جاتی تو وہ روتے ہوئے سجدے میں گرپڑتے۔٭
٥٩۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوںنے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے چل پڑے پس وہ عنقریب ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔٭
٦٠۔ مگر جو توبہ کریں، ایمان لائیں اور نیک اعمال بجا لائیں تو وہ جنت میںداخل ہوں گے اور ان پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا۔٭
٦١۔ ایسی جاودانی بہشت (میں) جس کا اللہ نے اپنے بندوں سے غیبی وعدہ فرمایا ہے، یقینا اس کا وعدہ آنے والا ہے۔٭
٦٢۔ وہاں وہ بیہودہ باتیں نہیں سنیں گے سوائے سلام کے اور وہاں انہیں صبح و شام رزق ملا کرے گا۔٭
٦٣۔ یہ وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے متقین کو بنائیں گے۔
٦٤۔ اور ہم (فرشتے)آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے، جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے۔٭
٦٥۔ وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کارب ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو، کیا اس کا کوئی ہمنام تمہارے علم میں ہے؟٭
٦٦۔ اور انسان کہتا ہے: جب میں مر جاؤں گا تو کیا میں زندہ کر کے نکالا جاؤں گا؟٭
٦٧۔ کیا اس انسان کو یاد نہیں کہ ہم نے اسے پہلے اس وقت پیدا کیا، جب وہ کچھ بھی نہ تھا؟
٦٨۔ آپ کے رب کی قسم! پھر ہم ان سب کو اور شیاطین کو ضرور جمع کریںگے پھر ہم انہیں جہنم کے گرد گھٹنوں کے بل ضرور حاضر کریں گے۔
٦٩۔ پھرہم ہر فرقے میں سے ہر اس شخص کو جدا کر دیں گے جو رحمن کے مقابلے میں زیادہ سرکش تھا۔٭
٧٠۔ پھر (یہ بات) ہم بہتر جانتے ہیں کہ جہنم میں جھلسنے کا زیادہ سزاوار ان میں سے کون ہے۔
٧١۔ اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہو گا جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ حتمی فیصلہ آپ کے رب کے ذمے ہے۔٭
٧٢۔ پھر اہل تقویٰ کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل پڑا چھوڑ دیں گے۔
٧٣۔ اور جب انہیں ہماری صریح آیات سنائی جاتی ہیں تو کفار اہل ایمان سے کہتے ہیں: دونوں فریقوں میں سے کون بہتر مقام پر (فائز) ہے اور کس کی محفلیں زیادہ بارونق ہیں؟٭
٧٤۔ اور ہم ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو سامان زندگی اور نمود میں اس سے کہیں بہترتھیں۔٭
٧٥۔ کہدیجئے: جو شخص گمراہی میں ہے اسے خدائے رحمن لمبی مہلت دیتا ہے لیکن جب وہ اس کا مشاہدہ کریں گے جس کا وعدہ ہوا تھا، خواہ وہ عذاب ہو یا قیامت تو اس وقت انہیں معلوم ہو گا کہ کس کا مقام زیادہ برا ہے اور کس کا لاؤ لشکر زیادہ کمزور ہے.٭
٧٦۔ اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ ان کی ہدایت میں اضافہ فرماتا ہے اور آپ کے پروردگار کے نزدیک باقی رہنے والی نیکیاں ثواب کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انجام کے لحاظ سے بھی بہترہیں۔٭
٧٧۔ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جوہماری آیات کاانکار کرتا ہے اور کہتا ہے: مجھے مال اور اولاد کی عطا ضرور بالضرور جاری رہے گی؟
٧٨۔ کیا اس نے غیب کی اطلاع حاصل کی ہے یا خدائے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے ؟
٧٩۔ ہرگز نہیں، جو کچھ یہ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے اور ہم اس کے عذاب میں مزید اضافہ کر دیں گے۔٭
٨٠۔ اور جو کچھ وہ کہتا ہے اس کے ہم مالک بن جائیںگے اور وہ ہمارے پاس اکیلا حاضر ہو گا۔٭
٨١۔ اور انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا لیے ہیں تاکہ ان کے لیے باعث تقویت بنیں ۔٭
٨٢۔ ہرگز نہیں، (کل) یہ سب ان کی عبادت ہی سے انکار کریں گے اور ان کے سخت مخالف ہوں گے۔
٨٣۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیاطین کو کفار پر مسلط کر رکھا ہے جو انہیں اکساتے رہتے ہیں؟٭
٨٤۔ پس آپ ان پر (عذاب کے لیے) عجلت نہ کریں، ہم ان کی گنتی یقینا پوری کریں گے۔
٨٥۔ اس روز ہم متقین کو خدائے رحمن کے پاس مہمانوں کی طرح جمع کریں گے۔٭
٨٦۔ اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے جانوروں کی طرح ہانک کر لے جائیں گے۔
٨٧۔ کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہو گا سوائے اس کے جس نے رحمن سے عہد لیا ہو۔٭
٨٨۔ اور وہ کہتے ہیں: رحمن نے کسی کو فرزند بنا لیا ہے۔
٨٩۔ بتحقیق تم بہت سخت بیہودہ بات (زبان پر) لائے ہو۔
٩٠۔ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر جائیں۔
٩١۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے فرزند (کی موجودگی) کا الزام لگایا ہے.٭
٩٢۔ اور رحمن کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔٭
٩٣۔ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس رحمن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ہو گا۔٭
٩٤۔ بتحقیق اس نے ان سب کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں شمار کر رکھا ہے۔٭
٩٥۔ اور قیامت کے دن ہر ایک کو اس کے سامنے تنہا حاضر ہونا ہے۔
٩٦۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں ان کے لیے رحمن عنقریب دلوں میںمحبت پیدا کرے گا۔٭
٩٧۔ (اے محمد) پس ہم نے یہ قرآن آپ کی زبان میں یقینا آسان کیا ہے تاکہ آپ اس سے صاحبان تقویٰ کو بشارت دیں اور جھگڑا لو قوم کی تنبیہ کریں۔
٩٨۔ اور ہم نے اس سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کیا ہے۔ کیا آج آپ کہیں بھی ان میں سے کسی ایک کا نشان پاتے ہیں یا ان کی کوئی آہٹ سنتے ہیں؟

20 سورۃ طہٰ ۔مکی ۔ آیات ١٣٥​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ طا، ہا۔ ٭
٢۔ ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔٭
٣۔ بلکہ یہ تو خوف رکھنے والوں کے لیے صرف ایک یاد دہانی ہے۔٭
٤۔ یہ اس کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمین اوربلند آسمانوں کو بنایا ہے۔
٥۔ وہ رحمن جس نے عرش پر اقتدار قائم کیا.٭
٦۔ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان اور جو کچھ زمین کی تہ میں ہے سب کا وہی مالک ہے۔
٧۔ اور اگر آپ پکار کر بات کریں تو وہ رازوں کو بلکہ اس سے زیادہ مخفی باتوں کو بھی یقینا جانتا ہے۔
٨۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، بہترین نام اسی کے ہیں۔٭
٩۔ اور کیا آپ تک موسیٰ کی خبر پہنچی ہے؟
١٠۔ جب انہوں نے ایک آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا: ٹھہر جاؤ ! میں نے کوئی آگ دیکھی ہے، شاید میں اس میں سے تمہارے لیے کوئی انگارے لے آؤں یا آگ پر پہنچ کر راستے کا پتہ کر لوں۔٭
١١۔ پھر جب وہ آگ کے پاس پہنچے تو آواز آئی: اے موسیٰ! ٭
١٢۔ میں ہی آپ کا رب ہوں، پس اپنی جوتیاں اتار دیں،بتحقیق آپ طویٰ کی مقدس وادی میں ہیں۔٭
١٣۔ اور میں نے آپ کومنتخب کر لیا ہے لہٰذا جو وحی کی جا رہی ہے اسے سنیں۔
١٤۔ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس صرف میری بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں۔٭
١٥۔ قیامت یقینا آنے والی ہے، میں اسے پوشیدہ رکھوں گا تاکہ ہر فرد کو اس کی سعی کے مطابق جزا ملے۔
١٦۔ پس جو شخص قیامت پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے کہیں وہ آپ کو اس راہ سے نہ روک دے، ایسا ہوا تو آپ ہلاک ہو جائیں گے۔
١٧۔ اور اے موسیٰ! یہ آپ کے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟
١٨۔ موسیٰ نے کہا : یہ میرا عصا ہے، اس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور میرے لیے اس میں کئی اور مفادات بھی ہیں۔
١٩۔ فرمایا: اسے موسیٰ ! اسے پھینکیں۔
٢٠۔ پس موسیٰ نے اسے پھینکا تو وہ یکایک سانپ بن کر دوڑنے لگا۔٭
٢١۔ اللہ نے فرمایا: اسے پکڑ لیں اور ڈریں نہیں، ہم اسے اس کی پہلی حالت پر پلٹا دیں گے۔٭
٢٢۔ اور اپنا ہاتھ اپنی بغل میں رکھیے تووہ بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا، یہ دوسری نشانی ہے۔ ٭
٢٣۔ (یہ اس لیے) کہ ہم تمہیں اپنی بڑی نشانیاں دکھا دیں۔
٢٤۔ اب آپ فرعون کی طرف جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔٭
٢٥۔ موسیٰ نے کہا: میرے پرودگار! میرا سینہ کشادہ فرما،
٢٦۔ اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے،
٢٧۔اور میری زبان کی گرہ کھول دے،٭
٢٨۔ تاکہ وہ میری بات سمجھ جائیں۔
٢٩۔ اور میرے کنبے میںسے میرا ایک وزیر بنا دے۔٭
٣٠۔ میرے بھائی ہارون کو۔
٣١۔ اسے میرا پشت پناہ بنا دے،
٣٢۔ اور اسے میرے امر (رسالت) میں شریک بنا دے،
٣٣۔ تاکہ ہم تیری خوب تسبیح کریں،
٣٤۔ اور تجھے کثرت سے یاد کریں۔
٣٥۔ یقینا تو ہی ہمارے حال پر خوب نظر رکھنے والا ہے ۔
٣٦۔ فرمایا: اے موسیٰ! یقینا آپ کو آپ کی مراد دے دی گئی۔
٣٧۔ اور بتحقیق ہم نے ایک مرتبہ پھر آپ پر احسان کیا۔
٣٨۔ جب ہم نے آپ کی والدہ کی طرف اس بات کا الہام کیا جو بات الہام کے ذریعے کی جانا تھی۔٭
٣٩۔ (وہ یہ) کہ اس (بچے) کو صندوق میں رکھ دیں پھر اس (صندوق) کو دریا میں ڈال دیں تو دریا اسے ساحل پر ڈال دے گا (تو) میرا اور اس کا دشمن اسے اٹھا لے گا اور میں نے آپ پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی تاکہ آپ میرے سامنے پرورش پائیں۔
٤٠۔ (وہ وقت یاد کرو) جب آپ کی بہن (فرعون کے پاس) گئیں اور کہنے لگیں: کیا میں تمہیں ایسا شخص بتا دوں جو اس بچے کی پرورش کرے؟ اس طرح ہم نے آپ کو آپ کی ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور آپ نے ایک شخص کو قتل کیا پس ہم نے آپ کو غم سے نجات دی اور ہم نے آپ کی خوب آزمائش کی، پھر سالوں تک آپ مدین والوںکے ہاں مقیم رہے پھر اے موسیٰ! اب عین مقرر وقت پر آگئے ہیں۔٭
٤١۔اور میں نے آپ کو اپنے لیے اختیار کیا ہے۔٭
٤٢۔ لہٰذا آپ اور آپ کا بھائی میری آیات لے کر جائیں اور دونوں میری یاد میں سستی نہ کرنا۔٭
٤٣۔ دونوں فرعون کے پاس جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔
٤٤۔ پس دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔٭
٤٥۔ دونوں نے کہا: اے ہمارے پروردگار! ہمیں خوف ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا مزید سرکش ہوجائے گا۔٭
٤٦۔ فرمایا: آپ دونوں خوف نہ کریں میں آپ دونوں کے ساتھ ہوں اور (دونوں کی بات) سن رہاہوں اور دیکھ رہا ہوں۔
٤٧۔ دونوں اس کے پاس جائیں اور کہیں: ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے اور ان پر سختیاں نہ کر، بلاشبہ ہم تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر تیرے پاس آئے ہیں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔٭
٤٨۔ ہماری طرف یقینا وحی کی گئی ہے کہ عذاب اس شخص کے لیے معین ہے جو تکذیب کرے اور منہ موڑے۔
٤٩۔ فرعون نے کہا: اے موسیٰ! تم دونوں کا رب کو ن ہے؟٭
٥٠۔ موسیٰ نے کہا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی ۔٭
٥١۔ فرعون بولا:پھر گزشتہ نسلوں کا کیا بنا ؟٭
٥٢۔ موسیٰ نے کہا: ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے، میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔٭
٥٣۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو گہوارہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے راستے بنائے اور آسمانوں سے پانی برسایا پھر اس سے ہم نے مختلف نباتات کے جوڑے اگائے۔
٥٤۔ تم بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ، صاحبان علم کے لیے اس میں یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔
٥٥۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تمہیںلوٹائیںگے اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے۔
٥٦۔ اور بتحقیق ہم نے فرعون کو ساری نشانیاں دکھا دیں سو اس نے پھر بھی تکذیب کی اور انکار کیا۔
٥٧۔ فرعون نے کہا: اے موسیٰ! کیا تو اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری سرزمین سے نکالنے ہمارے پاس آئے ہو؟٭
٥٨۔ پس ہم بھی تمہارے مقابلے میں ایسا ہی جادو پیش کریں گے، لہٰذا ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت جس کی نہ ہم خلاف ورزی کریں اور نہ تم، صاف میدان مقرر کر لو۔
٥٩۔ موسیٰ نے کہا: تمہارے ساتھ جشن کے دن وعدہ ہے اور یہ کہ دن چڑھے لوگ جمع کیے جائیں۔٭
٦٠۔ پس فرعون نے پلٹ کر اپنی ساری مکاریوں کو یکجا کیا پھر (مقابلے میں) آ گیا۔٭
٦١۔ موسیٰ نے ان سے کہا: تم پر تباہی ہو!تم اللہ پر جھوٹ بہتان نہ باندھو وگرنہ اللہ تمہیں ایک عذاب سے نابود کرے گا اور جس نے بھی بہتان باندھا وہ نامراد رہا.٭
٦٢۔ پھر انہوںنے اپنے معاملے میں آپس میں اختلاف کیا اور (باہمی) مشورے کو خفیہ رکھا ۔٭
٦٣۔ وہ کہنے لگے: یہ دونوں تو بس جادوگر ہیں، دونوں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری اس سر زمین سے نکال باہر کریں اور دونوں تمہارے اس مثالی مذہب کا خاتمہ کر دیں۔٭
٦٤۔ لہٰذا اپنی ساری تدبیریں یکجا کرو پھر قطار باندھ کر میدان میںآؤ اور آج جو جیت جائے گا وہی فلاح پائے گا۔٭
٦٥۔ (جادوگروں نے )کہا: اے موسی! تم پھینکو گے یا پہلے ہم پھینکیں؟
٦٦۔ موسیٰ نے کہا: بلکہ تم پھینکو، اتنے میں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی محسوس ہوئیں۔٭
٦٧۔ پس موسیٰ نے اپنے اند ر خوف محسوس کیا۔٭
٦٨۔ ہم نے کہا: خوف نہ کر یقینا آپ ہی غالب آنے والے ہیں۔٭
٦٩۔ اور جو کچھ آپ کے دائیں ہاتھ میں ہے اسے پھینک دیں کہ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے یہ ان سب کو نگل جائے گا، یہ لوگ جو کچھ بنا لائے ہیں وہ فقط جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر جہاں بھی ہو کامیاب نہیں ہو سکتا ۔٭
٧٠۔ پھر جادوگر سجد ے میں گر پڑے اور کہنے لگے: ہم ہارون اور موسیٰ کے پروردگار پر ایمان لے آئے۔٭
٧١۔ فرعون بولا: تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، یہ یقینا تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا اب میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کٹوا دوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمہیں یقینا سولی چڑھوا دوں گا پھر تمہیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے سخت اور دیرپا عذاب دینے والا کون ہے٭
٧٢۔ جادو گروں نے کہا: جو دلائل ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں ان پر اور جس نے ہمیں خلق کیا ہے اس پر ہم تجھے مقدم نہیں رکھیں گے لہٰذا اب تو نے جو فیصلہ کرنا ہے کر ڈال، تو بس اس دنیا کی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔٭
٧٣۔ ہم اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور جس جادوگری پر تم نے ہمیںمجبور کیا تھا اسے بھی معاف کر دے اور اللہ سب سے بہتر اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔٭
٧٤۔ بے شک جو مجرم بن کر اپنے رب کے پاس آئے گا اس کے لیے یقینا جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اورنہ جیے گا۔٭
٧٥۔ اور جو مومن بن کر اس کے پاس حاضر ہو گا جب کہ وہ نیک اعمال بھی بجا لا چکا ہو تو ایسے لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں.٭
٧٦۔دائمی باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیںگے اور یہی پاکیزہ رہنے والے کی جزا ہے۔٭
٧٧۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت چل پڑیں پھر ان کے لیے دریامیں خشک راستہ بنا دیں، آپ کو (فرعون کی طرف سے) نہ پکڑے جانے کا خطرہ ہو گا اور نہ ہی (غرق کا) خوف ۔٭
٧٨۔ پھر فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیا اور پھر سمندر ان پر ایسا چھایا کہ جس طرح چھا جانا چاہیے تھا۔٭
٧٩۔ اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کر دیا اور ہدایت کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔
٨٠۔ اے بنی اسرائیل! تمہارے دشمن سے یقینا ہم نے تمہیں نجات دی اور تمہیں طور کی دائیں جانب وعدہ دیا اور ہم نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا۔
 

صرف علی

محفلین
٨١۔ جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اس میں سرکشی نہ کرو ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب نازل ہوا بتحقیق وہ ہلاک ہو گیا۔٭
٨٢۔ البتہ جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دے پھر راہ راست پر چلے تو میں اسے خوب بخشنے والا ہوں۔٭
٨٣۔ اور (فرمایا) اے موسیٰ! آپ نے اپنی قوم سے پہلے(آنے میں)جلدی کیوں کی؟
٨٤۔ موسیٰ نے عرض کیا: وہ میرے پیچھے آ رہے ہیں اور میرے رب ! میں نے تیری طرف (آنے میں) جلدی اس لیے کی کہ تو خوش ہو جائے ۔٭
٨٥۔ فرمایا: پس آپ کے بعد آپ کی قوم کو ہم نے آزمائش میںڈالا ہے اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔٭
٨٦۔ چنانچہ موسیٰ غصے اور حزن کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹے، بولے: اے میری قوم ! کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا مدت تمہار ے لیے لمبی ہو گئی تھی؟ یا تم نے یہ سوچا کہ تمہارے رب کا غصہ تم پر آکر رہے؟ اسی لیے تم نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی؟
٨٧۔ انہوں نے کہا: ہم نے آپ سے وعدہ خلافی اپنے اختیار سے نہیں کی بلکہ ہوا یہ کہ ہم پر قوم کے زیورات کا بوجھ لادا گیا تھا تو ہم نے اسے پھینک دیا اور سامری نے بھی اس طرح ڈال دیا۔٭
٨٨۔ اور ان کے لیے ایک بچھڑے کا قالب بنا کر نکالا جس میں گائے کی سی آواز تھی پھر وہ بولے: یہ ہے تمہارا معبود اور موسیٰ کا معبود پھر وہ بھول گیا۔
٨٩۔ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ (بچھڑا) ان کی کسی بات کا جواب تک نہیں دے سکتا اور وہ نہ ان کے کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہے۔
٩٠۔ اور ہارون نے ان سے پہلے کہدیا تھا: اے میری قوم! بے شک تم اس کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے ہوجب کہ تمہارا پروردگار تو رحمن ہے لہٰذا تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو ۔٭
٩١۔ وہ کہنے لگے: ہم موسیٰ کے ہمارے پاس واپس آنے تک برابر اسی کی پرستش میں منہمک رہیںگے۔٭
٩٢۔ موسیٰ نے کہا : اے ہارون! جب آپ دیکھ رہے تھے کہ یہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں
٩٣۔ تو میری پیروی کرنے سے آپ کو کس چیز نے روکا؟ کیا آپ نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟
٩٤۔ ہارون نے جواب دیا: اے ماں جائے! میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑیں، مجھے تو اس بات کا خوف تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تونے بنی اسرائیل میںتفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔٭
٩٥۔ کہا : اے سامری! تیر ا مدعا کیا ہے؟
٩٦۔ اس نے کہا: میںنے ایسی چیز کا مشاہدہ کیا جس کا دوسروں نے مشاہدہ نہیں کیا پس میں نے فرستادہ خدا کے نقش قدم سے ایک مٹھی(بھر خاک) اٹھا لی پھر میں نے اسے (بچھڑے کے قالب میں) ڈال دیا اور میرے نفس نے یہ بات میرے لیے بھلی بنا دی۔٭
٩٧۔موسیٰ نے کہا: دور ہو جا(تیری سزا یہ ہے کہ ) تجھے زندگی بھر یہ کہتے رہنا ہو گا مجھے ہاتھ نہ لگانا اور تیرے لیے ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ٹلنے والا نہیں ہے اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس (کی پوجا) میں تو منہمک تھا، ہم اسے ضرور جلا ڈالیں گے پھر اس (کی راکھ ) کو اڑا کر دریا میںضرور بکھیر دیں گے ۔٭
٩٨۔ بتحقیق تمہارا معبود تو وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔٭
٩٩۔ (اے رسول) اسی طرح ہم آپ سے گزشتگان کی خبریں بیان کرتے ہیں اور ہم نے آپ کو اپنے ہاں سے ایک نصیحت عطا کی ہے.٭
١٠٠۔ جو اس سے منہ موڑے گا پس بروز قیامت وہ یقینا ایک بوجھ اٹھائے گا۔٭
١٠١۔ جس میں یہ لوگ ہمیشہ مبتلا رہیں گے اور قیامت کے دن یہ ان کے لیے بدترین بوجھ ہو گا۔٭
١٠٢۔ اس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو جمع کریں گے (خوف کے مارے) جن کی آنکھیں بے نور ہو جائیں گی۔ ٭
١٠٣۔ (اس وقت) وہ آپس میں دھیمے دھیمے کہیں گے(دنیا میں) تم صرف دس دن رہے ہو گے ۔٭
١٠٤۔ ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ کرتے ہیں جب ان میں سے زیادہ صائب الرائے کا یہ کہنا ہو گا کہ تم تو صرف ایک دن رہے ہو۔٭
١٠٥۔ اور یہ لوگ ان پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، پس آپ کہدیجئے : میرا رب انہیں اڑا کر بکھیر دے گا ۔٭
١٠٦۔ پھر اسے ہموار میدان بنا کر چھوڑے گا.٭
١٠٧۔ نہ آپ اس میں کوئی ناہمواری دیکھیں گے نہ بلندی۔٭
١٠٨۔ اس دن لوگ منادی کے پیچھے دوڑیں گے جس میں کوئی انحراف نہ ہو گا اور رحمن کے سامنے آوازیں دب جائیں گی، پس آپ آہٹ کے سوا کچھ نہ سنیں گے ۔٭
١٠٩۔ اس روز شفاعت کسی کو فائدہ نہ دے گی سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور اس کی بات کو پسندکرے ۔٭
١١٠۔ اور وہ لوگوں کے سامنے اور پیچھے کی سب باتیں جانتا ہے اور وہ کسی کے احاطہ علم میں نہیں آ سکتا۔٭
١١١۔ سب کے چہرے اس حی اور قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے اور جو کوئی ظلم کا بوجھ اٹھائے گا وہ نامراد ہو گا ۔
١١٢۔ اور جو نیک اعمال بجا لائے اور وہ مومن بھی ہو تو اسے نہ ظلم کا خوف ہو گا اور نہ حق تلفی کا ۔٭
١١٣۔ اور اسی طرح ہم نے یہ قرآن عربی میں نازل کیا اور اس میں مختلف انداز میں تنبیہیں بیان کی ہیںکہ شاید وہ پرہیز گار بن جائےں یا (قرآن) ان کے لیے کوئی نصیحت وجود میں لائے۔
١١٤۔ پس وہ بادشاہ حقیقی اللہ برتر ہے اور آپ پر ہونے والی اس کی وحی کی تکمیل سے پہلے قرآن پڑھنے کی عجلت نہ کریں اور کہدیا کریں: پروردگارا میرے علم میں اضافہ فرما۔٭
١١٥۔ اور بتحقیق ہم نے آدم سے عہد لیا تھا لیکن وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم نہیں پایا ۔٭
١١٦۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کے لیے سجدہ کرو توسب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا ۔
١١٧۔ پھر ہم نے کہا :اے آدم! یہ آپ اور آپ کی زوجہ کا دشمن ہے، کہیں یہ آپ دونوں کو جنت سے نکال نہ دے پھرآپ مشقت میں پڑ جائیںگے۔٭
١١٨۔ یقینا اس جنت میں آپ نہ تو بھوکے رہیں گے اور نہ ننگے۔٭
١١٩۔ اور یقینا اس میں آپ نہ تو پیاسے رہیں گے اور نہ دھوپ کھائیں گے ۔٭
١٢٠۔ پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا اور کہا: اے آدم! کیا میں تمہیں ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میںبتاؤں؟
١٢١۔چنانچہ دونوں نے اس میں سے کھایا تو دونوں کے لیے ان کے ستر کھل گئے اور دونوں نے اپنے اوپر جنت کے پتے گانٹھنے شروع کر دیے اور آدم نے اپنے رب کے حکم میں کوتاہی کی توغلطی میںرہ گئے ۔٭
١٢٢۔ پھر ان کے پروردگار نے انہیں برگزیدہ کیا اور ان کی توبہ قبول کی اور ہدایت دی.٭
١٢٣۔ فرمایا: یہاں سے دونوں اکٹھے اتر جاؤ ایک دوسرے کے دشمن ہو کر پھر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی اتباع کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ شقی۔
١٢٤۔ اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا محشور کریں گے۔٭
١٢٥۔ وہ کہے گا: پروردگارا ! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایاحالانکہ میں تو بینا تھا؟
١٢٦۔ جواب ملے گا: ایسا ہی ہے! ہماری نشانیاں تیرے پاس آئی تھیں تو نے انہیں بھلادیا تھا اور آج تو بھی اسی طرح بھلایا جا رہا ہے۔
١٢٧۔ اور ہم حد سے تجاوز کرنے والوں اور اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان نہ لانے والوں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ شدید اور تادیر باقی رہنے والا ہے۔٭
١٢٨۔ کیا انہوں نے اس بات سے کوئی ہدایت حاصل نہیںکی کہ ان سے پہلے بہت سی نسلوں کو ہم نے ہلاک کر دیا جن کی بستیوں میں آج یہ لوگ چل پھر رہے ہیں؟ اس بات میں یقینا ہوشمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔٭
١٢٩۔ اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات طے نہ ہوچکی ہوتی اور ایک مدت کا تعین نہ ہو چکا ہوتا تو (عذاب کا نزول) لازمی تھا۔٭
١٣٠۔ لہٰذا جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کریں اور طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی ثنا کی تسبیح کریں اور کچھ اوقات شب میں اور د ن کے اطراف میں بھی اس کی تسبیح کیا کریںتاکہ آپ خوش رہیں۔٭
١٣١۔ اور (اے رسول) دنیاوی زندگی کی اس رونق کی طرف اپنی نگاہیں اٹھا کر بھی نہ دیکھیں جو ہم نے آزمانے کے لیے ان میں سے مختلف لوگوں کو دے رکھی ہے اور آپ کے رب کا دیا ہوا رزق بہتر اور زیادہ دیرپا ہے۔٭
١٣٢۔ اوراپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیں، ہم آپ سے ہم کوئی رزق نہیں مانگتے بلکہ ہم آپ کو رزق دیتے ہیں اور انجام (اہل) تقویٰ ہی کے لیے ہے۔٭
١٣٣۔ اور لوگ کہتے ہیں:یہ اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے؟ کیا ان کے پاس اگلی کتابوں میں سے واضح ثبوت نہیں آیا؟٭
١٣٤۔ اور اگر ہم (نزول قرآن سے) پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ ضرور کہتے: ہمارے پروردگار! تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت و رسوائی سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی اتباع کر لیتے؟٭
١٣٥۔ کہدیجئے: سب انتظار میں ہیں لہٰذا تم بھی انتظار کرو پھر عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ راہ راست پر چلنے والے کون ہیں اور ہدایت پانے والے کون ہیں۔

پارہ : اقتَرَبَ 17
21 سورۃ انبیاء ۔ مکی ۔ آیات ١١٢۔​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے جب کہ وہ غفلت میںمنہ پھیرے ہوئے ہیں۔٭
٢۔ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی تازہ نصیحت آتی ہے یہ لوگ اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں۔٭
٣۔ ان کے دل لہویات میں مصروف ہوتے ہیں اور ظالم آپس کی سرگوشیاں چھپاتے ہیںکہ یہ شخص بھی تم جیسا بشر ہے، تو کیا تم لوگ دانستہ طور پر جادو کے چکر میں آتے ہو؟
٤۔ رسول نے کہا: میرا پروردگار ہر وہ بات جانتا ہے جو آسمان و زمین میں ہے اور وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
٥۔ بلکہ وہ کہتے ہیں: یہ (قرآن) تو پریشان خوابوں کا ایک مجموعہ ہے بلکہ یہ اس کا خود ساختہ ہے بلکہ یہ تو شاعر ہے ورنہ یہ کوئی معجزہ پیش کرے جیسے پہلے انبیاء (معجزوں کے ساتھ) بھیجے گئے تھے۔٭
٦۔ان سے پہلے جس بستی کو بھی ہم نے ہلاک کیا وہ ایمان نہیں لائی، تو کیا یہ لوگ ایمان لائیں گے؟
٧۔ اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردان (حق) ہی کی طرف وحی بھیجی ہے، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔٭
٨۔ اور ہم نے انہیں ایسے جسم نہیں بنایا جو کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ (زندہ) رہنے والے تھے۔٭
٩۔ پھر ہم نے ان کے ساتھ وعدہ پورا کیا پس ہم نے انہیں اور جنہیں ہم نے چاہا بچا لیا اور تجاوز کرنے والوں کو ہلاک کر دیا۔
١٠۔ بتحقیق ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہاری نصیحت ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟٭
١١۔ اور ہم نے کتنی ظالم بستیوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا اور ان کے بعد دوسری قوم کو پیدا کیا۔
١٢۔ پس جب انہوں نے ہمارے عذاب کو محسوس کیا تب وہ وہاں سے بھاگنے لگے۔
١٣۔ بھاگو نہیں، اپنی عیش پرستی میں اور اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤ، شاید تم سے پوچھا جائے۔
١٤۔ کہنے لگے: ہائے ہماری تباہی! بے شک ہم لوگ ظالم تھے۔
١٥۔ اوروہ فریاد کر رہے ہیں یہاں تک کہ ہم نے انہیں (جڑوں سے) کاٹ کر خاموش کر دیا۔
١٦۔ اور ہم نے اس آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو بیہودہ خلق نہیں کیا۔٭
١٧۔ اگر ہم کھیل کا ارادہ کرتے تو ہم اسے اپنے پاس سے بنا لیتے اگر ہم (ایسا) کرنے والے ہوتے (تو تمہیں خلق کرنے کی کیا ضرورت تھی)۔٭
١٨۔ بلکہ ہم باطل پر حق کی چوٹ لگا تے ہیں جو اس کا سر کچل دیتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے اور تم پر تباہی ہو ان باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔٭
١٩۔ اور آسمانوں اور زمین میں موجود مخلوقات اسی کی ہیں اور جو اس کے پاس ہیں وہ اللہ کی عبادت سے نہ تو تکبر کرتے ہیں اور نہ ہی اکتاتے ہیں۔
٢٠۔ وہ شب و روز تسبیح کرتے ہیں، تساہل نہیں برتتے۔
٢١۔ کیا انہوں نے زمین سے ایسے معبود بنا رکھے ہیںجو انہیں زندہ کرتے ہوں؟
٢٢۔ اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کا نظام) درہم برہم ہو جاتا، پس پاک ہے اللہ، پروردگار عرش ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔٭
٢٣۔ وہ جو کام کرتا ہے اس کی پرسش نہیں ہو گی اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اس کی ان سے پرسش ہو گی۔٭
٢٤۔ کیا انہوں نے اللہ کے سوا معبود بنا لیے ہیں؟ کہدیجئے: تم اپنی دلیل پیش کرو، یہ میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے پہلے والوں کی کتاب ہے، (ان میں کسی غیر اللہ کا ذکر نہیں) بلکہ اکثر لوگ حق کو جانتے نہیں اس لیے (اس سے) منہ موڑ لیتے ہیں۔٭
٢٥۔ اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا ہے اس کی طرف یہی وحی کی ہے، بتحقیق میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم صرف میری عبادت کرو۔٭
٢٦۔ اور وہ کہتے ہیں: اللہ نے بیٹا بنایا ہے، وہ پاک ہے (ایسی باتوں سے) بلکہ یہ تو اللہ کے محترم بندے ہیں۔٭
٢٧۔ وہ تو اللہ (کے حکم) سے پہلے بات (بھی) نہیں کرتے اور اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔
٢٨۔ اللہ ان باتوں کو جانتا ہے جو ان کے روبرو اور جو ان کے پس پردہ ہیں اور وہ فقط ان لوگوں کی شفاعت کر سکتے ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ کی ہیبت سے ہراساں رہتے ہیں۔٭
٢٩۔ اور ان میں سے جو کوئی یہ کہدے کہ اللہ کے علاوہ میں بھی معبود ہوں تو ہم اسے جہنم کی سزا دیتے ہیں، چنانچہ ظالموں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔
٣٠۔ کیا کفار اس بات پر توجہ نہیںدیتے کہ یہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کر دیا ہے اور تمام جاندار چیزوں کو ہم نے پانی سے بنایا ہے؟ تو کیا (پھر بھی) وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟٭
٣١۔ اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنا دیے تاکہ وہ لوگوں کو متزلزل نہ کرے اور ہم نے اس میں کشادہ راستے بنائے کہ لوگ راہ پائیں۔
٣٢۔ اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا اور اس کے باوجود وہ اس کی نشانیوں سے منہ موڑتے ہیں۔
٣٣۔ اور اسی نے شب و روز اور آفتاب و ماہتاب پیدا کیے،یہ سب کسی نہ کسی فلک میں تیر رہے ہیں۔٭
٣٤۔ ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی انسان کو حیات جاودانی نہیں دی تو کیا اگر آپ انتقال کر جائیں تو یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے؟٭
٣٥۔ ہر نفس کو موت (کاذائقہ) چکھنا ہے اور ہم امتحان کے طور پر برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں مبتلا کرتے ہیں اور تم پلٹ کر ہماری ہی طرف آؤ گے۔٭
٣٦۔ اور کافر جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا بس استہزاء کرتے ہیں (ا ور کہتے ہیں) کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا (برے الفاظ میں) ذکر کرتا ہے؟ حالانکہ وہ خود رحمن کے ذکر کے منکر ہیں۔٭
٣٧۔ انسان عجلت پسند خلق ہوا ہے، عنقریب میں تمہیں اپنی نشانیاںدکھاؤں گا پس تم جلد بازی نہ کرو۔
٣٨۔ اور وہ کہتے ہیں: اگر آپ سچے ہیں تو بتائیں یہ (عذاب کا) وعدہ کب پورا ہو گا؟
٣٩۔ کاش! کفار کو اس وقت کا علم ہو جاتا جب وہ آتش جہنم کو نہ اپنے چہروں سے اور نہ ہی اپنی پشتوں سے ہٹا سکیں گے اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔
٤٠۔ بلکہ یہ (قیامت کا ہولناک عذاب ) ان پر اچانک آئے گا تو انہیں بدحواس کر دے گا پھر انہیں نہ اسے ہٹا نے کی استطاعت ہو گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔
٤١۔ اور بتحقیق آپ سے پہلے بھی رسولوں کا استہزا ہوتا رہا ہے مگر ان استہزا کرنے والوں کو اسی عذاب نے آگھیرا جس کا وہ استہزا کیا کرتے تھے۔٭
٤٢۔ کہدیجئے:رات اور دن میں رحمن سے تمہیں کون بچائے گا؟ بلکہ یہ لوگ تو اپنے رب کے ذکر سے منہ موڑے ہوئے ہیں٭
٤٣۔ کیا ہمارے علاوہ بھی ان کے معبود ہیں جو انہیں بچا لیں؟ وہ تو خود اپنی مدد کی بھی استطاعت نہیں رکھتے اور نہ ہی ہماری طرف سے ان کا ساتھ دیا جائے گا ۔
٤٤۔ بلکہ ہم تو انہیں اور ان کے آبا کو سامان زیست دیتے رہے یہاں تک کہ ان پر عرصہ دراز گزر گیا تو کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہےں کہ ہم عرصہ زمین ہر طرف سے تنگ کر رہے ہیں؟ تو کیا (پھر بھی) یہ لوگ غالب آنے والے ہیں۔ ٭
٤٥۔ کہدیجئے : میں وحی کی بنا پر تمہیں تنبیہ کر رہا ہوں مگر جب بہروں کو تنبیہ کی جائے تو (کسی) پکا ر کو نہیں سنتے ۔٭
٤٦۔ اور اگر انہیں آپ کے پروردگار کا تھوڑا سا عذاب بھی چھو جائے تو وہ ضرور کہنے لگ جائیں گے: ہائے ہماری تباہی! ہم یقینا ظالم تھے۔
٤٧۔ اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا اور اگر رائی کے دانے برابر بھی (کسی کا عمل) ہوا تو ہم اسے اس کے لیے حاضر کر دیں گے اور حساب کرنے کے لیے ہم ہی کافی ہیں۔٭
٤٨۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان اور ایک روشنی اور ان متقین کے لیے نصیحت عطا کی ۔
٤٩۔ جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے رہے اور قیامت سے بھی خوف کھاتے ہیں.
٥٠۔ اور یہ( قرآن) ایک مبارک ذکر ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، کیا تم اس کے بھی منکر ہو؟ ٭
٥١۔ اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے کامل عقل عطا کی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔٭
٥٢۔ جب انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم جمے رہتے ہو؟٭
٥٣۔ کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایاہے۔
٥٤۔ ابراہیم نے کہا: یقینا تم خود اور تمہارے باپ دادا بھی واضح گمراہی میں مبتلا ہیں۔
٥٥۔ وہ کہنے لگے : کیا آپ ہمارے پاس حق لے کر آئے ہیں یا بیہود ہ گوئی کر رہے ہیں؟٭
٥٦۔ ابراہیم نے کہا: بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور میں اس بات کے گواہوں میں سے ہوں۔٭
٥٧۔ اور اللہ کی قسم! جب تم یہاں سے پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی تدبیر ضرور سوچوں گا۔
٥٨۔ چنانچہ ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت) کے تاکہ و ہ اس کی طرف رجوع کریں۔٭
٥٩۔ وہ کہنے لگے: جس نے ہمارے معبودوں کا یہ حال کیا ہے یقینا وہ ظالموں میں سے ہے۔
٦٠۔ کچھ نے کہا: ہم نے ایک جوان کو ان بتوں کا (برے الفاظ میں) ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔
٦١۔ کہنے لگے: اسے سب کے سامنے پیش کرو تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں۔٭
٦٢۔ کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟
٦٣۔ ابراہیم نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔٭
٦٤۔ (یہ سن کر) وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور کہنے لگے : حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو۔
٦٥۔ پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم سے کہا) : تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے ۔٭
٦٦۔ ابراہیم نے کہا: تو پھر تم اللہ کو چھوڑ کر انہیں کیوں پوجتے ہو جو تمہیں نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان؟٭
٦٧۔ تف ہو تم پر اور ان (معبودوں) پر جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
٦٨۔ وہ کہنے لگے: اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی نصرت کرو۔
٦٩۔ ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔٭
٧٠۔ اور انہوں نے ابراہیم کے ساتھ اپنا حربہ استعمال کیا اور ہم نے خود انہیں ناکام بنا دیا۔
٧١۔ اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس سرزمین کی طرف لے گئے جسے ہم نے عالمین کے لیے بابرکت بنایا ہے۔٭
٧٢۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بطور عطیہ دیے اور ہم نے ہر ایک کو صالح بنایا۔٭
٧٣۔ اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے نیک عمل کی انجام دہی اور قیام نماز اور ادائیگی زکوۃ کے لیے ان کی طرف وحی کی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے ۔
٧٤۔ اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نے انہیں اس بستی کے شر سے نجات دی جہاں کے لوگ بے حیائی کا ارتکاب کرتے تھے، یقینا وہ برائی والے اور بدکار قوم تھی۔
٧٥۔ اور ہم نے انہیں (لوط کو) اپنی رحمت میں داخل کیا وہ یقینا صالحین میں سے تھے۔
٧٦۔ اور نوح کو بھی (ہم نے نوزا) جب انہوں نے ابراہیم سے پہلے (ہمیں) پکارا تو ہم نے ان کی دعا قبول کی، پس انہیں اور ان کے گھر والوں کو بڑی پریشانی سے نجات دی۔
٧٧ ۔ اور اس قوم کے مقابلے میں ان کی مدد کی جو ہماری نشانیوں کی تکذیب کرتی تھی، یقینا وہ برے لوگ تھے چنانچہ ہم نے ان سب کو غرق کردیا۔
٧٨۔ اور داؤد و سلیمان کو بھی (نوازا) جب وہ دونوں ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت لوگوں کی بکریاں بکھر گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلے کا مشاہدہ کرر ہے تھے۔٭
٧٩۔ تو ہم نے سلیمان کو اس کا فیصلہ سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو داؤد کے لیے مسخر کیا جو ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور ایسا کرنے والے ہم ہی تھے۔٭
٨٠۔ اور ہم نے تمہارے لیے انہیں زرہ سازی کی صنعت سکھائی تاکہ تمہاری لڑائی میں وہ تمہارا بچاؤ کرے تو کیا تم شکر گزار ہو ؟٭
٨١۔ اور سلیمان کے لیے تیز ہوا کو (مسخر کیا) جو ان کے حکم سے اس سرزمین تک چلتی تھی جسے ہم نے بابرکت بنایا تھا اور ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے ہیں۔٭
٨٢۔ اور شیاطین میں سے کچھ (کو مسخر بنایا) جو ان کے لیے غوطے لگاتے تھے اور اس کے علاوہ دیگر کام بھی کرتے تھے اور ہم ان سب کی نگہبانی کرتے تھے۔ ٭
٨٣۔ اور ایوب کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: مجھے (بیماری سے) تکلیف ہو رہی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔٭
٨٤۔ تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی تکلیف ان سے دور کر دی اور انہیں ان کے اہل و عیال عطا کیے اور اپنی رحمت سے ان کے ساتھ اتنے مزید بھی جو عبادت گزاروں کے لیے ایک نصیحت ہے۔
٨٥۔ اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۔٭
٨٦۔ اور ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کیا، یقینا یہ صالحین میں سے تھے ۔
٨٧۔ اور ذوالنون کو بھی (اپنی رحمت سے نوازا) جب وہ غصے میں چل دیے اور خیال کرنے لگے کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے، چنانچہ وہ اندھیروں میں پکارنے لگے : تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ہی زیادتی کرنے والوں میں سے ہوں۔٭
٨٨۔ پھر ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ہم نے انہیں غم سے نجات دی اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیتے ہیں۔
٨٩۔ اور زکریا کو بھی (رحمتوں سے نوازا) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: میرے پروردگار! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو بہترین وارث ہے۔٭
٩٠۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں یحییٰ عطا کیے اور ان کی بیوی کو ان کے لیے نیک بنا دیا، یہ لوگ کارہائے خیر میں سبقت کرتے تھے اور شوق و خوف (دونوں حالتوں) میں ہمیں پکارتے تھے اور ہمارے لیے خشوع کرنے والے تھے۔٭
٩١۔ اور اس خاتون کو بھی (نوازا) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی اس لیے ہم نے ان میں اپنی روح پھونک دی اور انہیں اور ان کے بیٹے (عیسیٰ) کو تمام اہل عالم کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔ ٭
٩٢۔ یہ تمہاری امت یقینا امت واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں لہٰذا تم صرف میری عبادت کرو۔٭
٩٣۔ لیکن انہوں نے اپنے (دینی) معاملات میں تفرقہ ڈال دیا۔ آخرکار سب نے ہماری طرف رجوع کرنا ہے۔
٩٤۔ پس جو نیک اعمال بجا لائے اور وہ مومن ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہ ہو گی اور ہم (اس کے اعمال) اس کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ٭
٩٥۔ اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کیا ہے اس کے (مکینوں) کے لیے ممکن نہیں کہ وہ (دوبارہ ) لوٹ کر آئیں۔٭
٩٦۔ یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج (کا راستہ) کھول دیاجائے گا تو وہ ہر بلندی سے نکل پڑیں گے۔٭
٩٧۔ اور برحق وعدہ قریب آنے لگے گا تو کفار کی آنکھیں یکایک کھلی رہ جائیں گی، (وہ کہیں گے) ہائے ہماری تباہی! ہم واقعی اس سے غافل تھے، بلکہ ہم تو ظالم تھے ۔٭
٩٨۔ بتحقیق تم اور تمہارے وہ معبود جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے تھے جہنم کاایندھن ہیں جہاں تمہیں داخل ہونا ہے۔ ٭
٩٩۔ اگر یہ معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے اور اب سب کو اسی میںہمیشہ رہنا ہے۔
١٠٠۔ جہنم میں ان کا شور ہو گا اور وہ اس میں کچھ نہ سن سکیں گے۔
١٠١۔ جن کے حق میں ہماری طرف سے پہلے ہی (جنت کی) خوشخبری مل چکی ہے وہ اس آتش سے دور ہوں گے۔
١٠٢۔ جہاں وہ اس کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور وہ ہمیشہ ان چیزوںمیں رہیں گے جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوں گی۔
١٠٣۔ انہیں قیامت کے بڑے خوفناک حالات بھی خوفزدہ نہیں کریں گے اور فرشتے انہیں لینے آئیں گے( اور کہیں گے) یہ تمہار ا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیاتھا۔٭
١٠٤۔ اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح طومار میں اوراق لپیٹتے ہیں، جس طرح ہم نے خلقت کی ابتدا کی تھی، اسے ہم پھر دہرائیں گے، یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے جسے ہم ہی پورا کرنے والے ہیں۔٭
١٠٥۔ اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔٭
١٠٦۔ اس( بات) میں بندگی کرنے والوں کے لیے یقینا ایک آگاہی ہے۔
١٠٧۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔٭
١٠٨۔ کہدیجئے : میرے پاس وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے، توکیا تم تسلیم کرتے ہو؟
١٠٩۔ پھر اگر انہوں نے منہ موڑ لیا تو کہ دیجئے: ہم نے تمہیں یکساں طور پر آگاہ کر دیا ہے اور جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا دور، یہ میں نہیں جانتا.٭
١١٠۔ اور وہ بلند آواز سے کہی جانے والی باتوں کو بھی یقینا جانتا ہے اور انہیں بھی جانتا ہے جنہیں تم پوشیدہ رکھتے ہو۔
١١١۔ اور میں نہیں جانتا شاید اس (عذاب کی تاخیر) میں تمہاری آزمائش ہے اور ایک مدت تک سامان زیست ہے۔
١١٢۔ رسول نے کہا: میرے پروردگار تو ہی حق کا فیصلہ فرما اور تم جو باتیں بناتے ہو اس کے مقابلے میں ہمارے مہربان رب سے ہی مدد مانگی جاتی ہے۔٭
 

صرف علی

محفلین
22 سورہ حج ۔ مدنی۔ آیات: ٧٨​
بنام خدائے رحمن ورحیم
١۔اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو کیونکہ قیامت کا زلزلہ بڑی (خوفناک) چیز ہے۔
٢۔ جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی (ماں) اپنے شیرخوار کو بھول جائے گی اور تمام حاملہ عورتیں اپنا حمل گرا بیٹھیں گی اور تم لوگوں کو نشے کی حالت میں دیکھو گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بڑا شدید ہو گا۔٭
٣۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہےں جو لاعلمی کے باوجود اللہ کے بارے میں کج بحثیاں کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔٭
٤۔ جب کہ اس شیطان کے بارے میں یہ لکھا گیا ہے کہ جو اسے دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کرے گا اور جہنم کے عذاب کی طرف اس کی رہنمائی کرے گا۔
٥۔ اے لوگو! اگر تمہیں موت کے بعد زندگی کے بارے میں شبہ ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیداکیا پھر نطفہ سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی تخلیق شدہ اور غیر تخلیق شدہ بوٹی سے تاکہ ہم (اس حقیقت کو) تم پر واضح کریں اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک مقررہ وقت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھرتمہیں ایک طفل کی شکل میں نکال لاتے ہیں تاکہ پھر تم جوانی کو پہنچ جاؤ اور تم میں سے کوئی فوت ہو جاتا ہے اور کوئی تم میں سے نکمی عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ وہ جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے لیکن جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو یہ جنبش میں آ جاتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے اور مختلف اقسام کی پر رونق چیزیںاگاتی ہے۔٭
٦۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔٭
٧۔ اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک نہیں اور یہ کہ اللہ ان سب کو اٹھائے گا جو قبروںمیں ہیں۔٭
٨۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم اور ہدایت اور روشن کتاب کے کج بحثیاں کرتے ہیں۔
٩۔ تاکہ متکبرانہ انداز میں لوگوں کو راہ خدا سے گمراہ کریں، اس کے لیے دنیا میں خواری ہے اور قیامت کے روز ہم اسے آگ کا عذاب چکھائیں گے۔٭
١٠۔ یہ سب تیرے اپنے دونوںہاتھوں سے آگے بھیجے ہوئے کی وجہ سے ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیںہے۔
١١۔ اور لوگوں میںکوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی یکطرفہ بندگی کرتا ہے، اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تومنہ کے بل الٹ جاتا ہے، اس نے دنیا میں بھی خسارہ اٹھایا اور آخرت میں بھی، یہی کھلا نقصان ہے۔٭
١٢۔ یہ اللہ کے سوا ایسی چیز کو پکارتا ہے جو اسے نہ ضرر دے سکتی ہے اور نہ اسے فائدہ دے سکتی ہے، یہی تو بڑی کھلی گمراہی ہے۔٭
١٣۔ وہ ایسی چیز کو پکارتا ہے جس کا ضرر اس کے فائدے سے زیادہ قریب ہے، کتنا برا ہے اس کا سرپرست اور اس کا رفیق بھی کتنا برا ہے۔٭
١٤۔ اللہ ایمان لانے والوں اورنیک اعمال بجا لانے والوںکو یقینا ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اللہ جس چیز کا ارادہ کر لیتا ہے اسے یقینا کر گزرتا ہے۔
١٥۔ جویہ گمان کرتا ہے کہ اللہ دنیا و آخرت میں رسول کی مدد نہیں کرے گا ( اب رسول کی کامیابی سے تنگ ہے) تو اسے چاہیے کہ ایک رسی اوپر کی طرف باندھے پھر اپنا گلا گھونٹ لے پھر دیکھے کہ کیا اس کا یہ حربہ اس کے غصے کو دور کر دیتا ہے؟٭
١٦۔ اور اسی طرح ہم نے قرآن کو واضح آیات کی صورت میں نازل کیا اور اللہ جس کے لیے ارادہ کرتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے۔
١٧۔ یقینا ایمان لانے والوں، یہودیوں، صابیوں، نصرانیوں، مجوسیوں اور مشرکوں کے درمیان اللہ قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔٭
١٨۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے نیز سورج، چاند، ستارے،پہاڑ ، درخت، جانور اور بہت سے انسان اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے لوگ جن پر عذاب حتمی ہو گیاہے اور جسے اللہ خوار کرے اسے عزت دینے والا کوئی نہیں، یقینا اللہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔٭
١٩۔ ان دونوں فریقوں نے اپنے رب کے بارے میں اختلاف کیا ہے ، پس جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے آتشیں لباس آمادہ ہے، ان کے سروں کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔٭
٢٠۔ جس سے ان کے پیٹ میں جو کچھ ہے اور کھالیں گل جائیں گے۔
٢١۔ اور ان (کو مارنے) کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہوںگے۔
٢٢۔ جب وہ رنج کی وجہ سے جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو پھر اسی میں پلٹا دیے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو۔
٢٣۔ جو لو گ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ یقینا انہیںایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے ان کی آرائش کی جائے گی اور ان جنتوں میں ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔٭
٢٤۔ اور انہیں پاکیزہ گفتار کی طرف ہدایت دی گئی اور انہیں لائق ستائش (خدا) کی راہ دکھائی گئی ہے۔٭
٢٥۔جو لوگ کافر ہوئے اور راہ خدا میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور اس مسجد الحرام کی راہ میں بھی جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے اور جس میں مقامی لوگ اور باہر سے آنے والے سب برابر ہیں اور جو اس میں زیادتی کے ساتھ کجروی کا ارادہ کرے اسے ہم ایک دردناک عذاب چکھائیں گے۔٭
٢٦۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کو مستقر بنایا (اور آگاہ کیا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع اور سجود کرنے والوںکے لیے پاک رکھو۔٭
٢٧۔ اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔٭
٢٨۔ تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو ان جانوروں پر جو اللہ نے انہیں عنایت کیے ہیں، پس ان سے تم لوگ خود بھی کھاؤ اور مفلو ک الحال ضرورتمندوں کو بھی کھلاؤ۔٭
٢٩۔ پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں۔٭
٣٠۔بات یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرموتوں کی عظمت کا پاس کرے تو اس کے رب کے نزدیک اس میں اس کی بہتری ہے اور تم لوگوں کے لیے مویشی حلال کر دیے گئے ہیں سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں بتایا جائے گا، پس تم لوگ بتوں کی پلیدی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔
٣١۔ صرف (ایک) اللہ کی طرف یکسوہو کر، کسی کو اس کا شریک بنائے بغیر اور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو وہ ایسا ہے گویا آسمان سے گر گیا پھر یا تو اسے پرندے اچک لیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دے۔٭
٣٢۔ بات یہ ہے کہ جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔٭
٣٣۔ اس (قربانی کے جانور) سے ایک معین مدت تک فائدہ اٹھانا تمہارے لیے (جائز) ہے، پھر اس کا (ذبح ہونے کا) مقام قدیم خانہ کعبہ کے پاس ہے۔
٣٤۔ اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک دستور مقرر کیا ہے تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں عطا کیے ہیں، پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پس اسی کے آگے سر تسلیم خم کرو اور (اے رسول) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔٭
٣٥۔ جن کا یہ حال ہے کہ جب اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپنے لگتے ہیں اور وہ مصیبت پر صبر کرنے والے ہوتے ہیںاور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
٣٦۔ اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تم لوگوں کے لیے شعائر اللہ میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے، پس اسے کھڑا کر کے اس پر اللہ کا نام لو پھر جب یہ پہلو پر گر پڑے تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو کھلاؤ، یوں ہم نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔٭
٣٧۔ نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اور (اے رسول) آپ نیکی کرنے والوںکو بشارت دیں ۔٭
٣٨۔ اللہ ایمان والوں کا یقینا دفاع کرتا ہے اور اللہ کسی قسم کے خیانت کار کو یقینا پسند نہیں کرتا ۔٭
٣٩۔ جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔٭
٤٠۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے ہیں، محض اس جرم میں کہ وہ یہ کہتے تھے: ہمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے روکے نہ رکھتا تو راہبوں کی کوٹھریوں اور گرجوں اور عبادت گاہوں اور مساجد کو جن میںکثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے منہدم کر دیا جاتا اور اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو اس کی مدد کرے گا، اللہ یقینا بڑا طاقتور اور بڑا غالب آنے والا ہے۔٭
٤١۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریںگے اور زکوۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔٭
٤٢۔ اگر لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو ان سے پہلے بھی تکذیب کی قوم نوح نے اور قوم عاد اور ثمود نے،
٤٣۔ اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے،
٤٤۔اور مدین والوں نے بھی، اور موسیٰ کی بھی تکذیب کی گئی ہے پس میں نے کفار کو پہلے مہلت دی پھر میں نے انہیں گرفت میں لے لیا پھر (دیکھ لو) میرا عذاب کیسا سخت ہے؟
٤٥۔ پھر (قابل فکر ہے) کتنی ہی بستیاں ان کے ظلم کی وجہ سے ہم نے تباہ کیں اور وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں اور کتنے کنویں اور اونچے قصر بیکار پڑے ہیں۔
٤٦۔ کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو جاتے؟ حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔٭
٤٧۔ اور یہ لوگ آپ سے عذاب جلدی طلب کر رہے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف ہرگز نہیں کرتا اور آپ کے پروردگار کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے مطابق یقینا ہزار برس کی طرح ہے۔
٤٨۔ اور بہت سی بستیاں ایسی ہیں جنہیں مہلت دیتا رہا ہوں جب کہ وہ ظلم کرنے والی تھیں، پھر میں نے انہیں گرفت میں لیا اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
٤٩۔ کہدیجئے: اے لوگو! میں تو تمہارے لیے صرف صریح تنبیہ کرنے والا ہوں۔۔
٥٠۔ پس جو لوگ ایمان لاتے ہیں اورنیک اعمال انجام دیتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔
٥١۔ اور جو لوگ ہماری آیات کے خلاف سعی کرتے ہیں کہ (ہم کو) مغلوب کریں وہ اہل جہنم ہیں۔
٥٢۔ اور (اے رسول) آپ سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول بھیجا اور نہ نبی مگر جب اس نے (کامیابی کی) تمنا کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں خلل اندازی کی لیکن اللہ شیطان کے خلل کو نابود کرتا ہے، پھر اللہ اپنی آیات کو محکم کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔٭
٥٣۔ تاکہ شیطان کی خلل اندازی کو ان لوگوں کے لیے آزمائش قرار دے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل جامد ہیں اور ظالم لوگ یقینا بہت گہرے عناد میں مبتلا ہیں۔٭
٥٤۔ اور اس لیے بھی ہے کہ جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جان لیں کہ یہ آپ کے پروردگار کی طرف سے حق ہے، پس وہ اس پر ایمان لے آئیں اور اللہ کے سامنے ان کے دل نرم ہو جائیں اور اللہ ایمان والوں کو یقینا راہ راست کی ہدایت کرتا ہے۔٭
٥٥۔ اور کافر لوگ تواس کی طرف سے ہمیشہ اسی شک میں مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ ان پر یکایک قیامت آ جائے گی یا نامراد دن کا عذا ب ان پر آ جائے گا۔
٥٦۔ اس روز بادشاہی صرف اللہ ہی کی ہو گی، وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، لہٰذا جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک اعمال بجا لائے وہ نعمتوں والی جنتوں میں ہوں گے۔
٥٧۔ اور جو کافر ہوئے اور ہماری آیات کی تکذیب کرتے رہے پس ان کے لیے ذلت آمیز عذاب ہو گا۔
٥٨۔ اور جنہوں نے راہ خدا میں ہجرت اختیار کی پھر وہ مارے گئے یا مر گئے انہیں اللہ یقینا اچھی روزی سے ضرور نوازے گا اور رزق دینے والوںمیں یقینا اللہ ہی بہترین ہے۔٭
٥٩۔ وہ ایسی جگہ میں انہیں ضرور داخل فرمائے گا جسے وہ پسند کریں گے اور اللہ یقینا بڑا دانا، بڑا بردبار ہے۔٭
٦٠۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر کوئی شخص اتنا ہی بدلہ لے جتنا سخت برتاؤ اس کے ساتھ کیا گیا تھا پھر اس پر زیادتی بھی کی جائے تو اللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا، بتحقیق اللہ بڑا درگزر کرنے والا معاف کرنے والا ہے۔٭
٦١۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا سننے والا، دیکھنے والا ہے۔٭
٦٢۔ یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ کہ اللہ بڑا برتر ہے۔٭
٦٣۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا تو (اس سے) زمین سرسبز ہو جاتی ہے؟ اللہ یقینا بڑا مہربان، بڑا باخبر ہے۔٭
٦٤۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میںہے سب اسی کا ہے اور اللہ ہی بے نیاز اور لائق ستائش ہے۔٭
٦٥۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز کو مسخر کر دیا ہے اور وہ کشتی بھی جو سمندر میں بحکم خدا چلتی ہے اور اسی نے آسمان کو تھام رکھا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر وہ زمین پر گرنے نہ پائے، یقینا اللہ لوگوں پر بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔٭
٦٦۔ اور اسی نے تمہیں حیات عطا کی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا، انسان تو یقینابڑا ہی ناشکرا ہے۔٭
٦٧۔ ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک دستور مقرر کیا ہے جس پر وہ چلتی ہے لہٰذا وہ اس معاملے میں آپ سے جھگڑا نہ کریں اور آپ اپنے پروردگارکی طرف دعوت دیں، آپ یقینا راہ راست پر ہیں۔٭
٦٨۔ اور اگر یہ لوگ آپ سے جھگڑا کریں تو کہدیجئے: جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
٦٩۔ اللہ بروز قیامت تمہارے درمیان ان چیزوں کا فیصلہ کرے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔
٧٠۔ کیا آپ کو علم نہیں کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اللہ ان سب کو جانتا ہے؟ یہ سب یقینا ایک کتاب میںدرج ہیں، یہ اللہ کے لیے یقینا نہایت آسان ہے۔
٧١۔ اور یہ لوگ اللہ کے علاوہ ایسی چیزوں کی بندگی کرتے ہیں جن کی نہ اس نے کوئی دلیل نازل کی ہے نہ اس کے بارے میں یہ کوئی علم رکھتے ہیں اور ظالموں کا تو کوئی مددگار نہیں ہے۔٭
٧٢۔ اور جب انہیں ہماری صریح آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو آپ کافروں کے چہروں پر انکار کے آثار دیکھتے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات پڑ ھ کر انہیں سناتے ہیں یہ ان پر حملہ کرنے کے قریب ہوتے ہیں، کہدیجئے: کیا میں تمہیں اس سے بھی بری چیز کی خبر دوں؟ وہ آگ ہے جس کا اللہ نے کفار سے وعدہ کر رکھا ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔٭ ٧٣۔ اے لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے ،اسے سنو: اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بنانے پر بھی ہرگز قادر نہیں ہیں خواہ اس کام کے لیے وہ سب جمع ہو جائیں، اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سے اسے چھڑا بھی نہیں سکتے، طالب اور مطلوب دونوں ناتواں ہیں۔٭
٧٤۔ لوگوں نے اللہ کی ویسی قدر نہیں کی جیسی قدر کرنی چاہیے تھی، اللہ یقینا بڑا طاقت رکھنے والا، غالب آنے والا ہے.٭
٧٥۔ اللہ فرشتوں اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرتا ہے اللہ یقینا خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔
٧٦۔ جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اسے سب کاعلم ہے اور سب معاملات کی برگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔
٧٧۔ اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو نیز نیک عمل انجام دو، امید ہے کہ (اس طرح) تم فلاح پا جاؤ ۔٭
٧٨۔ اور راہ خدا میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین کے معاملے میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا، یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا اس (قرآن) سے پہلے اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسول تم پر گواہ رہے اور تم لوگوں پر گواہ رہو، لہٰذا نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ ے ساتھ متمسک رہو، وہی تمہارا مولا ہے سو وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے.٭

پارہ : قد افلح 18
23 سورہ مومنون ۔ مکی ۔ آیات ١١٨​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ وہ ایمان والے یقینا فلاح پا گئے ٭
٢۔ جو اپنی نماز میںخشوع کرنے والے ہیں،
٣۔ اور جو لغویات سے منہ موڑنے والے ہیں،
٤۔ اور جو زکوۃ کا عمل انجام دینے والے ہیں،
٥۔ اورجو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں،
٦۔ سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں کیونکہ ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔٭
٧۔لہٰذا جو ان کے علاوہ اوروں کے طالب ہو جائیں تو وہ زیادتی کرنے والے ہوں گے۔
٨۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور معاہدوں کا پاس رکھنے والے ہیں،
٩۔ اور جو اپنی نمازوں کی محافظت کرنے والے ہیں،
١٠۔ یہی لوگ وارث ہوں گے،
١١۔ جو (جنت) فردوس کی میراث پائیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

١٢۔ اور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے بنایا۔
١٣۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بنا دیا۔٭
١٤۔ پھر ہم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے٭
١٥۔پھرا س کے بعد تم بلاشبہ مر جاتے ہو۔
١٦۔ پھر تمہیں قیامت کے دن یقینا اٹھایا جائے گا۔
١٧۔ اور بتحقیق ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے ہیں اور ہم تخلیقی کارناموں سے غافل نہیں ہیں۔٭
١٨۔ اور ہم نے آسمان سے ایک خاص مقدار میں پانی برسایا پھر اسے زمین میں ہم نے ٹھہرایا اور ہم یقینا اسے ناپید کرنے پر بھی قادر ہیں۔٭
١٩۔پھر ہم نے اس سے تمہارے لیے کھجوروں اور انگور کے باغات پیدا کیے جن میں تمہارے لیے بہت سے پھل ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو۔
٢٠۔ اور اس درخت کو بھی پیدا کیا جو طور سینا سے نکلتا ہے اور کھانے والوں کے لیے تیل اور سالن لے کر اگتا ہے۔٭
٢١۔ اور تمہارے لیے جانوروں میںیقینا ایک درس عبرت ہے، ان کے شکم سے ہم تمہیں (دودھ)پلاتے ہیں اور ان میں تمہارے لیے (دیگر) بہت سے فوائد ہیں اور ان میں سے کچھ کو تم کھاتے بھی ہو۔٭
٢٢۔ اور ان جانوروں پر اور کشتیوں پر تم سوارکیے جاتے ہو۔٭
٢٣۔ اور بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، پس نوح نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم بچتے نہیں ہو؟
٢٤۔ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: یہ تو بس تم جیسا بشر ہے، جو تم پر اپنی بڑائی چاہتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کرتا، ہم نے اپنے پہلے باپ دادا سے یہ بات کبھی نہیں سنی۔٭
٢٥۔ بس یہ ایک ایسا شخص ہے جس پر جنون کا عارضہ ہوا ہے لہٰذا کچھ دیر انتظار کرو۔
٢٦۔ نوح نے کہا: اے میرے پروردگار! انہوں نے جو میری تکذیب کی ہے ان پر تو میری مدد فرما۔
٢٧۔ پس ہم نے نوح کی طرف وحی کی (اور کہا) ہماری نگرانی میںاور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ، پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابلنا شروع کر دے تو ہر قسم کے (جانوروں کے) جوڑوں میں سے دو دو سوار کرو اور اپنے گھر والوں کو بھی، ان میں سے سوائے ان لوگوںکے جن کے بارے میں پہلے فیصلہ صادر ہو چکا ہے اور (اے نوح) ان ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا کہ یہ اب یقینا غرق ہونے والے ہیں۔٭
٢٨۔اور جب آپ اور آپ کے ساتھی کشتی پر سوار ہو جائیں تو کہیں: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دلا دی۔
٢٩۔ اور کہیں: پروردگارا! ہمیں بابرکت جگہ اتارنا اور تو بہترین جگہ دینے والا ہے۔
٣٠۔ اس (واقعے) میں یقینا نشانیاں ہیں اور ہم آزمائش کر گزریںگے ۔
٣١۔ پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور قوم کو پیدا کیا۔٭
٣٢۔ پھر خود انہی میں سے ایک رسول ان میں مبعوث کیا، ( جس کی دعوت یہ تھی کہ لوگو) اللہ کی بندگی کرو تمہارے لیے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے کیا تم بچنا نہیں چاہتے ؟
٣٣۔ اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے جو آخرت کی ملاقات کی تکذیب کرتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیاوی زندگی میں آسائش فراہم کررکھی تھی کہا : یہ تو بس تم جیسا بشر ہے، وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔
٣٤۔ اور اگر تم نے اپنے جیسے کسی بشر کی اطاعت کی تو بے شک تم خسارے میں رہو گے۔٭
٣٥۔ کیا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور تم خاک اور ہڈی ہو جاؤ گے تب تم نکالے جاؤ گے ؟
٣٦۔ جس بات کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے بعید ہی بعید ہے۔
٣٧۔ بس یہی دنیاوی زندگی ہے جس میں ہمیں مرنا اور جینا ہے اور ہم اٹھائے نہیں جائیں گے۔
٣٨۔ یہ تو بس ایسا آدمی ہے جو اللہ پر جھوٹی نسبت دیتا ہے اور ہم اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
٣٩۔ عرض کیا: پروردگارا! ان لوگوں کی تکذیب پر میری نصرت فرما۔
٤٠۔ اللہ نے فرمایا: تھوڑے وقت میں یہ لوگ پشیمان ہو جائیں گے۔
٤١۔ چنانچہ (وعدہ) حق کے مطابق زوردار آواز نے انہیں گرفت میں لے لیا تو ہم نے انہیں خس و خاشاک بنا کر رکھ دیا، پس (رحمت حق سے) دور ہو یہ ظالم قوم۔٭
٤٢۔ پھر ان کے بعد ہم نے اور قومیں پیدا کیں۔٭
٤٣۔کوئی امت اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے جا سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔٭
٤٤۔ پھر ہم نے یکے بعد دیگرے برابر اپنے رسول بھیجے، جب بھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آتا تو وہ اس کی تکذیب کرتی تو ہم بھی ایک کے بعد دوسرے کو ہلاک کرتے رہے اور ہم نے انہیں افسانے بنا دیا، (رحمت حق سے) دور ہوں جو ایمان نہیں لاتے۔٭
٤٥۔ پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔
٤٦۔ فرعون اور ان کے درباریوں کی طرف مگر انہوں نے تکبر کیا اور وہ بڑے متکبر
لوگ تھے۔
٤٧۔ اور کہنے لگے: کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں جب کہ ان کی قوم ہماری تابعدار ہے؟٭
٤٨۔ پھر انہوں نے دونوں کی تکذیب کی، (نتیجے کے طور پر) وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو گئے۔
٤٩۔ اور ہم نے موسیٰ کو اس امید پر کتاب دی کہ وہ (لوگ) اس سے رہنمائی حاصل کر لیںگے۔
٥٠۔ اور ابن مریم اور ان کی والدہ کو ہم نے ایک نشانی بنایا اور انہیں ہم نے ایک بلند مقام پر جگہ دی جہاں اطمینان تھا اور چشمے پھوٹتے تھے۔٭
٥١۔ اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل صالح بجا لاؤ، جو عمل تم کرتے ہو میں اسے خوب جاننے والا ہوں۔٭
٥٢۔ اور تمہاری یہ امت یقینا امت واحدہ ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں لہٰذا مجھ ہی سے ڈرو۔
٥٣۔ مگر لوگوں نے اپنے (دینی) معاملات میں تفرقہ ڈال کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اب ہر فرقہ اپنے پاس موجود (نظریات) پر خوش ہے۔٭
٥٤۔ انہیںایک مدت تک اپنی غفلت میں پڑا رہنے دیجیے۔٭
٥٥۔ کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مال اور اولاد سے جو انہیں مالامال کرتے ہیں،٭
٥٦۔ تو ہم انہیں تیزی سے بھلائی پہنچا رہے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔
٥٧۔ (حقیقت یہ ہے کہ) جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ہراساں ہیں،٭
٥٨۔ اور جو اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں،
٥٩۔ اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے،
٦٠۔ اور جو کچھ وہ دیتے ہیں اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس بات سے لرز رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
٦١۔ یہی لوگ ہیں جو نیکی کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں اور یہی لوگ نیکی میں سبقت لے جانے والے ہیں۔٭
٦٢۔ اور ہم کسی شخص پر اس کی قوت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے اور ہمارے پاس وہ کتا ب ہے جو حقیقت بیان کرتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔٭
٦٣۔ مگر ان (کافروں) کے دل اس بات سے غافل ہیں اور اس کے علاوہ ان کے دیگر اعمال بھی ہیں جن کے یہ لوگ مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔٭
٦٤۔ حتیٰ کہ جب ہم ان کے عیش پرستوں کو عذاب کے ذریعے گرفت میں لیں گے تو وہ اس وقت چلا اٹھیں گے۔٭
٦٥۔ آج مت چلاؤ! تمہیں ہم سے یقینا کوئی مدد نہیں ملے گی۔
٦٦۔ میری آیات تم پر تلاوت کی جاتی تھیں تو اس وقت تم الٹے پاؤں پھر جاتے تھے۔
٦٧۔ تکبر کرتے ہوئے، افسانہ گوئی کرتے ہوئے، بیہودہ گوئی کرتے تھے۔٭
٦٨۔ کیا انہوںنے اس کلام پر غور نہیں کیا یا ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی بات آئی ہے جو ان کے پہلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی؟
٦٩۔ یا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ اس کے منکر ہو گئے ہیں؟
٧٠۔ یا وہ یہ کہتے ہیں: وہ مجنون ہے؟ نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔
٧١۔ اور اگر حق ان لوگوں کو خواہشات کے مطابق چلتا تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب تباہ ہو جاتے، بلکہ ہم تو ان کے پاس خود ان کی اپنی نصیحت لائے ہیں اور وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑتے ہیں۔٭
٧٢۔ یا (کیا) آپ ان سے کوئی خراج مانگتے ہیں؟ (ہرگز نہیں کیونکہ) آپ کے رب کا دیا ہوا سب سے بہتر ہے اور وہی بہترین رازق ہے۔٭
٧٣۔ اور آپ تو انہیں یقینا صراط مستقیم کی دعوت دیتے ہیں۔
٧٤۔ اور جو لوگ آخرت پرایمان نہیں رکھتے یقینا وہ راستے سے منحرف ہوجاتے ہیں۔
٧٥۔ اور اگر ہم ان پر رحم کر دیں اور انہیں جو تکلیف لاحق ہے اسے دور کر بھی دیں پھر بھی یہ لوگ اپنی سرکشی میںبرابر بہکتے جائیں گے۔
٧٦۔ اور بتحقیق ہم نے تو انہیںاپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا تھا لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے رب سے نہ عاجزی کا اظہار کیا نہ زاری کی۔٭
٧٧۔ یہاں تک کہ جب ہم نے ان پرشدید عذاب کاایک دروازہ کھول دیا تو پھر ان کی امیدیں ٹوٹ گئیں۔٭
٧٨۔ اور اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے لیکن تم پھر بھی کم شکر گزار ہو۔٭
٧٩۔ اور اللہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پیدا کیا اور اسی کی طرف تم سب کو جمع کیا جانا ہے۔٭
٨٠۔ اور وہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت بھی اور اسی کے قبضہ قدرت میں شب و روز کا آناجانا ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ ٭
٨١۔ لیکن یہ لوگ وہی بات کر رہے ہیں جو ان سے پہلے والے کرتے رہے۔٭
٨٢۔ وہ کہتے تھے: کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہم مٹی ہو جائیں گے اور ہڈی (رہ جائے گی) تو کیا ہم اٹھائے جائیںگے؟
٨٣۔ یہی وعدہ یقینا ہم سے اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی ہوتا رہا ہے یہ تو صرف قصہ ہائے پارینہ ہیں۔
٨٤۔ کہدیجئے: یہ زمین اور جو اس پر (آباد) ہیں کس کی ہے اور اگر تم جانتے ہو؟ (تو بتاؤ)۔
٨٥۔ وہ کہیں گے: اللہ کی ہے، کہدیجئے: تو پھر تم سوچتے کیوں نہیں ہو؟٭
٨٦۔ کہدیجئے: سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟
٨٧۔ وہ کہیں گے: اللہ ہے، کہدیجئے: تو پھر تم بچتے کیوں نہیںہو؟٭
٨٨۔ کہدیجئے: وہ کون ہے جس کے قبضے میں ہر چیز کی بادشاہی ہے؟ اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا، اگر تم جانتے ہو؟ (تو بتاؤ)۔
٨٩۔ وہ کہیں گے: اللہ، کہدیجئے: تو پھر تمہاری یہ خبطی کہاں سے ہے؟
٩٠۔بلکہ ہم حق کو ان کے سامنے لے آئے ہیں اور یہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں۔
٩١۔ اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، اگرایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی مخلوقات کو لے کر جدا ہو جاتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی کر دیتا، اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔٭
٩٢۔ وہ غیب و شہود کا علم رکھتا ہے پس وہ منزہ ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
٩٣۔ (اے رسول) کہدیجئے: میرے پروردگار! اگر تو وہ عذاب مجھے دکھا دے جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے،
٩٤۔ تو میرے پروردگار! مجھے اس ظالم قوم کے ساتھ شامل نہ کرنا ۔
٩٥۔ اور جس (عذاب) کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ہم اسے آپ کو دکھانے کی یقینا طاقت رکھتے ہیں۔٭
٩٦۔ آپ برائی کو احسن برتاؤ کے ذریعے دور کریں، ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں۔٭
٩٧۔ اور کہدیجئے: اے میرے پروردگار! میں شیطانی وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔٭
٩٨۔ اور اے پروردگار! میں ان کے میرے سامنے آنے سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں۔
٩٩۔ (یہ غفلت میںپڑے ہیں) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ لے گی تو وہ کہے گا: اے پروردگار! مجھے واپس دنیا میں بھیج دے،
١٠٠۔ جس دنیا کو چھوڑ کر آیا ہوں شاید اس میں عمل صالح بجا لاؤں، ہرگز نہیں، یہ تو وہ جملہ ہے جسے وہ کہدے گا اور ان کے پیچھے اٹھائے جانے کے دن تک ایک برزخ حائل ہے۔٭
١٠١۔ پھر جب صور پھونکا جائے گا تو ان میں اس دن نہ کوئی رشتہ داری رہے گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔٭
١٠٢۔ پس جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی نجات پانے والے ہیں۔٭
١٠٣۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا ہو اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
١٠٤۔ جہنم کی آگ ان کے چہروں کو جھلسا دے گی اور اس میں ان کی شکلیں بگڑی ہوئی ہوںگی۔
١٠٥۔ کیا تم وہی نہیں ہو کہ جب میری آیات تمہیں سنائی جاتیں تو تم انہیں جھٹلاتے تھے؟
١٠٦۔ وہ کہیں گے: ہمارے پروردگار! ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔
١٠٧۔ اے ہمارے پروردگار!ہمیں اس جگہ سے نکال دے، اگر ہم نے پھر وہی (جرائم) کیے تو ہم لوگ ظالم ہوں گے ۔
١٠٨۔ اللہ فرمائے گا: خوار ہو کر اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔
١٠٩۔ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ یقینا یہ دعا کرتے تھے: اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے ہیں پس ہمیں معاف فرما اور ہم پررحم فرما اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والاہے۔٭
١١٠۔ تو تم نے ان کا مذاق اڑایا یہاں تک کہ انہوں نے تمہیں ہماری یاد سے غافل کر دیا اور تم ان پر ہنستے تھے ۔
١١١۔ آج میں نے ان کے صبر کا انہیں یہ بدلہ دیا کہ وہی لوگ کامیاب ہیں۔
١١٢۔ اللہ پوچھے گا: تم زمین میںکتنے سال رہے ہو؟٭
١١٣۔ وہ کہیں گے: ایک روز یا روز کا ایک حصہ (ہم وہاں) ٹھہرے ہیں، پس شمار کرنے والوںسے پوچھ لیجیے۔
١١٤۔ فرمایا: تم وہاں تھوڑا ہی (عرصہ) ٹھہرے ہو، کاش کہ تم (اس وقت) جانتے ۔٭
١١٥۔ کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے؟٭
١١٦۔ پس بلند و برتر ہے اللہ جو بادشاہ حقیقی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش کریم کا مالک ہے۔
١١٧۔ اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں ہے تو اس کا حساب اس کے پروردگار کے پاس ہے اور کافر یقینا فلاح نہیں پا سکتے۔
١١٨۔ اور کہدیجئے: اے میرے پروردگار! معاف فرما اوررحم فرما اور تو سب سے بہترین رحم کرنے والا ہے۔
 

صرف علی

محفلین
24 سورۃ النور۔ مدنی ۔ آیات ٦٤​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ یہ ایک سورہ ہے جسے ہم نے نازل کیا اور اسے فرض کیا اور اس میں صریح آیات کو نازل کیا تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔٭
٢۔ زناکار عورت اور زناکار مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور دین خدا کے معاملے میں تمہیں ان پر ترس نہیں آنا چاہیے اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور ان کی سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت موجود رہے۔٭
٣۔ زانی صرف زانیہ یا مشرکہ سے نکاح کرے گا اور زانیہ صرف زانی یا مشرک سے نکاح کرے گی اور مومنوںپر یہ حرام کیا گیا ہے۔٭
٤۔ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں پھر اس پر چار گواہ نہ لائیں پس انہیں اسّی (٨٠) کوڑے مارو اور ا ن کی گواہی ہرگز قبول نہ کرو اور یہی فاسق لوگ ہیں۔٭
٥۔ سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں، اس صورت میں اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٦۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا کوئی گواہ نہ ہو توان میں سے ایک شخص کی شہادت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ سچا ہے۔
٧۔ اور پانچویں بار کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
٨۔ اور عورت سے سزا اس صورت میں ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔٭
٩۔ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ سچا ہے۔٭
١٠۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تمہیں اس سے خلاصی نہ ملتی) اور یہ کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، حکمت والا ہے۔
١١۔ جو لوگ بہتان باندھ لائے وہ یقینا تمہارا ہی ایک دھڑا ہے، اسے اپنے لیے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے، ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کے لیے اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے بڑا حصہ لیا ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔٭
١٢۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوںنہ کیا اور کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح بہتان ہے؟٭
١٣۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں لہٰذا وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔
١٤۔ اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جن باتوں کا تم نے چرچا کیا تھا ان کے سبب تم پر بڑا عذا ب آ جاتا۔
١٥۔ جب تم اس جھوٹی خبر کو اپنی زبانوں پر لیتے جا رہے تھے اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہ رہے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا اور تم اسے ایک معمولی بات خیال کر رہے تھے جب کہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بات ہے۔٭
١٦۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو کیوں نہ کہا: ہمیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی؟ خدایا تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔٭
١٧۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو آیندہ کبھی بھی ایسے کام کا اعادہ نہ کرنا۔
١٨۔ اور اللہ آیات تمہارے لیے بیان کرتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔
١٩۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے درمیان بے حیائی پھیلے ، ان کے لیے دنیااور آخرت میں درد ناک عذاب ہے ، اللہ یقیناً جانتا ہے مگر تم نہین جانتے ۔
20۔اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم پر فوری عذاب آجاتا ) اور یہ کہ اللہ بڑا شفیق ، مہربان ہے ۔
21۔ اے ایمان والو ! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلنا اور جو شخص شیطان کے نقش قدم پر چلے گا تو وہ بے حیائی اور برائی کا حکم دے گا اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے ایک شخص بھی کبھی پاک نہ ہوتا مگر اللہ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے اور اللہ خوب سننے ،جاننے والا ہے ۔
22۔ تم میں سے جو لوگ احسان کرنے والے اور ( مال و دولت میں ) وسعت والے ہیں وہ قرینی رشتہ داروں ، مسکینوں اور فی سبیل اللہ ہجرت کرنے والوں کو کچھ دینے سے دریغ نہ کریں اور انہیں عفو ودرگزرسے کام لینا چاہیے ۔ کیا تم خود یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے اور اللہ غفور ، رحیم ہے ۔
23۔جو لوگ بے خبر پاک دامن مومنہ عروتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے ۔
24۔ اس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان سب اعمال کی گواہی دیں گے جو یہ کرتے رہے ہیں۔٭
٢٥۔ اس دن اللہ ان کا حقیقی بدلہ پورا کرے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے (اور حق کا) ظاہر کرنے والا ہے۔٭
٢٦۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوںکے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوںکے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں، یہ ان باتوں سے پاک ہیں جو لوگ بناتے ہیں، ان کے لیے مغفرت اور باعزت روزی ہے۔٭
٢٧۔ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہونا جب تک اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ کر لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔٭
٢٨۔ اور اگر تم اس گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو بغیر اجازت کے اس میں داخل نہ ہونا اور اگر تم سے لوٹ جانے کے لیے کہا جائے تو لوٹ جاؤ، اسی میںتمہاری پاکیزگی ہے اور اللہ تمہا رے اعمال سے خوب آگاہی رکھتا ہے۔٭
٢٩۔ البتہ ایسے گھروں میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں جن میں کوئی رہائش پذیر نہ ہو اور ان میں تمہارا کوئی سامان ہو اور اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔
٣٠۔ آپ مومن مردوں سے کہدیجئے: وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں، یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے، اللہ کو ان کے اعمال کا یقینا خوب علم ہے۔٭
٣١۔ اور مومنہ عورتوں سے بھی کہدیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اور اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں، آبائ، شوہر کے آبائ، اپنے بیٹوں، شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، بھائیوں کے بیٹوں، بہنوں کے بیٹوں، اپنی (ہم صنف) عورتوں، اپنی کنیزوں، ایسے خادموں جو عورت کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور ان بچوں کے جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے واقف نہ ہوں، اور مومن عورتوں کو چاہیے کہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اللہ کے حضور تو بہ کرو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔٭
٣٢۔ اور تم میں سے جولوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموںاور کنیزوں میںسےجو صالح ہوں ان کے نکا ح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، علم والا ہے۔٭
٣٣۔ جو لوگ نکاح کا امکان نہ پائیں انہیں عفت اختیار کرنی چاہیے یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے انہیںخوشحال کر دے اور تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کی خواہش رکھتے ہوں ان سے مکاتبت کر لو۔ اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان میں کوئی خیر ہے اور انہیںاس مال میںسے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے دے دو اور تمہاری جوان لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تو انہیں دنیاوی زندگی کے متاع کے لیے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور اگر کوئی انہیں مجبور کر دے تو ان کی اس مجبوری کے بعد یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
٣٤۔ اور بتحقیق ہم نے تمہاری طرف واضح کرنے والی آیات نازل کی ہیں اور تم سے پہلے گزرنے والوںکی مثالیں بھی اور تقویٰ رکھنے والوں کے لیے موعظہ بھی (نازل کیا ہے)۔
٣٥۔ اللہ آسمانوں اور زمین کانور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے، اس میں ایک چراغ رکھا ہوا ہے ، چراغ شیشے کے فانوس میں ہے، فانوس گویا موتی کا چمکتا ہوا تارا ہے جو زیتون کے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، اس کا تیل روشنی دیتا ہے خواہ آگ اسے نہ چھوئے، یہ نور بالائے نور ہے، اللہ جسے چاہے اپنے نور کی راہ دکھاتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بھی بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔٭
٣٦۔ (ہدایت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کی تعظیم کا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے کا بھی، وہ ان گھروں میں صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔٭
٣٧۔ ایسے لوگ جنہیںتجارت اور خرید و فروخت، ذکر خدا اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتیں وہ اس دن سے خوف کھاتے ہیں جس میں قلب و نظر منقلب ہوجاتے ہیں۔٭
٣٨۔ تاکہ اللہ انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے انہیں مزید بھی عطا کرے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دے دیتا ہے۔٭
٣٩۔ اور جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے ایک چٹیل میدان میں سراب،جسے پیاسا پانی خیال کرتا ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو اسے کچھ نہیں پاتا بلکہ اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے تو اللہ اس کا حساب پورا کر دیتا ہے اور اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔
٤٠۔ یا ان کی مثال اس تاریکی کی طرح ہے جو گہرے سمندر میں ہو جس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو اس پر ایک اور موج ہو اور اس کے اوپر بادل، تہ بہ تہ اندھیرے ہی اندھیرے ہوں، جب انسان اپنا ہاتھ نکالے توو ہ اسے نظر نہ آئے اور جسے اللہ نور نہ دے تو اس کے لیے کوئی نور نہیں۔٭
٤١۔کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جو مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی؟ ان میں سے ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے اور اللہ کو ان کے اعمال کا بخوبی علم ہے۔٭
٤٢۔ اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
٤٣۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ ہی بادلوں کو چلاتا ہے پھر اسے باہم جوڑ دیتا ہے پھر اسے تہ بہ تہ کر دیتا ہے؟ پھر آپ بارش کے قطروں کو دیکھتے ہیں کہ بادل کے درمیان سے نکل رہے ہیں اور آسمان سے پہاڑوں (جیسے بادلوں) سے اولے نازل کرتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اسے ہٹا دیتا ہے۔٭
٤٤۔ اللہ شب و روز کو بدلتا رہتا ہے جس میں صاحبان بصیرت کے لیے یقینا عبرت ہے.
45۔ اور اللہ نے زمین پر چلنے والے ہر جاندار کو پانی سے خلق فرمایا پس ان میں سے کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے اور کوئی چار ٹانگوں پر ، اللہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
46۔ بتحقیق ہم نے حقیقت بیان کرنے والی آیات نازل کیں اور اللہ جسے چاہتا ہے صارط مستقیم کی رہنمائی فرماتا ہے ۔
47۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں : ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت بھی کی پھر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ پھر جاتا ہے ، یہ لوگ مومن ہی نہیں ہیں ۔
48۔ اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کردے تو ان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتا ہے ۔
49۔ اور اگر حق ان کے موافق ہوتو فرمانبردار بن کر رسول کی طرف آجاتے ہیں ۔
50۔ کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا انہیں کوئی شبہ یا ڈر ہے کہ کہیں اللہ اور اس کا رسول ان کے ساتھ ظلم نہ کریں ؟ ( نہیں ) بلکہ یہ لوگ خود ظالم ہیں ۔
51۔ جب مومنوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو مومنوں کا قول تو بس یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں: ہم نے سن لیا اور اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
٥٢۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا اور اس (کی نافرمانی) سے بچتا ہے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے۔
٥٣۔ اور یہ لوگ اللہ کی کڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر آپ انہیںحکم دیں تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے، ان سے کہدیجئے: تم قسمیں نہ کھاؤ، اچھی اطاعت (قسم سے بہتر) ہے، بتحقیق اللہ کو تمہارے اعمال کا ۔خوب علم ہے۔ ٭
٥٤۔ کہدیجئے: اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم نے منہ موڑ لیا تو سمجھ لوکہ جو بار رسول پر رکھا گیا ہے اس کے وہ ذمے دار ہیں اور جو بار تم پر رکھا گیا ہے اس کے تم ذمے دار ہو اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسول کی ذمے داری تو صرف یہ ہے کہ واضح انداز میں تبلیغ کریں۔٭
٥٥۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اوراس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔٭
٥٦۔ اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دیا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔٭
٥٧۔ آپ یہ خیال نہ کریں کہ کافر لوگ زمین میں ( ہمیں) عاجز بنا دیں گے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا جو بدترین ٹھکانا ہے۔٭
٥٨۔ اے ایمان والو! ضروری ہے کہ تمہارے مملوک اور وہ بچے جو ابھی بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں تم سے اجازت لے کر آیا کریں، فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، ان کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر، اللہ اس طرح تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔٭
٥٩۔۔اور جب تمہارے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اجازت لیا کریں جس طرح پہلے (ان کے بڑے) لوگ اجازت لیا کرتے تھے، اس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے لیے بیان کرتا ہے
اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔
٦٠۔ اور جو عورتیں (۔ضعیف العمری کی وجہ سے) خانہ نشین ہو گئی ہوں اور نکاح کی توقع نہ رکھتی ہوں ان کے لیے اپنے (حجاب کے) کپڑے اتار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والیاں نہ ہوں تاہم عفت کا پاس رکھنا ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ بڑا سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔٭
٦١۔ اندھے پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ مریض پر کوئی حرج ہے اور نہ خود تم پر اس بات میںکوئی حرج ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ کے گھروں سے یا اپنی بڑی ماؤں (نانی دادی) کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان کے گھروں سے جن گھروں کی چابیاں تمہارے اختیار میں دے دی گئی ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے، اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم مل کر کھاؤ یا جدا جدا اور جب تم کسی گھرمیں داخل ہو تو اپنے آپ پر سلا م کیا کرو اللہ کی طرف سے بابرکت اور پاکیزہ تحیت کے طور پر، اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے، شاید تم عقل سے کام لو۔٭
٦٢۔ مومن تو بس وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی معاملے میں رسول اللہ کے ساتھ ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر نہیںہلتے، جو لوگ آپ سے اجازت مانگ رہے ہیں یہ یقینا وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں لہٰذا جب یہ لوگ اپنے کسی کام کے لیے آپ سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جسے آپ چاہیں اجازت دے دیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔٭
٦٣۔ تمہارے درمیان رسول کے پکارنے کو اس طرح نہ سمجھو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، تم میں سے جو دوسروں کی آڑ میں کھسک جاتے ہیں اللہ انہیں جانتا ہے، جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات کا خوف لاحق رہنا چاہیے کہ مبادا وہ کسی فتنے میں مبتلا ہو جائیں یا ان پر کوئی دردناک عذاب آجائے۔٭
٦٤۔ متوجہ رہو !آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اور جس دن انہیں اس کی طرف پلٹا دیا جائے گا تو وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں اور اللہ کو ہر چیز کا خوب علم ہے۔
 

صرف علی

محفلین
٢٥ سورہ فرقان ۔ مکی ۔ آیات ٧٧​
بنام خدائے رحمن ورحیم
١۔بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو۔٭
٢۔ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایااور جس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے اور جس نے ہر چیز کو خلق فرمایا پھر ہر ایک کو اپنے اندازے میں مقدر فرمایا۔٭
٣۔ لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیزکو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں اور وہ اپنے لیے بھی کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور وہ نہ موت کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ حیات کا اور نہ ہی اٹھائے جانے کا۔
٤۔ اور کفار کہتے ہیں: یہ قرآن ایک خود ساختہ چیز ہے جسے اس شخص نے خود گھڑ لیا ہے اور دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے، (ایسی باتیں کر کے) یہ لوگ ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
٥۔ اور کہتے ہیں: (یہ قرآن) پرانے لوگوں کی داستانیں ہیں جو اس شخص نے لکھ رکھی ہیں اور جو صبح و شام اسے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔٭
٦۔کہدیجئے: اسے تو اس اللہ نے نازل کیا ہے جو آسمانوںاور زمین کا راز جانتا ہے، بے شک وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔
٧۔ اور وہ کہتے ہیں: یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں ہوتا؟ تاکہ اس کے ساتھ تنبیہ کر دیا کرے۔٭
٨۔ یا اس کے لیے کوئی خزانہ نازل کر دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھا لیا کرتا اور ظالم لوگ (اہل ایمان سے) کہتے ہیں: تم تو ایک سحرزدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔٭
٩۔ دیکھیے! یہ لوگ آپ کے بارے میں کیسی باتیں بنا رہے ہیں، پس یہ ایسے گمراہ ہو گئے ہیں کہ ان کے لیے راہ پانا ممکن نہیں ہے۔
١٠۔ بابرکت ہے وہ ذات کہ اگر وہ چاہے تو آپ کے لیے اس سے بہتر ایسے باغات بنا دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور آپ کے لیے بڑے بڑے محل بنا دے۔٭
١١۔ بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انہوں نے قیامت کو جھٹلایا اور جو قیامت کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے جہنم تیار کر رکھی ہے۔٭
١٢۔ جب وہ (جہنم) دور سے انہیںدیکھے گی تو یہ لوگ غضب سے اس کا بپھرنا اور دھاڑنا سنیں گے۔
١٣۔ اور جب انہیں جکڑ کر جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ڈال دیا جائے گا تو وہاں وہ موت کو پکاریںگے۔
١٤۔ (تو ان سے کہا جائے گا) آج ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی اموات کو پکارو.
١٥۔ کہدیجئے: کیا یہ مصیبت بہتر ہے یا دائمی جنت جس کا اہل تقویٰ سے وعدہ کیا گیا ہے، جو ان کے لیے جزا اور ٹھکانا ہے۔
١٦۔ وہاں ان کے لیے ہر وہ چیز جسے وہ چاہیں گے موجود ہو گی جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ لازمی وعدہ آپ کے پروردگار کے ذمے ہے۔٭
١٧۔ اور اس دن اللہ، ان لوگوں کو اور اللہ کو چھوڑ کر جن معبودوں کی یہ لوگ پوجا کرتے تھے ان کو (بھی) جمع کرے گا اور پھر فرمائے گا: کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود گمراہ ہوئے تھے؟٭
١٨۔ وہ کہیں گے: پاک ہے تیری ذات ہمیں تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ ہم تیرے سوا کسی کو اپنا ولی بنائیں لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو نعمتیں عطا فرمائیں یہاں تک کہ یہ لوگ (تیری) یاد کو بھول گئے اور یہ ہلاکت میں پڑنے والے لوگ تھے۔٭
١٩۔ پس انہوں(تمہارے معبودوں) نے تمہاری باتوں کو جھٹلایا لہٰذا آج تم نہ تو عذاب کو ٹال سکتے ہو اور نہ ہی کوئی مدد حاصل کر سکتے ہو اور تم میں سے جو بھی ظلم کرے گا ہم اسے بڑا عذاب چکھا دیں گے۔
٢٠۔ اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے تھے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنا دیا کیا تم صبر کرتے ہو؟ اور آپ کا پروردگار تو خوب دیکھنے والا ہے۔٭

پارہ : وَقَالَ الّذِیْنَ ١٩​

٢١۔ اور جولوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں: ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کیے گئے یا ہم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھ لیتے؟ یہ لوگ اپنے خیال میں خود کو بہت بڑا سمجھ رہے ہیں اور بڑی حد تک سرکش ہو گئے ہیں۔٭
٢٢۔ جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان مجرموں کے لیے مسرت کا دن نہ ہو گا اور وہ (فرشتے )کہیں گے:(تمہارے لیے مسرت) حرام ممنوع ہے۔٭
٢٣۔ پھر ہم ان کے کیے ہوئے عمل کی طرف توجہ کریں گے اور ان کے کیے ہوئے عمل کو اڑتی ہوئی خاک بنا دیں گے۔٭
٢٤۔ اہل جنت اس دن بہترین ٹھکانے اور بہترین سکون کی جگہ میں ہوںگے۔
٢٥۔ اور اس دن آسمان ایک بادل کے ذریعے پھٹ جائے گا اور فرشتے لگاتار نازل کیے جائیں گے۔٭
٢٦۔ اس دن سچی بادشاہی صرف خدائے رحمن کی ہو گی اور کفار کے لیے وہ بہت مشکل دن ہو گا۔
٢٧۔ اور اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا: کاش میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔
٢٨۔ ہائے تباہی! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔
٢٩۔ اس نے مجھے نصیحت سے گمراہ کر دیا جب کہ میرے پاس نصیحت آ چکی تھی اور انسان کے لیے شیطان بڑا ہی دغا باز ہے۔٭
٣٠۔ اور رسول کہیں گے: اے میرے پروردگار! میری قوم نے اس قرآن کو واقعی ترک کر دیا تھا۔٭
٣١۔ اور اس طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرمین میں سے بعض کو دشمن بنایا ہے اور ہدایت اور مدد دینے کے لیے آپ کا پروردگار کافی ہے۔٭
٣٢۔ اور کفار کہتے ہیں: اس (شخص) پر قرآن یکبارگی نازل کیوں نہیں ہوا ؟ (بات یہ ہے کہ) اس طرح (آہستہ اس لیے اتارا) تاکہ اس سے ہم آپ کے قلب کو تقویت دیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سنایا ہے۔٭
٣٣۔ اور یہ لوگ جب بھی آپ کے پاس کوئی مثال لے کر آئیں تو ہم جواب میں آپ کو حق کی بات اور بہترین وضاحت سے نوازتے ہیں۔٭
٣٤۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے، ان کا ٹھکانا بہت برا ہے اور وہ راہ حق سے بہت ہی دور ہو گئے ہیں۔
٣٥۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت فرمائی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کر دیا۔٭
٣٦۔ پھر ہم نے کہا: تم دونوں اس قوم کی طرف جاؤ جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی ہے، چنانچہ ہم نے انہیں تباہ و برباد کر دیا ۔٭
٣٧۔ اور جب قوم نوح نے رسولوں کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور انہیں لوگوں کے لیے نشان (عبرت) بنا دیا اور ہم نے ظالموں کے لیے ایک دردناک عذاب تیارکر رکھا ہے۔
٣٨۔ اور یہی (حشر) عاد اور ثمود اور اصحاب الرس کا بھی ہوا ہے اور ان کے درمیان بہت سی امتوں کا بھی۔٭
٣٩۔ اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے مثالوں سے سمجھایا اور (آخر میں) سب کو بالکل ہی تباہ کر دیا۔
٤٠۔ اور بتحقیق یہ لوگ اس بستی سے گزر چکے ہیں جس پربدترین بارش برسائی گئی تھی تو کیا انہوں نے اس کا حال نہ دیکھا ہو گا؟ بلکہ (اس کے باوجود) یہ دوبار ہ اٹھائے جانے کی توقع ہی نہیں رکھتے ۔٭
٤١۔ اور جب یہ لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کیا یہی وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟٭
٤٢۔ اگر ہم اپنے معبودوں پر ثابت قدم نہ رہتے تو اس(شخص) نے تو ہمیں ان سے گمراہ ہی کر دیا ہوتا اور جب یہ لوگ عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو اس وقت انہیں پتہ چلے گا کہ (صحیح راستے سے) گمراہ کون ہے؟
٤٣۔ کیا آپ نے اس (شخص) کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے؟ کیا آپ اس شخص کے ضامن بن سکتے ہیں؟٭
٤٤۔ یا کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سننے یا سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ (نہیں) یہ لوگ تو محض جانوروںکی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔٭
٤٥۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کا پروردگار سائے کو کس طرح پھیلاتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن بنا دیتا، پھر ہم نے سورج کو سائے (کے وجود) پر دلیل بنا دیا۔٭
٤٦۔ پھر ہم تھوڑا تھوڑا کر کے اسے اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں۔
٤٧۔ اور وہ وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو پردہ اور نیند کو سکون اور دن کو مشقت کے لیے بنایا۔٭
٤٨۔ اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور پر اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی برسایا ہے۔٭
٤٩۔ تاکہ ہم اس کے ذریعے مردہ دیس کو زندگی بخشیں اور اس سے اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چوپاؤں اور انسانوں کو سیراب کریں۔
٥٠۔ اور بتحقیق ہم نے اس (پانی) کو مختلف طریقوں سے ان کے درمیان پھرایا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر اکثر لوگ انکار کے علاوہ کوئی بات قبول نہیں کرتے۔
٥١۔اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میںایک تنبیہ کرنے والا مبعوث کرتے ۔٭
٥٢۔ لہٰذا آپ کفار کی بات ہرگز نہ مانیں اور اس قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ بڑے پیمانے پر جہاد کریں۔
٥٣۔ اور اسی نے دو دریاؤں کو مخلوط کیا ہے، ایک شیریں مزیدار اور دوسرا کھارا کڑوا ہے اوراس نے دونوں کے درمیان ایک حد فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے۔٭
٥٤۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا پھر اس کو نسب اور سسرال بنایا اور آپ کا پروردگار بڑی طاقت والا ہے۔٭
٥٥۔ اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی بندگی کرتے ہیں جو نہ تو انہیں نفع پہنچا سکتی ہیں اور نہ ضرر اور کافر اپنے رب کے مقابلے میں (دوسرے کافروں کی) پشت پناہی کرتا ہے۔
٥٦۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ کو صرف بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔
٥٧۔ کہدیجئے: اس کام پر میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر یہ (چاہتا ہوں) کہ جو شخص چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔٭
٥٨۔ اور (اے رسول) اس اللہ پر توکل کیجیے جو زندہ ہے اور اس کے لیے کوئی موت نہیں ہے اور اس کی ثناء کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اپنے بندوں کے گناہوںسے مطلع ہونے کے لیے بس وہ خود ہی کافی ہے۔٭
٥٩۔ جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے (سب کو) چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پراقتدار قائم کیا، وہ نہایت رحم کرنے والا ہے لہٰذا اس کے بارے میں کسی باخبر سے دریافت کرو۔٭
٦٠۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں: رحمن کیا ہوتا ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو کہدے؟ پھر ان کی نفرت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
٦١۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں ستارے بنائے اور اس میں ایک چراغ اور روشن چاند بنایا۔٭
٦٢۔ اور وہی ہے جس نے ایک دوسرے کی جگہ لینے والے شب و روز بنائے، اس شخص کے لیے جو نصیحت لینا اور شکر ادا کرنا چاہتا ہے۔٭
٦٣۔ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر (فروتنی سے) دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے گفتگو کریں تو کہتے ہیں: سلام۔٭
٦٤۔اور جو اپنے پروردگار کے حضور سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں۔٭
٦٥۔ اور جو یوں التجا کرتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں عذاب جہنم سے بچا، بے شک اس کا عذاب توبڑی تباہی ہے۔
٦٦۔ بے شک جہنم تو بدترین ٹھکانا اور مقام ہے۔
٦٧۔ اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔٭
٦٨۔ اور یہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا کر نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہیں کرتے مگر جائز طریقہ سے اور زنا کا ارتکاب (بھی) نہیں کرتے اور جو ایسا کام کرے گا وہ اپنے گناہ میں مبتلا ہو گا۔
٦٩۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا ہو جائے گا اور اسے اس عذاب میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہنا ہو گا ۔٭
٧٠۔ مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دیا تو اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں میںبدل دیتا ہے اور اللہ تو بڑا غفور و رحیم ہے۔٭
٧١۔ اور جو توبہ کرتا ہے اور نیک عمل انجام دیتا ہے تو وہ اللہ کی طرف حقیقی طور پر رجوع کرتا ہے۔
٧٢۔ اور (عباد الرحمن وہ ہیں) جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ باتوں سے ان کا گزر ہوتا ہے تو شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔٭
٧٣۔ اور وہ لوگ جنہیں ان کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جائے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گرتے.
٧٤۔ اور جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیںہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔٭
٧٥۔ ایسے لوگوں کو ان کے صبر کے صلے میں اونچے محل ملیں گے اور وہاں ان کا استقبال تحیت اور سلام سے ہو گا۔
٧٦۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیںگے، بہت ہی عمدہ ٹھکانا اور مقام ہے۔٭
٧٧۔ کہدیجئے: اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی نہ کرتا، اب تم نے تکذیب کی ہے اس لیے (سزا) لازمی ہو گی۔٭
 

صرف علی

محفلین
٢٦ سورہ شعراء ۔ مکی ۔ آیا ت٢٢٧​

بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ طا ، سین، میم
٢۔ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔
٣۔ شاید اس رنج سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے آپ اپنی جان کھو دیں گے۔
٤۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایسی نشانیاں نازل کر دیں جس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں ۔٭
٥۔ اور ان کے پاس رحمن کی طرف سے جو بھی تازہ نصیحت آتی ہے تو یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔٭
٦۔ یہ تکذیب کر بیٹھے ہیں تو جس چیز کا یہ لوگ مذاق اڑاتے تھے اب عنقریب اس کی خبریں آنے والی ہیں۔
٧۔ کیا انہوںنے کبھی زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی وافر مقدار میں ہر قسم کی نفیس نباتات اگائی ہیں؟٭
٨۔ اس میں یقینا ایک نشانی ضرو رہے مگر ان میں سے اکثر نہیں مانتے۔
٩۔ اور یقینا آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے ولا، رحم کرنے والا ہے۔
١٠۔ اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے موسیٰ کو پکارا (اور کہا) کہ آپ ظالم لوگوں کے پاس جائیں،
١١۔ (یعنی) فرعون کی قوم کے پاس، کیا وہ ڈرتے نہیں؟
١٢۔ موسیٰ نے عرض کی: پروردگارا! مجھے اس بات کا خوف ہے کہ وہ میری تکذیب کریں گے۔
١٣۔ اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے اور میری زبان نہیں چلتی سو تو ہارون کو (پیغام) بھیج (کہ میرا ساتھ دیں)۔٭
١٤۔ اور ان لوگوں کے لیے میرے ذمے ایک جرم (کا دعویٰ) بھی ہے لہٰذا مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔
١٥۔ فرمایا: ہرگز نہیں! آپ دونوں ہماری نشانیاں لے کر جائیں کہ ہم آپ کے ساتھ سنتے رہیں گے۔
١٦۔ آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں اور (اس سے) کہیں: ہم رب العالمین کے رسول ہیں،٭
١٧۔ کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے ۔٭
١٨۔ فرعون نے کہا: کیا ہم نے تجھے بچپن میں اپنے ہاں نہیں پالا؟ اور تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں بسر کیے۔٭
١٩۔ اور تو کر گیا اپنا وہ کرتوت جو کر گیا اور تو ناشکروں میں سے ہے۔٭
٢٠۔ موسیٰ نے کہا: ہاں اس وقت وہ حرکت مجھ سے سرزد ہو گئی تھی اور میں خطاکاروں میں سے تھا۔٭
٢١۔اسی لیے جب میں نے تم لوگوں سے خوف محسوس کیا تو میں نے تم سے گریز کیا پھر میرے رب نے مجھے حکمت عنایت فرمائی اور مجھے رسولوں میں سے قرار دیا.٭
٢٢۔ اور تم مجھ پر اس بات کا احسان جتاتے ہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا ہے؟ (یہ تو غلامی تھی احسان نہیں تھا)۔٭
٢٣۔ فرعون نے کہا: اور رب العالمین کیا ہے؟
٢٤۔ موسیٰ نے کہا : آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا رب، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔
٢٥۔ فرعون نے اپنے اردگرد کے درباریوں سے کہا : کیا تم سنتے نہیں ہو؟ ٭
٢٦۔ موسیٰ نے کہا: وہ تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا پروردگار ہے۔٭
٢٧۔ فرعون نے (لوگوں سے)کہا: جو رسول تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ دیوانہ ہے۔
٢٨۔ موسیٰ نے کہا: وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کا پروردگار ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو۔٭
٢٩۔ فرعون نے کہا: اگر تم نے میرے علاوہ کسی کو معبود بنایا تو میں تمہیںقیدیوں میں شامل کروں گا۔٭
٣٠۔ موسیٰ نے کہا: اگر میں تیرے پاس واضح چیز (معجزہ) لے آؤں تو؟٭
٣١۔ فرعون نے کہا: اگر تم سچے ہو تو اسے لے آؤ۔
٣٢۔ پس موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ دفعتاً نمایاں اژدھا بن گیا۔
٣٣۔ اور (گریبان سے) اپنا ہاتھ نکالا تو وہ تمام ناظرین کے لیے چمک رہا تھا۔
٣٤۔فرعون نے اپنے گرد و پیش کے درباریوں سے کہا: یقینا یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے۔
٣٥۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال باہر کرے تو اب تم کیا مشورہ دیتے ہو؟٭
٣٦۔ وہ کہنے لگے : اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دو اور شہروں میں ہرکارے بھیج دو
٣٧۔ کہ وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لے آئیں ۔
٣٨۔ چنانچہ مقررہ دن کے مقررہ وقت پر جادوگر جمع کر لیے گئے ۔٭
٣٩۔ اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہو جاؤ گے؟٭
٤٠۔ شاید ہم جادوگروں کے پیچھے چلیں اگر یہ لوگ غالب رہیں ۔
٤١۔ جب جادوگر آ گئے توفرعون سے کہنے لگے: اگر ہم غالب رہے تو ہمارے لیے کوئی صلہ بھی ہو گا؟
٤٢۔ فرعون نے کہا: ہاں! اور اس صورت میں تو تم مقربین میں سے ہو جاؤ گے۔
٤٣۔موسیٰ نے ان سے کہا: تمہیں جو پھینکنا ہے پھینکو۔ ٭
٤٤۔ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے: فرعون کے جاہ و جلال کی قسم بے شک ہم ہی غالب آئیں گے۔
٤٥۔ پھر موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو اس نے دفعتاً ان کے سارے خود ساختہ دھندے کو نگل لیا۔٭
٤٦۔ اس پر تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے.
٤٧۔ کہنے لگے: ہم عالمین کے پروردگار پر ایمان لے آئے،
٤٨۔ موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔٭
٤٩۔ فرعون نے کہا: میری اجازت سے پہلے تم موسیٰ کو مان گئے؟ یقینا یہ (موسیٰ) تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے ابھی تمہیں (تمہارا انجام) معلوم ہو جائے گا، میں تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں مخالف سمتوں سے ضرور کٹوا دوں گا اور تم سب کو ضرور سولی پر لٹکا دوں گا۔٭
٥٠ ۔وہ بولے کوئی حرج نہیں ہم اپنے رب ے حضور لوٹ جائیں گے،٭
٥١۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایما ن لائے ہیں۔٭
٥٢۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو لے کر رات کو نکل پڑیں یقینا آپ کا تعاقب کیا جائے گا۔٭
٥٣۔(ادھر) فرعون نے شہروں میں ہرکارے بھیج دیے،
٥٤۔ (ان کے ساتھ یہ کہلا بھیجا) کہ بے شک یہ لوگ چھوٹی سی جماعت ہیں۔٭
٥٥۔ اور انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے.
٥٦۔ اور اب ہم سب پوری طرح مستعد ہیں.
٥٧۔ چنانچہ ہم نے انہیں باغوں اور چشموں سے نکال دیا ہے۔
٥٨۔ اور خزانوں اور بہترین رہائش گاہوں سے بھی۔
٥٩۔ اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنا دیا ۔٭
٦٠۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی (فرعون کے) لوگ ان کے تعاقب میں نکل پڑے۔
٦١۔ جب دونوں گروہ ایک دوسرے کو دکھائی دینے لگے تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا: ہم تو پکڑے جانے والے ہیں۔٭
٦٢۔ موسیٰ نے کہا: ہرگز نہیں! میرا پروردگار یقینا میرے ساتھ ہے، وہ مجھے راستہ دکھا دے گا۔٭
٦٣۔ پھر ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی اپنا عصا سمندر پر ماریں چنانچہ دریا پھٹ گیا اور اس کا ہر حصہ عظیم پہاڑ کی طرح ہو گیا۔٭
٦٤۔ اور وہاں ہم نے دوسرے گروہ کو بھی نزدیک کر دیا ،٦٥۔ پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو بچا لیا۔
٦٦۔ اس کے بعد دوسروںکو غرق کر دیا۔
٦٧۔ اس واقعے میں ایک نشانی ہے پھر بھی ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائے۔٭
٦٨۔ اور یقینا آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٦٩۔ اور انہیں ابراہیم کا واقعہ (بھی) سنا دیجئے: ٭
٧٠۔ انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: تم کس چیز کو پوجتے ہو؟
٧١۔ انہوں نے جواب دیا: ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور اس پر ہم قائم رہتے ہیں۔
٧٢۔ ابراہیم نے کہا: جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیایہ تمہاری سنتے ہیں؟ ٭
٧٣۔ یا تمہیں فائدہ یا ضرر دیتے ہیں ؟
٧٤۔ انہوںنے کہا: (نہیں) بلکہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے۔
٧٥۔ ابراہیم نے کہا: کیا تم نے ان کی حالت دیکھی ہے جنہیںتم پوجتے ہو؟
٧٦۔ تم اور تمہارے گزشتہ باپ دادا بھی (پوجتے رہے ہیں) ۔
٧٧۔ یقینا یہ سب میرے دشمن ہےں سوائے رب العالمین کے،٭
٧٨۔ جس نے مجھے پیداکیا پھر وہی مجھے ہدایت دیتا ہے، ٭
٧٩۔ اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے،
٨٠۔ اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔٭
٨١۔ اور وہی مجھے موت د ے گا پھر مجھے زندگی عطا کرے گا۔
٨٢۔ اور میں اسی سے امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔٭
٨٣۔ پروردگارا! مجھے حکمت عطا کر اور صالحین میں شامل فرما۔
٨٤۔ اور آنے والوں میں مجھے حقیقی ذکر جمیل عطا فرما۔٭
٨٥۔ اور مجھے نعمتوں والی جنت کا وارث قرار دے۔
٨٦۔ اور میرے باپ (چچا) کو بخش دے کیونکہ وہ گمراہوں میںسے ہے۔
٨٧۔ اور مجھے اس روز رسوا نہ کرنا جب لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیںگے۔٭
٨٨۔ اس روز نہ مال کچھ فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔
٨٩۔ سوائے اس کے جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کرآئے۔٭
٩٠۔ اس روز جنت پرہیزگاروں کے نزدیک لائی جائے گی۔٭
٩١۔ اور جہنم گمراہوں کے لیے ظاہر کی جائے گی۔٭
٩٢ ۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا : تمہارے وہ معبود کہاں ہے؟
٩٣۔ اللہ کو چھوڑ کر (جنہیں تم پوجتے تھے) کیا وہ تمہاری مدد کر رہے ہیں یا خود کو بچا سکتے ہیں؟
٩٤۔ چنانچہ یہ خود اور گمراہ لوگ منہ کے بل جہنم میں گرا دیے جائیں گے۔
٩٥۔ اور سارے ابلیسی لشکر سمیت۔
٩٦ ۔ اور وہ اس میں جھگڑتے ہوئے کہیں گے:٭
٩٧۔ قسم بخدا! ہم تو صریح گمراہی میں تھے۔
٩٨۔ جب ہم تمہیں رب العالمین کے برابر درجہ دیتے تھے۔٭
٩٩۔ اور ہمیں تو ان مجرموں نے گمراہ کیا ہے۔
١٠٠۔ (آج) ہمارے لیے نہ تو کوئی شفاعت کرنے والا ہے،
١٠١۔ اور نہ کوئی سچا دوست ہے۔
١٠٢۔ کاش! ہمیں ایک مرتبہ پھر پلٹنے کا موقع مل جاتا تو ہم مومنین میں سے ہوتے۔٭
١٠٣۔ یقینا اس میںایک نشانی ہے لیکن ان میں اکثر ایمان نہیں لاتے۔
١٠٤۔ اور یقینا آپ کا پروردگار ہی غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
١٠٥۔ نوح کی قوم نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی۔
١٠٦۔ جب ان کی برادری کے نوح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ہو؟
١٠٧۔ میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں،
١٠٨۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
١٠٩۔ اور اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔٭
١١٠۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔
١١١۔ انہوں نے کہا: ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں جب کہ ادنی درجے کے لوگ تمہارے پیروکار ہیں۔٭
١١٢۔نوح نے کہا: مجھے علم نہیں وہ کیا کرتے رہے ہیں۔
١١٣۔ ان کا حساب تو صرف میرے رب کے ذمے ہے، کاش تم اسے سمجھتے۔٭
١١٤۔ اور میں مومنوں کو دھتکار نہیں سکتا۔٭
١١٥۔ میں تو صرف صاف اور صریح انداز میں تنبیہ کرنے والا ہو۔
١١٦۔ ان لوگوں نے کہا: اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں ضرور سنگسار کر دیا جائے گا۔
١١٧۔ نوح نے کہا: اے میرے پروردگار! بتحقیق میری قوم نے میری تکذیب کی ہے.
١١٨۔ پس تو ہی میرے اور ان کے درمیان حتمی فیصلہ فرما اور مجھے اور جو میرے ساتھ مؤمنین ہیں ان کو نجات دے۔٭
١١٩۔ چنانچہ ہم نے انہیں اورجو ان کے ہمراہ بھری کشتی میں سوار تھے سب کو بچا لیا۔
١٢٠۔ اس کے بعد ہم نے باقی سب کو غرق کر دیا۔
١٢١۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان نہیںلاتے۔
١٢٢۔ اور یقینا آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے والا، رحم کرنے والاہے۔
١٢٣۔قوم عاد نے پیغمبروں کی تکذیب کی.٭
١٢٤۔ جب ان کی برادری کے ہود نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے؟
١٢٥۔ میں تمہارے لیے ایک امانتداررسول ہوں۔٭
١٢٦۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
١٢٧۔ اور اس کام پر میں تم سے اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔
١٢٨۔ کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک بے سود یادگار بناتے ہو؟ ٭
١٢٩۔ اور تم بڑے محلات بناتے ہو گویا تم نے ہمیشہ رہنا ہے۔٭
١٣٠۔ اور جب تم (کسی پر) حملہ کرتے ہو تو نہایت جابرانہ انداز میں حملہ آور ہوتے ہو۔٭
١٣١۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
١٣٢۔نیز اس سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمہاری مدد کی جن کا تمہیں (بخوبی) علم ہے۔
١٣٣۔ اس نے تمہیں جانوروں اور اولاد سے نوازا ۔
١٣٤۔نیزباغات اور چشموں سے مالا مال کر دیا.
١٣٥۔ بلاشبہ مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب کاخوف ہے۔
١٣٦۔ انہوںنے کہا: تم نصیحت کرو یانہ کرو ہمارے لیے یکساں ہے۔٭
١٣٧۔ یہ تو بس پرانے لوگوں کی عادات ہیں۔٭
١٣٨۔ اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔٭
١٣٩۔ (اس طرح) انہوں نے ہود کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاکت میںڈال دیا، یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ تھے۔
١٤٠۔ اور بتحقیق آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
١٤١۔ (قوم) ثمود نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔
١٤٢۔ جب ان کی برادری کے صالح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟
١٤٣۔ میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔
١٤٤۔پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو.
١٤٥۔ اور اس بات پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا،میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے.
١٤٦۔کیاتم لوگ یہاںپر موجود چیزوں (نعمتوں) میں یوں ہی بے فکر چھوڑ دیے جاؤ گے ؟٭
١٤٧۔ باغوں اور چشموں میں،٭
١٤٨۔ اور کھیتیوں اور کھجوروں میں جن کے نرم خوشے ہیں،
١٤٩۔ اور تم پہاڑوں کو بڑی مہارت سے تراش کر گھر بناتے ہو۔٭
١٥٠۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو.
١٥١۔ اور حد سے تجاوز کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو۔
١٥٢۔ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔
١٥٣۔ لوگوں نے کہا: تم تو بلاشبہ سحرزدہ آدمی ہو۔
١٥٤۔ اور تم ہم جیسے بشر کے سوا اور کچھ نہیں ہو، پس اگرتم سچے ہو تو کوئی نشانی (معجزہ ) پیش کرو۔
١٥٥۔ صالح نے کہا: یہ ایک اونٹنی ہے، ایک مقررہ دن اس کے پانی پینے کی باری ہو گی اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی پینے کی باری ہو گی۔٭
١٥٦۔ اور اسے بری نیت سے نہ چھونا ورنہ ایک بڑے (ہولناک) دن کا عذاب تمہیں گرفت میں لے لے گا۔
١٥٧۔ تو انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں پھر وہ ندامت میں مبتلا ہوئے.٭
١٥٨۔ چنانچہ عذاب نے انہیں گرفت میں لے لیا، یقینا اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔
١٥٩۔ اور بے شک آپ کا پروردگار ہی بڑا غالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
١٦٠۔ قوم لوط نے (بھی) رسولوں کی تکذیب کی۔
١٦١۔ جب ان کی برادری کے لوط نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے؟٭
١٦٢۔میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔
١٦٣۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
١٦٤۔ اور میں اس کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میرا اجر تو بس رب العالمین پر ہے۔
١٦٥۔ کیا ساری دنیا میںسے تم (شہوت رانی کے لیے) مردوں کے پاس ہی جاتے ہو؟٭
١٦٦۔اورتمہارے رب نے جو بیویاں تمہارے لیے خلق کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم تو حد سے تجاوز کرنے والی قوم ہو۔٭
١٦٧۔ وہ کہنے لگے: اے لوط! اگر توباز نہ آیا تو تو ضرور نکال دیا جائے گا۔٭
١٦٨۔ لوط نے کہا: میں تمہارے اس کردار کے سخت دشمنوں میں سے ہوں۔٭
١٦٩۔ پروردگارا! مجھے اور میرے گھر والوںکو ان کے (برے) کردار سے نجات عطا فرما.
١٧٠۔ چنانچہ ہم نے انہیں اور ان کے تمام اہل خانہ کو نجات دی۔
١٧١۔ سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئی۔٭
١٧٢۔ پھر ہم نے باقی سب کو تباہ کر کے رکھ دیا۔٭
١٧٣۔ اور ان پر ہم نے بارش برسائی، پس تنبیہ شدہ لوگوں پر یہ بہت بری بارش تھی.٭
١٧٤۔ یقینا اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔٭
١٧٥۔ اوریقینا آپ کارب ہی بڑا غالب آنے والا ، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
١٧٦۔ ایکہ والوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی۔٭
١٧٧۔ جب شعیب نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیںکرتے ؟
١٧٨۔میںتمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔
١٧٩۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
١٨٠۔ اور اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا،میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے.
١٨١۔ تم پیمانہ پورا بھرو اور نقصان پہنچانے والوں میں سے نہ ہونا۔
١٨٢۔ اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔
١٨٣۔اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دیا کرو اور زمین میں فسادپھیلاتے مت پھرو۔ ٭
١٨٤۔ اور اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں اور گزشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے
١٨٥۔ انہوں نے کہا: تم تو بس سحرزدہ ہو۔
١٨٦۔ اور تم تو بس ہم جیسے انسان ہو نیز ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو۔
١٨٧۔ پس تم سچے ہو تو آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پر گرا دو۔
١٨٨۔ شعیب نے کہا: میرا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔
١٨٩۔ انہوں نے شعیب کو جھٹلا ہی دیا، چنانچہ سائبان والے دن کے عذاب نے انہیں گرفت میں لے لیا، بے شک وہ بہت بڑے (ہولناک) دن کا عذاب تھا۔٭
١٩٠۔ اس میں یقینا ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔
١٩١۔ اور یقینا آپ کا پروردگار ہی بڑاغالب آنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔
١٩٢۔ اور بتحقیق یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کیا ہو اہے۔
١٩٣۔ جسے روح الامین نے اتارا،
١٩٤۔ آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میںسے ہو جائیں ،٭
١٩٥۔ صاف عربی زبان میں۔
١٩٦۔ اور اس (قرآن) کا ذکر (انبیائے) ماسلف کی کتب میںبھی ہے۔
١٩٧۔ کیا یہ قرآن ان کے لیے ایک نشانی (معجزہ) نہیں ہے کہ اس بات کو بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں۔٭
١٩٨۔ اور اگر ہم اس قرآن کو کسی غیر عربی پر نازل کرتے، ٭
١٩٩۔ اور وہ اسے پڑھ کر انہیںسنا دیتا تب بھی یہ اس پرایمان نہ لاتے ۔٭
٢٠٠۔ اس طرح (کے دلائل دے کر) ہم نے اس قرآن کو ان مجرموں کے دلوں میں سے گزارا ہے۔٭
٢٠١۔ پھر بھی وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک دردناک عذاب دیکھ نہ لیں۔٭
٢٠٢۔ پس یہ عذاب ناگہاں اور بے خبری میں ان پر واقع ہو گا۔
٢٠٣۔ تو وہ کہیں گے: کیا ہمیں مہلت مل سکے گی؟
٢٠٤۔ کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے عجلت کر رہے ہیں؟
٢٠٥۔ تو کیا آپ نے دیکھا کہ اگر ہم انہیں برسوں سامان زندگی دیتے رہیں،
٢٠٦۔ پھر ان پر وہ عذاب آ جائے جس کا ان کے ساتھ وعدہ ہوا تھا،
٢٠٧۔ تو وہ (سامان زندگی) ان کے کسی کام نہ آئے گا جو انہیں دیاگیا تھا۔
٢٠٨۔ اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس بستی کو تنبیہ کرنے والے تھے.
٢٠٩۔ یاد دہانی کے لیے، اور ہم کبھی بھی ظالم نہ تھے۔
٢١٠۔ اور اس قرآن کو شیاطین نے نہیں اتارا
٢١١۔ اور نہ یہ کام ان سے کوئی مناسبت رکھتا ہے اور نہ ہی وہ استطاعت رکھتے ہیں۔
٢١٢۔ وہ تو یقینا (وحی کے) سننے سے بھی دور رکھے گئے ہیں۔٭
٢١٣۔پس آپ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکاریں ورنہ آپ بھی عذاب پانے والوںمیں شامل ہوجائیں گے۔٭
٢١٤۔ اوراپنے قریب ترین رشتے داروںکو تنبیہ کیجیے۔٭
٢١٥۔ اور مومنین میں سے جو آپ کی پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں.٭
٢١٦۔ اگر وہ آپ کی نافرمانی کریں تو ان سے کہدیجئے کہ میں تمہارے کردار سے بیزار ہوں۔
٢١٧۔ اور بڑے غالب آنے والے مہربان پر بھروسہ رکھیں۔
٢١٨۔ جو آپ کو اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب آپ (نماز کے لیے) اٹھتے ہیں۔
٢١٩۔ اور سجدہ کرنے والوں میں آپ کی نشست و برخاست کو بھی۔٭
٢٢٠۔ وہ یقینا بڑاسننے والا، جاننے والا ہے۔
٢٢١۔ کیا میں تمہیں خبر دوں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں؟
٢٢٢۔ ہر جھوٹے بدکار پر (اترتے ہیں).٭
٢٢٣۔ وہ کان لگائے رکھتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں۔
٢٢٤۔ اور شاعروں کی پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں۔٭
٢٢٥۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ لوگ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔
٢٢٦۔ اور جو کہتے ہیں اسے کرتے نہیں۔
٢٢٧۔ سوائے ان لوگوںکے جو ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے اور کثرت سے اللہ کو یاد کریں اور مظلوم واقع ہونے کے بعد انتقام لیں اور ظالموں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام کو پلٹ کر جائیں گے۔
 

صرف علی

محفلین
٢٧ سورہ نمل۔ مکی ۔ آیات ٩٣​


بنام خدائے رحمن ورحیم
١۔ طا، سین، یہ قرآن اور کتاب مبین کی آیات ہیں۔
٢۔ مومنین کے لیے ہدایت و بشارت ہیں.٭
٣۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔٭
٤۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یقینا ان کے لیے ہم نے ان کے افعال خوشنما بنا دیے ہیں پس وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔
٥۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے برا عذاب ہے اور آخرت میںیہی سب سے زیادہ خسارے میں ہوں گے۔
٦۔ اور (اے رسول) یہ قرآن آپ کو یقینا ایک حکیم، دانا کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔٭
٧۔ (اس وقت کا ذکر کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھروالوںسے کہا:میں نے ایک آگ دیکھی ہے، میں جلد ہی اس میں سے کوئی خبر لے کر تمہارے پاس آتاہوں یا انگارا سلگا کر تمہارے پاس لاتا ہوں تاکہ تم تاپو۔٭
٨۔ جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچے توندا دی گئی: بابرکت ہو وہ (جس کا جلوہ) آگ کے اندر ہے اور (بابرکت ہو) وہ جو اس کے پاس ہے اور پاکیزہ ہے سارے جہاں کا پروردگار اللہ۔٭
٩۔ اے موسیٰ! یقینا میں ہی غالب آنے والا، حکمت والا اللہ ہوں۔٭
١٠۔ اور آپ اپنا عصا پھینک دیں، جب موسیٰ نے دیکھا کہ عصا سانپ کی طرح جنبش میں آ گیا ہے پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑکر (بھی) نہ دیکھا (ندا آئی) اے موسیٰ! ڈریے نہیں، بے شک میرے حضور مرسلین ڈرا نہیں کرتے۔
١١۔ البتہ جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہو پھر برائی کے بعد اسے نیکی میں بدل دیا ہو تو یقینا میں بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں.٭
١٢۔ اور اپنا ہاتھ تواپنے گریبان میں ڈالیے بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا، یہ ان نو نشانیوں میں سے ہے جنہیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف ۔(آپ کو جانا ہے) بے شک وہ بڑے فاسق لو گ ہیں۔
١٣۔ جب ہماری نشانیاں نمایاں ہو کر ان کے پاس آئیں تو انہوں نے کہا: یہ تو صریح جادو ہے۔
١٤۔ وہ ان نشانیوں کے منکر ہوئے حالانکہ ان کے دلوں کو یقین آگیا تھا، ایسا انہوں نے ظلم اور غرور کی وجہ سے کیا، پس اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔٭
١٥۔ اور بتحقیق ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا اور ان دونوں نے کہا: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عنایت فرمائی۔
١٦۔ اور سلیمان داؤد کے وارث بنے اور بولے: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہمیں سب طرح کی چیزیں عنایت ہوئی ہیں، بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے۔٭
١٧۔ اور سلیمان کے لیے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اور ان کی جماعت بندی کی جاتی تھی ۔٭
١٨۔ یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، کہیں سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں کچل نہ ڈالے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے۔٭
١٩۔ اس کی باتیں سن کر سلیمان ہنستے ہوئے مسکرائے اور کہنے لگے: پروردگارا مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جن سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا ہے اور یہ کہ میں ایسا صالح عمل انجام دوں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما.٭
٢٠۔ سلیمان نے پرندوں کا معائنہ کیا تو کہا: کیا بات ہے کہ مجھے ہُدہُد نظر نہیں آ رہا؟ کیا وہ غائب ہو گیا ہے؟٭
٢١۔ میں اسے ضرور سخت ترین سزا دوںگا یا میں اسے ذبح کردوں گا مگر یہ کہ میرے پاس کوئی واضح عذر پیش کرے۔
٢٢۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے (حاضر ہو کر) کہا: مجھے اس چیز کا علم ہوا ہے جو آپ کو معلوم نہیں اور ملک سبا سے آپ کے لیے ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں.
٢٣۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمران ہے اور اسے ہر قسم کی چیزیں دی گئیں ہیں اور اس کاعظیم الشان تخت ہے.٭
٢٤۔ میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا رکھے ہیں اور اس طرح ان کے لیے راہ خدا کو مسدود کر دیا ہے، پس وہ ہدایت نہیں پاتے۔٭
٢٥۔ کیا وہ اللہ کے لیے سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہری اعمال کو جانتا ہے؟٭
٢٦۔ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں، وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔
٢٧۔ سلیمان نے کہا:ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کیا تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوںمیں سے ہے۔
٢٨۔ میرا یہ خط لے جا اور اسے ان لوگوں کے پاس ڈال دے پھر ان سے ہٹ جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔
٢٩۔ ملکہ نے کہا: اے دربار والو! میری طرف ایک محترم خط ڈالا گیا ہے ۔
٣٠۔ یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے: خدائے رحمن و رحیم کے نام سے
٣١۔ تم میرے مقابلے میں بڑا ئی مت کرو اور فرمانبردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔٭
٣٢۔ ملکہ نے کہا: اے اہل دربار! میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو، میں تمہاری غیر موجودگی میں کسی معاملے کا فیصلہ نہیں کیا کرتی۔٭
٣٣۔ انہوں نے کہا: ہم طاقتور اور شدید جنگجوہیں تاہم فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم کرنا چاہیے۔
٣٤۔ ملکہ نے کہا: بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کرتے ہیں اور اس کے عزت داروں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی اسی طرح کریں گے.٭
٣٥۔ اور میںان کی طرف ایک ہدیہ بھیج دیتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ ایلچی کیا (جواب) لے کر واپس آتے ہیں۔٭
٣٦۔پس جب وہ سلمان کے پاس پہنچا تو انہوںنے کہا: کیاتم مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ اللہ نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دے رکھا ہے جب کہ تمہیںاپنے ہدیے پر بڑا ناز ہے۔٭
٣٧۔ (اے ایلچی) تو انہیںکی طرف واپس پلٹ جا، ہم ان کے پاس ایسے لشکر لے کر ضرور آئیں گے جن کا وہ مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور ہم انہیں وہاں سے ذلت کے ساتھ ضرور نکال دیںگے اور وہ خوار بھی ہوں گے۔
٣٨۔ سلیمان نے کہا: اے اہل دربار! تم میںسے کون ہے جو ملکہ کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آئیں؟٭
٣٩۔ جنوں میں سے ایک عیار نے کہا: میں اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور میں یہ کام انجام دینے کی طاقت رکھتا ہوں، امین بھی ہوں۔٭
٤٠۔ جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں، جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے پروردگار کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا پروردگار یقینا بے نیاز اور صاحب کرم ہے۔٭
٤١۔ سلیمان نے کہا: ملکہ کے تخت کو اس کے لیے انجانا بنا دو، ہم دیکھیں کیا وہ شناخت کر لیتی ہے یا شناخت نہ کرنے والوں میں سے ہوتی ہے۔٭
٤٢۔ جب ملکہ حاضر ہوئی تو (اس سے) کہا گیا: کیا آپ کا تخت ایسا ہی ہے ؟ ملکہ نے کہا: گویا یہ تو وہی ہے، ہمیں اس سے پہلے معلوم ہو چکا ہے اورہم فرمانبردار ہو چکے ہیں۔٭
٤٣۔ اور سلیمان نے اسے غیر اللہ کی پرستش سے روک دیا کیونکہ پہلے وہ کافروں میں سے تھی۔٭
٤٤۔ ملکہ سے کہا گیا: محل میں داخل ہو جائیے، جب اس نے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں، سلیمان نے کہا: یہ شیشے سے مرصع محل ہے، ملکہ نے کہا: پروردگارا! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین اللہ پر ایمان لاتی ہوں۔٭
٤٥۔ اور ہم نے (قوم) ثمود کی طرف ان کی برادری کے صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو وہ دو فریق بن کر جھگڑنے لگے۔٭
٤٦۔ صالح نے کہا: اے میری قوم! نیکی سے پہلے برائی کے لیے کیوں عجلت کرتے ہو؟ تم اللہ سے معافی کیوں طلب نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے؟٭
٤٧۔ وہ کہنے لگے: تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لیے بدشگونی کا سبب ہیں، صالح نے کہا: تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم لوگ آزمائے جا رہے ہو۔٭
٤٨۔ اور اس شہر میں نو دھڑے باز تھے جو زمین میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح کا کوئی کام نہیں کرتے تھے۔
٤٩۔ انہوں نے کہا: آپس میں اللہ کی قسم کھاؤکہ ہم رات کے وقت صالح اور ان کے گھر والوں پر ضرور شب خون ماریں گے پھر ان کے وارث سے یہی کہیں گے کہ ہم ان کے گھر والوں کی ہلاکت کے موقع پر موجود ہی نہ تھے اور ہم سچے ہیں.٭
٥٠۔ اور انہوں نے مکارانہ چال چلی تو ہم نے ایسی حکیمانہ تدبیریں کیں کہ انہیں خبر تک نہ ہوئی۔٭
٥١۔ پس دیکھ لو! ان کی مکاری کا کیا انجام ہوا، ہم نے انہیں اوران کی پوری قوم کو نابود کر دیا۔
٥٢۔ پس ان کے یہ گھر ان کے ظلم کے نتیجے میں ویران پڑے ہیں، اس میںعلم رکھنے والوں کے لیے ایک نشانی ہے۔
٥٣۔ اور ہم نے ایمان والوںکو نجات دی اور وہی تقویٰ والے تھے۔
٥٤۔ اور لوط (کا وہ وقت یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو؟ حالانکہ تم سمجھتے ہو.٭
٥٥۔ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر شہوت پرستی کے لیے مردوں کا رخ کرتے ہو؟ بلکہ تم تو جاہل قوم ہو۔٭
٥٦۔ تو ان کی قوم کا بس یہی جواب تھا کہ وہ کہیں لوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔٭
٥٧۔ تو ہم نے لوط اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا سوائے لوط کی بیوی کے، ہم نے اس کا مقدر یہ بنایا تھا کہ وہ پیچھے رہ جائے۔٭
٥٨۔ اور ہم نے ان پر ایک بارش برسائی جو ان کے لیے بہت ہی بری بارش تھی جنہیں تنبیہ کی گئی تھی۔
٥٩۔ کہدیجئے: ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں؟٭

پارہ : اَمَّنْ خَلَقَ ٢٠​
٦٠۔ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا؟ پھر ہم نے اس سے پررونق باغات اگائے، ان درختوں کا اگانا تمہارے بس میںنہ تھا،تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ بلکہ یہ لوگ تو منحرف قوم ہیں۔
٦١۔ کس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے بیچ میں نہریںبنائیںاور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان ایک آڑ بنائی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٦٢۔ کون ہے جو مضطرب کی فریاد سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے ؟ تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔٭
٦٣۔ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے اور کون ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور پر اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ اللہ بالاتر ہے ان چیزوں سے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔٭
٦٤۔ کون خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر اسے دہراتاہے اور کون تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ کہدیجئے: اپنی دلیل پیش کرو اگر تم لوگ سچے ہو۔٭
٦٥۔ کہدیجئے: جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ غیب کی باتیں نہیں جانتے سوائے اللہ کے اور نہ انہیں یہ علم ہے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔٭
٦٦۔ بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ماند پڑ گیا ہے، بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں ہیں بلکہ یہ اس کے بارے میں اندھے ہیں۔
٦٧۔ اور کفار کہتے ہیں: جب ہم اور ہمارے باپ دادا خاک ہو چکے ہوں گے تو کیا ہمیں (قبروں سے) نکالا جائے گا؟
٦٨۔ اس قسم کا وعدہ پہلے بھی ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے ہوتا رہا ہے یہ تو قصہ ہائے پارینہ کے سوا کچھ نہیں۔٭
٦٩۔ کہدیجئے: زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا ہے۔٭
٧٠۔ اور (اے رسول) ان (کے حال) پر رنجیدہ نہ ہوں اور نہ ہی ان کی مکاریوں پر دل تنگ ہوں۔٭
٧١۔ اور وہ کہتے ہیں: اگرتم سچے ہو تو یہ وعدہ آخر کب پورا ہو گا؟
٧٢۔ کہدیجئے: ممکن ہے جن بعض باتوں کے لیے تم عجلت چاہ رہے ہو وہ تمہارے پس پشت پہنچ چکی ہوں۔٭
٧٣۔ اور بتحقیق آپ کا پروردگار لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
٧٤۔ اور جو کچھ ان کے سینوںمیں پوشیدہ ہے اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں بتحقیق آپ کا پروردگار اسے خوب جانتا ہے ۔
٧٥۔اور آسمان اور زمین میں کوئی ایسی پوشیدہ بات نہیں ہے جو کتاب مبین میں نہ ہو۔
٧٦۔ بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل کو اکثر وہ باتیں بیان کر دیتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔٭
٧٧۔ اور یہ اہل ایمان کے لیے یقینا ہدایت اور رحمت ہے۔
٧٨۔ یقینا آپ کا رب اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کر دیتاہے اور وہی بڑا غالب آنے والا ، بڑا علم رکھنے والا ہے۔
٧٩۔ لہٰذا آپ اللہ پر بھروسا کریں، یقینا آپ صریح حق پر ہیں۔٭
٨٠۔ آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھر کر جا رہے ہوں۔٭
٨١۔ اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کر راستہ دکھا سکتے ہیں، آپ ان لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرمانبردار بن جا تے ہیں۔
٨٢۔ اور جب ان پر وعدہ (عذاب) پورا ہونے والا ہو گا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ درحقیقت لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔٭
٨٣۔ اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلایا کرتی تھیں پھرانہیں روک دیا جائے گا۔٭
٨٤۔ جب سب آ جائیںگے تو (اللہ) فرمائے گا: کیا تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا تھا؟ جب کہ ابھی تم انہیں اپنے احاطہ علم میں بھی نہیں لائے تھے اور تم کیا کچھ کرتے تھے؟
٨٥۔ اور ان کے ظلم کی وجہ سے بات ان کے خلاف پوری ہو کر رہے گی اور وہ بول نہیں سکیں گے۔٭
٨٦۔ کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے رات اس لیے بنائی کہ وہ اس میں سکون حاصل کریں اور دن کو روشن بنایا؟ ایمان لانے والوں کے لیے اس میں یقینا نشانیاں ہیں۔
٨٧۔ اور جس روز صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین کی تمام موجودات خوفزدہ ہو جائیں گی سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ چاہے اور سب نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے حضور پیش ہوں گے۔٭
٨٨۔ اور آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جگہ ساکن ہیں جب کہ (اس وقت) یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے، یہ سب اس اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو پختگی سے بنایا ہے، وہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔٭
٨٩۔ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر اجر ملے گا اور وہ اس دن کی ہولناکیوں سے امن میںہوںگے۔٭
٩٠۔ اور جو شخص برائی لے کر آئے گا پس انہیں اوندھے منہ آگ میں پھینک دیا جائے گا، کیا تمہیں اپنے کیے کے علاوہ کوئی اور جزا مل سکتی ہے؟
٩١۔ (اے رسول! آپ یہ کہیں) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے محترم بنایا اور ہر چیز اسی کی ملکیت ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروںمیں سے رہوں۔٭
٩٢۔ اوریہ کہ میںقرآن پڑھ کر سناؤں اس کے بعد جو ہدایت اختیارکرے گا وہ اپنے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہی میں چلا جائے اسے کہدیجئے: میں تو بس تنبیہ کرنے والا ہوں۔
٩٣۔ اور کہدیجئے: ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم انہیں پہچان لو گے اور آپ کا پروردگار تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔٭
 

صرف علی

محفلین
28 سورۃ قصص ۔ مکی ۔ آیات ٨٨​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ طا، سین ، میم۔
٢۔ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔
٣۔ ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کا واقعہ اہل ایمان کے لیے حقیقت کے مطابق سناتے ہیں۔
٤۔فرعون نے زمین میں سر اٹھا رکھا تھا اور اس کے باسیوں کو گروہوںمیںتقسیم کر دیا تھا، ان میں سے ایک گروہ کو اس نے بے بس کر رکھا تھا، وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑتا تھا اور وہ یقینا فسادیوں میں سے تھا۔٭
٥۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔٭
٦۔ اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں اور ان کے ذریعے ہم فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ کچھ دکھا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔٭
٧۔ اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں اور جب ان کے بارے میں خوف محسوس کریں تو انہیں دریا میں ڈال دیں اور بالکل خوف اور رنج نہ کریں، ہم انہیں آپ کی طرف پلٹانے والے اور انہیںپیغمبروں میں سے بنانے والے ہیں۔٭
٨۔ چنانچہ آل فرعون نے انہیں اٹھا لیا تاکہ وہ ان کے لیے دشمن اور باعث رنج بن جائیں، یقینا فرعون اورہامان اور ان کے دونوں لشکر والے خطاکار تھے۔٭
٩۔ اور فرعون کی عورت نے کہا:یہ (بچہ) تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو۔ ممکن ہے یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور وہ (انجام سے) بے خبر تھے ؟٭
١٠۔ اور ادھر مادر موسیٰ کا دل بے قرار ہو گیا، قریب تھا کہ وہ یہ راز فاش کر دیتیں اگر ہم نے ان کے دل کو مضبوط نہ کیا ہوتا، تاکہ وہ ایمان رکھنے والوں میں سے ہو جائیں۔
١١۔ اور مادرموسیٰ نے ان کی بہن سے کہا: اس کے پیچھے پیچھے چلی جا تو وہ موسیٰ کو دور سے دیکھتی رہیں کہ دشمنوں کو (اس کا) پتہ نہ چلے۔٭
١٢۔ اور ہم نے موسیٰ پر دائیوں کا دودھ پہلے سے حرام کر دیا تھا، چنانچہ موسیٰ کی بہن نے کہا: کیا میں تمہیںایک ایسے گھرانے کا پتہ بتا دوں جو اس بچے کو تمہارے لیے پالیں اور وہ اس کے خیرخواہ بھی ہوں؟٭
١٣۔ (اس طرح) ہم نے موسیٰ کو ان کی ماں کے پاس واپس پہنچا دیا تاکہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو جائے اور غم نہ کرے اور یہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے لیکن ان میںسے اکثر نہیں جانتے۔
١٤۔ اور جب موسیٰ رشد کوپہنچ کر تنومند ہو گئے تو ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا کیا اور ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔٭
١٥۔ اور موسیٰ شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب شہر والے بے خبر تھے، پس وہاں دو آدمیوںکو لڑتے پایا، ایک ان کی قوم میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمنوںمیں سے تھا تو جو ان کی قوم میں سے تھا اس نے اپنے دشمن کے مقابلے کے لیے موسیٰ کو مدد کے لیے پکارا تو موسیٰ نے اس (دوسرے) کو گھونسا مارا اور اس کاکام تمام کر دیا، پھر موسیٰ نے کہا: یہ تو شیطان کا کام ہو گیا، بے شک وہ صریح گمراہ کن دشمن ہے۔٭
١٦۔ کہا: پروردگارا! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا پس مجھے معاف فرما، چنانچہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔ یقینا وہ بڑامعاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
١٧۔موسیٰ نے کہا: میرے رب! جس نعمت سے تونے مجھے نوازا ہے اس کے باعث میں آئندہ کبھی بھی مجرموں کا پشت پناہ نہیں بنوں گا۔٭
١٨۔موسیٰ صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ہوئے اور خطرہ بھانپنے کی حالت میں تھے، اچانک دیکھا کہ جس نے کل مدد مانگی تھی وہ آج پھر اس (موسیٰ) سے فریاد کر رہا ہے، موسیٰ نے اس سے کہا: تو یقینا صریح گمراہ شخص ہے۔ ٭
١٩۔ جب موسیٰ نے اس شخص پرہاتھ ڈالنا چاہا جو ان دونوں کا دشمن تھا تو اس نے کہا: اے موسی! کیاتم مجھے بھی اسی طرح قتل کر دینا چاہتے ہو جس طرح کل تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا؟ کیا تم زمین میں جابر بننا چاہتے ہو اور اصلاح کرنا نہیں چاہتے؟٭
٢٠۔ شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، کہنے لگا: اے موسیٰ ! دربار والے تیرے قتل کے مشورے کر رہے ہیں، پس (یہاں سے) نکل جا میں تیرے خیر خواہوں میںسے ہوں۔٭
٢١۔ چنانچہ موسیٰ ڈرتے ہوئے خطرہ بھانپتے ہوئے وہاں سے نکلے، کہنے لگے: اے میرے پروردگار! مجھے قوم ظالمین سے بچا۔
٢٢۔ اور جب موسیٰ نے مدےن کا رخ کےا تو کہا: امےد ہے مےرا پروردگار مجھے سےدھے راستے کی ہداےت فرمائے گا۔٭
٢٣۔اور جب وہ مدےن کے پانی پر پہنچے تو انہوں نے دےکھا لوگوں کی ایک جماعت (اپنے جانوروں کو) پانی پلارہی ہے اور دیکھا ان کے علاوہ دو عورتیں (اپنے جانور) روکے ہوئے کھڑی ہیں، موسیٰ نے کہا: آپ دونوں کا کیا مسئلہ ہے؟ وہ دونوں بولیں: جب تک یہ چرواہے (اپنے جانوروں کو لے کر) واپس نہ پلٹ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتیں اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔٭
٢٤۔ موسیٰ نے ان دونوں (کے جانوروں) کو پانی پلایا پھر سایے کی طرف ہٹ گئے اور کہا: پالنے والے! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں۔٭
٢٥۔ پھر ان دونوں لڑکیوں میںسے ایک حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے والد آپ کو بلاتے ہیں تاکہ آپ نے جو ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے آپ کو اس کی اجرت دیں، جب موسیٰ ان کے پاس آئے اور اپنا سارا قصہ انہیں سنایا تو وہ کہنے لگے: خوف نہ کرو، تم اب ظالموں سے بچ چکے ہو۔٭
٢٦۔ ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا: اے ابا! اسے نوکر رکھ لیجیے کیونکہ جسے آپ نوکررکھنا چاہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہے جوطاقتور، امانتدار ہو۔٭
٢٧۔ (شعیب نے) کہا:میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوںمیں سے ایک کا نکاح اس شرط پر تمہارے ساتھ کروں کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو اور اگر تم دس (سال) پورے کرو تو یہ تمہاری طرف سے (احسان) ہے اور میں تمہیں تکلیف میں ڈالنا نہیں چاہتا، انشاء اللہ تم مجھے صالحین میں پاؤ گے.٭
٢٨۔ موسیٰ نے کہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان وعدہ ہے، میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہیں ہے اور جو کچھ ہم کہ رہے ہیں اس پر اللہ کارساز ہے۔٭
٢٩۔ پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کر دی اور وہ اپنے اہل کو لے کر چل دیے تو کوہ طور کی طرف سے ایک آگ دکھائی دی، وہ اپنے اہل سے کہنے لگے: ٹھہرو ! میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید وہاں سے میں کوئی خبر لاؤں یا آگ کا انگارا لے آؤں تاکہ تم تاپ سکو۔٭
٣٠۔ پھر جب موسیٰ وہاںپہنچے تو وادی کے دائیں کنارے سے ایک مبارک مقام میں درخت سے ندا آئی: اے موسی! میںہی عالمین کا پروردگار اللہ ہوں۔٭
٣١۔ اور اپنا عصا پھینک دیجیے، پھر جب موسیٰ نے عصا کو سانپ کی طرح حرکت کرتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا، (ہم نے کہا) اے موسیٰ! آگے آئیے اور خوف نہ کیجیے، یقینا آپ محفوظ ہیں۔٭
٣٢۔ (اے موسیٰ) اپنا ہاتھ گریبان میںڈال دیجئے وہ بغیر کسی عیب کے چمکدار ہو کر نکلے گا اور خوف سے بچنے کے لیے اپنے بازو کو اپنی طرف سمیٹ لیجیے، یہ دو معجزے آپ کے پروردگار کی طرف سے فرعون اور اس اہل دربار کے لیے ہیں، بتحقیق وہ بڑے فاسق لوگ ہیں۔٭
٣٣۔ موسیٰ نے عرض کیا: پروردگارا! میں نے ان کا ایک آدمی قتل کیا ہے، لہذا میں ڈرتاہوںکہ وہ مجھے قتل نہ کر دیں۔
٣٤۔ اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے لہٰذا اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ وہ میری تصدیق کرے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ میری تکذیب کریں گے۔٭
٣٥۔ فرمایا: ہم آپ کے بھائی کے ذریعے آپ کے بازو مضبوط کریں گے اور ہم آپ دونوں کو غلبہ دیں گے اور ہماری نشانیوں (معجزات ) کی وجہ سے وہ آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے، آپ دونوں اور آپ کے پیروکاروں کا ہی غلبہ ہو گا۔٭
٣٦۔ پھر جب موسیٰ ہماری واضح نشانیاں لے کر ان کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگے: یہ تو بس گھڑا ہوا جادو ہے اور ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں سے ایسی باتیں کبھی نہیں سنیں۔٭
٣٧۔ اور موسیٰ نے کہا: میرا پروردگار اسے جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لے کر آیا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ آخرت کا گھر کس کے لیے ہے، بے شک ظالم فلاح نہیں پاتے۔٭
٣٨۔ اور فرعون نے کہا: اے درباریو! میں تمہارے لیے اپنے سوا کسی معبود کو نہیں جانتا، اے ہامان! میرے لیے گارے کو آگ لگا (کر اینٹ بنا دے) پھر میرے لیے ایک اونچا محل بنا دے تاکہ میں موسیٰ کے خدا کو (جھانک کر) دیکھوں اور میرا تو خیال ہے کہ موسیٰ جھوٹا ہے۔٭
٣٩۔ چنانچہ فرعون اور اس کے لشکر نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور یہ خیال کیا کہ وہ ہماری طرف پلٹ کر نہیںآئیں گے۔
٤٠۔ تو ہم نے ۔اسے اور اس کے لشکر کو گرفت میں لے لیا اور انہیںدریا میں پھینک دیا، پس دیکھ لو ظالموں کا انجام کیا ہوا۔
٤١۔ اور ہم نے انہیں ایسے رہنما بنایا جو آتش کی طرف بلاتے ہیں اور قیامت کے د ن ا ن کی مدد نہیںکی جائے گی۔٭
٤٢۔ اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگاد ی ہے اور قیامت کے دن یہ قبیح (چہرہ والے) ہوں گے۔
٤٣۔ اور بتحقیق ہم نے پہلی امتوں کو ہلاک کرنے کے بعد لوگوں کے لیے بصیرتوں اور ہدایت و رحمت (کا سرچشمہ) بنا کر موسیٰ کو کتاب دی، شاید لوگ نصیحت حاصل کریں۔٭
٤٤۔ اور آپ اس وقت (طور کے) مغربی جانب موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کی طرف حکم بھیجا اور آپ مشاہدہ کرنے والوں میںسے نہ تھے۔٭
٤٥۔ لیکن ہم نے کئی امتوں کو پیدا کیا پھر ان پر طویل مدت گزر گئی اور نہ آپ اہل مدین میں سے تھے کہ انہیں ہماری آیات سنا رہے ہوتے لیکن ہم ہی (ان تمام خبروں کے) بھیجنے والے ہیں۔٭
٤٦۔ اور آپ طور کے کنارے پر موجود نہ تھے جب ہم نے ندا دی تھی بلکہ (آپ کا رسول بنانا) آپ کے پروردگار کی رحمت ہے تاکہ آپ اس قوم کو تنبیہ کریں جن
کے ہاں آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں.٭
٤٧۔اور ایسانہ ہوکہ اپنے ہاتھوں آگے بھیجی ہوئی حرکتوں کی وجہ سے اگر ان پر کوئی مصیبت نازل ہوجائے تو وہ یہ کہنے لگیں: ہمارے رب! تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی اتباع کرتے اور ایمان لانے والوں میںشامل ہوجاتے ۔٭
٤٨۔ پھر جب ہماری طرف سے حق ان کے پاس آگیا تو وہ کہنے لگے: جیسی (نشانی) موسیٰ کو دی گئی تھی ایسی (نشانی) انہیں کیوں نہیں دی گئی؟ کیا انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا جو قبل ازیں موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: یہ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے والے جادو ہیں اور کہا: ہم ان سب کے منکر ہیں۔٭
٤٩۔ کہدیجئے: پس اگر تم سچے ہو تو تم بھی اللہ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخش ہو، میں اس کی اتباع کروں گا۔٭
٥٠۔ پس اگر وہ آپ کی یہ بات نہیں مانتے تو آپ سمجھ لیں کہ یہ لوگ بس اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیںاور اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا؟ اللہ ظالموں کو یقینا ہدایت نہیں کرتا۔٭
٥١۔ اور بتحقیق ہم نے ان کے لیے(ہدایت کی) باتیں مسلسل بیان کیں۔ شاید یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔٭
٥٢۔ جنہیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔٭
٥٣۔ اور جب ان پر (یہ قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں:ہم اس پر ایمان لے آئے، یقینا یہ ہمارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے، ہم تو اس سے پہلے بھی فرمانبردار تھے۔٭
٥٤۔ انہیں ان کے صبر کے صلے میں دوبار اجر دیا جائے گا اور یہ لوگ برائی کو نیکی کے ذریعے دور کر دیتے ہیں اور ہم نے جو روزی انہیںدی ہے اس سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں۔٭
٥٥۔ اور جب وہ بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں: ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم پر سلام ہو ہم جاہلوں کو پسند نہیں کرتے۔٭
٥٦۔ (اے رسول) جسے آپ چاہتے ہیں اسے ہدایت نہیں کر سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔٭
٥٧۔ اور کہتے ہیں: اگر ہم آپ کی معیت میں ہدایت اختیار کریں تو ہم اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے، کیا ہم نے ایک پرامن حرم ان کے اختیارمیں نہیں رکھا جس کی طرف ہر چیز کے ثمرات کھنچے چلے آتے ہیں؟ یہ رزق ہماری طرف سے عطا کے طور پر ہے لیکن ان میںسے اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٥٨۔ اور کتنی ہی ایسی بستیوں کو ہم نے تباہ کر دیا جن کے باشندے اپنی معیشت پر نازاںتھے؟ ان کے بعد ان کے مکانات آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم اور ہم ہی تووارث تھے۔٭
٥٩۔ اور آپ کا رب ان بستیوں کو تباہ کرنے والا نہ تھا جب تک ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیات پڑھ کر سنائے اور ہم بستیوں کو تباہ کرنے والے نہ تھے مگر یہ کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوئے۔٭
٦٠۔ اور جو کچھ بھی تمہیںدیا گیا ہے وہ اس دنیاوی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور پائیدار ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟٭
٦١۔ کیا وہ شخص جسے ہم نے بہترین وعدہ دیا ہے اور وہ اس (وعدے) کو پا لینے والا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف دنیاوی زندگی کا سامان فراہم کر دیا ہے؟ پھر وہ قیامت کے دن پیش کےے جانے والوں میں سے ہو گا
٦٢۔اور جس دن اللہ انہیں پکارے گا اور کہے گا: کہاں ہیں وہ جنہیں تم میرا شریک گمان کرتے تھے ؟٭
٦٣۔ جن پر (اللہ کا) فیصلہ حتمی ہو چکا ہو گا وہ کہیںگے: ہمارے پروردگار! یہی لوگ ہیں جنہیں ہم نے گمراہ کیا، جس طرح ہم خود گمراہ ہوئے تھے اسی طرح ہم نے انہیں گمراہ کیا تھا، (اب) ہم تیری طرف متوجہ ہو کر ان سے بیزار ہوتے ہیں کہ وہ ہماری پوجا نہیں کیا کرتے تھے۔
٦٤۔ اور (ان سے) کہا جائے گا: اپنے شریکوں کو بلاؤ تو یہ انہیں پکاریں گے لیکن وہ انہیں جواب نہیں دیں گے اور وہ عذاب کو بھی دیکھ رہے ہوںگے، (اس وقت تمنا کریں گے) کاش وہ ہدایت پر ہوتے۔
٦٥۔ اور اس دن اللہ انہیں ندا دے گا اور فرمائے گا: تم نے پیغمبروںکو کیا جواب دیا تھا؟
٦٦۔ تو ان کو ان باتوں کا پتہ نہیں چلے گا (جن سے رسولوںکو جواب دیا ہے) اور اس دن وہ ایک دوسرے سے پوچھ بھی نہ سکیںگے۔٭
٦٧۔ لیکن جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو امید ہے کہ وہ نجات پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔
٦٨۔ اور آپ کا پروردگار جسے چاہتا ہے خلق کرتا ہے اور منتخب کرتا ہے، انہیں انتخاب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، اللہ پاک بلند و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔٭
٦٩۔ اور آپ کا پروردگار وہ سب باتیں جانتا ہے جنہیں ان کے سینے پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔
٧٠۔ اور وہی تو اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ثنائے کامل اسی کے لیے ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور حکومت اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔٭
٧١۔ کہدیجئے: یہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات مسلط کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے؟کیا تم سنتے نہیں ہو؟٭
٧٢۔ کہدیجئے: یہ تو بتاؤ کہ اگر قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن کو مسلط کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں رات لا دے جس میں تم سکون حاصل کرو؟ کیا تم (چشم بصیرت سے) دیکھتے نہیں ہو؟
٧٣۔ اور یہ اللہ کی رحمت ہی تو ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن کو (یکے بعد دیگرے) بنایا تاکہ تم (رات میں) سکون حاصل کر سکو اور (دن میں) اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور شاید کہ تم شکر بجا لاؤ۔٭
٧٤۔ اور جس دن اللہ انہیں ندا دے گا اور فرمائے گا: کہاں ہیں وہ جنہیں تم میرا شریک گمان کرتے تھے ؟
٧٥۔ اور ہم ہر امت سے ایک گواہ نکال لائیں گے پھر ہم (مشرکین سے) کہیں گے: اپنی دلیل پیش کرو، (اس وقت) انہیں علم ہو جائے گا کہ حق بات اللہ کی تھی اور جو جھوٹ باندھتے تھے وہ سب ناپید ہو جائیں گے۔٭
٧٦۔ بے شک قارون کا تعلق موسیٰ کی قوم سے تھا پھر وہ ان سے سرکش ہو گیا اور ہم نے قارون کو اس قدر خزانے دیے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کے لیے بھی بارگراں تھیں، جب اس کی قوم نے اس سے کہا: اترانا مت یقینا اللہ اترانے والوں کو دوست نہیںرکھتا، ٭
٧٧۔ اور جو (مال) اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، البتہ دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد نہ کر یقینا اللہ فسادیوںکو پسند نہیںکرتا۔
٧٨۔ قارون نے کہا: یہ سب مجھے اس مہارت کی بنا پر ملا ہے جو مجھے حاصل ہے، کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی امتوں کو ہلاکت میں ڈال دیا جو اس سے زیادہ طاقت اور جمعیت رکھتی تھیں اور مجرموں سے تو ان کے گناہ کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا۔٭
٧٩۔(ایک روز) قارون بڑی آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا تو دنیا پسند لوگوں نے کہا: اے کاش! ہمارے لیے بھی وہی کچھ ہوتا جو قارون کو دیا گیاہے، بے شک یہ تو بڑا ہی قسمت والا ہے۔٭
٨٠۔ اورجنہیں علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے: تم پر تباہی ہو! اللہ کے پاس جو ثواب ہے وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل انجام دینے والوں کے لیے اس سے کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والے ہی حاصل کریں گے۔٭
٨١۔ پھر ہم نے قارون اور اس کے گھر والوں کو زمین میں دھنسا دیا تو اللہ کے سوا کوئی گروہ اس کی نصرت کے لیے موجود نہ تھا اور نہ ہی وہ خود کوئی مدد حاصل کر سکا۔٭
٨٢۔ اور جو لوگ کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے وہ کہنے لگے: دیکھتے نہیں ہو! اللہ اپنے بندوں میںسے جس کو چاہتا ہے روزی کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے، اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا، دیکھتے نہیں ہو! کافر فلاح نہیں پا سکتے.٭
٨٣۔ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے بنا دیتے ہیں جو زمین میں بالادستی اور فساد پھیلانا نہیں چاہتے اور (نیک) انجام تو تقویٰ والوں کے لیے ہے۔
٨٤۔ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر (اجر) ملے گا اور جو کوئی برائی لائے گا تو برے کام کرنے والوں کو صرف وہی بدلہ ملے گا جو وہ کرتے رہے ہیں.٭
٨٥۔ (اے رسول) جس نے آپ پر قرآن (کے احکام کو) فرض کیا ہے وہ یقینا آپ کو بازگشت تک پہنچانے والا ہے، کہدیجئے: میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا ہے اور اسے بھی جو واضح گمراہی میں ہے۔٭
٨٦۔ اور آپ کو یہ امید نہ تھی کہ آپ پر یہ کتاب نازل کی جائے گی مگر آپ کے رب کی رحمت سے لہٰذا آپ کافروں کے پشت پناہ ہرگز نہ بنیں۔٭
٨٧۔ جب یہ آیات آپ کی طرف نازل ہو چکی ہیں تو کہیں یہ آپ کو اللہ کی آیات (کی تبلیغ) سے روک نہ دیں اور آپ اپنے رب کی طرف دعوت دیں اور آپ مشرکین میں ہرگز شامل نہ ہوں۔
٨٨۔ اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے، حکومت کا حق اسی کو حاصل ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔٭
 

صرف علی

محفلین
29 سورہ عنکبوت۔ مکی ۔ آیات ٦٩
بنام خدائے رحمن ورحیم
١۔ الف، لام ، میم۔
٢۔ کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟٭
٣۔ اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ معلوم کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور معلوم کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔٭
٤۔ برائی کے مرتکب افراد کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہم سے بچ نکلیں گے ؟ کتنا برا فیصلہ ہے جویہ کر رہے ہیں۔
٥۔ جو اللہ کے حضور پہنچنے کی امید رکھتا ہے تو (وہ باخبر رہے کہ) اللہ کا مقرر کردہ وقت یقیناآنے ہی والا ہے اور وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
٦۔ اور جو شخص جفا کشی کرتا ہے تو وہ صرف اپنے فائدے کے لیے کرتا ہے، اللہ تو یقینا سارے عالمین سے بے نیاز ہے۔٭
٧۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہم ان سے ان کی برائی ضرور دور کر دیں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کاصلہ بھی ضرور دیںگے۔٭
٨۔ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اگر تیرے ماں باپ میرے ساتھ شرک کرنے پر تجھ سے الجھ جائیں جس کا تجھے کوئی علم نہ ہو تو تو ان دونوں کا کہنا نہ ماننا، تم سب کی بازگشت میری طرف ہے، پھر میں تمہیں بتا دوں گا تم کیا کرتے رہے ہو؟٭
٩۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں ہم بہر صورت صالحین میں شامل کریںگے۔
١٠۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیںجو کہتے تو ہیں: ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب اللہ کی راہ میں اذیت پہنچتی ہے تو لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی اذیت کو عذاب الہٰی کی مانند تصور کرتے ہیں اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچ جائے تو وہ ضرور کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ تھے، کیا اللہ کو اہل عالم کے دلوں کا حال خوب معلوم نہیںہے؟٭
١١۔ اور اللہ نے یہ ضرور معلوم کرنا ہے کہ ایمان والے کون ہیں اور یہ بھی ضرورمعلوم کرنا ہے کہ منافق کون ہیں؟٭
١٢۔ اور کفار اہل ایمان سے کہتے ہیں: ہمارے طریقے پر چلو تو تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے حالانکہ وہ ان گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہیں، بے شک یہ لوگ جھوٹے ہیں۔٭
١٣۔ البتہ یہ لوگ اپنے بوجھ ضرور اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ مزید بوجھ بھی اور قیامت کے دن ان سے ضرور پرسش ہو گی اس بہتان کے بارے میں جو وہ باندھتے رہے ہیں۔
١٤۔ اور بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان کے درمیان پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے، پھر طوفان نے انہیں اس حال میں اپنی گرفت میں لیا کہ وہ ظلم کا ارتکاب کر رہے تھے۔٭
١٥۔ پھر ہم نے نوح اور کشتی والوں کونجات دی اور اس کشتی کو اہل عالم کے لیے نشانی بنا دیا۔
١٦۔ اور ابراہیم کو بھی (بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو، اگرسمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
١٧۔ تم تو اللہ کو چھوڑ کر بس بتوں کو پوجتے ہو اور جھوٹ گھڑ لیتے ہو، اللہ کے سوا تم جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیا رنہیں رکھتے، لہٰذا تم اللہ کے ہاں سے رزق طلب کرو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو، تم اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔٭
١٨۔ اور اگر تم تکذیب کرو تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی تکذیب کی ہے اور رسول کی ذمے داری بس یہی ہے کہ واضح انداز میں تبلیغ کرے۔
١٩۔ کیا انہوں نے (کبھی) غور نہیںکیا کہ اللہ خلقت کی ابتدا کیسے کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے، یقینا اللہ کے لیے یہ آسان ہے۔٭
٢٠۔ کہدیجئے: تم زمین میںچل پھر کر دیکھو کہ خلقت کی ابتدا کیسے ہوئی پھر اللہ دوسری خلقت پیدا کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔٭
٢١۔ وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جسے پر چاہتا ہے رحم فرماتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
٢٢۔ اور تم اللہ کو نہ زمین میں عاجز بنا سکتے ہو اور نہ آسمان میں اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔
٢٣۔ اور جنہوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ میری رحمت سے ناامید ہو چکے ہیں اور انہی کے لیے دردناک عذاب ہے ۔٭
٢٤۔ تو اس (ابراہیم) کی قوم کا صرف یہ جواب تھا کہ وہ کہیں: انہیں قتل کر ڈالو یا جلا دو لیکن اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا، ایمان والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔٭
٢٥۔ اور ابراہیم نے کہا: تم صرف اس لیے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو لیے بیٹھے ہو کہ تمہارے درمیان دنیاوی زندگی کے تعلقات ہیں پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کروگے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے اور جہنم تمہارا ٹھکانا ہو گا اور تمہارا کوئی مددگار بھی نہ ہو گا۔٭
٢٦۔ اس وقت لوط ان پر ایمان لے آئے اور کہنے لگے میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں، یقینا وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے ٭
٢٧۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی اور انہیں دنیا ہی میں اجر دے دیا اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوں گے۔٭
٢٨۔ اور لوط کو بھی (رسول بنایا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: بلاشبہ تم اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جس کا تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے بھی ارتکاب نہیں کیا۔٭
٢٩۔ کیا تم (شہوت رانی کے لیے) مردوں کے پاس جاتے ہو اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی محافل میں برے کام کرتے ہو؟ پس ان کی قوم کا جواب صرف یہ تھا کہ وہ کہیں: ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔٭
٣٠۔ لوط نے کہا: پروردگارا! ان مفسدوں کے خلاف میری مدد فرما۔
٣١۔ اور جب ہمارے فرستادہ (فرشتے) ابراہیم کے پاس بشارت لے کر پہنچے تو کہنے لگے: ہم اس بستی کے باسیوں کو ہلاک کرنے والے ہیں، یہاں کے باشندے یقینا بڑے ظالم ہیں۔٭
٣٢۔ ابراہیم نے کہا: اس بستی میں تو لوط بھی ہیں، وہ بولے ہم بہتر جانتے ہیں یہاں کون لوگ ہیں، ہم انہیں اورا ن کے اہل کو ضرور بچائیں گے سوائے ان کی بیوی کے، جو پیچھے رہنے والوںمیں ہو گی۔٭
٣٣۔ اور جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس آئے تو لوط ان کی وجہ سے پریشان اور دل تنگ ہوئے تو فرشتوں نے کہا: خوف نہ کریں نہ ہی محزون ہوں، ہم آپ اور آپ کے گھر والوں کو بچانے والے ں سوائے آپ کی بیوی کے جو پیچھے رہنے والوں میں ہو گی۔٭
٣٤۔ بے شک ہم اس بستی میں رہنے والوں پر آسمان سے آفت نازل کرنے والے ہیں اس بدعملی کی وجہ سے جس کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔
٣٥۔ اور بتحقیق ہم نے عقل سے کام لینے والوں کے لیے اس بستی میں ایک واضح نشانی چھوڑی ہے۔٭
٣٦۔ اور (ہم نے) مدین کی طرف ان کی برادری کے شعیب (کو بھیجا) تو انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اور روز آخرت کی امید رکھو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو ۔
٣٧۔ پس انہوں نے شعیب کی تکذیب کی تو انہیں زلزلے نے گرفت میں لے لیا پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے.٭
٣٨۔ اور عاد و ثمود کو (بھی ہلاک کیا) اور بتحقیق ان کے مکانوں سے تمہارے لیے یہ بات واضح ہو گئی اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو آراستہ کیا اور انہیں راہ (راست) سے روکے رکھا حالانکہ وہ ہوش مند تھے۔٭
٣٩۔ اور قارون و فرعون اور ہامان کو (بھی ہم نے ہلاک کیا) اور بتحقیق موسیٰ واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے تھے پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن وہ (ہماری گرفت سے) نکل نہ سکے ۔
٤٠۔ پس ان سب کو ان کے گناہ کی وجہ سے ہم نے گرفت میں لیا پھر ان میں سے کچھ پر تو ہم نے پتھر برسائے اور کچھ کو چنگھاڑ نے گرفت میں لیا اور کچھ کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو ہم نے غرق کر دیا اور اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھامگر یہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے۔٭
٤١۔ جنہوںنے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی بنایا ہے ان کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جو اپنا گھر بناتی ہے اور گھروں میں سب سے کمزور یقینا مکڑی کا گھر ہے اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔٭
٤٢۔ یہ لوگ اللہ کے علاوہ جس چیز کو پکارتے ہیں اللہ کو یقینا اس کا علم ہے اور وہی بڑا غالب آنے والا،حکمت والا ہے۔
٤٣۔ اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں مگر ان کو علم رکھنے والے لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔٭
٤٤۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، اس میں ایمان والوں کے لیے یقینا ایک نشانی ہے۔

پارہ : اُتْلُ مَآاُوْحِیَ ٢١​
٤٥۔ (اے نبی) آپ کی طرف کتا ب کی جو وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور تم جو کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔٭
٤٦۔ اور تم اہل کتاب سے مناظرہ نہ کرو مگر بہتر طریقے سے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں اور کہدو کہ ہم اس (کتاب) پر ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی ہے اور اس (کتاب) پر بھی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔٭
٤٧۔ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے، پس جنہیںہم نے کتاب دی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان لوگوں میں سے بھی بعض اس پر ایمان لے آئے ہیں اور صرف کفار ہی ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں۔
٤٨۔ اور (اے نبی) آپ اس (قرآن) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو اہل باطل شبہ کر سکتے تھے۔٭
٤٩۔ بلکہ یہ روشن نشانیاں ان کے سینوں میں ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے اور ہماری آیات کا انکار وہی کرتے ہیں جو ظالم ہیں۔
٥٠۔ اور لوگ کہتے ہیں: اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں اتاری گئیں؟ کہدیجئے: نشانیاں تو بس اللہ کے پاس ہیں اور میں تو صرف واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔٭
٥١۔ کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جو انہیں سنائی جاتی ہے؟ ایمان لانے والوں کے لیے یقینا اس (کتاب) میں رحمت اور نصیحت ہے۔
٥٢۔ کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ کافی ہے، وہ ان سب چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور اللہ کے منکر ہوئے وہی خسارے میں ہیں۔٭
٥٣۔ اور یہ لوگ آپ سے عذاب میں عجلت چاہتے ہیں اور اگر ایک وقت مقرر نہ ہوتا تو ان پر عذاب آ چکا ہوتا اور وہ (عذاب) ان پر اچانک ایسے حال میں آکر رہے گا کہ انہیںخبر تک نہ ہو گی۔٭
٥٤۔ یہ لوگ آپ سے عذاب میں عجلت چاہتے ہیں حالانکہ دوزخ کفار کو گھیرے میں لے چکی ہے۔
٥٥۔ اس دن عذاب انہیں ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے گھیر لے گا اور (اللہ) کہے گا: اب ذائقہ چکھو ان کاموں کا جو تم کیا کرتے تھے۔
٥٦۔ اے میرے مومن بندو! میری زمین یقینا وسیع ہے پس صرف میری عبادت کیا کرو۔٭
٥٧۔ ہرنفس کو موت (کاذائقہ) چکھنا ہے پھر تم ہماری طرف پلٹائے جاؤگے۔٭
٥٨۔ اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں ہم انہیں جنت کے بلند و بالا محلات میں جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، عمل کرنے والوں کے لیے کیا ہی اچھا اجرہے.
٥٩۔ جنہوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔٭
٦٠۔ اور بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیںپھرتے، اللہ ہی انہیں رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی اور وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
٦١۔اور اگر آپ ان سے پوچھیںکہ آسمان اور زمین کو کس نے پیداکیا اور سور ج اور چاند کو کس نے مسخر کیا تو ضرورکہیں گے: اللہ نے، تو پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں؟٭
٦٢۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے، اللہ یقینا ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔
٦٣۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیںکہ آسمان سے پانی کس نے نازل کیا اور اس کے ذریعے زمین کو مردہ ہونے کے بعد کس نے زندہ کر دیا؟ تو وہ ضرور کہیںگے: اللہ نے، کہدیجئے: الحمد للہ، البتہ اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔٭
٦٤۔ اور دنیاوی زندگی تو جی بہلانے اور کھیل کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر ہی زندگی ہے، اگر انہیںکچھ علم ہوتا۔٭
٦٥۔ وہ جب کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو خلوص کے ساتھ پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔٭
٦٦۔ تاکہ ہم نے جو انہیں (نجات) بخشی ہے اس کی ناشکری کریں اور مزے لوٹیں لھٰذا عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔
٦٧۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ایک پرامن حرم بنا دیا ہے جب کہ لوگ ان کے گرد و نواح سے اچک لیے جاتے تھے؟ کیا یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیںاور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔۔٭
٦٨۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے اور جب حق اس کے سامنے آ چکا ہو تو اس کی تکذیب کرے؟ کیا جہنم میں کفار کے لیے ٹھکانا نہیں ہے؟
٦٩۔ اور جو ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے کی ہدایت کریں گے اور بتحقیق اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔٭
 

صرف علی

محفلین
30 سورۃ روم ۔ مکی ۔ آیات ٦٠​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ الف ، لام ، میم۔
٢۔ رومی مغلوب ہو گئے،٭
٣۔ قریبی ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہو جائیں گے،٭
٤۔ چند سالوں میں، پہلے بھی اور بعد میں بھی اختیار کل اللہ کو حاصل ہے، اہل ایمان اس روز خوشیاں منائیںگے،٭
٥۔ اللہ کی مدد پر، اللہ جسے چاہتا ہے نصرت عطا فرماتا ہے اور وہ غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٦۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
٧۔ لوگ تو دنیا کی ظاہری زندگی کے بارے ں جانتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں۔
٨۔ کیا انہوں نے اپنے (دل کے) اندر یہ غور و فکر نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو برحق اور معینہ مدت کے لیے خلق کیاہے؟ اور لوگوں میں یقینا بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔٭
٩۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ دیکھ لیتے کہ ان سے پہلوں کا کیا انجام ہوا؟ جب کہ وہ قوت میں ان سے زیادہ تھے انہوں نے زمین کو تہ و بالا کیا(بویا جوتا) اور انہوں نے زمین کو ان سے کہیں زیادہ آباد کر رکھا تھا جتنا انہوںنے زمین کو آباد کر رکھا ہے اور ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے، پس اللہ تو ان پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔٭
١٠۔ پھر جنہوںنے برا کیا ان کا انجام بھی برا ہوا کیونکہ انہوں نے اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کی تھی اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔
١١۔ اللہ خلقت کی ابتدا فرماتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ فرماتا ہے پھر تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔٭
١٢۔ اور جس روز قیامت برپا ہو گی مجرمین ناامید ہوں گے۔٭
١٣۔ اور ان کے بنائے ہوئے شریکوں میں ے کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیںگے۔
١٤۔ اور جس دن قیامت برپا ہو گی اس دن لوگ گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے.٭
١٥۔ پھر جنہوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال انجام دیے وہ جنت میں خوشحال ہوں گے۔
١٦۔ اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری نشانیوں اور آخرت کی ملاقات کی تکذیب کی وہ عذاب میں پیش کیے جائیں گے۔
١٧۔ پس اللہ کی ذات پاک و منزہ ہے جب تم شام کرتے ہو اور جب تم صبح کرتے ہو۔٭
١٨۔ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے آسمانوں اور زمین میں تیسرے پہر کو اور جب تم ظہر کرو (اللہ کی حمد کرو)۔٭
١٩۔ اور وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے۔ف
٢٠۔ اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے بنایا پھر تم انسان ہو کر (زمین میں) پھیل رہے ہو۔٭
٢١۔ اور یہ اس کی نشانیوں میںسے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔٭
٢٢۔ اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، علم رکھنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں.٭
٢٣۔ اور تمہارا رات میں سو جانا اور دن میں اس کا فضل(رزق)تلاش کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے، (دلائل کو توجہ سے) سننے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں.٭
٢٤۔ اور خوف اور طمع کے ساتھ تمہیں بجلی کی چمک دکھانا اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرنے کے لیے آسمان سے پانی برسانا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، عقل سے کام لینے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔
٢٥۔ اور یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں، پھر جب وہ تمہیں زمین سے ایک بار پکارے گا تو تم یکایک نکل آؤ گے۔٭
٢٦۔ اور آسمانوں اور زمین میںجو کچھ بھی ہے اسی کا ہے اور سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔٭
٢٧۔ اور وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرتا ہے اور یہ اس کے لیے زیادہ آسان ہے اور آسمانوں اور زمین میں اس کے لیے اعلیٰ شان و منزلت ہے اور وہ غالب آنے والا، حکمت والا ہے.٭
٢٨۔ وہ تمہارے لیے خود تمہاری ایک مثال دیتا ہے، جن غلاموں کے تم مالک ہو کیا وہ اس رزق میںتمہارے شریک ہیں جو ہم نے تمہیںدیا ہے؟ پھر وہ اس میں (تمہارے) برابر ہو جائیں اور تم ان سے اس طرح ڈرنے لگو جس طرح تم (آزاد) لوگ خود ایک دوسرے سے ڈرتے ہو؟ عقل رکھنے والوں کے لیے ہم اس طرح نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں۔٭
٢٩۔ مگر ظالم لوگ نادانی میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیںپس جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔
٣٠۔ پس (اے نبی) یکسو ہو کر اپنا رخ دین (خدا) کی طرف مرکوز رکھیں،(یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے، یہی محکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیںجانتے۔٭
٣١۔ اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہونا۔٭
٣٢۔ جنہوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈالی اور جو گروہوں میں بٹ گئے، ہر فرقہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے۔٭
٣٣۔ اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے رب کو پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں اپنی رحمت کا مزہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک فرقہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔
٣٤۔ تاکہ جو ہم نے انہیں بخشا ہے اس کی ناشکری کریں، پس اب مزے اڑاؤ، عنقریب تمہیںمعلوم ہوجائے گا۔٭
٣٥۔ کیا ہم نے ان پر کوئی ایسی دلیل نازل کی ہے جو اس شرک کی شہادت دے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔٭
٣٦۔ اور جب ہم لوگوں کو کسی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر خوش ہو جاتے ہیں اور جب ان کے برے اعمال کے سبب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ مایوس ہونے لگتے ہیں۔٭
٣٧۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ اور تنگ کر دیتا ہے؟ مومنین کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔
٣٨۔ پس تم قریبی رشتہ داروںکو اور مسکین اور مسافر کو ان کا حق دے دو، یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضامندی چاہتے ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں.٭
٣٩۔ اور جو سود تم لوگوں کے اموال میں افزائش کے لیے دیتے ہو وہ اللہ کے نزدیک افزائش نہیں پاتا اور جو زکوۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیتے ہو پس ایسے لوگ ہی (اپنا مال) دوچند کرنے والے ہیں۔٭
٤٠۔ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیںموت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان میںسے کوئی کام کر سکے؟ پاک ہے اور بالاتر ہے وہ ذات اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔٭
٤١۔ لوگوںکے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آ جائیں۔٭
٤٢۔ کہدیجئے: زمین میں چل پھر کر دیکھ لو گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوا؟ ان میں سے اکثر مشرک تھے۔
٤٣۔ لہٰذا آپ اپنا رخ محکم دین کی طرف مرکوز رکھیں قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جس کے اللہ کی طرف سے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہے، اس دن لوگ پھوٹ کا شکار ہوںگے ۔٭
٤٤۔ جس نے کفر کیا اس کے کفر کا ضرر اسی کے لیے ہے اور جنہوں نے نیک عمل کیا وہ اپنے لیے ہی راہ سدھارتے ہیں،٭
٤٥۔تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال انجام دینے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے، بے شک وہ کافروںکو پسند نہیں کرتا۔٭
٤٦۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ ہواؤں کو بشارت دہندہ بنا کر بھیجتا ہے تاکہ تمہیں اپنی رحمت کا ذائقہ چکھائے اور کشتیاں اس کے حکم سے چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شاید تم شکر کرو۔٭
٤٧۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو ان کی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا ہے، سو وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے، پھر جنہوں نے جرم کیا ان سے ہم نے بد لہ لیا اور مومنین کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے۔٭
٤٨۔ اللہ ہی ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادل کو ابھارتی ہیں پھر اسے جیسے اللہ چاہتا ہے آسمان پر پھیلاتا ہے پھر اسے ٹکڑوں کا انبوہ بنا دیتا ہے پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے بیچ میں سے بارش نکلنے لگتی ہے پھر اس (بارش) کو اپنے بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں.٭
٤٩۔ جب کہ اس بارش کے ان پر برسنے سے پہلے وہ ناامید ہو رہے تھے۔
٥٠۔ اللہ کی رحمت کے اثرات کا نظارہ کرو کہ وہ زمین کو کس طرح زندہ کر دیتا ہے اس کے مردہ ہونے کے بعد، یقینا وہی مردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔٭
٥١۔ اور اگر ہم ایسی ہوا بھیجیں جس سے وہ کھیتی کو زردہوتے دیکھ لیں تو وہ اس کے بعد ناشکری کرنے لگتے ہیں۔٭
٥٢۔ آپ یقینا مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ ان بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہیں جب کہ وہ پشت پھیرے جا رہے ہوں۔٭
٥٣۔ اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر ہدایت دے سکتے ہیں، آپ صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں اور فرمانبردار ہیں۔
٥٤۔ اللہ وہ ہے جس نے کمزور حالت سے تمہاری تخلیق (شروع) کی پھر کمزوری کے بعد قوت بخشی پھر قوت کے بعد کمزور اور بوڑھا کر دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ بڑا جاننے والاصاحب قدرت ہے.٭
٥٥۔ اور جس روز قیامت برپا ہو گی مجرمین قسم کھائیں گے کہ وہ (دنیا میں)گھڑی بھر سے زیادہ نہیںرہے، وہ اسی طرح الٹے چلتے رہتے تھے۔٭
٥٦۔ اورجنہیں علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے: نوشتہ خدا کے مطابق یقینا تم قیامت تک رہے ہو اور یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم جانتے نہیں تھے۔٭
٥٧۔ پس اس دن ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔
٥٨۔ اور بتحقیق ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بیان کی ہے اور اگر آپ ان کے سامنے کوئی نشانی پیش کر بھی دیں تو کفار ضرور کہیں گے: تم تو صرف باطل پر ہو۔٭
٥٩۔ اس طرح اللہ ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے جو علم نہیں رکھتے۔٭
٦٠۔ پس (اے نبی) آپ صبر کریں، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ آپ کو سبک نہ پائیں۔٭


31 سورہ لقمان ۔ مکی ۔ آیات ٣٤​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔الف ، لام ، میم۔
٢۔ یہ حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔
٣۔نیکوکاروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے،
٤۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور وہی تو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
٥۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
٦۔ اور انسانوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ نادانی میں (لوگوں کو) راہ خدا سے گمراہ کریں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ایسے لوگوں کے لیے ذلت میں ڈالنے والا عذاب ہو گا۔٭
٧۔ اور جب اسے ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ تکبر کے ساتھ اس طرح منہ موڑ لیتا ہے جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو، گویا اس کے دونوں کان بہرے ہیں، پس اسے دردناک عذاب کی بشارت دے دیں۔٭
٨۔ جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال انجام دیں ان کے لیے نعمت والے باغات ہوں گے،
٩۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔
١٠۔ اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر پیدا کیا جو تمہیں نظر آئیں اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس (زمین) میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگائے ۔٭
١١۔ یہ ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ اللہ کے سوا دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے، بلکہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔٭
١٢۔ اور بتحقیق ہم نے لقمان کو حکمت سے نوازا کہ اللہ کا شکر کریں اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے (فائدے کے) لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو اللہ یقینابے نیاز، لائق ستائش ہے۔٭
١٣۔ اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: اے بیٹا! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
١٤۔ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھایا اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہے (نصیحت یہ کہ)میرا شکر بجا لاؤ اور اپنے والدین کا بھی(شکر ادا کرو آخر میں) بازگشت میری طرف ہے۔٭
١٥۔ اور اگر وہ دونوںتجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک قرار دے جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کی بات نہ ماننا، البتہ دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا اور اس کی راہ کی پیروی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہے، پھر تمہاری بازگشت میری طرف ہے، پھر میںتمہیں بتا دوں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔٭
١٦۔اے میرے بیٹے! اگررائی کے دانے کے برابر بھی کوئی (اچھی یا بری) چیز کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں یا زمین میںہو تواللہ اسے یقینا نکال لائے گا یقینا اللہ بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔٭
١٧۔ اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور بدی سے منع کرو اور جو مصیبت تجھے پیش آئے اس پر صبرکرو، یہ امور یقینا ہمت طلب ہیں۔
١٨۔ اور لوگوں سے (غرور و تکبرسے) رخ نہ پھیرا کرو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کرو، اللہ کسی اترانے والے خود پسند کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔٭
١٩۔ اور اپنی چال میںاعتدال رکھو اور اپنی آواز نیچی رکھ، یقینا آوازوں میں سب سے بری گدھے کی آواز ہوتی ہے۔٭
٢٠۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کامل کر دی ہیں اور (اس کے باوجود) کچھ لوگ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس نہ علم ہے اورنہ ہدایت اور نہ کوئی روشن کتاب۔٭
٢١۔ اور جب ان سے کہا جاتاہے : جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں: ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، خواہ شیطان ان (کے بڑوں) کو بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلاتا رہا ہو۔
٢٢۔ اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور وہ نیکوکار بھی ہو تو اس نے مضبوط رسی کو تھام لیا اور سب امور کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔٭
٢٣۔ اور جو کفر کرتا ہے اس کا کفر آپ کو محزون نہ کرے، انہیں پلٹ کر ہماری طرف آنا ہے پھر ہم انہیں بتائیں گے کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں یقینا اللہ ہر وہ بات خوب جانتا ہے جو سینوں میں ہے۔٭
٢٤۔ ہم انہیں (دنیا میں) تھوڑ ا مزہ لینے کا موقع دیں گے پھر انہیں مجبور کر کے شدید عذاب کی طرف لے آئیںگے۔
٢٥۔ اور اگر آپ ان سے پوچھیں: آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہ ضرور کہیں گے: اللہ نے، کہدیجئے: الحمد للّٰہ بلکہ ان میںسے اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٢٦۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کی ملکیت ہے، وہ اللہ یقینا بے نیاز، لائق ستائش ہے۔٭
٢٧۔ اور اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کے ساتھ مزید سات سمندر مل (کر سیاہی بن) جائیں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت و الا ہے۔٭
٢٨۔ اللہ کے لیے تم سب کا پیدا کرنا پھر دوبارہ اٹھانا ایک جان (کے پیدا کرنے اور پھر اٹھانے) کی طرح ہے، یقینا اللہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔٭
٢٩۔ کیا تم نہیںدیکھتے کہ اللہ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے؟ سب ایک مقررہ وقت تک چل رہے ہیں اور بتحقیق اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے.٭
٣٠۔ یہ اس لیے کہ اللہ (کی ذات) ہی برحق ہے اور اس کے سوا جنہیں وہ پکارتے ہیں سب باطل ہیں اور اللہ ہی برتر و بزرگ ہے۔٭
٣١۔ کیاتم نہیںدیکھتے کہ کشتی سمندر میں اللہ کی نعمت سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے، تمام صبر شکر کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔
٣٢۔ اور جب ان پر (سمندر کی) موج سائبان کی طرح چھا جاتی ہے تو وہ عقیدے کو اسی کے لیے خالص کر کے اللہ کو پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو ان میںسے کچھ اعتدال پر قائم رہتے ہیں اور ہماری نشانیوں کا وہی انکار کرتا ہے جو بدعہد نا شکرا ہے۔٭
٣٣۔ اے لوگو! اپنے پروردگار (کے غضب) سے بچو اوراس دن کا خوف کرو جس دن نہ باپ بیٹے کے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آئے گا، اللہ کا وعدہ یقینا سچا ہے لہٰذا دنیا کی یہ زندگی تمہیں دھوکہ نہ دے اور دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے میں نہ رکھے۔٭
٣٤۔ قیامت کاعلم یقینا اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے او ر کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمانے والا ہے اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی، یقینا اللہ خوب جاننے والا، بڑا باخبر ہے۔٭
 

صرف علی

محفلین
32 سورۃ سجدہ ۔ مکی ۔ آیات ٣٠​
بنام خدائے رحمن ورحیم
١۔ الف، لام، میم۔
٢۔ ایسی کتاب کانازل کرنا جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے رب العالمین کی طرف سے (ہی ممکن) ہے۔
٣۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیںکہ اس (رسول) نے اسے خود گھڑ لیا ہے ؟(نہیں) بلکہ یہ آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے تاکہ آپ ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا، شاید وہ ہدایت حاصل کر لیں۔٭
٤۔ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو چھ دنوںمیں پیدا کیاپھر عرش پر متمکن ہو گیا، اس کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ شفاعت کرنے والا، کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟٭
٥۔ وہ آسمان سے زمین تک امور کی تدبیر کرتا ہے پھر یہ امر ایک ایسے دن میں اللہ کی بارگاہ میں اوپر کی طرف جاتا ہے جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزارسال ہے۔٭
٦۔ وہی جوغیب و شہود کا جاننے والا ہے جو بڑا غالب آنے والا، رحیم ہے۔
٧۔ جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا اور انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔٭
٨۔ پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ سے پیدا کیا۔٭
٩۔ پھر اسے معتدل بنایا اوراس میں اپنی روح پھونک دی اور تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل بنائے، تم لوگ بہت کم شکر کرتے ہو۔٭
١٠۔ اور وہ کہتے ہیں: جب ہم زمین میں ناپید ہو جائیں گے تو کیا ہم نئی خلقت میں آئیں گے؟ بلکہ یہ لوگ تو اپنے رب کے حضور جانے کے منکر ہیں۔
١١۔ کہدیجئے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔٭
١٢۔ اور کاش! آپ وہ وقت دیکھ لیتے جب کافر اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے (اور کہ رہے ہوں گے) ہمارے پروردگار! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں (ایک بار دنیا میں) واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل بجا لائیں کیونکہ ہمیں یقین آ گیا ہے۔
١٣۔ اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو اس کی ہدایت دے دیتے لیکن میری طرف سے فیصلہ حتمی ہو چکا ہے کہ میںدوزخ کو جنوں اور انسانوں سے ضرور بھر دوں گا۔٭
١٤۔ پس اب اس بات کا ذائقہ چکھو کہ تم نے اپنے اس دن کی ملاقات کو فراموش کر دیا تھا، ہم نے بھی تمہیں فراموش کر دیا ہے اور اب تم اپنے ان اعمال کی پاداش میں ہمیشگی کا عذاب چکھتے رہو جو تم کرتے تھے۔
١٥۔ ہماری آیات پر صرف وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جب انہیں یہ آیات سمجھا دی جاتی ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی ثناء کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔
١٦۔ (رات کو) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.
١٧۔ اور کوئی شخص نہیںجانتا کہ ان کے اعمال کے صلے میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان پردہ غیب میں موجود ہے۔٭
١٨۔ بھلا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہو سکتا ہے؟ یہ دونوں برابر نہیںہو سکتے۔٭
١٩۔ مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں، یہ ضیافت ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ انجام دیا کرتے تھے۔
٢٠۔ لیکن جنہوں نے نافرمانی کی ان کی جائے بازگشت آتش ہے، جب بھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: اس آتش کا عذاب چکھو جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔
٢١۔ اور ہم انہیں بڑے عذاب کے علاوہ کمتر عذاب کا ذائقہ بھی ضرور چکھائیں گے، شاید وہ باز آ جائیں۔٭
٢٢۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی نشانیاں سمجھا دی گئی ہوں پھر وہ ان سے منہ موڑ لے؟ ہم مجرموں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں۔٭
٢٣۔ اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ہے لہٰذا آپ اس (قرآن) کے ملنے میں کسی شبہے میں نہ رہیں اور ہم نے اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت(کا ذریعہ) بنایا.٭
٢٤۔ اور جب انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین رکھے ہوئے تھے تو ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں۔٭
٢٥۔ یقینا آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ سنا دے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں.
٢٦۔ کیا انہیں اس بات سے ہدایت نہیں ملی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے جن کی قیام گاہوں میں یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں، بتحقیق اس میں نشانیاں ہیں، تو کیا یہ لوگ سنتے نہیں؟
٢٧۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم بنجر زمینوں کی طرف پانی روانہ کرتے ہیں پھر اس سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس سے ان کے جانور بھی کھاتے ہیں اور خود بھی، تو کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں؟
٢٨۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ فیصلہ کب ہو گا؟
٢٩۔ کہدیجئے: فیصلے کے دن کفار کو ان کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔٭
٣٠۔ ان سے منہ پھیر لیں اور انتظار کریں، یقینا یہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔٭


33 سورہ احزاب ۔ مدنی ۔ آیات ٧٣​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ اے نبی اللہ سے ڈریں اور کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کریں، اللہ یقینا بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔٭
٢۔ اور آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے اس کی اتباع کریں، اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔
٣۔ اور اللہ پر توکل کریں اور ضامن بننے کے لیے اللہ کافی ہے۔
٤۔ اللہ نے کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے ہیں اور تمہاری ازواج کو جنہیں تم لوگ ماں کہ بیٹھتے ہو ان کو اللہ نے تمہاری مائیں نہیں بنایا اور نہ ہی تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق بات کہتا اور(سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔٭
٥۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قرین انصاف ہے، پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے تو یہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور جو تم سے غلطی سے سرزد ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اس بات پر (گناہ ضرور ہے) جسے تمہارے دل جان بوجھ کر انجام دیں اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحیم ہے۔
٦۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتاب میں لکھا ہوا ہے۔٭
٧۔اور (یاد کرو) جب ہم نے انبیاء سے عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح سے بھی اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسی بن مریم سے بھی اور ان سب سے ہم نے پختہ عہد لیا۔٭
٨۔ تاکہ سچ کہنے والوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت کرے اور کفار کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
٩۔ اے ایمان والو! اللہ کی وہ نعمت یاد کرو جو اس نے تم پر کی جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر بھیجے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔٭
١٠۔ جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور (مارے دہشت کے) دل (کلیجے) منہ کو آ گئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔٭
١١۔ اس وقت مومنین خوب آزمائے گئے اور انہیںپوری شدت سے ہلا کر رکھ دیا گیا۔
١٢۔ اور جب منافقین اور دلوں میں بیماری رکھنے والے کہ رہے تھے: اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔٭
١٣۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ کہنے لگا: اے یثرب والو! تمہارے لیے یہاں ٹھہرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے پس لوٹ جاؤ اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت طلب کر رہا تھا یہ کہتے ہوئے: ہمارے گھر کھلے پڑے ہیںحالانکہ وہ کھلے نہیں تھے، وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے۔٭
١٤۔ اور اگر (دشمن) ان پر شہر کے اطراف سے گھس آتے پھر انہیں اس فتنے کی طرف دعوت دی جاتی تو وہ اس میں پڑ جاتے اور اس میں صرف تھوڑا ہی توقف کرتے۔٭
١٥۔ حالانکہ پہلے یہ لوگ اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ پیٹھ نہیںپھیریں گے اور اللہ کے ساتھ ہونے والے عہد کے بارے میں باز پرس ہو گی۔٭
١٦۔ کہدیجئے: اگرتم لوگ موت یا قتل سے فرار چاہتے ہو تو یہ فرار تمہیں فائدہ نہ دے گا اور(زندگی کی) لذت کم ہی حاصل کر سکو گے۔
١٧۔ کہدیجئے: اللہ سے تمہیں کون بچا سکتا ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے؟ یا تم پر رحمت کرنا چاہے(تو کون روک سکتا ہے؟) اور یہ لوگ اللہ کے سوا کسی کو نہ ولی پائیں گے اور نہ مددگار۔
١٨۔ اللہ تم میں سے رکاوٹیں ڈالنے والوں کوخوب جانتا ہے اور ان کو جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں: ہماری طرف آؤ اور جو جنگ میںکبھی کبھار ہی شرکت کرتے ہیں۔٭
١٩۔ تم سے دریغ رکھتے ہیںچنانچہ جب خوف کا وقت آ جائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ آنکھیں پھیرتے ہوئے ایسے آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، پھر جب خوف ٹل جاتا ہے تو وہ مفاد کی حرص میں چرب زبانی کے ساتھ تم پر بڑھ چڑھ کر بولیںگے، یہ لوگ ایمان نہیںلائے اس لیے اللہ نے ان کے اعمال حبط کر دیے اور یہ اللہ کے لیے (بہت) آسان ہے.٭
٢٠۔ یہ خیال کر رہے ہیں کہ (ابھی) فوجیں گئی نہیں ہیں اور اگر وہ پھر حملہ کریں تو یہ آرزو کریں گے کہ کاش! صحرا میں دیہاتوں میں جا بسیں اور تمہاری خبریں پوچھتے رہیں، اگر وہ تمہارے درمیان ہوتے تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیتے۔
٢١۔ بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔٭
٢٢۔ اور جب مومنوں نے لشکر دیکھے تو کہنے لگے: یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا اور اس واقعے نے ان کے ایمان اور تسلیم میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔٭
٢٣۔ مومنین میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا، ان میں سے بعض نے اپنی ذمے داری کو پورا کیا اور ان میں سے بعض انتظار کر رہے ہیں اور وہ ذرا بھی نہیں بدلے۔٭
٢٤۔ تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور چاہے تو منافقین کو عذاب دے یا ان کی توبہ قبول کرے، اللہ یقینا بڑا معاف کرنے والا، رحیم ہے۔
٢٥۔ اللہ نے کفار کو اس حال میں پھیر دیا کہ وہ غصے میں (جل رہے) تھے، وہ کوئی فائدہ بھی حاصل نہ کر سکے، لڑائی میں مومنین کے لیے اللہ ہی کافی ہے اور اللہ بڑا طاقت والا، غالب آنے والا ہے۔
٢٦۔ اور اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان (حملہ آوروں) کا ساتھ دیا اللہ نے انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دیا کہ تم ان میں سے ایک گروہ کو قتل کرنے لگے اور ایک گروہ کو تم نے قیدی بنا لیا۔٭
٢٧۔ اور اس نے تمہیں ان کی زمین اور ان کے گھروں اوران کے اموال اور ان کی ان زمینوں کا جن پر تم نے قدم بھی نہیں رکھا وارث بنایا اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔٭
٢٨۔ اے نبی! اپنی ازواج سے کہدیجئے: اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میںتمہیں کچھ مال دے کر شائستہ طریقے سے رخصت کر دوں۔٭
٢٩۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لیے اللہ نے یقینا اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔
٣٠۔ اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائے گا اور یہ بات اللہ کے لیے آسان ہے۔٭

پارہ : وَمَن یّقنُت22​

٣١۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اورنیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لیے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔
٣٢۔ اے نبی کی بیویو! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقوی رکھتی ہو تو نرم لہجے میں باتیں نہ کرنا، کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔٭
٣٣۔ اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔٭
٣٤۔ اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے، اللہ یقینا بڑا باریک بین، خوب باخبر ہے۔
٣٥۔ یقینا مسلم مرد اور مسلم عورتیں، مومن مرد اور مومنہ عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راستگو مرد اور راستگو عورتیں، صابر مرد اور صابرہ عورتیں، فروتنی کرنے والے مرد اور فروتن عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینی والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی عفت کے محافظ مرد اور عفت کی محافظہ عورتیں نیز اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں وہ ہیں جن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجرعظیم مہیا کر رکھا ہے۔
٣٦۔ اور کسی مؤمن اور مومنہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔٭
٣٧۔ اور (اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا، کہ رہے تھے: اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپائے ہو ئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں، پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوںپر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر ہی رہے گا۔٭
٣٨۔ نبی کے لیے اس (عمل کے انجام دینے) میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جو اللہ نے ان کے لیے مقرر کیا ہے، جو (انبیائ) پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔٭
٣٩۔ (وہ انبیائ) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔٭
٤٠۔ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔٭
٤١۔ اے ایمان والو! اللہ کو بہت کثرت سے یاد کیا کرو۔٭
٤٢۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔
٤٣۔ وہی تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی (دعا کرتے ہیں) تاکہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لائے اور وہ مومنوں کے بارے میں بڑا مہربان ہے۔٭
٤٤۔ جس روز وہ اس سے ملیں گے ان کی تحیت سلام ہو گی اور اللہ نے ان کے لیے باعزت اجر مہیا کر رکھا ہے۔
٤٥۔ اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے،٭
٤٦۔ اور اس (اللہ) کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر۔٭
٤٧۔ اور مومنین کو یہ بشارت دیجیے کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہو گا۔٭
٤٨۔ اور آپ کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آئیں اور ان کی اذیت رسانی پر توجہ نہ دیا کریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں اور ضمانت کے لیے اللہ کافی ہے۔٭
٤٩۔ اے مومنو! جب تم مومنات سے نکاح کرو اور پھر ہاتھ لگانے سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انہیں عدت میں بٹھاؤ، لہٰذا انہیں کچھ مال دو اور شائستہ انداز میں انہیں رخصت کرو۔٭
٥٠۔ اے نبی! ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کی ہیں جن کے مہر آپ نے دے دیے ہیں اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے (بغیر جنگ کے) آپ کو عطا کی ہیں نیز آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے (سب حلال ہیں) اور وہ مومنہ عورت جو اپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کرے اور اگر نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں، (یہ اجازت) صرف آپ کے لیے ہے مومنوں کے لیے نہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے مومنوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا (حق مہر) معین کیا ہے (آپ کو یہ رعایت اس لیے حاصل ہے) تاکہ آپ پر کسی قسم کا مضائقہ نہ ہو اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔٭
٥١۔ آپ ان بیویوںمیںسے جسے چاہیں علیحدہ رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جسے آپ نے علیحدہ کر دیا ہو اسے آپ پھر اپنے پاس بلانا چاہتے ہوں تو اس میں آپ پر کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ اس لیے ہے کہ اس میں زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور جو کچھ بھی آپ انہیں دیں وہ سب اسی پر راضی ہوں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتا ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بردبار ہے۔٭
٥٢۔ اس کے بعد آپ کے لیے دوسری عورتیں حلال نہیںہیں اور نہ اس بات ی اجازت ہے کہ ان بیویوں کو بدل لیں خواہ ان (دوسری) عورتوں کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو سوائے ان (کنیز) عورتوں کے جو آپ کی ملکیت میں ہوں اور اللہ ہر چیز پر نگرا ن ہے۔٭
٥٣۔ اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے اور نہ ہی پکنے کا انتظار کرو، لیکن جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے بیٹھے نہ رہو، یہ بات نبی کو تکلیف پہنچاتی ہے مگر وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیںلیکن اللہ حق بات کرنے سے نہیں شرماتا اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ بہتر طریقہ ہے تمہیں یہ حق نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو، بتحقیق یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔٭
٥٤۔ تم کسی بات کو خواہ چھپاؤ یا ظاہرکرو اللہ تو یقینا ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔
٥٥۔ (رسول کی) ازواج پر کوئی مضائقہ نہیں اپنے باپوں، اپنے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھتیجوں، اپنے بھانجوں، اپنی مسلم خواتین اور کنیزوں سے (پردہ نہ کرنے میں) اور اللہ کا خوف کریں، اللہ یقینا ہر چیزپر گواہ ہے۔
٥٦۔ اللہ اور اس کے فرشتے یقینا نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو جیسے سلام بھیجنے کا حق ہے۔٭
٥٧۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے ان کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔
٥٨۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو ناکردہ (گناہ ) پر اذیت دیتے ہیں پس انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا ہے۔
٥٩۔ اے نبی! اپنی ازواج اور اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہدیجئے: وہ اپنی چادریں تھوڑی نیچی کر لیا کریں، یہ امر ان کی شناخت کے لیے (احتیاط کے) قریب تر ہو گا پھر کوئی انہیں اذیت نہ دے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔٭
٦٠۔ اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جو مدینہ میں افواہیں پھیلاتے ہیں اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف اٹھائیں گے پھر وہ اس شہر میں آپ کے جوار میں تھوڑے دن ہی رہ پائیںگے۔٭
٦١۔ یہ لعنت کے سزاوار ہوں گے، وہ جہاں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بری طرح سے مارے جائیںگے۔
٦٢۔جو پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے بھی اللہ کا یہی دستور رہا ہے اور اللہ کے دستور میں آپ کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔
٦٣۔ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور تجھے کیا خبر شاید قیامت قریب ہو؟
٦٤۔ بلاشبہ اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے،٭
٦٥۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیںگے، وہ نہ کوئی حامی پائیں گے اور نہ مددگار۔
٦٦۔ اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹائے پلٹائے جائیںگے، وہ کہیںگے: اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔
٦٧۔ اور وہ کہیں گے: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی تھی پس انہوں نے ہمیںگمراہ کر دیا۔
٦٨۔ ہمارے پروردگار! تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت بھیج ۔
٦٩۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو اذیت دی تھی پھر اللہ نے ان کے الزام سے انہیں بری ثابت کیا اور وہ اللہ کے نزدیک آبرو والے تھے۔٭
٧٠۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی (مبنی بر حق) باتیں کیا کرو۔٭
٧١۔ اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح فرمائے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت
ی پس اس نے عظیم کامیابی حاصل کی۔
٧٢۔ ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا، انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے۔٭
٧٣۔ تاکہ (نتیجے میں) اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے اور مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو معاف کرے اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحیم ہے۔
 

صرف علی

محفلین
٣٤ سورہ سبا ۔ مکی ۔ آیات ٥٤​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہرچیز کامالک ہے اور آخرت میں بھی ثنائے کامل اسی کے لیے ہے اور وہ بڑا حکمت والا، خوب باخبر ہے۔
٢۔ جو کچھ زمین کے اندر جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میںچڑھتا ہے سب کو اللہ جانتا ہے اور وہی رحیم و غفور ہے۔٭
٣۔ اور کفار کہتے ہیں: قیامت ہم پر نہیں آئے گی، کہدیجئے: میرے عالم الغیب رب کی قسم وہ تم پر ضرور آکر رہے گی، آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس ے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے۔٭
٤۔ تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل انجام دینے والوں کو جزا دے، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے مغفرت اور رزق کریم ہے۔٭
٥۔ اور جنہوں نے ہماری آیات کے بارے میں کوشش کی کہ (ہم کو) مغلوب کریں ان کے لیے بلا کا دردناک عذاب ہے۔٭
٦۔ اور جنہیں علم دیا گیا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور وہ بڑے غالب آنے والے اور قابل ستائش (اللہ) کی راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
٧۔ اور کفار کہتے ہیں: کیا ہم تمہیں ایک ایسے آدمی کا پتہ بتائیںجو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مکمل طور پر پارہ پارہ ہو جاؤ گے تو بلاشبہ تم نئی خلقت پاؤ گے ؟٭
٨۔ اس نے اللہ پر جھوٹ بہتان باندھا ہے یا اسے جنون لاحق ہے؟ (نہیں) بلکہ (بات یہ ہے کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ لوگ عذاب میں اور گہری گمراہی میں مبتلا ہیں۔٭
٩۔ کیا انہوں نے اپنے آگے اور پیچھے محیط آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا آسمان سے ان پر ٹکڑے برسا دیں۔ یقینا اس میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہر بند ے کے لیے نشانی ہے۔
١٠۔ اور بتحقیق ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضیلت دی، (اور ہم نے کہا) اے پہاڑو! اس کے ساتھ(تسبیح پڑھتے ہوئے) خوش الحانی کرو اور پرندوں کو بھی(یہی حکم دیا) اور ہم نے لوہے کو ان کے لیے نرم کر دیا٭
١١۔ کہ تم زرہیں بناؤ اور ان کے حلقوں کو باہم مناسب رکھو اور تم سب نیک عمل کرو بتحقیق جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے دیکھتا ہوں.٭
١٢۔ اور سلیمان کے لیے (ہم نے) ہوا (کو مسخر کر دیا)، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک ماہ کا راستہ اور شام کے وقت کا چلنا بھی ایک ماہ کا راستہ (ہوتا) اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور جنوں میں سے بعض ایسے تھے جو اپنے رب کی اجازت سے سلیمان کے آگے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے انحراف کرتا ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا ذائقہ چکھاتے۔٭
١٣۔ سلیمان جو چاہتے یہ جنات ان کے لیے بنا دیتے تھے، بڑی مقدس عمارات، مجسمے، حوض جیسے پیالے اور زمین میں گڑی ہوئی دیگیں، اے آل داؤد! شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔٭
١٤۔ پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو ان جنات کو سلیمان کی موت کی بات کسی نے نہ بتائی سوائے زمین پر چلنے والی (دیمک) کے جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی،پھر جب سلیمان زمین پر گرے تو جنوں پر بات واضح ہو گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کے اس عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔٭
١٥۔بتحقیق(اہل) سبا کے لیے ان کی آبادی میں ایک نشانی تھی، (یعنی) دو باغ دائیں اور بائیں تھے، اپنے رب کے رزق سے کھاؤ اور اس کا شکر اداکرو، ایک پاکیزہ شہر (ہے) اور بڑا بخشنے والا پروردگار۔٭
١٦۔ پس انہوں نے منہ پھیر لیا تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیج دیا اور ان دو باغوں کے عوض ہم نے انہیں دو ایسے باغات دیے جن میں بدمزہ پھل اور کچھ جھاؤ کے درخت اور تھوڑے سے بیر تھے۔٭
١٧۔ ان کی ناشکری کے سبب ہم نے انہیں یہ سزا دی اور کیا ایسی سزا ناشکروںکے علاوہ ہم کسی اور کو دیتے ہیں؟٭
١٨۔ اور ہم نے ان کے اور جن بستیوںکو ہم نے برکت سے نوازا تھا، کے درمیان چند کھلی بستیاں بسا دیں اور ان میں سفر کی منزلیں متعین کیں، ان میں راتوں اور دنوں میں امن کے ساتھ سفرکیا کرو۔٭
١٩۔ پس انہوں نے کہا : ہمارے پروردگار! ہمارے سفر کی منزلوں کو لمبا کر دے اور انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا چنانچہ ہم نے بھی انہیں افسانے بنا دیا اور انہیں مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، یقینا اس (واقعہ) میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔٭
٢٠۔ اور بتحقیق ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا گمان درست پایا اور انہوںنے اس کی پیروی کی سوائے مومنوں کی ایک جماعت کے۔٭
٢١۔ اور ابلیس کو ان پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی مگر ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخرت کا ماننے والا کون ہے اور ان میں سے کون اس بارے میں شک میں ہے اور آپ کا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔٭
٢٢۔ کہدیجئے: جنہیں تم اللہ کے سوا (معبود) سمجھتے ہو انہیں پکارو، وہ ذرہ بھر چیز کے مالک نہیں ہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ہی ان دونوںمیں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے اس کا کوئی مددگار ہے۔
٢٣۔اور اللہ کے نزدیک کسی کے لیے شفاعت فائدہ مند نہیں سوائے اس کے جس کے حق میں اللہ نے اجازت دی ہو، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے پریشانی دور ہو گی تو وہ کہیں گے: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہیں گے: حق فرمایا ہے اور وہی برتر، بزرگ ہے۔٭
٢٤۔ان سے پوچھیے:تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟ کہدیجئے: اللہ، تو ہم اور تم میں سے کوئی ایک ہدایت پر یا صریح گمراہی میں ہے۔٭
٢٥۔ کہدیجئے:ہمارے گناہوں کی تم سے پرسش نہیں ہو گی اور نہ ہی تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا۔
٢٦۔ کہدیجئے: ہمارا رب ہمیںجمع کرے گا پھر ہمارے درمیان حق پر مبنی فیصلہ فرمائے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا، دانا ہے۔
٢٧۔ کہدیجئے: مجھے وہ تو دکھاؤ جنہیں تم نے شریک بنا کر اللہ کے ساتھ ملا رکھا ہے، ہرگز نہیں، بلکہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا صرف اللہ ہے۔٭
٢٨۔ اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔٭
٢٩۔ اور یہ کہتے ہیں: اگر تم لوگ سچے ہو (تو بتاؤ قیامت کے) وعدے کا دن کب آنے والا ہے؟٭
٣٠۔ کہدیجئے: تم سے ایک دن کا وعدہ ہے جس سے تم نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکو گے اور نہ آگے بڑھ سکو گے۔
٣١۔ اور کفار کہتے ہیں: ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے اور نہ (ان کتابوں پر) جو اس سے پہلے ہیں اور کاش آپ ان کا وہ حال دیکھ لیتے جب یہ ظالم اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہوں گے، (چنانچہ) جو لوگ دبے ہوئے ہوتے تھے وہ بڑا بننے والوں سے کہیں گے: اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔٭
٣٢۔ اور بڑا بننے والے دبے رہنے والوں سے کہیں گے: ہدایت تمہارے پاس آ جانے کے بعد کیا ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟ (نہیں) بلکہ تم خود ہی مجرم ہو۔٭
٣٣۔ اور کمزور لوگ بڑا بننے والوں سے کہیں گے: بلکہ یہ رات دن کی چالیں تھیں جب تم ہمیں اللہ سے کفر کرنے اور اس کے لیے ہمسر بنانے کے لےے کہتے تھے، جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل میں ندامت لیے بیٹھیں گے اور ہم کفار کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے، کیا ان کو اس کے سوا کوئی بدلہ ملے گا جس کے یہ مرتکب ہوا کرتے تھے۔٭
٣٤۔ اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگریہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے: جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔٭
٣٥۔ اور کہتے تھے: ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں ہم پر عذاب نہیں ہو گا۔
٣٦۔ کہدیجئے: میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراوان اور تنگ کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٣٧۔ اور تمہارے اموال و اولاد ایسے نہیںجو تمہیں ہماری قربت میں درجہ دلائیں سوائے اس کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پس ان کے اعمال کا دگنا ثواب ہے اور وہ سکون کے ساتھ بالا خانوں میں ہوں گے.٭
٣٨۔ اور جو لوگ ہماری آیات کے بارے میں سعی کرتے ہیں کہ (ہم کو) مغلوب کریں یہ لوگ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے۔
٣٩۔ کہدیجئے: میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فراوانی اور تنگی سے رزق دیتا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہ اور دیتا ہے اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔٭
٤٠۔ اور جس دن وہ ان سب لوگوںکو جمع کرے گا پھر فرشتوںسے پوچھے گا: کیا یہ لوگ تمہاری پرستش کرتے تھے؟٭
٤١۔ وہ کہیںگے: پا ک ہے تیری ذات، تو ہی ہمارا آقا ہے نہ کہ وہ، بلکہ وہ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہی کومانتی ہے۔
٤٢۔ لہٰذا آج تم میں سے کوئی ایک دوسرے کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا اور ظالموں سے ہم کہدیں گے: اب چکھو اس جہنم کا عذاب جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔
٤٣۔ اور جب ان پر ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے توکہتے ہیں: یہ شخص تو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روکنا چاہتا ہے اور کہتے ہیں: یہ (قرآن) تو محض ایک خود ساختہ جھوٹ ہے اور کفار (کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ ان) کے پاس جب بھی حق آیا تو کہنے لگے: بے شک ی تو ایک کھلا جادو ہے۔
٤٤۔ اور نہ تو ہم نے پہلے انہیں کتابیں دی تھیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ہی آپ سے پہلے ہم نے ان کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا بھیجا ہے۔٭
٤٥۔ اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کی تھی اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا یہ اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے مگر جب انہوں نے میرے رسولوں کی تکذیب کی تو (دیکھ لیا) میرا عذاب کتنا سخت تھا۔٭
٤٦۔ کہدیجئے: میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہو ایک ایک اور دو دو کر کے پھر سوچو کہ تمہارے ساتھی میں جنون کی کوئی بات نہیں ہے، وہ تو تمہیں ایک شدید عذاب سے پہلے خبردار کرنے والا ہے۔٭
٤٧۔کہدیجئے: جو اجر (رسالت) میں نے تم سے مانگا ہے وہ خود تمہارے ہی لیے ہے، میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اوروہ ہر چیز پر گواہ ہے.٭
٤٨۔ کہدیجئے: میرا رب یقینا حق نازل فرماتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔
٤٩۔ کہدیجئے: حق آگیا اور باطل نہ تو پہلی بار ایجاد کر سکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ پلٹا سکتا ہے۔٭
٥٠۔ کہدیجئے: اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو اس گمراہی کا نقصان خود مجھے ہی ہے اور اگر میں ہدایت یافتہ ہوں تو یہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرے رب کی طرف سے مجھ پر ہوتی ہے، اللہ یقینا بڑا سننے والا قریب ہے۔
٥١۔ اور کاش! آپ دیکھ لیتے کہ جب یہ پریشان حال ہوں گے تو بچ نہ سکیں گے اور نزدیک ہی سے پکڑ لیے جائیں گے۔
٥٢۔ (اب) وہ کہیں گے: ہم اس ایمان پر ایمان لے آئے لیکن اب وہ اتنی دور نکلی ہوئی چیز کو کہاں پا سکیں گے؟
٥٣۔ اور اس سے پہلے بھی وہ کفر کر چکے تھے اور انہوں نے بن دیکھے دور ہی دور سے (گمان کے) تیر چلائے تھے۔
٥٤۔ اور اب ان کے اور ان کی مطلوبہ اشیاء کے درمیان پردے حائل کر دیے گئے ہیں جیساکہ پہلے بھی ان کے ہم خیال لوگوں کے ساتھ (یہی) کیا گیا تھا، یقینا وہ شبہ انگیز شک میںمبتلا تھے۔
 

صرف علی

محفلین
٣٥ سورۃ فا طر ۔ مکی ۔آیات ٤٥​
بنام خدائے رحمن ورحیم
١۔ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا ایجاد کرنے والا نیز فرشتوں کو پیام رساں بنانے والا ہے جن کے دو دو، تین تین اور چار چار پر ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے مخلوقات میں اضافہ فرماتا ہے، یقینا اللہ ہر چیز پرقادر ہے۔٭
٢۔ لوگوں کے لیے جو رحمت (کا دروازہ) اللہ کھولے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد کوئی کھولنے والا نہیں اور وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
٣۔ اے لوگو! اللہ کے تم پر جو احسانات ہیں انہیں یاد کرو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو آسمان اور زمین سے تمہیں رزق دے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے پھرے جا رہے ہو؟٭
٤۔ اور اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو آپ سے پہلے بھی رسولوں کی تکذیب ہوئی ہے اور تمام امور کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔٭
٥۔ اے لوگو! اللہ کا وعدہ یقینا سچا ہے لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ ہی وہ دغاباز (شیطان) اللہ کے بارے میں تمہیں فریب دینے پائے ۔٭
٦۔ شیطان یقینا تمہارا دشمن ہے پس تم اسے دشمن سمجھو، بے شک وہ اپنے گروہ کو صرف اس لےے دعوت دیتا ہے تاکہ وہ لوگ اہل جہنم میںشامل ہوجائیں ۔٭
٧۔ جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے شدید عذاب ہے اور جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔
٨۔ بھلا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگا ہو (ہدایت یافتہ شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟) بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے لہٰذا ان لوگوں پر افسوس میں آپ کی جان نہ چلی جائے، یہ جو کچھ کر رہے ہیں یقینا اللہ کو اس کا خوب علم ہے۔٭
٩۔اور اللہ ہی ہواؤںکو بھیجتا ہے تو وہ بادل کو اٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اجاڑ شہر کی طرف لے جاتے ہیں پھر ہم اس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیتے ہیں، اسی طرح (قیامت کو) اٹھنا ہو گا.٭
١٠۔ جو شخص عزت کا خواہاں ہے تو (وہ جان لے کہ) عزت ساری اللہ کے لیے ہے ، پاکیزہ کلمات اسی کی طرف اوپر چلے جاتے ہیں اور نیک عمل اسے بلند کر دیتا ہے اور جو لوگ بری مکاریاں کرتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ایسے لوگوں کا مکر نابود ہو جائے گا۔٭
١١۔ اور اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑا بنا دیا اور کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچہ جنتی ہے مگر اللہ کے علم کے ساتھ اور نہ کسی زیادہ عمر والے کو عمر دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی عمر میں کمی کی جاتی ہے مگریہ کہ کتاب میں (ثبت) ہے، یقینا یہ سب کچھ اللہ کے لیے آسان ہے۔٭
١٢۔ اور دو سمندر برابر نہیں ہوتے: ایک شیریں، پیاس بجھانے والا، پینے میں خوشگوار اور دوسرا کھارا کڑوا اور ہر ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیورات نکال کر پہنتے ہو اور تم ان کشتیوں کو دیکھتے ہو جو پانی کو چیرتی چلی جاتی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور شاید تم شکرگزار بن جاؤ.٭
١٣۔ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ہے، ان میںسے ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا رہے گا، یہی اللہ تمہارا رب ہے، سلطنت اسی کی ہے اور اس کے علاوہ جنہیں تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے( کے برابرکسی چیز) کے مالک نہیں ہیں۔
١٤۔ اگرتم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سن نہیں سکتے اور اگر سن بھی لیں تو تمہیں جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے دن وہ تمہارے اس شرک کا انکار کریں گے اور (خدائے) باخبر کی طرح تجھے کوئی خبر نہیں دے سکتا۔٭
١٥۔ اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔٭
١٦۔ اگر وہ چاہے تو تمہیں نابود کر دے اور نئی خلقت لے آئے۔٭
١٧۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لیے مشکل تو نہیں۔
١٨۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اگر کوئی (گناہوں کے) بھاری بوجھ والا اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے کسی کو پکارے گا تو اس سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا خواہ وہ قرابتدار ہی کیوں نہ ہو، آپ تو صرف انہیں ڈرا سکتے ہیںجو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاکیزگی اختیار کرتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے ہی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے.٭
١٩۔ اور نابینا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے،
٢٠۔ اور نہ ہی اندھیرا اور نہ روشنی،
٢١۔ اور نہ سایہ اور نہ دھوپ،
٢٢۔ اور نہ ہی زندے اور نہ ہی مردے یکساں ہوسکتے ہیں، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے۔٭
٢٣۔ آپ تو صرف تنبیہ کرنے والے ہیں۔
٢٤۔ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت ایسی نہیںگزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔٭
٢٥۔ اور اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو ان سے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی ہے، ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔
٢٦۔ پھر جنہوں نے کفر کیا میں نے انہیں گرفت میں لے لیا پھر (دیکھا) میرا عذاب کیسا سخت تھا؟
٢٧۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس سے مختلف رنگوں کے پھل نکالے؟ اور پہاڑوں میں مختلف رنگوں کی سفید سرخ گھاٹیاں پائی جاتی ہیں اور کچھ گہری سیاہ ہیں۔
٢٨۔ اور اسی طرح انسانوںاور جانوروں اور مویشیوں میں بھی رنگ پائے جاتے ہیں، اللہ کے بندوں میں سے صرف اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، معاف کرنے والا ہے.٭
٢٩۔ بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم ے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اورعلانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے ساتھ امید لگائے ہوئے ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہو گا۔٭
٣٠۔ تاکہ اللہ ان کا پورا اجر انہیں دے بلکہ اپنے فضل سے مزید بھی عطا فرمائے، یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، قدردان ہے۔
٣١۔ اور ہم نے جو کتاب آپ کی طرف وحی کی ہے وہی برحق ہے، یہ ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی ہیں، یقینا اللہ اپنے بندوں سے خوب باخبر، ان پر نظر رکھنے والا ہے۔
٣٢۔ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث انہیں بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ہے پس ان میں سے کچھ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں اور کچھ اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں یہی تو بڑا فضل ہے٭
٣٣۔ وہ دائمی جنتیں ہیںجن میں یہ داخل ہوں گے، وہاں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہو گا۔
٣٤۔ اور وہ کہیں گے: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہم سے غم کو دور کیا، یقینا ہمارا رب بڑا معاف کرنے والا قدردان ہے۔٭
٣٥۔ جس نے اپنے فضل سے ہمیں دائمی اقامت کی جگہ میں ٹھہرایا جہاں ہمیں نہ کوئی مشقت اور نہ تھکاوٹ لاحق ہو گی.٭
٣٦۔ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے جہنم کی آتش ہے، نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ مر جائیں اور نہ ہی ان کے عذاب جہنم میں تخفیف کی جائے گی، ہر کفر کرنے والے کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں.٭
٣٧۔ اور وہ جہنم میں چلا کر کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس جگہ سے نکال، ہم نیک عمل کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو ہم (پہلے) کرتے رہے ہیں، (جواب ملے گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کر سکتا تھا؟ جب کہ تمہارے پا س تنبیہ کرنے والا بھی آیا تھا، اب ذائقہ چکھو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔٭
٣٨۔ یقینا اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے اور وہ ان باتوں کو بھی خوب جانتا ہے جو سینوں میں (مخفی) ہیں.۔
٣٩۔ اسی نے تمہیں زمین میں جانشین بنایا، پس جو کفر کرتا ہے اس کے کفر کا نقصان اسی کو ہے اور کفار کے لیے ان کا کفر ان کے رب کے نزدیک صرف غضب میں اضافہ کرتا ہے اور کفار کے لیے ان کا کفر صرف ان کے خسارے میں اضافے کا موجب بنتا ہے۔٭
٤٠۔ کہدیجئے: یہ تو بتاؤ ان شریکوں کے بارے میں جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ مجھے دکھلاؤ! انہوںنے زمین سے کیا پیدا کیا؟ یا کیا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے؟ یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے س کی بنا پر یہ کوئی دلیل رکھتے ہوں؟ (نہیں) بلکہ یہ ظالم لوگ ایک دوسرے کو محض فریب کی خاطر وعدے دیتے ہیں.٭
٤١۔ اللہ آسمانوں اور زمین کو یقینا تھامے رکھتا ہے کہ یہ اپنی جگہ چھوڑ نہ جائیں، اگر یہ اپنی جگہ چھوڑ جائیں تو اللہ کے بعد انہیں کوئی تھامنے والا نہیںہے، یقینا اللہ بڑا بردبار، بخشنے والا ہے۔٭
٤٢۔ اور یہ لوگ اللہ کی پکی قسمیں کھا کر کہتے ہیںکہ اگر ان کے پاس کوئی تنبیہ کرنے والاآتا تو وہ ہر قوم سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہو جاتے، لیکن جب ایک متنبہ کرنے والا ان کے پاس آیا تو ان کی نفرت میں صرف اضافہ ہی ہوا۔٭
٤٣۔ یہ زمین میں تکبر اور بری چالوں کا نتیجہ ہے، حالانکہ بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے، تو کیا یہ لوگ اس دستور (الہی) کے منتظر ہیں جو پچھلی قوموں کے ساتھ رہا؟ لہٰذا آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور میں کوئی انحراف پائیں گے۔٭
٤٤۔ کیا یہ لوگ زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جوان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ جب کہ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے، اللہ کو آسمانوں اور زمین میں کوئی شے عاجز نہیں کر سکتی، وہ یقینا بڑا علم رکھنے والا، بڑی قدرت رکھنے والا ہے۔
٤٥۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ان کی حرکات کی پاداش میں اپنی گرفت لے لیتا تو وہ روئے زمین پر کسی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے چنانچہ جب ان کا مقررہ وقت آ جائے گا تو اللہ اپنے بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔٭
 

صرف علی

محفلین
٣٦ سورہ یٰسۤ ۔ مکی ۔ آیات ٨٣​
بنام خدائے رحمن ورحیم
١۔ یا، سین ۔
٢۔ قسم ہے قرآن حکیم کی٭
٣۔کہ آپ یقینا رسولوں میں سے ہیں،
٤۔ راہ راست پر ہیں۔
٥۔ (یہ قرآن) غالب آنے والے مہربان کا نازل کردہ ہے،
٦۔تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی تھی لہٰذا وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔٭
٧۔بتحقیق ان میں سے اکثر پر اللہ کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے پس اب وہ ایمان نہیںلائیں گے۔٭
٨۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک (پھنسے ہوئے) ہیں اسی لیے ان کے سر اوپر کی طرف الٹے ہوئے ہیں۔
٩۔ اورہم نے ان کے آگے دیوار کھڑی کی ہے اور ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کی ہے اور ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے لہٰذا وہ کچھ دیکھ نہیں پاتے ۔
١٠۔ اور ان کے لیے یکساں ہے کہ آپ انہیں تنبیہ کریں یا نہ کریں وہ (ہر حالت میں) ایمان نہیں لائیںگے۔٭
١١۔ آپ تو صرف اسے تنبیہ کر سکتے ہیں جو اس ذکر کی اتباع کرے اور رحمن کا بن دیکھے خوف رکھے، ایسے شخص کو مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دیں۔
١٢۔ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں سب کو ہم لکھتے ہیں اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔٭
١٣۔ اور ان کے لیے بستی والوں کو مثال کے طور پر پیش کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے.٭
١٤۔ جب ہم نے ان کی طرف دو پیغمبر بھیجے تو انہوں نے دونوں کی تکذیب کی پھر ہم نے تیسرے سے (انہیں) تقویت بخشی تو انہوں نے کہا: ہم تو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔٭
١٥۔ بستی والوں نے کہا: تم تو صرف ہم جیسے بشر ہو اور خدائے رحمن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ہے، تم تو محض جھوٹ بولتے ہو۔
١٦۔ رسولوںنے کہا: ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف ہی بھیجے گئے ہیں۔
١٧۔ اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔
١٨۔ بستی والوں نے کہا: ہم تمہیں اپنے لیے برا شگون سمجھتے ہیں، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک عذاب ضرور پہنچے گا۔
١٩۔ رسولوں نے کہا: تمہاری بدشگونی خود تمہارے ساتھ ہے، کیا یہ(بدشگونی) اس لیے ہے کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے؟ بلکہ تم حد سے تجاوز کرنے والے ہو۔٭
٢٠۔ شہر کے دور ترین گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، بولا: اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔٭
٢١۔ ان کی اتباع کرو جو تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے اور وہ راہ راست پر ہیں۔


پارہ : وَمَالِیَ ٢٣​

٢٢۔ اور میں کیوں نہ اس ذات کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے۔
٢٣۔ کیا میں اس ذات کے علاوہ کسی کو معبود بناؤں؟ جب کہ اگر خدائے رحمن مجھے ضرر پہنچانے کا ارادہ کر لے تو ان کی شفاعت مجھے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی اور نہ وہ مجھے چھڑا سکتے ہیں۔
٢٤۔ تب تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔
٢٥۔ میں تو تمہارے پروردگار پر ایما ن لے آیا ہوں لہٰذا میری بات سن لو۔
٢٦۔ اس سے کہدیاگیا: جنت میں داخل ہو جاؤ، اس نے کہا: کاش! میری قوم کو اس بات کا علم ہو جاتا،٭
٢٧۔ کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا ہے۔٭
٢٨۔ اور اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا اور نہ ہم کوئی لشکر اتارنے والے تھے۔
٢٩۔ وہ تو محض ایک ہی چیخ تھی پس وہ یکایک بجھ کر رہ گئے۔
٣٠۔ ہائے افسوس! ان بندوں پر جن کے پاس جو بھی رسول آیا اس کے ساتھ انہوں نے تمسخر کیا۔
٣١۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا؟ اب وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
٣٢۔ اور ان سب کو ہمارے روبرو حاضر کیا جائے گا۔
٣٣۔ اور مردہ زمین ان کے لیے ایک نشانی ہے جسے ہم نے زندہ کیا اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں۔
٣٤۔ اور ہم نے اس (زمین) میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ بنائے اور ہم نے اس (زمین) میں کچھ چشمے جاری کیے۔
٣٥۔ تاکہ وہ اس کے پھلوں سے اور اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائیں، تو کیا یہ شکر نہیں کرتے؟٭
٣٦۔ پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑے بنائے ان چیزوں سے جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود ان سے اور ان چیزوں سے جنہیں یہ جانتے ہی نہیں۔٭
٣٧۔ اور رات بھی ان کے لیے ایک نشانی ہے جس سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔٭
٣٨۔ اور سورج اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ بڑے غالب آنے والے دانا کی تقدیر ہے۔٭
٣٩۔ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح لوٹ جاتا ہے۔٭
٤٠۔ نہ سورج کے لیے سزاوار ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن پرسبقت لے سکتی ہے اور وہ سب ایک ایک مدار میں تیر رہے ہیں۔٭
٤١۔ اور یہ بھی ان کے لیے ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔٭
٤٢۔ اور ہم نے ان کے لیے اس (کشتی) جیسی اور (سواریاں) بنائیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔٭
٤٣۔اور اگر ہم چاہیں تو انہیںغرق کر دیں پھر ان کے لیے نہ کوئی فریاد رس ہو گا اور نہ ہی وہ بچائے جائیں گے۔
٤٤۔ مگر ہماری طرف سے رحمت ہے اور (جس سے) انہیں ایک وقت تک متاع (حیات) مل جاتی ہے ۔
٤٥۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس (گناہ) سے بچو جو تمہارے سامنے ہے اور اس (عذاب) سے جو تمہارے پیچھے آنے والا ہے شاید تم پر رحم کیا جائے۔٭
٤٦۔ اور ان کے رب کی نشانیوں میں سے جو بھی نشانی ان کے پاس آتی ہے وہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
٤٧۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو رزق تمہیں اللہ نے عنایت کیا ہے اس سے کچھ (راہ خدا میں) خرچ کرو تو کفار مومنین سے کہتے ہیں: کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم تو بس صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔٭
٤٨۔ اور وہ کہتے ہیں: اگر تم سچے ہو (تو بتاؤ) یہ وعدہ (قیامت) کب (پورا) ہو گا؟
٤٩۔ (درحقیقت) یہ ایک ایسی چیخ کے منتظر ہیں جو انہیں اس حالت میں گرفت میں لے گی جب یہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے۔٭
٥٠۔ پھر نہ تو وہ وصیت کر پائیںگے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی طرف واپس جا سکیں گے
٥١۔ اور جب صور پھونکا جائے گا تو وہ اپنی قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے۔٭
٥٢۔ کہیں گے: ہائے ہماری تباہی! ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا؟ یہ وہی بات ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔٭
٥٣۔ وہ تو صرف ایک چیخ ہو گی پھر سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کیے جائیں گے.
٥٤۔ اس روز کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں بس وہی بدلہ دیاجائے گا جیسا تم عمل کرتے رہے ہو۔
٥٥۔ آج اہل جنت یقینا کیف و سرور کے ساتھ مشغلے میں ہوں گے۔
٥٦۔ وہ اور ان کی ازواج سایوں میں مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔
٥٧۔ وہاں ان کے لیے میوے اور ان کی مطلوبہ چیزیں موجود ہوں گی۔
٥٨۔ مہربان رب کی طرف سے سلام کہا جائے گا۔٭
٥٩۔ اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ۔٭
٦٠۔ اے اولاد آدم! کیا ہم نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پرستش نہ کرنا؟بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔٭
٦١۔ اور یہ کہ میری بندگی کرنا، یہی سیدھا راستہ ہے۔
٦٢۔ اور بتحقیق اس نے تم میں سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا ہے، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
٦٣۔ یہ وہی جہنم ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔
٦٤۔ آج اس جہنم میں جھلس جاؤ اس کفر کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے۔
٦٥۔ آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس کے بارے میں جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔٭
٦٦۔ اور اگر ہم چاہیں توان کی آنکھوں کو مٹا دیں پھر یہ راستے کی طرف لپک بھی جائیں تو کہاں سے راستہ دیکھ سکیںگے؟
٦٧۔ اور اگر ہم چاہیں تو انہیں ان ہی کی جگہ پر اس طرح مسخ کر دیں کہ نہ آگے جانے کی استطاعت ہو گی اور نہ پیچھے پلٹ سکیں گے۔
٦٨۔اور جسے ہم لمبی زندگی دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کر دیتے ہیں، کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے؟٭
٦٩۔ اور ہم نے اس (رسول) کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اس کے لیے شایان شان ہے، یہ تو بس ایک نصیحت(کی کتاب) اور روشن قرآن ہے،٭
٧٠۔ تاکہ جو زندہ ہیں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں کے خلاف حتمی فیصلہ ہوجائے.٭
٧١۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے چنانچہ اب یہ ان کے مالک ہیں؟٭
٧٢۔ اور ہم نے انہیں ان کے لیے مسخر کر دیا چنانچہ کچھ پر یہ سوار ہوتے ہیں اور کچھ کو کھاتے ہیں۔
٧٣۔ اور ان میں ان کے لیے دیگر فوائد اور مشروبات ہیں تو کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے؟
٧٤۔ اور انہوں نے اللہ کے سوا اوروں کو معبود بنا لیا ہے کہ شاید انہیں مدد مل سکے۔
٧٥۔ (حالانکہ) وہ (نہ صرف) ان کی مدد نہیں کر سکتے اور وہ الٹے ان معبودوں کے (تحفظ کے) لیے آمادہ لشکر ہیں۔٭
٧٦۔ لہٰذا ان کی باتیں آپ کو رنجیدہ نہ کریں، ہم سب باتیںجانتے ہیں جو یہ چھپاتے ہیں اورجو ظاہر کرتے ہیں۔
٧٧۔ کیا انسان یہ نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے اتنے میں وہ کھلا جھگڑالو بن گیا؟٭
٧٨۔ پھر وہ ہمارے لیے مثالیں دینے لگتا ہے اور اپنی خلقت بھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے: ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟
٧٩۔ کہدیجئے: انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہرقسم کی تخلیق کو خوب جانتا ہے۔٭
٨٠۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس سے آگ سلگاتے ہو۔٭
٨١۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، آیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرے؟ کیوں نہیں! وہ تو بڑا خالق ، دانا ہے۔
٨٢۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔٭
٨٣۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی سلطنت ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔٭
 
Top