ترجمہ قرآن مجید ،مترجم : شیخ محسن علی نجفی

صرف علی

محفلین
سورہ فاتحہ ۔ مکی ۔ آیات ٧​
بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِْيمِ
١۔ بنام خدائے رحمن و رحیم۔
الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَO
٢۔ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا پروردگار ہے۔٭
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO
٣۔ جورحمن و رحیم ہے۔ ٭
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِO
٤۔ روز جزاء کامالک ہے۔ ٭
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُO
٥۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔٭
اھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَO
٦۔ ہمیںسیدھے راستے کی ہدایت فرما۔ ٭
صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْھمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْھِمْ وَلا الضَّالِّينَO
٧۔ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام فرمایا، جن پر نہ غضب کیا گیا نہ ہی (وہ) گمراہ ہونے والے ہیں۔٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہ فاتحہ

اس سورہ کو فاتحۃ الکتاب (کتاب کا افتتاحیہ) کہا جاتاہے اور یہ بات مسلّم ہے کہ سورتوں کے نام توقیفی ہیں۔ یعنی ان کے نام خود رسول کریم(ص)نے بحکم خدا متعین فرمائے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن عہد رسالت میں ہی مدون ہو چکا تھا جس کا افتتاحیہ ''سورہ فاتحہ'' ہے۔
ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے کہ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِْيمِ سورئہ برائت کے علاوہ قرآن کے ہر سورے کا جزو ہے۔ عہد رسالت سے مسلمانوں کی یہ سیرت رہی ہے کہ وہ سورہ برائت کے علاوہ ہر سورے کی ابتدا میں بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِْيمِ کی تلاوت کرتے تھے۔ تمام اصحاب و تابعین کے مصاحف میں بھی بسم اللّہ درج تھی،جب کہ تابعین، قرآن میں نقطے درج کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کا بِسْمِ اللَّہِ میں یکجا ذکر کرنے سے اللہ کے مقام رحمت کی تعبیر میں جامعیت آ جاتی ہے کہ الرَّحْمٰنِ سے رحمت کی عمومیت اور وسعت: وَرَحمَتِی وَسِعَت کُلَّ شَیءِِ ۔(٧: ١٥٦) '' میری رحمت ہر چیزکو شامل ہے'' اور الرَّحِْيمِ سے رحم کا لازمہ ذات ہونا مراد ہے: کَتَبَ رَبُّکُم عَلٰی نَفسِہِ الرَّحمَۃَ (٦:٥٤) ''تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے ''۔ لہٰذا اس تعبیر میں عموم رحمت اور لزوم رحمت دونوں شامل ہیں۔
٢۔ یہاں الرَّحْمٰنِ و الرَّحِْيمِ کی تکرار نہیں ہو رہی بلکہ بِسْمِ اللَّہِ... میں اس کا ذکر مقام الوہیت میں ہوا تھا، جب کہ یہاں مقام ربوبیت میں الرَّحْمٰنِ و الرَّحِْيمِ کا تذکرہ ہو رہا ہے۔
٣۔ دنیا میں بھی وہی مالک ہے۔ تاہم دنیا چونکہ دار العمل ہے، اس لیے بندے کو کچھ اختیارات دیے گئے ہیں۔ لیکن روز قیامت نتیجہ عمل کا دن ہے۔ اس دن صرف اللّٰہ کی حاکمیت ہو گی۔
٤۔ کسی ذات کی تعظیم و تکریم اور اس کی پرستش کے چار عوامل ہو سکتے ہیں: i۔کمال ، ii۔احسان، iii۔ احتیاج اور iv۔ خوف۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں یہ چاروں عوامل موجود ہیں۔ لہٰذا ہر اعتبار سے عبادت صرف اسی کی ہو سکتی ہے۔ مومن جب قوت کے اصل سرچشمے سے وابستہ ہو جائے تو دیگر تمام طاقتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے: لہ مقالیدالسموت و الارض۔ (٤٢ : ١٢) آسمانوں اور زمین کی کنجیاں صرف اس کے اختیار میں ہیں۔
٥۔ غیر اللہ سے استمداد (مدد مانگنے) کا مطلب یہ ہو گا کہ سلسلہ استمداد اللہ تعالیٰ پر منتہی نہ ہوتا ہو اور اس غیر اللہ کو اذن خدا بھی حاصل نہ ہو۔ لیکن اگر وہ غیر ماذون من اللّٰہ ہو اور یہ استمداد اللہ کے مقابلے میں نہیں، بلکہ اس کی مدد کے ذیل میں آتی ہو تو شرک نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نقمواالاان اغنھم اللہ و رسولہ من فضلہ۔ (٩: ٧٤) انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے۔
٦۔ اس کائنات کے عظیم مقاصد کے حامل انسان کو ہر قدم پر ہدایت کی ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ انسان سراپا احتیاج ہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے مبداء فیض سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ ہدایت ایسی چیز نہیں کہ اللہ کی طرف سے ایک بار مل جانے سے بندہ بے نیاز ہو جائے، بلکہ وہ ہر آن ہر لمحہ ہدایت الہی کا محتاج رہتا ہے۔ لہذا اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ہدایت کی طلب اور خواہش سے یہ گمان ہوتا ہے کہ بندہ ابھی ہدایت یافتہ نہیں ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

صرف علی

محفلین
سورہ بقرہ ۔ مدنی۔ آیات ٢٨٦
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ الف لام میم۔ ٭
٢۔ یہ کتاب، جس میں کوئی شبہ نہیں، ہدایت ہے تقویٰ والوں کے لیے۔ ٭
٣۔ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ٭
٤۔ اور جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا نیز جو آپ سے پہلے نازل کیاگیا ہے، ان پر ایمان اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں.٭
٥۔یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر (قائم) ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔ ٭
٦۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لیے یکساں ہے کہ آپ انہیں متنبہ کریں یا نہ کریں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ٭
٧۔اللہ نے ان کے دلوں اور ان کی سماعت پر مہر لگا دی ہے نیز ان کی نگاہوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ ٭
٨۔ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیںہم اللہ اور روز آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ٭
٩۔ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، جبکہ (حقیقت میں) وہ صرف اپنی ذات کو ہی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں لیکن وہ اس بات کاشعورنہیں رکھتے ۔
١٠۔ ان کے دلوںمیں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھا دی اور ان کے لیے دردناک عذاب اس وجہ سے ہے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔
١١۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میںفساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں: ہم تو بس اصلاح کرنے والے ہیں۔
١٢۔ یاد رہے! فسادی تو یہی لوگ ہیں، لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔
١٣۔ اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ دیگر لوگوں کی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو وہ کہتے ہیں: کیا ہم (بھی ان) بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ یاد رہے! بیوقوف تو خود یہی لوگ ہیں لیکن یہ اس کا (بھی) علم نہیں رکھتے۔
١٤۔اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تخلیے میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، (ان مسلمانوں کا تو) ہم صرف مذاق اڑاتے ہیں۔
١٥۔اللہ بھی ان کے ساتھ تمسخر کرتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ یہ اپنی سرکشی میں سرگرداں رہیں گے۔٭
١٦۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی خرید لی ہے، چنانچہ نہ تو ان کی تجارت سودمند رہی اور نہ ہی انہیں ہدایت حاصل ہوئی ۔ ٭
١٧۔ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے(تلاش راہ کے لیے) آگ جلائی، پھر جب اس آگ نے گرد و پیش کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کرلی اور انہیں اندھیروں میں (سرگرداں) چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیںدیتا۔٭
١٨۔وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں پس وہ (اس ضلالت سے) باز نہیں آئیں گے۔
١٩۔ یا جیسے آسمان سے بارش ہو رہی ہو جس میں تاریکیاں اور گرج و چمک ہو، بجلی کی کڑک کی وجہ سے موت سے خائف ہو کر وہ اپنی انگلیاں کانوں میں دے لیتے ہیں، حالانکہ اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ ٭
٢٠۔ قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں سلب کر لے، جب وہ ان کے لیے چمک دکھاتی ہے تو وہ اس کی روشنی میں چل پڑتے ہیں اور جب تاریکی ان پر چھا جاتی ہے تو وہ رک جاتے ہیں اور اللہ اگر چاہتا تو ان کی سماعت اور بینائی (کی طاقت) سلب کر لیتا، بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادرہے۔٭
٢١۔ اے لوگو!اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (خطرات سے) بچاؤ کرو۔ ٭
٢٢۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہاری غذا کے لیے پھل پیدا کیے ، پس تم جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو اللہ کا مدمقابل نہ بناؤ۔ ٭
٢٣۔ اور اگر تم لوگوں کو اس(کتاب)کے بارے میں شبہ ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسا کوئی سورہ بنا لاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے حامیوں کو بھی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔٭
٢٤۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا اور ہرگز تم ایسا نہ کر سکو گے تو اس آتش سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (یہ آگ) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔
٢٥۔اور ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال انجام دیے کہ ان کے لیے(بہشت کے) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اس میں سے جب بھی کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیںگے: یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے بھی مل چکا ہے، حالانکہ انہیں ملتا جلتا دیا گیا ہے اور ان کے لیے جنت میںپاک بیویاں ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیںگے۔٭
٢٦۔اللہ کسی مثال کے پیش کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو یا اس سے بھی بڑھ کر (چھوٹی چیز کی)، پس جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ جانتے ہیںکہ یہ (مثال) ان کے پروردگار کی جانب سے برحق ہے، لیکن کفر اختیار کرنے والے کہتے رہیں گے کہ اس مثال سے اللہ کا کیا مقصد ہے، اللہ اس سے بہت سوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت کرتا ہے اور وہ اس ے ذریعے صرف بداعمال لوگوں کو گمراہی میں ڈالتا ہے۔ ٭
٢٧۔ جو (فاسقین) اللہ کے ساتھ محکم عہد باندھنے کے بعد اسے توڑ دیتے ہیں اور اللہ نے جس (رشتے) کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے اسے قطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
٢٨۔اللہ کے بارے میں تم کس طرح کفر اختیار کرتے ہو؟ حالانکہ تم بے جان تھے تو اللہ نے تمہیں حیات دی، پھر وہی تمہیں موت دے گا، پھر(آخرکار) وہی تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ ٭
٢٩۔ وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پید ا کیا ، پھر آسمان کا رخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔٭
٣٠۔ اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فسادپھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا؟جب کہ ہم تیری ثنا کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: (اسرار خلقت بشر کے بارے میں) میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.٭
٣١۔ اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا : اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔
٣٢۔ فرشتوں نے کہا: تو پاک و منزہ ہے جو کچھ تو نے ہمیںبتا دیا ہے ہم اس کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ یقینا تو ہی بہتر جاننے والا ، حکمت والا ہے۔٭
٣٣۔ (اللہ نے) فرمایا: اے آدم! ان (فرشتوں) کو ان کے نام بتلا دو، پس جب آدم نے انہیں ان کے نام بتا دیے تو اللہ نے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیںخوب جانتا ہوں نیز جس چیز کا تم اظہار کرتے ہو اور جو کچھ تم پوشیدہ رکھتے ہو، وہ سب جانتا ہوں۔ ٭
٣٤۔ اور (اس وقت کو یاد کرو)جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔ ٭
٣٥۔ اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری زوجہ جنت میں قیام کرو اور اس میں جہاں سے چاہو فراوانی سے کھاؤ اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم دونوں زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ ٭
٣٦۔پس شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا، پھر جس (نعمت) میں وہ دونوں قیام پذیر تھے اس سے ان دونوں کو نکلوا دیا اور ہم نے کہا: (اب) تم ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور ایک مدت تک زمین میں تمہارا قیام اور سامان زیست ہو گا۔٭
٣٧۔ پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔ ٭
٣٨۔ ہم نے کہا: تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔٭
٣٩۔ اور جو لوگ کفر کریں اور ہماری آیات کو جھٹلائیں وہی دوزخ والے ہوں گے، وہ اس میںہمیشہ رہیں گے۔ ٭
٤٠۔ اے بنی اسرائیل ! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا ہے اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور تم لوگ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔
٤١۔اور میری نازل کردہ (اس کتاب) پر ایمان لاؤ جو تمہار ے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور سب سے پہلے تم ہی اس کے منکرمت بنو اور میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو اور صرف میرے (غضب) سے بچنے کی فکر کرو۔ ٭
٤٢۔ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔
٤٣۔اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور ۔(اللہ کے سامنے۔) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو ۔
٤٤۔ کیا تم (دوسرے) لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب (اللہ) کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟٭
٤٥۔اور صبر اور نماز کا سہارا لو اور یہ (نماز) بارگراں ہے، مگر خشوع رکھنے والوں پر نہیں۔ ٭
٤٦۔ جنہیں اس بات کا خیال رہتا ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔
٤٧۔ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیںنوازا اور تمہیں عالمین پر فضیلت دی۔
٤٨۔ اور اس دن سے بچنے کی فکر کرو جس دن نہ کوئی کسی کا بدلہ بن سکے گا اور نہ کسی کی سفارش قبو ل ہو گی اور نہ کسی سے کوئی معاوضہ لیاجائے گا اور نہ ان کی مددکی جائے گی۔
٤٩۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی، جو تمہیں بری طرح اذیت دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑا امتحان تھا۔
٥٠۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو ) جب ہم نے تمہارے لیے دریاکو شق کیاپھر تمہیں نجات دی اور تمہاری نگاہوں کے سامنے فرعونیوں کو غرق کر دیا۔ ٭
٥١۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو ) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا پھر اس کے بعد تم نے گوسالہ کو (بغرض پرستش) اختیار کیا اور تم ظالم بن گئے ۔٭
٥٢۔پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معاف کر دیا کہ شاید تم شکرگزار بن جاؤ۔
٥٣۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو ) جب ہم نے موسیٰ کو(توریت) کتاب اور فرقان (حق و باطل میں امتیاز کرنے والا قانون) عطا کیا تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔
٥٤۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم! تم نے گوسالہ اختیار کر کے یقینا اپنے آپ پر ظلم کیا ہے پس اپنے خالق کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اپنے لوگوں کو قتل کرو، تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے حق میں یہی بہتر ہے پھر اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی، بے شک وہ خوب توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔
٥٥۔ اور (یاد کرو وہ وقت) جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم آپ پر ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک ہم خداکو علانیہ نہ دیکھ لیں، اس پر بجلی نے تمہیں گرفت میں لے لیا اور تم دیکھتے رہ گئے۔ ٭
٥٦۔ پھر تمہارے مرنے کے بعدہم نے تمہیں اٹھایا کہ شاید تم شکرگزار بن جاؤ۔
٥٧۔ اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا، ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں اور وہ ہم پر نہیں بلکہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔٭
٥٨۔اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا: اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور فراوانی کے ساتھ جہاں سے چاہو کھاؤ اور (شہر کے) دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور کہو: گناہوں کو بخش دے تو ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور ہم نیکوکاروں کو زیادہ ہی عطا کریںگے۔ ٭
٥٩۔ مگر ظالموں نے اس قول کو جس کا انہیں کہا گیا تھا دوسرے قول سے بدل دیا تو ہم نے ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا کیو نکہ وہ نافرمانی کرتے رہتے تھے ۔
٦٠۔ اور ( اس وقت کو یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے کہا: اپنا عصا پتھر پر ماریں۔ پس (پتھر پر عصا مارنے کے نتیجے میں) اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، ہر گروہ کواپنے گھاٹ کا علم ہو گیا، اللہ کے رزق سے کھاؤ اور پیو اور ملک میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔
٦١۔ اور ( وہ وقت یاد کرو) جب تم نے کہا تھا : اے موسیٰ! ہم ایک ہی قسم کے طعام پر ہر گز صبر نہیں کر سکتے، پس آپ اپنے رب سے کہدیجیے کہ ہمارے لیے زمین سے اگنے والی چیزیں فراہم کرے، جیسے ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز، (موسیٰ نے) کہا:کیا تم اعلیٰ کی جگہ ادنیٰ چیز لینا چاہتے ہو؟ ایسا ہے تو کسی شہر میں اتر جاؤ جو کچھ تم مانگتے ہو تمہیں مل جائے گا اور ان پر ذلت و محتاجی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں مبتلا ہو گئے، ایسا اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے اور یہ سب اس لیے ہوا کہ وہ نافرمانی اور حد سے تجاوز کیا کرتے تھے.٭
٦٢۔ بے شک جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔٭
٦٣۔اور ( وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر (کوہ) طور کو بلندکیا (اورتمہیں حکم دیا کہ) جو (کتاب) ہم نے تمہیں دی ہے اسے پوری قوت سے پکڑ رکھو اور جو کچھ اس میں موجود ہے اسے یاد رکھو (اس طرح) شاید تم بچ سکو۔ ٭
٦٤۔پھر اس کے بعد تم پلٹ گئے۔ اگر اللہ کا فضل اوراس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم گھاٹے میں ہوتے۔
٦٥۔اور تم اپنے ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جنہوں نے سبت (ہفتہ) کے بارے میں تجاوز کیا تھا توہم نے انہیں حکم دیا تھا: ذلیل بندر بن جاؤ۔ ٭
٦٦۔چنانچہ ہم نے اس (واقعے) کو اس زمانے کے اور بعد کے لوگوں کے لیے عبرت اور تقویٰ رکھنے والوں کے لیے نصیحت بنا دیا۔
٦٧۔اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : خدا تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے، وہ بولے: کیا آپ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں؟ (موسیٰ نے) کہا: پناہ بخدا! میں (تمہارا مذاق اڑاکر) جاہلوں میں شامل ہو جاؤں؟٭
٦٨۔وہ بولے:اپنے رب سے ہماری خاطر درخواست کیجیے کہ وہ ہمیں بتائے کہ گائے کیسی ہو، کہا: وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ بوڑھی ہو اور نہ بچھیا، (بلکہ) درمیانی عمر کی ہو، پس جس بات کا تمہیں حکم دیا گیا ہے، اب اسے بجا لاؤ۔٭
٦٩۔ کہنے لگے:اپنے رب سے ہمارے لیے درخواست کیجیے کہ وہ ہمیں بتا ئے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہو؟ کہا: وہ فرماتا ہے کہ اس گائے کا رنگ گہرا زرد اور دیکھنے والوں کے لیے فرحت بخش ہو۔٭
٧٠۔انہوں نے کہا: اپنے رب سے (پھر) درخواست کیجیے کہ وہ ہمیں بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ گائے ہم پر مشتبہ ہو گئی ہے اور اگر خدا نے چاہا تو ہم اسے ضرور ڈھونڈ لیں گے۔٭
٧١۔( موسیٰ نے ) کہا: اللہ فرماتا ہے کہ وہ گائے ایسی سدھائی ہوئی نہ ہو جو ہل چلائے اور کھیتی کو پانی دے (بلکہ) وہ سالم ہو، اس پر کسی قسم کا دھبہ نہ ہو،کہنے لگے:اب آپ نے ٹھیک نشاندہی کی ہے، پھر انہوں نے گائے کو ذبح کر دیا حالانکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں لگتے تھے۔ ٭
٧٢۔اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا،پھر ایک دوسرے پر اس کا الزام لگانے لگے، لیکن جوبات تم چھپا رہے تھے اللہ اسے ظاہر کر نے والا تھا۔٭
٧٣۔تو ہم نے کہا : گائے کا ایک حصہ اس (مقتول) کے جسم پرمارو، یوں اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔٭
٧٤۔ پھر اس کے بعد بھی تمہارے دل سخت رہے، پس وہ پتھر کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے، کیونکہ پتھروں میں سے کوئی تو ایسا ہوتا ہے جس سے نہریں پھوٹتی ہیں اور کوئی ایسا ہے کہ جس میں شگاف پڑجاتا ہے تو اس سے پانی بہ نکلتا ہے اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو ہیبت الہی سے نیچے گر پڑتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔٭
٧٥۔ کیا تم اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ (ان سب باتوںکے باوجود یہودی) تمہارے دین پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو اللہ کا کلام سنتا ہے، پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر اس میں تحریف کر دیتا ہے۔ ٭
٧٦۔ جب وہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لا چکے ہیںاور جب خلوت میں اپنے ساتھیوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: جو راز اللہ نے تمہارے لیے کھولے ہیں وہ تم ان (مسلمانوں) کو کیوں بتاتے ہو؟کیا تم نہیں سمجھتے کہ وہ (مسلمان)اس بات کو تمہارے رب کے حضور تمہارے خلاف دلیل بنائیں گے؟٭
٧٧۔کیا (یہود) نہیں جانتے کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے، خواہ وہ چھپائیں یا ظاہر کریں ؟٭
٧٨۔ان میں کچھ ایسے ناخواندہ لوگ ہیں جو کتاب (توریت) کو نہیں جانتے سوائے جھوٹی آرزوؤںکے اور بس وہ اپنے خیال خام میں رہتے ہیں۔٭
٧٩۔پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو (توریت کے نام سے) ایک کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے تاکہ اس کے ذریعے ایک ناچیز معاوضہ حاصل کریں، پس ہلاکت ہو ان پر اس چیز کی وجہ سے جسے ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ہلاکت ہو ان پر اس کمائی کی وجہ سے۔٭
٨٠۔ اور ( یہودی )کہتے ہیں: ہمیں تو جہنم کی آگ گنتی کے چند دنوںکے علاوہ چھو نہیں سکتی۔ (اے رسول)کہدیجیے:کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھاہے کہ اللہ اپنے عہد کے خلاف ہرگز نہیں کرے گا یا تم اللہ پر تہمت باندھ رہے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے ؟٭
٨١۔ البتہ جو کوئی بدی اختیار کرے اور اس کے گناہ اس پر حاوی ہو جائیں تو ایسے لوگ اہل دوزخ ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ٭
٨٢۔ اور جو ایمان لائیںاور اچھے اعمال بجا لائیں، یہ لوگ اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیںگے۔ ٭
٨٣۔ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا )کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (اپنے) والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموںاور مسکینوں پر احسان کرو اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر چند افراد کے سوا تم سب برگشتہ ہو ے اور تم لوگ روگردانی کرنے والے ہو۔٭
٨٤۔ اور (وہ وقت یاد کرو)جب ہم نے تم سے عہدلیا کہ اپنوں کاخون نہ بہاؤ گے اور اپنے ہی لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے، پھر تم نے اس کااقرار کر لیا جس کے تم خود گواہ ہو۔ ٭
٨٥۔ پھر تم ہی وہ لوگ ہو جو اپنے افراد کو قتل کرتے ہو اور اپنوں میںسے ایک گروہ کو ان کی بستیوںسے نکالتے ہو، پھر گناہ اور ظلم کر کے ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہو اور اگر وہ قید ہو کر تمہارے پاس آتے ہیں تو تم فدیہ دے کر انہیں چھڑا لیتے ہو، حالانکہ انہیں نکالنا ہی تمہارے لیے سرے سے حرام تھا، کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے سے کفر اختیار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو ایسا کرے دنیاوی زندگی میں اس کی سزا رسوائی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟ اور آخرت میں (ایسے لوگ) سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ ٭
٨٦۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوںنے آخرت کے بدلے میںدنیاوی زندگی خرید لی ہے پس ان کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔
٨٧۔اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے، اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو نمایاں نشانیاں عطا کیں اور روح القدس کے ذریعے ان کی تائید کی تو کیا جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات کے خلاف (احکام لے کر) آئے تو تم اکڑ گئے، پھر تم نے بعض کو جھٹلا دیا اور بعض کو تم لوگ قتل کرتے رہے؟٭
٨٨۔ اور وہ کہتے ہیں : ہمارے دل غلاف میںبند ہیں، (نہیں) بلکہ ان کے کفر کے باعث اللہ نے ان پر لعنت کر رکھی ہے، پس اب وہ کم ہی ایمان لائیں گے۔٭
٨٩۔ اور جب اللہ کی جانب سے وہ کتاب آئی جو ان کے پاس موجود باتوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور وہ پہلے کافروں پر فتح کی امید رکھتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہ آگیا جسے وہ خوب پہچانتے تھے تو وہ اس کے منکر ہو گئے، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔ ٭
٩٠۔کتنی بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کا سودا کیا کہ صرف اس بات کی ضد میں خدا کے نازل کیے کا انکار کرتے ہیںکہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس پرچاہتا ہے اپنا فضل نازل کرتا ہے، پس وہ اللہ کے غضب بالائے غضب میں گرفتار ہوئے اور کافروں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔٭
٩١۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو اللہ نے اتارا ہے اس پر ایمان لے آؤ تو جواب دیتے ہیں: ہم تو اس پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر نازل ہوا ہے، اس کے علاوہ وہ کسی چیز کو نہیں مانتے، حالانکہ وہ حق ہے اور جو کتاب ان کے پاس ہے اس کی تصدیق کرتا ہے، کہدیجیے: اگر تم مومن تھے تو اللہ کے پیغمبروں کو پہلے کیوں قتل کرتے رہے ہو؟٭
٩٢۔اور بتحقیق موسیٰ تمہارے پاس واضح دلائل لے کرآئے پھر تم نے اس کے بعد گوسالہ کو اختیار کیا اور تم لوگ ظالم ہو۔٭
٩٣۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا اور کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھایا تھا (اور حکم دیا تھا) جو چیز (توریت۔) ہم نے تمہیں دی ہے اسے مضبوطی سے پکڑو اور سنو، انہوں نے کہا: ہم نے سن تو لیا مگر مانا نہیں اور ان کے کفر کے باعث ان کے دلوں میں گوسالہ رچ بس گیا، کہدیجیے: اگرتم مومن ہو تو تمہارا ایمان تم سے بہت برے تقاضے کرتا ہے۔ ٭
٩٤۔ کہدیجیے: اگر اللہ کے نزدیک دار آخرت دوسروں کی بجائے خالصتاً تمہارے ہی لیے ہے اور تم ( اس بات میں ) سچے بھی ہو تو ذرا موت کی تمنا کرو۔٭
٩٥۔ اور وہ موت کے متمنی ہرگز نہ ہوں گے، ان گناہوں کی وجہ سے جو وہ اپنے ہاتھوں کر چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
٩٦۔ (اے رسول!) اور آپ ان لوگوں کو زندگی کا سب سے زیادہ حریص پائیں گے، حتیٰ کہ مشرکین سے بھی زیادہ، ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش اسے ہزار سال عمر ملے، حالانکہ اگر اسے یہ عمر مل بھی جائے تویہ بات اس کے عذاب کو ہٹا نہیں سکتی اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب دیکھتا ہے۔
٩٧۔ آپ کہدیجیے: جو کوئی جبرائیل کا دشمن ہے (وہ یہ جان لے کہ) اس نے (تو) اس قرآن کو باذن خدا آپ کے قلب پر نازل کیا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو پہلے سے موجود ہے اور یہ (قرآن) ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے۔ ٭
٩٨۔ جو کوئی اللہ، اس کے فرشتوں، رسولوں اور (خاص کر) جبرائیل و میکائیل کا دشمن ہو تو اللہ(ایسے) کافروں کا دشمن ہے۔
٩٩۔ اور ہم نے آپ پر واضح نشانیاں نازل کی ہیں،اور ان کا انکار صرف بد کردار لوگ ہی کر سکتے ہیں۔
١٠٠۔ کیا ( ایسا نہیں ہے کہ) ان لوگوں نے جب بھی کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اسے اٹھا پھینکا،بلکہ ان میں سے اکثر تو ایمان ہی نہیں رکھتے۔
 

صرف علی

محفلین
١٠١۔اور جب اللہ کی جانب سے ان کے پاس ایک ایسا رسول آیا جو ان کے ہاں موجود (کتاب)کی تصدیق کرتا ہے تو اہل کتاب میںسے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا گویا کہ اسے جانتے ہی نہیں۔ ٭
١٠٢۔اور سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین جو کچھ پڑھا کرتے تھے یہ (یہودی) اس کی پیروی کرنے لگ گئے حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیابلکہ شیاطین کفر کیا کرتے تھے جو لوگوں کو سحر کی تعلیم دیا کرتے تھے اور وہ اس (علم) کی بھی پیروی کرنے لگے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کیا گیا تھا، حالانکہ یہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک اسے خبردار نہ کر لیںکہ (دیکھو) ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، کہیں تم کفر اختیار نہ کر لینا، مگر لوگ ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھ لیتے تھے جس سے وہ مرد اور اس کی زوجہ کے درمیان جدائی ڈال دیتے، حالانکہ اذن خدا کے بغیر وہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے اور یہ لوگ اس چیز کو سیکھتے تھے جو ان کے لیے ضرر رساں ہو اور فائدہ مند نہ ہواور بتحقیق انہیں علم ہے کہ جس نے یہ سودا کیا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیںاور کاش وہ جان لیتے کہ انہوں نے اپنے نفسوں کا بہت برا سودا کیا ہے۔٭
١٠٣۔ اور اگر وہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے پاس اس کا ثواب کہیںبہتر ہوتا، کاش وہ سمجھ لیتے.
١٠٤۔ اے ایمان والو!راعنا نہ کہا کرو بلکہ (اس کی جگہ) انظرنا کہا کرو اور (رسول کی باتیں) توجہ سے سنا کرو اور کافروں کے لیے تو دردناک عذاب ہے۔ ٭
١٠٥۔ کفر اختیار کرنے والے خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرکین، اس بات کو پسند ہی نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو،حالانکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
١٠٦۔ ہم کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کراتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت نازل کرتے ہیں، کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ؟٭
١٠٧۔کیا تو نہیں جانتا کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت صرف اللہ ہی کے لیے ہے؟ اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی کارساز اور مددگار نہیں ہے۔
١٠٨۔ کیا تم لوگ اپنے رسول سے ایسا ہی سوال کرناچاہتے ہو جیساکہ اس سے قبل موسیٰ سے کیا گیا تھا؟ اور جو ایمان کو کفر سے بدل دے وہ حتماً سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ ٭
١٠٩۔ (مسلمانو!) اکثر اہل کتاب حق واضح ہو جانے کے باوجود (محض) اپنے بغض اور حسد کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ایمان کے بعد تمہیں دوبارہ کافر بنا دیں، پس آپ درگزر کریں اور نظر انداز کر دیں یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ بھیج دے،بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔٭
١١٠۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرواور جو کچھ نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجوگے اسے اللہ کے پاس موجود پاؤ گے، تم جو بھی عمل انجام دیتے ہو اللہ یقینا اس کا خوب دیکھنے والاہے۔ ٭
١١١۔ اور وہ کہتے ہیں: جنت میں یہودی یا نصرانی کے علاوہ کوئی ہرگز داخل نہیں ہو سکتا، یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں، آپ کہدیجیے: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔٭
١١٢۔ ہاں! جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا اور وہ نیکی کرنے والاہے تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی حزن ۔٭
١١٣۔ اور یہود کہتے ہیں: نصاریٰ (کا مذہب) کسی بنیاد پر استوار نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں : یہود (کا مذہب) کسی بنیاد پر استوار نہیں، حالانکہ وہ (یہود و نصاریٰ) کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس طرح کی بات جاہلوں نے بھی کہی، پس اللہ بروز قیامت ان کے درمیان اس معاملے میںفیصلہ کرے گا جس میں یہ اختلاف کرتے تھے۔ ٭
١١٤۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی مساجد میں اس کا نام لینے سے روکے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے؟ ان لوگوں کو مساجدمیں داخل ہونے کا حق نہیں مگر خوف کے ساتھ،ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔ ٭
١١٥۔ اور مشرق ہو یامغرب، دونوںاللہ ہی کے ہیں، پس جدھر بھی رخ کرو ادھر اللہ کی ذات ہے، بے شک اللہ (سب چیزوں کا) احاطہ رکھنے والا، بڑا علم والا ہے۔٭
١١٦۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کوبیٹا بنا لیا ہے، پاک ہے وہ ذات (ایسی باتوں سے) بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ سب اس کی ملکیت ہے، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔ ٭
١١٧۔ وہ آسمانوں اور زمین کاموجد ہے، اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے: ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے۔ ٭
١١٨۔ اور بے علم لوگ کہتے ہیں: اللہ ہم سے ہمکلام کیوں نہیں ہوتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیںآتی؟ ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح کی بات کر چکے ہیں، ان کے دل ایک جیسے ہو گئے ہیں، ہم نے تو اہل یقین کے لیے کھول کر نشانیاں بیان کی ہیں۔٭
١١٩۔ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والااور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور آپ سے اہل دوزخ کے بارے میں کوئی پرسش نہیں ہو گی۔
١٢٠۔ اور آپ سے یہود و نصاریٰ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں، کہدیجیے: یقینا اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آ چکا ہے، اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لیے اللہ کی طرف سے نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔ ٭
١٢١۔ جنہیں ہم نے کتاب عنایت کی ہے (اور) وہ اس کا حق تلاوت ادا کرتے ہیں، وہی لوگ اس (قرآن) پر ایمان لائیں گے اور جو اس سے کفر اختیار کرے گا پس وہی گھاٹے میں ہے۔ ٭
١٢٢۔ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تمہیںعطا کی ہے اور یہ کہ میں نے تمہیں اہل عالم پر فضیلت دی ہے۔
١٢٣۔اور اس روز سے ڈرو جب نہ کوئی کسی کے کچھ کام آئے گا، نہ اس سے معاوضہ قبول ہو گا، نہ شفاعت اسے فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ ہی انہیںکوئی مدد مل سکے گی۔
١٢٤۔ اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا ۔٭
١٢٥۔ اور (و ہ وقت یادرکھو) جب ہم نے خانہ (کعبہ)کو مرجع خلائق اور مقام امن قرار دیا اور حکم دیا کہ مقام ابراہیم کومصلیٰ بناؤاور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل پریہ ذمے داری عائد کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع سجدہ کرنے والوںکے لیے پاک رکھو۔ ٭
١٢٦۔ اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ابراہیم نے دعا کی: اے رب! اسے امن کاشہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان لائیں انہیں ثمرات میں سے رزق عنایت فرما، ارشاد ہوا : جو کفر اختیار کریں گے انہیں بھی کچھ دن(دنیا کی) لذتوںسے بہرہ مند ہونے کی مہلت دوں گا، پھر انہیں عذاب جہنم کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔ ٭
١٢٧۔اور ( وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم و اسماعیل اس گھر کی بنیادیںاٹھا رہے تھے،(دعا کر رہے تھے کہ) اے ہمارے رب! ہم سے (یہ عمل) قبول فرما،یقینا تو خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
١٢٨۔اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما، یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔٭
١٢٩۔اے ہمارے رب!ان میںایک رسول انہی میںسے مبعوث فرما جو انہیںتیری آیات سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں (ہر قسم کے رذائل سے) پاک کرے،بے شک تو بڑا غالب آنے والا، حکیم ہے۔٭
١٣٠۔ اور ملت ابراہیم سے اب کون انحراف کرے گا سوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کیا، ابراہیم کو تو ہم نے دنیا میںبرگزیدہ بنایا اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہو گا.٭
١٣١۔(ابراہیم کا یہ حال بھی قابل ذکر ہے کہ) جب ان کے رب نے ان سے کہا: (اپنے آپ کو اللہ کے) حوالے کر دو، وہ بولے: میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے حوالے کر دیا۔
١٣٢۔ اور ابراہیم نے اپنی اولاد کو اسی ملت پر چلنے کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنی اولاد کو یہی وصیت کی) کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیاہے، لہٰذا تم تا دم مرگ مسلم ہی رہو۔
١٣٣۔کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کاوقت آیا؟ اس وقت انہوں نے اپنے بچوں سے کہا: میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ سب نے کہا: ہم اس معبود کی بندگی کریں گے جو آپ کا اور آپ کے آباء و اجداد ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔ ٭
١٣٤۔ یہ گزشتہ امت کی بات ہے، ان کے اعمال ان کے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم لوگوں سے (گزشتہ امتوں کے بارے میں) نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔٭
١٣٥۔ وہ لوگ کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی بنو تو ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے، ان سے کہدیجیے : (نہیں)بلکہ یکسوئی سے ملت ابراہیمی کی پیروی کرو اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے۔٭
١٣٦۔ ( مسلمانو !) کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اور جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور جو موسیٰ و عیسیٰ کو دیا گیا اور جو انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا (ان سب پر ایمان لائے)ہم ان میںسے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں۔ ٭
١٣٧۔اگر یہ لوگ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لا ئے ہو تو وہ ہدایت پر ہیں اور اگر وہ روگردانی کریں تو وہ صرف مخالفت کے درپے ہیں، ان کے مقابلے میں (تمہاری حمایت کے لیے) اللہ کافی ہوگااور وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے.
١٣٨۔ خدائی رنگ اختیار کرو، اللہ کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو سکتا ہے؟ اور ہم صرف اسی کے عبادت گزار ہیں۔٭
١٣٩۔کہدیجیے: کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے مخاصمت کرتے ہو؟حالانکہ ہمارا اور تمہارا رب وہی ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال اور ہم تواسی کے لیے مخلص ہیں۔ ٭
١٤٠۔ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟ پوچھیے: کیا تم بہتر جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جس کے ذمے اللہ کی طرف سے گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر تو نہیں ہے۔ ٭
١٤١۔ یہ امت گزر چکی ہے، ان کے اعمال ان کے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے اورتم سے (گزشتہ امتوں کے بارے میں)نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے ۔ ٭
 

صرف علی

محفلین
پارہ : سَیَقُولُ 2​
١٤٢۔ لوگوں میں سے کم عقل لوگ ضرور کہیں گے: جس قبلے کی طرف یہ رخ کرتے تھے اس سے انہیں کس چیزنے پھیردیا؟(اے رسول ان سے) کہدیجیے: مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست کی ہدایت فرماتا ہے۔ ٭
١٤٣۔ اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنا دیا تاکہ تم لوگوں پرگواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں اور آپ پہلے جس قبلے کی طرف رخ کرتے تھے اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا تاکہ ہم رسول کی اتباع کرنے والوں کو الٹا پھر جانے والوںسے پہچان لیں اور یہ حکم اگرچہ سخت دشوار تھا مگر اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے (اس میں کوئی دشواری نہیں) اور اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا، اللہ تو لوگوں کے حق میں یقینا بڑا مہربان، رحیم ہے۔٭
١٤٤۔ ہم آپ کو بار بار آسمان کی طرف منہ کرتے دیکھ رہے ہیں، سو اب ہم آپ کو اسی قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں جسے آپ پسند کرتے ہیں، اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کریں اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اس کی طرف رخ کرو اور اہل کتاب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق پر مبنی (فیصلہ)ہے اور جوکچھ وہ کر رہے ہیںاللہ اس سے غافل نہیں ہے۔٭
١٤٥۔ اور اگر آپ اہل کتاب کے سامنے ہر قسم کی نشانی لے آئیںپھر بھی یہ لوگ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ آپ ان کے قبلے کی اتباع کرنے والے ہیں اور نہ ان میں سے کوئی دوسرے کے قبلے کی اتباع کرنے پر تیار ہے اور (پھر بات یہ ہے کہ)آپ کے پاس جو علم آ چکا ہے اس کے بعد بھی اگر آپ لوگو ں کی خواہشات کی پیروی کرنے لگیں تو آپ زیادتی کرنے والوں میں ہوں گے۔٭
١٤٦۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول)کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور ان میں سے ایک گروہ جان بوجھ کر حق کو چھپا رہا ہے۔ ٭
١٤٧۔ حق صرف وہی ہے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے ہو،لہٰذا آپ شک و تردد کرنے والوں میںسے ہرگزنہ ہوں.
١٤٨۔ اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے، پس تم لوگ نیکیوں کی طرف سبقت کرو،تم جہاں کہیں بھی ہوں گے اللہ (ایک دن) تم سب کو حاضر کر ے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ٭
١٤٩۔ اور آپ جہاں کہیں بھی نکلیں اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑیں، کیونکہ یہ آپ کے رب کا برحق فیصلہ ہے اور اللہ تم لوگوںکے اعمال سے غافل نہیں ہے۔
١٥٠۔اور آپ جہاں کہیں سے بھی نکلیں اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑیںاور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ اسی (کعبے) کی طرف کرو تاکہ ان میں سے ظالموں کے علاوہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے، لہٰذا تم ان سے نہیں صرف مجھ ہی سے ڈرو تاکہ میں تم پر اپنی نعمتیں پوری کروں اور شاید تم ہدایت پاؤ۔
١٥١۔جیسے ہم نے تمہارے درمیان خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاکیزہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔٭
١٥٢۔ لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔ ٭
١٥٣۔ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو، اللہ یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ٭
١٥٤۔اور جو لوگ راہ خدا میںمارے جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم (ان کی زندگی کا) ادراک نہیں رکھتے۔٭
١٥٥۔اور ہم تمہیں کچھ خوف، بھوک اور جان و مال اور ثمرات (کے نقصانات) سے ضرور آزمائیںگے اور آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجیے۔
١٥٦۔جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میںکہتے ہیں: ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ٭
١٥٧۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پران کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ ٭
١٥٨۔ صفا اور مروہ یقینا اللہ کے شعائر میں سے ہیں، پس جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، اس کے لیے ان دونوںکا چکر لگانے میں کوئی حرج نہیںاور جو اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرتاہے تویقینا اللہ قدر کرنے والا، خوب جاننے والا ہے۔
١٥٩۔جولوگ ہماری نازل کردہ واضح نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم کتاب میں انہیں لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر چکے ہیں، تو ایسے لوگوں پر اللہ اور دیگر لعنت کرنے والے سب لعنت کرتے ہیں۔
١٦٠۔ البتہ جو لوگ تو بہ کر لیں اور ( اپنی) اصلاح کر لیںاور (جو چھپاتے تھے اسے) بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کروں گا اور میں تو بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔
١٦١۔جو لوگ کفر اختیار کرتے ہیں اور اسی حالت میں مر جاتے ہیں ان پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
١٦٢۔ وہ اس میںہمیشہ رہیں گے، نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔
١٦٣۔ اور تمہارا معبو د ایک ہی معبود ہے اس رحمن و رحیم کے سوا کوئی معبود نہیں۔٭
١٦٤۔ یقیناآسمانوں اور زمین کی خلقت میں، رات اور دن کے آنے جانے میں، ان کشتیوںمیں جو انسانوں کے لیے مفید چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوںسے برسایا، پھر اس پانی سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد (دوبارہ) زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ٭
١٦٥۔اور لوگوںمیںسے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا مدمقابل قرار دیتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنی چاہیے اور ایمان والے تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں اور کاش یہ ظالم لوگ عذاب کا مشاہدہ کر لینے کے بعدجو کچھ سمجھنے والے ہیں اب سمجھ لیتے کہ ساری طاقتیں صرف اللہ ہی کی ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں نہایت شدید ہے۔
١٦٦۔ (اس وقت کا خیال کرو) جب راہنما اپنے پیروکاروں سے اظہار برائت کریں گے اور عذاب کا مشاہدہ کریں گے اور تمام تعلقات ٹوٹ کر رہ جائیں گے۔٭
١٦٧۔ اور (دنیا میں) جو لوگ( ان کے ) پیروکار تھے وہ کہیں گے: کاش ہمیں ایک بار دنیا میںواپس جانے کا موقع مل جاتا توہم بھی ان سے (اسی طرح) اظہار برائت کرتے جس طرح یہ (آج) ہم سے اظہار برائت کر رہے ہیں،اس طرح اللہ ان کے اعمال کو سراپا حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکل نہیں پائیں گے۔
١٦٨۔لوگو ! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔٭
١٦٩۔ وہ تمہیںبرائی اور بے حیائی کا ہی حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ تم اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے۔٭
١٧٠۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیںکہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے آباء و اجداد نے نہ کچھ عقل سے کام لیا ہو اور نہ ہدایت حاصل کی ہو۔ ٭
١٧١۔اور ان کافروں کی حالت بالکل اس شخص کی سی ہے جو ایسے (جانور) کو پکارے جو بلانے اور پکارنے کے سوا کچھ نہ سن سکے، یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں، پس (اسی وجہ سے) یہ لوگ عقل سے بھی عاری ہیں۔
١٧٢۔ اے ایما ن والو! اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرنے والے ہو تو ہماری عطا کردہ پاک روزی کھاؤ اور اللہ کا شکر کرو۔
١٧٣۔یقینا اسی نے تم پر مردار،خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام قرار دیا، پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ بغاوت کرنے اور ضرورت سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
١٧٤۔جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے عوض میں حقیر قیمت حاصل کرتے ہیں، یہ لوگ بس اپنے پیٹ آتش سے بھر رہے ہیں اور اللہ قیامت کے دن ایسے لوگوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔٭
١٧٥۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے عوض ضلالت اور مغفرت کے بدلے عذاب خرید لیا ہے، (تعجب کی بات ہے کہ) آتش جہنم کے عذاب کے لیے ان میں کتنی برداشت ہے۔ ٭
١٧٦۔یہ (سزا) اس وجہ سے ہے کہ اللہ نے کتاب تو حق کے مطابق نازل کی تھی اور جن لوگوں نے کتاب کے بارے میں اختلاف کیا، یقینا وہ دور دراز کے جھگڑے میں پڑے ہوئے ہیں۔ ٭
١٧٧۔ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ جو کوئی اللہ، روز قیامت، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنا پسندیدہ مال قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے نیز جب معاہدہ کریں تو اسے پورا کرنے والے ہوں اور تنگدستی اور مصیبت کے وقت اور میدان جنگ میں صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں.٭
١٧٨۔ اے ایمان والو! تم پر مقتولین کے بارے میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیاہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، ہاں اگر مقتول کے بھائی کی طرف سے قاتل کو (قصاص کی) کچھ چھوٹ مل جائے تو اچھے پیرائے میں (دیت کا) مطالبہ کیا جائے اور (قاتل کو چاہیے کہ) وہ حسن و خوبی کے ساتھ اسے ادا کرے، یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک قسم کی تخفیف اور مہربانی ہے، پس جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ٭
١٧٩۔ اور اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، امید ہے تم (اس قانون کے سبب) بچتے رہو گے۔ ٭
١٨٠۔ تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے، متقی لوگوں پر یہ ایک حق ہے۔٭
١٨١۔جو وصیت کو سن لینے کے بعد اسے بدل ڈالے تو اس کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہو گا، اللہ یقینا ہر بات کا خوب سننے والا، جاننے والاہے۔
١٨٢۔ البتہ جو شخص یہ خوف محسوس کرے کہ وصیت کرنے والے نے جانبداری یا گناہ کاارتکاب کیا ہے، پھر وہ آپس میں صلح کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بےشک اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
١٨٣۔ اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
١٨٤۔( یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں، پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میںمقدار پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے، پس جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔ ٭
١٨٥۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے اور جو بیمار اور مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں مقدار پوری کرے، اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا اور وہ چاہتا ہے کہ تم مقدار پوری کرو اور اللہ نے تمہیں جس ہدایت سے نوازا ہے اس پر اللہ کی عظمت و کبریائی کا اظہار کرو شایدتم شکر گزار بن جاؤ۔ ٭
١٨٦۔ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہدیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں، دعا کرنے والاجب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں۔٭
١٨٧۔ اور روزوں کی راتوںمیں اپنی بیویوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہارے لےے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو، اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے پس اللہ نے تم پر عنایت کی اور تم سے در گزر فرمایا، پس اب تم اپنی بیویوں سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو تمہارے لیے مقرر فرمایا ہے اسے تلاش کرو اور (راتوں کو) خوردو نوش کرو، یہاں تک کہ تم پرفجر کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے، پھر رات تک روزے کو پورا کرو اور جب تم مساجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان کے قریب نہ جاؤ، اس طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔٭
١٨٨۔اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ اورنہ ہی اسے حکام کے پاس پیش کرو تاکہ تمہیں دوسروں کے مال کا کچھ حصہ دانستہ طور پر ناجائز طریقے سے کھانے کا موقع میسر آئے۔٭
١٨٩۔لوگ آپ سے چاند کے(گھٹنے بڑھنے کے) بارے میںپوچھتے ہیں، کہدیجیے: یہ لوگوں کے لیے اور حج کے اوقات کے تعین کا ذریعہ ہے اور (ساتھ یہ بھی کہدیجیے کہ حج کے احرام باندھو تو) پشت خانہ سے داخل ہونا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور تم (اپنے) گھروں میں دروازوں سے ہی داخل ہوا کرو اور اللہ (کی ناراضگی) سے بچے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ٭
١٩٠۔اور تم راہ خدا میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو اللہ تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔٭
١٩١۔ اور انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرو اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ برا ہے، ہاں مسجد الحرام کے پاس ان سے اس وقت تک نہ لڑو جب تک وہ وہاں تم سے نہ لڑیں، لیکن اگروہ تم سے لڑیں تو تم انہیں مار ڈالو، کافروں کی ایسی ہی سزا ہے۔ ٭
١٩٢۔ البتہ اگر وہ باز آجائیں تو یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ ٭
١٩٣۔ اور تم ان سے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے، ہا ں اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموںکے علاوہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو گی۔ ٭
١٩٤۔ حرمت والے مہینے کا بدلہ حرمت کا مہینہ ہی ہے اور حرمتوں کا بھی قصاص ہے، لہٰذا جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو جس طرح اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔٭
١٩٥۔ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کیا کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو یقینا پسندکرتا ہے۔ ٭
١٩٦۔ اور تم لوگ اللہ کے لیے حج اور عمرہ مکمل کرو، پھر اگر تم لوگ (راستے میں) گھر جاؤ تو جیسی قربانی میسر آئے کر دو اور جب تک قربانی اپنے مقام پر پہنچ نہ جائے اپنا سر نہ مونڈھو، لیکن اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزوں سے یا صدقے سے یا قربانی سے فدیہ دے دے، پھر جب تمہیں امن مل جائے تو جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرے سے بہرہ مند رہا ہو وہ حسب مقدور قربانی دے اور جسے قربانی میسر نہ آئے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات واپسی پر، اس طرح یہ پورے دس (روزے) ہوئے، یہ(حکم) ان لوگوں کے لیے ہے جن کے اہل و عیال مسجد الحرام کے نزدیک نہ رہتے ہوںاور اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔٭
١٩٧۔حج کے مقررہ مہینے ہیں، پس جو ان میںحج بجا لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر حج کے دوران ہم بستری نہ ہو اور نہ فسق و فجور اور نہ لڑائی جھگڑا ہو اور جو کار خیر تم کرو گے اللہ اسے خوب جان لے گا اور زادراہ لے لیاکرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! (میری نافرمانی سے) پرہیز کرو۔ ٭
١٩٨۔ تم پر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے چلو تو مشعر الحرام (مزدلفہ) کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے، حالانکہ اس سے پہلے تم راہ گم کیے ہوئے تھے۔ ٭
١٩٩۔پھر جہاں سے لوگ روانہ ہو تے ہیں تم بھی روانہ ہو جاؤ اور اللہ سے معافی مانگو، یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا ، رحم کرنے والا ہے۔ ٭
٢٠٠۔پھر جب تم حج کے اعمال بجا لا چکو تو اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آبا و اجداد کو یاد کیا کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ، پس لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے: ہمارے رب ! ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دے اور ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں.٭
٢٠١۔اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں:ہمارے پالنے والے! ہمیں دنیا میں بہتری اور آخرت میں بھی بہتری عطا کر نیز ہمیں آتش جہنم سے بچا۔ ٭
٢٠٢۔ایسے لوگ اپنی کمائی کا حصہ پائیں گے اور اللہ بلاتاخیر حساب چکا دینے والا ہے۔
٢٠٣۔ اور گنتی کے (ان چند) دنوںمیں اللہ کو یاد کرو، پھر کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں چلا گیا توکوئی حرج نہیں اور کچھ دیر زیادہ ٹھہرے تو بھی کوئی گناہ نہیں، یہ اس شخص کے لیے ہے جس نے پرہیز کیا ہے اور اللہ کا خوف کرو اور جان لو کہ (ایک دن) اس کے حضور پیش کیے جاؤ گے۔٭
٢٠٤۔ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں آپ کو پسند آئے گی اور جو اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ بنائے گا حالانکہ وہ سخت ترین دشمن ہے۔ ٭
٢٠٥۔ اور جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو سرتوڑ کوشش کرتا پھرتا ہے کہ زمین میں فساد برپا کرے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کر دے اور اللہ فساد کوپسند نہیں کرتا۔
٢٠٦۔ اور پھر جب اس سے کہا جائے: خوف خدا کرو تو نخوت اسے گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے، پس اس کے لیے جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
٢٠٧۔ اور انسانوںمیں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے۔٭
٢٠٨۔ اے ایمان لانے والو! تم سب کے سب (دائرہ ) امن و آشتی میں آجاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
٢٠٩۔اور اگر ان صریح نشانیوںکے تمہارے پاس آنے کے بعدبھی تم لڑکھڑا جاؤ تو جان رکھو کہ اللہ بڑا غالب آنے والا، باحکمت ہے۔
٢١٠۔ کیایہ لوگ منتظر ہیں کہ خود اللہ بادلوں کے سائبان میںان کے پاس آئے اور فرشتے بھی اتر آئیں اور فیصلہ کر دیا جائے؟ جب کہ سارے معاملات کو اللہ ہی کے حضور پیش ہونا ہے۔
٢١١۔ آپ بنی اسرائیل سے پوچھیں کہ ہم نے انہیں کتنی واضح نشانیاںدیںاور جو شخص اللہ کی نعمت پانے کے بعد اسے بدل ڈالے تو اللہ یقینا سخت عذاب والا ہے۔ ٭
٢١٢۔جو کافر ہیں ان کے لیے دنیا کی زندگی خوش نما بنا دی گئی ہے اور وہ دنیا میں مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں مگر اہل تقویٰ قیامت کے دن ان سے مافوق ہوں گے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ ٭
٢١٣۔ لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میںاختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے اور ان میں اختلاف بھی ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی حالانکہ ان کے پاس صریح نشانیاں آچکی تھیں، یہ صرف اس لیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، پس اللہ نے اپنے اذن سے ایمان لانے والوں کو اس امر حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔٭
٢١٤۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے؟ انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟(انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔ ٭
٢١٥۔ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں : کیا خرچ کریں؟ کہدیجیے: جو مال بھی خرچ کرو اپنے والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں،مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو کار خیر تم بجا لاؤ گے یقینا اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔ ٭
٢١٦۔تمہیں جنگ کا حکم دیاگیا ہے جب کہ وہ تمہیں ناگوار ہے اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو، (جیساکہ) ممکن ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو مگر وہ تمہارے لیے بری ہو، (ان باتوں کو) خدا بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ٭
٢١٧۔ لوگ آپ سے ماہ حرام میں لڑائی کے بارے میں پوچھتے ہیں ، کہدیجیے: اس میں لڑنا سنگین برائی ہے، لیکن راہ خدا سے روکنا ، اللہ سے کفر کرنا، مسجد الحرام کا راستہ روکنا اور حرم کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک زیادہ سنگین جرم ہے اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑا گناہ ہے اور وہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے گا اور کفر کی حالت میں مرے گا ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہوں گے اور ایسے لوگ اہل جہنم ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔٭
٢١٨۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے نیز جنہوں نے راہ خدا میں ہجرت کی اور جہاد کیا وہ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اوراللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔٭
٢١٩۔لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجیے: ان دونوں کے اندر عظیم گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی، مگر ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے کہیں زیادہ ہے اور یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ کہدیجیے: جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو٭
٢٢٠۔ دنیا اور آخرت کے بارے میں اور یہ لوگ آپ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجیے:ان کی اصلاح بہت اچھا کام ہے اور اگر تم ان سے مل جل کر رہو تو(اس میں کو ئی مضائقہ نہیںہے کیونکہ) وہ تمہارے بھائی ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ مفسد کون ہے اور مصلح کون ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں تکلیف میں ڈال دیتا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ ٭
٢٢١۔ اور تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، کیونکہ مومنہ لونڈی مشرک عورت سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو نیز (مومنہ عورتوں کو) مشرک مردوں کے عقد میں نہ دینا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، کیونکہ ایک مومن غلام مشرک مرد سے بہترہے خواہ وہ (مشرک) تمہیں پسند ہو، کیونکہ وہ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور اپنی نشانیاں لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔٭
٢٢٢۔اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہدیجیے: یہ ایک گندگی ہے، پس حیض کے دنوںمیں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، پس جب پاک ہو جائیں تو ان کے پاس اس طرح جاؤ جس طریقے سے اللہ نے تمہیں حکم دے رکھا ہے، بے شک خدا توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ٭
٢٢٣۔ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جا سکتے ہو نیز اپنے لیے(نیک اعمال) آگے بھیجو اور اللہ کے عذاب سے بچو اور یاد رکھو تمہیں ایک دن اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے اور (اے رسول) ایمانداروں کو بشارت سنا دو۔ ٭
٢٢٤۔ اوراللہ کو اپنی ان قسموں کا نشانہ مت بناؤ جن سے نیکی کرنے، تقویٰ اختیار کرنے اور لوگوں میں صلح و آشتی کرانے سے باز رہنا مقصود ہو اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا،جاننے والا ہے۔ ٭
٢٢٥۔ اللہ ان قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرتا جو تم بے توجہی میں کھاتے ہو، ہاں جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا اور اللہ خوب درگزر کرنے والا، بردبار ہے۔
٢٢٦۔ جو لوگ اپنی عورتوں سے الگ رہنے کی قسم کھاتے ہیں ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے، اگر ( اس دوران) رجوع کریں تواللہ یقینا بڑا معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ ٭
٢٢٧۔ اور اگر طلاق کا فیصلہ کر لیں تو اللہ یقینا خوب سننے والا ، علم والا ہے۔
٢٢٨۔ اور طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ (ماہواری سے) پاک ہونے تک انتظار کریں اور اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق کیاہے اسے چھپائیں اور ان کے شوہر اگر اصلاح و سازگاری کے خواہاں ہیں تو عدت کے دنوں میں انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لینے کے پورے حقدار ہیں اور عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ ٭
٢٢٩۔ طلاق دوبار ہے پھر یا تو شائستہ طور پر عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھ لیا جائے یا اچھے پیرائے میں انہیں رخصت کیا جائے اور یہ جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو مگر یہ کہ زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، پس اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ زوجین اللہ کی حدودکو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو زوجین کے لیے (اس مال میں) کوئی مضائقہ نہیںجو عورت بطور معاوضہ دے دے،یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الہٰی سے تجاوز کرتے ہیں پس وہی ظالم ہیں.٭
٢٣٠۔ اگر (تیسری بار) پھر طلاق دے دی تو وہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہوگی جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے، ہاںاگر دوسرا خاوند طلاق دے اور عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کی طرف رجوع کریں تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ انہیں امید ہو کہ وہ حدود الہٰی کوقائم رکھ سکیں گے اور یہ ہیں اللہ کی مقرر کردہ حدود جنہیں اللہ دانشمندوں کے لیے بیان کرتا ہے۔ ٭
٢٣١۔ اور جب تم اپنی عورتوںکو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں یا تو شائستہ طریقے سے نکاح میں رکھو یا شائستہ طور پر رخصت کر دو اور صرف ستانے کی خاطر زیادتی کرنے کے لیے انہیں روکے نہ رکھو اور جو ایسا کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا اور تم اللہ کی آیات کا مذاق نہ اڑاؤ اور اللہ نے جو نعمت تمہیں عطا کی ہے اسے یاد رکھو اور یہ (بھی یاد رکھو) کہ تمہاری نصیحت کے لیے اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی اور اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔٭
٢٣٢۔اورجب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں اپنے (مجوزہ) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ جائز طور پر ازدواج پر باہم راضی ہوں، یہ نصیحت اس شخص کے لیے ہے جو تم میں سے خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، تمہارے لیے نہایت شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے اور (ان باتوں کو) اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ٭
٢٣٣۔اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، (یہ حکم) ان لوگوں کے لیے ہے جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہتے ہیں اور بچے والے کے ذمے دودھ پلانے والی ماؤں کا روٹی کپڑا معمول کے مطابق ہو گا،کسی پر اس کی گنجائش سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا، بچے کی وجہ سے نہ ماں کو تکلیف میں ڈالا جائے اور نہ باپ کو اس بچے کی وجہ سے کوئی ضرر پہنچایا جائے اور اسی طرح کی ذمے داری وارث پر بھی ہے، پھر اگر طرفین باہمی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہتے ہیں تواس میں ان پر کوئی مضائقہ نہیںہے نیز اگر تم اپنی اولاد کو (کسی سے) دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ تم عورتوں کو معمول کے مطابق طے شدہ معاوضہ ادا کرو اور اللہ کا خوف کرو اور جان لو کہ تمہارے اعمال پراللہ کی خوب نظر ہے۔٭
٢٣٤۔ اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں، پھرجب ان کی عدت پوری ہو جائے تو دستور کے مطابق اپنے بارے میں جو فیصلہ کریں اس کا تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب با خبر ہے.٭
٢٣٥۔ اور اس میں کوئی مضائقہ نہیںکہ تم ان عورتوں کے ساتھ نکاح کا اظہار اشارے کنائے میں کرو یا اسے تم اپنے دل میں پوشیدہ رکھو، اللہ کو تو علم ہے کہ تم ان سے ذکر کرو گے مگر ان سے خفیہ قول و قرار نہ کرو، ہاں اگر کوئی بات کرنا ہے تو دستور کے مطابق کرو، البتہ عقد کا فیصلہ اس قت تک نہ کرو جب تک عدت پوری نہ ہو جائے اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوںمیں ہے اللہ کو سب معلوم ہے، لہٰذا اس سے ڈرو اور جان رکھو کہ اللہ بڑا بخشنے والا ، بردبار ہے۔٭
٢٣٦۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم عورتوں کو ہاتھ لگانے اور مہرمعین کرنے سے قبل طلاق دے دو، اس صورت میں انہیں کچھ دے کر رخصت کرو، مالدار اپنی وسعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی وسعت کے مطابق یہ خرچ دستور کے مطابق دے، یہ نیکی کرنے والوں پر ایک حق ہے ۔ ٭
٢٣٧۔ اور اگر تم عورتوںکو ہاتھ لگانے سے قبل اور ان کے لیے مہرمعین کر چکنے کے بعد طلاق دو تو اس صورت میں تمہیں اپنے مقرر کردہ مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا مگر یہ کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں یا جس کے ہاتھ میں عقد کی گرہ ہے وہ حق چھوڑ دے اور تمہارا چھوڑ دینا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور تم آپس کی احسان کوشی نہ بھولو، یقینا تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نگاہ ہے۔٭
٢٣٨۔ نمازوں کی مخافظت کرو، خصوصاً درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور خضوع کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔ ٭
٢٣٩۔ پھر اگر تم حالت خوف میں ہو تو پیدل ہو یا سوار (جس حال میں ہو نماز پڑھ لو) اور جب تمہیں امن مل جائے تو اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں وہ (کچھ) سکھایا ہے جسے تم پہلے نہیں جانتے تھے۔ ٭
٢٤٠۔ اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیںانہیں چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں کے بارے میں وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک انہیں (نان و نفقہ سے) بہرہ مند رکھا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں، پس اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں تو دستور کے دائرے میں رہ کر وہ اپنے لیے جو فیصلہ کرتی ہیں تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ ٭
٢٤١۔ اور مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق کچھ خرچہ دینا، یہ متقی لوگوں کی ذمے داری ہے۔
٢٤٢۔ اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لیے اس طرح کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔
٢٤٣۔ کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا، بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔٭
٢٤٤۔اور راہ خدا میں جنگ کرو اور جان لو کہ اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے.٭
٢٤٥۔ کوئی ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا زیادہ دے؟ اللہ ہی گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔ ٭
٢٤٦۔کیا آپ نے موسیٰ کے بعدبنی اسرائیل کی ایک جماعت (کو پیش آنے والے حالات) پر نظر نہیں کی جس نے اپنے نبی سے کہا: آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کریں تاکہ ہم راہ خدا میں جنگ کریں، (نبی نے) کہا: ایسا نہ ہو کہ تمہیں جنگ کا حکم دیا جائے اور پھر تم جنگ نہ کرو، کہنے لگے:ہم راہ خدا میں جنگ کیوں نہ کریں جب کہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے اور اپنے بچوں سے جدا کیے گئے ہیں؟ لیکن جب انہیں جنگ کا حکم دیا گیا تو ان میں سے چند اشخاص کے سوا سب پھر گئے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ ٭
٢٤٧۔ اور ان کے پیغمبرنے ان سے کہا: اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے، کہنے لگے: اسے ہم پر بادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا؟ جب کہ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حقدار ہیں اور وہ کوئی دولتمند آدمی تو نہیں ہے، پیغمبر نے فرمایا: اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جسے چاہے عنایت کرے اور اللہ بڑی وسعت والا، دانا ہے.٭
٢٤٨۔ اور ان سے ان کے پیغمبر نے کہا: اس کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے سکون و اطمینان کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ و ہارون کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہیں جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے، اگر تم ایمان والے ہو تو یقینا اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔٭
٢٤٩۔جب طالوت لشکرلے کر روانہ ہوا تو اس نے کہا: اللہ ایک نہرسے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے،پس جو شخص اس میں سے پانی پی لے وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہو گا مگر یہ کہ کوئی صرف ایک چلو اپنے ہاتھ سے بھر لے (تو کوئی مضائقہ نہیں) پس تھوڑے لوگوں کے سوا سب نے اس (نہر)میں سے پانی پی لیا، پس جب طالوت اور اس کے ایمان والے ساتھی نہر پار ہو گئے تو انہوںنے (طالوت سے) کہا: آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے، مگر جو لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ انہیں خدا کے روبرو ہونا ہے وہ کہنے لگے: بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور اللہ صبر کرنے والوںکے ساتھ ہے۔٭
٢٥٠۔اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلے پرنکلے توکہنے لگے: پروردگارا ! ہمیں صبر سے لبریز فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیںفتح یاب کر۔ ٭
٢٥١۔ چنانچہ اللہ کے اذن سے انہوںنے کافروں کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے انہیں سلطنت و حکمت عطا فرمائی اور جو کچھ چاہا انہیں سکھا دیا اور اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کا بعض کے ذریعے دفاع نہ فرماتا رہتا تو زمین میں فساد برپا ہو جاتا، لیکن اہل عالم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ ٭
٢٥٢۔ یہ ہیں اللہ کی آیات جنہیں ہم حق کے ساتھ آپ پر تلاوت کرتے ہیں اور آپ یقینا مرسلین میں سے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
پارہ : تلک الرسل 3​
٢٥٣۔ ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن سے اللہ ہمکلام ہوا اور اس نے ان میں سے بعض کے درجات بلند کیے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور ہم نے روح القدس سے ان کی تائید کی اور اگر اللہ چاہتا تو ان رسولوں کے آنے اور روشن نشانیاں دیکھ لینے کے بعد یہ لوگ آپس میںنہ لڑتے، مگر انہوں نے اختلاف کیا، پس ان میں سے بعض تو ایمان لے آئے اور بعض نے کفر اختیار کیا اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ باہم نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ٭
٢٥٤۔ اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں دیا ہے اس میںسے خرچ کرو قبل اس دن کے جس میں نہ تجارت کام آئے گی اور نہ دوستی کا فائدہ ہو گا اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفراختیار کیا۔ ٭
٢٥٥۔ اللہ وہ (ذات) ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور سب کا نگہبان ہے، اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملکیت ہے، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے؟ جو کچھ لوگوں کے روبرو اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے وہ ان سب سے واقف ہے اور وہ علم خدا میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیںکر سکتے مگر جس قدر وہ خود چاہے، اس کی کرسی آسمانوںاور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان دونوں کی نگہداری اس کے لیے کوئی کار گرا ں نہیںہے اور وہ بلند و بالا اور عظیم ذات ہے۔ ٭
٢٥٦۔ دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میںفرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیااور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔٭
٢٥٧۔ اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے، وہ انہیں تاریکی سے روشنی کی طرف نکال لاتاہے اور کفر اختیار کرنے والوں کے سرپرست طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے تاریکی کی طرف لے جاتے ہیں، یہی جہنم والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
٢٥٨۔ کیا آپ نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں اس بنا پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے اقتدار دے رکھا تھا؟ جب ابراہیم نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو اس نے کہا: زندگی اور موت دینا میرے اختیار میں (بھی)ہے، ابراہیم نے کہا: اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا، یہ سن کر وہ کافر مبہوت رہ گیا اور اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔٭
٢٥٩۔ یا اس شخص کی طرح جس کا ایک ایسی بستی سے گزر ہوا جو اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھی تو اس نے کہا: اللہ اس (اجڑی ہوئی آبادی کو) مرنے کے بعد کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟ پس اللہ نے سو (١٠٠) برس تک اسے مردہ رکھا پھر اسے دوبارہ زندگی دی، اس سے پوچھا: بتاؤ کتنی مدت (مردہ) رہے ہو؟ اس نے کہا: ایک دن یا اس سے کم، اللہ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ سو (١٠٠) برس (مردہ) پڑے رہے ہو، لہٰذا ذرا اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو جو سڑی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو اور ہم نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے نشانی بنائیں اور پھر ان ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم انہیں کس طرح اٹھاتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھا دیتے ہیں، یوں جب اس پر حقیقت عیاں ہو گئی تو اس نے کہا: میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ٭
٢٦٠۔ اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا تھا : میرے پروردگار! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے، فرمایا: کیا آپ ایمان نہیں رکھتے ؟ کہا: ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اطمینان مل جائے، فرمایا: پس چار پرندوں کو پکڑ لو پھر ان کے ٹکڑے کرو پھر ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تیزی سے آپ کے پاس چلے آئیںگے اور جان رکھو اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ ٭
٢٦١۔ جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان(کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اگ آئیں جن میں سے ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے عمل) کو چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے، اللہ بڑا کشائش والا، دانا ہے۔ ٭
٢٦٢۔ جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا صلہ ان کے پروردگار کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔ ٭
٢٦٣۔ نرم کلامی اور درگزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد (خیرات لینے والے کو ) ایذا دی جائے اور اللہ بڑا بے نیاز بڑا بردبارہے۔
٢٦٤۔ اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو اپنا مال صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، پس اس کے خر چ کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سے مٹی ہو، پھر اس پر زور کا مینہ برسے اور اسے صاف کر ڈالے، (اس طرح) یہ لوگ اپنے اعمال سے کچھ بھی اجر حاصل نہ کر سکیں گے اور اللہ کافروں کی راہنمائی نہیں کرتا۔ ٭
٢٦٥۔ اور جو لوگ اپنا مال اللہ کی خوشنودی کی خاطر اور ثبات نفس سے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو، جس پر زور کا مینہ برسے تو دگنا پھل دے اور اگر تیز بارش نہ ہو تو ہلکی پھوار بھی کافی ہو جائے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے ۔٭
٢٦٦۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسندکرتا ہے کہ اس کے لیے کھجوروںاور انگوروںکا ایک باغ ہوجس کے نیچے نہریں جاری ہوں اور اس کے لیے اس میں ہر قسم کے میوے موجود ہوں اور جب بڑھاپا آ جائے اور اس کے بچے بھی ناتواں ہوں تو ناگہاں یہ باغ ایک ایسے بگولے کی زد میں آجائے جس میں آگ ہو اور وہ جل جائے؟ اللہ یوں تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے شاید تم غور و فکر کرو۔٭
٢٦٧۔ اے ایمان والو! جومال تم کماتے ہو اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ حصہ (راہ خدا میں)خرچ کرو اور اس میں سے ردی چیز دینے کا قصد ہی نہ کرو اور (اگر کوئی وہی تمہیں دے تو) تم خود اسے لیناگوارا نہ کرو گے مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ اور جان رکھو کہ اللہ بڑا بے نیاز اور لائق ستائش ہے۔ ٭
٢٦٨۔ شیطان تمہیںتنگدستی کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کی ترغیب دیتا ہے، جبکہ اللہ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتاہے اوراللہ بڑا صاحب وسعت، دانا ہے۔٭
٢٦٩۔ وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی جائے گویا اسے خیرکثیر دیا گیا ہے اور صاحبان عقل ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔ ٭
٢٧٠۔ اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو یا نذر مانتے ہو اللہ کو اس کا علم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔٭
٢٧١۔ اگر تم علانیہ خیرات دو تو وہ بھی خوب ہے اور اگرپوشیدہ طور پر اہل حاجت کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اور یہ تمہارے کچھ گناہوں کا کفارہ ہو گا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔٭
٢٧٢۔ آپ کے ذمے نہیں ہے کہ انہیں (جبراً) ہدایت دیں بلکہ خدا ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اورتم جو بھی مال خرچ کرو گے ا س کا فائدہ تم ہی کوہے اور تم صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرو گے اور جو مال تم خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا اجر دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔
٢٧٣۔ ان فقراء کے لیے (خرچ کرو) جو راہ خدا میں اس طرح گھر گئے ہیں کہ وہ (معیشت کے لیے) زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے، ناواقف لوگ ان کی حیا و عفت کی بنا پر انہیں مالدار خیال کرتے ہیں، حالانکہ ان کے قیافے سے تم ان (کی حاجت مندی) کو پہچان سکتے ہو، وہ تکرار کے ساتھ نہیںمانگتے اورجو مال تم خرچ کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ ٭
٢٧٤۔جو لوگ اپنا مال شب و روز پوشیدہ اور علانیہ طور پر خر چ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ وہ محزون ہوںگے۔ ٭
٢٧٥۔ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ بس اس شخص کی طرح اٹھیںگے جسے شیطان نے چھو کر حواس باختہ کیا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، پس جس شخص تک اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود لینے سے باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا وہ اسی کا ہو گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے اعادہ کیا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیںگے۔٭
٢٧٦۔ اللہ سود کو ناپائیدار اور خیرات کو بابرکت بنا دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔ ٭
٢٧٧۔ البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل بجا لائیں نیز نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے اور ان کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے ۔٭
٢٧٨۔اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو اور جو سود (لوگوں کے ذمے) باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔٭
٢٧٩۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور اگر تم نے توبہ کر لی تو تم اپنے اصل سرمائے کے حقدار ہو، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا.٭
٢٨٠۔اور ( تمہارا قرضدار) اگر تنگدست ہو تو کشائش تک مہلت دو اور اگر سمجھو تو معاف کردینا ہی تمہارے لیے بہتر ہے.٭
٢٨١۔ اور اس دن کا خوف کرو جب تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر وہاں ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا بدلہ مل جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔
٢٨٢۔ اے ایمان والو! جب کسی معینہ مدت کے لیے قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ دیا کرو اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارے درمیان انصاف کے ساتھ تحریر کرے اور جسے اللہ نے لکھنا سکھایا اسے لکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے، پس وہ دستاویز لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس کے ذمے قرض ہے اور اسے اپنے رب یعنی اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کرنی چاہیے لیکن اگر قرضدار کم عقل یا ضعیف یا مضمون لکھوانے سے عاجز ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے، پھر تم لوگ اپنے میں سے دو مردوںکو گواہ بنا لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو (گواہ بناؤ) جن گواہوں کو تم پسند کرو، تاکہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے اور جب گواہی کے لیے گواہ طلب کیے جائیں تو انہیں انکار نہیں کرنا چاہیے اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا مدت کے تعین کے ساتھ اسے لکھنے میں تساہل نہ برتو، یہ بات اللہ کے نزدیک قرین انصاف ہے اور گواہی کے لیے زیادہ مستحکم ہے اور اس سے تم اس بات کے زیادہ نزدیک ہو جاتے ہو کہ شک و شبہ نہ کرو، مگر یہ کہ تم آپس میں جو دست بدست تجارتی معاملات کرتے ہو ان کے نہ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیںہے، البتہ جب خرید و فروخت کیا کرو تو گواہ بنا لیا کرو اور کاتب اور گواہ کو نقصان نہ دیا جائے اور ایسا کرنا تمہاری نافرمانی ہے اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں تعلیمات سے آراستہ فرماتاہے اور اللہ تو ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ ٭
٢٨٣۔ اور اگر تم حالت سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا میسر نہ آئے تو قبضے کے ساتھ رہن پر معاملہ کرو، اگر تم ایک دوسرے پر اعتبار کرو تو جس پر اعتبار کیا جائے اسے چاہیے کہ دوسرے کی امانت ادا کرے اور اپنے رب یعنی اللہ سے ڈرو اور شہادت نہ چھپاؤ اور جو شہادت چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہوتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب آگاہ ہے۔ ٭
٢٨٤۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کا ہے اور تم اپنے دل کی باتیں ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تم سے حساب لے گا پھر وہ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ٭
٢٨٥۔ رسول اس کتاب پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر اس کے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور سب مومنین بھی، سب اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں (اور وہ کہتے ہیں)ہم رسولوں میں تفریق کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی،پالنے والے ہم تیری بخشش کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔ ٭
٢٨٦۔ اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا ، ہر شخص جو نیک عمل کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو بدی کرتا ہے اس کا انجا م بھی اسی کو بھگتنا ہے، پروردگارا!ہم سے بھول چوک ہو گئی ہو تو اس کا مواخذہ نہ فرما، پروردگارا! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلوں پر ڈال دیا تھا، پروردگارا! ہم جس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہمارے سر پر نہ رکھ، پروردگارا! ہمارے گناہوں سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہمارا مالک ہے، کافروںکے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔ ٭
 

صرف علی

محفلین
سورہ آل عمران ۔ مدنی ۔ آیات ٢٠٠​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ الف ۔ لام ۔ میم۔
٢۔ اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں جو زندہ (اور کائنات کا) زبردست نگہدار ہے۔
٣۔ اس نے حق پر مبنی ایک کتاب (اے رسول) آپ پر نازل کی جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس نے توریت و انجیل کو نازل کیا۔ ٭
٤۔ اس سے پہلے انسانوں کی ہدایت کے لیے اور فرقان (حق و باطل میں امتیاز کرنے والا قانون) نازل فرمایا، جنہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے، اللہ بڑا غالب آنے والا، خوب بدلہ لینے والا ہے۔
٥۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے یقینا پوشیدہ نہیں ہے۔
٦۔ وہی تو ہے جو (ماؤں کے ) رحموں میں جیسی چاہتاہے تمہاری تصویر بناتا ہے، اس غالب آنے والے، حکمت کے مالک کے سو ا کوئی معبود نہیں۔٭
٧۔وہی ذات ہے جس نے آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس کی بعض آیات محکم (واضح) ہیں وہی اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ اور تاویل کی تلاش میں متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، جب کہ اس کی (حقیقی) تاویل تو صرف خدا اور علم میں راسخ مقام رکھنے والے ہی جانتے ہیں جو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔ ٭
٨۔ ہمارے پروردگار! جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عنایت فرما، یقینا تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔ ٭
٩۔ہمارے پروردگار! بلاشبہ تو اس روز سب لوگوں کو جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، بے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
١٠۔جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے اموال و اولاد انہیں اللہ سے ہرگز کچھ بھی بے نیاز نہیںبنائیں گے اور یہ لوگ دوزخ کے ایندھن ہوں گے۔
١١۔ ان کا حال بھی فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا سا ہو گا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، پس اللہ نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے گرفت میں لے لیا اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے.٭
١٢۔(اے رسول) جنہوںنے انکار کیا ہے ان سے کہدیجیے: تم عنقریب مغلوب ہو جاؤ گے اور جہنم کی طرف اکھٹے کیے جاؤ گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔ ٭
١٣۔ تمہارے لیے ان دو گروہوں میں جو (جنگ بدرکے دن) باہم مقابل ہوئے ایک نشانی تھی، ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا کافر تھا وہ (کفار) ان (مسلمانوں) کو اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا مشاہدہ کر رہے تھے اور خدا جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے اس کی تائید کرتا ہے، صاحبان بصیرت کے لیے اس واقعے میں یقینا بڑی عبرت ہے۔٭
١٤۔ لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی رغبت مثلاً عورتیں، بیٹے، سونے اور چاندی کے ڈھیر لگے خزانے، عمدہ گھوڑے ، مویشی اور کھیتی زیب و زینت بنا دی گئی ہیں، یہ سب دنیاوی زندگی کے سامان ہیں اور اچھا انجام تو اللہ ہی کے پاس ہے۔٭
١٥۔ کہدیجیے:کیا میں تمہیں بہتر چیز بتاؤں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیںگے نیز ان کے لیے پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی ہو گی اور اللہ بندوں پر خوب نگاہ رکھنے والا ہے۔
١٦۔یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: ہمارے رب! بلاشبہ ہم ایمان لائے،پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں آتش جہنم سے بچا۔
١٧۔ یہ لوگ صبر کرنے والے، راست باز، مشغول عبادت رہنے والے، خرچ کرنے والے اور سحر (کے اوقات) میں طلب مغفرت کرنے والے ہیں۔٭
١٨۔اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شہادت دی،وہ عدل قائم کرنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ ٭
١٩۔ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور جنہیں کتاب دی گئی انہوں نے علم حاصل ہو جانے کے بعد آپس کی زیادتی کی وجہ سے اختلاف کیا اور جو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتا ہے تو بے شک اللہ (اس سے) جلد حساب لینے والا ہے.٭
٢٠۔(اے رسول) اگر یہ لوگ آپ سے جھگڑاکریں تو ان سے کہدیجیے: میں نے اور میری اتباع کرنے والوں نے تو اللہ کے آگے سر تسلیم خم کیا ہے اور پھر اہل کتاب اور ناخواندہ لوگوں سے پوچھیے: کیا تم نے بھی تسلیم کیاہے؟ اگر یہ لوگ تسلیم کر لیں تو ہدایت یافتہ ہو جائیں اور اگر منہ موڑ لیں تو آپ کی ذمے داری تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر خوب نظر رکھنے والا ہے۔
٢١۔ جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے ہیں اور لوگوں میں سے انصاف کا حکم دینے والوں کو بھی قتل کرتے ہیں انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیں۔
٢٢۔ ایسے لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو گئے اور ان کا کوئی مددگار نہیں۔
٢٣۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیاہے انہیں کتاب خدا کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کج ادائی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتا ہے۔ ٭
٢٤۔ ان کا یہ رویہ اس لیے ہے کہ وہ کہتے ہیں:جہنم کی آگ ہمیںچند روز کے سوا چھو نہیںسکتی اور جو کچھ یہ بہتان تراشی کرتے رہے ہیں اس نے انہیں اپنے دین کے بارے میں دھوکے میں رکھا ہے۔٭
٢٥۔پس اس دن ان کا کیا حال ہو گا جب ہم ان سب کو جمع کریںگے جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا بدلہ پائے گا اور ان پر ظلم نہیںکیا جائے گا۔
٢٦۔ کہدیجیے: اے اللہ! (اے) مملکت (ہستی ) کے مالک تو جسے چاہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہے حکومت چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ٭
٢٧۔ تو رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور تو ہی جاندار سے بے جان اور بے جان سے جاندار پیدا کرتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے ۔ ٭
٢٨۔ مومنوں کو چاہیے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو سرپرست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے کوئی طرز عمل اختیار کرو (تو اس میںمضائقہ نہیں) اور اللہ تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔ ٭
٢٩۔ کہدیجیے:جو بات تمہارے سینوں میں ہے اسے خواہ تم پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرو اللہ بہرحال اسے جانتا ہے نیز آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
٣٠۔ اس دن ہر شخص اپنا نیک عمل حاضر پائے گا ، اسی طرح ہر برا عمل بھی، (اس روز) انسان یہ تمنا کرے گا کہ کاش یہ دن اس سے بہت دور ہوتا اور اللہ تمہیں اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ ٭
٣١۔ کہدیجیے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ ٭
٣٢۔ کہدیجیے: اللہ اور رسول کی اطاعت کرو، پس اگر وہ لوگ روگردانی کریں تو اللہ کافروں سے محبت نہیں کرتا۔ ٭
٣٣۔ بے شک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالمین پر برگزیدہ فرمایا ہے۔ ٭
٣٤۔ وہ اولاد جو ایک دوسرے کی نسل سے ہیں اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
٣٥۔ (وہ وقت یاد کرو) جب عمران کی عورت نے کہا: پروردگارا! جو (بچہ) میرے شکم میں ہے اسے تیری نذر کرتی ہوں، وہ(اور باتوں سے) آزاد ہو گا ، تو میری طرف سے قبول فرما،بے شک تو بڑاسننے والا، جاننے والا ہے۔
٣٦۔ پھر جب اسے جن چکی تو کہنے لگی: مالک میں نے لڑکی جنی اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس (مادرمریم) نے کیا جنااور لڑکا اس لڑکی جیسا نہیں ہو سکتا تھا اور میںنے اس (لڑکی) کا نام مریم رکھا اور میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ ٭
٣٧۔ چنانچہ اس کے رب نے ا س کی نذر (لڑکی) کو بوجہ احسن قبول فرمایا اور اس کی بہترین نشو و نما کا اہتمام کیا اور زکریا کو اس کا سرپرست بنا دیا، جب زکریا اس کے حجرہئ عبادت میں جاتے تو اس کے پاس طعام موجود پاتے،پوچھا: اے مریم! یہ (کھانا) تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟وہ کہتی ہے: اللہ کے ہاں سے، بےشک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔٭
٣٨۔اس مقام پر زکریانے اپنے رب کو پکارا، کہا: پروردگارا! مجھے اپنی عنایت سے صالح اولاد عطا کر، یقینا تو ہی دعا سننے والا ہے۔٭
٣٩۔چنانچہ جب وہ حجرہئ عبادت میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو فرشتوںنے آواز دی: اللہ تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمہ اللہ کی طرف سے ہے وہ اس کی تصدیق کرنے والا، سیادت کا مالک، خواہشات پر ضبط رکھنے والا، نبوت کے مقام پر فائز اور صالحین میں سے ہو گا۔٭
٤٠۔ زکریا بولے: پروردگارا! میرے ہاں لڑکا کہاں سے پیدا ہو گا جبکہ میں تو سن رسیدہ ہو چکا ہوں اور میری عورت بانجھ ہے، اللہ نے فرمایا :ایسا ہی ہو گا اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ ٭
٤١۔ عرض کیا : پالنے والے ! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما، اللہ نے فرمایا: تمہاری نشانی یہ ہو گی کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارے کے علاوہ بات نہ کرو گے اور اپنے رب کو خوب یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔ ٭
٤٢۔اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم!بےشک اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے۔ ٭
٤٣۔ اے مریم! اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔
٤٤۔ یہ غیب کی خبریںہم آپ کو وحی کے ذریعہ بتا رہے ہیں اور آپ تو ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی سرپرستی کرے اور نہ ہی آپ ان کے پاس (اس وقت) موجود تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے۔
٤٥۔ جب فرشتوں نے کہا: اے مریم ! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہو گا، وہ دنیا و آخرت میں آبرومند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا۔٭
٤٦۔ اور وہ لوگوں سے گہوارے میں اور بڑی عمر میںگفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہو گا۔
٤٧۔ مریم نے کہا: پروردگارا! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا؟ مجھے تو کسی شخص نے چھوا تک نہیں، فرمایا: ایسا ہی ہو گا اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے، جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتاہے ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔٭
٤٨۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔
٤٩۔ او ر (وہ) بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے رسول کی حیثیت سے (کہے گا:) میں تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر تمہارے پاس آیا ہوں، (وہ یہ کہ) میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی شکل کا مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے اور برص کے مریض کو تندرست اور مردے کو زندہ کرتا ہوں اور میں تم لوگوں کو بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور اپنے گھروںمیںکیا جمع کر کے رکھتے ہو، اگر تم صاحبان ایمان ہو تو اس میں تمہارے لیے نشانی ہے۔ ٭
٥٠۔ اور اپنے سے پیشتر آنے والی توریت کی تصدیق کرتا ہوں اور جو چیزیں تم پر حرام کر دی گئی تھیں ان میں سے بعض کو تمہاے لیے حلال کرنے آیا ہوں اور میں تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر تمہارے پا س آیا ہوں، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ٭
٥١۔ بیشک اللہ میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے لہٰذا تم اس کی بندگی کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔
٥٢۔ جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ وہ لوگ کفر اختیار کر رہے ہیں تو بولے: اللہ کی راہ میں کون میرا مددگار ہو گا؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے ہیںاور آپ گواہ رہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں۔
٥٣۔ہمارے پروردگار! جو تو نے نازل فرمایا اس پرہم ایمان لائے اور ہم نے رسول کی پیروی قبول کی پس ہمارا نام بھی گواہوں کے ساتھ لکھ دے۔٭
٥٤۔ان لوگوں نے(عیسیٰ کے قتل کی) تدابیر سوچیںاور اللہ نے (بھی جوابی) تدبیر فرمائی اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
٥٥۔ جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ اب میں تمہاری مدت پوری کر رہا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں (کی ناپاک سازشوں) سے پاک کرنے والا ہوں اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے انہیں قیامت تک کفر اختیار کرنے والوں پر بالادست رکھوں گا، پھر تم لوگوں کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر اس وقت میں تمہارے درمیان (ان باتوں کا) فیصلہ کروں گا جن میںتم اختلاف کرتے رہے ہو۔٭
٥٦۔پس جنہوں نے کفر اختیار کیا ان کو دنیا و آخرت میں سخت عذاب دوں گا اور ان کا کو ئی فریاد رس نہ ہو گا۔
٥٧۔اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اللہ انہیں ان کا پورا صلہ دے گا اور اللہ ظالموں سے ہرگز محبت نہیں کرتا۔
٥٨۔ یہ اللہ کی نشانیاں اور حکمت بھری نصیحتیںہیں جو ہم آپ کوپڑھ کر سنا رہے ہیں۔٭
٥٩۔بےشک اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اس نے پہلے اسے مٹی سے خلق کیا، پھر اسے حکم دیا: ہو جا اور وہ ہو گیا۔
٦٠۔ حق آپ کے رب کی طرف سے ہے، پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔
٦١۔ آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوںکو بلاتے ہیںاورتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیںاور تم اپنی عورتوں کوبلاؤ، ہم اپنے نفسوںکو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوںفریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ ٭
٦٢۔ یقینایہ برحق واقعات ہیںاور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک اللہ ہی کی ذات غالب آنے والی اور باحکمت ہے۔
٦٣۔ اگر یہ لوگ (قبول حق سے) پھر جائیں تو اللہ مفسدوں کو یقینا خوب جانتا ہے۔
٦٤۔ کہدیجیے:اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں، پس اگر نہ مانیں تو ان سے کہدیجیے: گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں۔
٦٥۔اے اہل کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں نزاع کرتے ہو حالانکہ توریت اور انجیل تو ابراہیم کے بعد نازل ہوئی ہیں؟ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
٦٦۔ جن باتوںمیںتمہیں کچھ علم نہ تھا ان میں تو تم نے جھگڑا کر ہی لیا، اب تم ایسی باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں؟ اور (یہ ساری باتیں) اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ٭
٦٧۔ ابراہیم نہ یہودی تھے نہ عیسائی بلکہ وہ یکسوئی کے ساتھ مسلم تھے اور وہ مشرکین میں سے ہرگز نہ تھے۔
٦٨۔ ابراہیم سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے ان کی پیروی کی اور اب یہ نبی اور ایمان لانے والے (زیادہ حق رکھتے ہیں) اور اللہ ایمان رکھنے والوں کا حامی اور کارساز ہے۔
٦٩۔ اہل کتاب کا ایک گروہ چاہتا ہے کہ تمہیںگمراہ کر دے، دراصل وہ اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں مگر وہ شعور نہیں رکھتے۔
٧٠۔ اے اہل کتاب ! تم اللہ کی آیات کا کیوںانکار کرتے ہو حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ کر رہے ہو؟
٧١۔ اے اہل کتاب! تم حق کو باطل کے ساتھ کیوں خلط کرتے ہو اور جان بوجھ کر حق کو چھپاتے ہو؟
٧٢۔ اور اہل کتاب کا ایک گروہ (آپس میں) کہتا ہے : ایمان لانے والوںپر جو کتاب نازل ہوئی ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو انکار کر دو شاید وہ (مسلمان) برگشتہ ہو جائیں۔٭
٧٣۔ اور (یہ لوگ آپس میںکہتے ہیں) اپنے دین کے پیروکاروںکے سوا کسی کی بات نہ مانو، کہدیجیے: ہدایت تو بے شک وہ ہے جو اللہ کی طرف سے ہو، (لیکن اہل کتاب باہم یہ کہتے ہیں:) کہیں ایسا نہ ہو جیسی چیز تمہیں ملی ہے ویسی کسی اور کو مل جائے یا وہ تمہارے رب کے حضور تمہارے خلاف حجت قائم کر لیں، ان سے کہدیجیے:فضل تو بے شک اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عطا فرمائے، اور اللہ بڑی وسعت والا، جاننے والا ہے.٭
٧٤۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مختص کرتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے.
٧٥۔ اور اہل کتاب میں کوئی ایسا بھی ہے کہ اگر آپ اسے ڈھیر دولت کا امین بنا دیں تو وہ آپ کو لوٹا دے گا، البتہ ان میں کوئی ایسا بھی ہے جسے اگر آپ ایک دینار کا بھی امین بنا دیں تو وہ آپ کو ادا نہیں کرے گا جب تک آپ اس کے سر پر کھڑے نہ رہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: ناخواندہ (غیر یہودی) لوگوں کے بارے میںہم پر کوئی ذمے داری نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ ٭
٧٦۔ہاں!(حکم خدا تو یہ ہے کہ) جو بھی اپنا عہد پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تقویٰ والوں کو یقینا دوست رکھتا ہے.
٧٧۔بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اوراللہ قیامت کے دن ان سے نہ تو کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
٧٨۔اور (اہل کتاب میں) یقینا کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان کو اس طرح پھیرتے ہیں کہ تمہیں یہ خیال گزرے کہ یہ خود کتاب کی عبارت ہے حالانکہ وہ کتاب سے متعلق نہیں اور وہ کہتے ہیں: یہ اللہ کی جانب سے ہے حالانکہ یہ اللہ کی جانب سے نہیں ہوتی اور وہ جان بوجھ کر اللہ کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہیں۔ ٭
٧٩۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تو اسے کتاب، حکمت اور نبوت عطا فرمائے پھر وہ لوگوں سے کہے:اللہ کی بجائے میرے بندے بن جاؤ بلکہ (وہ تو یہ کہے گا:) جو تم (اللہ کی) کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور جو کچھ پڑھتے ہو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم سچے ربانی بن جاؤ۔ ٭
٨٠۔ اور وہ تمہیں فرشتوں اور پیغمبروں کو رب بنانے کا حکم نہیں دے گا، کیا (ایک نبی) تمہیں مسلمان ہوجانے کے بعد کفر اختیار کرنے کا حکم دے سکتا ہے؟
٨١۔ اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر آئندہ کوئی رسول تمہارے پاس آئے اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کی تصدیق کرے تو تمہیں اس پر ضرور ایمان لانا ہو گا اور ضرور اس کی مدد کرنا ہو گی، پھر اللہ نے پوچھا: کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے (عہد کی) بھاری ذمہ داری لیتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہا ں! ہم نے اقرار کیا، اللہ نے فرمایا: پس تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ ٭
٨٢۔پس اس کے بعد جو (اپنے عہد سے) پھر جائیں وہی لوگ فاسق ہیں۔ ٭
٨٣۔ کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کے خواہاں ہیں؟حالانکہ آسمانوں اور زمین کی موجودات نے چار و ناچار اللہ کے آگے سر تسلیم خم کیے ہیں اور سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ ٭
٨٤۔ کہدیجیے: ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو ہماری طرف نازل ہوا ہے اس پر بھی نیز ان (باتوں) پر بھی جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئی ہیں اور جو تعلیمات موسیٰ و عیسیٰ اور باقی نبیوں کو اپنے رب کی طرف سے ملی ہیں (ان پر ایمان لائے ہیں)،ہم ان کے درمیان کسی تفریق کے قائل نہیں ہیں اور ہم تو اللہ کے تابع فرمان ہیں۔ ٭
٨٥۔اورجو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گااور ایساشخص آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔٭
٨٦۔ اللہ کیونکر اس قوم کو ہدایت کرے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئی ہے حالانکہ وہ گواہی دے چکے تھے یہ رسول برحق ہے اور ساتھ ہی اس کے پاس روشن دلائل بھی آ گئے تھے اور ایسے ظلم کے مرتکب ہونے والوں کو اللہ ہدایت نہیںکرتا۔ ٭
٨٧۔ان لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ، فرشتوں اور انسانوں سب کی لعنت ہے۔
٨٨۔ وہ ہمیشہ اس لعنت میں گرفتار رہیں گے، نہ ان کے عذاب میںتخفیف ہو گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔
٨٩۔سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کر لی، پس اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
٩٠۔ جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا پھر وہ اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہو گی، اور یہی لوگ گمراہ ہیں۔٭
٩١۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور کفر کی حالت میں مر گئے ان میں سے کسی سے اس قدر سونا بھی، جس سے روئے زمین بھر جائے، ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ اسے فدیہ میں دے دیں، ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہو گا اور ان کی مدد کرنے والے نہ ہوں گے۔
 

صرف علی

محفلین
پارہ : لن تنالوا 4​
٩٢۔ جب تک تم اپنی پسند کی چیزوں میں سے خرچ نہ کرو تب تک کبھی نیکی کو نہیں پہنچ سکتے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو یقینا اللہ اس سے خوب با خبر ہے۔ ٭
٩٣۔ بنی اسرائیل کے لیے کھانے کی ساری چیزیں حلال تھیں بجز ان چیزوں کے جو اسرائیل نے توریت نازل ہونے سے پہلے خود اپنے اوپر حرام کر لی تھیں، کہدیجیے: اگر تم سچے ہو تو توریت لے آؤ اور اسے پڑھو ۔ ٭
٩٤۔ اس کے بعد بھی جنہوں نے اللہ کی طرف جھوٹی نسبت دی وہی لوگ ظالم ہیں.
٩٥۔ کہدیجیے: اللہ نے سچ فرمایا، پس تم یکسوئی سے دین ابراہیمی کی پیروی کرو اور ابراہیم مشرکین میں سے نہ تھے۔
٩٦۔سب سے پہلا گھرجولوگوں(کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لیے بابرکت اور راہنما ہے ۔٭
٩٧۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقا م ابراہیم اور جو اس میںداخل ہوا وہ امان والاہو گیااور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے۔٭
٩٨۔کہدیجیے: اے اہل کتاب! تم اللہ کی نشانیوں کا انکار کیوں کرتے ہو جب کہ اللہ تمہارے اعمال کا مشاہدہ کرنے والا ہے۔ ٭
٩٩۔ کہدیجیے : اے اہل کتاب ! تم ایمان لانے والوں کو راہ خدا سے کیوں روکتے ہو؟ تم چاہتے ہو اس راہ میں کجی آئے حالانکہ تم خود اس پر شاہد ہو (کہ وہ راہ راست پر ہیں) اور اللہ تمہاری حرکتوں سے غافل نہیں ہے۔ ٭
١٠٠۔اے ایمان والو! اگر تم نے اہل کتاب میں سے کسی ایک گروہ کی بات مان لی تو وہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہیں کافر بنا دیں گے۔ ٭
١٠١۔ اور تم کس طرح پھر کفر اختیار کر سکتے ہو جبکہ تمہیں اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور تمہارے درمیان اللہ کا رسول بھی موجود ہے؟ اور جو اللہ سے متمسک ہو جائے وہ راہ راست ضرور پا لے گا۔
١٠٢۔اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو جیسا کہ اس کا خوف کرنے کا حق ہے اور جان نہ دینا مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔٭
١٠٣۔ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔ ٭
١٠٤۔اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ ٭
١٠٥۔ اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے اور ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہو گا ۔ ٭
١٠٦۔ قیامت کے دن کچھ لوگ سرخرو اور کچھ لوگ سیاہ رو ہوں گے، پس رو سیاہ لوگوں سے کہا جائے گا :کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا؟ پس اب اپنے اس کفر کے بدلے عذاب چکھو۔ ٭
١٠٧۔ اور جن کے چہرے روشن ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں ہو ںگے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
١٠٨۔ یہ ہیں اللہ کی نشانیاں جو صحیح انداز میں ہم آپ کو سنا رہے ہیں اور اللہ اہل عالم پر ظلم نہیں کرناچاہتا۔
١٠٩۔ اور آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور تمام معاملات کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے۔
١١٠۔تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو خود ان کے لیے بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ ایمان والے ہیں لیکن ان کی اکثریت فاسق ہے۔٭
١١١۔ یہ لوگ ایذا رسانی کے سوا تمہاراکچھ نہیں بگاڑ سکتے اور اگر تمہارے ساتھ لڑائی کی نوبت آئی تو یہ تمہیں پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے، پھر انہیں کہیں سے مدد نہیں ملے گی۔٭
١١٢۔یہ جہاںبھی ہوںگے ذلت و خواری سے دوچار ہوںگے ، مگر یہ کہ اللہ کی پناہ سے یا لوگوں کی پناہ سے متمسک ہو جائیں اور یہ اللہ کے غضب میں مبتلا رہیںگے اور ان پر محتاجی مسلط کر دی گئی ہے، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔ ان (جرائم کے ارتکاب ) کا سبب یہ ہے کہ وہ نافرمانی اور زیادتی کرتے تھے۔ ٭
١١٣۔ سب برابر نہیں ہیں، اہل کتاب میں کچھ (لوگ) ایسے بھی ہیں جو (حکم خدا پر) قائم ہیں، رات کے وقت آیات خدا کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود ہوتے ہیں۔ ٭
١١٤۔وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے، نیک کاموں کا حکم دیتے، برائیوں سے روکتے اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی صالح لوگوںمیں سے ہیں۔٭
١١٥۔ اور یہ لوگ نیکی کا جو بھی کام انجام دیں گے اس کی ناقدر ی نہ ہو گی اور اللہ تقویٰ والوں کوخوب جانتا ہے۔ ٭
١١٦۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے اللہ کے مقابلے میں ان کے اموال اور اولاد بلاشبہ کسی کام نہ آئیں گے اور یہ لوگ جہنمی ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔٭
١١٧۔ وہ اس دنیاوی زندگی میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا کی سی ہے جس میں تیز سردی ہو اور وہ ان لوگوںکی کھیتی پر چلے جنہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اسے تباہ کر دے اور اللہ نے ان پر کچھ بھی ظلم نہیں کیابلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ ٭
١١٨۔ اے ایمان والو! اپنوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ یہ لوگ تمہارے خلاف شر پھیلانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے، جس بات سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے وہی انہیں بہت پسند ہے، کبھی تو (ان کے دل کے کینہ و ) بغض کا اظہار ان کے منہ سے بھی ہوتا ہے، لیکن جو (بغض و کینہ) ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کہیں زیادہ ہے، بتحقیق ہم نے آیات کو واضح کر کے تمہارے لیے بیان کیا ہے۔ اگر تم عقل رکھتے ہو۔٭
١١٩۔ تم لوگ تو اس طرح کے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو جب کہ وہ تم سے محبت نہیںرکھتے حالانکہ تم پوری (آسمانی) کتاب کو مانتے ہو (مگر تمہاری کتاب کو نہیں مانتے) اور جب وہ تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں:ہم ایمان لے آئے ہیں اورجب خلوت میں جاتے ہیں تو تم پر غصے ے مارے انگلیاں کاٹ لیتے ہیں، ان سے کہدیجیے: تم اپنے غصے میں جل مرو، یقینا اللہ سینوں کے راز خوب جانتا ہے۔٭
١٢٠۔اگر تمہیں آسودگی میسرآتی ہے تو (وہ) انہیںبری لگتی ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو تو ان کی فریب کاری تمہیں کوئی نقصان نہیںپہنچا سکتی، بے شک اللہ ان کے تمام اعمال پر احاطہ رکھتا ہے۔ ٭
١٢١۔ اور (اے رسول! وہ وقت یاد کرو ) جب آپ صبح سویرے اپنے گھر والوں کے پاس سے نکل کر ایمان والوں کو جنگ کے لیے مختلف مورچوں پر متعین کر رہے تھے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
١٢٢۔(یہ اس وقت کی بات ہے) جب تم میں سے دو گروہ بزدلی دکھانے پر آمادہ ہو گئے تھے حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر توکل کریں۔
١٢٣۔ بتحقیق بدر میں اللہ نے تمہاری مدد کی جب تم کمزور تھے،پس اللہ سے ڈرو تاکہ شکر گزار بن جاؤ۔
١٢٤۔ جب آپ مومنین سے کہ رہے تھے: کیا تمہارے لیے کافی نہیں ہے کہ تمہارا پروردگار تین ہزار فرشتے نازل فرما کر تمہاری مدد کرے ؟
١٢٥۔ہاں اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو دشمن جب بھی تم پر اچانک حملہ کر دے تمہارا رب اسی وقت پانچ ہزار نشانزدہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔
١٢٦۔ اور یہ بات اللہ نے صرف تمہاری خوشی اور اطمینان قلب کے لیے کی ہے، اور فتح و نصرت صرف اللہ ہی کی جانب سے ہے جو بڑا غالب آنے والا ، حکمت والا ہے۔
١٢٧۔(اس مدد کا مقصد یہ ہے کہ) کافروں کے ایک دستے کو کاٹ دے یا انہیں ذلیل و خوار کر دے تاکہ وہ نامراد پسپا ہو جائیں۔ ٭
١٢٨۔(اے رسول) اس بات میں آپ کا کوئی دخل نہیں، چاہے تو اللہ انہیں معاف کرے اور چاہے تو سزا دے کیونکہ یہ لوگ ظالم ہے۔
١٢٩۔اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس کامالک اللہ ہے، اللہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ بڑا بخشنے والا، خوب رحم کرنے والا ہے۔
١٣٠۔ اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود نہ کھایا کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔٭
١٣١۔ اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
١٣٢۔ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پررحم کیا جائے۔٭
١٣٣۔اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جانے میں سبقت لو جس کی سعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو اہل تقویٰ کے لیے آمادہ کی گئی ہے۔
١٣٤۔ (ان متقین کے لیے)جو خواہ آسودگی میں ہوں یا تنگی میں ہر حال میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔٭
١٣٥۔اور جن سے کبھی نازیبا حرکت سرزد ہو جائے یاوہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھیں تو اسی وقت خدا کویاد کرتے ہیںاور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہوں کابخشنے والا کون ہے؟ اور وہ جان بوجھ کر اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔٭
١٣٦۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کی مغفرت اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور (نیک) عمل کرنے والوں کے لیے کیا ہی خوب جزا ہے۔
١٣٧۔تم سے پہلے مختلف روشیںگزر چکی ہیں پس تم روئے زمین پرچلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کاکیا انجام ہوا۔٭
١٣٨۔ یہ (عام) لوگوں کے لیے ایک واضح بیان ہے اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔
١٣٩۔ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو کہ تم ہی غالب رہوگے بشرطیکہ تم مومن ہو۔٭
١٤٠۔ اگر تمہیںکوئی زخم لگا ہے تو تمہارے دشمن کوبھی ویسا ہی زخم لگ چکا ہے اور یہ ہیں وہ ایام جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیںاوراس طرح اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ مومن کون ہیں اور چاہتا ہے کہ تم میں سے کچھ کو گواہ کے طور پر لیا جائے،کیونکہ اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔٭
١٤١۔نیز اللہ ایمان والوں کو چھانٹنا اور کافروں کو نابود کرنا چاہتا ہے ۔
١٤٢۔ کیا تم (لوگ) یہ سمجھتے ہیں کہ جنت میں یونہی چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیںکہ تم میں سے جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون ہیں؟٭
١٤٣۔ اور موت کے سامنے آنے سے قبل توتم مرنے کی تمنا کر رہے تھے، سو اب وہ تمہارے سامنے ہے جسے تم دیکھ رہے ہو۔
١٤٤۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تو بس رسول ہی ہیں، ان سے پہلے اور بھی رسول گزرچکے ہیں، بھلا اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤںپھر جائے گا وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اور اللہ عنقریب شکر گزاروں کو جزا دے گا۔٭
١٤٥۔ اور کوئی جاندار اذن خدا کے بغیر نہیں مر سکتا،اس نے (موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے اور جو (شخص اپنے اعمال کا) صلہ دنیا میں چاہے گا اسے ہم دنیا میں دیںگے اور جو آخرت کے ثواب کا خواہاں ہوگا اسے آخرت میں دیں گے اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو اچھا صلہ دیں گے۔٭
١٤٦۔ اور کتنے ہی ایسے نبی گزرے ہیں جن کی ہمراہی میں بہت سے اللہ والوں نے جنگ لڑی لیکن اللہ کی راہ میںآنے والی مصیبتوں کی وجہ سے نہ وہ بد دل ہوئے نہ انہوںنے کمزوری دکھائی اور نہ وہ خوار ہوئے اور اللہ تو صابروں کو دوست رکھتا ہے۔٭
١٤٧۔ اور ان کی دعا صرف یہ تھی: ہمارے پروردگار!ہمارے گناہوں سے اور ان زیادتیوں سے درگزر فرما جو ہم نے اپنے معاملات میں کی ہیں اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور کافروں کے مقابلے میںہماری مدد فرما۔٭
١٤٨۔چنانچہ اللہ نے انہیںدنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا بہتر ثواب بھی عطا کیا اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے.
١٤٩۔اے ایمان والو! اگرتم نے کافروں کی اطاعت کی تو وہ تمہیں الٹا پھیر دیں گے پھر تم بڑے خسارے میںپڑ جاؤ گے۔٭
١٥٠۔در اصل اللہ ہی تمہارا کارساز ہے اور وہی بہترین مددگار ہے۔
١٥١۔ ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب بٹھائیں گے کیونکہ یہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ ظالموں کے لیے برا ٹھکانا ہے۔٭
١٥٢۔اور بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا جب تم اللہ کے حکم سے کفار کو قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ تم خود کمزور پڑ گئے اور امر (رسول) میں تم نے باہم اختلاف کیا اور اس کی نافرمانی کی جب کہ اللہ نے تمہاری پسند کی بات (فتح و نصرت) بھی تمہیں دکھا دی تھی، تم میں سے کچھ طالب دنیا تھے اور کچھ آخرت کے خواہاں، پھر اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمہارا امتحان لے اور اللہ نے تمہارا قصورمعاف کر دیا اور اللہ ایمان والوںپر بڑافضل کرنے والاہے۔٭
١٥٣۔ (یاد کرو) جب تم چڑھائی کی طرف بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو پلٹ کر نہیں دیکھ رہے تھے، حالانکہ رسول تمہارے پیچھے تمہیں پکار رہے تھے، نتیجے کے طور پر اللہ نے تمہیں غم (رسول) کی پاداش میں غم دیا تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جائے اور جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر تمہیں دکھ نہ ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔٭
١٥٤۔ پھر جب اس غم کے بعد تم پر امن و سکون نازل فرمایا تو تم میںسے ایک گروہ تو اونگھنے لگا، جب کہ دوسرے گروہ کو اپنی جانوںکی پڑی ہوئی تھی، وہ ناحق اللہ پر زمانہ جاہلیت والی بدگمانیاںکر رہے تھے، کہ رہے تھے: کیا اس امر میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے؟ کہدیجیے: سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ لوگ جو بات اپنے اندرچھپائے رکھتے ہیں اسے آپ پر ظاہر نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں: اگر (قیادت میں) ہمارا کچھ دخل ہوتا تو ہم یہاںمارے نہ جاتے، کہدیجیے:اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تو بھی جن کے مقدر میں قتل ہونا لکھا ہے وہ خود اپنے مقتل کی طرف نکل پڑتے اور یہ (جو کچھ ہوا وہ اس لیے تھا) کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ کر واضح کر دے اور اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے ۔٭
١٥٥۔ دونوں فریقوں کے مقابلے کے روز تم میں سے جو لوگ پیٹھ پھیر گئے تھے بلاشبہ ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں پھسلا دیا تھا، تاہم اللہ نے انہیں معاف کردیا، یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، بردبار ہے۔٭
١٥٦۔ اے ایمان والو! کافروںکی طرح نہ ہونا جو اپنے عزیز و اقارب سے، جب وہ سفر یا جنگ پر جاتے ہیں توکہتے ہیں: اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے، اللہ ایسی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت پیدا کرنے کے لیے سبب بنا دیتا ہے، ورنہ حقیقتاً مارنے اور جلانے والا تو اللہ ہی ہے اور ساتھ تمہارے اعمال کا خوب مشاہدہ کرنے والا بھی اللہ ہی ہے.٭
١٥٧۔ اور اگر تم راہ خدا میں مارے جاؤ یا مر جاؤ تو اللہ کی طرف سے جو بخشش اور رحمت تمہیں نصیب ہو گی وہ ان سب سے بہت بہتر ہے جو وہ لوگ جمع کرتے ہیں.٭
١٥٨۔اور اگر تم مر جاؤ یا مارے جاؤ آخرکار اللہ کی بارگاہ میں اکھٹے کیے جاؤ گے۔
١٥٩۔(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔٭
١٦٠۔ (مسلمانو !) اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو پھر کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور اللہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کو پہنچے، لہٰذا ایمان والوں کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ پر بھروسا کریں۔٭
١٦١۔ اور کسی نبی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرتا ہے وہ قیامت کے دن اپنی خیانت کی ہوئی چیز کو (اللہ کے سامنے)حاضر کرے گا، پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔٭
١٦٢۔ کیا جو شخص اللہ کی خوشنودی کا تابع ہو وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو اللہ کے غضب میں گرفتار ہو اور جس کا ٹھکانا جہنم ہو؟ اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
١٦٣۔اللہ کے نزدیک ان کے لیے درجات ہیں اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔ ٭
١٦٤۔ ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتااور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔
١٦٥۔ (مسلمانو! ) جب تم پر ایک مصیبت پڑی تو تم کہنے لگے: یہ کہاں سے آئی؟ جبکہ اس سے دگنی مصیبت تم (فریق مخالف پر)ڈال چکے ہو، کہدیجیے: یہ خود تمہاری اپنی لائی ہوئی مصیبت ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔٭
١٦٦۔ اور دونوں فریقوں کے درمیان مقابلے کے روز تمہیں جومصیبت پہنچی وہ اللہ کے اذن سے تھی اور (اس لیے بھی کہ) اللہ دیکھناچاہتا تھا کہ مومن کون ہیں۔٭
١٦٧۔ اور یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ نفاق کرنے والے کون ہیں،جب ان سے کہا گیا: آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا دفاع کرو تو وہ کہنے لگے: اگر ہمیں علم ہوتا کہ (طریقے کی) جنگ ہو رہی ہے تو ہم ضرور تمہارے پیچھے ہو لیتے، اس دن یہ لوگ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب ہوچکے تھے، وہ اپنے منہ سے وہ بات کہتے ہیںجو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی اور جو کچھ یہ لوگ چھپاتے ہیںاللہ اس سے خوب آگاہ ہے٭
١٦٨۔ یہ وہ لوگ ہیں جوخود (پیچھے) بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں کہنے لگے: کاش! اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے،ان سے کہدیجیے: اگر تم سچے ہو تو موت کو اپنے سے ٹال دو۔ ٭
١٦٩۔ اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھوبلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔ ٭
١٧٠۔اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں اور جو لوگ ابھی ان کے پیچھے ان سے نہیں جا ملے ان کے بارے میں بھی خوش ہیں کہ انہیں (قیامت کے روز) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔
١٧١۔ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمت اور اس کے فضل پر خوش ہیں اور اس بات پربھی کہ اللہ مومنوں کا اجرضائع نہیں کرتا۔
١٧٢۔جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کے حکم کی تعمیل کی، ان میں سے جو لوگ نیکی کرنے والے اور تقویٰ والے ہیں، ان کے لیے اجرعظیم ہے۔ ٭
١٧٣۔ جب کچھ لوگوں نے ان (مومنین) سے کہا: لوگ تمہارے خلاف جمع ہوئے ہیں پس ان سے ڈرو تو (یہ سن کر) ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوا اور وہ کہنے لگے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔
١٧٤۔ چنانچہ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ کر آئے، انہیں کسی قسم کی تکلیف بھی نہیں ہوئی اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے اور اللہ بڑے فضل والاہے۔٭
١٧٥۔ یہ ( خبر دینے والا) شیطان ہے جو اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان لوگوںسے نہیں مجھ سے ڈرو۔٭
١٧٦۔اور (اے رسول) جو لوگ کفر میں سبقت لے جاتے ہیں(ان کی وجہ سے) آپ آزردہ خاطر نہ ہوں، یہ لوگ اللہ کو کچھ بھی ضرر نہیں دے سکیں گے، اللہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کے نصیب میں ان کا کوئی حصہ نہ رکھے اور ان کے لیے تو بڑا عذاب ہے۔٭
١٧٧۔ جنہوں نے ایمان کے مقابلے میں کفر خرید لیا ہے وہ بھی اللہ کو کوئی ضرر نہیں دے سکیں گے اور خود ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
١٧٨۔ اور کافر لوگ یہ گمان نہ کریں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے، ہم تو انہیں صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کر لیںاور آخرکار انکے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا۔٭
١٧٩۔اللہ مومنوں کو اس حال میں رہنے نہیں دے گا جس حالت میں اب تم لوگ ہو اور یہاں تک کہ پاک (لوگوں) کو ناپاک (لوگوں) سے الگ کر دے اور اللہ تمہیں غیب کی باتوں پرمطلع نہیں کرے گا بلکہ ( اس مقصد کے لیے) اللہ اپنے رسولوں میںسے جسے چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ، اگر تم ایمان لے آؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تمہیںاجر عظیم ملے گا.٭
١٨٠۔اور جو لوگ اللہ کے عطاکردہ فضل میں بخل سے کام لیتے ہیںوہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے بلکہ یہ ان کے حق میںبراہے، جس چیز میں وہ بخل کرتے تھے وہ قیامت کے دن گلے کا طوق بن جائے گی اور آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ۔٭
١٨١۔ بتحقیق اللہ نے ان لوگوں کی سن لی ہے جو کہتے ہیں: بے شک اللہ محتاج اور ہم بے نیاز ہیں، ان کی یہ بات اور ان کا انبیاء کو ناحق قتل کرنا بھی ہم ثبت کریں گے اور (روز قیامت) ہم ان سے کہیں گے: لو اب جلانے والے عذاب کا ذائقہ چکھو ۔٭
١٨٢۔ یہ خود تمہارے اپنے کیے کا نتیجہ ہے اور بے شک اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ ٭
١٨٣۔ جو لوگ کہتے ہیں: ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ جب تک کوئی رسول ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ آ کر کھا جائے، ہم اس پر ایمان نہ لائیں، کہدیجیے: مجھ سے پہلے بھی رسول روشن دلیل کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور جس کا تم ذکر کرتے ہو وہ بھی لائے تو اگر تم سچے ہو تو تم لوگوں نے انہیں کیوں قتل کیا ؟٭
١٨٤۔ (اے رسول ) اگر یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ) آپ سے پہلے بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیںجو معجزات، صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے۔٭
١٨٥۔ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تمہیں تو قیامت کے دن پورا اجر و ثواب ملے گا (در حقیقت) کامیاب وہ ہے جسے آتش جہنم سے بچا کرجنت میں داخل کر دیا جائے، (ورنہ) دنیاوی زندگی تو صرف فریب کاسامان ہے۔٭
١٨٦۔ (مسلمانو!)تمہیں ضرور اپنے مال و جان کی آزمائشوں کا سامنا کرنا ہو گا اور تم ضرور اہل کتاب اور مشرکین سے دل آزاری کی باتیں کثرت سے سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ معاملات میں عزم راسخ (کی علامت) ہے۔٭
١٨٧۔ اور (یاد کرنے کی بات ہے کہ) جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا تھا کہ تمہیںیہ کتاب لوگوں میں بیان کرنا ہو گی اور اسے پوشیدہ نہیں رکھنا ہو گا، لیکن انہوں نے یہ عہد پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اسے بیچ ڈالا، پس ان کا یہ بیچنا کتنا برا معاملہ ہے۔٭
١٨٨۔جو لوگ اپنے کیے پر خوش ہیں اور ان کاموں پر اپنی تعریفیں سننا چاہتے ہیں جو انہوں نے نہیں کیے، لہٰذا آپ انہیں عذا ب سے محفوظ نہ سمجھیں، بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔٭
١٨٩۔اور(وہ بچ کر کہاں جائیںگے) زمین و آسمان اللہ کے قبضہئ قدرت میں ہیں اور اللہ ہر شے پرقادر ہے۔
١٩٠۔بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں صاحبان عقل کے لیے نشانیاں ہیں۔
١٩١۔ جو اٹھتے بیٹھتے اوراپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میںغور و فکر کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں:) ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیںبنایا، تیری ذات(ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔٭
١٩٢۔ ہمارے پروردگار! تو نے جسے جہنم میں ڈالا اسے یقینا رسوا کیا پھر ظالموں کا کوئی مددگار بھی نہ ہوگا۔
١٩٣۔اے ہمارے رب! ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو ایمان کی دعوت دے رہا تھا: اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے، تو اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں سے درگزر فر ما اور ہماری خطاؤں کو دور فرما اور نیک لوگوں کے ساتھ ہمار ا خاتمہ فرما۔ ٭
١٩٤۔ پروردگارا ! تو نے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے جو وعدہ کیاہے وہ ہمیں عطا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا،بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔٭
١٩٥۔پس ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی ( اور فرمایا:) میں تم میںسے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم ایک دوسرے کا حصہ ہو، پس جنہوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری ر اہ میں ستائے گئے نیزجو لڑے اور مارے گئے ان سب کے گناہ ضروربالضرور دور کروں گا اور انہیں ایسے باغات میں ضرور بالضرور داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوںگی، یہ ہے اللہ کی طرف سے جزا اور اللہ ہی کے پاس بہترین جزا ہے۔٭
١٩٦۔ (اے رسول !) مختلف علاقوں میں کافروں کی آمد و رفت آپ کو کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ ٭
١٩٧۔یہ چند روزہ عیش و نوش ہے پھر ان کا ٹھکاناجہنم ہو گاجوبدترین جائے قرار ہے.٭
١٩٨۔ لیکن (اس کے برعکس) جو لوگ اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیںگے، یہ اللہ کی طرف سے (ان کے لیے) ضیافت ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہ سب سے بہتر ہے۔٭
١٩٩۔اور اہل کتاب میںسے کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا پر ایمان رکھتے ہیںاور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اور جو کچھ ان پر نازل کیا گیا ہے سب پر اللہ کے لیے خشوع کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نشانیوں کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہیں کرتے،انہی لوگوں کے لیے ان کے رب کے پاس اجر و ثواب ہے، بے شک اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے۔٭
٢٠٠۔اے ایمان والو!صبرسے کام لو استقامت کا ظاہر کرو، مورچہ بند رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو۔٭
 

صرف علی

محفلین
سورۃ نساہ ۔ مدنی ۔ آیات١٧٦​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔٭
٢۔ اور یتیموں کا مال ان کے حوالے کرو، پاکیزہ مال کو برے مال سے نہ بدلو اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھایا کرو، ایسا کرنا یقینا بہت بڑا گناہ ہے۔
٣۔ اور اگر تم لوگ اس بات سے خائف ہو کہ یتیم (لڑکیوں) کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو دوسری عورتیں تمہیں پسند آئیںان میںسے دو دو، تین تین یا چار چارسے نکاح کر لو، اگر تمہیںخوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت یا لونڈی جس کے تم مالک ہو (کافی ہے)، یہ ناانصافی سے بچنے کی قریب ترین صورت ہے۔٭
٤۔ اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیا کرو، ہاں! اگر وہ کچھ حصہ اپنی خوشی سے معاف کر دیں تو اسے خوشگواری سے بلا کراہت کھا سکتے ہو۔٭
٥۔ اور اپنے وہ مال جن پراللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو (البتہ) ان میں سے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو۔٭
٦۔ اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ یہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں رشد عقلی پاؤ تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیںگے (اور مال کا مطالبہ کریں گے) فضول اور جلدی میں ان کا مال کھا نہ جانا، اگر (یتیم کاسرپرست ) مالدار ہے تو وہ (کچھ کھانے سے) اجتناب کرے اور اگر غریب ہے تو معمول کے مطابق کھاسکتا ہے، پھر جب تم ان کے اموال ان کے حوالے کرو تو ان پرگواہ ٹھہرایا کرو اور حقیقت میں حساب لینے کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے ۔٭
٧۔اورجومال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں مردوںکا ایک حصہ ہے اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں تھوڑا ہو یا بہت عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، یہ حصہ ایک طے شدہ امر ہے ۔٭
٨۔ اور جب (میراث کی) تقسیم کے وقت قریب ترین رشتے دار یتیم اور مسکین موجود ہوں تو اس (میراث) میں سے انہیں بھی کچھ دیا کرو اور ان سے اچھے انداز میں بات کرو ۔٭
٩۔ اور لوگوں کو اس بات پر خوف لاحق رہنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑ جاتے جن کے بارے میں فکر لاحق ہوتی (کہ ان کا کیا بنے گا) تو انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور سنجیدہ باتیں کریں ۔
١٠۔ جو لوگ ناحق یتیموں کامال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی جہنم کی بھڑکتی آگ میں تپائے جائیںگے۔
١١۔ اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، پس اگر لڑکیاں دو سے زائد ہوں تو ترکے کا دو تہائی ان کا حق ہے اور اگر صرف ایک لڑکی ہے تو نصف (ترکہ) اس کا ہے اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر میت کی اولاد نہ ہو بلکہ صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تواس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا، پس اگر میت کے بھائی ہوں تو ماں کوچھٹا حصہ ملے گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور اس کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی، تمہیں نہیں معلوم تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں فائدے کے حوالے سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے، یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں، یقینا اللہ بڑا جاننے والا، باحکمت ہے۔٭
١٢ ۔اور تمہیںاپنی بیویوں کے ترکے میں سے اگر ان کی اولاد نہ ہو نصف حصہ ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں سے چوتھائی تمہارا ہو گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور تمہاری اولاد نہ ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گااور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکے میںسے آٹھواں حصہ ملے گا، یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولادہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پس اگر بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے، یہ تقسیم وصیت پرعمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی، بشرطیکہ ضرر رساں نہ ہو، یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا، بردبار ہے۔ ٭
١٣۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیںاور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
١٤۔اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی حدود سے تجاوز کرتا ہے اللہ اسے داخل جہنم کرے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گااور اس کے لیے ذلت آمیز سزا ہے۔
١٥۔اور تمہاری عورتوںمیں جو بدکاری کی مرتکب ہو جاتی ہیں ان پر اپنے (مسلمانوں) میں سے چار افراد کی گواہی لو، پھر اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت انہیں انجام تک پہنچا دے یا اللہ ان کے لیے کوئی اور سبیل پیدا کر دے۔٭
١٦۔ اور اگر تم میں سے دد اشخاص بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو اذیت دو پھر اگر وہ دونوں توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
١٧۔ اللہ کے ذمے صرف ان لوگوں کی توبہ (قبول کرنا) ہے جو نادانی میں گناہ کا ارتکاب کربیٹھتے ہیںپھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں، اللہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔٭
١٨۔ اور ایسے لوگوں کی توبہ (حقیقت میں توبہ ہی) نہیں جو برے کاموں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچتا ہے تو وہ کہ اٹھتا ہے :اب میںنے توبہ کی اور نہ ہی ان لوگوں کی (توبہ قبول ہے ) جو مرتے دم تک کافر رہتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ ٭
١٩۔ اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اپنی عورتوں کے جبراً وارث بنو اور اس نیت سے انہیںقید نہ رکھو کہ تم نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ حصہ واپس لے لو مگر یہ کہ وہ مبینہ بدکاری کی مرتکب ہوں اور ان کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں ناپسندہے تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں تو ناپسند ہو مگر اللہ اس میں بہت سی خوبیاں پیدا کر دے۔٭
٢٠۔ اور اگر تم لوگ ایک زوجہ کی جگہ دوسری زوجہ لینا چاہو اور ایک کو بہت سا مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لینا، کیا تم بہتان اور صریح گناہ کے ذریعے مال لینا چاہتے ہو؟٭
٢١۔ اور دیا ہوا مال تم کیسے واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے سے مباشرت کرچکے ہو اور وہ تم سے شدید عہد و قرار لے چکی ہیں؟ ٭
٢٢۔اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں مگر جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا، یہ ایک کھلی بے حیائی اور ناپسندیدہ عمل ہے اور برا طریقہ ہے۔٭
٢٣۔تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، تمہاری بھتیجیاں، تمہاری بھانجیاں، تمہاری وہ مائیںجو تمہیں دودھ پلا چکی ہوں اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں اور جن بیویوں سے تم مقاربت کر چکے ہو ان کی وہ بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں رہی ہوں، لیکن اگر ان بیویوں سے (صرف عقد ہوا ہو) مقاربت نہ ہوئی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے نیز تمہارے صلبی بیٹوںکی بیویاں اور دو بہنوں کا باہم جمع کرنا،مگر جوپہلے ہو چکاسو ہو چکا، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
 

صرف علی

محفلین
پارہ :وَالمُحصَنٰتُ 5​
٢٤۔ اور شوہر دار عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں، (یہ) تم پر اللہ کا فرض ہے اور ان کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں ان عورتوں کو تم مال خرچ کر کے اپنے عقد میں لا سکتے ہو بشرطیکہ (نکاح کامقصد) عفت قائم رکھنا ہو بے عفتی نہ ہو، پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس کی رضا مندی سے (مہر میں کمی بیشی) کرو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،یقینا اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔ ٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢٤۔ فَمَا اِستَمتَعتُم بِہ مِنھُنَّ: یہ آیت متعہ مشہور ہے جس میں متعہ کی تشریع کا نہیں، بلکہ پہلے سے تشریع شدہ متعہ کے مہر کا حکم بیان ہو رہا ہے۔
عقد متعہ سے منکوحہ عورت شرعاً زوجہ شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ عصر رسالت (ص) میں جب متعہ بالاجماع جائز اور رائج تھا تو اس وقت اس کو زوجہ شمار کیا گیا، جبکہ مملوکہ کنیز کا ذکر زوجہ کے مقابلہ میں آیا ہے۔ چنانچہ مکہ میں نازل ہونے والے سورہ مؤمنون آیت ٥، ٦ میں فرمایا: والذین ھم لفروجھم حفظون O الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم ۔ مؤمن اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھتے ہیں سوائے اپنی زوجات اور کنیز کے۔ ظاہر ہے کہ متعہ کی عورت یقینا کنیز نہیں ہے۔ اگروہ زوجہ بھی نہیں ہے تو یہ تیسری عورت ہو گئی، جبکہ نکاح متعہ عہد رسالت میں بالخصوص مکی زندگی میں (بعض کے نزدیک جنگ خیبر اور بعض کے نزدیک فتح مکہ تک) جائز اور رائج تھا، تو اگر عقد متعہ کی عورت زوجہ نہیں ہے تو تیسری قسم کی عورت کے عنوان سے اس کا ذکر آیت میں ضرور آتا۔ چنانچہ امام قرطبی تفسیر ٥ : ١٣٢ میں لکھتے ہیں: لم یختلف العلماء من السلف و الخلف ان المتعۃ نکاح الی اجل لامیراث فیہ۔ علمائے سلف اور بعد کے علماء کو اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ متعہ ایک مدت کا نکاح ہے، البتہ اس (زوجین) میں میراث نہیںہے۔
اصحاب رسول (ص) میں سے حضرت ابن عباس، عمران بن حصین، ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود نے روایت کی ہے کہ یہ آیت متعہ کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ ائمہ و اصحاب و تابعین حلیت متعہ کے قائل تھے: ٭ حضرت علی بن ابی طالب (ع) ٭ ابن عباس ٭ عمران بن حصین ٭جابر بن عبد اللہ انصاری ٭ عبداللہ بن مسعود ٭ عبداللہ بن عمر ٭ ابوسعید خدری ٭ ابی بن کعب ٭ ابوذر غفاری ٭ زبیر بن عوام ٭ اسماء بنت ابی بکر ٭ سمرہ بن جندب ٭ سلمہ بن امیہ ٭ معبد ابن امیہ ٭ خالد بن مہاجر ٭ ربیعہ بن امیہ۔
ایک قراء ت اس آیت کی یہ ہے: فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی فاتوھن اجورھن یعنی پھر جن عورتوں سے ایک مقررہ مدت تک تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو۔اس قراء ت کو ابن عباس، ابی بن کعب، حبیب بن ثابت، سعید بن جبیر، سدی اور عبد اللہ بن مسعود نے اختیار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو روح المعانی ٥ : ٥، تفسیر طبری ٥ : ٩ ، تفسیر کشاف، قرطبی، شرح صحیح مسلم نووی ٩ : ١٨١ وغیرہ۔ حضرات ابن عباس، ابی بن کعب اور عبد اللہ مسعود جیسے معلمین قرآن کی قراء ت کو شاذہ نہیں کہا جا سکتا۔ غیر امامیہ علماء کا یہ مؤقف ہے کہ قراء ت شاذہ کے مطابق نماز میں قرآن کی تلاوت درست ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قراء ت شاذہ سے قرآن ثابت ہو جاتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود متعہ پر پابندی کیوں لگی ہے؟ یہ جانے کے لیے صحیح مسلم، باب نکاح المتعۃ کا مطالعہ کافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢٥ ۔ اور اگر تم میں سے کوئی مالی رکاوٹ کی وجہ سے آزاد مسلم عورتوں سے نکاح کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو (اسے چاہیے کہ) وہ تمہاری مملوکہ مسلمان لونڈی سے نکاح کرے اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے، تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کا حصہ ہو لہٰذا ان کے سرپرستوںکی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرو اور شائستہ طریقے سے ان کے مہر ادا کرو وہ نکاح کے تحفظ میں رہنے والی ہوں بدچلنی کا ارتکا ب کرنے والی نہ ہوں اور درپردہ آشنا رکھنے والی نہ ہوں، پھر جب وہ (کنیزیں) نکاح میں آنے کے بعد بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان کے لیے اس سزا کا نصف ہے جو آزاد عورتوں کے لیے مقرر ہے، یہ اجازت اسے حاصل ہے جسے (شادی نہ کرنے سے) تکلیف اور مشقت کا خطرہ لاحق ہو، لیکن صبر کرنا تمہارے حق میں زیادہ اچھا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا،رحم کرنے والا ہے۔
٢٦۔اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے (اپنے احکام) کھول کھول کر بیان کرے اور تمہیں گزشتہ اقوام کے طریقوں پر چلائے نیز تمہاری طرف توجہ کرے اور اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔ ٭
٢٧۔ اور اللہ (اپنی رحمتوں کے ساتھ) تم پر توجہ کرنا چاہتا ہے اور جو لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بڑی بے راہ روی میں پڑ جاؤ ۔ ٭
٢٨۔ اور اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ ٭
٢٩۔ اے ایمان والو! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھایا کرو مگر یہ کہ آپس کی رضامندی سے تجارت کرو ( تو کوئی حرج نہیں ہے) اور تم اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔
٣٠۔اور جو شخص ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا ہم اسے (جہنم کی) آگ میں جھلسا دیں گے اور یہ کام اللہ کے لیے آسان ہے۔
٣١۔ اگر تم ان بڑے بڑے گناہوںسے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیںگے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے۔ ٭
٣٢۔ اور جس چیز میں اللہ نے تم میںسے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان کی تمنا نہ کیا کرو، مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ مل جائے گا اور عورتوں کو اپنی کمائی کا حصہ مل جائے گا اور اللہ سے اس کا فضل مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔
٣٣۔اور ہم نے ان سب کے ترکوں کے وارث مقرر کیے ہیں جو ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ جاتے ہیں اور جن سے تم نے معاہدہ کیا ہے انہیں بھی ان کے حق دے دو، بے شک اللہ ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے۔
٣٤۔ مرد عورتوں پر نگہبان ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے، پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں، اللہ نے جن چیزوں (مال اور آبرو) کا تحفظ چاہا ہے، (خاوند کی) غیر حاضری میں ان کی محافظت کرتی ہیں اورجن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو (اگر باز نہ آئیں تو) خواب گاہ الگ کر دو اور (پھر بھی باز نہ آئیں تو) انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان کے خلاف بہانہ تلاش نہ کرو، یقینا اللہ بالاتر اور بڑا ہے.٭
٣٥۔ اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک منصف مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک منصف عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو اگر وہ دونوں اصلاح کی کوشش کریں تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کرے گا، یقینا اللہ بڑا علم رکھنے والا، با خبر ہے. ٭
٣٦۔ اور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کاشریک قرار نہ دو اور ماں باپ، قریب ترین رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب ترین رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پاس بیٹھنے والے رفیقوں، مسافروں اور جو (غلام و کنیز) تمہارے قبضے میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو، بے شک اللہ کو غرور کرنے والا، (اپنی بڑائی پر) فخر کرنے والا پسند نہیں۔٭
٣٧۔ (وہ لوگ بھی اللہ کو پسندنہیں) جو خود بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی تلقین کرتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل سے جو انہیںعطا کیا ہے اسے چھپاتے ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت آمیز سزا مہیا کر رکھی ہے۔ ٭
٣٨۔اور (وہ لوگ بھی اللہ کوپسند نہیں) جو اپنا مال صرف لوگوں کو دکھانے کے لےے خرچ کرتے ہیں اور وہ نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیںاور نہ روز آخرت پر اور (بات یہ ہے کہ) شیطان جس کا رفیق ہو جائے تو وہ بہت ہی برا رفیق ہے۔ ٭
٣٩۔ اور اگر یہ لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان لاتے اور اللہ کی عطا کردہ روزی میں سے خرچ کرتے تو اس میں انہیں کوئی نقصان نہ تھا اور اللہ تو ان کا حال اچھی طرح جانتا ہے ۔ ٭
٤٠۔ یقینا اللہ ( کسی پر) ذرہ برابر بھی ظلم نہیںکرتا اور اگر (کسی کی ) ایک نیکی ہو تو (اللہ) اسے دگنا کر دیتا ہے اور اپنے ہاں سے اسے اجرعظیم عطا فرماتا ہے۔ ٭
٤١۔پس (اس دن) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیںگے اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان لوگوں پربطور گواہ پیش کریں گے۔ ٭
٤٢۔ اس روز کافر اور جو لوگ رسول کی نافرمانی کرتے رہے تمنا کریںگے کہ کاش (زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دفن ہو کر) زمین کے برابر ہوجائیں اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے۔
٤٣۔اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو یہاں تک کہ تم جان لو کہ تم کیا کہ رہے ہو اور جنابت کی حالت میںبھی، یہاں تک کہ غسل کر لو مگریہ کہ کسی راستے سے گزر رہے ہو اور اگر تم بیمارہویاسفرمیں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے ہمبستری کی ہو اور تمہیںپانی میسرنہ آئے تو پاک مٹی پر تیمم کرو چنانچہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو،بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔٭
٤٤۔ کیا آپ نے ان لوگوں کاحال نہیں دیکھا جنہیں کتاب کاکچھ حصہ دیا گیا تھا (لیکن) وہ ضلالت خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم (بھی) گمراہ ہو جاؤ۔٭
٤٥۔ اور اللہ تمہارے دشمنوں کو بہتر جانتا ہے اورتمہاری سرپرستی کے لیے اللہ کافی ہے اور تمہاری مدد کے لیے بھی اللہ کافی ہے۔ ٭
٤٦۔ یہودیوںمیں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے سنا اور نہ مانا اور سنو (لیکن) تیری بات نہ سنی جائے اور اپنی زبانوں کو مروڑ کر دین پر طعن کرتے ہوئے کہتے ہیں:" راعنا " اور اگر وہ کہتے: ہم نے سنا اور مان لیا اور سنیے ہم پر نظر کیجیے تو یہ ان کے حق میں بہتر اور درست ہوتا لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے اس لیے سوائے تھوڑے لوگوں کے وہ ایمان نہیں لاتے۔٭
٤٧۔ اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی اس پر ایمان لے آؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے جو تمہارے پاس موجود کتاب کی بھی تصدیق کرتا ہے قبل اس کے کہ ہم (بہت سے) چہروں کو بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا ہم ان پر اسی طرح لعنت کریں جس طرح ہم نے ہفتہ (کے دن) والوں پر لعنت کی اور اللہ کا حکم تو ہو کر رہتا ہے ۔٭
٤٨۔ اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے بارے میں وہ چاہے گا معاف کر دے گا اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا اس نے تو عظیم گناہ کا بہتان باندھا۔٭
٤٩۔کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاکباز خیال کرتے ہیں، (نہیں) بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پرذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہو گا۔٭
٥٠۔دیکھ لیجیے: یہ لوگ اللہ پر کیسے جھوٹ باندھتے ہیں اور صریح گناہ کے لیے یہی کافی ہے۔
٥١۔ کیا آپ نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ہے؟ جو غیر اللہ معبود اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں: یہ لوگ تو اہل ایمان سے بھی زیادہ راہ راست پر ہیں۔٭
٥٢۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے اس کے لیے آپ کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔٭
٥٣۔ کیا حکومت میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ (دوسرے) لوگوں کو کوڑی برابر بھی نہ دیتے۔٭
٥٤۔کیا یہ( دوسرے) لوگوںسے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے؟ (اگر ایسا ہے) تو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انہیںعظیم سلطنت عنایت کی۔٭
٥٥۔ پس ان میں سے کچھ اس پر ایمان لے آئے اور کچھ نے روگردانی کی اور (ان کے لیے) جہنم کی بھڑکتی آگ ہی کافی ہے۔
٥٦۔جنہوں نے ہماری آیات کوماننے سے انکار کیا ہے یقینا انہیں ہم عنقریب آگ میں جھلسا دیں گے، جب بھی ان کی کھالیں گل جائیں گی (ان کی جگہ) ہم دوسری کھالیں پیدا کریں گے تاکہ یہ لوگ عذاب چکھتے رہیں، بے شک اللہ غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔
٥٧۔اور جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہیں انہیں ہم جلد ہی ایسی جنتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ابد تک رہیں گے، جن میں ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہیں اور ہم انہیں گھنے سایوں میں داخل کریں گے۔
٥٨۔بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔٭
٥٩۔ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا۔ ٭
٦٠۔کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیںکہ جو کتاب آپ پر نازل ہو ئی اور جو کچھ آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے، (سب) پر ایمان لائے ہیں مگر اپنے فیصلوں کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں طاغوت کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اور شیطان انہیں گمراہ کر کے راہ حق سے دور لے جانا چاہتا ہے۔
٦١۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آ جاؤ تو آپ ان منافقین کو دیکھتے ہیں کہ آپ کی طرف آنے سے کتراتے ہوئے ٹال مٹول کرتے ہیں۔٭
٦٢۔پھر ان کا کیا حال ہو گا جب ان پر اپنے ہاتھوں لائی ہوئی مصیبت آ پڑے گی؟ پھر وہ آپ کے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے آئیںگے (اور کہیں گے:) قسم بخدا ہم تو خیر خواہ تھے اور باہمی توافق چاہتے تھے۔
٦٣۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا ہے، آپ انہیں خاطر میںنہ لائیے اور انہیں نصیحت کیجیے اور ان سے ان کے بارے میں ایسی باتیںکیجیے جو مؤثر ہوں۔
٦٤۔اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ باذن خدا اس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔٭
٦٥۔ (اے رسول) تمہارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیںہوسکتے جب تک اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو منصف نہ بنائیں پھر آپ کے فیصلے پر ان کے دلوںمیں کوئی رنجش نہ آئے بلکہ وہ (اسے) بخوشی تسلیم کریں۔٭
٦٦۔اور اگر ہم ان پر اپنے آپ کو ہلاک کرنا اور اپنے گھروں کو خیرباد کہنا واجب قرار دے دیتے تو ان میں سے کم لوگ ہی اس پر عمل کرتے حالانکہ اگر یہ لوگ انہیں کی جانے والی نصیحتوں پر عمل کرتے تو یہ ان کے حق میں بہتر اور ثابت قدمی کا موجب ہوتا۔٭
٦٧۔ اور اس صورت میں ہم انہیں اپنی طرف سے اجر عظیم عطا کرتے ۔
٦٨۔اور ہم انہیں سیدھے راستے کی رہنمائی (بھی) کرتے۔
٦٩۔اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ انبیائ، صدیقین، گواہوں اور صالحین کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں۔٭
٧٠۔ یہ فضل اللہ کی طرف سے (ملتا) ہے اور علم و آگاہی کے لیے تواللہ ہی کافی ہے۔٭
٧١۔ اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان اٹھا لو پھر دستہ دستہ یا سب مل کر نکل پڑو۔٭
٧٢۔البتہ تم میں کوئی ایسا بھی ہے جو (جہاد سے) ضرور کتراتاہے پھر اگر تم پر کوئی مصیبت آ پڑے تو کہتا ہے: اللہ نے مجھ پر (خاص) فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ حاضر نہ تھا۔٭
٧٣۔ اور اگر تم پر اللہ کی طرف سے فضل ہو جائے تو وہ اس طرح کہ گویا تم میں اور اس میں کوئی دوستی نہ تھی، ضرور کہے گا: کاش میںبھی ان کے ساتھ ہوتا تو میں بھی بڑی کامیابی حاصل کرتا۔٭
٧٤۔ اب ان لوگوں کو اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے جو اپنی دنیاوی زندگی کو آخرت کی زندگی کے بدلے فروخت کرتے ہیں اور جو راہ خدا میں لڑتا ہے وہ مارا جائے یا غالب آئے (دونوں صورتوں میں) ہم اسے عنقریب اجرعظیم دیں گے۔٭
٧٥۔ (آخر) تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس کیے گئے مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو پکارتے ہیں:اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا دے اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارے لیے مددگار بنا دے؟٭
٧٦۔ایمان لانے والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیںپس تم شیطان کے حامیوں سے لڑو (مطمئن رہو کہ) شیطان کی عیاریاں یقینا نا پائیدار ہیں۔٭
٧٧۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہاگیا تھا: اپنا ہاتھ روکے رکھو ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو؟ پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے کچھ تو لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرا جاتاہے یا اس سے بھی بڑھ کر اور کہنے لگے: ہمارے پروردگار! تونے ہم پر جہاد کیوں فرض کیا ؟ ہمیں تھوڑی مہلت کیوں نہ دی؟ ان سے کہدیجیے: دنیا کا سرمایہ بہت تھوڑا ہے اور متقی (انسان) کے لیے نجات اخروی زیادہ بہتر ہے اور تم پرذرہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔٭
٧٨۔(تمہیں موت کاخوف ہے) تم جہاں کہیں بھی ہو خواہ تم مضبوط قلعوں میں بند رہو موت تمہیں آ لے گی اور انہیں اگر کوئی سکھ پہنچے تو کہتے ہیں: یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انہیںکوئی دکھ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ آپ کی وجہ سے ہے، کہدیجیے: سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، پھر انہیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتی؟٭
٧٩۔تمہیں جو سکھ پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو دکھ پہنچے وہ خود تمہاری اپنی طرف سے ہے اور ہم نے آپ کو لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور (اس پر) گواہی کے لیے اللہ کافی ہے۔٭
٨٠۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے منہ پھیر لیا تو ہم نے آپ کو ان کا نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا ۔٭
٨١۔ اور یہ لوگ (منہ پر تو) کہتے ہیں: اطاعت کے لیے حاضر (ہیں) لیکن جب آپ کے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کی باتوں کے خلاف رات کو مشورہ کرتا ہے، یہ لوگ راتوں کو جو مشورہ کرتے ہیں اللہ اسے لکھ رہا ہے۔پس(اے رسول)آپ ان کی پرواہ نہ کریں اور اللہ پر بھروسا کریں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔٭
٨٢۔ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یہ لوگ اس میں بڑا اختلاف پاتے۔
٨٣۔ اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر پہنچتی ہے تو وہ اسے خوب پھیلاتے ہیں اور اگر وہ اس خبر کو رسول اور اپنے میں سے صاحبان امر تک پہنچا دیتے تو ان میںسے اہل تحقیق اس خبر کی حقیقت کو جان لیتے اور اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اوراس کی رحمت نہ ہوتی تو چند ایک افراد کے سوا باقی تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔٭
٨٤۔(اے رسول) راہ خدا میں قتال کیجیے، آپ پر صرف اپنی ذات کی ذمے داری ڈالی جاتی ہے اور آپ مومنین کو ترغیب دیں، عین ممکن ہے کہ اللہ کافروں کا زور روک دے اور اللہ بڑا طاقت والا اور سخت سزا دینے والا ہے ۔
٨٥۔ جو شخص اچھی بات کی حمایت اور سفارش کرتا ہے وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو بری بات کی حمایت اور سفارش کرتا ہے وہ بھی اس میں سے کچھ حصہ پائے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔٭
٨٦۔ اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا انہی الفاظ سے جواب دو، اللہ یقینا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔٭
٨٧۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تم سب کو بروز قیامت جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ضرور جمع کرے گا اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟
٨٨۔ پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو؟ اور اللہ نے ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے انہیں اوندھا کر دیا ہے، کیا تم لوگ اللہ کے گمراہ کردہ کو ہدایت دینا چاہتے ہو؟ حالانکہ جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پاؤ گے۔٭
٨٩۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہو جاؤ جیسے کافر وہ خود ہیں تاکہ تم سب یکساں ہو جاؤ، لہٰذا ان میںسے کسی کو اپنا حامی نہ بناؤ جب تک وہ راہ خدا میں ہجرت نہ کریں، اگر وہ (ہجرت سے) منہ موڑ لیں توا نہیں پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل کر دو اور ان میںسے کسی کو اپنا حامی اور مددگارنہ بناؤ۔٭
٩٠۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایسے لوگوں سے جا ملیں جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو یا وہ اس بات سے دل تنگ ہو کر تمہارے پاس آ جائیں کہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں اور اگر اللہ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا اور وہ تم سے ضرور لڑتے لہٰذا اگر وہ تم سے الگ رہیں اور تم سے جنگ نہ کریں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام بھیجیں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر بالادستی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے.٭
٩١۔ عنقریب تم دوسری قسم کے ایسے (منافق) لوگوں کو پاؤ گے جو تم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں، لیکن اگر فتنہ انگیزی کا موقع ملے تو اس میں اوندھے منہ کود پڑتے ہیں، ایسے لوگ اگر تم لوگوں سے جنگ کرنے سے باز نہ آئیں اور تمہاری طرف صلح کا پیغام نہ دیںاور دست درازی سے بھی باز نہ آئیں تو جہاں کہیں وہ ملیں انہیں پکڑو اور قتل کرو اور ان پر ہم نے تمہیں واضح بالادستی دی ہے۔
٩٢۔ اور کسی مومن کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کر دے مگر غلطی سے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے وہ ایک مومن غلام آزاد کرے اور مقتول کے ورثاء کو خونبہا ادا کرے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پس اگر وہ مومن مقتول تمہاری دشمن قوم سے تھا تو (قاتل) ایک مومن غلام آزاد کرے اور اگر وہ مقتول ایسی قوم سے تعلق رکھتا تھا جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے ورثاء کو خونبہا دیا جائے اور ایک غلام آزاد کیا جائے اور جسے غلام میسر نہیں وہ دو ماہ متواتر روزے رکھے، یہ ہے اللہ کی طرف سے توبہ اور اللہ بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔٭
٩٣۔اور جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہو گی اور ایسے شخص کے لیے اس نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔٭
٩٤۔ اے ایمان والو! جب تم راہ خدا میں (جہاد کے لیے) نکلو توتحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو، تم دنیاوی مفاد کے طالب ہو، جب کہ اللہ کے پاس غنیمتیں بہت ہیں، پہلے خود تم بھی تو ایسی حالت میںمبتلا تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا تحقیق سے کام لو، یقینا اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔ ٭
٩٥۔ بغیر کسی معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے مومنین اور راہ خدا میںجان و مال سے جہاد کرنے والے یکساں نہیں ہو سکتے، اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے، گو اللہ نے سب کے لیے نیک وعدہ فرمایا ہے، مگر بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔٭
٩٦۔(ان کے لیے) یہ درجات اور مغفرت اور رحمت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
٩٧۔ وہ لوگ جو اپنے آپ پر ظلم کر ر ہے ہوتے ہیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں: تم کس حال میں مبتلا تھے؟ وہ کہتے ہیں: ہم ہم اس سر زمین میںبے بس تھے، فرشتے کہیں گے: کیا اللہ کی سرزمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ پس ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔٭
٩٨۔بجز ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کے جو نہ کوئی چارہ کر سکتے ہیں اور نہ کوئی راہ پاتے ہیں۔٭
٩٩۔ عین ممکن ہے اللہ انہیں معاف کر دے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔٭
١٠٠۔ اور جو اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میںبہت سی پناہ گاہیں اور کشائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے پھر راستے میں اسے موت آ جائے تواس کا اجر اللہ کے ذمے ہو گیا، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا،رحم کرنے والا ہے۔٭
١٠١۔اور جب تم زمین میںسفر کے لیے نکلو تو اگر تمہیں کافروںکے حملے کا خوف ہو تو تمہارے لیے نماز قصر پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ کافر لوگ یقینا تمہارے صریح دشمن ہیں۔٭
١٠٢۔ اور (اے رسول) جب آپ خود ان کے درمیان موجود ہوں اور آپ خود ان کے لیے نماز قائم کریں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ مسلح ہوکر نماز پڑھے پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو ان کو تمہارے پیچھے ہونا چاہیے اور دوسرا گروہ جس نے نماز نہیںپڑھی ان کی جگہ آئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھے اور اپنے بچاؤ کا سامان اور اسلحہ لیے رہیں، کیونکہ کفار اس تاک میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو یکبارگی حملہ کر دیںاور اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف میں ہو یا تم بیمار ہو تو اسلحہ اتار رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر اپنے بچاؤ کا سامان لیے رہو،بے شک اللہ نے تو کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔٭
١٠٣۔ پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے (ہرحال میں) اللہ کو یاد کرو، پھر جب اطمینان حاصل ہو جائے تو (معمول کی) نماز قائم کرو، بے شک وقت کی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنا مومنین پر فرض ہے۔٭
١٠٤۔ اور تم ان کافروں کے تعاقب میں تساہل سے کام نہ لینا اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی ایسی ہی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں تکلیف پہنچتی ہے اور اللہ سے جیسی امید تم رکھتے ہو ویسی امید وہ نہیں رکھتے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔
١٠٥۔(اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں۔٭
١٠٦۔اور اللہ سے طلب مغفرت کریں یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
١٠٧۔ اورجو لوگ اپنی ذات سے خیانت کرتے ہیں، آپ ان کی طرف سے ان کا دفاع نہ کریں، بے شک اللہ خیانت کار اور گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔٭
١٠٨۔ یہ لوگ(اپنی حرکتوں کو) لوگوں سے تو چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتے اور اللہ تو اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتاہے جب یہ لوگ اللہ کی ناپسندیدہ باتوںمیں رات کو تدبیریں سوچتے ہیں اور اللہ ان کی تمام حرکات پر احاطہ رکھتا ہے۔٭
١٠٩۔ دیکھو! تم نے دنیاوی زندگی میں تو ان کا دفاع کیا مگر بروز قیامت ان کا دفاع کون کرے گا یاان کا وکیل کون ہو گا؟
١١٠۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو وہ اللہ کو درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا پائے گا۔٭
١١١۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے وہ اپنے لیے وبال کسب کرتا ہے اور اللہ تو بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔
١١٢۔ اور جس نے خطا یا گناہ کر کے اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپ دیا تو یقینا اس نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔٭
١١٣۔ اور (اے رسول) اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو غلطی میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا حالانکہ وہ خود کو ہی غلطی میں ڈالتے ہیں اور وہ آپ کا تو کوئی نقصان نہیں کر سکتے اور اللہ نے آپ پر کتا ب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان باتوں کی تعلیم دی جنہیں آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔٭
١١٤۔ ان لوگوں کی بیشتر سرگوشیوںمیں کوئی خیر نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی صدقہ، نیکی یا لوگوں میں اصلاح کی تلقین کرے اور جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے ایسا کرے تو اسے عنقریب ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔٭
١١٥۔ اور جو شخص ہدایت کے واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کر ے اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور ہم اسے جہنم میں جھلسا دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے۔٭
١١٦۔ اللہ صرف شرک سے درگزر نہیں کرتا اس کے علاوہ جس کو چاہے معاف کر دیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ گمراہی میں دور تک چلا گیا۔
١١٧۔ وہ اللہ کے سوا صرف مؤنث صفت چیزوں کو پکارتے ہیں اور وہ تو بس باغی شیطان ہی کو پکارتے ہیں۔٭
١١٨۔ اللہ نے اس پر لعنت کی اور اس نے اللہ سے کہا: میں تیرے بندوں میں سے ایک مقررہ حصہ ضرور لے کر رہوں گا۔٭
١١٩۔ اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور انہیںآرزوؤںمیں ضرور مبتلا رکھوں گا اور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت میں ضرور ردو بدل کریںگے اور جس نے اللہ کے سوا شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا پس یقینا وہ صریح نقصان میں رہے گا۔٭
١٢٠۔وہ انہیں وعدوں اور امیدوں میں الجھاتا ہے اور ان کے ساتھ شیطان کے وعدے بس فریب پر مبنی ہوتے ہیں۔
١٢١۔یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ اس سے بچ نکلنے کی کوئی جگہ نہیں پائیں گے ۔
١٢٢۔اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں عنقریب ہم انہیں ایسی جنتوں میں داخل کریںگے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہ وہاں ابد تک ہمیشہ رہیںگے، اللہ کا سچا وعدہ ہے اور بھلا اللہ سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہو سکتا ہے؟
١٢٣۔ نہ تمہاری آرزوؤں سے (بات بنتی ہے) اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں سے، جو برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا اور اللہ کے سوا نہ اسے کوئی کارساز میسر ہو گا اور نہ کوئی مددگار۔٭
١٢٤۔ اور جو نیک اعمال بجا لائے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو(سب) جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ٭
١٢٥۔ اور دین میں اس سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے جس نے نیک کردار بن کر اپنے وجود کو اللہ کے سپرد کیا اور یکسوئی کے ساتھ ملت ابراہیمی کی اتباع کی؟ اور ابراہیم کو تو اللہ نے اپنا دوست بنایا ہے۔٭
١٢٦۔ اور جو کچھ آسمانوںاور زمین میں ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب احاطہ رکھنے والا ہے۔٭
١٢٧۔اور لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، کہدیجیے: اللہ تمہیں ان کے بارے میںحکم دیتا ہے اور کتاب میں تمہارے لیے جو حکم بیان کیا جاتا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے متعلق ہے جن کا مقررہ حق تم انہیں ادا نہیں کرتے اور ان سے نکاح بھی کرنا چاہتے ہو اور ان بچوں کے متعلق ہے جو بے بس ہیں اور یہ (حکم بھی دیتا ہے) کہ یتیموں کے بارے میں انصاف کرو اور تم بھلائی کا جو کام بھی انجام دو گے تو اللہ اس سے خوب آگاہ ہے۔٭
١٢٨۔اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے بے اعتدالی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں آپس میں بہتر طریقے سے مصالحت کر لیں اور صلح تو بہرحال بہتر ہی ہے اور ہر نفس کو بخل کے قریب کر دیا گیا ہے، لیکن اگر تم نیکی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تمہارے سارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے.٭
١٢٩۔ اور تم بیویوں کے درمیان پورا عدل قائم نہ کر سکو گے خواہ تم کتنا ہی چاہو، لیکن ایک طرف اتنے نہ جھک جاؤ کہ (دوسری کو) معلق کی طرح چھوڑدو اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ یقینا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
١٣٠۔اور اگر میاں بیوی دونوں نے علیحدگی اختیارکی تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، حکمت والاہے۔٭
١٣١۔اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی ملکیت ہے، بتحقیق ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کو نصیحت کی ہے اور تمہیںبھی یہی نصیحت ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور اگر کفر اختیار کرو گے تو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اس کے قبضہئ قدرت میں ہے اور اللہ بڑا بے نیاز، قابل ستائش ہے۔
١٣٢۔اور اللہ ہی ان سب چیزوں کا مالک ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور کفالت کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔
١٣٣۔ اے لوگو! اگر اللہ چاہے تو تم سب کو فنا کر کے تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے اور اس بات پر تو اللہ خوب قدرت رکھتا ہے۔
١٣٤۔جو(فقط) دنیاوی مفاد کا طالب ہے پس اللہ کے پاس دنیا و آخرت دونوں کا ثواب موجود ہے اور اللہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔٭
١٣٥۔ اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہار ے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔٭
١٣٦۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے، سچا ایمان لے آؤ اور اس کتاب پر بھی جو اس نے اس سے پہلے نازل کی ہے اور جس نے اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار کیا وہ گمراہی میں بہت دور چلا گیا۔٭
١٣٧۔ جو لوگ ایمان لانے کے بعد پھر کافر ہو گئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہو گئے پھر کفر میںبڑھتے چلے گئے،اللہ انہیں نہ تو معاف کرے گا اور نہ ہی انہیں ہدایت کا راستہ دکھائے گا۔ ٭
١٣٨۔ (اے رسول) منافقوںکو دردناک عذاب کا مژدہ سنا دو۔
١٣٩۔ جو ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حامی بناتے ہیں، کیا یہ لوگ ان سے عزت کی توقع رکھتے ہیں؟ بے شک ساری عزت تو خدا کی ہے۔٭
١٤٠۔اور بتحقیق اللہ نے(پہلے) اس کتاب میں تم پر یہ حکم نازل فرمایاکہ جہاں کہیں تم سن رہے ہو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو تم ان کے ساتھ نہ بیٹھا کرو جب تک وہ کسی دوسری گفتگو میں نہ لگ جائیں ورنہ تم بھی انہی کی طرح کے ہو جاؤ گے، بے شک اللہ تمام منافقین اور کافرین کو جہنم میں یکجا کرنے والا ہے۔٭
١٤١۔ یہ (منافق) تمہارے حالات کا انتظار کرتے ہیں کہ اگر اللہ کی طرف سے تمہیں فتح حاصل ہو تو کہتے ہیں: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو کچھ کامیابی مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں: کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے؟ (اس کے باوجود ہم نے تمہارے ساتھ جنگ نہ کی) اور کیا ہم نے تمہیں مومنوں سے بچا نہیں لیا؟ پس اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ ہرگز کافروں کو مومنوں پر غالب نہیں آنے دے گا۔٭
١٤٢۔ یہ منافقین (اپنے زعم میں) اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ انہیں دھوکہ دے رہا ہے اور جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو سستی کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لیے اٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کر تے ہیں۔٭
١٤٣۔ یہ لوگ نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف بلکہ درمیان میںسرگرداں ہیں اور جسے اللہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کے لیے تم کو ئی راہ نہیں پا سکتے۔٭
١٤٤۔ اے ایمان والو! تم مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا حامی مت بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ خود اپنے خلاف اللہ کے پاس صریح دلیل فراہم کرو؟
١٤٥۔منافقین تو یقینا جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور آپ کسی کو ان کا مددگار نہیں پائیںگے ۔٭
١٤٦۔البتہ ان میں سے جو لوگ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں اور اللہ سے متمسک رہیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کریں تو ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ عنقریب مومنوں کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
١٤٧۔ اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے؟ اور اللہ بڑا قدردان،بڑا جاننے والا ہے۔٭
 

صرف علی

محفلین
پارہ : لا یحب اللہ 6
١٤٨۔ اللہ اس بات کو پسند نہیںکرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو اور اللہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
١٤٩۔ اگر تم کوئی نیک کام علانیہ یا خفیہ کرو اور برائی سے درگزر کرو تو اللہ بڑا معاف کرنے والا، قدرت والا ہے۔٭
١٥٠۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور رسولوں کے درمیان تفریق ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور وہ اس طرح کفر و ایمان کے درمیان ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں۔٭
١٥١۔ ایسے لوگ حقیقی کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔
١٥٢۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے درمیان کسی تفریق کے بھی قائل نہیں ہیں عنقریب اللہ ان کا اجر انہیں عطا فرمائے گا اور اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والاہے۔٭
١٥٣۔ اہل کتاب آپ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار لائیں، جبکہ یہ لوگ اس سے بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں، چنانچہ انہوں نے کہا: ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو، ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا پھر انہوں نے گوسالہ کو (اپنا معبود) بنایا جب کہ ا ن کے پاس واضح نشانیاں آ چکی تھیں اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا اور موسیٰ کو ہم نے واضح غلبہ عطا کیا۔٭
١٥٤۔اور ہم نے ان کے میثاق کے مطابق کوہ طور کو ان کے اوپر اٹھایا اور ہم نے انہیں حکم دیا : دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور ہم نے ان سے کہا: ہفتہ کے دن تجاوز نہ کرو اور (اس طرح) ہم نے ان سے ایک پختہ عہد لیا۔
١٥٥۔ پھر ان کے اپنے میثاق کی خلاف ورزی، اللہ کی آیات کا انکار کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں (اللہ نے ا نہیں سزا دی، ان کے دل غلاف میں محفوظ نہیں) بلکہ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان پر مہر لگا دی ہے اسی وجہ سے یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔٭
١٥٦۔ نیز ان کے کفر کے سبب اور مریم پر عظیم بہتان باندھنے کے سبب۔٭
١٥٧۔ اور ا ن کے اس قول کے سبب کہ ہم نے اللہ کے رسو ل مسیح بن مریم کو قتل کیا ہے، جبکہ فی الحقیقت انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا بلکہ( دوسرے کو) ان کے لیے شبیہ بنا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا وہ اس میں شک میں مبتلا ہیں،ظن کی پیروی کے علاوہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں اور انہوںنے مسیح کو قتل نہیں کیا۔
١٥٨۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
١٥٩۔ اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ (مسیح) ان پر گواہ ہوں گے۔٭
١٦٠۔یہود کے ظلم اور راہ خدا سےبہت روکنے کے سبب بہت سی پاک چیزیں جو (پہلے) ان پر حلال تھیں ہم نے ان پر حرام کر دیں۔٭
١٦١۔ اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے تھے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔٭
١٦٢۔لیکن ان میں سے جو علم میں راسخ ہیں اور اہل ایمان ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان لانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو عنقریب ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔٭
١٦٣۔(اے رسول)ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی، اور جس طرح ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق،یعقوب،اولادیعقوب،عیسیٰ،ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف (وحی بھیجی) اور داؤد کو ہم نے زبور دی۔٭
١٦٤۔ ان رسولوں پر (وحی بھیجی) جن کے حالات کا ذکر ہم پہلے آپ سے کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کے حالات کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے تو خوب باتیں کی ہیں۔٭
١٦٥۔ (یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
١٦٦۔ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ اس نے آپ پر نازل کیا ہے وہ اپنے علم سے نازل کیا ہے اور ساتھ فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے۔٭
١٦٧۔ بے شک جنہوں نے کفر اختیار کیا اور (لوگوںکو) اللہ کے راستے سے روگردانی کی یقینا وہ گمراہی میں دور تک نکل گئے۔
١٦٨۔جنہوں نے کفر اختیار کیا اور ظلم کرتے رہے اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ ہی ان کی راہنمائی کرے گا۔
١٦٩۔ سوائے راہ جہنم کے جس میںوہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے اور یہ کام اللہ کے لیے نہایت سہل ہے۔
١٧٠۔ اے لوگو! یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر تمہارے پاس آئے ہیں پس تمہارے حق میںبہتر ہے کہ تم (ان پر) ایمان لے آؤ اور اگر تم کفر اختیار کرو تو (جان لو کہ) آسمانوں اور زمین کی موجودات کا مالک اللہ ہے اور اللہ بڑا علم رکھنے والا، حکمت والا ہے۔٭
١٧١۔ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو،بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیںجو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور اس کی طرف سے وہ ایک روح ہیں، لہٰذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آ جاؤ اس میں تمہاری بہتری ہے، یقینا اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔٭
١٧٢۔ مسیح نے کبھی بھی اللہ کی بندگی کو عار نہیںسمجھا اور نہ ہی مقرب فرشتے (اسے عار سمجھتے ہیں) اور جو اللہ کی بندگی کو عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے اللہ ان سب کو(ایک دن) اپنے سامنے جمع کرے گا۔٭
١٧٣۔پھر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو اللہ ان کا پورا اجر دے گا اور انہیں اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا اور جن لوگوں نے (عبادت کو) عار سمجھا اور تکبر کیا انہیں اللہ دردناک عذاب دے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی سرپرست اور نہ کوئی مددگار پائیں گے۔٭
١٧٤۔ اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا ہے۔ ٭
١٧٥۔لہٰذا جو اللہ پر ایمان لے آئیں اور اس سے متمسک رہیں تو وہ جلد ہی انہیں اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور انہیںاپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ دکھا ئے گا ۔
١٧٦۔لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجیے : اللہ کلالہ کے بارے میںتمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گااور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے (احکام) بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے۔٭


سورہ مائدہ ۔ مدنی۔ آیات ١٢٠​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ اے ایمان والو! عہد و پیمان پورا کیا کرو، تمہارے لیے چرنے والے مویشی حلال کیے گئے ہیں سوائے ان کے جو (آیندہ) تمہیں بتا دیے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال تصور نہ کرو، بےشک اللہ جیسا چاہتاہے حکم دیتا ہے۔٭
٢۔ اے ایمان والو! تم اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانور کی اور نہ ان جانوروں کی جن کے گلے میں پٹے باندھ دیے جائیںاورنہ ان لوگوں کی جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں بیت الحرام کی طرف جا رہے ہوں، ہاں! جب تم احرام سے باہر آجاؤ تو شکار کر سکتے ہو اور جن لوگوں نے تمہیں مسجد الحرام جانے سے روکا تھا کہیں ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم بھی (ان پر)زیادتیاں کرنے لگو اور (یاد رکھو) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ کا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔٭
٣۔ تم پر حرام کیا گیا ہے مردار، خون، سور کا گوشت اور (وہ جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹ کر اور چوٹ کھا کر اور بلندی سے گر کر اور سینگ لگ کر مر گیا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو سوائے اس کے جسے تم (مرنے سے پہلے)ذبح کر لو اور جسے تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور جوئے کے تیروںکے ذریعے تمہارا تقسیم کرنا (بھی حرام ہے)، یہ سب فسق ہیں، آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پرپوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کوبطور دین پسندکر لیا، پس جو شخص گناہ کی طرف مائل ہوئے بغیر بھوک کی وجہ سے (ان حرام چیزوں سے پرہیز نہ کرنے پر) مجبور ہو جائے تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔٭
٤۔لوگ آپ سے پوچھتے ہیںکہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہدیجیے: تمہارے لیے پاکیزہ چیزیںحلال کی گئی ہیں اور وہ شکار بھی جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جنہیں تم نے سدھا رکھا ہے اور انہیں تم شکار پر چھوڑتے ہو جس طریقے سے اللہ نے تمہیں سکھایا ہے اس کے مطابق تم نے انہیں سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑیں اسے کھاؤ اور اس پراللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اللہ یقینا بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ ٭
٥۔ آج تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیںاور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال اورتمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور پاکدامن مومنہ عورتیں نیز جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے ان کی پاکدامن عورتیں بھی (حلال کی گئی ہیں) بشرطیکہ ان کا مہر دے دو اور ان کی عفت کے محافظ بنو، چوری چھپے آشنائیاں یا بدکاری نہ کرو اور جوکوئی ایمان سے منکر ہو، یقینا اس کا عمل ضائع ہو گیا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔٭
٦۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تواپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو نیز اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو، اگر تم حالت جنابت میں ہو تو پاک ہوجاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا (ہمبستری کی) ہو پھر تمہیں پانی میسر نہ آئے تو پاک مٹی سے تیمم کرو پھر اس سے تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو، اللہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک اور تم پر اپنی نعمت مکمل کرنا چاہتا ہے شاید تم شکر کرو۔٭
٧۔ اور اس نعمت کو یاد کرو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو بھی جو اللہ نے تم سے لے رکھا ہے،جب تم نے کہا تھا: ہم نے سنا اور مانا اور اللہ سے ڈرو،بے شک اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔
٨۔ اے ایمان والو! اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔٭
٩۔ اللہ نے ایمان والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں سے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ٭
١٠۔ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔ ٭
١١۔ اے ایمان والو! اللہ کا یہ احسان یاد رکھو کہ جب ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تو اللہ نے تمہاری طرف (بڑھنے والے)ان کے ہاتھ روک دیے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ٭
١٢۔ اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میںسے بارہ نقیبوں کا تقرر کیااور اللہ نے (ان سے) کہا: میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اگر تم میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد کرو اور اللہ کو قرض حسن دیتے رہو تو میں تمہارے گناہوں کو تم سے ضرور دور کر دوں گا اور تمہیں ایسے باغات میںداخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، پھر اس کے بعد تم میںسے جس کسی نے بھی کفر اختیار کیا بتحقیق وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔٭
١٣۔ پس ان کے عہد توڑنے پر ہم نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا، یہ لوگ (کتاب اللہ کے) کلمات کو اپنی جگہ سے الٹ پھیر کر دیتے ہیں اور انہیں جو نصیحت کی گئی تھی وہ اس کا ایک حصہ بھول گئے اور آئے دن ان کی کسی خیانت پر آپ آگاہ ہو رہے ہیں البتہ ان میں سے تھوڑے لوگ ایسے نہیں ہیں، لہٰذا ان سے درگزر کیجیے اور معاف کر دیجیے، بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔٭
١٤۔ اور ہم نے ان لوگوںسے (بھی) عہد لیا تھا جو کہتے ہیں: ہم نصاریٰ ہیں پس انہوں نے (بھی) اس نصیحت کا ایک حصہ فراموش کر دیا جو انہیں کی گئی تھی، تو ہم نے قیامت تک کے لیے انکے درمیان بغض و عداوت ڈال دی اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اللہ عنقریب انہیں جتا دے گا.٭
١٥۔ اے اہل کتاب ہمارے رسول تمہارے پاس کتاب (خدا) کی وہ بہت سی باتیں تمہارے لیے کھول کر بیان کرنے کے لیے آئے ہیںجن پر تم پردہ ڈالتے رہے ہو اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتے ہیں، بتحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے۔٭
١٦۔ جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو امن و سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں اور وہ اپنے اذن سے انہیں ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور انہیں راہ راست کی رہنمائی فرماتا ہے۔٭
١٧۔بتحقیق وہ لوگ کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: عیسیٰ بن مریم ہی خدا ہے، ان سے کہدیجیے: اللہ اگر مسیح بن مریم ، ان کی ماں اور تمام اہل زمین کو ہلاک کر دینا چاہے تو اس کے آگے کس کا بس چل سکتا ہے؟ اور اللہ تو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتاہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔٭
١٨۔اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، کہدیجیے: پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟ بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے بشر ہو، وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی حکومت ہے اور (سب کو)اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.٭
١٩۔ اے اہل کتاب! ہمارے رسول بیان (احکام) کے لیے رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت تک بند رہنے کے بعد تمہارے پاس آئے ہیں تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا نہیں آیا،پس اب تمہارے پاس وہ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا آ گیا ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔٭
٢٠۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہیں عنایت کی ہے، اس نے تم میں انبیاء پیدا کیے،تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو اس نے عالمین میں کسی کو نہیں دیا۔٭
٢١۔اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے مقرر فرمائی ہے اور پیچھے نہ ہٹنا ورنہ خسارے میں رہو گے۔
٢٢۔ وہ کہنے لگے:اے موسیٰ ٰ وہاں تو ایک طاقتور قوم آباد ہے اور وہ جب تک اس (زمین) سے نکل نہ جائے ہم تو اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے، ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے.
٢٣۔خوف (خدا) رکھنے والوں میں سے دو اشخاص جنہیں اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا کہنے لگے: دروازے کی طرف ان پر حملہ کر دو پس جب تم اس میں داخل ہو جاؤ گے تو فتح یقینا تمہاری ہو گی اور اگر تم مومن ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔٭
٢٤۔ وہ کہنے لگے: اے موسیٰ! جب تک وہ وہاں موجود ہے ہم ہرگز اس میں داخل نہ ہوں گے آپ اور آپ کا پروردگار جاکر جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔
٢٥۔ موسیٰ نے کہا: پروردگارا! میرے اختیار میں میری اپنی ذات اور میرے بھائی کے سوا کچھ نہیں ہے، لہٰذا تو ہم میںاور اس فاسق قوم میں جدائی ڈال دے۔
٢٦۔ (اللہ نے) فرمایا:وہ ملک ان پر چالیس سال تک حرام رہے گا، وہ زمین میں سرگرداں پھریں گے، لہٰذا آپ اس فاسق قوم کے بارے میں افسوس نہ کیجیے۔٭
٢٧۔ اور آپ انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔٭
٢٨۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے پروردگار اللہ سے ڈرتا ہوں۔
٢٩۔ میںچاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تم ہی پکڑے جاؤ اور دوزخی بن کر رہ جاؤ اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔
٣٠۔چنانچہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی تو اسے قتل کر ہی دیا، پس وہ خسارہ اٹھانے والوں میں (شامل) ہو گیا۔٭
٣١۔ پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھا دے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے، کہنے لگا: افسوس مجھ پر کہ میں اس کوے کے برابر بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا، پس اس کے بعد اسے بڑی ندامت ہوئی۔ ٭
٣٢۔ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ (حکم) مقرر کر دیا کہ جس نے کسی ایک کو قتل کیا جب کہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی اور بتحقیق ہمارے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے پھر اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر لوگ ملک میں زیادتیاں کرنے والے ہی رہے۔ ٭
٣٣۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور روئے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا بس یہ ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا ملک بدر کیے جائیں، یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔٭
٣٤ ۔ سوائے ان لوگوں کے جو تمہارے قابو آنے سے پہلے توبہ کر لیں اور یہ بات ذہنوں میں رہے کہ اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٣٥۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو۔ ٭
٣٦۔ جو لوگ کافر ہو گئے ہیں اگر ان کے پاس زمین کے تمام خزانے ہوں اور اسی کے برابر مزید بھی ہوں اور وہ یہ سب کچھ روز قیامت کے عذاب کے بدلے میں فدیہ میں دینا چاہیں تو بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔٭
٣٧۔وہ آتش جہنم سے نکلنا چاہیں گے لیکن وہ اس سے نکل نہ سکیں گے اور ان کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے ۔
٣٨۔ اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، ان کی کرتوت کے بدلے اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
٣٩۔ پس جو شخص اپنی زیادتی کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو اللہ یقینا اس کی توبہ قبول کرے گا، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
٤٠۔ کیا تجھے علم نہیں کہ آسمانوں اور زمین میںسلطنت اللہ کے لیے ہے؟ وہ جسے چاہے عذاب دیتا ہے اور جسے چاہے بخش دیتا ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
٤١۔ اے رسول!اس بات سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں کہ کچھ لوگ کفر اختیار کرنے میں بڑی تیزی دکھاتے ہیں وہ خواہ ان لوگوںمیںسے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں جب کہ ان کے دل ایمان نہیں لائے اور خواہ ان لوگوں میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں، یہ لوگ جھوٹ (کی نسبت آپ کی طرف دینے) کے لیے جاسوسی کرتے ہیں اور ایسے لوگوں (کو گمراہ کرنے) کے لیے جاسوسی کرتے ہیں جو ابھی آپ کے دیدار کے لیے نہیں آئے، وہ کلام کو صحیح معنوں سے پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں: اگر تمہیں یہ حکم ملا تو مانو ، نہیں ملا تو بچے رہو،جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تواسے بچانے کے لیے اللہ نے آپ کو کوئی اختیار نہیں دیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا ہی نہیںچاہا، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔٭
٤٢۔یہ لوگ جھوٹ (کی نسبت آپ کی طرف دینے )کے لیے جاسوسی کرنے والے، حرام مال خوب کھانے والے ہیں، اگر یہ لوگ آپ کے پاس (کوئی مقدمہ لے کر) آئیں تو ان میں فیصلہ کریں یا ٹال دیں (آپ کی مرضی) اور اگر آپ نے انہیں ٹال دیا تو یہ لوگ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور اگر آپ فیصلہ کرنا چاہیں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیں، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔٭
٤٣۔ اور یہ لوگ آپ کو منصف کیسے بنائیں گے جب کہ ان کے پاس توریت موجود ہے جس میںاللہ کا حکم موجود ہونے کے باوجود یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے.٭
٤٤۔ ہم نے توریت نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا، اطاعت گزار انبیاء اس کے مطابق یہودیوں کے فیصلے کرتے تھے اور علماء اور فقہاء بھی فیصلے کرتے تھے جنہیں اللہ نے کتاب کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے، لہٰذا تم لوگوں سے خوفزدہ نہ ہونا بلکہ مجھ سے خوف رکھنا اور میری آیات کو تھوڑی سی قیمت پر نہ بیچنا اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلے نہ کریںپس وہ کافر ہیں۔٭
٤٥۔ اور ہم نے توریت میں ان پر (یہ قانون) لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت ہیں اور زخموں کا بدلہ (ان کے برابر) لیا جائے، پھر جو قصاص کو معاف کر دے تو یہ اس کے لیے (گناہوں کا) کفارہ شمار ہو گا اور جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلے نہ کریں پس وہ ظالم ہیں۔ ٭
٤٦۔ اور ان کے بعد ہم نے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرتے ہیں اور ہم نے انہیں انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور جو اپنے سے پہلے والی کتاب توریت کی تصدیق کرتی تھی اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔
٤٧۔اور اہل انجیل کو چاہیے کہ وہ ان احکام کے مطابق فیصلے کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کیے ہیں اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ فاسق ہیں۔٭
٤٨۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جو حق پر مبنی ہے اور اپنے سے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان پر نگران و حاکم ہے، لہٰذا آپ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کریں اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اسے چھوڑ کر آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، ہم نے تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ایک دستور اور طرز عمل اختیار کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا لیکن اللہ نے تمہیں جو حکم دیا ہے اس میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے، لہٰذا نیک کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو، تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں ان حقائق کی خبر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے ۔٭
٤٩۔اور جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان میںفیصلے کریں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے ہوشیار رہیں، کہیں یہ لوگ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کسی دستور کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈالیں، اگر یہ منہ پھیر لیں تو جان لیجیے کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کے سبب انہیں مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے اور لوگوں میں سے اکثر یقینا فاسق ہیں۔٭
٥٠۔کیا یہ لوگ جاہلیت کے دستور کے خواہاں ہیں؟ اہل یقین کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والاکون ہے؟٭
٥١۔ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا حامی نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں حامی ضرور ہیں اور تم میںسے جو انہیں حامی بناتا ہے ہ یقینا انہی میں (شمار) ہو گا، بے شک اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا ۔ ٭
٥٢۔ پس آپ دیکھتے ہیںکہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ ان میں دوڑ دھوپ کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ہم پر کوئی گردش نہ آ پڑے، پس قریب ہے کہ اللہ فتح دے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے پھر یہ لوگ اپنے اندر چھپائے ہوئے نفاق پر نادم ہوںگے۔
٥٣۔ اور اہل ایمان کہیں گے: کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام کی انتہائی کڑی قسمیں کھاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں؟ ان کے اعمال ضائع ہو گئے پس وہ نا مراد ہو کر رہ گئے۔
٥٤۔ اے ایمان والو ! تم میںسے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے، مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے راہ خدا میں جہاد کریںگے اور کسی ملامت کر نے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتاہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔٭
٥٥۔تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔٭
٥٦۔اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی بنائے گا تو(وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا اور) اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔
٥٧۔ اے ایمان والو! اور ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنایا ہے اور کفار کو اپنا حامی نہ بناؤ اور اللہ کا خوف کرو اگر تم اہل ایمان ہو۔٭
٥٨۔اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو یہ لوگ اسے مذاق اور تماشا بنا لیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ عقل نہیں رکھتے۔٭
٥٩۔کہدیجیے: اے اہل کتاب! آیا تم صرف اس بات پر ہم سے نفرت کرتے ہو کہ ہم اللہ پر اور اس کی کتاب پر جو ہماری طرف نازل ہوئی اور جو پہلے نازل ہوئی، ایمان لائے ہیں (یہ کوئی وجہ نفرت نہیں ہے بلکہ) وجہ یہ ہے کہ تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔٭
٦٠۔ کہدیجیے : کیا میںتمہیں بتاؤ ں کہ اللہ کے ہاں پاداش کے اعتبار سے اس سے بھی بدتر لوگ کون ہیں؟ وہ (لوگ ہیں) جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر وہ غضبناک ہوا اور جن میںسے کچھ کو اس نے بندر اور سور بنا دیا اور جو شیطان کے پجاری ہیں، ایسے لوگوں کا ٹھکانا بھی بدترین ہے اور یہ سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں۔٭
٦١۔ اور جب یہ لوگ تمہار ے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے تھے حالانکہ وہ کفرلے کر آئے تھے اور کفر ہی ہی کولے کر چلے گئے اور جو کچھ یہ (دلوں میں) چھپائے ہوئے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے ۔٭
٦٢۔اور ان میں سے اکثر کو آپ گناہ، زیادتی اور حرام کھانے کے لیے دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، کتنا برا کام ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ ٭
٦٣۔ ان کے علماء اور فقہاء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ ان کا یہ عمل کتنا برا ہے؟٭
٦٤۔ اور یہود کہتے ہیں: اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، خود ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان پرلعنت ہو اس (گستاخانہ) بات پر بلکہ اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور (اے رسول) آپ کے رب کی طرف سے جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کرے گی اور ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، یہ جب جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔٭
٦٥۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کے گناہ معاف کر دیتے اور انہیں نعمتوں والی جنتوں میںداخل کر دیتے ۔
٦٦۔ اور اگر یہ اہل کتاب توریت و انجیل اور ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل شدہ دیگر تعلیمات کو قائم رکھتے تو وہ اپنے اوپر کی (آسمانی برکات) اور نیچے کی (زمینی برکات) سے مالا مال ہوتے، ان میں سے کچھ میانہ رو بھی ہیں، لیکن ان میں اکثریت بدکردار لوگوں کی ہے۔٭
٦٧۔ اے رسول ! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔٭
٦٨۔ (اے رسول) کہدیجیے: اے اہل کتاب! جب تک تم توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے، کو قائم نہ کرو تم کسی قابل اعتناء مذہب پر نہیں ہو اور (اے رسول) آپ کے رب کی طرف سے جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان میںسے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کرے گی مگر آپ ان کافروں کے حال پر افسوس نہ کریں۔٭
٦٩۔ جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل انجام دیتے ہیں وہ خواہ مسلمان ہوں یا یہودی یا صابی ہوں یا عیسائی انہیں (روز قیامت) نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ محزون ہوں گے۔
٧٠۔بتحقیق ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے لیکن جب بھی کوئی رسول ان کی طرف ان کی خواہشات کے خلاف کچھ لے کر آیا تو انہوں نے بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل کر دیا۔
٧١۔ اور ان کاخیال یہ تھا کہ ایسا کرنے سے کوئی فتنہ نہیں ہو گا اس لیے وہ اندھے اور بہرے ہو گئے پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی پھر ان میں اکثر اندھے اور بہرے ہو گئے اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے ۔٭
٧٢۔وہ لوگ یقینا کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: مسیح بن مریم ہی خدا ہیں جبکہ خود مسیح کہا کرتے تھے: اے بنی اسرائیل تم اللہ ہی کی پرستش کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے، بے شک جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا، بتحقیق اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کو ئی مددگار نہیںہے۔٭
٧٣۔بتحقیق وہ لوگ کافرہو گئے جو کہتے ہیں: اللہ تین میں کا تیسرا ہے جبکہ خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہیں آتے تو ان میںسے کفر کرنے والوں پر دردناک عذاب ضرور واقع ہو گا۔٭
٧٤۔ آخر یہ لوگ اللہ کے آگے توبہ کیوں نہیں کرتے اور مغفرت کیوں نہیں مانگتے؟ اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٧٥۔مسیح بن مریم تو صرف اللہ کے رسول ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیںاور ان کی والدہ صدیقہ (راستباز خاتون) تھیں، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے، دیکھو ہم کس طرح ان کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتے ہیں، پھر دیکھو یہ لوگ کدھر الٹے جار ہے ہیں۔ ٭
٧٦۔ کہدیجیے : کیا تم اللہ کے سوا ایسی چیز کی پرستش کرتے ہو جو تمہارے نقصان اور نفع پر کوئی اختیار نہیں رکھتی؟ اور اللہ ہی خوب سننے ، جاننے والا ہے۔٭
٧٧۔ کہدیجیے: اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے ہی گمراہی میں مبتلا ہیں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی گمراہی میںڈال چکے ہیں اورسیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں.٭
٧٨۔ بنی اسرائیل میںسے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ، داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی گئی، کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔٭
٧٩۔ جن برے کاموں کے وہ مرتکب ہوتے تھے ان سے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے، ان کا یہ عمل کتنا برا ہے۔
٨٠۔آپ ان میںسے بیشتر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ (مسلمانوں کے مقابلے میں) کافروں سے دوستی کرتے ہیں، انہوں نے جو کچھ اپنے لیے آگے بھیجا ہے وہ نہایت برا ہے جس سے اللہ ان پر ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔
٨١۔ اور اگر وہ اللہ اور نبی اور ان کی طرف نازل کردہ کتاب پر ایمان رکھتے تو ایسے لوگوں سے دوستی نہ کرتے مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔
٨٢۔(اے رسول) اہل ایمان کے ساتھ عداوت میں یہود اور مشرکین کو آپ پیش پیش پائیں گے اور ایمان والوں کے ساتھ دوستی میں انہیں قریب تر پائیں گے، جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میںعالم اور درویش صفت لوگ ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔٭
 

صرف علی

محفلین
پارہ : لا یحب اللہ 6
١٤٨۔ اللہ اس بات کو پسند نہیںکرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو اور اللہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
١٤٩۔ اگر تم کوئی نیک کام علانیہ یا خفیہ کرو اور برائی سے درگزر کرو تو اللہ بڑا معاف کرنے والا، قدرت والا ہے۔٭
١٥٠۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور رسولوں کے درمیان تفریق ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور وہ اس طرح کفر و ایمان کے درمیان ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں۔٭
١٥١۔ ایسے لوگ حقیقی کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔
١٥٢۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے درمیان کسی تفریق کے بھی قائل نہیں ہیں عنقریب اللہ ان کا اجر انہیں عطا فرمائے گا اور اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والاہے۔٭
١٥٣۔ اہل کتاب آپ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار لائیں، جبکہ یہ لوگ اس سے بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں، چنانچہ انہوں نے کہا: ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو، ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا پھر انہوں نے گوسالہ کو (اپنا معبود) بنایا جب کہ ا ن کے پاس واضح نشانیاں آ چکی تھیں اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا اور موسیٰ کو ہم نے واضح غلبہ عطا کیا۔٭
١٥٤۔اور ہم نے ان کے میثاق کے مطابق کوہ طور کو ان کے اوپر اٹھایا اور ہم نے انہیں حکم دیا : دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور ہم نے ان سے کہا: ہفتہ کے دن تجاوز نہ کرو اور (اس طرح) ہم نے ان سے ایک پختہ عہد لیا۔
١٥٥۔ پھر ان کے اپنے میثاق کی خلاف ورزی، اللہ کی آیات کا انکار کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں (اللہ نے ا نہیں سزا دی، ان کے دل غلاف میں محفوظ نہیں) بلکہ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان پر مہر لگا دی ہے اسی وجہ سے یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔٭
١٥٦۔ نیز ان کے کفر کے سبب اور مریم پر عظیم بہتان باندھنے کے سبب۔٭
١٥٧۔ اور ا ن کے اس قول کے سبب کہ ہم نے اللہ کے رسو ل مسیح بن مریم کو قتل کیا ہے، جبکہ فی الحقیقت انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا بلکہ( دوسرے کو) ان کے لیے شبیہ بنا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا وہ اس میں شک میں مبتلا ہیں،ظن کی پیروی کے علاوہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں اور انہوںنے مسیح کو قتل نہیں کیا۔
١٥٨۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
١٥٩۔ اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ (مسیح) ان پر گواہ ہوں گے۔٭
١٦٠۔یہود کے ظلم اور راہ خدا سےبہت روکنے کے سبب بہت سی پاک چیزیں جو (پہلے) ان پر حلال تھیں ہم نے ان پر حرام کر دیں۔٭
١٦١۔ اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے تھے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔٭
١٦٢۔لیکن ان میں سے جو علم میں راسخ ہیں اور اہل ایمان ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان لانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو عنقریب ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔٭
١٦٣۔(اے رسول)ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی، اور جس طرح ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق،یعقوب،اولادیعقوب،عیسیٰ،ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف (وحی بھیجی) اور داؤد کو ہم نے زبور دی۔٭
١٦٤۔ ان رسولوں پر (وحی بھیجی) جن کے حالات کا ذکر ہم پہلے آپ سے کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کے حالات کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے تو خوب باتیں کی ہیں۔٭
١٦٥۔ (یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
١٦٦۔ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ اس نے آپ پر نازل کیا ہے وہ اپنے علم سے نازل کیا ہے اور ساتھ فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے۔٭
١٦٧۔ بے شک جنہوں نے کفر اختیار کیا اور (لوگوںکو) اللہ کے راستے سے روگردانی کی یقینا وہ گمراہی میں دور تک نکل گئے۔
١٦٨۔جنہوں نے کفر اختیار کیا اور ظلم کرتے رہے اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ ہی ان کی راہنمائی کرے گا۔
١٦٩۔ سوائے راہ جہنم کے جس میںوہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے اور یہ کام اللہ کے لیے نہایت سہل ہے۔
١٧٠۔ اے لوگو! یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر تمہارے پاس آئے ہیں پس تمہارے حق میںبہتر ہے کہ تم (ان پر) ایمان لے آؤ اور اگر تم کفر اختیار کرو تو (جان لو کہ) آسمانوں اور زمین کی موجودات کا مالک اللہ ہے اور اللہ بڑا علم رکھنے والا، حکمت والا ہے۔٭
١٧١۔ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو،بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیںجو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور اس کی طرف سے وہ ایک روح ہیں، لہٰذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آ جاؤ اس میں تمہاری بہتری ہے، یقینا اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔٭
١٧٢۔ مسیح نے کبھی بھی اللہ کی بندگی کو عار نہیںسمجھا اور نہ ہی مقرب فرشتے (اسے عار سمجھتے ہیں) اور جو اللہ کی بندگی کو عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے اللہ ان سب کو(ایک دن) اپنے سامنے جمع کرے گا۔٭
١٧٣۔پھر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو اللہ ان کا پورا اجر دے گا اور انہیں اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا اور جن لوگوں نے (عبادت کو) عار سمجھا اور تکبر کیا انہیں اللہ دردناک عذاب دے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی سرپرست اور نہ کوئی مددگار پائیں گے۔٭
١٧٤۔ اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا ہے۔ ٭
١٧٥۔لہٰذا جو اللہ پر ایمان لے آئیں اور اس سے متمسک رہیں تو وہ جلد ہی انہیں اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور انہیںاپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ دکھا ئے گا ۔
١٧٦۔لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجیے : اللہ کلالہ کے بارے میںتمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گااور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے (احکام) بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے۔٭


سورہ مائدہ ۔ مدنی۔ آیات ١٢٠​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ اے ایمان والو! عہد و پیمان پورا کیا کرو، تمہارے لیے چرنے والے مویشی حلال کیے گئے ہیں سوائے ان کے جو (آیندہ) تمہیں بتا دیے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال تصور نہ کرو، بےشک اللہ جیسا چاہتاہے حکم دیتا ہے۔٭
٢۔ اے ایمان والو! تم اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانور کی اور نہ ان جانوروں کی جن کے گلے میں پٹے باندھ دیے جائیںاورنہ ان لوگوں کی جو اپنے رب کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں بیت الحرام کی طرف جا رہے ہوں، ہاں! جب تم احرام سے باہر آجاؤ تو شکار کر سکتے ہو اور جن لوگوں نے تمہیں مسجد الحرام جانے سے روکا تھا کہیں ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم بھی (ان پر)زیادتیاں کرنے لگو اور (یاد رکھو) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ کا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔٭
٣۔ تم پر حرام کیا گیا ہے مردار، خون، سور کا گوشت اور (وہ جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹ کر اور چوٹ کھا کر اور بلندی سے گر کر اور سینگ لگ کر مر گیا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو سوائے اس کے جسے تم (مرنے سے پہلے)ذبح کر لو اور جسے تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور جوئے کے تیروںکے ذریعے تمہارا تقسیم کرنا (بھی حرام ہے)، یہ سب فسق ہیں، آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پرپوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کوبطور دین پسندکر لیا، پس جو شخص گناہ کی طرف مائل ہوئے بغیر بھوک کی وجہ سے (ان حرام چیزوں سے پرہیز نہ کرنے پر) مجبور ہو جائے تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔٭
٤۔لوگ آپ سے پوچھتے ہیںکہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہدیجیے: تمہارے لیے پاکیزہ چیزیںحلال کی گئی ہیں اور وہ شکار بھی جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جنہیں تم نے سدھا رکھا ہے اور انہیں تم شکار پر چھوڑتے ہو جس طریقے سے اللہ نے تمہیں سکھایا ہے اس کے مطابق تم نے انہیں سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑیں اسے کھاؤ اور اس پراللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اللہ یقینا بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ ٭
٥۔ آج تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیںاور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال اورتمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور پاکدامن مومنہ عورتیں نیز جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے ان کی پاکدامن عورتیں بھی (حلال کی گئی ہیں) بشرطیکہ ان کا مہر دے دو اور ان کی عفت کے محافظ بنو، چوری چھپے آشنائیاں یا بدکاری نہ کرو اور جوکوئی ایمان سے منکر ہو، یقینا اس کا عمل ضائع ہو گیا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔٭
٦۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تواپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو نیز اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو، اگر تم حالت جنابت میں ہو تو پاک ہوجاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا (ہمبستری کی) ہو پھر تمہیں پانی میسر نہ آئے تو پاک مٹی سے تیمم کرو پھر اس سے تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو، اللہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک اور تم پر اپنی نعمت مکمل کرنا چاہتا ہے شاید تم شکر کرو۔٭
٧۔ اور اس نعمت کو یاد کرو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو بھی جو اللہ نے تم سے لے رکھا ہے،جب تم نے کہا تھا: ہم نے سنا اور مانا اور اللہ سے ڈرو،بے شک اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔
٨۔ اے ایمان والو! اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔٭
٩۔ اللہ نے ایمان والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں سے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ٭
١٠۔ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔ ٭
١١۔ اے ایمان والو! اللہ کا یہ احسان یاد رکھو کہ جب ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تو اللہ نے تمہاری طرف (بڑھنے والے)ان کے ہاتھ روک دیے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ٭
١٢۔ اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میںسے بارہ نقیبوں کا تقرر کیااور اللہ نے (ان سے) کہا: میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اگر تم میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی مدد کرو اور اللہ کو قرض حسن دیتے رہو تو میں تمہارے گناہوں کو تم سے ضرور دور کر دوں گا اور تمہیں ایسے باغات میںداخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، پھر اس کے بعد تم میںسے جس کسی نے بھی کفر اختیار کیا بتحقیق وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔٭
١٣۔ پس ان کے عہد توڑنے پر ہم نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا، یہ لوگ (کتاب اللہ کے) کلمات کو اپنی جگہ سے الٹ پھیر کر دیتے ہیں اور انہیں جو نصیحت کی گئی تھی وہ اس کا ایک حصہ بھول گئے اور آئے دن ان کی کسی خیانت پر آپ آگاہ ہو رہے ہیں البتہ ان میں سے تھوڑے لوگ ایسے نہیں ہیں، لہٰذا ان سے درگزر کیجیے اور معاف کر دیجیے، بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔٭
١٤۔ اور ہم نے ان لوگوںسے (بھی) عہد لیا تھا جو کہتے ہیں: ہم نصاریٰ ہیں پس انہوں نے (بھی) اس نصیحت کا ایک حصہ فراموش کر دیا جو انہیں کی گئی تھی، تو ہم نے قیامت تک کے لیے انکے درمیان بغض و عداوت ڈال دی اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اللہ عنقریب انہیں جتا دے گا.٭
١٥۔ اے اہل کتاب ہمارے رسول تمہارے پاس کتاب (خدا) کی وہ بہت سی باتیں تمہارے لیے کھول کر بیان کرنے کے لیے آئے ہیںجن پر تم پردہ ڈالتے رہے ہو اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتے ہیں، بتحقیق تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے۔٭
١٦۔ جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو امن و سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہیں اور وہ اپنے اذن سے انہیں ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور انہیں راہ راست کی رہنمائی فرماتا ہے۔٭
١٧۔بتحقیق وہ لوگ کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: عیسیٰ بن مریم ہی خدا ہے، ان سے کہدیجیے: اللہ اگر مسیح بن مریم ، ان کی ماں اور تمام اہل زمین کو ہلاک کر دینا چاہے تو اس کے آگے کس کا بس چل سکتا ہے؟ اور اللہ تو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتاہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔٭
١٨۔اور یہود و نصاریٰ کہتے ہیں: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، کہدیجیے: پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟ بلکہ تم بھی اس کی مخلوقات میں سے بشر ہو، وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی حکومت ہے اور (سب کو)اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.٭
١٩۔ اے اہل کتاب! ہمارے رسول بیان (احکام) کے لیے رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت تک بند رہنے کے بعد تمہارے پاس آئے ہیں تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا نہیں آیا،پس اب تمہارے پاس وہ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا آ گیا ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔٭
٢٠۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہیں عنایت کی ہے، اس نے تم میں انبیاء پیدا کیے،تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو اس نے عالمین میں کسی کو نہیں دیا۔٭
٢١۔اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے مقرر فرمائی ہے اور پیچھے نہ ہٹنا ورنہ خسارے میں رہو گے۔
٢٢۔ وہ کہنے لگے:اے موسیٰ ٰ وہاں تو ایک طاقتور قوم آباد ہے اور وہ جب تک اس (زمین) سے نکل نہ جائے ہم تو اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے، ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے.
٢٣۔خوف (خدا) رکھنے والوں میں سے دو اشخاص جنہیں اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا کہنے لگے: دروازے کی طرف ان پر حملہ کر دو پس جب تم اس میں داخل ہو جاؤ گے تو فتح یقینا تمہاری ہو گی اور اگر تم مومن ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔٭
٢٤۔ وہ کہنے لگے: اے موسیٰ! جب تک وہ وہاں موجود ہے ہم ہرگز اس میں داخل نہ ہوں گے آپ اور آپ کا پروردگار جاکر جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔
٢٥۔ موسیٰ نے کہا: پروردگارا! میرے اختیار میں میری اپنی ذات اور میرے بھائی کے سوا کچھ نہیں ہے، لہٰذا تو ہم میںاور اس فاسق قوم میں جدائی ڈال دے۔
٢٦۔ (اللہ نے) فرمایا:وہ ملک ان پر چالیس سال تک حرام رہے گا، وہ زمین میں سرگرداں پھریں گے، لہٰذا آپ اس فاسق قوم کے بارے میں افسوس نہ کیجیے۔٭
٢٧۔ اور آپ انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔٭
٢٨۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے پروردگار اللہ سے ڈرتا ہوں۔
٢٩۔ میںچاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تم ہی پکڑے جاؤ اور دوزخی بن کر رہ جاؤ اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔
٣٠۔چنانچہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی تو اسے قتل کر ہی دیا، پس وہ خسارہ اٹھانے والوں میں (شامل) ہو گیا۔٭
٣١۔ پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھا دے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے، کہنے لگا: افسوس مجھ پر کہ میں اس کوے کے برابر بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا، پس اس کے بعد اسے بڑی ندامت ہوئی۔ ٭
٣٢۔ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ (حکم) مقرر کر دیا کہ جس نے کسی ایک کو قتل کیا جب کہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی اور بتحقیق ہمارے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے پھر اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر لوگ ملک میں زیادتیاں کرنے والے ہی رہے۔ ٭
٣٣۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور روئے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا بس یہ ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا ملک بدر کیے جائیں، یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔٭
٣٤ ۔ سوائے ان لوگوں کے جو تمہارے قابو آنے سے پہلے توبہ کر لیں اور یہ بات ذہنوں میں رہے کہ اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٣٥۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو۔ ٭
٣٦۔ جو لوگ کافر ہو گئے ہیں اگر ان کے پاس زمین کے تمام خزانے ہوں اور اسی کے برابر مزید بھی ہوں اور وہ یہ سب کچھ روز قیامت کے عذاب کے بدلے میں فدیہ میں دینا چاہیں تو بھی ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔٭
٣٧۔وہ آتش جہنم سے نکلنا چاہیں گے لیکن وہ اس سے نکل نہ سکیں گے اور ان کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے ۔
٣٨۔ اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، ان کی کرتوت کے بدلے اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
٣٩۔ پس جو شخص اپنی زیادتی کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو اللہ یقینا اس کی توبہ قبول کرے گا، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
٤٠۔ کیا تجھے علم نہیں کہ آسمانوں اور زمین میںسلطنت اللہ کے لیے ہے؟ وہ جسے چاہے عذاب دیتا ہے اور جسے چاہے بخش دیتا ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
٤١۔ اے رسول!اس بات سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں کہ کچھ لوگ کفر اختیار کرنے میں بڑی تیزی دکھاتے ہیں وہ خواہ ان لوگوںمیںسے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں جب کہ ان کے دل ایمان نہیں لائے اور خواہ ان لوگوں میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں، یہ لوگ جھوٹ (کی نسبت آپ کی طرف دینے) کے لیے جاسوسی کرتے ہیں اور ایسے لوگوں (کو گمراہ کرنے) کے لیے جاسوسی کرتے ہیں جو ابھی آپ کے دیدار کے لیے نہیں آئے، وہ کلام کو صحیح معنوں سے پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں: اگر تمہیں یہ حکم ملا تو مانو ، نہیں ملا تو بچے رہو،جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تواسے بچانے کے لیے اللہ نے آپ کو کوئی اختیار نہیں دیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا ہی نہیںچاہا، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔٭
٤٢۔یہ لوگ جھوٹ (کی نسبت آپ کی طرف دینے )کے لیے جاسوسی کرنے والے، حرام مال خوب کھانے والے ہیں، اگر یہ لوگ آپ کے پاس (کوئی مقدمہ لے کر) آئیں تو ان میں فیصلہ کریں یا ٹال دیں (آپ کی مرضی) اور اگر آپ نے انہیں ٹال دیا تو یہ لوگ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور اگر آپ فیصلہ کرنا چاہیں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیں، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔٭
٤٣۔ اور یہ لوگ آپ کو منصف کیسے بنائیں گے جب کہ ان کے پاس توریت موجود ہے جس میںاللہ کا حکم موجود ہونے کے باوجود یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے.٭
٤٤۔ ہم نے توریت نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا، اطاعت گزار انبیاء اس کے مطابق یہودیوں کے فیصلے کرتے تھے اور علماء اور فقہاء بھی فیصلے کرتے تھے جنہیں اللہ نے کتاب کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے، لہٰذا تم لوگوں سے خوفزدہ نہ ہونا بلکہ مجھ سے خوف رکھنا اور میری آیات کو تھوڑی سی قیمت پر نہ بیچنا اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلے نہ کریںپس وہ کافر ہیں۔٭
٤٥۔ اور ہم نے توریت میں ان پر (یہ قانون) لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت ہیں اور زخموں کا بدلہ (ان کے برابر) لیا جائے، پھر جو قصاص کو معاف کر دے تو یہ اس کے لیے (گناہوں کا) کفارہ شمار ہو گا اور جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلے نہ کریں پس وہ ظالم ہیں۔ ٭
٤٦۔ اور ان کے بعد ہم نے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرتے ہیں اور ہم نے انہیں انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور جو اپنے سے پہلے والی کتاب توریت کی تصدیق کرتی تھی اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔
٤٧۔اور اہل انجیل کو چاہیے کہ وہ ان احکام کے مطابق فیصلے کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کیے ہیں اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ فاسق ہیں۔٭
٤٨۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جو حق پر مبنی ہے اور اپنے سے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان پر نگران و حاکم ہے، لہٰذا آپ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کریں اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اسے چھوڑ کر آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، ہم نے تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ایک دستور اور طرز عمل اختیار کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا لیکن اللہ نے تمہیں جو حکم دیا ہے اس میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے، لہٰذا نیک کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو، تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں ان حقائق کی خبر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے ۔٭
٤٩۔اور جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان میںفیصلے کریں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے ہوشیار رہیں، کہیں یہ لوگ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کسی دستور کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈالیں، اگر یہ منہ پھیر لیں تو جان لیجیے کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کے سبب انہیں مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے اور لوگوں میں سے اکثر یقینا فاسق ہیں۔٭
٥٠۔کیا یہ لوگ جاہلیت کے دستور کے خواہاں ہیں؟ اہل یقین کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والاکون ہے؟٭
٥١۔ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا حامی نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں حامی ضرور ہیں اور تم میںسے جو انہیں حامی بناتا ہے ہ یقینا انہی میں (شمار) ہو گا، بے شک اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا ۔ ٭
٥٢۔ پس آپ دیکھتے ہیںکہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ ان میں دوڑ دھوپ کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ہم پر کوئی گردش نہ آ پڑے، پس قریب ہے کہ اللہ فتح دے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے پھر یہ لوگ اپنے اندر چھپائے ہوئے نفاق پر نادم ہوںگے۔
٥٣۔ اور اہل ایمان کہیں گے: کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام کی انتہائی کڑی قسمیں کھاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں؟ ان کے اعمال ضائع ہو گئے پس وہ نا مراد ہو کر رہ گئے۔
٥٤۔ اے ایمان والو ! تم میںسے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جن سے اللہ محبت کرتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے، مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے راہ خدا میں جہاد کریںگے اور کسی ملامت کر نے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتاہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔٭
٥٥۔تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔٭
٥٦۔اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی بنائے گا تو(وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا اور) اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔
٥٧۔ اے ایمان والو! اور ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنایا ہے اور کفار کو اپنا حامی نہ بناؤ اور اللہ کا خوف کرو اگر تم اہل ایمان ہو۔٭
٥٨۔اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو یہ لوگ اسے مذاق اور تماشا بنا لیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ عقل نہیں رکھتے۔٭
٥٩۔کہدیجیے: اے اہل کتاب! آیا تم صرف اس بات پر ہم سے نفرت کرتے ہو کہ ہم اللہ پر اور اس کی کتاب پر جو ہماری طرف نازل ہوئی اور جو پہلے نازل ہوئی، ایمان لائے ہیں (یہ کوئی وجہ نفرت نہیں ہے بلکہ) وجہ یہ ہے کہ تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔٭
٦٠۔ کہدیجیے : کیا میںتمہیں بتاؤ ں کہ اللہ کے ہاں پاداش کے اعتبار سے اس سے بھی بدتر لوگ کون ہیں؟ وہ (لوگ ہیں) جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر وہ غضبناک ہوا اور جن میںسے کچھ کو اس نے بندر اور سور بنا دیا اور جو شیطان کے پجاری ہیں، ایسے لوگوں کا ٹھکانا بھی بدترین ہے اور یہ سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں۔٭
٦١۔ اور جب یہ لوگ تمہار ے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے تھے حالانکہ وہ کفرلے کر آئے تھے اور کفر ہی ہی کولے کر چلے گئے اور جو کچھ یہ (دلوں میں) چھپائے ہوئے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے ۔٭
٦٢۔اور ان میں سے اکثر کو آپ گناہ، زیادتی اور حرام کھانے کے لیے دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، کتنا برا کام ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ ٭
٦٣۔ ان کے علماء اور فقہاء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ ان کا یہ عمل کتنا برا ہے؟٭
٦٤۔ اور یہود کہتے ہیں: اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، خود ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان پرلعنت ہو اس (گستاخانہ) بات پر بلکہ اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور (اے رسول) آپ کے رب کی طرف سے جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کرے گی اور ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، یہ جب جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔٭
٦٥۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کے گناہ معاف کر دیتے اور انہیں نعمتوں والی جنتوں میںداخل کر دیتے ۔
٦٦۔ اور اگر یہ اہل کتاب توریت و انجیل اور ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل شدہ دیگر تعلیمات کو قائم رکھتے تو وہ اپنے اوپر کی (آسمانی برکات) اور نیچے کی (زمینی برکات) سے مالا مال ہوتے، ان میں سے کچھ میانہ رو بھی ہیں، لیکن ان میں اکثریت بدکردار لوگوں کی ہے۔٭
٦٧۔ اے رسول ! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔٭
٦٨۔ (اے رسول) کہدیجیے: اے اہل کتاب! جب تک تم توریت اور انجیل اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے، کو قائم نہ کرو تم کسی قابل اعتناء مذہب پر نہیں ہو اور (اے رسول) آپ کے رب کی طرف سے جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان میںسے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کرے گی مگر آپ ان کافروں کے حال پر افسوس نہ کریں۔٭
٦٩۔ جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل انجام دیتے ہیں وہ خواہ مسلمان ہوں یا یہودی یا صابی ہوں یا عیسائی انہیں (روز قیامت) نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ محزون ہوں گے۔
٧٠۔بتحقیق ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے لیکن جب بھی کوئی رسول ان کی طرف ان کی خواہشات کے خلاف کچھ لے کر آیا تو انہوں نے بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل کر دیا۔
٧١۔ اور ان کاخیال یہ تھا کہ ایسا کرنے سے کوئی فتنہ نہیں ہو گا اس لیے وہ اندھے اور بہرے ہو گئے پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی پھر ان میں اکثر اندھے اور بہرے ہو گئے اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے ۔٭
٧٢۔وہ لوگ یقینا کافر ہو گئے جو کہتے ہیں: مسیح بن مریم ہی خدا ہیں جبکہ خود مسیح کہا کرتے تھے: اے بنی اسرائیل تم اللہ ہی کی پرستش کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے، بے شک جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا، بتحقیق اللہ نے اس پر جنت کو حرام کر دیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کو ئی مددگار نہیںہے۔٭
٧٣۔بتحقیق وہ لوگ کافرہو گئے جو کہتے ہیں: اللہ تین میں کا تیسرا ہے جبکہ خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہیں آتے تو ان میںسے کفر کرنے والوں پر دردناک عذاب ضرور واقع ہو گا۔٭
٧٤۔ آخر یہ لوگ اللہ کے آگے توبہ کیوں نہیں کرتے اور مغفرت کیوں نہیں مانگتے؟ اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٧٥۔مسیح بن مریم تو صرف اللہ کے رسول ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیںاور ان کی والدہ صدیقہ (راستباز خاتون) تھیں، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے، دیکھو ہم کس طرح ان کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتے ہیں، پھر دیکھو یہ لوگ کدھر الٹے جار ہے ہیں۔ ٭
٧٦۔ کہدیجیے : کیا تم اللہ کے سوا ایسی چیز کی پرستش کرتے ہو جو تمہارے نقصان اور نفع پر کوئی اختیار نہیں رکھتی؟ اور اللہ ہی خوب سننے ، جاننے والا ہے۔٭
٧٧۔ کہدیجیے: اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے ہی گمراہی میں مبتلا ہیں اور دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی گمراہی میںڈال چکے ہیں اورسیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں.٭
٧٨۔ بنی اسرائیل میںسے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ، داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے ان پر لعنت کی گئی، کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔٭
٧٩۔ جن برے کاموں کے وہ مرتکب ہوتے تھے ان سے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے، ان کا یہ عمل کتنا برا ہے۔
٨٠۔آپ ان میںسے بیشتر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ (مسلمانوں کے مقابلے میں) کافروں سے دوستی کرتے ہیں، انہوں نے جو کچھ اپنے لیے آگے بھیجا ہے وہ نہایت برا ہے جس سے اللہ ان پر ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔
٨١۔ اور اگر وہ اللہ اور نبی اور ان کی طرف نازل کردہ کتاب پر ایمان رکھتے تو ایسے لوگوں سے دوستی نہ کرتے مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔
٨٢۔(اے رسول) اہل ایمان کے ساتھ عداوت میں یہود اور مشرکین کو آپ پیش پیش پائیں گے اور ایمان والوں کے ساتھ دوستی میں انہیں قریب تر پائیں گے، جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میںعالم اور درویش صفت لوگ ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔٭
 

صرف علی

محفلین
پارہ : وَاِذ َاسَمِعُوا 7​
٨٣۔ اور جب وہ رسول کی طرف نازل ہونے والے کلام کو سنتے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ معرفت حق کی بدولت ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، وہ کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہم ایمان لے آئے ہیں پس ہمیں گواہی دینے والوں میں شامل فرما۔
٨٤۔ اور ہم اللہ پر اور اس حق پر کیوں نہ ایمان لائیں جو ہمارے پاس آیا ہے؟ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک بندوں کی صف میں شامل کر لے گا۔٭
٨٥۔اللہ نے اس قول کے عوض انہیںایسی جنتوںسے نوازا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور نیکو کاروں کا یہی صلہ ہے۔
٨٦۔اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔
٨٧۔اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کر دی ہیں انہیں حرام نہ کرو اور حد سے تجاوز بھی نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیںرکھتا۔٭
٨٨۔ اور جو حلال اور پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہیں عنایت کر رکھی ہیں ان میں سے کھاؤ اور اس اللہ کا خوف کرو جس پر تمہارا ایمان ہے۔٭
٨٩۔ اللہ تمہاری بے مقصد قسموں پر تمہارا مواخذہ نہیں کرے گا لیکن جو سنجیدہ قسمیں تم کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا، پس اس (قسم توڑنے) کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑا پہنانا یا غلام آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن روزے رکھے،جب تم قسم کھاؤ (اور اسے توڑ دو) تو یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اللہ اسی طرح اپنی آیات تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔٭
٩٠۔اے ایمان والو!شراب اور جوا اور مقدس تھان اور پانسے سب ناپاک شیطانی عمل ہیں پس اس سے پرہیز کرو تاکہ تم نجات حاصل کر سکو۔٭
٩١۔ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے روکے توکیا تم باز آ جاؤ گے؟٭
٩٢۔ اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنا بچاؤ کرو، پھر اگر تم نے منہ پھیر لیا تو جان لو ہمارے رسول کی ذمے داری تو بس واضح طور پر حکم پہنچا دینا ہے۔٭
٩٣۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان کی ان چیزوں پر کوئی گرفت نہ ہو گی جو وہ کھا پی چکے بشرطیکہ (آئندہ) پرہیز کریں اور ایمان پر قائم رہیں اور نیک اعمال بجا لائیں پھر پرہیز کریں اور ایمان پر قائم رہیں پھر پرہیز کریں اور نیکی کریں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ٭
٩٤۔ اے ایمان والو! اللہ ان شکاروں کے ذریعے تمہیں آزمائش میںڈالے گا جنہیں تم اپنے ہاتھوں اور اپنے نیزوں کے ذریعے پکڑتے ہو تاکہ اللہ یہ معلوم کرے کہ اس سے غائبانہ طور پر کون ڈرتا ہے، پس جو اس کے بعد (بھی) حد سے تجاوز کرے اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ٭
٩٥۔ اے ایمان والو! احرام کی حالت میں شکار نہ کرو اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر (کوئی جانور) مار دے تو جو جانور اس نے مارا ہے اس کے برابر ایک جانور مویشیوں میں سے قربان کرے جس کا فیصلہ تم میںسے دو عادل افراد کریں، یہ قربانی کعبہ پہنچائی جائے یا مسکینوںکو کھانا کھلانے کا کفارہ دے یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کیے کا ذائقہ چکھے، جو ہو چکا اسے اللہ نے معاف کر دیا اور اگر کسی نے اس غلطی کا اعادہ کیا تو اللہ اس سے انتقام لے گا اور اللہ بڑا غالب آنے والا ، انتقام لینے والا ہے۔٭
٩٦۔ تمہارے لیے دریائی شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے، یہ تمہارے اور مسافروں کے فائدے میں ہے اور جب تک تم احرام میں ہو خشکی کا شکار تم پر حرام کر دیا گیا ہے اور جس اللہ کے سامنے جمع کیے جاؤ گے اس سے ڈرتے رہو۔٭
٩٧۔ اللہ نے حرمت کے گھر کعبہ کو لوگوں کے لیے(امور معاش اور معاد کی) کی استواری (کا ذریعہ) بنایا اور حرمت کے مہینوں کو بھی اور قربانی کے جانور کو بھی اور ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں پٹے باندھے گئے ہوں، یہ اس لیے تاکہ تم جان لو کہ اللہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے اور یہ کہ اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔٭
٩٨۔ جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے اوربڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٩٩۔رسو ل کے ذمے بس حکم پہنچادینا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اللہ سب جانتا ہے۔
١٠٠۔ (اے رسول) کہدیجیے: ناپاک اور پاک برابر نہیں ہو سکتے خواہ ناپاکی کی فراوانی تمہیں بھلی لگے، پس اے صاحبان عقل اللہ کی نافرمانی سے بچو شاید تمہیں نجات مل جائے ۔٭
١٠١۔ اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میںسوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر ان کے بارے میں نزول قرآن کے قت پوچھو گے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی (جو کچھ اب تک ہوا) اس سے اللہ نے درگزر فرمایا اور اللہ بڑا بخشنے والا، بردبار ہے۔٭
١٠٢۔ایسی باتیں تم سے پہلے لوگوں نے بھی پوچھی تھیں پھر وہ لوگ انہی باتوں کی وجہ سے کافر ہو گئے۔
١٠٣۔ اللہ نے نہ کوئی بحیرہ بنایا ہے اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام، بلکہ کافر لوگ اللہ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں اور ان میں اکثر تو عقل ہی نہیں رکھتے۔٭
١٠٤۔اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو دستور اللہ نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں: ہمارے لیے وہی (دستور)کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور ہدایت پر بھی نہ ہوں۔
١٠٥۔ اے ایمان والو !اپنی فکر کرو، اگر تم خود راہ راست پر ہو تو جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا، تم سب کو پلٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے پھر وہ تمہیںآگاہ کرے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔٭
١٠٦۔اے ایمان والو ! جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے تو وصیت کرتے وقت گواہی کے لیے تم میںسے دو عادل شخص موجود ہوں یا جب تم سفر میں ہو اور موت کی مصیبت پیش آ رہی ہو تو دوسرے دو(غیر مسلموں)کو گواہ بنا لو، اگر تمہیں ان گواہوں پر شک ہو جائے تونماز کے بعد دونوں گواہوں کو روک لو کہ وہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم گواہی کا کوئی معاوضہ نہیں لیں گے اگرچہ رشتہ داری کا معاملہ ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم خدائی شہادت کو چھپائیں گے، اگر ایسا کریں تو ہم گنہگاروں میںسے ہوجائیں گے۔٭
١٠٧۔پھر اگر انکشاف ہو جائے کہ ان دونوں نے (جھوٹ بول کر) گناہ کا ارتکاب کیا تھا تو ان کی جگہ دو اور افراد جن کی حق تلفی ہو گئی ہو اور وہ (میت کے) قریبی ہوں کھڑے ہو جائیں اور اللہ کی قسم کھائیںکہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے کوئی تجاوز نہیں کیا، اگر ایسا کریں تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔٭
١٠٨۔ اس طرح زیادہ امید کی جا سکتی ہے کہ لوگ صحیح شہادت پیش کریں یا اس بات کا خوف کریں کہ ان کی قسموںکے بعد ہماری قسمیں رد کر دی جائیں اور اللہ سے ڈرو اور سنو اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔٭
١٠٩۔(اس دن کا خوف کرو) جس دن اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے ان سے پوچھے گا: (امتوں کی طرف سے) تمہیں کیا جواب ملا؟ وہ عرض کریںگے: (تیرے علم کی نسبت) ہمیں علم ہی نہیں، غیب کی باتوں کو یقینا تو ہی خوب جانتا ہے۔٭
١١٠۔ جب عیسی بن مریم سے اللہ نے فرمایا: یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تمہیں اور تمہاری والدہ کو عطا کی ہے جب میں نے روح القدس کے ذریعے تمہاری تائید کی، تم گہوارے میں اور بڑے ہو کر لوگوں سے باتیں کرتے تھے اور جب میں نے تمہیں کتاب، حکمت، توریت اور انجیل کی تعلیم دی اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے پھر تم اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور تم مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے صحت یاب کرتے تھے اور تم میرے حکم سے مردوں کو (زندہ کر کے) نکال کھڑا کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل کو اس وقت تم سے روک رکھا جب تم ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے تو ان میں سے کفر اختیار کرنے والوں نے کہا: یہ تو ایک کھلا جادو ہے۔ ٭
١١١۔ اور جب میں نے حواریوں پر الہام کیا کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لے آئیں تو وہ کہنے لگے: ہم ایمان لے آئے اور گواہ رہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔٭
١١٢۔ (وہ وقت یاد کرو) جب حواریوںنے کہا: اے عیسی بن مریم کیا آپ کا رب ہمارے لیے آسمان سے کھانے کا خوان اتار سکتا ہے؟ تو عیسیٰ نے کہا : اگر تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو۔٭
١١٣۔ انہوں نے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ اس (خوان) میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور یہ جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے اور اس پر ہم گواہ رہیں.٭
١١٤۔ تب عیسیٰ بن مریم نے دعا کی: اے اللہ!اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے آسمان سے کھانے کا ایک خوان نازل فرما کہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے وہ دن عید اور تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے۔٭
١١٥۔ اللہ نے فرمایا: میںیہ خوان تم پر نازل کرنے والا ہوں، لیکن اگر اس کے بعد تم میں سے کوئی کفر اختیار کرے گا تو اسے میں ایسا عذاب دوں گا کہ اس جیسا عذاب عالمین میں کسی کو نہ دیا ہو گا۔٭
١١٦۔ اور (وہ وقت یاد کرو ) جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو خدا بناؤ؟ عیسیٰ نے عرض کی: تو پاک ہے میں ایسی بات کیسے کہ سکتا ہوں جس کا مجھے کوئی حق ہی نہیں؟ اگر میں نے ایسا کچھ کہا ہوتا تو تجھے اس کا علم ہوتا، کیونکہ تو میرے دل کی بات جانتا ہے لیکن میں تیرے اسرار نہیں جانتا، یقینا تو ہی غیب کی باتیں خوب جاننے والا ہے۔٭
١١٧۔میں نے تو ان سے صرف وہی کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اس اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے، جب تک میں ان کے درمیان رہا میں ان پر گواہ رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو خود ہی ان پر نگران ہے اور تو ہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ ٭
١١٨۔ اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو ہی غالب آنے والا حکمت والا ہے۔٭
١١٩۔ اللہ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، ان کے لیے ایسی جنتیںہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے.٭
١٢٠۔ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
 

صرف علی

محفلین
سورہ انعام ۔ مکی ۔ آیات ١٦٥
بنام خدائے رحمن ورحیم
١۔ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا، پھر بھی یہ کافر (دوسرے دیوتاؤں کو) اپنے رب کے برابر لاتے ہیں۔
٢۔ اسی نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت کا فیصلہ کیا اور ایک مقررہ مدت اس کے پاس ہے، پھربھی تم تردد میں مبتلا ہو۔٭
٣۔ اور آسمانوںمیں بھی اور زمین میں بھی وہی ایک اللہ ہے، وہ تمہاری پوشیدہ اور ظاہری باتوں کو جانتا ہے اور تمہارے اعمال کو بھی جانتا ہے ۔٭
٤۔ اور اللہ کی نشانیوںمیںسے جو بھی نشانی ان کے پاس آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔٭
٥۔ چنانچہ جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے بھی جھٹلا دیا، پس جس چیز کا یہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں اس کی خبر عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گی۔٭
٦۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی ایسی قوموں کو نابود کر دیا جنہیں ہم نے زمین میں وہ اقتدار دیا تھا جو ہم نے تمہیں نہیں دیا؟ اور ہم نے ان پر آسمان سے موسلا دھار بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں جاری کر دیں پھر ہم نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں ہلاک کر دیا اور ان کے بعد ہم نے اور قومیں پیدا کیں۔
٧۔اور (اے رسول) اگرہم کاغذ پر لکھی ہوئی کوئی کتاب (بھی) آپ پر نازل کرتے اور یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے اسے چھو بھی لیتے تب بھی کافر یہی کہتے کہ یہ ایک صریح جادو کے سوا کچھ نہیں۔
٨۔ اور کہتے ہیں: اس (پیغمبر) پر فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا اور اگر ہم نے فرشتہ نازل کر دیا ہوتا تو (اب تک) فیصلہ بھی ہو چکا ہوتا پھر انہیں(ذرا)مہلت نہ دی جاتی۔٭
٩۔اور اگر ہم اسے فرشتہ قرار دیتے بھی تو مردانہ (شکل میں) قرار دیتے اور ہم انہیں اسی شبہ میں مبتلا کرتے جس میں وہ اب مبتلا ہیں۔٭
١٠۔ اور آپ سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ تمسخر ہوتا رہا ہے آخر کار تمسخر کرنے والوں کو اسی بات نے گرفت میں لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔٭
١١۔ (ان سے) کہدیجیے : زمین میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے؟٭
١٢۔ ان سے پوچھ لیجیے: آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ کہدیجیے: (سب کچھ) اللہ ہی کا ہے، اس نے رحمت کو اپنے پر لازم کر دیا ہے، وہ تم سب کو قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ضرور بہ ضرور جمع کرے گا جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔٭
١٣۔ اور جو (مخلوق) رات اور دن میںبستی ہے وہ سب اللہ کی ہے اور وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔
١٤۔ کہدیجیے:کیا میں آسمانوں اور زمین کے خالق اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا آقا بناؤں؟ جبکہ وہی کھلاتا ہے اور اسے کھلایا نہیں جاتا، کہدیجیے : مجھے یہی حکم ہے کہ سب سے پہلے اس کے آگے سر تسلیم خم کروں اور یہ (بھی کہا گیا ہے) کہ تم ہرگز مشرکین میںسے نہ ہونا۔٭
١٥۔( یہ بھی) کہدیجیے: اگر میںاپنے رب کی نافرمانی کروں تومجھے بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔٭
١٦۔ جس شخص سے اس روز یہ (عذاب) ٹال دیا گیا اس پر اللہ نے(بڑا ہی) رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے۔
١٧۔ اور اگر اللہ تمہیں ضرر پہنچائے تو خود اس کے سوا اسے دور کرنے والا کوئی نہیں اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی عطا کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
١٨۔ اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہی بڑا حکمت والا ، باخبر ہے۔
١٩۔ کہدیجیے: گواہی کے لحاظ سے کون سی چیز سب سے بڑی ہے؟ کہدیجیے: اللہ ہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے تاکہ میںتمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کو تنبیہ کروں، کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ کہدیجیے: میں تو ایسی گواہی نہیں دیتا، کہدیجیے: معبود تو صرف وہی ایک ہے اور جو شرک تم کرتے ہو میں اس سے بیزار ہوں۔٭
٢٠۔ جنہیںہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول) کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال رکھا ہے، پس وہی ایمان نہیں لائیںگے۔٭
٢١۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرے یا اس کی آیات کو جھٹلائے؟ یقینا ایسے ظالم کبھی نجات نہیں پائیں گے۔
٢٢۔ اورجس دن ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے پھر ہم مشرکوں سے پوچھیں گے: تمہارے وہ شریک اب کہاں ہیں جن کا تمہیں زعم تھا؟ ٭
٢٣۔پھر ان سے اور کوئی عذر بن نہ سکے گا سوائے اس کے کہ وہ کہیں: اپنے رب اللہ کی قسم ہم مشرک نہیں تھے۔ ٭
٢٤۔دیکھیں: انہوںنے اپنے آپ پر کیسا جھوٹ بولا اور جو کچھ وہ افترا کرتے تھے کس طرح بے حقیقت ثابت ہوا؟ ٭
٢٥۔اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر آپ کی باتیں سنتے ہیں، لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ انہیں سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں میں گرانی (بہرہ پن) ہے اور اگر وہ تمام نشانیاں دیکھ لیں پھر بھی ان پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ یہ (کافر) آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے جھگڑتے ہیں، کفار کہتے ہیں: یہ تو بس قصہ ہائے پارینہ ہیں۔٭
٢٦۔ اور یہ(لوگوں کو) اس سے روکتے ہیں اور (خود بھی) ان سے دور رہتے ہیں اور وہ صرف اپنے آپ کو ہلاکت میںڈال رہے ہیں مگر اس کا شعور نہیں رکھتے۔٭
٢٧۔ اور اگر آپ (وہ منظر)دیکھیں جب وہ جہنم کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے: کاش ہم پھر (دنیا میں) لوٹا دیے جائیں اور ہم اپنے رب کی آیات کی تکذیب نہ کریں اور ہم ایمان والوں میں شامل ہو جائیں۔ ٭
٢٨۔بلکہ ان پر وہ سب کچھ واضح ہو گیا جسے یہ پہلے چھپا رکھتے تھے اور ا گر انہیں واپس بھیج بھی دیا جائے تو یہ پھر وہی کریںگے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے اور یقینا یہ جھوٹے ہیں۔ ٭
٢٩۔اور کہتے ہیں: ہماری اس دنیاوی زندگی کے سوا کچھ بھی نہیں اور ہم (مرنے کے بعد دوبارہ) زندہ نہیں کیے جائیں گے۔
٣٠۔ اور اگر آپ(وہ منظر ) دیکھ لیں جب یہ لوگ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تووہ فرمائے گا: کیا یہ(دوبارہ زندہ ہونا)حق نہیں ہے؟ وہ کہیںگے: کیوں نہیں؟ ہمارے رب کی قسم (یہ حق ہے)، وہ فرمائے گا: پھر اپنے کفر کے بدلے عذاب چکھو۔
٣١۔وہ لوگ گھاٹے میںرہ گئے جو اللہ سے ملاقات کو جھٹلاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان پر اچانک قیامت آجائے گی تو (یہی لوگ) کہیںگے: افسوس ہم نے اس میں کتنی کوتاہی کی اور اس وقت وہ اپنے گناہوں کا بوجھ اپنی پیٹھوں پر لادے ہوئے ہوں گے،دیکھوکتنا برا ہے یہ بوجھ جو یہ اٹھائے ہوئے ہیں۔
٣٢۔ اور دنیاکی زندگی ایک کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں اور اہل تقویٰ کے لیے دار آخرت ہی بہترین ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟٭
٣٣۔ہمیں علم ہے کہ ان کی باتیں یقینا آپ کے لیے رنج کا باعث ہیں، پس یہ صرف آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ یہ ظالم لوگ درحقیقت اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔٭
٣٤۔ اور بتحقیق آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاتے رہے اور تکذیب و ایذا پر صبر کر تے رہے ہیں یہاںتک کہ انہیںہماری مدد پہنچ گئی اور اللہ کے کلمات تو کوئی بدل نہیں سکتا، چنانچہ سابقہ پیغمبروں کی خبریں آپ تک پہنچ چکی ہیں۔٭
٣٥۔ اور ان لوگوں کی بے رخی اگر آپ پر گراں گزرتی ہے توآپ سے ہو سکے تو زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی تلاش کریں پھر ان کے پاس کوئی نشانی لے کر آئیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا، پس آپ نادانوں میں سے ہرگز نہ ہوں۔٭
٣٦۔ یقینا مانتے وہی ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ (قبروںسے) اٹھائے گا پھر وہ اسی کی طرف پلٹائے جائیں گے۔
٣٧۔ اور وہ کہتے ہیں: اس (نبی) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی معجزہ نازل کیوں نہیں ہوا؟ کہدیجیے: اللہ معجزہ نازل کرنے پر قادر ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٣٨۔ اور زمین پر چلنے والے تمام جانور اور ہوا میں اپنے دو پروں سے اڑنے والے سارے پرندے بس تمہاری طرح کی امتیں ہیں، ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی پھر(سب) اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیںگے۔٭
٣٩۔ اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں وہ بہرے اور گونگے ہیں جو تاریکیوں میں (پڑے ہوئے) ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے ۔
٤٠۔ کہدیجیے: یہ تو بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب آ جائے یا قیامت آ جائے تو کیا تم (اس وقت) اللہ کے سوا کسی اور کو پکاروگے؟ (بتاؤ) اگر تم سچے ہو۔٭
٤١۔ بلکہ (اس وقت) تم اللہ ہی کو پکارو گے اور اگر اللہ چاہے تو یہ مصیبت تم سے ٹال دے گا جس کے لیے تم اسے پکارتے تھے اور جنہیں تم نے شریک بنا رکھا ہے اس وقت انہیں تم بھول جاؤ گے۔٭
٤٢۔اور بے شک آپ سے پہلے (بھی) بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے پھر ہم نے انہیں سختیوں اور تکالیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کا اظہار کریں.٭
٤٣۔ پھر جب ہماری طرف سے سختیاں آئیں تو انہوں نے عاجزی کا اظہار کیوں نہ کیا؟ بلکہ ان کے دل اور سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے اعمال انہیں آراستہ کر کے دکھائے۔٭
٤٤۔پھر جب انہوںنے وہ نصیحت فراموش کر دی جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر طرح (کی خوشحالی) کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ وہ ان بخششوں پر خوب خوش ہو رہے تھے ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا پھر وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔٭
٤٥۔اس طرح ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور ثنائے کامل اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔٭
٤٦۔کہدیجیے:(کافرو) تم یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سماعت اور تمہاری بصارت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں یہ (چیزیں) عطا کرے؟ دیکھو ہم کس طرح اپنی آیات بیان کرتے ہیں پھر بھی یہ لوگ منہ موڑ لیتے ہیں۔٭
٤٧۔ کہدیجیے: بھلا تم یہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر اچانک یا اعلانیہ طور پر آ جائے تو کیاظالموںکے سوا کوئی ہلاک ہو گا؟٭
٤٨۔اور ہم تو رسولوں کو صرف بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے بنا کر بھیجتے ہیں، پھر جو ایمان لے آئے اور اصلاح کر لے تو ایسے لوگوں کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ محزون ہوں گے۔
٤٩۔اور جنہوںنے ہماری آیات کو جھٹلایا وہ اپنی نافرمانیوں کی پاداش میں عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
٥٠۔کہدیجیے: میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی ہوتی ہے، کہدیجیے: کیا اندھا اور بینا برابر ہو سکتے ہیں؟کیا تم غور نہیں کرتے؟٭
٥١۔ اور آپ اس (قرآن) کے ذریعے ان لوگوں کو متنبہ کریں جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے سامنے ایسی حالت میں جمع کیے جائیںگے کہ اللہ کے سوا ان کا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ شفاعت کنندہ، شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔٭
٥٢۔اور جو لوگ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ کریں، نہ آپ پر ان کا کوئی بار حساب ہے اور نہ ہی ان پر آپ کا کوئی بار حساب ہے کہ آپ انہیں (اپنے سے) دور کر دیں پس (اگر ایسا کیا تو) آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔٭
٥٣۔ اور اس طرح ہم نے ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے (یوں) آزمائش میں ڈالا کہ وہ یہ کہدیں کہ کیا ہم میں سے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے فضل وکرم کیا ہے؟ (کہدیجیے) کیا اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو بہتر نہیں جانتا؟
٥٤۔اور جب آپ کے پاس ہماری آیات پر ایمان لانے والے لوگ آجائیں تو ان سے کہیے: سلام علیکم تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے کہ تم میں سے جو نادانی سے کوئی گناہ کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کر لے تو وہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
٥٥۔ اور اسی طرح آیات کو ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ مجرموں کا راستہ نمایاں ہو جائے۔
٥٦۔کہدیجیے: اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان کی بندگی سے مجھے منع کیا گیا ہے، کہدیجیے: میں تمہاری خواہشات کی اتباع نہیں کروں گا اور اگر ایسا کروں تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور ہدایت یافتہ افراد میں شامل نہیں رہوں گا۔
٥٧۔ کہدیجیے: میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر(قائم) ہوں اور تم اس کی تکذیب کر چکے ہو، جس چیز کی تم جلدی کر رہے ہووہ میرے پاس نہیں ہے، فیصلہ تو صرف اللہ ہی کرتا ہے وہ حقیقت بیان فرماتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے.
٥٨۔کہدیجیے: جس چیز کی تم جلدی کر رہے ہو اگر وہ میرے پاس موجود ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔٭
٥٩۔ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ خشکی اور سمندر کی ہر چیز سے واقف ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اس سے آگاہ ہوتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ اور خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو۔٭
٦٠۔ اور وہی تو ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتاہے اور دن میںجو کچھ تم کرتے ہو اس کا علم رکھتا ہے پھر وہ دن میں تمہیں اٹھا دیتا ہے تاکہ معینہ مدت پوری کی جائے پھر تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔٭
٦١۔ اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبانی کرنے والے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی ایک کو موت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔ ٭
٦٢۔پھر وہ اپنے مالک حقیقی اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے، آگاہ رہو فیصلہ کرنے کا حق صرف اسی کو حاصل ہے اور وہ نہایت سرعت سے حساب لینے والا ہے۔
٦٣۔ کہدیجیے: کون ہے جو تمہیں صحراؤں اور دریاؤں کی تاریکیوں میں نجات دیتا ہے ؟ جس سے تم گڑگڑا کر اور چپکے چپکے التجا کرتے ہو کہ اگر اس (بلا) سے ہمیں بچا لیا تو ہم شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔ ٭
٦٤۔کہدیجیے: تمہیں اس سے اور ہر مصیبت سے اللہ ہی نجات دیتا ہے پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔ ٭
٦٥۔ کہدیجیے:اللہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے تم پر کوئی عذاب بھیج دے یا تمہیں فرقوں میں الجھا کر ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم اپنی آیات کو کس طرح مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائیں۔٭
٦٦۔اور آپ کی قوم نے اس (قرآن) کی تکذیب کی ہے حالانکہ یہ حق ہے۔، کہدیجیے: میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں۔
٦٧۔ اور ہر خبر کے لیے ایک وقت مقرر ہے عنقریب تمہیں معلوم ہو جا ئے گا۔٭
٦٨۔ اور جب آپ دیکھیں کہ لوگ ہماری آیات کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے ہیں تو آپ وہاں سے ہٹ جائیںیہاں تک کہ وہ کسی دوسری گفتگو میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان آپ کو بھلا دے تو یاد آنے پر آپ ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھیں٭
٦٩۔اور اہل تقویٰ پر ان (ظالموں) کا کچھ بار حساب نہیں تاہم نصیحت کرنا چاہیے شاید وہ اپنے آپ کو بچا لیں۔
٧٠۔ اور (اے رسول) جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنایا ہوا ہے اور دنیا کی زندگی نے انہیں فریب دے رکھا ہے آپ انہیں چھوڑ دیں البتہ اس (قرآن) کے ذریعے انہیں نصیحت ضرور کریں مبادا کوئی شخص اپنے کیے کے بدلے پھنس جائے کہ اللہ کے سوا اس کا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ ہی شفاعت کنندہ اور اگر وہ ہر ممکن معاوضہ دینا چاہے تب بھی اس سے قبول نہ ہو گا، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی کرتوتوں کی وجہ سے گرفتار بلا ہوئے، ان کے کفر کے عوض ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے۔٭
٧١۔ کہدیجیے: کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کر سکتے ہیں اور نہ برا؟ اور کیا آپ کی طرف سے ہدایت ملنے کے بعد ہم اس شخص کی طرح الٹے پاؤں پھر جائیں جسے شیاطین نے بیابانوں میں راستہ بھلا دیا ہو اور وہ سرگرداں ہو؟ جب کہ اس کے ساتھی اسے بلا رہے ہوں کہ سیدھے راستے کی طرف ہمارے پاس چلا آ، کہدیجیے: ہدایت تو صرف اللہ کی ہدایت ہے اور ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم رب العالمین کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔
٧٢۔ اور یہ کہ نماز قائم کرو اور تقوائے الٰہی اختیار کرو اور وہی تو ہے جس کی بارگاہ میں تم جمع کیے جاؤ گے۔
٧٣۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیااور جس دن وہ کہے گا ہو جا! تو ہو جائے گا،اس کا قول حق پر مبنی ہے اور اس دن بادشاہی اسی کی ہو گی جس دن صور پھونکا جائے گا، وہ پوشیدہ اور ظاہری باتوں کا جاننے والا ہے اور وہی باحکمت خوب باخبر ہے۔
٧٤۔اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) آزر سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔٭
٧٥۔اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا (نظام) حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں۔٭
٧٦۔چنانچہ جب ابراہیم پر رات کی تاریکی چھائی تو ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگے: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہو گیا توکہنے لگے: میںغروب ہوجانے والوں کوپسند نہیں کرتا۔٭
٧٧۔پھر جب چمکتا چاند دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے اور جب چاند چھپ گیا تو بولے: اگر میرا رب میری رہنمائی نہ فرماتا تو میں بھی ضرور گمراہوں میں سے ہو جاتا۔٭
٧٨۔پھر جب سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا تو بولے:یہ میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہنے لگے:اے میری قوم! جن چیزوں کو تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ۔٭
٧٩۔ میں نے تو اپنا رخ پوری یکسوئی سے اس ذات کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔٭
٨٠ ۔ اور ابراہیم کی قوم نے ان سے بحث کی تو انہوں نے کہا:کیا تم مجھ سے اس اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہو جس نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے؟ اور جن چیزوں کو تم اس کا شریک ٹھہراتے ہو ان سے مجھے کوئی خوف نہیں مگر یہ کہ میرا پروردگار کوئی امر چاہے، میرے پروردگار کے علم نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے، کیا تم سوچتے نہیں ہو؟
٨١۔اور میں تمہارے بنائے ہوئے شریکوں سے کیونکر ڈروں جب کہ تم ان چیزوں کو اللہ کا شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کی کوئی دلیل اس نے تم پر نازل نہیں کی؟ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو توبتاؤ کہ کون سا فریق امن و اطمینان کا زیادہ مستحق ہے ۔
٨٢۔جو ایمان لائے ہیںاور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے ملوث نہیں کیا یہی لوگ امن میں ہےں اور یہی ہدایت یافتہ ہے۔
٨٣۔ اور یہ ہماری وہ دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں عنایت فرمائی، جس کے ہم چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں، بے شک آپ کا رب بڑا حکمت والا، خوب علم والا ہے۔
٨٤۔اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے، سب کی رہنمائی بھی کی اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کی بھی اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں،
٨٥۔اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کی بھی، (یہ) سب صالحین میں سے تھے.٭
٨٦۔ اور اسماعیل، یسع، یونس اور لوط (کی رہنمائی کی) اور سب کو عالمین پر فضیلت ہم نے عطا کی ۔٭
٨٧۔ اور اسی طرح ان کے آبا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں کو بھی (ہدایت دی) اور ہم نے انہیں منتخب کر لیا اور ہم نے راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کی۔
٨٨۔یہ ہے اللہ کی ہدایت جس سے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نوازے اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو ان کے کیے ہوئے تمام اعمال برباد ہو جاتے ۔
٨٩۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی، اب اگر یہ لوگ ان کا انکار کریں تو ہم نے ان پر ایسے لوگ مقرر کر رکھے ہیں جو ان کے منکر نہیں ہیں۔
٩٠۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے تو آپ بھی انہی کی ہدایت کی اقتدا کریں،کہدیجیے: میں اس (تبلیغ قرآن) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ تو عالمین کے لیے فقط ایک نصیحت ہے۔٭
٩١۔اور انہوں نے اللہ کو ایسے نہیں پہچانا جیسے اسے پہچاننے کا حق تھا جب انہوں نے کہا: اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ان سے پوچھیں: پھر وہ کتاب جو موسیٰ لے کر آئے تھے کس نے نازل کی جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی؟ اس کا کچھ حصہ ورق ورق کر کے دکھاتے ہو اور بہت کچھ چھپا لیتے ہو اور تمہیں وہ علم سکھا دیا تھا جو نہ تم جانتے ہو نہ تمہارے باپ دادا، کہدیجیے: اللہ ہی نے (اسے نازل کیا تھا)، پھر انہیں ان کی بیہودگیوں میں کھیلتے چھوڑ دیں۔
٩٢۔ اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بڑی بابرکت ہے جو اس سے پہلے آنے والی کی تصدیق کرتی ہے اور تاکہ آپ ام القریٰ (اہل مکہ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو تنبیہ کریں اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہی اس (قرآن) پر بھی ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔٭
٩٣۔ اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی ہوئی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نہیں ہوئی اور جو یہ کہے کہ جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ویسا میں بھی نازل کر سکتا ہوں اور کاش آپ ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھ لیتے جب فرشتے ہاتھ بڑھائے ہوئے کہ رہے ہوں: نکالو اپنی جان، آج تمہیں ذلت آمیز عذاب دیا جائے گا کیونکہ تم اللہ پر ناحق باتوں کی تہمت لگایا کرتے تھے اور اللہ کی نشانیوں کے مقابلے میں تکبر کیا کرتے تھے۔٭
٩٤۔اور لو آج تم ہمارے پاس اسی طرح تنہا آگئے ہو جس طرح ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا تھا وہ سب اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے وہ سفارشی نہیں دیکھ رہے ہیں جن کے بارے میں تمہارا یہ خیال تھا کہ وہ تمہارے کام بنانے میں تمہارے شریک ہوں گے، آج تمہارے باہمی تعلقات منقطع ہو گئے اور تم جو دعوے کیا کرتے تھے وہ سب ناپید ہو گئے۔٭
٩٥۔ بے شک اللہ دانے اور گٹھلی کا شگافتہ کرنے والا ہے، وہی مردے سے زندہ کو اور زندہ سے مردے کو نکالنے والا ہے، یہ ہے اللہ، پھر تم کدھر بہکے جا رہے ہو۔٭
٩٦۔وہ صبح کا شگافتہ کرنے والا ہے اور اس نے رات کو (باعث) سکون اور سورج چاند کو حساب سے رکھا ہے، یہ سب غالب آنے والے دانا کی بنائی ہوئی تقدیر ہے.٭
٩٧۔ اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرو، اہل علم کے لیے ہم نے اپنی آیات کھول کر بیان کی ہے۔
٩٨۔اور وہی ہے جس نے تم سب کو ایک ہی ذات سے پیدا کیا، پھر ایک جائے استقرار ہے اور جائے ودیعت، ہم نے صاحبان فہم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کر دیا ہے۔٭
٩٩۔ اور وہی تو ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے ہم نے ہر طرح کی روئیدگی نکالی پھر اس سے ہم نے سبزہ نکالا جس سے ہم تہ بہ تہ گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے شگوفوں سے آویزاں گچھے اور انگور، زیتون اور انار کے باغات (جن کے پھل) ایک دوسرے سے مشابہ اور (ذائقے) جدا جدا ہےں، ذرا اس کے پھل کو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو، اہل ایمان کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔٭
١٠٠۔اور ان لوگوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے اور نادانی سے اللہ کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ ڈالیں، جو باتیں یہ لوگ کہتے ہیں اللہ ان سے پاک اور بالاتر ہے۔٭
١٠١۔ وہ آسمانوںاور زمین کاموجد ہے، اس کا بیٹا کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ اس کی کوئی شریک زندگی نہیں ہے اور ہر چیز کو اس نے پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔٭
١٠٢ ۔ یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر چیز کا خالق ہے لہٰذا اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگران ہے ۔
١٠٣۔ نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں جب کہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ نہایت باریک بین، بڑا باخبر ہے۔٭
١٠٤۔ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بصیرت افروز دلائل آ گئے ہیں، اب جس نے آنکھ کھول کر دیکھا اس نے اپنا بھلا کیا اور جو اندھا بن گیا اس نے اپنا نقصان کیا اور میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں۔٭
١٠٥۔ اور ہم اس طرح آیات مختلف انداز میں بیان کرتے ہیںجس سے وہ یہ کہیں گے کہ آپ نے (کسی سے قرآن) پڑھا ہے اور اس لیے بھی کہ ہم یہ بات اہل علم پر واضح کر دیں ۔
١٠٦۔آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر جو وحی ہوئی ہے اس کی اتباع کریں، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور مشرکین سے کنارہ کش ہوجائیں۔
١٠٧۔ اور اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو یہ لوگ شرک کر ہی نہیں سکتے تھے اور ہم نے آپ کو ان پر نگہبان مقرر نہیںکیا اور نہ ہی آپ ان کے ذمے دار ہیں۔
١٠٨۔گالی مت دو ان کوجن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں، اس طرح ہم نے ہر قوم کے لیے ان کے اپنے کردار کو دیدہ زیب بنایا ہے، پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پس وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔٭
١٠٩۔ اور یہ لوگ اللہ کی پکی قسمیںکھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کو ئی معجزہ آئے تو یہ اس پر ضرور ایما ن لے آئیں گے، کہدیجیے: اللہ کے پاس یقینا معجزے بہت ہیں، لیکن (مسلمانو!) تمہیں کیا معلوم کہ معجزے آ بھی جائیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیںگے۔٭
١١٠۔اور ہم ان کے دل و نگاہ کو اس طرح پھیر دیںگے جیساکہ یہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں سرگرداں چھوڑے رکھیں گے۔
١١١۔ اور اگر ہم ان پر فرشتے بھی نازل کر دیں اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگیں اور ہر چیز کو ہم ان کے سامنے جمع کر دیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیںگے، مگر اللہ چاہے (تو اور بات ہے)لیکن ان میں سے اکثر لوگ جہالت میں ہیں۔ ٭
١١٢۔ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے جن و انس کے شیطانوں کو دشمن قرار دیا ہے جو ایک دوسرے کو فریب کے طور پر ملمع آمیز باتیں سکھایا کرتے ہیں اور اگر آپ کا رب چاہتا تو یہ ایسا نہ کر سکتے، پس انہیں بہتان تراشی میں چھوڑ دیں۔٭
١١٣۔ اور (انہیں یہ مہلت اس لیے ملی ہے) تاکہ جو آخرت پر ایمان نہیںرکھتے ان کے دل (ملمع آمیز باتوں) کی طرف مائل رہیں اور وہ اس سے راضی رہیں اور جن حرکتوں میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں انہی میں مصروف رہیں۔
١١٤۔ کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو منصف بناؤں؟ حالانکہ اس نے آپ کی طرف مفصل کتاب نازل کی ہے اور جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ قرآن آپ کے رب کی طرف سے برحق نازل ہواہے، لہٰذا آپ ہرگز شک کرنے الوں میں سے نہ ہوں۔٭
١١٥۔اور آپ کے رب کاکلمہ سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے، اس کے کلمات کو تبدیل کرنے والا کوئی نہیں اور وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
١١٦۔ اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیںگے، یہ لوگ تو صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں اور یہ صرف قیاس آرائیاں ہی کیا کرتے ہیں۔٭
١١٧۔ بے شک آپ کارب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا اور ہدایت پانے والوں سے بھی وہ خوب آگاہ ہے۔
١١٨۔ لہٰذا اگر تم اللہ کی نشانیوں پر ایمان رکھتے ہو تو وہ (ذبیحہ) کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔٭
١١٩۔ اور کیا وجہ ہے کہ تم وہ (ذبیحہ) نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو؟ حالانکہ اللہ نے جن چیزوں کو اضطراری حالت کے سوا تم پر حرام قرار دیا ہے ان کی تفصیل اس نے تمہیں بتا دی ہے اور بے شک اکثر لوگ اپنی خواہشات کی بنا پر نادانی میں گمراہ کرتے ہیں، آپ کا رب حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقینا خوب جانتا ہے۔٭
١٢٠۔ اور تم ظاہری اور پوشیدہ گناہوں کو ترک کر دو، جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں بے شک وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیںگے۔٭
١٢١۔ اور جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ سنگین گناہ ہے اور شیاطین اپنے دوستوں کو پڑھاتے ہیں کہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم بھی مشرک بن جاؤ گے۔٭
١٢٢۔ کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے اسے روشنی بخشی جس کی بدولت وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہو اور اس سے نکل نہ سکتا ہو؟ یوں کافروں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔
١٢٣۔ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے بڑے بڑے مجرموں کو مسلط کر دیا کہ وہاں پر (برے) منصوبے بناتے رہیں (درحقیقت) وہ غیر شعوری طور پر اپنے ہی خلاف منصوبے بناتے ہیں۔٭
١٢٤۔اور جب کوئی آیت ان کے پاس آتی ہے توکہتے ہیں:ہم اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک ہمیں بھی وہ چیز نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے، اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے، جن لوگوں نے جرم کا ارتکاب کیا انہیں ان کی مکاریوںکی پاداش میں اللہ کے ہاں عنقریب ذلت اور شدید عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔٭
١٢٥۔ پس جسے اللہ ہدایت بخشنا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو ایسا تنگ گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو، ایمان نہ لانے والوں پر اللہ اس طرح ناپاکی مسلط کرتا ہے۔٭
١٢٦۔ اور یہ آپ کے رب کا سیدھا راستہ ہے، ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نشانیاں واضح کر دی ہیں۔٭
١٢٧۔ ان کے پروردگار کے ہاں ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اور ان کے اعمال کے عوض وہی ان کا کارساز ہے۔٭
١٢٨۔اور اس دن اللہ سب کو جمع کرے گا (اور فرمائے گا)اے گروہ جنات! تم نے انسانوں(کی گمراہی)میں بڑا حصہ لیا، انسانوں میں سے جنات کے ہمنوا کہیں گے: ہمارے پروردگار! ہم نے ایک دوسرے سے خوب استفادہ کیا ہے اور اب ہم اس و قت کو پہنچ گئے ہیں جو وقت تو نے ہمارے لیے مقرر کر رکھا تھا، اللہ فرمائے گا:اب آتش جہنم ہی تمہارا ٹھکانا ہے جس میں تم ہمیشہ رہو گے سوائے اس کے جسے اللہ(نجات دینا)چاہے،آپ کا رب یقینا بڑا حکمت والا، علم والا ہے۔٭
١٢٩۔ اور اس طرح ہم ظالموں کو ان کے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو وہ کر رہے ہیں ایک دوسرے پر مسلط کریں گے۔٭
١٣٠۔ اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو میری آیات تمہیں سناتے تھے اور آج کے دن کے وقوع کے بارے میں تمہیں متنبہ کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور دنیاوی زندگی نے انہیں دھوکہ دے رکھا تھا اور (آج) وہ اپنے خلاف گواہی دے رہے ہیں کہ وہ کافر تھے۔٭
١٣١۔ وہ اس لیے کہ آپ کا رب بستیوں کو ظلم سے اس حال میں تباہ نہیں کرتا کہ اس کے باشندے بے خبر ہوں۔٭
١٣٢۔اور ہر شخص کے لیے اس کے اعمال کے مطابق درجات ہوں گے اور آپ کا رب لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔٭
١٣٣۔ اور آپ کا رب بے نیاز ہے، رحمت کا مالک ہے، اگر وہ چاہے توتمہیں ختم کر کے تمہاری جگہ جسے چاہے جانشین بنا دے جیساکہ خود تمہیں دوسری قوم کی نسل سے پیدا کیا ہے۔
١٣٤۔ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے بےشک وہ واقع ہونے ہی والا ہے اور تم (اللہ کو) مغلوب نہیں کر سکتے ہیں۔
١٣٥۔کہدیجیے: اے میری قوم! تم اپنی جگہ عمل کرتے جاؤ میںبھی عمل کرتا ہوں، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کا انجام کار اچھا ہوتا ہے (بہرحال) ظالموں کے لیے فلاح کی کوئی گنجائش نہیں۔٭
١٣٦۔ اور یہ لوگ اللہ کی پیدا کردہ چیزوں مثلاً کھیتی اور چوپاؤں میں اللہ کا ایک حصہ مقرر کرتے ہیں اوراپنے زعم میں کہتے ہیں: یہ حصہ اللہ کا ہے اور یہ ہمارے شریکوں (بتوں) کا ہے تو جو (حصہ) ان کے شریکوں کے لیے (مخصوص) ہے وہ اللہ کو نہیں پہنچتا، مگر جو (حصہ) اللہ کے لیے (متعین) ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے، یہ لوگ کتنے برے فیصلے کرتے ہیں۔٭
١٣٧۔اور اسی طرح ان کے شریکوں نے اکثر مشرکوںکی نظر میں انہیں کے بچوں کے قتل کو ایک اچھے عمل کے طور پر جلوہ گر کیا ہے تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے دین کو ان پر مشتبہ بنا دیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کر سکتے پس آپ انہیں بہتان تراشی میں چھوڑ دیں۔٭
١٣٨۔اور یہ کہتے ہیں: یہ جانور اور کھیتی ممنوع ہیں انہیں صرف وہی کھا سکتے ہیں جنہیںان کے زعم میں ہم کھلانا چاہیں اور کچھ جانور ایسے ہیں جن کی پیٹھ (پر سواری یا باربرداری) حرام ہے اور کچھ جانور ایسے ہیںجن پر محض اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتے، اللہ عنقریب انہیں ان کی بہتان تراشیوں کا بدلہ دے گا۔٭
١٣٩۔اورکہتے ہیں:جو (بچہ) ان جانوروں کے شکم میں ہے وہ صرف ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری بیویوں پر حرام ہے اور اگر وہ (بچہ) مرا ہوا ہو تو وہ سب اس میں شریک ہیں، اللہ ان کے اس بیان پر انہیں عنقریب سزا دے گا، یقینا وہ بڑا حکمت والا، دانا ہے۔٭
١٤٠۔وہ لوگ یقینا خسارے میں ہیں جنہوں نے بیوقوفی سے جہالت کی بنا پر اپنی اولاد کو قتل کیا اور اللہ نے جو رزق انہیں عطا کیا ہے اللہ پر بہتان باندھتے ہو ئے اسے حرام کر دیا،بیشک یہ لوگ گمراہ ہو گئے اور ہدایت پانے والے نہ تھے۔٭
١٤١۔اور وہ وہی ہے جس نے مختلف باغات پیدا کیے کچھ چھتریوںچڑھے ہوئے اور کچھ بغیر چڑھے نیز کھجور اور کھیتوں کی مختلف مأکولات اور زیتون اور انار جو باہم مشابہ بھی ہیں اور غیر مشابہ بھی پیدا کیے، تیار ہونے پر ان پھلوں کو کھاؤ، البتہ ان کی فصل کاٹنے کے دن اس (اللہ) کا حق (غریبوں کو) ادا کرو اور فضول خرچی نہ کرو، بتحقیق اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔٭
١٤٢۔ اور مویشیوں میں کچھ بوجھ اٹھانے والے (پیدا کیے) اور کچھ بچھانے (کے وسائل فراہم کرنے) والے، اللہ نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میںسے کھاؤ اور شیطان کے نقش قد م پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔٭
١٤٣۔ (اللہ نے) آٹھ جوڑے (پیدا کیے) ہیں، دو بھیڑ کے اور دو بکری کے، آپ ان سے پوچھ لیجیے: کیا اللہ نے دونوں نر حرام کیے ہیں یا دونوں مادائیں؟ یا وہ (بچے) جو دونوں ماداؤں (بھیڑ یابکری)کے پیٹ میں ہیں؟ اگر تم لوگ سچے ہو تو مجھے کسی علمی حوالے سے بتاؤ۔٭
١٤٤۔ اور دو اونٹوں میں سے اور دو گایوں میں سے، (یہ بھی) پوچھ لیں کہ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے ہیں یا دونوں مادائیں؟ یا وہ (بچے) جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں؟کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ تمہیں یہ حکم دے رہا تھا؟ پس اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے تاکہ لوگوں کو بغیر کسی علم کے گمراہ کرے؟ بتحقیق اللہ ظالموں کوہدایت نہیں کرتا۔٭
١٤٥۔کہدیجیے:جو وحی میرے پاس آئی ہے، اس میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام ہو مگر یہ کہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت کیونکہ یہ ناپاک ہیں یا ناجائزذبیحہ جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، پس اگر کوئی مجبور ہوتا ہے (اور ان میں سے کوئی چیز کھا لیتا ہے) نہ (قانون کا) باغی ہو کر اور نہ (ہی ضرورت سے) تجاوز کا مرتکب ہو کر تو آپ کا رب یقینا بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے.٭
١٤٦۔اور ہم نے یہود پر ہر ناخن والا جانور حرام کر دیا تھااور بکری اور گائے کی چربی حرام کر دی تھی سوائے اس چربی کے جو ان کی پشت پر یا آنتوں میں یا ہڈی کے ساتھ لگی ہوئی ہو، ایسا ہم نے ان کی سرکشی کی سزا کے طور پر کیا اور ہم صادق القول ہیں۔٭
١٤٧۔اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو آپ کہدیں: تمہارا پروردگار وسیع رحمتوں کا مالک ہے تاہم مجرموں سے اس کا عذاب ٹالا (بھی) نہیںجا سکتا ہے ۔٭
١٤٨۔ مشرکین کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی ہم کسی چیزکو حرام گردانتے، اسی طرح ان سے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارا عذاب چکھ لیا، کہدیجیے: کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے لا سکو؟ تم تو صرف گمان کے پیچھے چلتے ہو اور یہ کہ تم فقط قیاس آرائیاں کرتے ہو۔٭
١٤٩۔کہدیجیے: اللہ کے پاس نتیجہ خیز دلائل ہیں،پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (جبراً) ہدایت دے دیتا۔ ٭
١٥٠۔(ان سے) کہدیجیے: اپنے گواہوں کو لے آؤ جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ نے اس چیز کو حرام کیا ہے، پھر اگر وہ (خود ساختہ) شہادت دیں بھی تو آپ ان کے ساتھ گواہی نہ دیں اور آپ ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیںرکھتے اور دوسروں کو اپنے رب کے برابر سمجھتے ہیں۔٭
 

صرف علی

محفلین
١٥١۔کہدیجیے:آؤ میں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں، (وہ یہ کہ) تم لوگ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی اور علانیہ اور پوشیدہ (کسی طور پر بھی) بے حیائی کے قریب نہ جاؤ اور جس جان کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو ہاں مگر حق کے ساتھ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ تمہیںنصیحت فرماتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔٭
١٥٢۔اور یتیم کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر ایسے طریقے سے جو (یتیم کے لیے) بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کرو، ہم کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتے اور جب بات کرو تو عدل کے ساتھ اگرچہ اپنے قریب ترین رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ جائے اور اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کرو، یہ وہ ہدایات ہیں جو اللہ نے تمہیں دی ہیں شاید تم یاد رکھو۔ ٭
١٥٣۔اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے، اللہ نے تمہیں یہ ہدایات (اس لیے) دی ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔٭
١٥٤۔ پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی تاکہ نیکی کرنے والے پر (اپنی نعمت) پوری کر دیں اور اس میں ہر چیز کی تفصیل بیان ہو اور ہدایت اور رحمت (کا باعث) ہو تاکہ وہ اپنے رب کی ملاقات پرایمان لے آئیں۔
١٥٥۔ اور یہ ایک مبار ک کتا ب ہے جو ہم نے نازل کی پس ا س کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو شاید تم پر رحم کیا جائے۔٭
١٥٦۔ تاکہ کبھی تم یہ نہ کہو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر نازل ہوئی تھی اور ہم تو ان کے پڑھنے پڑھانے سے بے خبر تھے.٭
١٥٧۔ یا تم یوں کہتے: اگر ہم پر بھی کتاب نازل ہو جاتی تو ہم ان سے بہتر ہدایت لیتے،پس اب تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل، ہدایت اور رحمت تمہارے پاس آ گئی ہے، پس اس کے بعد اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کرے اور ان سے منہ موڑے؟ جو لوگ ہماری آیات سے منہ موڑ لیتے ہیں انہیں ہم اس روگردانی پر بدترین سزا دیں گے۔٭
١٥٨۔کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا آپ کا رب خود آئے یا آپ کے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں؟ جس روز آپ کے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں گی تو کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا جو (نشانی کے آنے سے) پہلے ایمان نہ لا چکا ہو یا حالت ایمان میں اس نے کوئی کارخیر انجام نہ دیا ہو، کہدیجیے:انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں.٭
١٥٩۔جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے بےشک آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کا معاملہ یقینا اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔٭
١٦٠۔ جو (اللہ کے پاس) ایک نیکی لے کر آئے گا اسے دس گنا (اجر) ملے گا اور جو برائی لے کر آئے گا اسے صرف اسی برائی جتنا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیاجائے گا۔٭
١٦١۔کہدیجیے: میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم دکھائی ہے جو ایک استوار دین ہے، (یہی) ملت ابراہیم (اور توحید کی طرف) یکسوئی کا دین ہے اور ابراہیم مشرکوں میںسے نہیں تھے۔
١٦٢۔ کہدیجیے: میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب یقینا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔٭
١٦٣۔ جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔٭
١٦٤۔کہدیجیے:کیا میں کسی غیر اللہ کو اپنا معبود بناؤں؟حالانکہ اللہ ہر چیز کا رب ہے اور ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمے دار ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر (وہاں) وہ تمہیں بتائے گا جس چیز کے بارے میں تم لوگ اختلاف کیا کرتے تھے۔٭
١٦٥۔اور وہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض پر بعض کے درجات بلند کیے تاکہ جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں وہ تمہیں آزمائے، بے شک آپ کا رب (جہاں) جلد عذاب دینے والا ہے (وہاں) وہ یقینا بڑا غفور، رحیم بھی ہے۔

سورہ اعراف ۔ مکی ۔ آیات ٢٠٦​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ الف لام میم صاد۔
٢۔ یہ کتاب آپ پر (اس لیے ) نازل کی گئی ہے کہ آپ اس سے لوگوں کو تنبیہ کریں اور اہل ایمان کے لیے نصیحت ہو پس آپ کو اس سے کسی قسم کی دل تنگی محسوس نہیں ہونی چاہیے ۔
٣۔اس (کتاب) کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور اس کے سوا دوسرے آقاؤں کی اتباع نہ کرو، مگر تم نصیحت کم ہی قبول کرتے ہو۔
٤۔ اور کتنی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تباہ کیا پس ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یا ایسے وقت جب وہ دوپہر کو سو رہے تھے۔
٥۔پس جب ہمارا عذاب ان پر آیا تو وہ صرف یہی کہہ سکے: واقعی ہم ظالم تھے۔
٦۔ پس جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ہر صورت میں ان سے سوال کریںگے اور خود پیغمبروں سے بھی ہم ضرور پوچھیں گے۔
٧۔ پھر ہم پورے علم و آگہی سے ان سے سرگزشت بیان کریں گے اور ہم غائب تو نہیںتھے۔
٨۔اور اس دن (اعمال کا) تولنا برحق ہے، پھر جن (کے اعمال) کا پلڑا بھاری ہو گا پس وہی فلاح پائیںگے ۔ ٭
٩۔ اور جن کاپلڑا ہلکا ہو گا وہ لوگ ہماری آیات سے زیادتی کے سبب خود گھاٹے میں رہے۔٭
١٠۔اور ہم ہی نے تمہیں ز مین میں بسایا اور اس میں تمہارے لیے سامان زیست فراہم کیا (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو۔٭
١١۔ بتحقیق ہم نے تمہیں خلق کیا پھر تمہیں شکل و صورت دی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا صرف ابلیس سجدہ کرنے والوںمیں شامل نہ تھا۔
١٢۔ فرمایا: تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے باز رکھا جب کہ میں نے تجھے حکم دیاتھا؟ بولا: میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔٭
١٣۔ فرمایا: یہاں سے اتر جا! تجھے حق نہیںکہ یہاں تکبر کرے، پس نکل جا! تیرا شمار ذلیلوں میں ہے۔٭
١٤.بولا:مجھے روز قیامت تک مہلت دے.٭
١٥۔ فرمایا:بے شک تجھے مہلت دی گئی۔٭
١٦۔بولا: جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیاہے میں بھی تیرے سیدھے راستے پر ان کی گھات میں ضرور بیٹھا رہوںگا ۔٭
١٧۔ پھر ان کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں (ہر طرف) سے انہیں ضرور گھیر لوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔٭
١٨۔ فرمایا: تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کر نکل جا، ان میں سے جو بھی تیری اتباع کرے گا تو میں تم سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا ۔٭
١٩۔ اور اے آدم !آپ اور آپ کی زوجہ اس جنت میں سکونت اختیار کریں اور دونوں جہاں سے چاہیں کھائیں، مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ آپ دونوں ظالموں میںسے ہو جائیںگے۔
٢٠۔ پھر شیطان نے انہیں بہکایا تاکہ اس طرح ان دونوں کے شرم کے مقامات جو ان سے چھپائے رکھے گئے تھے ان کے لیے نمایاں ہو جائیں اور کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے تمہیں صرف اس لیے منع کیا ہے کہ مبادا تم فرشتے بن جاؤ یا زندہ جاوید بن جاؤ۔
٢١۔ اور اس نے قسم کھا کر دونوں سے کہا: میں یقینا تمہارا خیر خواہ ہوں۔
٢٢۔پھر فریب سے انہیں (اس طرف) مائل کر دیا، جب انہوں نے درخت کو چکھ لیا تو ان کے شرم کے مقامات ان کے لیے نمایاں ہو گئے اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر جوڑنے لگے اور ان کے رب نے انہیں پکارا: کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟ اور تمہیں بتایا نہ تھا کہ شیطان یقینا تمہارا کھلا دشمن ہے؟٭
٢٣۔ دونوں نے کہا: پروردگارا! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم نقصان اٹھانے والوںمیں سے ہو جائیں گے۔
٢٤۔ فرمایا: ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور زمین میں تمہارے لیے ایک مدت تک قیام اور سامان زیست ہو گا۔٭
٢٥۔ فرمایا:زمین ہی میںتمہیں جینا اور وہیں تمہیں مرنا ہو گا اور (آخرکار) اسی میں سے تمہیں نکالا جائے گا۔
٢٦۔ اے فرزندان آدم! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا جو تمہارے شرم کے مقامات کو چھپائے اور تمہارے لیے آرائش (بھی) ہو اور سب سے بہترین لباس تو تقویٰ ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے شاید یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔٭
٢٧۔اے اولاد آدم!شیطان تمہیں کہیں اس طرح نہ بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا اور انہیں بے لباس کیا تاکہ ان کے شرم کے مقامات انہیں دکھائے، بے شک شیطان اور اس کے رفقائے کار تمہیں ایسی جگہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں سے انہیں تم نہیں دیکھ سکتے، ہم نے شیاطین کو ان لوگوں کا آقا بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔٭
٢٨۔اور جب یہ لوگ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے اور اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، کہدیجیے:اللہ یقینا بے حیائی کا حکم نہیںدیتا، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں؟
٢٩۔کہدیجیے: میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر عبادت کے وقت تم اپنی توجہ مرکوز رکھو اور اس کے مخلص فرمانبردار بن کر اسے پکارو، جس طرح اس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا ہے اسی طرح پھر پیدا ہو جاؤ گے۔٭
٣٠۔ (اللہ) نے ایک گروہ کو ہدایت دے دی ہے اوردوسرے گروہ پر گمراہی پیوست ہو چکی ہے، ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا آقا بنا لیا ہے اور (بزعم خود) یہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت یافتہ ہیں۔٭
٣١۔ اے بنی آدم!ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔٭
٣٢۔کہدیجیے: اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق کو کس نے حرام کیا ؟ کہدیجیے: یہ چیزیں دنیاوی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی، ہم اسی طرح اہل علم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں۔٭
٣٣۔ کہدیجیے: میرے رب نے علانیہ اور پوشیدہ بے حیائی (کے ارتکاب)، گناہ، ناحق زیادتی اور اس بات کو حرام کیا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ اسے شریک ٹھہراؤ جس کے لیے اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کی طرف ایسی باتیںمنسوب کرو جنہیں تم نہیں جانتے۔٭
٣٤۔ اور ہر قوم کے لیے ایک وقت مقرر ہے پس جب ان کا مقررہ وقت آ جاتا ہے تونہ ایک گھڑی تاخیر کر سکتے ہیں اور نہ جلدی.٭
٣٥۔اے اولاد آدم! اگر تمہارے پاس خود تم ہی میںسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنایا کریں تو (اس کے بعد) جو تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں پس انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہو ںگے۔
٣٦۔اور جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور ان سے تکبر کرتے ہیں وہی اہل جہنم ہیں،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
٣٧۔ اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے؟ ایسے لوگوں کو وہ حصہ ملتا رہے گا جو ان کے حق میں لکھا ہے چنانچہ جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ان کی قبض روح کے لیے آئیںگے تو کہیں گے: کہاں ہیں تمہارے وہ (معبود) جنہیںتم اللہ کے سوا پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے: وہ ہم سے غائب ہو گئے اور اب وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ واقعی کافر تھے۔
٣٨۔اللہ فرمائے گا: تم لوگ جن و انس کی ان قوموں کے ہمراہ داخل ہو جاؤ جو تم سے پہلے جہنم میں جا چکی ہیں، جب بھی۔کوئی جماعت جہنم میں داخل ہو گی اپنی ہم خیال جماعت پر لعنت بھیجے گی، یہاں تک کہ جب وہاں سب جمع ہو جائیں گے تو بعد والی جماعت پہلی کے بارے میںکہے گی: ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہٰذا انہیں آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے، اللہ فرمائے گا: سب کو دوگنا (عذاب) ملے گا لیکن تم نہیں جانتے.٭
٣٩۔ان کی پہلی جماعت دوسری جماعت سے کہے گی: تمہیں ہم پر کوئی بڑائی حاصل نہ تھی؟ پس تم اپنے کیے کے بدلے عذاب چکھو۔٭
٤٠۔جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور ان سے تکبر کیا ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور ان کا جنت میں جانا اس طرح محال ہے جس طرح سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔٭
٤١۔ ان کے لیے جہنم ہی بچھونا اور اوڑھنا ہو گی اور ہم ظالموں کو ایسا بدلہ دیا کرتے ہیں۔٭
٤٢۔ اور ایمان لانے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، ہم کسی کو (نیک اعمال کی بجا آوری میں) اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ دار نہیں ٹھہراتے۔
٤٣۔ اور ہم ان کے دلوں میں موجود کینے نکال دیں گے، ان کے (محلات کے) نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور وہ کہیں گے: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ فرماتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، ہمارے رب کے پیغمبریقینا حق لے کر آئے اور اس وقت ان (مومنین) کو یہ ندا آئے گی کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے صلے میں ہے جنہیں تم بجا لاتے رہے ہو۔٭
٤٤۔اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے:ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے پروردگار نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے:ہاں، تو ان (دونوں) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔٭
٤٥۔جو لوگوں کو راہ خدا سے روکتے اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے تھے اور وہ آخرت کے منکر تھے۔
٤٦۔اور (اہل جنت اور اہل جہنم) دونوں کے درمیان ایک حجاب ہو گا اور بلندیوں پر کچھ ایسے افراد ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے اور اہل جنت سے پکار کر کہیں گے: تم پر سلامتی ہو، یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ہوں گے۔
٤٧۔ اور جب ان کی نگاہیں اہل جہنم کی طرف پلٹائی جائیں گی تو وہ کہیں گے: ہمارے پروردگار ہمیں ظالموں کے ساتھ شامل نہ کرنا۔٭
٤٨۔اور اصحاب اعراف کچھ ایسے لوگوں کو بھی پکاریں گے جنہیں وہ ان کی شکلوں سے پہچانتے ہوں گے اور کہیں گے: آج نہ تو تمہاری جماعت تمہارے کام آئی اور نہ تمہارا تکبر۔٭
٤٩۔اور کیا یہ (اہل جنت) وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ ان تک اللہ کی رحمت نہیں پہنچے گی؟ (آج انہی لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ) جنت میں داخل ہو جاؤ جہاں نہ تمہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ تم محزون ہو گے۔٭
٥٠۔اور اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے: تھوڑا پانی ہم پر انڈیل دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہمیں دے دو، وہ جواب دیں گے: اللہ نے جنت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کیا ہے۔
٥١۔ جنہوںنے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا دیا تھا اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈالا تھا، پس آج ہم انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اور ہماری آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔٭
٥٢۔اور ہم ان کے پاس یقینا ایک کتاب لا چکے ہیں جسے ہم نے از روئے علم واضح بنایا ہے جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔٭
٥٣۔کیا یہ لوگ صرف اس (کتاب کی تنبیہوں) کے انجام کار کے منتظر ہیں؟ جس روز وہ انجام کار سامنے آئے گا جو لوگ اس سے پہلے اسے بھولے ہوئے تھے وہ کہیں گے: ہمارے پروردگار کے پیغمبر حق لے کر آئے تھے کیا ہمارے لیے کچھ سفارشی ہیں جو ہماری شفاعت کریں یا ہمیں (دنیا میں) واپس کر دیا جائے تاکہ جو عمل (بد) ہم کرتے تھے اس کاغیر(عمل صالح) بجا لائیں؟ یقینا انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور جو جھوٹ وہ گھڑتے رہتے تھے وہ ان سے ناپید ہو گئے۔٭
٥٤۔ تمہارا رب یقینا وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا، وہ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے جو اس کے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔ آگاہ رہو! آفرینش اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے، بڑا با برکت ہے اللہ جو عالمین کا رب ہے۔٭
٥٥۔ اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرو عاجزی اور خاموشی کے ساتھ، بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔٭
٥٦۔ اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کوخوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقینا نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔
٥٧۔ اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوش خبری کے طور اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ابرگراں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر بادل سے مینہ برسا کر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو بھی (زمین سے) نکالیں گے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔٭
٥٨۔ اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے۔ یوں ہم شکر گزاروںکے لیے اپنی آیات کو مختلف اندا ز میں بیان کرتے ہیں۔٭
٥٩۔ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، مجھے تمہارے بارے میں ایک عظیم دن کے عذاب کا ڈر ہے۔٭
٦٠۔ ان کی قوم کے سرداروں نے کہا :ہم تو تمہیں صریح گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں۔
٦١۔ کہا: اے میری قوم! مجھ میں تو کوئی گمراہی نہیں بلکہ عالمین کے پروردگار کی طرف سے ایک رسول ہوں۔٭
٦٢۔میں اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچاتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیںجانتے۔٭
٦٣۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ خود تم میں سے ایک شخص کے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں تنبیہ کرے؟ اور تم تقویٰ اختیار کرو، شاید اس طرح تم رحم کے مستحق بن جاؤ۔
٦٤۔ مگر ان لوگوں نے ان کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں اور کشتی میںسوار ان کے ساتھیوں کو بچا لیا اور جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی تھی انہیں غرق کر دیا، کیونکہ وہ اندھے لوگ تھے۔
٦٥۔ اور قوم عاد کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، کیا تم (ہلاکت سے) بچنا نہیں چاہتے؟٭
٦٦۔ ان کی قوم کے کافرسرداروں نے کہا: ہمیں تو تم احمق لگتے ہو اور ہمارا گمان ہے کہ تم جھوٹے بھی ہو۔
٦٧۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم! میں احمق نہیں ہوں، بلکہ میں تو رب العالمین کا رسول ہوں۔
٦٨۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا ناصح (اور) امین ہوں۔
٦٩۔ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ خود تم میں سے ایک شخص کے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں تنبیہ کرے؟ اور یاد کرو جب قوم نوح کے بعد اس نے تمہیں جانشین بنایااور تمہاری جسمانی ساخت میں وسعت دی (تنومند کیا)، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو، شاید تم فلاح پاؤ۔
٧٠۔ انہوں نے کہا : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کریں اور جن کی ہماری باپ دادا پرستش کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں؟ پس اگر تم سچے ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔٭
٧١۔ ہود نے کہا : تمہارے رب کی طرف سے تم پر عذاب اور غضب مقرر ہو چکا ہے، کیا تم مجھ سے ایسے ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں؟ اللہ نے تو اس بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے، پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظارکرتاہوں۔٭
٧٢۔ہم نے اپنی رحمت کے ذریعے ہود اور انکے ساتھیوں کو بچا لیا اور جو ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی (کیونکہ) وہ تو ایمان لانے والے ہی نہ تھے۔٭
٧٣۔اور قوم ثمو د کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) صالح کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آ چکی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے ایک نشانی ہے، اسے اللہ کی زمین میں چرنے دینا اور اسے برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ دردناک عذاب تمہیں آ لے گا۔٭
٧٤۔ اور یاد کرو جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں جانشین بنایا اور تمہیں زمین میں آباد کیا، تم میدانوں میں محلات تعمیر کرتے ہو اور پہاڑ کو تراش کر مکانات بناتے ہو، پس اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔٭
٧٥۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کمزور طبقہ اہل ایمان سے کہا: کیا تمہیں اس بات کا علم ہے کہ صالح اپنی رب کی طرف سے بھیجے گئے(رسول)ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: جس پیغا م کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں.٭
٧٦۔ متکبرین نے کہا: جس پر تمہارا ایمان ہے ہم تو اس سے منکر ہیں۔
٧٧۔آخر انہوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹ دیے اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور کہنے لگے : اے صالح! اگر تم واقعی پیغمبر ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔
٧٨۔ چنانچہ انہیں زلزلے نے گرفت میں لے لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
٧٩۔پس صالح اس بستی سے نکل پڑے اور کہا:اے میری قوم! میں نے تو اپنے رب کا پیغام تمہیں پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔
٨٠۔ اور لوط (کا ذکر کرو) جب انہوںنے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسی بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا میں کسی نے اس کا ارتکاب نہیں کیا۔٭
٨١۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، بلکہ تم تو تجاوزکار ہو۔
٨٢۔ اور ان کی قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ کہیں: انہیں اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ بڑے پاکیزہ بننے کی کو شش کرتے ہیں۔
٨٣۔چنانچہ ہم نے لوط اور ان کے گھر والوں کو نجات دی سوائے ان کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوںمیں سے تھی۔
٨٤۔اور ہم نے اس قوم پر ایک بارش برسائی ر دیکھو ان مجرموں کا کیا انجام ہوا۔
٨٥۔ اور اہل مدین کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آ چکی ہے، لہٰذا تم ناپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں اصلاح ہو چکی ہو تو اس میں فساد نہ پھیلاؤ، اگر تم واقعی مومن ہو تو اس میں خود تمہاری بھلائی ہے۔٭
٨٦۔ اور اللہ پرایمان رکھنے والوں کو خوفزدہ کرنے،انہیں اللہ کے راستے سے روکنے اور اس میں کجی پیدا کرنے کے لیے ہر راستے پر(راہزن بن کر) مت بیٹھا کرو اور یہ بھی یاد کرو جب تم کم تھے اللہ نے تمہیں زیادہ کر دیا اور دیکھو کہ فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔٭
٨٧۔ اور اگر تم میںسے ایک گروہ میری رسالت پر ایمان لاتا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لاتا تو ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔٭
 

صرف علی

محفلین
پارہ : قال الملا 9​
٨٨۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا: اے شعیب!ہم تجھے اور تیرے مومن ساتھیوں کو اپنی بستی سے ضرور نکال دیں گے یا تمہیں ہمارے مذہب میں واپس آنا ہو گا،شعیب نے کہا:اگرہم بیزار ہوں تو بھی ؟٭
٨٩۔اگر ہم تمہارے مذہب میں واپس آ گئے تو ہم اللہ پر بہتان باندھنے والے ہوں گے جبکہ اللہ نے ہمیں اس (باطل) سے نجات دے دی ہے اور ہمارے لیے اس مذہب کی طرف پلٹنا کسی طرح ممکن نہیں مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ چاہے، ہمارے رب کا علم ہر چیز پر محیط ہے، ہم نے اللہ (ہی) پر توکل کیا ہے، اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان برحق فیصلہ کر اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔٭
٩٠۔ اور قوم شعیب کے کافر سرداروں نے کہا: اگر تم لوگوںنے شعیب کی پیروی کی تو یقینا بڑا نقصان اٹھاؤ گے ۔٭
٩١۔ چنانچہ انہیںزلزلے نے آ لیا پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے.٭
٩٢۔جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی (ایسے تباہ ہوئے) گویا وہ کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے، شعیب کی تکذیب کرنے والے خود خسارے میں رہے۔
٩٣۔ شعیب ان سے نکل آئے اور کہنے لگے: اے میری قوم!میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچائے اور تمہیں نصیحت کی، تو (آج) میں کافروں پر رنج و غم کیوں کروں؟٭
٩٤۔ اور ہم نے جس بستی میںبھی نبی بھیجا وہاںکے رہنے والوں کو تنگی اور سختی میں مبتلا کیا کہ شاید وہ تضرع کریں ۔٭
٩٥۔پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوشحال ہو گئے اور کہنے لگے: ہمارے باپ دادا پر بھی برے اور اچھے دن آتے رہے ہیں، پھر ہم نے اچانک انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔٭
٩٦۔اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوںنے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔٭
٩٧۔کیا ان بستیوں کے لوگ بے فکر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آ جائے جب وہ سو رہے ہوں ؟ ٭
٩٨۔یا کیا ان بستیوں کے لوگ بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن کو آجائے جب وہ کھیل رہے ہوں؟٭
٩٩۔کیایہ لوگ اللہ کی تدبیر سے خوف نہیں کرتے اللہ کی تدبیر سے تو فقط خسارے میں پڑنے والے لوگ بے خوف ہوتے ہیں.٭
١٠٠۔ جو لوگ اہل زمین (کی ہلاکت) کے بعد زمین کے وارث ہوئے ہیں،کیا ان پر یہ بات عیاں نہیں ہوئی کہ ہم چاہیں تو ان کے جرائم پر انہیں گرفت میں لے سکتے ہیں؟ اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں پھر وہ کچھ نہیں سنتے ۔٭
١٠١۔ یہ وہ بستیاں ہیں جن کے حالات ہم آپ کو سنا رہے ہیں اور ان کے پیغمبر واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے لیکن جس چیز کو وہ پہلے جھٹلا چکے تھے وہ اس پرایمان لانے کے لیے آمادہ نہ تھے، اللہ اس طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔
١٠٢۔اور ہم نے ان میں سے اکثر کو بدعہد پایا اور اکثر کو ان میں فاسق پایا۔
١٠٣۔پھر ان رسولوں کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرکردہ لوگوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان نشانیوں (کے انکار) کے سبب (اپنے اوپر) ظلم کیا پھر دیکھ لو مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔٭
١٠٤۔ اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون! میں رب العالمین کا رسول ہوں۔
١٠٥۔(مجھ پر) لازم ہے کہ میں اللہ کے بارے میں صرف حق بات کروں، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے۔
١٠٦۔ فرعون نے کہا: اگرتم سچے ہو اور کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو۔
١٠٧۔ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا تو وہ دفعتاً سچ مچ کا ایک اژدھا بن گیا۔
١٠٨۔اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ ناظرین کے سامنے یکایک چمکنے لگا۔
١٠٩۔قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: یہ یقینا بڑا ماہر جادوگر ہے۔
١١٠۔ یہ تمہیں سر زمین سے نکالنا چاہتا ہے، بتاؤ اب تمہاری کیا صلاح ہے؟
١١١۔ انہوںنے کہا: موسیٰ اور اس کے بھائی کو کچھ مہلت دو اور لوگوں کو جمع کرنے الے( ہرکاروں) کو شہروں میں روانہ کر دو۔
١١٢۔وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لائیں،
١١٣۔ اور جادوگر فرعون کے پاس آئے (اور) کہنے لگے:اگر ہم غالب رہے تو ہمیں صلہ ملے گا؟
١١٤۔فرعون نے کہا:ہاں یقینا تم مقرب بارگاہ ہو جاؤ گے۔
١١٥۔انہوںنے کہا: اے موسیٰ! پہلے تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں ؟
١١٦۔موسیٰ نے کہا: تم پھینکو، پس جب انہوں نے پھینکا تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور اور انہیں خوفزدہ کر دیا اور انہوں نے بہت بڑا جادو پیش کیا۔
١١٧۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا پھینک دیں، چنانچہ اس نے یکایک ان کے خود ساختہ جادو کو نگلنا شروع کیا۔٭
١١٨۔ اس طرح حق ثابت ہوا اور ان لوگوں کا کیا دھرا باطل ہو کر رہ گیا۔
١١٩۔ پس وہ وہاں شکست کھا گئے اور ذلیل ہو کر لوٹ گئے۔
١٢٠۔اور سب جادوگر سجدے میں گر پڑے.٭
١٢١۔کہنے لگے: ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے۔
١٢٢۔ جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔
١٢٣۔ فرعون نے کہا: قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا تم اس پر ایمان لے آئے یقینا یہ تو ایک سازش ہے جو تم نے اس شہر میں کی ہے تاکہ اہل شہر کو یہاں سے بے دخل کرو پس عنقریب تمہیں (اس کا انجام ) معلوم ہو جائے گا۔
١٢٤۔ میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے ضرور کاٹوں گا پھر تم سب کو ضرور بالضرور سولی چڑھا دوں گا۔٭
١٢٥۔ انہوں نے کہا: ہمیں تو اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔٭
١٢٦۔اور تو نے ہم میں کون سی بری بات دیکھی سوائے اس کے کہ جب ہمارے رب کی نشانیاں ہمارے پاس آئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے، اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان فرما اور ہمیں اس دنیا سے مسلمان اٹھا لے۔٭
١٢٧۔ اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: فرعون!کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو آزاد چھوڑ دے گا کہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور وہ تجھ سے اور تیرے معبودوں سے دست کش ہو جائیں؟ فرعون بولا: عنقریب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیں گے اور ہمیں ان پر بالادستی حاصل ہے۔٭
١٢٨۔ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر کرو، بے شک یہ سرزمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور نیک انجام اہل تقویٰ کے لیے ہے۔
١٢٩۔ (قوم موسیٰ نے) کہا: آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں اذیت دی گئی اور آپ کے آنے کے بعد بھی، موسیٰ نے کہا: تمہارا رب عنقریب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور زمین میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔
١٣٠۔اور بتحقیق ہم نے آل فرعون کو قحط سالی اور پیداوار کی قلت میں مبتلا کیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔٭
١٣١۔پس جب انہیںآسائش حاصل ہوتی تو کہتے: ہم اس کے مستحق ہیں اور اگر برا زمانہ آتا تو اسے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی بدشگونی ٹھہراتے، آگاہ رہو! ان کی بدشگونی اللہ کے پاس ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیںجانتے۔٭
١٣٢۔ اور کہنے لگے:اے موسیٰ!ہم پر جادو کرنے کے لیے خواہ کیسی نشانی لے آؤ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔٭
١٣٣۔پھر ہم نے بطور کھلی نشانیوں کے ان پر طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں اور خون (کا عذاب) نازل کیا مگر وہ تکبر کرتے رہے اور وہ جرائم پیشہ لوگ تھے؟٭
١٣٤۔اور جب ان پر کوئی بلا نازل ہو جاتی تو کہتے:اے موسی! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کریں جیساکہ اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے (کہ وہ آپ کی دعا سنے گا) اگر آپ نے ہم سے عذاب دور کر دیا تو ہم آپ پر ضرور ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی ضرور آپ کے ساتھ جانے دیں گے۔٭
١٣٥۔پھرجب ہم ایک مقررہ مدت کے لیے جس کووہ پہنچنے والے تھے عذاب کو دور کر دیتے تو وہ عہد کو توڑ ڈالتے۔
١٣٦۔تب ہم نے ان سے انتقام لیا پھر انہیں دریا میںغرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور وہ ان سے لاپرواہی برتتے تھے۔
١٣٧۔اور ہم نے ان لوگوں کو جو بے بس کر دیے گئے تھے اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنایا جسے ہم نے برکتوں سے نوازا تھا اور بنی اسرائیل کے ساتھ آپ کے رب کا نیک وعدہ پورا ہو گیا کیونکہ انہوںنے صبر کیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بنایا کرتے تھے اور جو اونچی عمارتیں تعمیر کرتے تھے وہ سب کچھ ہم نے تباہ کر دیا۔٭
١٣٨۔اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا پار کرایا تو وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچ گئے جو اپنے بتوں کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے تھے، کہنے لگے: اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایسا معبود بنا جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں، موسیٰ نے کہا: تم تو بڑی نادان قوم ہو۔ ٭
١٣٩۔ یہ قوم جس روش پر گامزن ہے یقینا برباد ہونے والی ہے اور جو اعمال یہ انجام دیتے ہیں وہ باطل ہیں۔٭
١٤٠۔موسیٰ نے کہا: کیا میں تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں؟ حالانکہ اس نے تمہیں عالمین پر فضیلت دی ہے.٭
١٤١۔ اور (وہ وقت یاد کرو)جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب میں مبتلا کرتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوںکو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔
١٤٢۔ اور ہم نے موسیٰ سے تیس(٣٠) راتوں کاوعدہ کیااور دس(دیگر)راتوں سے اسے پورا کیا اس طرح ان کے رب کی مقررہ میعاد چالیس راتیں پوری ہو گئی اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کا راستہ اختیار نہ کرنا۔
١٤٣۔ اور جب موسیٰ ہماری مقررہ میعا د پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے: پروردگارا ! مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کروں، فرمایا: تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو پس اگر وہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کرنے لگے: پاک ہے تیری ذات میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔۔٭
١٤٤۔فرمایا: اے موسیٰ! میں نے لوگوں میں سے آپ کو اپنے پیغامات اور ہمکلامی کے لیے منتخب کیا ہے لہٰذا جو کچھ میں نے آپ کو عطا کیا ہے اسے اخذ کریں اور شکرگزاروں میں سے ہو جائیں۔
١٤٥۔ اور ہم نے موسیٰ کے لیے (توریت کی) تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھی (اور حکم دیا کہ) اسے پوری قوت سے سنبھالیں اور اپنی قوم کو حکم دیں کہ اس میں سے شائستہ ترین باتوں کو اپنا لو، عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا ٹھکانا دکھا دوں گا۔٭
١٤٦۔ میں انہیں اپنی آیات سے دور رکھوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور تمام نشانیاں دیکھ کر بھی ان پر ایمان نہیں لاتے اور اگر یہ راہ راست دیکھ بھی لیں تو اس راستے کو اختیار نہیں کرتے اور اگر انحراف کا راستہ دیکھ لیں تو اس راستے کو اپنا لیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہماری نشانیوں کی تکذیب کی اور ان سے غفلت برتتے رہے۔٭
١٤٧۔ اور جنہوں نے ہماری آیات اور آخرت کی پیشی کی تکذیب کی ان کے اعمال ضائع ہو گئے، کیا ان لوگوں کو اس کے سوا کوئی بدلہ مل سکتا ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں؟
١٤٨۔اور موسیٰ کے (کوہ طورپر جانے کے) بعد ان کی قوم نے اپنے زیورات سے ایک بچھڑا بنا لیا (یعنی) ایسا جسم جس میں بیل کی آواز تھی، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ نہ تو ان سے بات کر سکتا ہے اور نہ ان کی رہنمائی کر سکتا ہے، ایسے کو انہوںنے معبود بنا لیا اور وہ زیادتی کے مرتکب تھے۔٭
١٤٩۔اور جب وہ سخت نادم ہو ئے اور دیکھ لیا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے: اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمیں معاف نہ فرمائے تو ہم حتمی طور پر خسارے میں رہ جائیں گے۔٭
١٥٠۔اور جب موسیٰ نہایت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو کہنے لگے: تم نے میرے بعد بہت بری جانشینی کی، تم نے اپنے رب کے حکم سے عجلت کیوں کی؟ اور (یہ کہکر) تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ہارون نے کہا: اے مانجائے! یقینا قوم نے مجھے کمزور بنا دیاتھااور وہ مجھے قتل کرنے والے تھے لہٰذا آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کریں۔٭
١٥١۔موسیٰ نے کہا: اے میرے پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے ۔
١٥٢۔جنہوںنے گوسالہ کو(معبود)بنایا بےشک ان پر عنقریب ان کے رب کا غضب واقع ہو گا اور دنیاوی زندگی میں ذلت اٹھانا پڑے گی اور بہتان پردازوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔٭
١٥٣۔اور جنہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لے آئے تو اس (توبہ) کے بعد آپ کا رب یقینا بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
١٥٤۔اور جب موسیٰ کا غصہ فرو ہو گیا تو انہوں نے(توریت کی)وہ تختیاں اٹھائیں جن کی تحریر میں ان لوگوںکے لیے ہدایت اور رحمت تھی جو اپنے پروردگار سے خائف رہتے ہیں۔٭
١٥٥۔ اور موسیٰ نے ہماری مقررہ میعادکے لیے اپنی قوم سے ستر افراد منتخب کیے، پھر جب انہیں زلزلے نے گرفت میں لیا (تو) موسیٰ نے عرض کیا: پروردگارا! اگر تو چاہتا تو انہیں اور مجھے پہلے ہی ہلاک کر دیتا، کیا تو ہمارے کم عقل لوگوں کے اعمال کی سزا میں ہمیں ہلاک کر دے گا؟ یہ تو تیری ایک آزمائش تھی جس سے جسے تو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، تو ہی ہمارا آقا ہے، پس ہمیںمعاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو معاف کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے ۔٭
١٥٦۔ اور ہمارے لیے اس دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی بھلائی مقرر فرما ہم نے تیری طرف رجوع کر لیا ہے،ارشاد فرمایا: عذاب تو جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس اسے میں ان لوگوں کے لیے مقرر کر دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔
١٥٧۔(یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی)جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔٭
١٥٨۔ کہدیجیے: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی اور وہی موت دیتاہے، لہٰذا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، اس امی نبی پر جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو شاید تم ہدایت حاصل کر لو۔
١٥٩۔اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی تھی جو حق کے مطابق رہنمائی اور اسی کے مطابق عدل کرتی تھی۔٭
١٦٠۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے جدا جدا جماعتیں بنائیں اور جب ان کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، ہر جماعت نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا اور ہم نے ان کے سروں پر بادل کا سائبان بنایا اور ان پر من و سلویٰ نازل کیا، جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں انہیں کھاؤ اور (بعد میں نافرمانی کی وجہ سے) یہ لوگ ہم پر نہیں بلکہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔٭
١٦١۔اور جب ان سے کہا گیا کہ اس بستی میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جہاں سے چاہو کھاؤ اور حطہ کہتے ہوئے اور دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے، نیکی کرنے والوں کو ہم عنقریب مزید عطا کریں گے۔٭
١٦٢۔مگر ان میں سے ظالم لوگوں نے وہ لفظ بدل ڈالا جو خلاف تھا اس کلمہ کے جو انہیں کہا گیا تھا، پھر ان کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا۔٭
١٦٣۔اور ان سے اس بستی (والوں) کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب یہ لوگ ہفتہ کے دن خلاف ورزی کرتے تھے اور مچھلیاں ہفتہ کے دن ان کے سامنے سطح آب پر ابھر آتی تھیں اور ہفتہ کے علاوہ باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں، اس طرح ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہم انہیں آزماتے تھے۔٭
١٦٤۔اور جب ان میںسے ایک فرقے نے کہا:ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاکت یا شدید عذاب میں ڈالنے والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: (ہم یہ نصیحت) تمہارے رب کی بارگاہ میں عذر پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور(اس لیے بھی کہ) شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔٭
١٦٥۔پس جب انہوں نے وہ باتیں فراموش کر دیں جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے برائی سے روکنے والوں کو نجات دی اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے برے عذاب میں مبتلا کر دیا۔٭
١٦٦۔پس جب انہوں نے اس امر میں سرکشی کی جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے کہا: خوار ہو کر بندر بن جاؤ۔
١٦٧۔اور (یاد کریں) جب آپ کے رب نے اعلان کیا کہ وہ ان (یہودیوں) پر قیامت تک ایسے لوگوں کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو انہیں بدترین عذاب دیں گے آپ کا رب یقینا جلد سزا دینے والا ہے اور بلا شبہ وہ غفور، رحیم بھی ہے۔٭
١٦٨۔ اورہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میںتقسیم کیا، ان میں کچھ لوگ نیک اور کچھ لوگ دوسری طرح کے تھے اور ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔ ٭
١٦٩۔ پھر ان کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہو ئے جو کتاب اللہ کے وارث بن کر اس ادنیٰ زندگی کا مال و متاع سمیٹتے تھے اور کہتے تھے: ہم جلد ہی بخش دیے جائیں گے اور اگر ایسی ہی اور متاع ان کے سامنے آ جائے تو اسے بھی اچک لیتے، کیا ان سے کتاب کا میثاق نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ بھی نہ کہیںگے اور جو کچھ کتاب کے اندر ہے اسے یہ لوگ پڑھ چکے ہیں اور اہل تقویٰ کے لیے آخرت کی زندگی ہی بہترین زندگی ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟٭
١٧٠۔ اور جو لوگ کتاب اللہ سے متمسک رہتے اور نماز قائم کرتے ہیں ہم (ایسے) مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرتے ۔
١٧١۔اور (یہ بات بھی یاد کرو) جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اس طرح اٹھایا گویا وہ سائبان ہو اور انہیں یہ گمان تھا کہ وہ ان پر گرنے ہی والا ہے (ہم نے ان سے کہا) جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے پوری قوت کے ساتھ اس سے متمسک رہو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید کہ تم تقویٰ والے بن جاؤ۔
١٧٢۔ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا:ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، (یہ اس لیے ہوا تھا کہ) قیامت کے دن تم یہ نہ کہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔٭
١٧٣۔یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد کی اولاد ہیں، تو کیا اہل باطل کے قصور کے بدلے میں ہمیں ہلاکت میں ڈالو گے؟
١٧٤۔اور اس طرح ہم آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں شاید کہ یہ لوٹ آئیں۔
١٧٥۔اور انہیں اس شخص کا حال سنا دیجیے جسے ہم نے اپنی آیات دیں مگر وہ انہیں چھوڑ نکلا پھر شیطان نے اس کا پیچھا کیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔
١٧٦۔اور اگر ہم چاہتے تو ان( آیات) کے طفیل اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن یہ شخص تو زمین بوس ہو گیا تھا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن گیا تھا، لہٰذا س کی مثال اس کتے کی سی ہو گئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تو بھی زبان لٹکائے رکھے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں، پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجیے کہ شاید وہ فکر کریں۔٭
١٧٧۔ بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں۔
١٧٨۔راہ راست وہ پاتا ہے جسے اللہ ہدایت عطا کرے اور جنہیں اللہ گمراہ کرے وہ خسارے میں ہیں۔٭
١٧٩۔ اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔٭
١٨٠۔اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو اور جو اللہ کے اسماء میں کج روی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔٭
١٨١۔اور جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک جماعت ایسی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق عدل کرتی ہے۔٭
١٨٢۔اور جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم انہیں بتدریج اس طرح گرفت میں لیںگے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔
١٨٣۔ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، میری تدبیر یقینا نہایت مضبوط ہے۔
١٨٤۔کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی(محمدؐ) میں کسی قسم کا جنون نہیں ہے؟وہ تو بس صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہے۔٭
١٨٥۔ کیا انہوںنے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں ان میںغور نہیں کیا اور(یہ نہیںسوچا کہ) شاید ان کی موت کاو قت نزدیک ہو رہا ہو؟ آخر اس (قرآن) کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے؟٭
١٨٦۔جسے اللہ گمراہ کرے کوئی اس کی ہدایت کرنے والا نہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو ان کی اپنی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔
١٨٧۔یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیںکہ قیامت واقع ہونے کا وقت کب ہے؟ کہدیجیے: اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے، قیامت کے وقت کو اللہ کے سوا کوئی ظاہر نہیں کر سکتا، (قیامت کا واقع ہونا) آسمانوںاور زمین کا بڑا بھاری حادثہ ہو گا جوناگہاں تم پر آ جائے گا، یہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیںگویا آپ اس کی کھوج میں ہوں، کہدیجیے: اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
١٨٨۔کہدیجیے:میں خود بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر اللہ جو چاہتا ہے (وہ ہوتا ہے) اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی، میں تو بس ایمان والوں کو تنبیہ کرنے اور بشارت دینے والا ہوں۔٭
١٨٩۔وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ(انسان) اس سے سکون حاصل کرے پھر اس کے بعد جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا (مقاربت کی) تو عورت کو ہلکا سا حمل ہو گیا جس کے ساتھ وہ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ حمل بھاری ہوا تو دونوں (میاں بیوی) نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو نے ہمیں سالم بچہ دیا تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔٭
١٩٠۔پس جب اللہ نے انہیں سالم بچہ عطا کیا تو وہ دونوں اللہ کی اس عطا میں (دوسروں کو) اللہ کے شریک ٹھہرانے لگے، اللہ ان کی مشرکانہ باتوں سے بالاتر ہے۔٭
١٩١۔کیایہ لوگ ایسوں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو کوئی چیز خلق نہیںکر سکتے بلکہ خود مخلوق ہوتے ہیں؟ ٭
١٩٢۔ اور جو نہ تو ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی خود اپنی مدد کرنے پر قادر ہیں۔٭
١٩٣۔ اور اگر تم انہیں راہ راست کی طرف بلاؤ تو وہ تمہاری اطاعت نہیں کریں گے، تمہارے لیے یکساں ہے خواہ تم انہیں دعوت دو یا تم خاموشی اختیار کرو۔٭
١٩٤۔اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں، پس اگر تم سچے ہو تو تم انہیں ذرا پکار کر تو دیکھو انہیں چاہیے کہ تمہیں (تمہاری دعاؤں کا) جواب دیں۔٭
١٩٥۔کیا ان کے پیر ہیں جن سے وہ چلتے ہیں؟ کیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں؟ کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں؟ کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں؟ کہدیجیے: تم اپنے شریکوں کو بلاؤ پھر میرے خلاف (جو) تدبیریں (کر سکتے ہو) کرو اور مجھے مہلت تک نہ دو۔٭
١٩٦۔ بے شک میرا آقا تو وہ اللہ ہے جس نے کتاب نازل کی اور جو صالحین کا کارساز ہے.٭
١٩٧۔ اور اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ نہ تو تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی خود اپنی مدد کر سکتے ہیں۔٭
١٩٨۔اور اگر ہدایت کے لیے تم انہیں بلاؤ تو وہ تمہاری بات بھی سن نہیں سکتے اور تم انہیں دیکھتے ہو کہ بظاہر وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے۔٭
١٩٩۔(اے رسول) در گزر سے کام لیں، نیک کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔٭
٢٠٠۔ اور اگر شیطان آپ کو اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگیں، یقینا وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
٢٠١۔بے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آجاتی ہے۔
٢٠٢۔اور ان کے (شیطانی) بھائی انہیں گمراہی میں کھینچتے لیے جاتے ہیں پھر وہ (انہیںگمراہ کرنے میں) کوتاہی بھی نہیں کرتے ۔
٢٠٣۔ اور جب آپ ان کے سامنے کوئی معجزہ نہیں لاتے تو کہتے ہیں: تم نے خود اپنے لیے کسی نشانی کا انتخاب کیوں نہ کیا؟ کہدیجیے: میںیقینا اس وحی کا پابند ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف بھیجی جاتی ہے، یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے باعث بصیرت اور مومنوںکے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔٭
٢٠٤۔ اور جب قرآن پڑھا جائے تو پوری توجہ کے ساتھ اسے سنا کرو اور خاموش رہا کرو ، شاید تم پر رحم کیا جائے ۔٭
٢٠٥۔(اے رسول) اپنے رب کو تضرع اور خوف کے ساتھ دل ہی دل میں اور دھیمی آواز میں صبح و شام یاد کیا کریں اور غافل لوگوں میں سے نہ ہوں۔٭
٢٠٦۔ جو لوگ آپ کے رب کے حضور میں ہوتے ہیں وہ یقینا اس کی عبادت کرنے سے نہیں اکڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز رہتے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
سورہ انفال ۔ مدنی ۔ آیات ٧٥​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں، کہدیجیے:یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ کا خوف کرو اور باہمی تعلقات مصالحانہ رکھو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔٭
٢۔ مومن تو صرف وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔٭
٣۔جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
٤۔ یہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات ہیں اور مغفرت اور باعزت روزی ہے۔
٥۔ (انفال کے بارے میں صورت حال ویسے ہی ہے) جیسے آپ کے رب نے آپ کو حق کے ساتھ گھر سے (جنگ کے لیے)نکالا جبکہ (یہ امر) مومنوں کی ایک جماعت پر سخت گراں گزرا تھا۔٭
٦۔ حق ظاہر ہو چکنے کے بعد یہ لوگ آپ سے حق کے بارے میں الجھ رہے تھے گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہوں (جس کو) وہ دیکھ رہے ہوں۔٭
٧۔اور(وہ وقت یاد کرو) جب اللہ تم لوگوں سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے ایک تمہارے ہاتھ آ جائے گا اور تم چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارے ہاتھ آ جائے جب کہ اللہ چاہتا تھا کہ حق کو اپنے فرامین کے ذریعے ثبات بخشے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔٭
٨۔تاکہ حق کو ثبات مل جائے اور باطل نابود ہو جائے خواہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
٩۔(یاد کرو)جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری سن لی اور فرمایا: میں یکے بعد دیگرے آنے والے ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا۔٭
١٠۔ اور اس مدد کو اللہ نے تمہارے لیے صرف بشارت اور اطمینان قلب کا باعث بنایا اور (یہ باور کرا یا کہ) نصرت تو بس اللہ کی جانب سے ہے، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
١١۔ (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ امن دینے کے لیے تم پر غنودگی طاری کر رہا تھا اور آسمان سے تمہارے لیے پانی برسا رہا تھا تاکہ اس سے تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطانی نجاست دور کرے اور تمہارے دلوں کو مضبوط بنائے اور تمہارے قدم جمائے رکھے۔٭
١٢۔ (وہ وقت بھی یاد کرو) جب آپ کا رب فرشتوں کو وحی کر رہا تھا کہ تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو میں تمہارے ساتھ ہوں، عنقریب میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈالوں گا، لہٰذا تم ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہاتھ اورپاؤں کی پوروں پر وار کرو۔٭
١٣۔یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو اللہ یقینا سخت عذا ب دینے والا ہے ۔
١٤۔یہ ہے تمہاری سزا پس اسے چکھو اور بتحقیق کافروں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔
١٥۔اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہو جائے تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔
١٦۔اور جس نے اس روز اپنی پیٹھ پھیری مگر یہ کہ جنگی چال کے طور پر ہو یا کسی فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے تو (کوئی حرج نہیں ورنہ) وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔ ٭
١٧۔پس انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں تاکہ اپنی طرف سے مومنوں کو بہتر آزمائش ے گزارے بے شک اللہ سننے والا، جاننے والاہے۔٭
١٨۔ یہ تھی تمہاری بات اور رہی کافروں کی بات تو اللہ ان کی مکاری کا زور توڑ دینے والا ہے۔
١٩۔ (کافروں سے کہدو کہ) اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا اب اگرتم باز آ جاؤ تو تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم نے (اس جرم کا) اعادہ کیا تو ہم بھی (اس سزا کا)اعادہ کریں گے اور تمہاری جماعت کثیر ہو بھی تو تمہارے کسی کام نہ آئے گی اور اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔٭
٢٠۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد تم اس سے روگردانی نہ کرو۔٭
٢١۔اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے یہ تو کہدیاکہ ہم نے سن لیا مگر درحقیقت وہ سنتے نہ تھے۔٭
٢٢۔ اللہ کے نزدیک تمام جانداروں میں بدترین یقینا وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔٭
٢٣۔ اور اگر اللہ ان میں بھلائی (کا مادہ) دیکھ لیتا تو انہیں سننے کی توفیق دیتا اور اگر انہیں سنوا دیتا تو وہ بے رخی کرتے ہوئے منہ پھیر لیتے۔٭
٢٤۔ اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔٭
٢٥۔ اور اس فتنے سے بچو جس کی لپیٹ میں تم میںسے صرف ظلم کرنے والے ہی نہیں بلکہ (سب) آئیںگے اور یہ جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ ٭
٢٦۔اور (وہ وقت) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے، تمہیں زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تمہیں خوف رہتا تھا کہ مبادا لوگ تمہیں ناپید کر دیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں تقویت پہنچائی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو۔٭
٢٧۔اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو درحالیکہ تم جانتے ہو۔
٢٨۔اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور بے شک اللہ ہی کے ہاں اجر عظیم ہے۔٭
٢٩۔ اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔٭
٣٠۔ اور (وہ وقت یاد کریں) جب یہ کفار آپ کے خلاف تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپ کو نکال دیںوہ اپنی چال سوچ رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔٭
٣١۔اور جب انہیں ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو ایسی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں، یہ تو وہی داستان ہائے پارینہ ہیں۔٭
٣٢۔ اور (یہ بھی یاد کرو) جب انہوںنے کہا: اے اللہ! اگر یہ بات تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دردناک عذاب نازل کر ۔٭
٣٣۔اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں اور نہ ہی اللہ انہیں عذاب دینے والا ہے جب وہ استغفار کر رہے ہوں۔
٣٤۔اور اللہ ان پر عذاب نازل کیوں نہ کرے جب کہ وہ مسجد الحرام کا راستہ روکتے ہیں حالانکہ وہ اس مسجد کے متولی نہیں ہیں؟ اس کے متولی تو صرف تقویٰ والے ہیں لیکن ان میںسے اکثر لوگ نہیں جانتے ۔٭
٣٥۔اور خانہ کعبہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی پس اب اپنے کفر کے بدلے عذاب چکھو۔
٣٦۔جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اپنے اموال (لوگوں کو) راہ خدا سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، ابھی مزید خرچ کرتے رہیںگے پھر یہی بات ان کے لیے باعث حسرت بنے گی پھر وہ مغلوب ہوں گے اور کفر کرنے والے جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔٭
٣٧۔ تاکہ اللہ ناپاک کو پاکیزہ سے الگ کر دے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم ملا کر یکجا کر دے پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے، (دراصل) یہی لوگ خسارے میں ہیں۔٭
٣٨۔ کفار سے کہدیجیے کہ اگر وہ باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے(ان سے سرزد) ہو چکا اسے معاف کر دیا جائے گا اور اگر انہوں نے (۔پچھلے جرائم کا) اعادہ کیا تو گزشتہ اقوام کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ (ان کے بارے میں بھی) نافذ ہو گا۔
٣٩۔ اور تم لوگ کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کے لیے خاص ہوجائے، پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ یقینا ان کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔٭
٤٠۔اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے، جو بہترین سرپرست اور بہترین مددگار ہے۔
 

صرف علی

محفلین
پارہ :واعلموا 10​
٤١۔ اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے فیصلے کے روز جس دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے تھے اپنے بندے پر نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔٭
٤٢۔(وہ وقت یاد کرو)جب تم قریبی ناکے پر اور وہ دور کے ناکے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے کی جانب تھا اور اگر تم باہمی مقابلے کاعہد کر چکے ہوتے تب بھی مقررہ وقت میں تم ضرور اختلاف کرتے، لیکن (جو کچھ ہوا) وہ اس لیے تھا کہ اللہ اس امر کو پورا کرے جس کا فیصلہ کر چکا تھا تاکہ ہلاک ہونے والا واضح دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور زندہ رہنے والا واضح دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور یقینا اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
٤٣۔ (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے آپ کے خواب میں ان (کافروں کے لشکر کو) تھوڑا دکھلایا اور اگر آپ کو ان کی مقدار زیادہ دکھلاتا تو (اے مسلمانو) تم ہمت ہار جاتے اور اس معاملے میں جھگڑا شروع کر دیتے لیکن اللہ نے(تمہیں) بچا لیا، بےشک وہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔٭
٤٤۔ اور (وہ وقت یا دکرو) جب تم مقابلے پر آ گئے تھے تو اللہ نے کافروں کو تمہاری نظروں میں تھوڑا کر کے دکھایا اور تمہیں بھی کافروں کی نظروں میں تھوڑا کر کے دکھایا تاکہ اللہ کوجو کام کرنا منظور تھا وہ کر ڈالے اور تمام معاملات کی بازگشت اللہ کی طرف ہے۔٭
٤٥۔ اے ایمان والو! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
٤٦۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میںنزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔٭
٤٧۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے ہیں اور اللہ کا راستہ روکتے ہیں اور اللہ ان کے اعمال پر خوب احاطہ رکھتا ہے۔٭
٤٨۔اور جب شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے آراستہ کیے اور کہا:آج لوگوں میں سے کوئی تم پر فتح حاصل کر ہی نہیں سکتااور میں تمہارے ساتھ ہوں، پھر جب دونوں گروہوں کا مقابلہ ہوا تو وہ الٹے پاؤں بھاگ گیا اور کہنے لگا: میں تم لوگوں سے بیزار ہوں میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوںجو تم نہیں دیکھتے رہے، میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ یقینا سخت عذاب دینے والا ہے.٭
٤٩۔جب(ادھر)منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری تھی، کہ رہے تھے : انہیں تو ان کے دین نے دھوکہ دے رکھا ہے، جب کہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ یقینا بڑا غالب آنے والا حکمت والا ہے.٭
٥٠۔ اور کاش آپ (اس صورت حال کو) دیکھ لیتے جب فرشتے (مقتول) کافروں کی روحیں قبض کر رہے تھے، ان کے چہروں اورپشتوںپرضربیںلگارہے تھے اور (کہتے جا رہے تھے) اب جلنے کا عذاب چکھو ۔
٥١۔ یہ عذاب تمہارے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے کا نتیجہ ہے اور یہ کہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
٥٢۔ان کاحال فرعونیوںاور ان سے پہلوں ا سا ہے، انہوں نے اللہ کی نشانیوں کا انکار کیا تو اللہ نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں پکڑ لیا، بیشک اللہ قوت والا، سخت عذاب دینے والا ہے۔
٥٣۔ ایسااس لیے ہوا کہ اللہ جو نعمت کسی قوم کو عنایت فرماتا ہے اس وقت تک اسے نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہیں بدلتے اور یہ کہ اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
٥٤۔جیسے فرعون والوں اور ان سے پہلوں کا حال ہے، انہوں اپنے رب کی نشانیوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں ہلاکت میں ڈال دیا اور فرعونیوں کو غرق کر دیا،کیونکہ وہ سب ظالم تھے۔
٥٥۔ یقینا اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والوں میں بدترین وہ لوگ ہیں جو کافر ہیں، پس وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
٥٦۔جس سے آپ نے عہدلیا پھر وہ اپنے عہدکو ہر بار توڑ ڈالتے ہیں اور وہ ڈرتے نہیں ہیں۔٭
٥٧۔اگر آپ لڑائی میں ان پر غالب آ جائیں تو (انہیں کڑی سزا دے کر) ان کے ذریعے بعد میں آنے والوں کو بھگا دیں اس طرح شاید یہ عبرت حاصل کریں۔
٥٨۔ اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا خوف ہو تو ان کا عہد اسی طرح مسترد کر دیں جیسے انہوں نے کیاہے، بیشک اللہ خیانت کارو ں کو دوست نہیںرکھتا۔٭
٥٩۔ کفار یہ خیال نہ کریں کہ وہ بچ نکلے ہیں، وہ (ہمیں) عاجز نہ کر سکیں گے۔٭
٦٠۔ اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں نیز دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہیںتم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور راہ خدا میں جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر زیادتی نہ ہوگی۔٭
٦١۔اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ یقینا وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
٦٢۔اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں تو آپ کے لیے یقینا اللہ کافی ہے، وہی تو ہے جس نے اپنی نصرت اور مومنین کے ذریعے آپ کو قوت بخشی ہے۔
٦٣۔اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میںالفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں) کو جوڑ دیا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔
٦٤۔اے نبی ! آپ کے لیے اور آپ کی اتباع کرنے والے مومنین کے لیے اللہ کافی ہے۔٭
٦٥۔ اے نبی ! مومنوں کو جنگ کی ترغیب دیں، اگر تم میں بیس صابر (جنگجو) ہوں تو وہ دو سو (کافروں) پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سو افراد ہوں تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیںجو سمجھتے نہیںہیں۔
٦٦۔ اب اللہ نے تم لوگوں سے ہلکا کر دیا ہے چونکہ اللہ کو علم ہوا ہے کہ اب تم میں کمزوری آ گئی ہے لہٰذا اب اگر تم میں سو صابر افراد ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں تو دو ہزار پر باذن خدا غالب آئیں گے اور اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔٭
٦٧۔ یہ کسی نبی کے شایان نہیں ہے کہ زمین میں دشمن کو کچل دینے سے پہلے اس کے پاس قیدی ہوں، تم لوگ دنیاوی مفاد چاہتے ہو جب کہ اللہ (تمہارے لیے) آخرت چاہتا ہے، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
٦٨۔ اگر اللہ کی طرف سے ایک بات لکھی نہ جا چکی ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کی تمہیں بڑی سزا ہو جاتی۔٭
٦٩۔ بہرحال اب تم نے جومال حاصل کیا ہے اسے حلال اور پاکیزہ طور پر کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقینا اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
٧٠۔اے نبی! جو قیدی تمہارے قبضے میں ہیں ان سے کہدیں کہ اگر اللہ کو علم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کوئی اچھائی ہے تو جو تم سے (فدیہ میں) لیا گیا ہے وہ تمہیں اس سے بہتر عطا کرے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٧١۔ اور اگر یہ لوگ آپ سے خیانت کرنا چاہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کر چکے ہیں پس اس نے انہیں (آپ کے) قابو میں کر دیا اور اللہ خوب جاننے والا،حکمت والا ہے۔
٧٢۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور انہوںنے اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیااور جن لوگوں نے پناہ دی اور مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی تو ان کی ولایت سے تمہارا کو ئی تعلق نہیں ہے جب تک وہ ہجرت نہ کریں، البتہ اگر انہوں نے دینی معاملے میں تم لوگوں سے مدد مانگی تو ان کی مدد کرنا تم پر اس وقت فرض ہے جب یہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف نہ ہو جن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال پر خوب نظر رکھتا ہے۔٭
٧٣۔ اور جنہوںنے کفر کیا ہے وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں، اگر تم لوگ اس (دستور) پر عمل نہ کروگے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فسادبرپا ہو گا۔٭
٧٤۔اور جو لوگ ایمان لائے اور مہاجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا نیز جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں،ان کے لیے مغفرت اور باعزت رزق ہے۔٭
٧٥۔ اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ہمراہ جہاد کیا وہ بھی تم میں شامل ہیں اور اللہ کی کتاب میں خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، بے شک اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے ۔٭

سورہ توبہ ۔ مدنی ۔آیات ١٢٩

١۔اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے (اعلان) بیزاری ہے ان مشرکوں کی طرف جن سے تمہارا معاہدہ تھا۔٭
٢۔ پس تم لوگ اس ملک میںچار مہینے چل پھرلو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔
٣۔اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہے اور پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیر لو گے توجان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔٭
٤۔ البتہ جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ تھا پھرانہوں نے تمہارے ساتھ کوئی قصور نہیں کیا اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ایسے لوگوں کے ساتھ جس مدت کے لیے معاہدہ ہواہے اسے پورا کرو، بتحقیق اللہ اہل تقویٰ کو دوست رکھتا ہے۔
٥۔ پس جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو تم جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات پر ان کی تاک میںبیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو، بیشک اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والاہے۔٭
٦۔اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے تواسے پناہ دے دیں تاکہ وہ کلام اللہ کو سن لے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دیں،ایسا اس لیے ہے کہ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔٭
٧۔ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد مشرکین کے لیے کیسے ہو سکتا ہے بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد الحرام کے پاس معاہدہ کیا ہے؟ پس جب تک وہ تمہارے ساتھ(اس عہد پر) قائم رہیں تو تم بھی ان کے ساتھ قائم رہو،یقینا اللہ اہل تقویٰ کو دوست رکھتا ہے۔٭
٨۔ (ان سے عہد) کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اگر وہ تم پر غلبہ حاصل کر لیں تو وہ نہ تو تمہاری قرابتداری کا لحاظ کریںگے اور نہ عہد کا؟ وہ زبان سے توتمہیں خوش کر دیتے ہیں مگر ان کے دل انکار پر تلے ہوئے ہیں اور ان میںاکثر لوگ فاسق ہیں۔٭
٩۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے عوض تھوڑی سی قیمت وصول کر لی ہے پس وہ اللہ کے راستے سے ہٹ گئے ہیں یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں یقینا وہ بہت برا ہے۔٭
١٠۔نہ تو یہ کسی مومن کے حق میں قرابتداری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد کا اور یہی لوگ زیادتی کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔٭
١١۔ پس اگر یہ لوگ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اورعلم رکھنے والوںکے لیے ہم آیات کو واضح کر کے بیان کرتے ہیں۔٭
١٢۔ اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ لوگ اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین کی عیب جوئی کرنے لگ جائیں تو کفر کے اماموں سے جنگ کرو، کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں شاید وہ باز آجائیں۔٭
١٣۔ کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جو اپنی قسمیں توڑ دیتے ہیں اور جنہوں نے رسول کو نکالنے کا اردہ کیا تھا ؟ پہلی بار تم سے زیادتی میں پہل بھی انہوں نے کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔٭
١٤۔ ان سے لڑو تاکہ تمہارے ہاتھوں اللہ انہیں عذاب دے اور انہیں رسوا کرے اور ان پر تمہیں فتح دے اور مومنین کے دلوں کو ٹھنڈا کرے۔٭
١٥۔ اور ان کے دلوں کاغصہ نکالے اور اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔٭
١٦۔ کیا تم لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے؟حالانکہ اللہ نے ابھی یہ بھی نہیںدیکھا ہے کہ تم میں سے کس نے جہاد کیا اور کس نے اللہ ، اس کے رسول اور مومنین کے سوا کسی اور کو اپنا بھیدی نہیں بنایا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔٭
١٧۔ مشرکین کو یہ حق حاصل نہیںکہ اللہ کی مساجد کو آباد کریں درحالیکہ وہ خود اپنے کفر کی شہادت دے رہے ہیں، ان لوگوں کے اعمال برباد ہوگئے اور وہ آتش میں ہمیشہ رہیں گے۔٭
١٨۔اللہ کی مسجدوں کو صرف وہی لوگ آباد کر سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور نماز قائم کرتے ہوں نیز زکوٰۃ ادا کرتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھاتے ہوں، پس امید ہے کہ یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔٭
١٩۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادکاری کو اس شخص کے برابر قرار دیا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور جس نے راہ خدا میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا٭
٢٠۔ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں ۔٭
٢١۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ان جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے دائمی نعمتیں ہیں۔٭
٢٢۔ ان میں وہ ابد تک رہیںگے، بے شک اللہ کے پاس عظیم ثواب ہے۔
٢٣۔ اے ایمان والو! تمہارے آبا اور تمہارے بھائی اگر ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں تو انہیں اپنا ولی نہ بناؤ اور یاد رکھو کہ تم میںسے جو لوگ انہیں ولی بنائیں گے پس ایسے ہی لوگ تو ظالم ہیں۔٭
٢٤۔کہدیجیے:تمہارے آبااور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔٭
٢٥۔ بتحقیق بہت سے مقامات پر اللہ تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین کے دن بھی، جب تمہاری کثرت نے تمہیںغرور میں مبتلا کر دیا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔٭
٢٦۔ پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر اتارے اور کفار کو عذاب میں مبتلا کر دیا اور کفر اختیار کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔
٢٧۔ پھر اس کے بعد اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٢٨۔ اے ایمان والو! مشرکین تو بلاشبہ ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد الحرام کے قریب نہ آنے پائیں اور اگر (مشرکین کا داخلہ بند ہونے سے) تمہیں غربت کا خوف ہے تو (اس کی پرواہ نہ کرو) اگر اللہ چاہے تو جلد ہی تمہیں اپنے فضل سے بے نیاز کر دے گا یقینا اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے ۔٭
٢٩۔ اہل کتاب میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام کیا ہے اسے حرام نہیں ٹھہراتے اور دین حق بھی قبول نہیں کرتے، ان لوگوں کے خلاف جنگ کرو یہاںتک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔٭
٣٠۔ اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں ان لوگوں کی باتوں کے مشابہ ہیں جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے، یہ کدھر بہکتے پھرتے ہیں؟
٣١۔ انہوںنے اللہ کے علاوہ اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا رب بنا لیا ہے اور مسیح بن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ذات ان کے شرک سے پاک ہے۔
٣٢۔ یہ لوگ اپنی پھونکوں سے نور خدا کو بجھاناچاہتے ہیں مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے کے علاوہ کوئی بات نہیں مانتا اگرچہ کفار کو ناگوار گزرے۔
٣٣۔ اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے۔٭
٣٤۔ اے ایمان والو! (اہل کتاب کے) بہت سے علماء اور راہب ناحق لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انہیں راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔٭
٣٥۔ جس روز وہ مال آتش جہنم میں تپایا جائے گا اور اسی سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پشتیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا، لہٰذا اب اسے چکھو جسے تم جمع کیا کرتے تھے۔
٣٦۔ کتاب خدا میں مہینوں کی تعداد االلہ کے نزدیک یقینا بارہ مہینے ہے جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں، یہی مستحکم دین ہے، لہٰذا ان چار مہینوں میں تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرو اور تم، سب مشرکین سے لڑو جیساکہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے۔٭
٣٧۔(حرمت کے مہینوںمیں) تقدیم و تاخیر بے شک کفر میں اضافہ کرتا ہے جس سے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے وہ کسی سال ایک مہینے کو حلال اور کسی سال اسے حرام قرار دیتے ہیں تاکہ وہ مقدار بھی پوری کر لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے اور ساتھ ہی خدا کے حرام کو حلال بھی کر لیں، ان کے برے اعمال انہیں بھلے کر کے دکھائے جاتے ہیں اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا۔
٣٨۔ اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہواہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کی جگہ دنیاوی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہو؟ دنیاوی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔٭
٣٩۔ اگر تم نہ نکلو گے توا للہ تمہیںدردناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کرے گااور تم اللہ کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکوگے اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔٭
٤٠۔ اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو (جان لوکہ) اللہ نے اس وقت ان کی مدد کی جب کفار نے انہیں نکالا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے وہ دو میں کا دوسرا تھا جب وہ اپنے ساتھی سے کہ رہا تھا رنج نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے ان پر اپنا سکون نازل فرمایا اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد کی جو تمہیں نظر نہ آتے تھے اور یوں اس نے کافروں کا کلمہ نیچا کر دیا اور اللہ کا کلمہ تو سب سے بالاتر ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔٭
٤١۔(مسلمانو)تم ہلکے ہو یا بوجھل (ہر حالت میں) نکل پڑو اور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرو، اگر تم سمجھو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔
٤٢۔ اگر آسانی سے حاصل ہونے والا کوئی فائدہ ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور آپ کے پیچھے چل پڑتے لیکن یہ مسافت انہیں دور نظر آئی اور اب وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں گے: اگرہمارے لیے ممکن ہوتا تو یقینا ہم آپ کے ساتھ چل دیتے (ایسے بہانوں سے) وہ اپنے آپ کو ہلاکت میںڈال رہے ہیں اوراللہ کو علم ہے کہ یہ لوگ یقینا جھوٹ بول رہے ہیں۔٭
٤٣۔ (اے رسول) اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی قبل ا س کے کہ آپ پر واضح ہو جاتا کہ سچے کون ہیں اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے؟٭
٤٤۔ جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے ہرگز آپ سے اجازت نہیں مانگیں گے اور اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو خوب جانتا ہے ۔
٤٥۔ایسی اجازت یقینا وہی لوگ مانگیں گے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں مبتلا ہیں پس اس طرح وہ اپنے شک میں بھٹک رہے ہیں۔
٤٦۔اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لیے سامان کی کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا ناپسند تھا اس لیے اس نے (ان سے توفیق سلب کر کے) انہیں ہلنے نہ دیا اور کہدیا گیا: تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
٤٧۔اگروہ تمہارے ساتھ نکلتے بھی تو تمہارے لیے صرف خرابی میں اضافہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ کھڑا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہارے درمیان ان کے جاسوس (اب بھی) موجود ہیں اور اللہ ظالموں کا حال خوب جانتا ہے ۔٭
٤٨۔ یہ لوگ پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آپ کے لیے بہت سی باتوں میں الٹ پھیر بھی کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور اللہ کا فیصلہ غالب ہوا اور وہ برا مانتے رہ گئے ۔٭
٤٩۔ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے: مجھے اجازت دیجیے اور مجھے فتنے میںنہ ڈالیے، دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو یقینا گھیر رکھا ہے۔٭
٥٠۔ اگر آپ کا بھلا ہوتا ہے توانہیں دکھ ہوتا ہے اور اگر آپ پر کوئی مصیبت آئے تو کہتے ہیں: ہم نے پہلے ہی سے اپنا معاملہ درست کر رکھا ہے اور خوشیاں مناتے ہوئے لو ٹ جاتے ہیں۔٭
٥١۔کہدیجیے: اللہ نے جو ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی حادثہ ہرگز پیش نہیں آتا وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں.٭
٥٢۔ کہدیجیے: کیا تم ہمارے بارے میں دو بھلائیوں (فتح یا شہادت) میں سے ایک ہی کے منتظر ہو اور ہم تمہارے بارے میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ خود اپنے پاس سے تمہیں عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں عذاب دلوائے، پس اب تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔٭
٥٣۔ کہدیجیے:تم اپنا مال بخوشی خرچ کرو یا بادل نخواستہ، تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ تم فاسق قو م ہو۔٭
٥٤۔ اور ان کے خرچ کیے ہوئے مال کی قبولیت کی راہ میں بس یہی رکاوٹ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور نماز کے لیے آتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ اور راہ خدا میں تو بادل نخواستہ ہی خرچ کرتے ہیں۔
٥٥۔ لہٰذا ان کے اموال اور اولاد کہیں آپ کو فریفتہ نہ کر دیں، اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے انہیں دنیاوی زندگی میں بھی عذاب دے اور کفر کی حالت میں ہی ان کی جان کنی ہو۔٭
٥٦۔ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمہاری جماعت میں شامل ہیں حالانکہ وہ تمہاری جماعت میں شامل نہیں ہیں۔ دراصل وہ بزدل لوگ ہیں۔
٥٧۔ اگر انہیں کوئی پناہ گاہ یا غار یا سر چھپانے کی جگہ میسر آجائے تو وہ اس کی طرف لپکتے ہوئے جائیںگے۔
٥٨۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صدقات(کی تقسیم)میں آپ کو طعنہ دیتے ہیں پھر اگر اس میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر اس میں سے کچھ نہ دیا جائے تو بگڑ جاتے ہیں۔٭
٥٩۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر راضی ہو جاتے اور کہتے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی، ہم اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں۔٭
٦٠۔یہ صدقات تو صرف فقیروں، مساکین اور صدقات کے کام کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو اور غلاموں کی آزادی اور قرضداروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ایک مقرر حکم ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔
٦١۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیںجو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ کانوں کے کچے ہیں، کہدیجیے:وہ تمہاری بہتری کے لیے کان دے کر سنتا ہے اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کے لیے تصدیق کرتا ہے اور تم میں سے جو ایمان لائے ہیں ان کے لیے رحمت ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
٦٢۔ یہ لوگ تمہیں راضی کرنے کے لیے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیںحالانکہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں راضی کیا جائے اگر یہ مومن ہیں۔٭
٦٣۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔
٦٤۔ منافقوں کو یہ خوف لاحق رہتاہے کہ کہیں ان کے خلاف (مسلمانوں پر) کوئی ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے راز کو فاش کر دے، ان سے کہدیجیے: تم استہزاء کیے جاؤ، اللہ یقینا وہ (راز) فاش کرنے والا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے۔٭
٦٥۔ اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور کہیں گے : ہم تو صرف مشغلہ اور دل لگی کر رہے تھے، کہدیجیے: کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑا رہے تھے۔٭
٦٦۔ عذر تراشی مت کرو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو، اگر ہم نے تم میں سے ایک جماعت کو معاف کر بھی دیا تو دوسری جماعت کو ضرور عذاب دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے۔
٦٧۔ منافق مرد اور عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں، وہ برے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا ہے، بے شک منافقین ہی فاسق ہیں۔٭
٦٨۔ اللہ نے منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں سے آتش جہنم کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیںگے، یہی ان کے لیے کافی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔٭
٦٩۔ (تم منافقین بھی) ان لوگوں کی طرح (ہو)جو تم سے پہلے تھے وہ تم سے زیادہ طاقتور اور اموال اور اولاد میں تم سے بڑھ کر تھے، انہوں نے اپنے حصے کے خوب مزے لوٹے پس تم بھی اپنے حصے کے مزے اسی طرح لوٹ رہے ہو جس طرح تم سے پہلوں نے اپنے حصے کے خوب مزے لوٹے اور جس طرح وہ باطل بحثیں کرتے تھے تم بھی کرتے رہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو گئے اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔٭
٧٠۔ کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں (مثلاً) قوم نوح اور عاد و ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور الٹی ہوئی بستیوں والوں کی خبر نہیں پہنچی؟ جن کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے،پھر اللہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا بلکہ یہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے رہے۔٭
٧١۔ اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیںاور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے ۔٭
٧٢۔ اللہ نے ان مومن مردوں اور مومنہ عورتوں سے ایسی بہشتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیںگے اور ان دائمی جنتوں میں پاکیزہ قیام گاہیں ہیں اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو ان سب سے بڑھ کر ہے، یہی تو بڑی کامیابی ہے۔٭
٧٣۔ اے نبی ! کفار اور منافقین سے لڑو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے۔
٧٤۔ یہ لوگ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کہا حالانکہ انہوں نے کفر کی بات کہدی ہے اور وہ اسلام لانے کے بعد کافر ہو گئے ہیں اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کی ٹھان لی تھی جو وہ نہ کر پائے اور انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان (مسلمانوں) کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے، پس اگر یہ لوگ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی کارساز ہوگا اور نہ مددگار۔٭
٧٥۔اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کر رکھا تھا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور ضرور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے۔٭
٧٦۔لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور (عہد سے) روگردانی کرتے ہوئے پھر گئے۔٭
٧٧۔پس اللہ نے ان کے دلوں میں اپنے حضور پیشی کے دن تک نفاق کو باقی رکھا کیونکہ انہوں نے اللہ کے ساتھ بدعہدی کی اور وہ جھوٹ بولتے رہے۔٭
٧٨۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ان کے پوشیدہ رازوں اور سرگوشیوں سے بھی واقف ہے اور یہ کہ اللہ غیب کی باتوں سے بھی خوب آگاہ ہے؟٭
٧٩۔ جو لوگ ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو برضا و رغبت خیرات کرتے ہیں اور جنہیں اپنی محنت و مشقت کے سوا کچھ بھی میسر نہیں ان پر ہنستے بھی ہیں، اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔٭
٨٠۔ (اے رسول) آپ ایسے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا دعا نہ کریں (مساوی ہے) اگر ستر بار بھی آپ ان کے لیے مغفرت طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسقین کو ہدایت نہیں دیتا۔٭
٨١۔ (غزوہئ تبوک میں) پیچھے رہ جانے والے رسول اللہ کا ساتھ دیے بغیر بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ خدا میںجہاد کرنے کو ناپسند کیا اور کہنے لگے: اس گرمی میں مت نکلو،کہدیجیے: جہنم کی آتش کہیں زیادہ گرم ہے، کاش وہ سمجھ پاتے۔٭
٨٢۔ پس انہیں چاہیے کہ کم ہنسا کریں اور زیادہ رویا کریں، یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے ہیں۔٭
٨٣۔ پھر اگر اللہ آپ کو ان میں سے کسی گروہ کے پاس واپس لے جائے اور وہ آپ سے (ساتھ) نکلنے کی اجازت مانگیں تو آپ کہدیں: (اب) تم میرے ساتھ ہرگز نہیں نکلو گے اور نہ ہی میرے ساتھ کسی دشمن سے لڑائی کرو گے، پہلی مرتبہ تم نے بیٹھے رہنے کو پسند کیا لہٰذا اب پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔٭
٨٤۔ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ نافرمانی کی حالت میں مرے ہیں۔٭
٨٥۔ اور ان کی دولت اور اولاد کہیں آپ کو فریفتہ نہ کریں، اللہ تو بس ان چیزوں کے ذریعے انہیں دنیا میں عذاب دینا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کی جان کنی کفر کی حالت میں ہو۔٭
٨٦۔ اورجب کوئی ایسی سورت نازل ہوتی ہے (جس میں کہا جاتا ہے) کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کی معیت میں جہاد کرو تو ان (منافقین) میں سے دولتمند افراد آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ہمیں چھوڑ جائیں کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ (بیٹھے) رہیں.٭
٨٧۔ انہوںنے گھر بیٹھنے والی عورتوں میں شامل رہنا پسند کیا اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی پس وہ کچھ سمجھتے ہی نہیں ۔٭
٨٨۔ جب کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور (اب) ساری خوبیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔٭
٨٩۔ان کے لیے اللہ نے ایسی جنتیںتیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیںگے اور یہی عظیم کامیابی ہے ۔
٩٠۔اور کچھ عذر تراشنے والے صحرا نشین بھی (آپکے پاس)آئے کہ انہیں بھی (پیچھے رہ جانے کی) اجازت دی جائے اور جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جھوٹ بولا وہ (گھروں میں) بیٹھے رہے، ان میں سے جو کافر ہو گئے ہیں انہیں عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔ ٭
٩١۔ ضعیفوں اور مریضوں اور ان لوگوں پر جن کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ ہوں، نیک لوگوں پر الزام کی کوئی راہ نہیں ہوتی اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
٩٢۔اور نہ ہی ان لوگوں پر(کوئی الزام ہے) جنہوں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ ان کے لیے سواری فراہم کریں آپ نے کہا: میرے پاس کوئی سواری موجود نہیں کہ تمہیں اس پر سوار کروں (یہ سن کر) وہ واپس گئے جب کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسو بہا رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔٭
٩٣۔الزام توبس ان لوگوں پرہے جو دولت مند ہونے کے باوجود آپ سے درخواست کرتے ہیں (کہ جہاد سے معاف کیے جائیں)، انہوں نے گھر بیٹھنے والی عورتوں میں شامل رہنا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی لہٰذا وہ نہیں جانتے۔٭
 

صرف علی

محفلین
پارہ :یَعتذِرُون11​
٩٤۔ جب تم ان کے پاس واپس پہنچ جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے، کہدیجیے:عذر مت تراشو! ہم تمہاری بات ہرگز نہیں مانیں گے اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتا دیے ہیں اور عنقریب اللہ تمہارے اعمال دیکھے گا اور اس کا رسول بھی پھر تم لوگ غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹائے جاؤ گے پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔٭
٩٥۔جب تم ا ن کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو پس تم ان سے درگزر کردینا، یہ لوگ ناپاک ہیں اور ان سے سرزد ہونے والے اعمال کی سزا میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔٭
٩٦۔یہ تمہارے سامنے قسم کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، پس اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو اللہ یقینا فاسق قوم سے راضی نہ ہوگا۔
٩٧۔ یہ بادیہ نشین بدو کفر و نفاق میںانتہائی سخت ہیںاور اس قابل ہی نہیں کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو کچھ نازل کیا ہے ان کی حدود کو سمجھ سکیں اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے ۔٭
٩٨۔اور ان بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ تم پر گردش ایام آئے، بری گردش خود ان پر آئے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
٩٩۔ اور انہی بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے تقرب اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ہاں یہ ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اللہ انہیں عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
١٠٠۔ اور مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی اور جو نیک چال چلن میں ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیںگے یہی عظیم کامیابی ہے۔٭
١٠١۔ اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں، عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔٭
١٠٢۔ اور کچھ دوسرے لوگ جنہوںنے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا انہوں نے نیک عمل کے ساتھ دوسرے برے عمل کو مخلوط کیا، بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
١٠٣۔ (اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں اور ان کے حق میں دعا بھی کریں، یقینا آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔٭
١٠٤۔ کیا انہیں علم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اور صدقات بھی وصول کرتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
١٠٥۔ اور کہدیجیے: لوگو! عمل کرو کہ تمہارے عمل کو عنقریب اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے اور پھر جلد ہی تمہیں غیب و شہود کے جاننے والے کی طرف پلٹا دیا جائے گا پھر وہ تمہیں بتا د ے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔٭
١٠٦۔ اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے، وہ چاہے انہیں عذاب دے اور چاہے توان کی توبہ قبول کرے اور اللہ بڑا دانا، حکیم ہے۔
١٠٧۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی ضرر رسانی اور کفر اور مومنین میں پھوٹ ڈالنے کے لیے نیز ان لوگوں کی کمین گاہ کے طورپر جو پہلے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑ چکے ہیں اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارے ارادے فقط نیک تھے، لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔٭
١٠٨۔ آپ ہر گز اس مسجد میں کھڑے نہ ہوں، البتہ جو مسجد پہلے ہی دن سے تقویٰ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے وہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس میں ایسے لوگ ہیں جو صاف اورپاکیزہ رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔٭
١٠٩۔ بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خوف خدا اور اس کی رضا طلبی پر رکھی ہو وہ بہترہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد گرنے والی کھائی کے کنارے پر رکھی ہو، چنانچہ وہ (عمارت) اسے لے کر آتش جہنم میں جا گرے؟ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا ۔٭
١١٠۔ ان لوگوں کی بنائی ہوئی یہ عمارت ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل پاش پاش ہو جائیں اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔٭
١١١۔ یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لیے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں، یہ توریت و انجیل اور قرآن میں ان کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنا عہدپورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس تم نے اللہ کے ساتھ جو سودا کیا ہے اس پرخوشی مناؤ اور یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے۔٭
١١٢۔ (یہ لوگ) توبہ کرنے والے، عبادت گزار، ثنا کرنے والے، (راہ خدا میں) سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کی دعوت دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور (اے رسول) مومنین کو خوشخبری سنا دیجیے۔٭
١١٣۔نبی اور ایمان والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ یہ بات ان پر عیاں ہو چکی ہے کہ وہ جہنم والے ہیں۔٭
١١٤۔ اور(وہاں)ابراہیم کا اپنے باپ (چچا) کے لیے مغفرت طلب کرنا اس وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوںنے اس کے ساتھ کر رکھا تھا لیکن جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ وہ دشمن خداہے تووہ اس سے بیزار ہو گئے، ابراہیم یقینا نرم دل اور بردبار تھے۔
١١٥۔ اور اللہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا یہاں تک کہ ان پر یہ واضح کر دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا ہے، بتحقیق اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔٭
١١٦۔ آسمانوںاور زمین کی سلطنت یقینا اللہ ہی کے لیے ہے، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار۔
١١٧۔ بتحقیق اللہ نے نبی پر اور ان مہاجرین و انصار پر مہربانی فرمائی جنہوں نے مشکل گھڑی میںنبی کاساتھ دیا تھا بعد اس کے کہ ان میں سے بعض کے دلوں میں کجی آنے ہی والی تھی پھر اللہ نے انہیں معاف کر دیا، بے شک وہ ان پربڑا شفقت کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
١١٨۔ اور ان تینوں کو بھی(معاف کر دیا) جو (تبوک میں) پیچھے رہ گئے تھے، جب اپنی وسعت کے باوجود زمین ان پر تنگ ہو گئی تھی اور اپنی جانیں خود ان پر دوبھر ہو گئی تھیں اور انہوںنے دیکھ لیا کہ اللہ کی گرفت سے بچنے کے لیے خود اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں تو اللہ نے ان پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کریں، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے.٭
١١٩۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔٭
١٢٠۔ اہل مدینہ اور گرد و پیش کے بدوؤں کو یہ حق حاصل ہی نہ تھا کہ وہ رسول خدا سے پیچھے رہ جائیں اور اپنی جانوں کو رسول کی جان سے زیادہ عزیز سمجھیں، یہ اس لیے کہ انہیں نہ پیاس کی تکلیف ہو گی اور نہ مشقت کی اور نہ راہ خدا میں بھوک کی اور نہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے جو کافروں کو ناگوار گزرے اور نہ انہیں دشمن سے کوئی گزند پہنچے گا مگر یہ کہ ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا ثواب ضائع نہیں کرتا.٭
١٢١۔اور (اسی طرح) وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیںخواہ چھوٹا ہو یا بڑا اور جب کوئی وادی (بغرض جہاد) پار کرتے ہیں تو یہ سب ان کے حق میں لکھ دیا جاتا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے اچھے اعمال کا صلہ دے۔
١٢٢۔اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب مومنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے) بچے رہیں۔٭
١٢٣۔ اے ایمان والو! ان کافروں سے جنگ کرو جو تمہارے نزدیک ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر ٹھوس شدت کا احساس کریں اور جان رکھو اللہ متقین کے ساتھ ہے۔٭
١٢٤۔اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میںسے کچھ لوگ (از راہ تمسخر) کہتے ہیں: اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟ پس ایمان والوںکے ایمان میں تو اس نے اضافہ ہی کیا ہے اور وہ خوشحال ہیں۔٭
١٢٥۔ اور البتہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی نجاست پر اس نے مزید نجاست کا اضافہ کیا ہے اور وہ مرتے دم تک کفر پر ڈٹے رہے۔٭
١٢٦۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ انہیں ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالا جاتا ہے؟ پھر نہ تو وہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی عبرت حاصل کرتے ہیں۔
١٢٧۔اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں کہ کوئی تمہیں دیکھ تو نہیں رہا؟ پھر نکل کر بھاگتے ہیں، اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر رکھا ہے کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔
١٢٨۔ بتحقیق تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنین کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔٭
١٢٩۔ پھر اگر یہ روگردانی کریں تو آپ کہ دیجیے: میرے لیے اللہ ہی کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔


سورہ یونس ۔ مکی ۔ آیات ١٠٩​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ الف لام را۔یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت والی ہے۔
٢۔ کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے خود انہیں میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی کہ لوگوں کو تنبیہ کرے اور جو ایمان لائیں انہیں بشارت دے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچا مقام ہے، (اس پر) کافروںنے کہا: یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے۔٭
٣۔ یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کوچھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے، یہی اللہ تو تمہارا رب ہے پس اس کی عبادت کرو، کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟٭
٤۔ تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے، اللہ کا وعدہ حق پر مبنی ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جو کافر ہوئے انہیں اپنے کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینا ہو گااور انہیں دردناک عذاب (بھی) بھگتنا ہو گا۔٭
٥۔ وہی توہے جس نے سورج کو روشن کیا اور چاند کو چمک دی اور اس کی منزلیں بنائیں تاکہ تم برسوں کی تعداد اور حساب معلوم کر سکو، اللہ نے یہ سب کچھ صرف حق کی بنیاد پر خلق کیا ہے، وہ صاحبان علم کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے۔٭
٦۔ بے شک رات اور دن کی آمد و رفت میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (ہلاکت سے) بچنا چاہتے ہیں۔٭
٧۔ بے شک جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیاوی زندگی ہی پر راضی ہیں اور اسی میں اطمینان محسوس کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں،
٨۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کی پاداش میں جن کا یہ ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔
٩۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے بے شک ان کا رب ان کے ایمان کے سبب انہیں نعمتوں والی جنتوں کی راہ دکھائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔٭
١٠۔ جہاں ان کی صدا سبحانک اللھم (اے اللہ تیری ذات پاک ہے) اور وہاںان کی تحیت سلام ہو گی اور ان کی دعا کا خاتمہ الحمد للّہ رب العالمین ہو گا۔٭
١١۔ اور اگر اللہ لوگوں کے ساتھ (ان کی بداعمالیوں کی سزا میں) برا معاملہ کرنے میں اسی طرح عجلت سے کام لیتاجس طرح وہ لوگ (دنیا کی) بھلائی کی طلب میں جلد بازی کرتے ہیں تو ان کی مہلت کبھی کی ختم ہو چکی ہوتی، لیکن جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں مہلت دیے رکھتے ہیںکہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔٭
١٢۔ اور انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے، بیٹھے اور کھڑے ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسا چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف پر جو اسے پہنچی ہمیں پکارا ہی نہیں، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔٭
١٣۔ اور بتحقیق تم سے پہلی قوموں کو بھی ہم نے اس وقت ہلاک کیا جب وہ ظلم کے مرتکب ہوئے اور ان کے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے، ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔٭
١٤۔ پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں تمہیں جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔٭
١٥۔ اور جب انہیںہماری آیات کھول کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں: اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ یا اسے بدل دو، کہدیجیے: مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اپنی طرف سے اسے بدل دوں، میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے، میں اپنے رب کی نافرمانی کی صورت میں بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔٭
١٦۔ کہدیجیے: اگر اللہ چاہتا تو میں یہ قرآن تمہیں پڑھ کر نہ سناتا اور نہ ہی اللہ تمہیں اس سے آگاہ کرتا، اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔٭
١٧۔پس اس شخص سے بڑ ھ کر ظالم کون ہو سکتاہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے؟ مجرم لوگ یقینا فلاح نہیں پائیں گے۔
١٨۔ اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور (پھربھی)کہتے ہیں: یہ اللہ کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں، کہدیجیے: کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اور نہ زمین میں؟ وہ پاک و بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔
١٩۔ اور سب انسان ایک ہی امت تھے پھر اختلاف رونما ہوا اور اگر آپ کا پروردگار پہلے طے نہ کر چکا ہوتا تو ان کے درمیان اس بات کا فیصلہ کر دیا جاتا جس میں یہ اختلاف کرتے ہیں۔٭
٢٠۔ اور کہتے ہیں:اس (نبی) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی؟ پس کہدیجیے:غیب تو صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے پس تم انتظا ر کرو میںبھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں.٭
٢١۔ اور جب انہیں پہنچنے والے مصائب کے بعد ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیات کے بارے میں حیلے بازیاں شروع کر دیتے ہیں، کہدیجیے: اللہ کا حیلہ تم سے زیادہ تیزہے، بےشک ہمارے فرشتے تمہاری حیلے بازیاں لکھ رہے ہیں.٭
٢٢۔ وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں چلاتا ہے، چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر باد موافق کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اتنے میں کشتی کو مخالف تیز ہوا کا تھپیڑا لگتا ہے اور ہر طرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں) گھر گئے ہیں تو اس وقت وہ اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بالضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔٭
٢٣۔ پھر جب خدا نے انہیں بچا لیا تو یہ لوگ زمین میں ناحق بغاوت کرنے لگے، اے لوگو یہ تمہاریبغاوت خود تمہارے خلاف ہے، دنیا کے چند روزہ مزے لے لو پھر تمہیں ہماری طرف پلٹ کر آناہے پھر اس وقت ہم تمہیں بتادیںگے کہ تم کیاکرتے رہے ہو۔٭
٢٤۔ دنیا وی زندگی کی مثال یقینا اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں جن میں سے انسان اور جانور سب کھاتے ہیں پھر جب زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہو گئی اور زمین کے مالک یہ خیال کرنے لگے کہ اب وہ اس پر قابو پا چکے ہیں تو (ناگہاں) رات کے وقت یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آ پڑا تو ہم نے اسے کاٹ کر ایسا صاف کر ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لےے ہم اپنی نشانیاںاس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں۔٭
٢٥۔ اللہ (تمہیں) سلامت کدے کی طرف بلاتا ہے اور جسے وہ چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت فرماتا ہے۔٭
٢٦۔ جنہوں نے نیکی کی ہے ان کے لیے نیکی ہے اور مزید بھی، ان کے چہروںپر نہ سیاہ دھبہ ہو گا اور نہ ذلت (کے آثار)، یہ جنت والے ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔٭
٢٧۔ اور جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے تو بدی کی سزا بھی ویسی ہی (بدی) ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا گویا ان کے چہرے پر تاریک رات کے سیاہ (پردوں کے) ٹکڑے پڑے ہوئے ہوں، یہ جہنم والے ہیں، اس میں یہ ہمیشہ رہیںگے.٭
٢٨۔ اور جس دن ہم ان سب کو (اپنی عدالت میں) جمع کریں گے پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے: تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہر جاؤ، پھر ہم ان میں جدائی ڈال دیں گے تو ان کے شریک کہیں گے: تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے.٭
٢٩۔ پس ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے، تمہاری اس عبادت سے ہم بالکل بے خبر تھے۔
٣٠۔ اس مقام پر ہر کوئی اپنے اس عمل کو جانچ لے گا جو وہ آگے بھیج چکا ہو گااور پھر وہ اپنے مالک حقیقی اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے اور جو بہتان وہ باندھا کرتے تھے ان سے ناپید ہو جائیں گے ۔٭
٣١۔کہدیجیے: تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟سماعت اور بصارت کا مالک کون ہے؟ اور کون ہے جو بے جان سے جاندار کو پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بے جان کو پیدا کر تاہے؟ اور کون امور (عالم ) کی تدبیر کر رہا ہے؟ پس وہ کہیں گے: اللہ، پس کہدیجیے: تو پھر تم بچتے کیوں نہیں ہو؟٭
٣٢۔پس یہی اللہ تمہارا برحق پروردگار ہے، پھر حق کے بعد گمراہی کے سو اکیا رہ گیا؟ پھر تم کدھر پھرائے جا رہے ہو؟٭
٣٣۔ اس طرح (ان فاسقوں کے بارے میں) آپ کے پروردگار کی بات ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں.
٣٤۔ کہدیجیے: کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے؟ کہدیجیے: اللہ تخلیقکی ابتدا بھی کرتا ہے پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے گا، پھر تم کدھر الٹے جا رہے ہو۔
٣٥۔ کہدیجیے: کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے؟ کہدیجیے: حق کی طرف صرف اللہ ہدایت کرتا ہے تو پھر (بتاؤکہ ) جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یاوہ جو خود اپنی راہ نہیںپاتا جب تک اس کی رہنمائی نہ کی جائے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟٭
٣٦۔ ان میں سے اکثر محض ظن کی پیروی کرتے ہیں جب کہ ظن انسان کو حق (کی ضرورت) سے ذرہ برابر بے نیاز نہیں کرتا، اللہ ان کے اعمال سے خوب آگاہی رکھتا ہے۔٭
٣٧۔ اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس قرآن کو اللہ کے سوا کوئی اور اپنی طرف سے بنا لائے بلکہ یہ تو اس سے پہلے جو (کتاب) آ چکی ہے اسکی تصدیق ہے اور تمام (آسمانی) کتابوں کی تفصیل ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔٭
٣٨۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو (محمدنے) از خود بنایاہے؟ کہدیجیے: اگر تم (اپنے الزام میں) سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جسے تم بلا سکتے ہو بلا لاؤ۔٭
٣٩۔بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انہوں نے اس چیز کو جھٹلایا جو ان کے احاطہ علم میں نہیں آئی اور ابھی اس کا انجام بھی ان کے سامنے نہیں کھلا، اسی طرح ان سے پہلوں نے بھی جھٹلایا تھا، پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا۔٭
٤٠۔ اور ان میںسے کچھ ایسے ہیںجو اس پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور آپ کا پروردگار ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔٭
٤١۔ اور اگر یہ لوگ آپکو جھٹلائیں تو کہدیجیے: میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں.٭
٤٢۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے بیٹھے ہیں، پھر کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں خواہ وہ عقل نہ رکھتے ہوں؟
٤٣۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ کی طرف دیکھتے ہیں پھر کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا سکتے ہیں خواہ وہ کچھ بھی نہ دیکھتے ہوں۔
٤٤۔ اللہ یقینا لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔
٤٥۔اور جس (قیامت کے) دن اللہ انہیں جمع کرے گا تو (دنیاکی زندگی یوں لگے گی) گویا وہ دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ یہاں نہیں رہے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان لیں گے، جنہوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا وہ خسارے میں رہے اور وہ ہدایت یافتہ نہ تھے۔٭
٤٦۔اور جس (عذاب) کا ہم ان کافروں سے وعدہ کر رہے ہیں اس کا کچھ حصہ ہم آپ کو زندگی میں دکھا دیں یا آپ کو پہلے (ہی دنیا) سے اٹھا لیں انہیں بہرحال پلٹ کر ہماری بارگاہ میں آنا ہے پھر جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیںاس پر اللہ شاہد ہے.٭
٤٧۔ اور ہر امت کےلیے ایک رسول(بھیجا گیا) ہے،پھرجب ان کا رسول آتا ہے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم روا نہیں رکھا جاتا۔
٤٨۔ اور وہ کہتے ہیں: اگرتم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہو گا ؟
٤٩۔ کہدیجیے: میں اللہ کی منشا کے بغیر اپنے نقصان اور نفع کا بھی اختیار نہیں رکھتا، ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے، جب ان کا مقررہ وقت آئے گا تو وہ گھڑی بھر کے لیے نہ تاخیر کر سکیں گے اور نہ تقدیم ۔٭
٥٠۔ ان سے کہدیجیے: یہ تو بتاؤ کہ اللہ کا عذاب رات کو یا دن کو تم پر آ جائے؟ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے یہ مجرم جلد بازی کرتے ہیں؟
٥١۔کیا جب عذاب آ چکے گا تب اس پر ایمان لاؤ گے؟ کیا اب (بچنا چاہتے ہو؟) حالانکہ تم خود اسے جلدی چاہ رہے تھے۔
٥٢۔ پھر ظالموں سے کہا جائے گا:دائمی عذاب چکھو، جو تم کرتے رہے ہو اس کی سزا کے علاوہ اور تمہیں کیا مل سکتاہے؟
٥٣۔اور یہ لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں (کہ جو آپ کہ رہے ہیں) کیا وہ حق ہے؟ کہدیجیے: ہاں! میرے رب کی قسم یقینا یہی حق ہے اور تم اللہ کو کسی طرح عاجز نہیں کر سکتے۔٭
٥٤۔ اور جس جس نے ظلم کیا ہے اگر اس کے پاس روئے زمین کی دولت بھی ہو تب بھی وہ (عذاب سے بچنے کے لیے یہ پوری دولت) فدیہ دینے پر آمادہ ہو جائے گا اور جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو دل ہی دل میںپشیمان ہوں گے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔٭
٥٥۔ آگاہ رہو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے یقینا وہ اللہ کی ملکیت ہے، اس بات پر بھی آگاہ رہو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٥٦۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔
٥٧۔ اے لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے (یہ قرآن) تمہارے پاس نصیحت اور تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے شفا اور مومنین کے لیے ہدایت اور رحمت بن کر آیا ہے۔٭
٥٨۔کہدیجیے: اللہ کے اس فضل اور اس کی اس رحمت کو پا کر لوگوں کو خوش ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس (مال و متاع) سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کرتے ہیں۔۔
٥٩۔کہدیجیے: یہ تو بتاؤ کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے نازل کیا ہے اس میں سے تم از خود کچھ کو حرام اور کچھ کو حلال ٹھہراتے ہو؟ کہدیجیے: کیا اللہ نے تمہیں (اس بات کی) اجازت دی ہے یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟٭
٦٠۔ اور جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں ان کا کیا خیال ہے قیامت کے دن کے بارے میں کہ (اللہ ان کےساتھ کیا سلوک کرے گا؟) اللہ تو لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے۔
٦١۔ اور (اے نبی) آپ جس حال میں ہوتے ہیں اور آپ قرآن میں سے اللہ کی طرف سے جو تلاوت کر رہے ہوتے ہیں اور تم لوگ جو عمل بھی کرتے ہو دوران مصروفیت ہم تم پر ناظر ہیں اور زمین اور آسمان کی ذرہ برابر اور اس سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے رب سے پوشیدہ ہو اور روشن کتاب میں درج نہ ہو۔
٦٢۔سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔٭
٦٣۔ جو ایمان لائے اور تقویٰ پر عمل کیا کرتے تھے۔٭
٦٤۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی، اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیں آ سکتی، یہی بڑی کامیابی ہے۔
٦٥۔ اور (اے نبی) آپ کو ان (کافروں) کی باتیں رنجیدہ نہ کریں ساری بالادستی یقینا اللہ کے لیے ہے، وہ خوب سننے والا، دانا ہے۔
٦٦۔ آگاہ رہو! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یقینا سب اللہ کی ملکیت ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے بلکہ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں اور وہ فقط اندازوں سے کام لیتے ہیں۔٭
٦٧۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں تم آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، بتحقیق سننے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔٭
٦٨۔ وہ کہتے ہیں: اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے اس کی ذات پاک ہے وہ بے نیاز ہے، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کا ہے،تمہارے پاس اس بات پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ؟٭
٦٩. کہدیجیے: جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ یقینا فلاح نہیں پائیں گے۔
٧٠۔ یہ دنیا کی عیش ہے پھر انہیں ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے پھر ہم انہیں شدید عذاب چکھائیں گے اس کفر کی پاداش میں جس کے وہ مرتکب رہے ہیں۔
٧١۔ انہیں نوح کا قصہ سنا دیجیے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا کر تمہیں نصیحت کرنا تمہیں ناگوار گزرتا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے پس تم اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر مضبوطی سے اپنا فیصلہ کر لو پھر اس فیصلے کا کوئی پہلو تم پر پوشیدہ نہ رہے پھر میرے ساتھ جوکچھ کرنا ہے کر گزرو او ر مجھے مہلت بھی نہ دو۔٭
٧٢۔پس اگر تم نے منہ موڑ لیا تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگا میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں شامل رہوں۔٭
٧٣۔ مگر جب انہوں نے نوح کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے بچا لیا اور انہیں (زمین پر) جانشین بنا دیا اور ان سب کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا، پھر دیکھ لو جنہیں تنبیہ کی گئی تھی (نہ ماننے پر) ان کا کیا انجام ہوا۔٭
٧٤۔ پھر نوح کے بعد ہم نے بہت سے پیغمبروںکو اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا پس وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر وہ جس چیز کی پہلے تکذیب کر چکے تھے اس پر ایمان لانے والے نہ تھے، اس طرح ہم حد سے تجاوز کرنے والوں کے دلوںپر مہر لگا دیتے ہیں۔ ٭
٧٥۔ پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔٭
٧٦۔پھر جب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آیا تو کہنے لگے: بے شک یہ تو صریح جادو ہے ۔٭
٧٧۔ موسیٰ نے کہا : جب حق تمہارے پاس آیا تو کیا اس کے بارے میں یہ کہتے ہو، کیا یہ جادو ہے؟ جب کہ جادوگر تو کبھی فلاح نہیں پاتے۔٭
٧٨۔ وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس راستے سے پھیر دو جس پرہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تم دونوں کی بالادستی قائم ہو جائے؟ اور ہم تو تم دونوں کی بات ماننے والے نہیںہیں۔٭
٧٩۔اور فرعون نے کہا :تمام ماہر جادوگروں کو میرے پاس لے آؤ۔٭
٨٠۔جب جادوگر حاضر ہو ئے تو موسیٰ نے ان سے کہا:تمہیں جو کچھ ڈالنا ہے ڈالو۔٭
٨١۔ پس جب انہوں نے ڈالا تو موسیٰ نے کہا: جو کچھ تم نے پیش کیا ہے وہ جادو ہے، اللہ یقینا اسے نابود کر دے گا، بے شک اللہ مفسدوں کے کام نہیں سدھارتا۔٭
٨٢ ۔ اور اللہ اپنے فیصلوں سے حق کو ثابت کر دکھاتا ہے خواہ مجرموں کو ناگوار گزرے۔٭
٨٣۔ چنانچہ موسیٰ پر ان کی اپنی قوم کے چند افراد کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف کی وجہ سے کہ کہیں وہ انہیں مصیبت سے دوچار نہکر دیں کیونکہ ملک میں فرعون کی بالادستی تھی اور وہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔٭
٨٤۔اور موسیٰ نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسا کرو اگر تم مسلمان ہو۔٭
٨٥۔ پس انہوںنے کہا:ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے، اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالموں کے لیے (ذریعہ) آزمائش نہ بنا۔٭
٨٦۔ اور اپنی رحمت سے ہمیں کافر قوم سے نجات عطا فرما۔٭
٨٧۔ اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ مصر میںاپنی قوم کے لیے مکانات مہیا کرو اور اپنے مکانوں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو اور مومنوں کو بشارت دو۔٭
٨٨۔ اور موسیٰ نے عرض کی: اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیاوی زندگی میں زینت بخشی اور دولت سے نوازا ہے پروردگارا! کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ (دوسروں کو ) تیری راہ سے بھٹکائیں؟ پروردگارا ان کی دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ لوگ دردناک عذاب کا سامنا کرنے تک ایمان نہ لائیں۔٭
٨٩۔ اللہ نے فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ہے پس تم دونوں ثابت قدم رہنا اور ان لوگوں کے راستے پر نہ چلنا جو علم نہیں رکھتے ۔٭
٩٠۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے گزار دیاتوفرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو کہنے لگا: میں ایمان لے آیا کہ اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میںمسلمانوں میں سے ہو گیا ہوں۔٭
٩١۔ (جواب ملا) اب (ایمان لاتا ہے) جب تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فسادیوں میں سے تھا؟٭
٩٢۔ پس آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کی نشانی بنے، اگرچہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔
٩٣۔ بتحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو خوشگوار ٹھکانے فراہم کیے اور انہیں پاکیزہ رزق سے نوازا پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم آ گیا، آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان یقینا ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں۔٭
٩٤۔اگر آپ کو اس بات میں کوئی شبہ ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھ رہے ہیں، بتحقیق آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس حق آ چکا ہے لہٰذا آپ ہرگزشک کرنے والوںمیںسے نہ ہوں.٭
٩٥۔ اور ہرگز ان لوگوں میں سے نہ ہوں جنہوں نے اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کی ورنہ آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔
٩٦۔ جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا فیصلہ قرار پا چکا ہے وہ یقینا ایمان نہیں لائیں گے۔ ٭
٩٧۔ اگر چہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آ جائے جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔٭
٩٨۔ کیا کو ئی بستی ایسی ہے کہ (بروقت ) ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے سودمند ثابت ہوا ہو سوائے قوم یونس کے؟ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے ٹال دیا اور ایک مدت تک انہیں (زندگی سے) بہرہ مند رکھا۔٭
٩٩۔اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟٭
١٠٠۔ اور کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا اور جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اللہ انہیںپلیدی میں مبتلا کر دیتا ہے۔٭
١٠١۔ کہدیجیے: آسمانوں اور زمین میں نظر ڈالو کہ ان میں کیاکیا چیزیں ہیں اور جو قوم ایمان لانا ہی نہ چاہتی ہو اس کے لیے آیات اور تنبیہیں کچھ کام نہیں دیتیں۔
١٠٢۔ اب یہ لوگ اس کے سوا کس کے انتظار میں ہیں کہ اس طرح کے برے دن دیکھیں جو ان سے پہلے کے لوگ دیکھ چکے ہیں؟ کہدیجیے: پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔٭
١٠٣۔پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے، یہ بات ہمارے ذمے ہے کہ ہم مومنین کو نجات دیں۔
١٠٤۔ کہدیجیے: اے لوگو ! اگر تمہیں میرے دین میں کوئی شک ہے تو (جان لو کہ) تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی پرستش کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا بلکہ میں تو صرف اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور مجھے یہی حکم ملا ہے کہ میں ایمان والوںمیں سے رہوں۔
١٠٥۔ اور یہ کہ آپ یکسوئی کے ساتھ اپنا رخ دین کی طرف ثابت رکھیں اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہوں۔٭
١٠٦۔ اور اللہ کے سوا کسی ایسی چیز کو نہ پکاریں جو آپ کو نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان، اگر آپ ایساکریں گے تو یقینا آپ ظالموں میں شمار ہوں گے۔٭
١٠٧۔ اور اگر اللہ آپ کو کسی تکلیف میں ڈالے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس تکلیف کو دور کرے اور اگر اللہ آپ سے بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو روکنے والا کوئی نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے فضل کرتا ہے اور وہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔٭
١٠٨۔ کہدیجیے: اے لوگو! جب تمہارے رب کی جانب سے حق تمہاری طرف آ چکا ہے، پس جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو اپنی ذات کے لیے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو وہ بھی اپنی ذات کو گمراہ کرتا ہے اور میں تمہارا ذمہ دار نہیںہوں۔٭
١٠٩۔ اور (اے نبی) آپ کی طرف جو وحی بھیجی جاتی ہے اس کی پیروی کریں اور اللہ کا فیصلہ آنے تک صبر کریں اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والاہے۔٭


سورہ ہود ۔ مکی ۔ آیات ١٢٣​
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ الف لام را، یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات مستحکم کی گئی ہیں پھر ایک باحکمت باخبر ذات کی طرف سے تفصیل سے بیان کی گئی ہیں ۔
٢۔ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، میں اللہ کی طرف سے تمہیں تنبیہ کرنے والا اور بشارت دینے والاہوں۔٭
٣۔ اور یہ کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے آگے توبہ کرو وہ تمہیں مقررہ مدت تک (دنیا میں) اچھی متاع زندگی فراہم کرے گا اور ہر احسان کوش کو اس کی احسان کوشی کا صلہ دے گا اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔٭
٤۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
٥۔ آگاہ رہو! یہ لوگ اپنے سینوں کو لپیٹ لیتے ہیں تاکہ اللہ سے چھپائیں، یاد رکھو! جب یہ اپنے کپڑوں سے ڈھانپتے ہیں تب بھی وہ ان کی علانیہ اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، وہ سینوں کی باتوں سے یقینا خوب واقف ہے ۔٭
 

صرف علی

محفلین
پارہ : وَمَا مِن دَآبّۃ 12​
٦۔ اور زمین پر چلنے والا کو ئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور وہ جانتا ہے کہ اس کی جائے قرار کہاں ہے اور عارضی جگہ کہاں ہے، سب کچھ روشن کتاب میں موجود ہے۔
٧۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے اور (اے نبی) اگر آپ (لوگوں) سے یہ کہدیں کہ تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو کافر ضرور کہیں گے: یہ تو محض کھلا جادو ہے۔٭
٨۔ اور اگر ہم ایک مقررہ مدت تک ان سے عذاب کو ٹال دیں تو وہ ضرور کہنے لگتے ہیں: اسے کس چیز نے روک رکھا ہے؟ آگاہ رہو! جس دن ان پر عذاب واقع ہو گا تو ان سے ٹالا نہیں جائے گا اور جس چیز کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں وہی انہیں گھیر لے گی٭
٩۔ اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد وہ نعمت ان سے چھین لیں تو بےشک وہ ناامید اور ناشکرا ہو جاتا ہے۔ ٭
١٠۔ اور اگر ہم اسے تکلیفوں کے بعد نعمتوں سے نوازتے ہیں تو ضرور کہ اٹھتا ہے: سارے دکھ مجھ سے دور ہو گئے،بےشک وہ خوب خوشیاں منانے اور اکڑنے لگتا ہے٭
١١۔البتہ صبر کرنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے ایسے نہیں ہےں ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔
١٢۔(اے رسول) آپ کی طرف جو وحی کی گئی ہے شاید آپ اس کا کچھ حصہ چھوڑنے والے ہیں اور ان کی اس بات پر دل تنگ ہو رہے ہیںکہ اس پر خزانہ کیوں نازل نہیں ہوا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ آپ تو صرف تنبیہ کرنے والے ہیں اور اللہ ہر چیز کا ذمہ دار ہے۔٭
١٣۔کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے (قرآن کو) خود بنایا ہے؟ کہدیجیے: اگر تم سچے ہو تو اس جیسی خود ساختہ دس سورتیں بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جس جس کوبلا سکتے ہو بلا لاؤ.٭
١٤۔ پھر اگر وہ تمہاری مدد کو نہ پہنچیں تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوا ہے اور یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کیا تم اس بات کو تسلیم کرنے والے ہو؟٭
١٥۔ جو دنیوی زندگی اور اس کی زنیت کے طالب ہوتے ہیں ان کی محنتوں کا معاوضہ ہم انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیںاور ان کے لیے اس میںکمی نہیں کی جائے گی۔٭
١٦۔ ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں آتش کے سوا کچھ نہ ہو گا اور وہاں ان کے عمل برباد اور ان کا کیا دھرا سب نابود ہو جائے گا۔
١٧۔ بھلا وہ شخص (افترا کر سکتا ہے) جو اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہے اور اس کے پیچھے اس کے رب کی طرف سے ایک شاہد بھی آیا ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (بھی دلیل ہو جو) راہنما اور رحمت بن کر آئی ہو؟ یہی لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور دوسرے فرقوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کریں تو اس کی وعدہ گاہ آتش جہنم ہے، آپ اس (قرآن) کے بارے میں کسی شک میں نہ رہیں، یقینا یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔٭
١٨۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرتا ہے، ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے: یہی لوگ ہےں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا، خبردار! ظالموں پراللہ کی لعنت ہے۔٭
١٩۔ جو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور اس میں کجی لانا چاہتے ہیں اور یہی لوگ آخرت کے منکر ہیں۔
٢٠۔ یہ لوگ زمین میںاللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی حامی ہے ان کا عذاب دوگنا کیا جائے گا، کیونکہ وہ (کسی کی) سن ہی نہ سکتے تھے اور نہ ہی دیکھتے تھے ۔ ٭
٢١۔ یہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو خسارے میں ڈال چکے ہیں اور وہ جو کچھ افترا کرتے تھے وہ بھی ان سے کھو گیا ۔ ٭
٢٢۔ لازمی بات ہے آخرت میں یہ لوگ سب سے زیادہ گھاٹے میں ہوں گے.٭
٢٣۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور اپنے رب کے سامنے عاجزی کرتے رہے یقینا یہی اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔٭
٢٤۔ دونوں فریقوں (مومنوں اور کافروں) کی مثال ایسی ہے جیسے (ایک طرف) اندھا اور بہرا ہو اور (دوسری طرف ) دیکھنے والا اور سننے والاہو، کیا یہ دونوں یکساں ہو سکتے ہیں؟ کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟٭
٢٥۔ اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، (انہوں نے اپنی قوم سے کہا) میں تمہیں صریحا تنبیہ کرنے والا ہوں۔٭
٢٦۔ کہ تم غیر اللہ کی عبادت نہ کرو، مجھے تمہارے بارے میں ایک دردناک دن کے عذاب کاڈر ہے۔
٢٧۔ تو ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: ہماری نظر میں تو تم صرف ہم جیسے بشر ہو اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہم میں سے ادنی درجے کے لوگ سطحی سوچ سے تمہاری پیروی کر رہے ہیں اور ہمیں کوئی ایسی بات بھی نظر نہیں آتی جس سے تمہیں ہم پر فضیلت حاصل ہو بلکہ ہم تو تمہیں کاذب خیال کرتے ہیں۔٭
٢٨۔(نوح نے) کہا: اے میری قوم! یہ تو بتاؤ اگر میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے مگر وہ تمہیں نہ سوجھتی ہو تو کیا ہم تمہیں اس پرمجبور کر سکتے ہیںجبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟٭
٢٩۔ اور اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور میں ان لوگوں کو اپنے سے دور بھی نہیں کر سکتا جو ایمان لا چکے ہیں، یقینا یہ لوگ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جاہل قوم ہو۔٭
٣٠۔ اور اے میری قوم! اگر میں انہیں دور کروں تو مجھے اللہ (کے قہر) سے کون بچائے گا؟ کیا تم نصیحت نہیں لیتے ؟
٣١۔ اور میں تم سے نہ تو یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوںاور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور جنہیں تمہاری نگاہیں حقیر سمجھتی ہےں ان کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ انہیں بھلائی سے نہیں نوازے گا، ان کے دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے، اگر میں ایسا کہوں تو میں ظالموںمیں سے ہو جاؤں گا۔٭
٣٢۔ لوگوں نے کہا: اے نوح! تم نے ہم سے بحث کی ہے اور بہت بحث کی اور اب اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ ٭
٣٣۔ کہا: اسے تو بے شک اللہ ہی تم پر لائے گا اگر وہ چاہے اور تم (اسے) عاجز تو نہیں کرسکتے ۔ ٭
٣٤۔ اور جب اللہ نے تمہیںگمراہ کرنے کا ارادہ کر لیا تو اگر میں تمہیں نصیحت کرنا بھی چاہوں تو میری نصیحت تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی، وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔٭
٣٥۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں: اس شخص (محمد) نے یہ باتیںبنائی ہیں؟کہدیجیے: اگر یہ باتیں میں نے بنائی ہیں تو میں اپنے جرم کا خود ذمے دار ہوں اور جس جرم کے تم مرتکب ہو میں اس سے بری ہوں ۔
٣٦۔ اور نوح کی طرف یہ وحی کی گئی کہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے علاوہ آپ کی قوم میں سے ہرگز کوئی اور ایمان نہیں لائے گا لہٰذا جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں آپ اس سے رنجیدہ نہ ہوں۔٭
٣٧۔ اور ہماری نگرانی میںاور ہمارے حکم سے ایک کشتی بنائیں اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات ہی نہ کریں کیونکہ وہ ضرور ڈوبنے والے ہیں۔٭
٣٨۔ اور وہ (نوح) کشتی بنانے لگے اور ان کی قوم کے سرداروں میں سے جو وہاں سے گزرتا وہ ان کا مذاق اڑاتا تھا، نوح نے کہا: اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو توکل ہم تمہارا اسی طرح مذاق اڑائیں گے جیسے تم مذاق اڑاتے ہو۔٭
٣٩۔ عنقریب تمہیں علم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر ہمیشہ رہنے والاعذاب نازل ہو گا.
٤٠۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور (سے پانی) ابلنے لگا تو ہم نے کہا: (اے نوح!) ہر جوڑے میں سے دو دو کشتی پر سوار کرو اور اپنے گھر والوں کو بھی سوائے ان کے جن کی بات پہلے ہو چکی ہے اور ان کو بھی (سوارکرو) جو ایمان لا چکے ہیں، اگرچہ ان کے ساتھ ایمان لانے والے بہت کم تھے۔٭
٤١۔ اور نوح نے کہا: کشتی میں سوار ہو جاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، بتحقیق میرا رب بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ ٭
٤٢۔ اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی، اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو جو کچھ فاصلے پر تھا پکارا: اے بیٹا! ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔٭
٤٣۔ اس نے کہا: میں پہاڑ کی پناہ لوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لے گا، نوح نے کہا: آج اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے، پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میںسے ہو گیا۔٭
٤٤۔ اور کہا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان! تھم جا اور پانی خشک کر دیا گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی (کوہ) جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا ظالموں پر نفرین ہو۔ ٭
٤٥۔ اور نوح نے اپنے رب کو پکار کر عرض کی: اے میرے پروردگار! میرا بیٹا میرے گھر والوں میںسے ہے اوریقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔٭
٤٦۔ فرمایا: اے نوح! بے شک یہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیںہے، یہ غیر صالح عمل ہے لہٰذا جس چیز کا آپ کو علم نہیں اس کی مجھ سے درخواست نہ کریں، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ مبادا نادانوں میں سے ہوجائیں۔٭
٤٧۔نوح نے کہا: میرے رب میںتجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کرو ں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور اگر تو مجھے معاف نہیں کرے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔٭
٤٨۔ کہا گیا : اے نوحؑ! اترو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو آپ پر اور ان جماعتوں پر ہیں جو آپ کے ساتھ ہیں اور کچھ جماعتیں ایسی بھی ہوں گی جنہیں ہم کچھ مدت زندگی کا موقع بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔ ٭
٤٩۔ یہ ہیں غیب کی کچھ خبریں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ ان باتوں کوجانتے تھے اورنہ آپ کی قوم پس صبرکریں انجام یقینا پرہیزگاروں کے لیے ہے ۔
٥٠۔ اور عاد کی طرف ان کی برادری کے فرد ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا : اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، (دوسرے معبودوںکو) تم نے صرف افتراء کیا ہے۔
٥١۔ اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اس ذات پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ ٭
٥٢۔ اور اے میری قوم! اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش برسائے اور تمہاری قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا اور مجرم بن کر منہ نہ پھیرو۔ ٭
٥٣۔ کہنے لگے: اے ہود! تم ہمارے سامنے کوئی شہادت نہیں لائے اور ہم تمہاری بات پر اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی ہم تجھ پر ایمان لا سکتے ہیں۔٭
٥٤۔ کیونکہ ہم تو یہ کہتے ہیں: تجھے ہمارے معبودوں میں سے کسی نے آسیب پہنچایا ہے،ہود نے کہا: میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ (اللہ کے سوا) جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزا ر ہوں۔٭
٥٥۔اس اللہ کے سوا تم سب مل کر میرے خلاف سازش کرو پھر مجھے مہلت نہ دو۔٭
٥٦۔ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے، کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی پیشانی اللہ کی گرفت میں نہ ہو، بےشک میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔ ٭
٥٧۔ پھر اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں نے تو وہ پیغام تمہیں پہنچا دیا ہے جس کے ساتھ میں تمہاری طرف بھیجا گیا تھا اور میرا رب تمہاری جگہ اور لوگوں کو لائے گا اور تم اس کاکچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، بےشک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔٭
٥٨۔ پھر جب ہمارا فیصلہ آیا تو ہود اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ہم نے اپنی رحمت سے انہیں بچا لیا اور ہم نے انہیں سنگین عذاب سے نجات دی۔
٥٩۔ یہ وہی عاد ہیں، جنہوںنے اپنے رب کی نشانیوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر سرکش دشمن کے حکم کی پیروی کی۔٭
٦٠۔ اور اس دنیا میں بھی لعنت نے ان کا تعاقب کیا اور قیامت کے روز بھی (ایسا ہو گا)، واضح رہے عاد نے اپنے پروردگار سے کفر کیا، آگاہ رہو! ہود کی قوم (یعنی) عاد کے لیے (رحمت حق سے) دوری ہو۔
٦١۔اور ثمود کی طرف ان کی برادری کے فرد صالح کو بھیجا، انہوںنے کہا : اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں آباد کیا لہٰذا تم اسی سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے حضور توبہ کرو، بے شک میرا رب بہت قریب ہے، (دعاؤں کا) قبول کرنے والا ہے۔٭
٦٢۔ انہوں نے کہا : اے صالح ! اس سے پہلے ہم تم سے بڑی امیدیں وابستہ رکھتے تھے، اب کیا ان معبودوں کی پوجا کرنے سے تم ہمیں روکتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے ؟ اور جس بات کی طرف تم ہمیں دعوت دے رہے ہو اس بارے میں ہمیں شبہ انگیز شک ہے ۔٭
٦٣۔ صالح نے کہا: اے میری قوم! یہ تو بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل رکھتا ہوں اور اس نے اپنی رحمت سے مجھے نوازا ہے تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو اللہ کے مقابلے میں میری حمایت کون کرے گا؟ تم تو میرے گھاٹے میں صرف اضافہ کر سکتے ہو۔٭
٦٤۔ اور اے میری قوم! یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے لہٰذا اسے آزاد چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں چرتی رہے اور اسے تکلیف نہ پہچانا ورنہ تمہیں ایک فوری عذاب گرفت میں لے گا۔٭
٦٥۔ پس انہوںنے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا: تم لوگ تین دن اپنے گھروں میں بسر کرو، یہ ایک ناقابل تکذیب وعدہ ہے۔٭
٦٦۔ پھر جب ہمارا فیصلہ آگیا تو ہم نے صالح اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے نجات دی اور اس دن کی رسوائی سے بھی بچا لیا، یقینا آپ کا رب بڑا طاقتور، غالب آنے والا ہے۔٭
٦٧۔اور جنہوں نے ظلم کیا تھا انہیں ایک ہولناک چنگھاڑ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ اپنے گھروں میںاوندھے پڑے رہ گئے ۔٭
٦٨۔ گویا وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے، واضح رہے ثمود نے اپنے پروردگار سے کفر کیا آگاہ رہو! ثمود کی قوم کے لیے (رحمت حق سے) دوری ہو۔
٦٩۔اور جب ہمارے فرشتے بشارت لے کر ابراہیم کے پاس پہنچے تو کہنے لگے: سلام، ابراہیم نے (جواباً) کہا: سلام، ابھی دیر نہ گزری تھی کہ ابراہیم ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔٭
٧٠۔ جب ابراہیم نے دیکھا ان کے ہاتھ اس (کھانے ) تک نہیںپہنچتے تو انہیں اجنبی خیال کیا اور ان سے خوف محسوس کیا، فرشتوںنے کہا: خوف نہ کیجیے ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔۔٭
٧١۔ اور ابراہیم کی زوجہ کھڑی تھیں پس وہ ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت دی۔٭
٧٢۔ وہ بولی: ہائے میری شامت! کیا میرے ہاں بچہ ہو گا جبکہ میں بڑھیا ہوں اوریہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں؟ یقینا یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔٭
٧٣۔ انہوں نے کہا:کیا تم اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہو؟ تم اہل بیت پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہیں، یقینا اللہ قابل ستائش ، بڑی شان والا ہے۔٭
٧٤۔پھرجب ابراہیم کے دل سے خوف نکل گیا اور انہیں خوشخبری بھی مل گئی تو وہ قوم لوط کے بارے میں ہم سے بحث کرنے لگے۔٭
٧٥۔ بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔٭
٧٦۔ (فرشتوں نے ان سے کہا) اے ابراہیم! اس بات کو چھوڑ دیں، بیشک آپ کے رب کا فیصلہ آچکا ہے اور ان پر ایک ایسا عذاب آنے والا ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا۔
٧٧۔ اور جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس آئے تو لوط ان سے رنجیدہ ہوئے اور ان کے باعث دل تنگ ہوئے اور کہنے لگے : یہ بڑا سنگین دن ہے۔
٧٨۔ اور لوط کی قوم بے تحاشا دوڑتی ہوئی ان کی طرف آئی اوریہ لوگ پہلے سے بدکاری کا ارتکاب کرتے تھے، لوط نے کہا: اے میری قوم!یہ میری بیٹیاں تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں پس تم اللہ کاخوف کرو اور میرے مہمانوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی ہوشمند آدمی نہیں ہے؟٭
٧٩۔ وہ بولے:تمہیں خوب علم ہے ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں ہے اور یقینا تمہیں معلوم ہے کہ ہم کیاچاہتے ہیں.٭
٨٠۔ لوط نے کہا: اے کاش! مجھ میں (تمہیں روکنے کی) طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔٭
٨١۔ فرشتوں نے کہا: اے لوط !ہم آپ کے رب کے فرستادے ہیںیہ لوگ آپ تک نہیںپہنچ سکیں گے، پس آپ رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جائیں اور آپ میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے سوائے آپ کی بیوی کے، بےشک جو عذاب دوسروں پر پڑنے والا ہے وہی اس (بیوی) پر بھی پڑے گا، یقینا ان کے وعدہ عذاب کا وقت صبح ہے، کیا صبح کا وقت قریب نہیں ؟٭
٨٢۔ پس جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اس (بستی) کو تہ و بالا کر دیا اور اس پر پختہ مٹی کے پتھروں کی لگاتار بارش برسائی۔٭
٨٣۔ جن پر آپ کے رب کے ہاں (سے) نشانی لگی ہوئی تھی اور یہ (عذاب) ظالموں سے (کوئی) دور نہیں۔٭
٨٤۔ اور مدین کی طرف ہم نے ان کی برادری کے فرد شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا : اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے اور ناپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو، میں تمہیں آسودگی میں دیکھ رہا ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ دن نہ آ جائے جس کا عذاب تمہیں گھیر لے۔
٨٥۔اوراے میری قوم! انصاف کے ساتھ پورا ناپا اور تولا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔
٨٦۔ اللہ کی طرف سے باقی ماندہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور میں تم پر نگہبان تو نہیںہوں۔٭
٨٧۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! کیا تمہاری نمازتمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم انہیں چھوڑ دیںجنہیںہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں یا ہم اپنے اموال میں اپنی مرضی سے تصرف کرنا بھی چھوڑ دیں؟ صرف تو ہی بڑا بردبار عقلمند آدمی ہے؟٭
٨٨۔ شعیب نے کہا : اے میری قوم ! تم یہ تو بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل کے ساتھ ہوںاور اس نے مجھے اپنے ہاںسے بہترین رزق (نبوت) سے نوازا ہے، میں ایسا تو نہیں چاہتا کہ جس امر سے میں تمہیں منع کروں خود اس کو کرنے لگوں میں تو حسب استطاعت فقط اصلاح کرنا چاہتا ہوں اور مجھے صرف اللہ ہی سے توفیق ملتی ہے، اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔٭
٨٩۔ اور اے میری قوم! میری مخالفت کہیں اس بات کا موجب نہ بنے کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائے جو قوم نوح یا قوم ہود یا صالح کی قوم پر آیا تھا اور لوط کی قوم (کا زمانہ) تو تم سے دور بھی نہیں ہے۔٭
٩٠۔ اور تم لوگ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے آگے توبہ کرو، میرا رب یقینابڑا رحم کرنے والا،محبت کرنے والا ہے.
٩١۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میںنہیں آتیں اور بےشک تم ہمارے درمیان بے سہارا بھی نظر آتے ہو اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تم ہم تمہیں سنگسار کر چکے ہوتے (کیونکہ) تمہیں ہم پر کوئی بالادستی حاصل نہیں ہے ۔٭
٩٢۔ شعیب نے کہا : اے میری قوم! کیا میرا قبیلہ تمہارے لیے اللہ سے زیادہ اہم ہے کہ تم نے اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے؟ میرا رب یقینا تمہارے اعمال پر احاطہ رکھتا ہے۔٭
٩٣۔ اور اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کرتے جاؤ میں بھی عمل کرتا جاؤ ں گا، عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ رسواکن عذاب کس پرآتاہے اور جھوٹا کون ہے، پس تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔٭
٩٤۔ اور جب ہمارا فیصلہ آگیا تو ہم نے شعیب اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے نجات دی اور ظالموں کو ہولناک چیخ نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
٩٥۔ گویا کہ وہاںکبھی بسے ہی نہ تھے، آگاہ رہو! قوم مدین (رحمت حق سے) اس طرح دوری ہو جس طرح قوم ثمود دور ہوئی۔
٩٦۔ اور بتحقیق موسیٰ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔
٩٧۔ فرعون اور ان کے درباریوں کی طرف، پھر بھی انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی، جب کہ فرعون کا حکم عقل کے مطابق نہ تھا۔
٩٨۔ قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے ہوگااورانہیںجہنم تک پہنچا دے گا، کتنی بری جگہ ہے جہاںیہ واردکیے جائیں گے۔ ٭
٩٩۔ اور اس دنیا میں بھی لعنت ان کے تعاقب میں ہے اور قیامت کے دن بھی، کتنا برا صلہ ہے یہ جو (کسی کے) حصے میں آئے٭
١٠٠۔ یہ ہیں ان بستیوںکے حالات جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں، ان میں سے بعض کھڑی ہیں اور بعض کی جڑیں کٹ چکی ہیں۔٭
١٠١۔ اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، پس جب آپ کے رب کا حکم آگیا تو اللہ کے سوا جن معبودوںکووہ پکارتے تھے وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہوں نے تباہی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا۔
١٠٢۔ اور آپ کے رب کی پکڑ اسی طرح ہے جب وہ کسی ظالم بستی کو اپنی گرفت میں لیتا ہے، تو اس کی گرفت یقینا دردناک اور سخت ہوا کرتی ہے۔
١٠٣۔ عذاب آخرت سے ڈرنے والے کے لیے یقینا اس میں نشانی ہے، وہ ایسا دن ہو گا جس میں سب لوگ جمع کیے جائیں گے اور وہ ایسا دن ہو گا جس میں سب حاضر کیے جائیں گے۔٭
١٠٤۔ اور ہم اس دن کے لانے میں فقط ایک مقررہ وقت کی وجہ سے تاخیر کرتے ہیں۔
١٠٥۔ جب وہ دن آئے گا تو اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہ کر سکے گا، پھر ان میں سے کچھ لوگ بدبخت اور کچھ نیک بخت ہوں گے۔٭
١٠٦۔پس جو بدبخت ہوںگے وہ جہنم میں جائیں گے جس میں انہیں چلانا اور دھاڑنا ہو گا ۔
١٠٧۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے جب تک آسمانوں اور زمین کا وجود ہے مگر یہ کہ آپ کا رب (نجات دینا) چاہے، بےشک آپ کا رب جو ارادہ کرتا ہے اسے خوب بجا لاتا ہے ۔٭
١٠٨۔ اور جو نیک بخت ہوںگے وہ جنت میں ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین کا وجود ہے مگر جو آپ کا رب چاہے، وہاں منقطع نہ ہونے والی بخشش ہو گی۔٭
١٠٩۔ (اے نبی) جس کی یہ لوگ پوجا کر رہے ہیں اس سے آپ کو شبہ نہ ہو، یہ لوگ اسی طرح پوجا کر رہے ہیں جس طرح پہلے ان کے باپ دادا پوجا کرتے تھے اور ہم انہیں ان کا حصہ (عذاب) بغیر کسی نقص و کسر کے پورا کرنے والے ہیں.٭
١١٠۔ بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی پھر اس کے بارے میں اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی طرف سے فیصلہ کن کلمہ نہ کہا گیا ہوتا توان کا بھی فیصلہ ہو چکا ہوتا اور وہ اس بارے میں تردد میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔
١١١۔ اور بے شک آپ کا رب ان سب کے اعمال کا پورا بدلہ ضرور دے گا، وہ ان کے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔
١١٢۔جیساکہ آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ اور ہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ (اللہ کی طرف) پلٹ آئے ہیں ثابت قدم رہیں اور (حد سے) تجاوز بھی نہ کریں، اللہ تمہارے اعمال کو یقینا خوب دیکھنے والا ہے۔٭
١١٣۔ اور جنہوں نے ظلم کیا ہے ان پر تکیہ نہ کرنا ورنہ تمہیں جہنم کی آگ چھو لے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی سرپرست نہ ہو گا پھر تمہاری کوئی مدد بھی نہیںکی جائے گی۔٭
١١٤۔اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں اور رات کے کچھ حصوں میں، نیکیاں بےشک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، نصیحت ماننے والوں کے لیے یہ ایک نصیحت ہے۔٭
١١٥۔ اور صبر کرو یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیںکرتا۔
١١٦۔ تم سے پہلے والی قوموں میں کچھ لوگ (خیر و صلاح والے) کیوں باقی نہیں رہے جو (لوگوں کو ) زمین میں فساد پھیلانے سے منع کرتے سوائے ان چند افراد کے جنہیں ہم نے ان میں سے بچا لیا تھا؟ اور ظالم لوگ ان چیزوں کے پیچھے لگے رہے جن میں عیش و نوش تھا اور وہ جرائم پیشہ لوگ تھے۔
١١٧۔ اور آپ کا رب ان بستیوںکو ناحق تباہ نہیں کرتا اگر ان کے رہنے والے اصلاح پسند ہوں۔٭
١١٨۔ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔٭
١١٩۔ سوائے ان کے جن پر آپ کے پروردگار نے رحم فرمایا ہے اور اسی کے لیے تو اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے اور تیرے رب کا وہ فیصلہ پورا ہو گیا (جس میں فرمایا تھا) کہ میں جہنم کو ضرور بالضرور جنات اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔٭
١٢٠۔ اور (اے رسول) ہم پیغمبروںکے وہ تمام حالات آپ کو بتاتے ہیںجن سے ہم آپ کو ثبات قلب دیتے ہیں اور ان کے ذریعے حق بات آپ تک پہنچ جاتی ہے نیز مومنین کے لیے نصیحت اور یاد دہانی ہو جاتی ہے۔٭
١٢١۔ اورجو لوگ ایمان نہیںلاتے ان سے کہدیجیے: تم اپنی جگہ عمل کرتے جاؤ ہم بھی عمل کرتے جائیںگے۔٭
١٢٢۔ اور تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کریں گے۔٭
١٢٣۔ اور آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے اور سارے امور کا رجوع اسی کی طرف ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا کرو اور تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیںہے۔٭


١٢ سورۃ یوسف ۔ مکی ۔ آیات ١١١​
بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف لام را ، یہ واضح کتاب کی آیات ہیں۔
٢۔ ہم نے اسے عربی قرآن بناکر نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو۔
٣۔ ہم اس قرآن کو آپ کی طرف وحی کر کے آپ سے بہترین قصہ بیان کرنا چاہتے ہیںاور آپ اس سے پہلے (ان واقعات سے) بے خبر تھے۔٭
٤۔ جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا : اے بابا! میں نے(خواب میں )گیارہ ستاروں کو دیکھا ہے اور سور ج اور چاند کو میں نے دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔٭
٥۔ کہا : بیٹا ! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا ورنہ وہ آپ کے خلاف کوئی چال سوچیں گے کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔
٦۔ اور آپ کا رب اسی طرح آپ کو برگزیدہ کرے گا اور آپ کو خوابوں کی تعبیر سکھائے گا اور آپ پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے آپ کے اجداد ابراہیم و اسحاق پر کر چکا ہے، بے شک آپ کا رب بڑا علم والا، حکمت والاہے۔٭
٧۔ بتحقیق یوسف اور اس کے بھائیوں (کے قصے) میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔٭
٨۔ جب بھائیوں نے ۔(آپس میں) کہا: یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم ایک جماعت ہیں، بے شک ہمارے ابا تو صریح غلطی پر ہیں۔٭
٩۔ یوسف کو مار ڈالو یا اسے کسی سر زمین میں پھینک د و تاکہ تمہارے ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائے اوراس کے بعد تم لوگ نیک بن جاؤ گے۔٭
١٠۔ ان میں سے ایک کہنے والا بولا:یوسف کو قتل نہ کرو (اور اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو) اسے کسی گہرے کنویں میں ڈال دو کوئی قافلہ اسے نکال کر لے جائے گا۔٭
١١۔ کہنے لگے: اے ہمارے ابا جان! کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں۔٭
١٢۔ کل اسے ہمارے ہمراہ بھیج دیجیے تاکہ کچھ کھا پی لے اور کھیل کود کر ے اور ہم یقینا اس کی حفاظت کریںگے۔٭
١٣۔ یعقوب نے کہا : تمہارا اسے لے جانا میرے لیے حزن کا باعث ہے اور مجھے ڈر ہے اسے بھیڑیا کھا جائے اور تم اس سے غافل ہو۔٭
١٤۔ کہنے لگے: ہم ایک جماعت ہےں اس کے باوجود اگر یوسف کو بھیڑیا کھا جائے تو ہم نقصان اٹھانے والے ٹھہریں گے.٭
١٥۔ پس جب وہ اسے لے گئے اور سب نے اتفاق کر لیا کہ اسے گہرے کنویںمیں ڈال دیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی کی (کہ ایک دن ایسا آئے گا) کہ آپ ان کے پاس ان کے اس فعل (شنیع) کے بارے میں انہیں ضرور بتائیں گے جبکہ انہیں اس بات کا شعور تک نہیں ہو گا۔٭
١٦۔ اور یہ لوگ رات کی ابتدا میں اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے ۔
١٧۔ کہنے لگے: اے اباجان!ہم دوڑ لگانے میںمصروف ہو گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا اور آپ ہماری بات نہیں مانتے گو ہم سب سچے ہوں۔
١٨۔ چنانچہ وہ یوسف کے کرتے پرجھوٹا خون لگا کر لے آئے، یعقوب نے کہا: نہیں ، تم نے اپنے تئیں ایک بات بنائی ہے، پس میں بہت صبر کا مظاہرہ کروں گا اور جو بات تم بیان کر رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے۔٭
١٩۔ پھر ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنا سقا بھیجا جس نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا (تو یوسف آویزاں نکلے) وہ بولا: کیا خوب ! یہ تو ایک لڑکا ہے اور انہوں نے اسے تجارتی سرمایہ بنا کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔
٢٠۔ اور انہوںنے یوسف کو تھوڑی سی قیمت معدودے چند درہمو ں کے عوض بیچ ڈالا اوروہ اس میں زیادہ طمع بھی نہیں رکھتے تھے۔٭
٢١۔ اور مصر کے جس آدمی نے انہیں خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا: اس کا مقام معزز رکھنا، ممکن ہے کہ وہ ہمارے لیے فائدہ مند ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لےں اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں تمکنت دی اور اس لیے بھی کہ ہم انہیں خوابوں کی تعبیر کی تعلیم دیں اور اللہ اپنے عمل میں غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٢٢۔ اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کی اور ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں۔٭
٢٣۔ اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھے اس نے انہیں اپنے ارادے سے منحرف کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور سارے دروازے بند کر کے کہنے لگی: آ جاؤ، یوسف نے کہا: پناہ بخدا! یقینا میرے رب نے مجھے اچھا مقام دیا ہے، بے شک اللہ ظالموں کو کبھی فلاح نہیں دیتا۔٭
٢٤۔ اور اس عورت نے یوسف کا ارادہ کر لیا اور یوسف بھی اس کا ارادہ کرلیتے اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھ چکے ہوتے، اس طرح ہوا تاکہ ہم ان سے بدی اور بے حیائی کو دور رکھیں، کیونکہ یوسف ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔٭
٢٥۔ دونوں دروازے کی طرف دوڑ پڑے اور اس عورت نے یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھاڑ دیا اتنے میں دونوں نے اس عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا، عورت کہنے لگی: جو شخص تیری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی سزا کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ اسے قید میں ڈالا جائے یا دردناک عذاب دیا جائے؟
٢٦۔ یوسف نے کہا:یہ عورت مجھے اپنے ارادے سے پھسلانا چاہتی تھی اور اس عورت کے خاندان کے کسی فرد نے گواہی دی کہ اگر یوسف کا کرتہ آگے سے پھٹا ہے تو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹا ہے ۔
٢٧۔ اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور یوسف سچا ہے۔
٢٨۔جب اس نے دیکھا کہ کرتہ تو پیچھے سے پھٹا ہے (تو اس کے شوہر نے) کہا: بے شک یہ (سب) تم عورتوں کی فریب کاری ہے، تم عورتوں کی فریب کاری تو بہت بھاری ہوتی ہے۔٭
٢٩۔ یوسف اس معاملے سے درگزر کرو اور (اے عورت) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، بےشک تو ہی خطاکاروں میں سے تھی۔٭
٣٠۔ اور شہر کی عورتوں نے کہنا شروع کیا: عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اس کے ارادے سے پھسلانا چاہتی ہے، اس کی محبت اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر چکی ہے، ہم توا سے یقینا صریح گمراہی میں دیکھ رہی ہیں۔٭
٣١۔ پس اس نے جب عورتوں کی مکارانہ باتیں سنیں تو انہیں بلا بھیجا اوران کے لیے مسندیں تیار کیں اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دے دی (کہ پھل کاٹیں) پھر اس نے یوسف سے کہا ان کے سامنے نکل آؤ، پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیںاور کہ اٹھیں: پاک ہے اللہ، یہ بشر نہیں، یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے۔٭
٣٢۔ اس نے کہا: یہ وہی ہے جس کے بارے میںتم مجھے طعنے دیتی تھیں اور بےشک میں نے اسے اپنے ارادے سے پھسلانے کی کو شش کی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور اگر میرا حکم نہ مانے گا توضرور قید کر دیا جائے گا اور خوار بھی ہوگا۔٭
٣٣۔ یوسف نے کہا: اے میرے رب! قید مجھے اس چیز سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو ان کی مکاریاں مجھ سے دور نہ فرمائے گا تو میں ان عورتوںکی طرف راغب ہو جاؤں گا اور نادانوں میں شامل ہو جاؤں گا۔٭
٣٤۔ پس اللہ نے یوسف کی دعا سن لی اور یوسف سے ان عورتوں کی مکاری دور کر دی، بےشک وہ خوب سننے والاجاننے والا ہے۔
٣٥۔ پھر (یوسف کی پاکدامنی کی) علامات دیکھ چکنے کے باوجود انہوں نے مناسب سمجھا کہ کچھ مدت کے لیے یوسف کو ضرور قید کر دیں ۔٭
٣٦۔اور قید خانے میں یوسف کے ساتھ دو جوان بھی داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ شراب کشید کر رہا ہوں اور دوسرے نے کہا: میں نے دیکھا کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اس میں سے کھا رہے ہیں، ہمیں اس کی تاویل بتا دیجیے، یقینا ہمیں آپ نیک انسان نظر آتے ہیں.٭
٣٧۔ یوسف نے کہا: جو کھانا تم دونوں کو دیا جاتا ہے وہ ابھی آیا بھی نہ ہو گا کہ میں اس کی تعبیر تمہیں بتا دوں گا قبل اس کے کہ وہ کھانا تمہارے پاس آئے، یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائی ہیں، میں نے اس قوم کا مذہب ترک کر دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔٭
٣٨۔او ر میں نے تو اپنے اجداد ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے مذاہب کو اپنایا ہے، ہمیںکسی چیز کو اللہ کا شریک بنانے کا حق حاصل نہیںہے، ہم پر اور دیگر لوگوں پر یہ اللہ کا فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ۔٭
٣٩۔ اے میرے زندان کے ساتھیو ! کیا متفرق ارباب بہتر ہیں یا وہ اللہ جو یکتا ہے جو سب پر غالب ہے ۔٭
٤٠۔ تم لوگ اللہ کے سوا جن چیزوں کی بندگی کرتے ہو وہ صرف تم اور تمہارے باپ دادا کے خودساختہ نام ہیں، اللہ نے توان پر کوئی دلیل نازل نہیں کی، اقتدار تو صرف اللہ ہی کا ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو، یہی مستحکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔٭
٤١۔ اے میرے زندان کے ساتھیو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے مالک کو شراب پلائے گا اور دوسرا سولی چڑھایا جائے گا پھر پرندے اس کا سر نوچ کھائیں گے، جو بات تم دونوں مجھ سے دریافت کر رہے تھے اس کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔٭
٤٢۔اور ان دونوںمیں سے جس کی رہائی کا خیال کیا تھا (یوسف نے) اس سے کہا: اپنے مالک (شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا مگر شیطان نے اسے بھلا دیا کہ وہ ا پنے مالک سے یوسف کا ذکر کرے، یوں یوسف کئی سال زندان میں پڑے رہے۔٭
٤٣۔ اور (ایک روز) بادشاہ نے کہا: میں نے خواب میں سات موٹی گائیںدیکھی ہیں جنہیںسات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات خشک (خوشے)، اے دربار والو! اگر تم خوابوں کی تعبیر کر سکتے ہوتو میرے اس خواب کی تعبیر سے مجھے سے آگاہ کرو۔٭
٤٤۔ انہوںنے کہا: یہ تو پریشان خوابوں میں سے ہے اور ہم اس قسم کے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔
٤٥۔ اور ان دو قیدیوں میںسے جس نے رہائی پائی تھی اور اسے وہ بات بڑی مدت بعدیاد آگئی ، اس نے کہا: میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتاتا ہوں مجھے (یوسف کے پاس زندان) بھیج دیجیے۔
٤٦۔ اے یوسف! اے بڑے راستگو! سات موٹی گائیںسات دبلی گایوں کو کھا رہی ہیںاور سات خوشے سبز اور سات خوشے خشک ہیں، ہمیں (اس کی تعبیر) بتائیں تاکہ میں لوگوں کے پاس واپس جاؤں (آپ کی سچی تعبیر سن کر) شاید وہ جان لیں۔
٤٧۔ یوسف نے کہا: تم سات برس تک متواتر کھیتی باڑی کرتے رہوگے ان سالوں میں جو فصل تم کاٹو ان میں سے قلیل حصہ تم کھاؤ باقی اس کے خوشوں ہی میں رہنے دو۔
٤٨۔ پھر اس کے بعد سات برس ایسے سخت آئیں گے جن میں وہ غلہ کھا لیا جائے گا جو تم نے ان سالوں کے لیے جمع کر رکھا ہو گا سوائے اس تھوڑے حصے کے جو تم بچا کر رکھو گے۔
٤٩۔ اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو خوب بارش ملے گی اور اس میں وہ رس نچوڑیں گے۔٭
٥٠۔ اور بادشاہ نے کہا : یوسف کو میرے پاس لاؤ پھر جب قاصد یوسف کے پاس آیا تو انہوںنے کہا :اپنے مالک کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں اپنے ہاتھ کاٹ دیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکاریوں سے یقینا خوب باخبر ہے۔٭
٥١۔ (بادشاہ نے عورتوں سے) پوچھا: اس وقت تمہارا کیا واقعہ تھا جب تم نے یوسف کو اس کے ارادے سے پھسلانے کی کوشش کی تھی؟ سب عورتوں نے کہا: پاکیزہ ہے اللہ، ہم نے تو یوسف میں کوئی برائی نہیں دیکھی، (اس موقع پر) عزیز کی بیوی نے کہا: اب حق کھل کر سامنے آ گیا، میںنے ہی یوسف کو اس کی مرضی کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تھی اور یوسف یقینا سچوں میں سے ہیں۔٭
٥٢۔ (یوسف نے کہا) ایسا میں نے اس لیے کیا کہ وہ جان لے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا۔٭
 
Top