موجو

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں‌یہاں‌پر ترجمان القرآن کا تانا بانا شروع کررہا ہوں اس کا ایک چھوٹا سا حصہ میں‌مکمل کرچکا ہوں!
اس ترجمے یا ترجمانی کی غرض و غایت مولانا نے اپنے پیش لفظ فرما دی ہے۔
اس میں موجود خامیاں میری کم علمی اور کمزور ریڈنگ یا ٹائپنگ کی ہیں۔ نشاندہی فرما ئیں۔

[hr:c828752760]
ترجمان القرآن
1) عرض مترجم
2) سورۃ الفاتحہ
3) سورۃ البقرہ

عرض مترجم
اردو زبان میں قرآن مجید کےجتنے ترجمے ہو چکے ہیں ان کے بعد اب کسی شخص کا محض برکت وسعادت کی خاطر ایک نیا ترجمہ شائع کرنا وقت اور محنت کا کوئی صحیح مصرف نہیں ہے۔ اس راہ میں مزید کوشش اگر معقول ہوسکتی ہے تو صرف اُس صورت میں جبکہ آدمی طالبینِ قرآن کی کسی ایسی ضرورت کو پورا کرے جو پچھلے تراجم سے پوری نہ ہوتی ہو۔
اِ ن صفحات میں ترجمانی وتفہیمِ قرآن کی جو سعی کی گئی ہے وہ دراصل اسی بنیاد پر ہے۔ میں ایک مدّت سے محسوس کررہاتھا کہ ہمارے عام تعلیم یافتہ لوگوں میں روحِ قرآن تک پہنچنے اور اِ س کتاب پاک کے حقیقی مدعا سے روشناس ہونے کی جو طلب پیدا ہوگئی ہے اور روز بروز بڑھ رہی ہے وہ پچھلے مترجمین کی نہایت قابل قدر مساعی کے باوجود ہنوز تشنہ ہے۔ اس کےساتھ میں یہ احساس بھی اپنے اندر پارہا تھا کہ اس تشنگی کو بجھانے کےلیے کچھ نہ کچھ خدمت میں بھی کرسکتاہوں۔ انہی دونوں احساسات نے مجھے اُس کوشش پر مجبور کیا جس کےثمرات ہدیۂ ناظرین کیے جارہے ہیں۔ اگر فی الواقع میری یہ حقیر پیشکش لوگوں کے لیے فہم قرآن میں کچھ بھی مدد گار ثابت ہوئی تو یہ میری بہت بڑی خوش نصیبی ہوگی۔
جو مقصد میں نے اس کام میں اپنے پیش نظر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ ایک عام ناظر ترجمے کو پڑھتے ہوئے قرآن کا مفہوم و مدعا بالکل صاف صاف سمجھتا چلا جا ئے ، اور اس سے وہی اثر قبول کرے جو قرآن اس پر ڈالنا چاہتا ہے ۔ اسی لیے میں نے لفظی ترجمے کا طریقہ چھوڑ کر آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں تک لفظی ترجمہ قرآن کا تعلق ہے ، یہ خدمت اس سے پہلے متعدد بزرگ بہترین طریقہ پر انجام دے چکے ہیں اور اس راہ میں اب کسی مزید کو شش کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے ۔ فارسی میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا ترجمہ، اور اردو میں شاہ عبد القادر صاحب، شاہ رفیع الدین صاحب ، مولانا محمود الحسن صاحب، مولانا اشرف علی صاحب اور مولوی فتح محمد صاحب جالندھری کے تراجم ان اغراض کو بخوبی پو را کردیتے ہیں جن کے لیے ایک لفظی ترجمہ درکار ہوتا ہے ۔ لیکن کچھ ضرورتیں ایسی ہیں جو لفظی ترجمہ سے پوری نہیں ہوتیں اور نہیں ہو سکتیں ۔ انہی کو میں نے ترجمانی کے ذریعے سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
لفظی ترجمے کا اصل فائدہ یہ ہےکہ آدمی کو قرآن کے ہر ہر لفظ کا مطلب معلوم ہو جاتا ہے اور وہ ہر آیت کے نیچے اس کا ترجمہ پڑھ کر جان لیتا ہے کہ اس آیت میں یہ کچھ فرمایا گیا ہے ۔ لیکن اس فائدے کے ساتھ اس طریقے میں کئی پہلو نقص کے بھی ہیں جن کی وجہ سے ایک غیر عربی داں ناظر قرآن مجید سے اچھی طرح مستفید نہیں ہو سکتا ۔
پہلی چیز جو ایک لفظی ترجمے کو پڑھتے وقت محسوس ہو تی ہے وہ روانئی عبارت ، زورِ بیان ، بلاغتِ زبان اور تاثیر کلام کا فُقدان ہے ۔ قرآن کی سطروں کے نیچے آدمی کو ایک ایسی بے جان عبارت ملتی ہے جسے پڑھ کر نہ اس کی روح وجد میں آتی ہے ، نہ اس کے رونگٹے کھڑے ہو تے ہیں ، نہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو تے ہیں ، نہ اس کے جذبات میں کوئی طوفان برپا ہو تا ہے ، نہ اسے یہ محسوس ہو تا ہےکہ کوئی چیز عقل و فکر کو تسخیر کرتی ہوئی قلب و جگر تک اترتی چلی جا رہی ہے ۔ اس طرح کا کوئی تاثر رونما ہونا تو درکنار، ترجمے کو پڑھتے وقت تو بسا اوقات آدمی یہ سو چتا رہ جاتا ہے کہ کیا واقعی یہی وہ کتاب ہے جس کی نظیر لانے کے لیے دنیا بھر کو چیلنج دیا گیا تھا؟ اس کی وجہ یہ ہے۔۔ کہ لفظی ترجمے کی چھلنی صرف دوا کے خشک اجزاء ہی کو اپنے اندر سے گزرنے دیتی ہے، رہی ادب کی وہ تیز و تند اسپرٹ جو قرآن کی اصل عبارت میں بھری ہو ئی ہے ، اس کا کوئی حصہ ترجمے میں شامل نہیں ہو نے پا تا ۔ وہ اس چھلنی کے اوپر ہی سے اڑ جاتی ہے ۔ حالانکہ قرآن کی تاثیر میں اس کی پاکیزہ تعلیم اور اس کے عالی قدر مضامین کا جتنا حصہ ہے ، اس کے ادب کا حصہ بھی اس سے کچھ کم نہیں ہے ۔ یہی تو وہ چیز ہے جو سنگ دل سے سنگ دل آدمی کا دل بھی پگھلا دیتی تھی ۔ جس نے بجلی کے کڑکے کی طرح عرب کی ساری زمین ہلا دی تھی ۔ جس کی قوت تا ثیر کا لوہا اس کے شدید ترین مخالفین تک مانتے تھے اور ڈرتے تھے کہ یہ جادو اثر کلام جو سنے گا وہ بالآخر نقد دل ہار بیٹھے گا ۔ یہ چیز اگر قرآن میں نہ ہو تی اور وہ اسی طرح کی زبان میں نا زل ہوا ہوتا جیسی اس کے ترجموں میں ہم کو ملتی ہے تو اہل عرب کے دلوں کو گرما نے اور نرمانے میں اسے ہرگز وہ کامیابی نہ حاصل ہو سکتی جو فی الواقع اسے حاصل ہو ئی ۔
لفظی ترجموں سے طبائع کے پوری طرح متأثر نہ ہو سکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ترجمے بالعموم بین السطور در ج کیے جاتے ہیں ۔ یہ طریقہ اُس غرض کے لیے تو عین مناسب ہے جس کی خاطر آدمی لفظی ترجمہ پڑھتا ہے ، کیونکہ اس طرح ہر لفظ اور ہر آیت کے مقابلے میں اس کا ترجمہ ملتا جاتا ہے ۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ ایک آدمی جس طرح دوسری کتابوں کو پڑھتا اور ان سے اثر قبول کرتا ہے، اُس طرح وہ ترجمہ قرآن کو نہ تو مسلسل پڑھ سکتا ہے اور نہ اس سے اثر قبول کرسکتا ہے ، کیونکہ بار بار ایک اجنبی زبان کی عبارت اس کے مطالعہ کی راہ میں حائل ہو تی رہتی ہے ۔ انگریزی ترجموں میں اس سے بھی زیادہ بے اثری پیدا کرنے اکا یک سبب یہ ہے کہ بائیبل کے ترجمے کی پیروی میں قرآن کی ہر آیت کا ترجمہ الگ الگ نمبروار درج کیا جاتا ہے ۔ آپ کسی بہتر سے بہتر مضمون کو لے کر ذرا اس کے فقرے فقرے کو الگ کر دیجیے اور اوپر نیچے نمبر وار لکھ کر اسے پڑھیے ۔ آپ کو خود محسوس ہو جائے گا کہ مربوط اور مسلسل عبارت سے جو اثر آپ کے ذہن پر پڑتا تھا اس سے آدھا اثر بھی ان جدا جدا فقروں کے پڑھنے سے نہیں پڑتا ۔
ایک اور وجہ اور بڑی اہم وجہ لفظی ترجمے کے غیر مؤثر ہونے کی یہ ہے کہ قرآن کا طرز بیان تحریری نہیں بلکہ تقریری ہے ۔ اگر اس کو منتقل کرتے وقت تقریر کی زبان کو تحریر کی زبان میں تبدیل نہ کیا جائے اور جوں کا توں اس کا ترجمہ کر ڈالا جائے تو ساری عبارت غیر مربوط ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ قرآن مجید ابتداءً لکھے ہو ئے رسالوں کی شکل میں شائع نہیں کیا گیا تھا ، بلکہ دعوتِ اسلامی کے سلسلے میں حسبِ موقع و ضرورت ایک تقریر نبی ؐ پر نازل کی جاتی تھی اور آپ اسے ایک خطبے کی شکل میں لوگوں کو سناتےتھے ۔ تقریر کی زبان اور تحریر کی زبان میں فطرۃً بہت بڑا فرق ہوتا ہے ۔ مثلاً تحریر میں ایک شبہ کو بیان کرکے اسے رفع کیا جاتا ہے ۔ مگر تقریر میں شبہ کرنے والے خود سامنے موجود ہو تے ہیں ، اس لئے بسا اوقات یہ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کہ " لو گ ایسا کہتے ہیں " ، بلکہ مقرّر آمد سخن ہی میں ایک فقرہ ایسا کہہ جاتا ہے جو ان کے شبہ کا جواب ہوتا ہے۔ تحریر میں سلسلۂ کلام سے الگ مگر اس سے قریبی تعلق رکھنے والی کوئی بات کہنی ہو تو اس کو جملۂ معترضہ کے طورپر کسی نہ کسی طرح عبارت سے جدا کرکے لکھا جاتا ہے تاکہ ربطِ کلام ٹوٹنے نہ پائے ۔ لیکن تقریر میں صرف لہجہ اور طرز خطاب بدل کر ایک مقرر بڑے بڑے جملہائے معترضہ بولتا چلا جاتا ہے اور کو ئی بے ربطی محسوس نہیں ہوتی ۔ تحریر میں بیان کا تعلق ماحول سے جوڑنے کے لیے الفاظ سے کام لینا پڑتا ہے ۔ لیکن تقریر میں ماحول خود ہی بیان سے اپنا تعلق جوڑ لیتا ہے اور ماحول کی طرف اشارہ کیے بغیر جو باتیں کہی جاتی ہیں ، ان کے درمیان کوئی خلا محسوس نہیں ہوتا ۔ تقریر میں متکلم اور مخاطب بار بار بدلتے ہیں ۔ مقرر اپنے زور کلام میں موقع و محل کے لحاظ سے کبھی ایک ہی گروہ کا ذکر بصیغۂ غائب کرتا اور کبھی اسے حاضر سمجھ کر براہِ راست خطاب کرتا ہے ۔ کبھی واحد کا صیغہ بولتا ہے اور کبھی جمع کے صیغے استعمال کرنے لگتا ہے۔ کبھی متکلم وہ خود ہو تا ہے، کبھی کسی گروہ کی طرف سے بولتا ہے، کبھی کسی بالا ئی طاقت کی نمائندگی کرنے لگتا ہے ، اور کبھی وہ بالائی طاقت خود اس کی زبان بولنے لگتی ہے تقریر میں یہ چیز ایک حسن پیدا کرتی ہے، مگر تحریر میں آکر یہی چیز بے جوڑ ہو جاتی ہے ۔ یہی وجوہ ہیں کہ جب کسی تقریر کو تحریر کی شکل میں لا یا جاتا ہے تو اس کو پڑھتے وقت آدمی لازماً ایک طرح کی بے ربطی محسوس کرتا ہے اور یہ احساس اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے جتنا اصل تقریر کے حالا ت اور ماحول سے آدمی دور ہو تا جاتا ہے ۔ خود قرآن عربی مں بھی ناواقف لوگ جس بے ربطی کی شکایت کرتے ہیں ، اس کی اصلیت یہی ہے ۔ وہاں تو اس کو دور کرنے کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ تفسیری حواشی کے ذریعہ سے ربطِ کلام کو واضح کیا جائے ، کیونکہ قرآن کی اصل عبارت میں کوئی کمی بیشی کرنا حرام ہے لیکن کسی دوسری زبان میں قرآن کی ترجمانی کرتے ہوئے اگر تقریر کی زبان کو احتیاط کے ساتھ تحریر کی زبان میں تبدیل کرلیا جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ یہ بے ربطی دور ہو سکتی ہے ۔
علاوہ بریں ، جیسا کہ ابھی میں اشارۃً عرض کرچکا ہوں ، قرآن مجید کی ہر سورت دراصل ایک تقریر تھی جو دعوتِ اسلامی کے کسی مرحلے میں ایک خاص موقع پر نازل ہو تی تھی۔ اس کا ایک خاص پس منظر ہو تا تھا ۔ کچھ مخصو ص حالات اس کا تقاضا کرتے تھے۔ اور کچھ ضرورتیں ہو تی تھیں جنہیں پو را کرنے کے لیے وہ اترتی تھی۔ اپنے اُس پس منظر اور اپنی اس شانِ نزول کے ساتھ قرآن کی ان سورتوں کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ اگر اس سے الگ کر کے مجرد الفاظ کا ترجمہ آدمی کے سامنے رکھ دیا جائے تو بہت سی باتوں کو وہ قطعاً نہیں سمجھے گا ، اور بعض باتوں کو اُلٹا سمجھ جائے گا ، اور قرآن کا پورا مدّعا تو شاید کہیں اس کی گرفت میں آئے گا ہی نہیں ۔ قرآنِ عربی میں س مشکل کو دور کرنے کے لیے تفسیر سے مدد لینی پڑتی ہے ، کیونکہ اصل قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن دوسری زبان میں ہم اتنی آزادی برت سکتے ہیں کہ قرآن کی ترجمانی کرتے وقت کلام کو کسی نہ کسی حد تک اس پس منظر اور اس کے حالات نزول کے ساتھ جوڑتے چلے جائیں ، تاکہ ناظر کے لیے وہ پوری طرح بامعنی ہو سکے۔
پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ قرآن ا گر چہ عربیِ مبین میں نازل ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ اپنی ایک مخصوص اصطلاحی زبان بھی رکھتا ہے۔ اس نے بکثرت الفاظ کو ان اصل لغویِ معنی سے ہٹا کر ایک خاص معنی میں استعمال کیا ہے، اور بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کو وہ مختلف مواقع پر مختلف مفہُومات میں استعما ل کرتا ہے۔پابندئی لفظ کے ساتھ جو ترجمے کیے جاتے ہیں ان میں اس اصطلاحی زبان کی رعایت ملحوظ رکھنا بہت مشکل ہے، اور اس کے ملحوظ نہ رہنے سے بسا اوقات ناظرین طرح طرح کی الجھنوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ مثلاً ، ایک لفظ کفر کو لیجییے جو قرآن کی اصطلاح میں اصل عربی لغت اور ہمارے فقہا و متکلمین کی اصطلاح، دونوں سے مختلف معنی رکھتا ہے، اور پھر خود قرآن میں بھی ہر جگہ ایک ہی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ کہیں اس سے مراد مکمل غیر ایمانی حالت ہے۔ کہیں یہ مجرد انکار کے معنی میں آیا ہے ۔ کہیں اس سے محض ناشکری اور احسان فراموشی مراد لی گئی ہے ۔ کہیں مقتضیاتِ ایمان میں سے کسی کو پورا نہ کرنے پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ کہیں اعتقادی اقرار مگر عملی انکار یا نافرمانی کے لیے یہ لفظ بولا گیا ہے۔ کہیں ظاہری اطاعت مگر باطنی بے اعتقادی کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان مختلف مواقع پر اگر ہم ہر جگہ کفر کا ترجمہ کفر ہی کرتے چلے جائیں ، یا اور کسی لفظ کا التزام کرلیں ، تو بلا شبہ ترجمہ اپنی جگہ صحیح ہو گا لیکن ناظرین کہیں مطلب سے محروم رہ جائیں گے ، کہیں کسی غلط فہمی کے شکار ہوں گے، اور کہیں خلجان میں پڑ جائیں گے ۔
لفظی ترجمے کے طریقے میں کسر اور خامی کے یہی وہ پہلو ہیں جن کی تلافی کر نے کے لیے میں نے ''ترجمانی'' کا ڈھنگ اختیار کیا ہے۔ میں نے اس میں قرآن کے الفاظ کو اردو کا جامہ پہنانے کی بجائے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کی ایک عبارت کو پڑھ کر جو مفہوم میری سمجھ آتا ہے اور جو اثر میرے دل پر پڑتا ہے اسے حتی الامکان صحت کے ساتھ اپنی زبان میں منتقل کردوں ۔ اسلوبِ بیان میں ترجمہ پن نہ ہو، عربیِ مُبین کی ترجمانی اُردوئے مبین میں ہو، تقریر کا ربط فطری طریقے سے تحریر کی زبان میں ظاہر ہو، اور کلامِ الٰہی کا مطلب و مدّعا صاف صاف واضح ہو نے کے ساتھ اس کا شاہانہ وقار اور زورِ بیان بھی جہاں تک بس چلے ترجمانی میں منعکس ہو جائے ۔ اس طرح کے آزاد ترجمے کے لیے یہ تو بہر حال نا گزیر تھا کہ لفظی پابندیوں سے نکل کر ادائے مطالب کی جسارت کی جائے، لیکن معاملہ کلامِ الٰہی کا تھا ، اس لیے میں نے بہت ڈرتے ڈرتے ہی یہ آزادی برتی ہے۔ جس حد تک احتیاط میرے امکان میں تھی، اس کو ملحوظ رکھتے ہو ئے میں نے اس امر کا پورا اہتمام کیا ہے کہ قرآن کی اپنی عبارت جتنی آزادی بیان کی گنجائش دیتی ہے اس سے تجاوز نہ ہو نے پائے۔
اس ترجمے کے ساتھ میں نے بہت مختصر حواشی صرف اُن مقامات پر دیے ہیں جہاں یہ محسوس ہوا ہے کہ حاشیے کے بغیر بات پو ری طرح سمجھ میں نہ آسکے گی ، کیونکہ یہ ترجمہ دراصل ان لو گوں کے لیے شائع کیا جارہا ہے جو محض ترجمہ پڑھنا چاہتے ہیں ۔باقی رہے وہ حضرات جو تفصیل کے ساتھ قرآن مجید کو سمجھنے کے خواہشمند ہوں، ان کے لیے میری تفسیر ''تفہیم القرآن " کا مطا لعہ مفید ہو گا۔
ترجمے سے فائدہ اٹھانے کے لیے میرے نزدیک مناسب ترین طریقہ یہ ہوگا کہ آپ روزانہ جتنی تلاوت کرنا چاہیں پہلے متنِ قرآن کی اتنی تلاوت کرلیں ۔ پھر ایک ایک آیت کے بالمقابل اس کا ترجمہ پڑھیں ، اور آخر میں قرآن کے اس پورے حصے کا ترجمہ مسلسل ایک عبارت کے طور پر پڑھ ڈالیں ، تاکہ اچھی طرح یہ بات ذہن نشین ہو جائے کہ آج آپ نے جتنا قرآن پڑھا ہے اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کے ساتھ اگر کوئی لفظی ترجمہ بھی پیش نظر رکھا جائے تو اچھا ہے تاکہ ہر لفظ کا مفہوم بھی معلوم ہو جائے۔
ابو الاعلیٰ
لاھور
۷صفر ۱۳۹۱ھ
4اپریل 1971ع



سورۃ الفاتحہ مکّیَّہ 5 رکوعہا 1اٰ یٰت 7
اللّہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے
تعریف اللّٰہ ہی کے لیے ہے [[یہ سورہ فاتحہ اللّٰہ تعالیٰ نے بندوں کو سکھائی ہے تاکہ وہ اپنی طرف سے اس کو ایک عرضداشت کی صورت میں اپنے رب کے حضور پیش کریں۔]] جو تمام کائنات کا رب ہے ، [[ربّ کا لفظ عربی زبان میں تین معنوں میں بولا جاتا ہے : (۱) مالک اور آقا۔ (۲) پالنے والا اور پرورش کرنے والا، خبر گیری اور نگہبانی کرنے والا۔ (۳) فرمانروا، حاکم، مدبّر اور منتظم۔ اللّٰہ تعالیٰ ان سب معنوں میں کائنا ت کا رب ہے ۔]]
نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے، روز جزا کا مالک ہے۔
ہم تیر ی ہی عبادت [[عبادت کا لفظ بھی عربی زبان میں تین معنوں میں استعمال ہو تا ہے ،(۱) پوجا اور پرستش (۲) اطاعت اور فرمانبرداری۔ (۳) بندگی اور غلامی ۔]]کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔
ہمیں سیدھا راستہ دکھا ، ان لو گوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرما یا ، جو معتوب نہیں ہو ئے ، جو بھٹکے ہو ئے نہیں ہیں۔ [[بندے کی اِسی دُعا کا جواب یہ پورا قرآن ہے۔ بندہ اپنے رب سے راہنمائی کی دُعا کرتا ہے اور رب اس کے جواب میں یہ قرآن اسے عطا فرما تا ہے۔]]

سورۃ البقرہ مدنیّۃ اٰ یٰت 286 رکوع 40
اللّہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے
الف، لام، میم [[یہ حُرُوف مُقَطِّعات قرآن مجید کی بعض سورتوں کے آغاز میں پا ئے جاتے ہیں ۔ مفسرین نے ان کے مختلف معنی بیان کیے ہیں ، مگر ان کے سکی معنی پر اتفاق نہیں ہے ۔ اور ان کے معنی کا جاننا اس لیے غیر ضروری ہے کہ انہیں اگر آدمنی نہ جانے تو قرآن سے ہدایت حاصل کر نے میں کو ئی کسر نہیں رہ جاتی ۔]]
یہ اللہ کی کتا ب ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ۔ہدایت ہے ان پرہیز گار لو گوں کے لیے
جو غیب پر ایمان لا تے ہیں، [["غیب" سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پو شیدہ ہیں اور کبھی براہِ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں ۔ مثلاً خدا کی ذات و صفات ، ملائکہ ، وحی، جنّت، دوزخ وغیرہ ]] نماز قائم کرتے ہیں [[اقامتِ صلوٰ ۃ کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی طور پر نماز کا نظام با قاعدہ قائم کیا جائے ۔ اگر کسی بستی میں ایک ایک شخص انفرادی طور پر نماز کا پابند ہو، لیکن جماعت کے ساتھ اس فرض کے ادا کرنے کا نظم نہ ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں نماز قائم کی جارہی ہے ]] جو رزق ہم ان کو دیا ہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں اُن سب پر ایمان لاتے ہیں ، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔
ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔
جن لوگوں نے (اِن باتوں کو تسلیم کرنے سے) انکار کردیا ، ان کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں ۔
اللّٰہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے [[اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللّٰہ نے مہر لگا دی تھی اِ س لیے انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے ان بنیادی امو ر کو رد کردیا جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، اور اپنے لیے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دوسرا راستہ پسند کرلیا ، تو اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی۔ ]] اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے ۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ ع
بعض لو گ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللّٰہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لا ئے ہیں، حالانکہ در حقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔
وہ اللّٰہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں ، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔
ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللّٰہ نے اور زیادہ بڑھا دیا، [[ بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے ۔ اور اللّٰہ کے اس بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ منافق کو اللہ فورً سزا نہیں دے دیتا بلکہ اسے ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے اور منافق اور زیادہ منافق بنیا چلا جاتا ہے ۔]] اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں ، اس کی پاداش میں ان کے لیے دردناک سزا ہے ۔
جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو، تو انہوں نے یہی کہا کہ '' ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں'' ۔۔۔۔
خبردار ! حقیقت میں تو یہی لوگ مفسد ہیں مگر اِنہیں شعُور نہیں ہے۔
اور جب اُن سے کہا گیا کہ جس طرح دُوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اُسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ '' کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟" خبردار ! حقیقت میں تویہ خود بیوقوف ہیں ، مگر یہ جانتے نہیں ہیں۔
جب اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا ئے ہیں ، اور جب علیٰحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اِن لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں ۔
اللّٰہ ان سے مذاق کررہا ہے ، وہ اِن کی رسّی دراز کیے جا تا ہے، اور یہ اپنی سر کشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، مگر یہ سودا اِن کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہر گز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔
اِن کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اس نے سارے ماحول کو روشن کردیا تو اللّٰہ نے ان کا نوُرِ بصارت سَلب کرلیا اور انہیں اِس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں اِنہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ [[ مطلب یہ ہے کہ جب ایک اللّٰہ کے بندے نے روشنی پھیلائی اور حق کو باطل سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کردیا ، تو جو لوگ دیدہ بینا رکھتے تھے ، ان پر تو ساری حقیقتیں روشن ہو گئیں ، مگر یہ منافق ، جو نفس پرستی میں اندھے ہو رہے تھے ، ان کو اس روشنی میں کچھ نظر نہ آیا۔]]
یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے۔
یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللّٰہ اِن منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔
چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اُچک لے جائے گی۔جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہو تی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیر ا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔ [[پہلی مثال ان منافقین کی تھی جو دل میں قطعی منکر تھے اور کسی غرض و مصلحت سے مسلمان بن گئے تھے۔ اور یہ دوسری مثال اُن کی ہے جو شک اور تذبذب اور ضعف ایمان میں مبتلا تھے ، کچھ حق کے قائل بھی تھے، مگر ایسی حق پرستی کے قائل نہ تھے کہ اس کی خاطر تکلیفوں اور مصیبتوں کو بھی برداشت کر جائیں ]] اللّٰہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کر لیتا، یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ع
لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اُس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لو گ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع [[یعنی دنیا میں غلط بینی و غلط کاری سے اور آخرت میں خدا کے عذاب سے بچنے کی توقع۔]] اسی صورت سے ہو سکتی ہے۔
وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھا یا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچا یا ۔پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللّٰہ کا مدّ مقابل نہ ٹھیراؤ۔[[دوسروں کو اللّہ کا مدّمقابل ٹھیرانے سے مراد یہ ہے کہ بندگی و عبادت کی مختلف اقسام میں سے کسی کا قسم کا رویّہ خدا کے سوا دوسروں کے ساتھ برتا جائے۔]]
اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہمنواؤں کو بلا لو، ایک اللّٰہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھا ؤ۔
لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، اور یقیناً کبھی نہیں کرسکتے ، تو ڈرو اُس آگ سے ، جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر،[[یعنی وہاں صرف تم ہی دوزخ کا ایندھن نہ بنو گے ، بلکہ تمہارے وہ بت بھی وہاں تمہارے ساتھ ہی مو جود ہوں گے جنہیں تم نے اپنا معبود و مسجود بنا رکھا ہے۔]] جو مہیا کی گئی ہے منکرینِ حق کے لیے۔
اور ائے پیغمبر، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کر لیں، انہیں خو شخبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے ۔ جب کوئی پھل انہیں کھا نے کو دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ ان کے لیے وہاں پاکیز ہ بیویاں ہونگی اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔
ہاں، اللّٰہ اس سے ہر گز نہیں شرماتا کہ مچّھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے۔[[یہاں ایک اعتراض کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر تو ضیح مدّعا کے لیے مکڑی، مکھی، مچھر اغیرہ کی جو تمثیلیں دی گئی ہیں، ان پر مخالفین کو اعتراض تھا کہ یہ کیسا کلام الٰہی ہے جس میں ایسی حقیر چیزوں کی تمثیلیں دی گئی ہیں۔]]جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں ، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے ، اور جو ماننے والے نہیں ہیں ، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ، ایسی تمثیلوں سے اللّٰہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللّٰہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔اور اس سے گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔[[فاسق کے معنی ہیں نافرمان، اطاعت کی حد سے نکل جانے والا ]]
اللّٰہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں[[بادشاہ اپنے ملازموں اور رعایا کے نام جو فرمان یا ہدایات جاری کرتا ہے، ان کو عربی زبان میں عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللّٰہ کے عہد سے مراد اس کا وہ مستقل فرمان ہے جس کی رو سے تمام نوعِ انسانی صرف اسی کی بندگی، اطاعت اور پرستش کرنے پر مامور ہے '' مضبوط باندھ لینے کے بعد'' سے اشارہ اس طرف ہے کہ آدم کی تخلیق کے وقت تمام نوعِ انسانی سے اس فرمان کی پابندی کا اقرار لے لیا گیا تھا جیسا کہ سورہ اعراف آیت ۷۲ میں بیان ہوا ہے۔]] اللّٰہ نے جس جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں[[یعنی جن روابط کے قیام اور استحکام پر انسان کی اجتماعی و انفرادی فلاح کا انحصار ہے، اور جنہیں درست رکھنے کا اللّٰہ نے حکم دیا ہے، ان پر یہ لوگ تیشہ چلا تے ہیں]] اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ۔ حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
تم اللّٰہ کے ساتھ کفر کا رویّہ کیسے اختیار کرتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی ، پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔ وہی تو ہے ۔ جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان [[ سات آسمانوں کی حقیقت کیا ہے، اس کا تعیُّن مشکل ہے۔ انسان ہر زمانے میں آسمانیا باالفاظ دیگر عالمِ بالا کے متعلق اپنے مشاہدات یا قیاسات کے مطابق مختلف تصورات قائم کرتا رہا ہے، جو برابر بدلتے رہے ہیں۔ بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چا ہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ما وراء جس قدر کائنات ہے اسے اللّہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کررکھا ہے، یا یہ کہ زمین اس کائناتکے جس حصّے میں واقع ہے ، وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے۔]] استوار کیے۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ع
پھر ذرا اُس وقت کا تصوّر کروجب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ''میں زمین میں ایک خلیفہ [[خلیفہ: وہ جو کسی کی مِلک میں اس کے عطا کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے]] بنا نے والا ہوں" انہوں نے عرض کیا: " کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا ؟ آپ کی حمد وثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیش تو ہم کرہی رہے ہیں"۔ فرمایا : " میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے"۔
اس کے بعد اللّٰہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا" اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا اِن چیزوں کے نام بتاؤ۔
" انہوں نے عرض کیا " نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اُتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں"۔
پھر اللّٰہ نے آدم سے کہا :" تم اِنہیں اِن چیزوں کے نام بتاؤ"۔ جب اس نے ان کو ان سب کے نام بتا دیے، تو اللّٰہ نے فرمایا :" میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپا تے ہو ، اسے بھی میں جانتا ہوں"۔
پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔
پھر ہم نے آدم سے کہا کہ" تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے۔
آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ " اب تم سب یہاں سے اتر جا ؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے"۔
اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرما نے والا ہے۔
ہم نے کہا کہ "اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی کسی خو اور رنج کا موقع نہ ہو گا، اور جو اس کو قبول کرنے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلا ئیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے"۔ع
ائے بنی اسرائیل،[[مدینہ طیبہ اور اس کے قریب کے علاقے میں چونکہ یہودیوں کی بڑی تعداد آباد تھی اس لیے یہاں سے آگے کئی رکوعوں تک ان کو مخاطب کر کے تبلیغ کی گئی ہے۔]]ذارا خیال کرو میری اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی۔ میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرو تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اسے میں پورا کروں، اور مجھ ہی سے تم ڈرو۔
اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ۔یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے مو جود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو[[تھوڑی قیمت سے مراد وہ دنیوی فائدے ہیں جن کی خاطر یہ لوگ اللّٰہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو رد کررہے تھے۔ حق فروشی کے معاوضے میں خواہ انسان دنیا بھر کی دولت لے لے، بہرحال وہ تھوڑی قیمت ہی ہے، کیونکہ حق یقیناً اس سے گراں تر چیز ہے۔]] اور میرے غضب سے بچو۔
باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔
نماز قائم کرو، زکٰوۃ دو، اور جو لوگ میرے آگے جھک رہے ہیں ان کے ساتھ تم بھی جھک جاؤ۔
تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟
صبر اور نماز سے مدد لو، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے،
مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ع
ائے بنی اسرائیل ، یاد کرو میری اس نعمت کو ، جس سے میں ، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی۔ [[اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لیے تمہیں تمام دنیا کی قوموں سے افضل قرار دیا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک وقت تھا جب دنیا کی قوموں میں تم ہی وہ ایک قوم تھے جس کے پاس اللّٰہ کا دیا ہوا علم حق تھا اور جسے اقوامِ عالم کا امام اور راہنما بنا دیا گیا تھا، تاکہ وہ بندگیِ رب کے راستے پر سب قوموں کو بلائے اور چلائے]]
اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہو گی ، نہ کسی کو فدیہ لے چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی۔
یاد کرو وہ وقت ، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی[["اٰلِ فِرۡعَون" کا ترجمہ ہن اس لفظ سے کیا ہے۔ اس میں خاندان فراعنہ اور مصر کا حکمارں طبقہ دونوں شامل ہیں]]۔۔انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنا یا، پھر اس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا۔
یاد کر، جب موسٰی کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بلایا،[[یعنی مصر سے نجات پانے کے بعد جب بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا میں پہنچ گئے تو حضرت موسٰیؑ کو اللّٰہ تعالٰی نے چالیس شب وروز کے لیے کو ہ طور پر طلب فرمایا تاکہ وہاں اس قوم کے لیے جو اب آزاد ہو چکی تھی، قوانین شریعت اور عملی زندگی کی ہدایات عطا کی جائیں۔]] تو اس کے کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھے۔ اس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی، مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کردیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو۔
یاد کرو کہ (ٹھیک اس وقت جب تم یہ ظلم کررہے تھے) ہم نے موسٰی کو کتاب اور فرقان [[فرقان سے مراد ہے وہ چیز جس کے ذریعہ سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہو یعنی دین کا وہ علم اور فہم جس سے آدمی حق اور باطل میں تمیز کرتا ہے۔]] عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پاسکو۔
یاد کرو جب موسٰی (یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا ، تو اس) نے اپنی قوم سے کہا کہ"لوگو، تم نے بچھڑےکو معبود بنا کر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے ، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو،[[یعنی اپنے ان آدمیوں کو قتل کرو جنہوں نے گو سالے کو معبود بنا یا اور اس کی پرستش کی۔]]اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے اس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کرلی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
یاد کرو جب تم نے موسٰی سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے ، جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو(تم سے کلام کرتے) نہ دیکہ لیں۔ اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست کڑکے نے تم کو آلیا۔
تم بے جان ہو کر گر چکے تھے ، مگر پھر ہم نے تم کو جلا اٹھا یا، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاؤ۔
ہم نے تم پر ابر کا کا سایہ کیا، من وسلوٰی کی غذا تمہارے لیے فراہم کی اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں ، انہیں کھاؤ(مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا)وہ ہم پر ان کا ظلم نہ تھا ، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اوپر ظلم کیا۔
پھر یاد کر جب ہم نے کہا تھا کہ "یہ بستی(جو تمہارے سامنے ہے) اس میں داخل ہو جاؤ،اس کی پیداوار، جس طرح چاہو، مزے سے کھاؤ، مگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہو تے ہوئے داخل ہونا اور کہتے جانا حِطَّۃٌ حِطَّۃٌ،[[ حِطَّۃٌ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ خدا سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگتے ہوئے جانا، دوسرے یہ کہ لوٹ مار اور قتلِ عام کے بجائے بستی کے باشندوں میں درگزر اور عام معافی کا اعلان کرتے جانا۔]] ہم تمہاری خطاؤں سے درگزر کریں گےاور نیکوکاروں کو مزید فضل وکرم سے نوازیں گے"۔
مگر جو بات ان سے کہی گئی تھی ،ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا ۔ آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا ۔یہ سزاتھی اُن نافرمانیوں کی، جو وہ کررہے تھے۔ع
یاد کرو، جب موسٰی نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دُعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو۔ چنا نچہ اس سے بارہ چشمے پُھوٹ نکلے اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کونسی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے۔ [[بنی اسرائیل کے قبیلے ۱۲تھے ۔خدا نے ہر ایک قبیلے کے لیے الگ چشمہ نکال دیا تاکہ ان کے درمیان پانی پر جھگڑا نہ ہو۔]] ۰اُس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ) اللّٰہ کا دیا ہوا رزق کھا ؤ پیو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔
یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ " ائے موسٰی ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے۔ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ، ساگ، ترکار، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے " تو موسٰی نے کہا : " کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنٰی درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟ اچھا، کشی شہری آبادی میں جارہو۔ جو کچھ تم مانگتے ہو، وہاں مل جائے گا "۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللّٰہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھااس کا کہ وہ اللّٰہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے ۔ یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اِس بات کا کہ وہ حُدود شرع سے نِکل نِکل جاتے تھے۔ع
یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی ، عیسائی ہوں یا صابی، جو بھی اللّٰہ اور روز آخر پر ایمان لا ئے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔[[سلسلئہ عبارت کو پیش نظر رکھنے سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی تفصیلات بیان کرنا مقصود نہیں ہے کہ کن کن باتوں کو آدمی مانے اور کیا اعمال کرے تو خدا کے ہاں اجر کا مستحق ہو گا۔ یہاں تو یہودیوں کے اِ س زعمِ باطل کی تردید مقصود ہے کہ وہ صرف یہودی گروہ کو نجات کا اجارہ دار سمجھتے تھے اور اس خیالِ خام میں مبتلا تھے کہ جو اُن کے گروہ سے تعلق رکھتا ہو وہ خواہ اعمال اور عقائد کے لحاظ سے کیسا ہی ہو، بہرا حال نجات اُس کے لیے مقدر ہے، اور باقی تمام انسان جو ان کے گروہ سے باہر ہیں وہ صرف جہنم کا ایندھن بننے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے فرمایا جارہا ہے کہ اللّٰہ کے ہاں اصل چیز تمہاری یہ گروہ بندیاں نہیں ہیں بلکہ وہاں جو کچھ اعتبار ہے ، وہ ایمان اور عمل صالح کا ہے۔ جو انسان بھی یہ چیز لے کر حاضر ہوگا وہ اپنے رب سے اپنا اجر پائے گا ۔ خد اکے ہاں فیصلہ آدمی کی صفات پر ہوگا نہ کہ تمہاری مردم شماری کے رجسٹروں پر۔]]
یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طور کو تم پر اُٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھا منا اور جو احکام و ہدایا ت اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا ۔ اسی ذریعے سے تو قع کی جاسکتی ہے کہ تم تقوٰی کی روش پر چل سکو گے"۔
مگر اس کے بعد تم اپنے عہد سے پھر گئے ۔ اس پر بھی اللّٰہ کے فضل اور اس کی رحمت نے تمہارا ساتھ نہ چھوڑا، ورنہ تم کبھی کے تباہ ہو چکے ہو تے۔
پھر تمہیں اپنی قوم کے ُن لوگوں کا قصّہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سَبَت [[سَبت: یعنی ہفتے کادن۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ قانون مقرر کیا گیا تھا کہ وہ ہفتے کو آرام اور عبادت کے لیے مخصوص رکھیں ۔ اس روز کسی قسم کا دنیوی کام، حتّٰی کہ کھا نا پکانے کا کام بھی خود کریں، نہ اپنے خادموں سے لیں۔]] کا قانون توڑا تھا۔ ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ۔ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دُھتکار پھٹکار پڑے ۔
اس طرح ہم نے ان کے انجام کو اس زمانے کے لوگوں اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے عبرت اور ڈرنے والوں کے لیے نصیحت بنا کر چھوڑا۔
پھر وہ واقعہ یاد کرو، جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ اللّٰہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسٰی نے کہا میں اِ س سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں۔
بولے اچھا اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں اس گائے کی کچھ تفصیل بتائے ۔موسٰی نے کہا اللّٰہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہو نی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا، بلکہ اَوسط عمر کی ہو۔ لہٰذا جو حکم دیا جا تا ہے اس کی تعمیل کرو۔
پھر کہنے لگے اپنے رب سے یہ اَور پو چھ دو کہ اس کا رنگ کیسا ہو۔ موسٰی نے کہا وہ فرماتا ہے زرد رنگ کی گائے ہو نی چاہئیے جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہو جائے ۔
پھر بولے اپنے رب سے صاف صاف پوچھ کر بتا ؤ کیسی گائے مطلوب ہے، ہمیں اس کی تعبین میں اشتباہ ہو گیا ہے۔ اللّٰہ نے چاہا تو ہم اس پتہ پالیں گے۔
موسٰی نے جواب دیا: اللّٰہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی، نہ زمین جو تتی ہے نہ پانی کھینچتی ہے، صحیح سالم اور بے داغ ہے۔ اِ س پر وہ پکار اُٹھے کہ ہاں، اب تم نے ٹھیک پتہ بتا یا ہے۔ پھر انہوں نے اسے ذبح کیا، ورنہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہو تے تھے۔ع[[چونکہ بنی اسرائیل کو اہل مصر اور اپنی ہمسایہ قوموں سے گائے کی عظمت و تقدیس اور گاؤ پرستی کے مرض کی چھوت لگ گئی تھی اور اسی بتا پر انہوں نے مصر سے نکلتے ہی بچھڑے کو معبود بنا لیا تھا، اس لیے ان کو حکم دیا گیا کہ گائے ذبح کریں ۔ انہوں نے ٹالتے کی کوشش کی اور تفصیلات پو چھنے لگے۔ مگر جتنی جتنی تفصیلات وہ پو چھتے گئے اُتنے ہی گِھرتے چلے گئے یہاں تک کہ آخر کار اُسی خاص قسم کی سنہری گائے ر، جسے اُس زمانے میں پر ستش کے لیے مختص کیا جاتا تھا، گویا انگلی رکھ کر بتا دیا گیا کہ اِ سے ذبح کرو۔]]
اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھو پنے لگے تھےاور اللّٰہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے کھول کر رکھ دے گا۔
اُس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اُس کے ایک حصّے سے ضرب لگاؤ۔ دیکھو، اِس طرح اللّٰہ مردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھا تا ہے تاکہ تم سمجھو۔۔۔
مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہو گئے، پتھروں کی طرح سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہو ئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہو تا ہے جس میں سے چشمے پُھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نِکل آتا ہے، اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گِر بھی پڑتا ہے۔ اللّٰہ تمہارے کر توتوں سے بے خبر نہیں ہے۔
ائے مسلمانو، اب کیا اِن لو گوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ [[ یہ خطاب مدینے کے اُن نو مسلموں سے ہے جو قریب کے زمانے ہی میں نبی عربی ﷺ پر ایمان لائے تھے ۔ ان لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوت، کتاب، ملائکہ، آخرت، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں، وہ سب انہوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سنی تھیں۔ اس بنا پر اب وہ متوقع تھے کہ جولو گ پہلے ہی سے انبیا اور کتب آسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہو ئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمتِ ایمان میسّر ہو ئی ہے، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہو ں گے۔]] حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللّٰہ کا کلام سُنا اور پھر خوب سمجھ بُوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔
(محمد رسول اللّٰہ پر ) ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی اُںہیں مانتے ہیں، اور جب آپس میں ایک دُوسرے سے تخلیے کی بات چیت ہو تی ہے تو کہتے ہیں کہ بیوقوف ہو گئے ہو ؟ اِن لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللّٰہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں اُنہیں حُجّت میں پیش کریں؟
اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چُھپاتے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں، اللّٰہ کو سب باتوں کی خبر ہے؟
اِن میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔
پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللّٰہ کے سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں۔ اُن کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے مو جبِ ہلاکت۔
وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہر گز چھونے والی نہیں اِلّا یہ کہ چند روز کی سزا مِل جائے تو مِل جائے ۔ ان سے پوچھو، کیا تم نے اللّٰہ سے کو ئی عہد لے لیا ہے جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللّٰہ کے ذمّے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمّہ لیا ہے ؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چُھوئے گی؟
جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکّر میں پڑا رہے گا ، وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے اہی جنتی ہیں ار جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ع
یاد کرو، اسرائیل کی اولاد ہم نے پختہ عہد لیاتھا کہ اللّٰہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکٰوۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے اور اب تک پھر ے ہوئے ہو۔
پھر ذرا یاد کر، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا ۔
تم نے اس کا اقرار کیا تھا ، تم خود اس پر گواہ ہو۔ مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھا ئی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لو گوں کو بے خانماں کر دیتے ہو، ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیا ں کرتے ہو، اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں، تو ان کی رہائی کے لیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سِرے سے تم پر حرام تھا۔ تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لا تے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اِس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں ؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خریف لی ہے، لہٰذا نہ ان کی سزا میں کو ئی تخفیف ہو گی اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ ع
[hr:c828752760]
 

موجو

لائبریرین
ترجمان القرآن سورۃ‌البقرۃ

السلام علیکم ورحمۃ‌اللہ وبرکاتہ!
[hr:c759ba91ed]
ہم نے موسی کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، آخر کار عیسی ابن مریم کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے ]" روح پاک" سے مراد علم وحی بھی ہے اور جبریل بھی جو وحی کا علم لاتے ہیں اور خود حضرت مسیح کی اپنی پاکیزہ روح بھی، جس کو اللہ نے قدسی صفات بنا یا تھا۔[ اس کی مدد کی ۔ پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسُول تمہاری خواہشاتِ نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا ، تو تم نے اس کے مقابلے میں سَر کشی ہی کی، کسی کو جھٹلا یا اور کسی کو قتل کرڈالا! وہ کہتے ہیں ، ہمارے دل محفوظ ہیں۔
نہیں ، اصل بات یہ ہے کہ اِن کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے، اِس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے اُن کے پاس آئی ہے، اُس کے ساتھ اُن کا کیا برتاؤ ہے؟ باوجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کُفّار کے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے،[ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پلے یہودی بے چینی کے ساتھ اس نبی مُنتظِر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیاء نے کی تھیں اور دعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مِٹے اور پھر ہمارے عُروج کا دور شروع ہو۔]مگر جب وہ چیز آگئی، جسے وہ پہنچا بھی گئے ، تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ خدا کی لعنت اِن منکرین پر، کیسا بُرا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلّی حاصل کرتے ہیں [ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ "کیسی بُری چیز ہے جس کی خاطر انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا" یعنی اپنی فلا ح وسعادت اور اپنی نجات کو قربان کردیا۔ ] کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے اس کو قبول کرنے سے صرف اِس ضد کی بنا پر انکار کررہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت ) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا۔
[یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والا نبی ان کی قوم میں پیدا ہو۔ مگر جب وہ ایک دوسری قوم میں پیدا ہوا ، جسے وہ اپنے مقابلے میں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہو گئے ۔ گویا اِن کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا۔] لہٰذا اب یہ غَضَب بالائے غَضَب کے مستحق ہو گئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت زِلّت آمیز سزا مقرر ہے۔ جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازِل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں:" ہم تو صرف اُس چیز پر ایمان لاتے ہیں، جو، ہمارے ہاں(یعنی بنی اسرائیل میں ) اتری ہے"۔ اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے، اُسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ حق ہے اور اُس تعلیم کی تصدیق و تائید کررہا ہے جواُن کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ اچھاِ اِن سے کہو: اگر تم اُس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اِس سے پہلے اللہ کے اُن پیغمبروں کو(جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے) کیوں قتل کرتے رہے؟ تمہارے پاس موسیٰؑ کیسی کسیی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا۔ پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبُود بنا بیٹھے ۔ پھر ذرا اُس میثا ق کو یاد کرو، جو ظُر کو تمہارے اُوپر اُٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، اُن کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سُنو ۔ تمہارے اَسلاف نے کہا کہ ہم نے سُن لیاِ مگر مانیں گے نہیں۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہُوا تھا۔ کہو: اگر تم مومن ہو، تو یہ عجیب ایمان ہے جو ایسی بُری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے۔
ان سے کہو کہ اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مضصوص ہے ، تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنَّا کرو، اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو۔ یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنَّا نہ کریں گے، اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جو کچھ کما کر انہوں نے وہا ں بھیجا ہے، اس کا اقتضایہی ہے (کہ وہاں جانے کی تمنَّا نہ کر یں ) اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔ تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤگے حتّٰی کہ یہ اس معاملے میں مشرِکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے ، حالانکہ لمبی عمر بہرحال اُسے عذاب سے تو دُور نہیں پھینک سکتی ۔ جیسے کچھ اَعمال یہ کررہے ، اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ ع
ان سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو،[یہودی صرف نبیﷺ کو اور آپ پر ایمان لانے والوں ہی کو برانہ کہتے تھے، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل کو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارادشمن ہے وہ رحمت کا نہیں ، عذاب کا فرشتہ ہے ]اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔ (اگر جبریل سے اِن کی عداوت کا سبب یہی ہے، تو کہہ دو کہ) جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسُولوں اور جبریل میکائیل کےدشمن ہیں، اللہ ان کافروں کا دُشمن ہے۔
ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اِظہار کرنے والی ہیں۔ اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو فَاسِق ہیں۔ کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب اُنہوں نے کوئی عہد کیا، تو اِن میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالائے طاق رکھ دیا؟ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہیں، جو سچّے دل سے ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسُول اس کتاب کی تصدیق وتائید کرتاہوا آیا جو اِن کے ہاں پہلے سے موجود تھی، تو ان اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پسِ پُشت ڈالا گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ اور لگے اُن چیزوں کی پیروی کرنے جو شیاطین، سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان(علیہ السلام)نے کبھی کفر نہیں کیا، کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔وہ پیچھے پڑے اُس چیز کے جو بابِل میں دو فرشتوں ہارُوت و مارُوت پر نازل کی گئی تھی، حالانکہ وہ(فرشتے) جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے، تو پہلے صاف طور پر مُتنبہ کردیا کرتے تھے کہ " دیکھ، ہم محص ایک آزمائیش ہیں، تُو کفر میں مبتلا نہ ہو"۔[اس آیت کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں، مگر جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانے میں بنی اسرائیل کی پوری قوم بابِل میں قیدی اور غلام بنی ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو انسانی شکل میں ان کی آزمائش کے لیے بھیجا ہوگا۔ جس طرح قومِ لُوط کے پاس فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں گئے تھے۔ اِسی طرح اِن اسرائیلیوں کے پاس وہ پیروں اور فقیروں کی شکل میں گئے ہوں گے وہاں ایک طرف انہوں نے بازارِ ساحری میں اپنی دوکان لگائی ہو گی اور دوسری طرف وہ اِتمامِ حُجت کے لیے ہر ایک کو خبردار بھی کردتے ہوں گے کہ دیکھو، ہم تمہارے لیے آزمائش کی حیثیت رکھتے ہیں، تم اپنی عاقبت خراب نہ کرو مگر اس کے باوجود لوگ ان کے پیش کردہ سفلی عملیات اور نقوش و تعویذات پر ٹوٹے پڑتے ہوں گے۔]پھر بھی یہ لوگ اُن سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ ظاہر تھا کہ اذنِ الٰہی کے بغیر وہ اِس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود اُن کے لیے نفع بخش نہیں، بلکہ نقصان دہ تھی اور اُنہیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا، اُس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ کتنی بُری مَتاع تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، کاش انہیں معلوم ہوتا! اگر وہ ایمان اور تقوٰی اختیار کرتے ، تو اللہ کے ہاں اس کا جو بدلہ ملتا، وہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا۔ کاش اُنہیں خبر ہوتی! ع
ائے لوگوجو ایمان لائے ہو رَاعِنَا نہ کہا کرو ، بلکہ اُنظُرنا کہو اور توجہ سے بات کو سنو،[یہودی جب آنحضرت ﷺ کی مجلس میں آتے، تو اپنے سلام کلام میں ہر ممکن طریقے سے اپنے دل کا بخار نکالنے کی کوشش کر تے تھے جب آنحضرت ﷺ کی گفتگو کے دوران میں یہوودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھر ئیے، ذرا ہماری رعایت کیجیے یا ہماری بات سن لیجیے مگر اس میں کئی پہلوؤں سے برے معنی بھی نکلتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے بجائے اُنظُرنَا کہا کرو۔ یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیکیے۔] یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں۔ یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشر ک ہوں، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوءی بہلاءی نازل ہو، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والاہے۔ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لا تے ہیں یا کم از کم ویسی ہی۔[یہ ایک خاص شبہ کا جواب ہے جو یہودی مسلمانوں کے دلوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ اگرپچھلی کتابیں بھی خدا کی طرف سے آئی تھیں اور یہ قرآن بھی خدا کی طرف سے ہے تو ان کے بعض احکام کی جگہ اس میں دوسرے احکام کیوں دئیے گئے ہیں؟] کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟ کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سِوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے؟
پھر کیاتم اپنے رسول سے اس قسم کے سوالات اور مطالبے کرنا چاہتے ہو،
[hr:c759ba91ed]
[hr:c759ba91ed]
 
Top