ترجمانی قرآن از سید مودودی رحمہ اللہ

قسیم حیدر

محفلین
نوٹ
تفہیم القرآن کو ڈیجیٹائز کرنے کا منصوبہ اس محفل میں زیرِ عمل ہے۔ میں نے تیسری جلد پر کام شروع کیا تو محسوس ہوا کہ یہ کام بہت وقت چاہتا ہے اوراس کو مکمل ہونے میں بہت عرصہ لگ سکتا ہے۔ بہتر ہو اگر ترجمانی کو پہلے لکھ دیا جائے تا کہ صرف ترجمانی کے طالب حضرات کی تشنگی پوری ہو سکے۔ تفہیم القرآن کی تیسری جلد سورہ کہف سے شروع ہوتی ہے۔وہیں سے ٹائپ کرنا شروع کیا اور اب تک سورہ کہف، مریم، طہ اور انبیاء کی ترجمانی مکمل ہو چکی ہے۔ یعنی تقریبًا اڑھائی پارے۔ پروف ریڈنگ کا کام باقی ہے اور یہ ذمہ داری میں محفل کے ممبران کے حوالے کرتاہوں۔ کئی ایک ویب سائٹس(مثلًا www.maududi.org) پر تفہیم القرآن سکین شدہ موجود ہے۔ پروف ریڈنگ میں مدد کے لیے وہاں سے تصویری شکل میں مل سکتی ہے۔ ترجمانی کا مزید کام ان شاء اللہ اسی فورم پر پیش کیا جاتا رہے گا۔ میں نے پاک نستعلیق کا بیٹا ورژن استعمال کیا ہےاور اچھا رزلٹ دے رہا ہے۔ورڈ پروسیسر میں صحیح طور پر پڑھنے کے لیے پہلے یہ فونٹ انسٹال کر لیں
 

قسیم حیدر

محفلین
سورة الکہف
کے معانی کی ترجمانی

از
سید ابو الاعلیٰ موددیؒ​








بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور ان لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اس بات کا نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔
اچھا، تو اے محمد، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایاہے تا کہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ آخر کار اِس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔
کیا تم سمجھتے ہو کہ غاراور کتبے والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزین ہوئے اور انہوں نے کہا کہ "اے پروردگار، ہم کو اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے"، تو ہم نے انہیں اسی غار میں تھپک کر سالہا سال کے لیے گہری نیند سلا دیا، پھر ہم نے انہیں اٹھایا تا کہ دیکھیں ان کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مدتِ قیام کا ٹھیک شمار کرتا ہے۔
ہم ان کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ "ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بیجا بات کریں گے۔" (پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) "یہ ہماری قوم تو ربِّ کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ آخر اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبودانِ غیر اللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔ تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لیے سروسامان مہیا کردے گا"۔
تم انہیں غار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتاہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولیِّ مرشِد نہیں پا سکتے۔ تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلاتے رہتے تھے۔اور ان کا کتا غار کے دہانے پرہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر انہیں دیکھتے تو الٹے پاوں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی۔
اور اسی عجیب کرشمے سے ہم نے انہیں اٹھا بٹھایاتاکہ آپس میں ذرا پوچھ گچھ کریں۔ ان میں سے ایک نے پوچھا ”کہو کتنی دیر اس حال میں رہے“؟ دوسروں نے کہا ”شاید دن بھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے“۔ پھر وہ بولے ”اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اس حالت میں گزرا ۔ چلو، اب اپنے میں سے کسی کوچاندی کا یہ سکہ دے کر شہربھیجیں اور و ہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لیے لائے۔ اور چاہیے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی کوہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے۔ اگر کہیں ان لوگوں کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس سنگسار ہی کر ڈالیں گے، یا پھر زبردستی ہمیں اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے، اور ایسا ہوا توہم کبھی فلاح نہ پا سکیں گے“----اس طرح ہم نے اہلِ شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اﷲ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بےشک آ کر رہے گی۔ (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اس وقت وہ آپس میں اِس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ اِن (اصحابِ کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا” ان پر ایک دیوار چن دو، ان کا رب ہی اِن کے معاملہ کو بہترجانتا ہے“۔ مگر جو لوگ ان کے معاملات پر غالب تھے انہوں نے کہا ” ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے“۔
کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ اور کچھ دوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اورچھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تُکی ہانکتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ کہو، میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں۔ پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پوچھو----- اور دیکھو،کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کر دوں گا۔(تم کچھ نہیں کر سکتے) اِلّا یہ کہ اﷲ چاہے۔ اگر بھولے سے ایسی بات زبان سے نکل جائے توفورًا اپنے رب کو یاد کرو اور کہو ”امید ہے کہ میرا رب اس معاملے میں رُشد سے قریب تر بات کی طرف میری رہنمائی فرمادےگا“----اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور (کچھ لوگ مدّت کے شمار میں ) ۹ سال اور بڑھ گئے ہیں۔ تم کہو ، اﷲ ان کے قیام کی مدّت زیادہ جانتا ہے، آسمانوں اور زمین کے سب پوشیدہ احوال اسی کو معلوم ہیں، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اورسننے والا! زمین و آسمان کی مخلوقات کا کوئی خبرگیر اس کے سوا نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کوشریک نہیں کرتا۔
اے نبی! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے(جوں کا توں) سنا دو، کوئی اس کے فرمودات کوبدل دینے کا مجاز نہیں ہے، اور اگرتم کسی کی خاطراس میں ردّو بدل کرو گے تواس سے بچ کربھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پا گے۔ اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضاکے طلب گار بن کرصبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کارافراط و تفریط پر مبنی ہے۔صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔ ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں۔ وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے توایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اوربہت بری آرامگاہ! رہے وہ لوگ جومان لیں اور نیک عمل کریں، تو یقینًاہم نیکو کارلوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ ان کے لیے سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے، باریک ریشم اوراطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اور اونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے، بہترین اجراوراعلیٰ درجے کی جائے قیام!
اے محمد! اِن کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ دو شخص تھے۔ ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑ ھ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔دونوں باغ خوب پھلے پھولے اور بارآور ہونے میں انہوں نے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی۔ ان باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کر دی اوراُسے خوب نفع حاصل ہوا۔ یہ کچھ پا کر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا ”میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں“۔ پھر وہ اپنی جنّت میں داخل ہوا اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا ” میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہو جائے گی، اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی۔ تاہم اگر کبھی مجھے اپنے رب کے حضور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اِس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا“۔ اُس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اس سے کہا ” کیا تو کفر کرتا ہے اُس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کھڑا کیا؟ رہا میں، تو میرا رب تو وہی اﷲ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اور جب تو اپنی جنت میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاءاﷲ، لاقوة الّا باللہ؟ اگر تو مجھے مال او راولاد میں اپنے سے کمتر پا رہا ہے تو بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیری جنت سے بہتر عطا فرمادے اور تیری جنت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے، یا اس کا پانی زمین میں اتر جائے اور پھر تو اسے کسی طرح نہ نکال سکے“۔ آخر کا ر ہوا یہ کہ اس کا سارا ثمرہ مارا گیا اور وہ اپنے انگوروں کے باغ کو ٹٹیوں پر الٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا کہ” کاش ! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرایا ہوتا“---نہ ہوا اﷲ کو چھوڑ کر اس کے پاس کوئی جتھا کہ اس کی مدد کرتا، اور نہ کر سکاوہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ---- اس وقت معلوم ہوا کہ کارسازی کا اختیارخدائے برحق ہی کے لیے ہے، انعام وہی بہتر ہے جو وہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو وہ دکھائے۔
اور اے نبی! اِنہیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اِس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پَود خُوب گھنی ہو گئی ، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں توباقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنہی سے اچھی اُمّیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ فکر اُس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے ، اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے، اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے) ایک بھی نہ چھوٹے گا، اور سب کے سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کیے جائیں گے۔.... لو دیکھ لو، آگئے نا تم ہمارے پاس اُسی طرح جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ تم نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے....اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہو گئی ہو۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پرذرا ظلم نہ کرے گا۔
یاد کرو ، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا۔ اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اُس کو اور اس کی ذرّیّت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ بڑا ہی برا بدل ہے جو ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں۔
میں نے آسمان و زمین پیدا کرتے وقت اُن کو نہیں بلایا تھا اور نہ خود اُن کی اپنی تخلیق میں انہیں شریک کیا تھا۔ میرا یہ کام نہیں ہے کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا مددگار بنایا کروں۔ پھر کیا کریں گے یہ لوگ اُس روز جبکہ اِن کا رب اِن سے کہے گا کہ پکارو اب اُن ہستیوں کو جنہیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ ان کو پکاریں گے، مگر وہ اِن کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کر دیں گے۔ سارے مُجرم اس روزآگ دیکھیں گے اورسمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے۔
ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ اُن کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے رب کے حضور معافی چاہنے سے آخر اُن کوکس چیز نے روک دیا؟ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو پچھلی قوموں کے ساتھ ہو چکا ہے، یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں!
رسولوں کو ہم اِس کام کے سوا اور کسی غرض کے لیے نہیں بھیجتے کہ وہ بشارت اور تنبیہ کی خدمت نجام دے دیں۔ مگر کافروں کا حال یہ ہے کہ وہ باطل کے ہتھیار لے کر حق کو نیچا دکھانےکی کوشش کرتے ہیں اور انہوں نے میری آیات کو اور اُن تنبیہات کو جو انہیں کی گئیں مذاق بنا لیا ہے۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیر لے اور اُس برے انجام کو بھول جائے جس کا سرو سامان اس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیے ہیں جو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے، اور ان کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے۔تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاؤ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے۔
تیرا رب بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑنا چاہتا توجلدی ہی عذاب بھیج دیتا۔ مگر ان کے لیے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے اور اس سے بچ کربھاگ نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔
یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔ انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔
(ذرا اِن کو وہ قصہ سناو جو موسٰیؑ کو پیش آیا تھا) جبکہ موسٰیؑ نے اپنے خادم سے کہا تھاکہ میں اپنا سفر ختم نہ کروں گاجب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانہءدراز تک چلتا ہی رہوں گا“۔ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نکل کراس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سرنگ لگی ہو۔ آگے جا کر موسٰیؑ نے اپنے خادم سے کہا ” لاؤ ہمارا ناشتہ، آج کے سفر میں توہم برُی طرح تھک گئے ہیں“۔ خادم نے کہا ”آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا؟ جب ہم اُس چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اُس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہااور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کاذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کردریا میں چلی گئی“۔ موسٰیؑ نے کہا ”اسی کی تو ہمیں تلاش تھی“۔ چنانچہ وہ دونوں اپنے نقشِ قدم پر پھر واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔
موسٰیؑ نے اس سے کہا ”کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اُس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کوسکھائی گئی ہے“؟ اس نے جواب دیا ”آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے، اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں“۔ موسٰیؑ نے کہا”ان شاءاللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا“۔اس نے کہا ”اچھا،اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک کہ مَیں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں“۔
اب وہ دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسٰیؑ نے کہا ” آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تاکہ سب کشتی والوں کو ڈبو دیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی“۔ اس نے کہا ”میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے“؟ موسٰیؑ نے کہا”بھُول چُوک پر مجھے نہ پکڑیے۔ میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں“۔
پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اس شخص نے اسے قتل کر دیا۔ موسٰیؑ نے کہا ”آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اس نے کسی کا خون نہ کیا تھا؟ یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا“۔ اس نے کہا ” میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے“؟ موسٰیؑ نے کہا” اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ لیجیے، اب تو میری طرف سے آپ کوعذر مل گیا“۔
پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا ۔ مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جوگرا چاہتی تھی۔ اُس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا۔ موسٰیؑ نے کہا ” اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اُجرت لے سکتے تھے“۔ اُس نے کہا ”بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدُوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کاعلاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا، اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہءرحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔ اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے اِن بچّوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچّے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پرکیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کردیا ہے۔ یہ ہے حقیقت اُن باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے“۔
اور اے محمد ، یہ لوگ تم سے ذُوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سناتا ہوں۔ ہم نے اس کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔ اس نے(پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا ) سامان کیا۔ حتٰی کہ جب وہ غروبِ آفتاب کی حَد تک پہنچ گیا تو اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا اور وہاں اُسے ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا ”اے ذوالقرنین، تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ اِن کے ساتھ نیک رویّہ اختیار کرے“۔ اس نے کہا ”جوان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔ اور جو ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرے گا اُس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے۔“
پھر اُس نے (ایک دُوسری مہم کی) تیاری کی یہاں تک کہ طلوعِ آفتاب کی حد تک جا پہنچا۔ وہاں ا س نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جس کے لیے دُھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔ یہ حال تھا اُن کا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے۔
پھر اس نے (ایک اور مہم کا) سامان کیا یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تواسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سمجھتی تھی۔ اُن لوگوں نے کہا کہ ”اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کام کے لیے دیں کہ توہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دے“؟ اس نے کہا ” جو کچھ میرے رب نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔ تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتاہوں۔ مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو“۔ آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیانی خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ۔ (حتٰی کہ جب
یہ آ ہنی دیوار) بالکل آگ کی طرح سُرخ ہو گئی تو اس نے کہا ”لاؤ، اب میں اس پرپگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا“ ۔ (یہ بند ایسا تھا کہ ) یاجوج ماجوج اس پر چڑھ کربھی نہ آسکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لیے اور بھی مشکل تھا۔ ذوالقرنین نے کہا ” یہ میرے رب کی رحمت ہے۔ مگر جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئےگا تو وہ اس کو پیوندِ خاک کر دے گا، اور میرے رب کا وعدہ بر حق ہے“۔
اور اُس روز ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ (سمندر کی موجوں کی طرح) ایک دُوسرے سے گتھم گتھا ہوں اور صُور پھُونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے۔ اور وہ دن ہو گا جب ہم جہنم کوکافروں کے سامنے لائیں گے، اُن کافروں کے سامنے جو میری نصیحت کی طرف سے اندھے بنے ہوئے تھے اور کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔
تو کیا یہ لوگ، جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنا لیں؟ ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔
اے محمد، ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جدو جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ ان کی جزا جہنم ہے اُس کفر کے بدلے میں جو انہوں نے کیا اوراُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔ البتّہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اُس جگہ سے نکل کر کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا۔
اے محمد، کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے۔
اے محمد، کہو کہ میں توایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدابس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورة مریم
کے معانی کی ترجمانی


از
سید ابو الاعلیٰ موددیؒ



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ک، ہ، ی ، ع، ص۔ ذکر ہے اُس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی، جبکہ اُس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔ ا س نے عرض کیا ”اے پروردگار، میری ہڈیاں تک گھُل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بڑھک اٹھا ہے۔ اے پروردگار ، میں کبھی تجھ سے دُعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے ، اور میری بیوی بانجھ ہے۔ تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہواور آلِ یعقوب کی میراث بھی پائے، اور اے پروردگار، اُس کو ایک پسندیدہ انسان بنا“۔ (جواب دیا گیا) ”اے زَکَرِیّا،ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہو گا۔ ہم نے اِ س نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا“۔ عرض کیا، ”پرووردگار، بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہو گا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں“؟ جواب ملا ” ایسا ہی ہو گا۔ تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لیے ایک ذرا سی بات ہے، آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا“۔ زکریا نے کہا ” پروردگار، میرے لیے کوئی نشانی مقرر کردے“۔ فرمایا ” تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو پیہم تین دن لوگوں سے بات نہ کر سکے“ چنانچہ وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور اس نے اشارے سے ان کو ہدایت کی کہ صبح و شام تسبیح کرو۔
”اے یحیٰی! کتابِ الٰہی کو مضبوط تھام لے“
ہم نے اُسے بچپن ہی میں ”حُکم“ سے نوازا، اور اپنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی اور وہ بڑا پرہیز گار اور اپنے والدین کا حق شناس تھا۔ وہ جبّار نہ تھا اور نہ نافرمان۔ سلام اُس پر جس روز کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز زندہ کر کے اٹھایا جائے۔
اور اے نبی، اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو، جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر شرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی تھی اور پردہ ڈال کر اُن سے چھپ بیٹھی تھی۔ اس حالت میں ہم نے اس کے پاس اپنی روح کو (یعنی فرشتے کو) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک پورے انسان کی شکل میں نمودار ہو گیا۔ مریم یکا یک بول اٹھی کہ” اگر تو کوئی خداترس آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں“۔ اُس نے کہا ”میں تو تیرے رب کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دوں“۔ مریم نے کہا ” میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھُوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں“ ۔ فرشتے نے کہا ”ایسا ہی ہوگا، تیرا رب فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اُس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا ئیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت۔ اور یہ کام ہو کر رہنا ہے“۔
مریم کو اس بچے کا حمل رہ گیا اور وہ اس حمل کو لیے ہوئے ایک دُور کے مقام پر چلی گئی۔ پھر زچگی کی تکلیف نے اُسے ایک کھُجور کے درخت کے نیچے پہنچا دیا۔ وہ کہنے لگی ” کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی اور میرا نام و نشان نہ رہتا“۔ فرشتے نے پائینتی سے اس کو پکار کر کہا ”غم نے کر۔ تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ رواں کر دیا ہے اور تو ذرا اِس درخت کے تنے کو ہِلا، تیرے اوپر تروتازہ کھجوریں ٹپک پڑیں گی۔ پس تو کھا اور پی اورا پنی آنکھیں ٹھنڈی رکھ۔ پھر اگر کوئی آدمی تجھے نظر آئے تو اس سے کہدے کہ میں نے رحمان کے لیے روزے کی نذر مانی ہے، اس لیے آج میں کسی سے نہ بولوں گی"۔
پھر وہ اس بچے کو لیے ہوئے اپنی قوم میں آئی۔ لوگ کہنے لگے ” اے مریم ، یہ تو تُو نے بڑا پاپ کر ڈالا۔ اے ہارون کی بہن، نہ تیرا باپ کوئی بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی کوئی بدکار عورت تھی“۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کر دیا۔ لوگوں نے کہا ” ہم اِس سے کیا بات کریں جو گہوارے میں پڑا ہوا ایک بچہ ہے“؟ بچہ بول اٹھا ” میں اﷲ کا بندہ ہوں۔ اُس نے مجھے کتاب دی، اور نبی بنایا، اور بابرکت کیا جہاں بھی میں رہوں، اور نماز اور زکٰوة کی پابندی کا حکم دیا جب تک میں زندہ رہوں، اور اپنی والدہ کا حق ادا کرنے والا بنایا، اور مجھ کو جبّار اور شقی نہیں بنایا۔ سلام ہے مجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جبکہ میں زندہ کرکے اٹھایا جاؤں“۔
یہ ہے عیسٰی ابنِ مریم اور یہ ہے اس کے بارے میں وہ سچی بات جس میں لوگ شک کر رہے ہیں۔ اﷲ کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ذات ہے۔ وہ جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا ، اوربس وہ ہو جاتی ہے۔
(اور عیسٰیؑ نے کہا تھا کہ) ”اﷲ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی، پس تُم اُسی کی بندگی کرو، یہی سیدھی راہ ہے“۔ مگر پھر مختلف گروہ باہم اختلاف کرنے لگے۔ سو جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے وہ وقت بڑی تباہی کا ہوگا۔ جب کہ وہ ایک بڑا دن دیکھیں گے۔ جب وہ ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اس روز تو ان کے کان بھی خوب سُن رہے ہوں گے اور اُن کی آنکھیں بھی خوب دیکھتی ہوں گی، مگر آج یہ ظالم کھُلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اے نبی، اِس حالت میں جب کہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں، انہیں اُس دن سے ڈرا دو جبکہ فیصلہ کر دیاجائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو گا۔ آخر کار ہم ہی زمین اور اس کی ساری چیزوں کے وارث ہوں گے اور سب ہماری طرف ہی پلٹائے جائیں گے۔
اور اس کتاب میں ابراہیمؑ کا قصہ بیان کرو، بے شک وہ ایک راست باز انسان اور ایک نبی تھا۔ (انہیں ذرا اُس موقع کی یاد دلاؤ ) جبکہ اُس نے اپنے باپ سے کہا کہ " ابّا جان، آپ کیوں اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سُنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ ابّا جان، میرے ایک ایسا عِلم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا۔ ابّا جان! آپ شیطان کی بندگی نہ کریں، شیطان تو رحمٰن کا نافرمان ہے۔ابّا جان، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمان کے عذاب میں مُبتلا نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں“۔
باپ نے کہا ” ابراہیمؑ ، کیا تو میرے معبُودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہو جا“۔
ابراہیمؑ نے کہا”سلام ہے آپ کو۔ میں اپنے رب سے دُعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اوراُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا"۔
پس جب وہ اُن لوگوں سے اور اُن کے معبُودانِ غیر اﷲ سے جُدا ہو گیا تو ہم نے اُس کو اسحاق ؑاور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اورہرایک کو نبی بنایا اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی ناموری عطا کی۔
اور ذکر کرو اس کتاب میں موسٰیؑ کا۔ وہ ایک چیدہ شخص تھا اور رسول نبی تھا۔ ہم نے اس کو طُور کے داہنی جانب سے پکارا اور راز کی گفتگو سے اس کو تقرب عطا کیا، اور اپنی مہربانی سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر اُسے (مددگار کے طور پر) دیا۔
اور اس کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر کرو۔ وہ وعدے کا سچا اور رسُول نبی تھا۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰة کا حکم دیتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔
اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو۔ وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا اور اسے ہم نے بلند مقام پر اُٹھایا تھا۔
یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اﷲ نے انعام فرمایا آدم ؑ کی اولاد میں سے، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا،ا ور ابراہیمؑ کی نسل سے اور اسرائیلؑ کی نسل سے ۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔
پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں۔ البتہ جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں اور نیک عملی اختیار کر لیں وہ جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہو گی۔ ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کا رحمان نے اپنے بندوں سے درپردہ وعدہ کر رکھا ہے اور یقینًا یہ وعدہ پُورا ہو کر رہنا ہے۔ وہاں وہ کوئی بےہُودہ بات نہ سُنیں گے، جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔ اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا۔ یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُس کو بنائیں گے جو پرہیزگار رہا ہے۔
اے محمد ، ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں اُترا کرتے۔ جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ہر چیز کا مالک وہی ہے اور تمہارا رب بھُولنے والا نہیں ہے۔ وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور اُن ساری چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں۔ پس تم اُس کے بندگی کرو اور اُسی کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔ کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم پایہ؟
انسان کہتا ہے کہا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا؟ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟ تیرے رب کی قسم، ہم ضرور ان سب کو اور ان کے ساتھ شیاطین کو بھی گھیر لائیں گے، پھر جہنم کے گرد لا کر انہیں گھٹنوں کے بل گرا دیں گے پھر ہر گروہ میں ہر اُس شخص کو چھانٹ لیں گے جو رحمان کے مقابلے میں زیادہ سرکش بنا ہُوا تھا، پھر یہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کون سب سے بڑھ کر جہنم میں جھونکے جانے کا مستحق ہے۔ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پُورا کرنا تیرے رب کا ذِمّہ ہے۔ پھر ہم اُن لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں ) متقی تھے اور ظالموں کو اُسی میں گرا ہُواچھوڑ دیں گے۔
اِن لوگوں کو جب ہماری کھُلی کھُلی آیات سنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں ”بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں؟ حالانکہ ان سے پہلے ہم کتنی ہی ایسی قوموں کوہلاک کر چکے ہیں جو اِن سے زیادہ سروسامان رکھتی تھیں اور ظاہری شان و شوکت میں اِن سے بڑھی ہوئی تھیں۔ اِ ن سے کہو، جو شخص گمراہی میں مُبتلا ہوتا ہے اُسے رحمان ڈھیل دیا کرتا ہے یہاں تک کہ جب ایسے لوگ وہ چیز دیکھ لیتے ہیں جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے .... خواہ وہ عذابِ الٰہی ہو یا قیامت کی گھڑی....تب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کا حال خراب ہے اور اور کس کا جتھا کمزور! اس کے برعکس جو لوگ راہِ راست اختیار کرتے ہیں اللہ ان کو راست روی میں ترقی عطا فرماتا ہے اور باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک جزا اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہیں۔
پھر تو نے دیکھا اُس شخص کو جو ہماری آیات کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو مال و اولاد سے نوازا ہی جاتا رہوں گا؟ کیا اسے غیب کا پتہ چل گیا ہے یا اس نے رحمان سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟....ہرگز نہیں، جو کچھ یہ بکتا ہے اسے ہم لکھ لیں گے اور اس کے لیے سزا میں اَور زیادہ اضافہ کریں گے۔ جس سروسامان اور لاؤلشکر کا یہ ذکر کر رہا ہے وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا اور یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہو گا۔
اِ ن لوگوں نے اﷲ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدا بنا رکھے ہیںتاکہ وہ اِن کے پشتیبان ہوں۔ کوئی پشتیبان نہ ہو گا۔ وہ سب ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور الٹے اِن کے مخالف بن جائیں گے۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ہم نے اِن منکرینِ حق پر شیاطین چھوڑ رکھے ہیں جو اِنہیں خُوب خُوب (مخالفتِ حق پر) اکسا رہے ہیں؟ اچھا ، تو اب اِن پر نُزُولِ عذاب کے لیے بیتاب نہ ہو۔ ہم اِن کے دن گن رہے ہیں۔ وہ دن آنے والا ہے جب متقی لوگوں کو ہم مہمانوں کی طرح رحمان کے حضور پیش کریں گے، اور مجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے۔ اُس وقت لوگ کوئی سفارش لانے پر قادر نہ ہوں گے بجُز اس کے جس نے رحمان کے حضور سے پروانہ حاصل کر لیا ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ رحمان نے کسی کوبیٹا بنایا ہے....سخت بیہُودہ بات ہے جوتم لوگ گھڑ لائے ہو۔قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں، اس بات پر کہ لوگوں نے رحمان کے لیے اولاد ہونے کا دعوٰی کیا! رحمان کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمان کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔ سب پر وہ محیط ہے اور اس نے اُن کو شمار کر رکھا ہے۔ سب قیامت کے روز فردًا فردًا اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔
یقینًا جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عملِ صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمان اُن کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا ۔ پس اے محمد، اِس کلام کو ہم نے آسان کر کے تمہاری زبان میں اسی لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوشخبری دے دو اور ہٹ دھرم لوگوں کو ڈرا دو۔ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں، پھر آج کہیں تم ان کا نشان پاتے ہو یا اُن کی بھِنک بھی کہیں سُنائی دیتی ہے؟
 

قسیم حیدر

محفلین
سورة طٰہٰ
کے معانی کی ترجمانی

از
سید ابو الاعلیٰ موددیؒ​









بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
طٰہٰ، ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ یہ تو ایک یاددہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے۔ نازل کیا گیا ہے اُس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کوا ور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمان (کائنات کے) تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ مالک ہے اُن سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان میں ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں ۔ تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چُپکے سے کہی ہوئی بلکہ اس سے مخفی تر بات بھی جانتا ہے۔ وہ اﷲ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ، اس کے لیے بہترین نام ہیں ۔
اور تمہیں کچھ موسٰیؑ کی خبر بھی پہنچی ہے؟ جب کہ اس نے ایک آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ ” ذرا ٹھیرو، مَیں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید کہ تمہارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں ، یا اِس آگ پر مجھے ( راستے کے متعلق) کوئی رہنمائی مل جائے“
وہاں پہنچا تو پکارا گیا ” اے موسٰیؑ! میں ہی تیرا رب ہوں ، جوتیاں اتار دے۔ تو وادیِ مقدسِ طُوٰی میں ہے۔ اور میں نے تجھ کو چُن لیا ہے، سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ میں ہی اﷲ ہوں ، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں ، تا کہ ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اورا پنی خواہشِ نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اُس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے، ورنہ تو ہلاکت میں پڑ جائے گا....اور اے موسٰیؑ، یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے“؟
موسٰیؑ نے جواب دیا ” یہ میری لاٹھی ہے، اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں ، اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں ، اور بھی بہت سے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں “۔
فرمایا ” پھینک دے اس کو موسٰیؑ“
اس نے پھینک دیا اور یکایک وہ ایک سانپ تھی جو دَوڑ رہا تھا۔
فرمایا ” پکڑ لے اس کو اور ڈر نہیں ، ہم اسے پھر ویسا ہی کر دیں گے جیسی یہ تھی۔ اور ذرا اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ یہ دوسری نشانی ہے۔ اس لیے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں ۔ اب تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے“۔
موسٰیؑ نے عرض کیا ” پروردگار، میرا سینہ کھول دے، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اورمیری زبان کی گرہ سُلجھا دے تا کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ، اور میرے لیے میرے اپنے کنبے سے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ہارون، جو میرا بھائی ہے۔ اُس کے ذریعہ سے میرا ہاتھ مضبُوط کر اور اس کو میرے کام میں شریک کر دے، تا کہ ہم خوب تیری پاکی بیان کریں اور خوب تیرا چرچا کریں ۔ تو ہمیشہ ہمارے حال پر نگران رہا ہے“۔
فرمایا ”دیا گیا جو تو نے مانگا اے موسٰیؑ، ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔ یاد کر وہ وقت جبکہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا، ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعہ سے ہی کیا جاتا ہے کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اٹھا لےگا۔ مَیں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کر دی اور ایسا انتظام کیا کہ تو میری نگرانی میں پالا جائے۔ یاد کر جبکہ تیری بہن چل رہی تھی، پھر جا کر کہتی ہے، ” مَیں تمہیں اُس کا پتہ دُوں جو اِس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے“؟ اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تا کہ اُس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو۔اور (یہ بھی یاد کر کہ) تو نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، ہم نے تجھے اِس پھَندے سے نکالا اور اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تو مَدیَن کے لوگوں میں کئی سال ٹھیرا رہا۔ پھر اب ٹھیک اپنے وقت پر تو آگیا ہے اے موسٰیؑ۔ میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنا لیا ہے۔ جا ، تُو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ۔ا ور دیکھو، تم میری یاد میں تقصیر نہ کرنا۔ جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے“۔
دونوں نے عرض کیا ” پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پِل پڑے گا“۔
فرمایا ” ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں ، سب کچھ سُن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔ جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں ، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں او ر سلامتی ہے اُس کے لیے جو جو راہِ راست کی پیروی کرے۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھُٹلائے اور منہ موڑے“۔
فرعون نے کہا ” اچھا ، تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے اے موسٰیؑ“؟
موسٰیؑ نے جواب دیا ”ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی ، پھر اس کو راستہ بتایا“۔
فرعون بولا” اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی“؟
موسٰیؑ نے کہا ” اُس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے“۔....وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چَراؤ۔ یقینًا اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔ اِسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کودوبارہ نکالیں گے۔
ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا۔ کہنے لگا ” اے موسٰیؑ، کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کوہمارے ملک سے نکال باہر کرے؟ اچھا، ہم بھی تیرے مقابلے میں ویساہی جادُو لاتے ہیں ۔ طے کر لے کب اور کہاں مقابلہ کرنا ہے۔ نہ ہم اِس قَراردار سے پھریں گے نہ تو پھریو۔ کھُلے میدان میں سامنے آ جا“
موسٰیؑ نے کہا ”جشن کا دن طے ہوا،ا ور دن چڑھے لوگ جمع ہوں “۔
فرعون نے پلٹ کر اپنے سارے ہتھکنڈے جمع کیے اور مقابلے میں آ گیا۔
موسٰیؑ نے (عین موقع پر گروہِ مقابل کو مخاطب کر کے )کہا” شامت کے مارو، نہ جھُوٹی تہمتیں باندھو اﷲ پر، ورنہ وہ ایک سخت عذاب سے تمہارا ستیاناس کر دے گا۔ جھُوٹ جس نے بھی گھڑا وہ نامراد ہوا“
یہ سُن کر اُن کے درمیان اختلاف رائے ہو گیااور وہ چپکے چپکے باہم مشورہ کرنے لگے۔ آخر کار کچھ لوگو ں نے کہا کہ ” یہ دونوں تو محض جادُوگر ہیں ۔ اِن کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادُو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریقِ زندگی کا خاتمہ کر دیں ۔اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کر لو اور اَیکا کر کے میدان میں آؤبس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا“
جادوگر بولے”موسٰی ، تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں “؟
موسٰیؑ نے کہا ” نہیں ، تم ہی پھینکو“۔
یکایک اُن کی رسّیاں اوراُن کی لاٹھیاں اُن کے جادُو کے زور سے موسٰیؑ کودَوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں ،ا ور موسٰیؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ہم نے کہا ”مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا۔پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے۔ یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادو گر کا فریب ہے،ا ور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے وہ آئے“۔آخر کو یہی ہُوا کہ سارے جادُوگر سجدے میں گرا دیے گئے اور پُکار اُٹھے ”مان لیاہم نے ہارون اور موسٰیؑ کے رب کو“۔
فرعون نے کہا ” تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟ معلوم ہو گیا کہ یہ تمہارا گُرو ہے جس نے تمہیں جادُوگری سکھائی تھی، اچھا ، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں ۔ پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے“ (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسٰی)۔
جادُوگروں نے جواب دیا ”قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی (صداقت پر ) تجھے ترجیح دیں ، تُو جو کچھ کرنا چاہے کر لے۔ تو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے تا کہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگر ی سے، جس پر تو نے ہمیں مجبُور کیا تھا، درگزر فرمائے۔ اﷲ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے“۔....حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گا اُس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔ اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہو گا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے ، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں ، سدا بہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اُس شخص کی جو پاکیزگی اختیار کرے۔
ہم نے موسٰیؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور اُن کے لیے سمندر میں سے سُوکھی سڑک بنا لے، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے ) ڈر لگے۔
پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا اور پھر سمندر اُن پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے کا حق تھا۔فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، کوئی صحیح راہنمائی نہیں کی تھی۔
اے بنی اسرائیل، ہم نے تم کوتمہارے دشمن سے نجات دی، اور طور کے دائیں جانب تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا اور تم پر من وسلوٰی اُتارا۔....کھاؤ ہمارادیا ہوا پاک رزق اور اسے کھا کر سر کشی نہ کرو، ورنہ تم پر میرا غضب ٹوٹ پڑے گا۔ اور جس پر میرا غضب ٹوٹا وہ پھر گر کر ہی رہا۔ البتہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں ۔
اور کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسٰیؑ؟
اُس نے عرض کیا ” وہ بس میرے پیچھے آ ہی رہے ہیں ۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آگیا ہوں اے میرے رب، تاکہ تو مجھ سے خوش ہو جائے“۔
فرمایا ” اچھا، تو سنو، ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انہیں گمراہ کر ڈالا“۔
موسٰی سخت غصّے اوررنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ جا کر اُس نے کہا ”اے میری قوم کے لوگو، کیا تمہارے رب نے تم سے اچھے وعدے نہیں کیے تھے؟ کیا تمہیں دن لگ گئے ہیں ؟ یا تم اپنے رب کا غضب ہی اپنے اوپر لانا چاہتے تھے کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی“؟
انہوں نے جواب دیا ” ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، معاملہ یہ ہُوا کہ لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لَد گئے تھے اور ہم نے بس اُن کو پھینک دیا تھا“....پھر اس طرح سامری نے بھی کچھ کر ڈالا اور ان کے لیے ایک بچھڑے کی مورت بنا کر نکال لایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ پکار اٹھے ” یہی ہے تمہار ا خدا اور موسٰی کا خدا، موسٰی اسے بھول گیا“۔ کیا وہ نہ دیکھتے تھے کہ نہ وہ اُن کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کے نفع و نقصان کاکچھ اختیار رکھتا ہے؟
ہارون ؑ (موسٰیؑ کے آنے سے )پہلے ہی ان سے کہہ چکا تھا کہ ”لوگو، تم اِس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو، تمہارا رب تو رحمٰن ہے، پس تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو“۔ مگر اُنہوں نے اس سے کہہ دیا کہ ” ہم تو اسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسٰی واپس نہ آجائے“۔
موسٰیؑ( قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارون کی طرف پلٹا اور) بولا ”ہارون، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمہارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی“؟
ہارون ؑ نے جواب دیا ”اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ تو آ کر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا“۔
موسٰیؑ نے کہا ”اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے“؟
اس نے جواب دیا ”میں نے وہ چیز دیکھی جواِن لوگوں کو نظر نہ آئی، پس میں نے رسُول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی اُٹھالی اور اُس کو ڈال دیا۔ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سُجھایا“۔
موسٰیؑ نے کہا ” اچھا تو جا، اب زندگی بھر تجھے یہی پکارتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھونا۔ اور تیرے لیے بازپُرس کا ایک وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہر گز نہ ٹلے گا۔اور دیکھ اپنے اِس خدا کو جس پر تو ریجھا ہُوا تھا، اب ہم اسے جلا ڈالیں گے اور ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے۔ لوگو، تمہارا خدا تو بس ایک ہی اﷲ ہے جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، ہر چیز پر اُس کا علم حاوی ہے“۔
اے محمد، ا س طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں تم کو سُناتے ہیں ، اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک ”ذِکر“(درسِ نصیحت) عطا کیا ہے۔جو کوئی اِس سے منہ موڑے گا وہ قیامت کے دن سخت بارِ گناہ اُٹھائے گا ، اور ایسے سب لوگ ہمیشہ اس کے وبال میں گرفتار رہیں گے، اور قیامت کے دن اُن کے لیے (اِس جرم کی ذمہ داری کا بوجھ) بڑا تکلیف دہ بوجھ ہو گا، اُس دن جبکہ صُور پھُونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اِس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے) پتھرائی ہوئی ہوں گی، آپس میں چُپکے چُپکے کہیں گے کہ دُنیا میں مشکل ہی سے تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے“.... ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہوں گے (ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ) اُس وقت ان میں سے جوزیادہ سے زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہوگاوہ کہے گا کہ نہیں ، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی تھی۔
یہ لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ کہو کہ میرا رب ان کو دُھول بنا کر اُڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بَل اور سَلوَٹ نہ دیکھو گے....اس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا۔ اور آوازیں رحمان کے آگے دب جائیں گی، ایک سر سراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے۔ اُس روز شفاعت کارگر نہ ہو گی، اِلّا یہ کہ کسی کو رحمان اس کی اجازت دے اور اس کی بات سننا پسند کرے.... وہ لوگوں کا اگلا پچھلاسب حال جانتا ہے اور دُوسروں کو اس کا پورا عِلم نہیں ہے ....لوگوں کے سر اُس حی ّ و قیّوم کے آگے جھک جائیں گے۔ نامراد ہو گا جو اُس وقت کسی ظلم کا بارِگناہ اُٹھائے ہوئے ہو۔ اور کسی ظلم یا حق تلفی کا خطرہ نہ ہوگا اُس شخص کو جو نیک عمل کرے اور اِس کے ساتھ وہ مومن بھی ہو۔
اور اے محمد، اِسی طرح ہم نے اِسے قرآنِ عربی بنا کر نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح سے تنبیہات کی ہیں شاید کہ یہ لوگ کج روی سے بچیں یا ان میں کچھ ہوش کے آثار اِس کی بدولت پیدا ہوں ۔
پس بالا و برتر ہے اﷲ، پادشاہِ حقیقی۔
اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اُس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے، اور دُعا کرو کہ اے پروردگار مجھے مزید علم عطا کر۔
ہم نے اِس سے پہلے آدم کو ایک حکم دیا تھا، مگر وہ بھُول گیا اور ہم نے اُس میں عزم نہ پایا۔ یاد کرو و ہ وقت جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ وہ سب تو سجدہ کر گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا۔ اس پر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ " دیکھو،یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دےاور تم مصیبت میں پر جاؤ۔ یہاں تو تمہیں یہ آسائشیں حاصل ہیں کہ نہ بھوکے ننگے رہتے ہو، نہ پیاس اور دھوپ تمہیں ستاتی ہے"۔ لیکن شیطان نے اس کو پھُسلایا۔ کہنے لگا " آدم، بتاؤں تمہیں وہ درخت جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے"؟ آخر کار وہ دونوں (میاں بیوی) اُس درخت کا پھَل کھا گئے۔ نتیجہ یہ ہُوا کہ فورًا ہی ان کے ستِر ایک دوسرے کے آگے کھُل گئے اور لگے دونوں اپنے آپ کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے۔ آدمؑ نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا۔پھر اُس کے رب نے اُسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔ اور فرمایا "تم دونوں (فریق، یعنی انسان اورشیطان) یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دُوسرے کے دشمن رہو گے۔اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مُبتلا ہو گا۔اور جو میرے "ذِکر"(درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے"_____وہ کہے گا "پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا"؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا " ہاں، اِسی طرح تو ہماری آیات کو ، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تُو نے بھُلا دیا تھا۔ اُسی طرح آج تُو بھُلایا جا رہا ہے"____اِس طرح ہم حد سے گزرنے والےاور اپنے رب کی آیات نہ ماننے والےکو (دُنیا میں) بدلہ دیتے ہیں، اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔
پھر کیا اِن لوگوں کو (تاریخ کے اس سبق سے) کوئی ہدایت نہ ملی کہ اِن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کی (برباد شدہ) بستیوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ درحقیقت اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقلِ سلیم رکھنے والے ہیں۔
اگر تیرے رب کی طرف سےپہلے ایک بات طے نہ کر دی گئی ہوتی اور مُہلت کی ایک مدّت مقرّر نہ کی جا چکی ہوتی توضرور اِن کا بھی فیصلہ چکا دیا جاتا۔پس اے محمدؐ، جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اُن پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو سُورج نکلنے سے پہلےاور غروب ہونے سے پہلے، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی، شاید کہ تم راضی ہو جاؤ۔ اور نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو دُنیوی زندگی کی اُس شان و شوکت کو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قِسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کےلیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزقِ حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔ ہم تم سےکوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں۔ اور انجام کی بھلائی تقوٰی ہی کے لیے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں لاتا؟ اور کیا ان کے پاس اگلے صحیفوں کی تمام تعلیمات کا بیانِ واضح نہیں آ گیا؟ اگر ہم اُس کے آنے سے پہلے اِن کو کسی عذاب سے ہلاک کر دیتے تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار، تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی پیروی اختیار کر لیتے۔ اے محمدؐ، ان سے کہو، ہر ایک انجام کار کے انتظار میں ہے، پس اب منتظر رہو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون سیدھی راہ چلنے والے ہیں اور کون ہدایت یافتہ ہیں۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ الانبیاء
کے معانی کی ترجمانی
از
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ​







بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قریب آ گیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اُس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں، دِل ان کے (دوسری ہی فکروں میں) منہمک ہیں۔
اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ " یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے"؟
رسُولؐ نے کہا میرا رب ہر اُس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں کی جائے، وہ سمیع اور علیم ہے۔
وہ کہتے ہیں " بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں، بلکہ یہ اِس کی مَن گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے۔ ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے"۔ حالاں کہ اِن سے پہلے کوئی بستی بھی ، جسے ہم نے ہلاک کیا، ایمان نہ لائی، اب کیا یہ ایمان لائیں گے؟
اور اے محمدؐ، تم سے پہلے بھی ہم نےانسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔ تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ کتاب سے پوچھ لو۔ اُن رسُولوں کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں، اور نہ وہ سدا جینے والے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ آخر کار ہم نے ان کے ساتھ اپنے وعدے پُورے کیے ، اور انہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا ، اور حد سے گزرجانے والوں کو ہلاک کر دیا۔
لوگو، ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟
کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پیس کر رکھ دیا اور اُن کے بعد دُوسری کسی قوم کو اُٹھایا۔ جب اُن کو ہمارا عذاب محسُوس ہوا تو لگے وہاں سے بھاگنے۔(کہا گیا) "بھاگو نہیں ، جاؤ اپنے انہی گھروں میں اور عیش کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کر رہے تھے، شاید کہ تم سے پوچھا جائے"۔ کہنے لگے " ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطا وار تھے"۔ اور وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان کو کھلیان کر دیا، زندگی کا ایک شرارہ تک ان میں نہ رہا۔
ہم نے اِس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے۔ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑدیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مِٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔
زمین اور آسمان میں جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہے۔ اور جو (فرشتے) اس کے پاس ہیں وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اُس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں۔ شب و روز اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، دَم نہیں لیتے۔
کیا اِن لوگوں کے بنائے ہوئے ارضی خدا ایسے ہیں کہ ( بے جان کو جان بخش کر) اُٹھا کھڑا کرتے ہوں؟
اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دُوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین اور آسمَان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے اللہ ربّ العرش اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ وہ اپنے کاموں کے لیے (کسی کے آگے) جواب دِہ نہیں ہے اور سب جواب دِہ ہیں۔
کیا اُسے چھوڑ کر اِنہوں نے دوسرے خدا بنا لیے ہیں؟ اے محمدؐ، ان سے کہو کہ "لاؤ اپنی دلیل، یہ کتاب بھی موجود ہے جس میں میرے دَور کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے اور وہ کتابیں بھی موجود ہیں جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے نصیحت تھی"۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں، اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے تُم سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔
یہ کہتے ہیں "رحمان اولاد رکھتا ہے"۔ سبحان اللہ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزّت دی گئی ہے۔ اُس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اُس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ جو کچھ اُن کے سامنے ہےاسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ باخبر ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اُس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو، اور وہ اس کے خوف سےڈرے رہتے ہیں۔ اور جو اُن میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک خدا ہوں، تو اسے ہم جہنّم کی سزا دیں، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔
کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننےسے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو)نہیں مانتے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈُھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں۔ اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، مگر یہ ہیں کہ اس کی نشانیوں کی طرف توجّہ ہی نہیں کرتے۔ اور وُہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دِن بنائے اور سُورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔
اور اے محمدؐ، ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے۔ اگر تم مر گئے توکیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہر جاندار کو مَوت کامزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے
یہ منکرین حق جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں "کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتا ہے"؟ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمان کے ذکر سے منکر ہیں۔
انسان جلدباز مخلوق ہے۔ ابھی میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائے دیتا ہوں، جلدی نہ مچاؤ یہ لوگ کہتے ہیں "آخر یہ دھمکی پُوری کب ہو گی اگر تم سچے ہو"۔ کاش اِن کافروں کو اُس وقت کا کچھ علم ہوتا جبکہ یہ نہ اپنے منہ آگ سے بچا سکیں گے نہ اپنی پیٹھیں، اور نہ ان کو کہیں سے مدد پہنچے گی۔ وہ بلا اچانک آئے گی اور اِنہیں اِس طرح یک لخت دبوچ لے گی کہ یہ نہ اس کو دفع کر سکیں گے اور نہ اِن کو لمحہ بھر مُہلت ہی مل سکے گی۔ مذاق تم سے پہلے بھی رسُولوں کا اُڑایا جا چکا ہے، مگر اُن کا مذاق اُڑانے والے اُسی چیز کے پھیر میں آ کر رہے جس کا وہ مذاق اُڑاتے تھے۔
اے محمدؐ، اِن سے کہو، " کون ہے جو رات کو یا دن کو تمہیں رحمان سے بچا سکتا ہو"؟ مگر یہ اپنے رب کی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔ کیا یہ کچھ ایسے خدا رکھتے ہیں جو ہمارے مقابلے میں ان کی حمایت کریں؟ وہ نہ تو خود اپنی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہماری ہی تائید اُن کو حاصل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اِن لوگوں کوا ور اِن کے آباء و اجداد کو ہم زندگی کا سروسامان دیے چلے گئے یہاں تک کہ اِن کو دن لگ گئے۔ مگر کیا اِنہیں نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں؟ پھر کیا یہ غالب آ جائیں گے؟ اِن سے کہہ دو کہ " میں تو وحی کی بنا پر تمہیں متنبہ کر رہا ہوں" ____مگر بہرے پُکار کو نہیں سنا کرتے جبکہ اُنہیں خبردار کیا جائے۔ اور اگر تیرے رب کا عذاب ذرا سا انہیں چھُو جائے تو ابھی چیخ اُٹھیں کہ ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطاوار تھے۔
قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔جس کا رائی کے دانے کے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے۔ اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔
پہلے ہم موسٰیؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور اور روشنی اور "ذکر" عطاکر چکے ہیں اُن متقی لوگوں کی بھَلائی کے لیے جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈریں اور جن کو (حساب کی ) اُس گھڑی کا کھٹکا لگا ہُوا ہے۔ اور اب یہ بابرکت "ذکر" ہم نے (تمہارے لیے) نازل کیا ہے۔ پھر کیا تم اِس کو قبول کرنے سے انکاری ہو؟
اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوشمندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے۔یاد کرو وہ موقع جبکہ اُس نے اپنے باپ اوراپنی قوم سے کہا تھا کہ "یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گروِیدہ ہو رہے ہو"؟ انہوں نے جواب دیا "ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے"۔ اس نے کہا "تم بھی گمراہ ہو اورتمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے؟۔ انہوں نے کہا "کیا تو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے"؟ اُس نے جواب دیا " نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارا رب وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کارب اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے۔ اِس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں۔ اور خدا کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں ضرور تمہارے بُتوں کی خبر لوں گا"۔ چنانچہ اس نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رُجوع کریں۔ (اُنہوں نے آ کر بُتوں کا یہ حال دیکھا تو) کہنے لگے"ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ"۔(بعض لوگ )بولے "ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سُنا تھا جس کا نام ابراہیمؑ ہے"۔ انہوں نے کہا " تو پکڑ لاؤ اُسے سب کے سامنے تاکہ لوگ دیکھ لیں (اُس کی کیسی خبر لی جاتی ہے)"۔ (ابراہیمؑ کے آنے پر ) اُنہوں نے پُوچھا " کیوں ابراہیمؑ ، تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے"؟ اُس نے جواب دیا " بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پُوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں"۔ یہ سُن کو وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دِلوں میں) کہنے لگے "واقعی تم خود ہی ظالم ہو"۔ مگر پھر اُن کی مت پلٹ گئی اور بولے " تُو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں"۔ ابراہیمؑ نے کہا "پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تُف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبُودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پُوجا کر رہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے"؟ انہوں نے کہا " جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے" ۔ ہم نے کہا " اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر"۔ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیمؑ کے ساتھ بُرائی کریں۔ مگر ہم نے ان کو بُری طرح ناکام کر دیا۔اور ہم نے اُسے اور لوط کو بچا کر اُس سرزمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں۔ اور ہم نے اسے اسحاقؑ عطا کیا اور یعقوبؑ اس پر مزید، اور ہر ایک کو صالح بنایا۔ اور ہم نےاُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔ اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکٰوۃ دینے کی ہدایت کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔
اور لوطؑ کو ہم نے حکم اور علم بخشا اور اُسے اُس بستی سے بچا کر نکال دیا جو بدکاریاں کرتی تھی___درحقیقت وہ بڑی ہی بُری، فاسق قوم تھی___اور لوطؑ کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا، وہ صالح لوگوں میں سے تھا۔
اور یہی نعمت ہم نے نوحؑ کو دی۔ یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اُس نے ہمیں پکاراتھا۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو کَربِ عظیم سے نجات دی اور اُس قوم کے مقابلے میں اُس کی مدد کی جس نے ہماری آیات کو جھُٹلا دیا تھا۔ وہ بڑے بُرے لوگ تھے، پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔
اور اِسی نعمت سے ہم نے داؤدؑ اورسلیمانؑ کو سرفراز کیا۔ یاد کرو وہ موقع جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصلہ کررہے تھے جس میں رات کے وقت دُوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئی تھیں، اور ہم اُن کی عدالت خود دیکھ رہے تھے۔ اُس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، حالانکہ حکم اورعلم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔
داؤد کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخّر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے، اِس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے۔ اور ہم نے اُس کو تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تا کہ تم کو ایک دُوسرے کی مار سے بچائے، پھر کیا تم شکر گزار ہو؟ اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخّر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اُس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے۔ اور شیاطین میں سے ہم نےایسے بہت سوں کو اس کاتابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دُوسرے کام کرتے تھے۔ ان سب کے نگران ہم ہی تھے۔
اور یہی (ہوشمندی اور حکم و علم کی نعمت) ہم نے ایّوبؑ کو دی تھی۔ یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ " مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے"۔ ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا، اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے، اپنی خاص رحمت کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے۔
اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے۔ اور ان کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا کہ وہ صالحوں میں سے تھے۔
اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا۔ یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ آخر کو اُس نے تاریکیوں میں پکارا " نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قُصور کیا"۔ تب ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی، اور اِسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔
اور زکریّاؑ کو، جبکہ اس نے اپنےرب کو پُکارا کہ " اے پروردگار، مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے"۔ پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحیٰی عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا۔ یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دَوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھُکے ہُوئے تھے۔
اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ ہم نے اُس کے اندر اپنی رُوح سے پھونکا اور اُسے اور اُس کے بیٹے کو دنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا۔
یہ تمہاری امّت حقیقت میں ایک ہی امّت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔ مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ) انہوں نے آپس میں دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔_____سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔ پھر جو نیک عمل کرے گا ، اِس حال میں کہ وہ مومن ہو ،تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہو گی، اور اُسے ہم لکھ رہے ہیں۔ اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پھر پلٹ سکے۔ یہاں تک کہ جب یاجُوج و ماجُوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے اور وعدہ برحق کے پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا تو یکا یک اُن لوگوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کفر کیا تھا۔ کہیں گے "ہائے ہماری کم بختی، ہم اِس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے، بلکہ ہم خطاکار تھے"۔ بےشک تم اور تمہارے وہ معبُود جنہیں تم پوجتے ہو، جہنّم کا ایندھن ہیں، وہیں تم کو جانا ہے۔ اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے۔ اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے"۔ وہاں وہ پھُنکارے ماریں گے اور حال یہ ہو گا کہ اس میں کان پڑی آواز نہ سنائی دے گی۔ رہے وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھَلائی کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہو گا، تو وہ یقینًا اُس سے دُور رکھے جائیں گے، اس کی سرسراہٹ تک نہ سُنیں گے۔ اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔ وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا، اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ "یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا"۔
وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذِمّے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔ اور زَبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔اِس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے۔
اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔ اِن سے کہو " میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا خدا صرف ایک خدا ہے، پھر کیا تم سرِ اطاعت جھُکاتے ہو"؟ اگر وہ منہ پھیریں تو کہہ دو کہ " میں نے علی الاعلان تم کو خبردار کر دیا ہے۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے قریب ہے یا دُور۔ اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو بآوازبلند کہی جاتی ہیں اور وہ بھی جو تم چھُپَا کر کرتے ہو۔میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ (دیر) تمہارے لیے ایک فتنہ ہے اور تمہیں ایک وقتِ خاص تک کے لیے مزے کرنے کا موقع دیا جارہا ہے"۔
(آخر کار) رسولؐ نے کہا کہ "اے میرے رب، حق کے ساتھ فیصلہ کر دے، اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو اُن کے مقابلے میں ہمارا ربِّ رحمان ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے"۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ الحج کے معانی کی ترجمانی

سورۃ الحج
کے معانی کی ترجمانی
از
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ







بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

لوگو، اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے۔ جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہو گا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دُودھ پیتے بچّے سے غافل ہو جائے گی، ہر حاملہ کا حمل گِر جائےگا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔
بعض لوگ ایسے ہیں جوعِلم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں اور ہر شیطانِ سرکش کی پَیروی کرنے لگتے ہیں، حالانکہ اُس کے تو نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائےگا اسے وہ گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذابِ جہنّم کا راستہ دکھائے گا۔ لوگو اگر تمہیں زندگی بعدِ موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ (یہ ہم اس لیے بتارہے ہیں ) تا کہ تم پر حقیقت واضح کر دیں۔ ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچّے کی صُورت میں نکال لاتے ہیں (پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلےہی واپس بُلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سُوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھَبک اُٹھی اور پھُول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہےکہ اللہ ہی حق ہے، اور وہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ (اِس بات کی دلیل ہے) کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، اور اللہ ضرور اُن لوگوں کو اُٹھائے گا جو قبروں میں جا چکے ہیں۔
بعض اَور لوگ ایسے ہیں جو کسی عِلم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر، گردن اکڑائے ہوئے، خدا کے بارے میں جھکڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں۔ ایسے شخص کے لیے دُنیا میں رُسوائی ہے اور قیامت کے روز اُس کو ہم آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے____یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنےہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو اُلٹا پھر گیا۔ اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ یہ ہے صریح خسارہ۔ پھر وہ اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارتا ہے جو نہ اُس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ۔ یہ ہے گمراہی کی انتہا۔ وہ اُن کو پکارتا ہے جن کا نقصان اُن کے نفع سے قریب تر ہے۔ بدترین ہے اُس کا مولٰی اور بدترین ہے اُس کا رفیق۔ (اِس کے برعکس) اللہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، یقینًا ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔جوشخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دُنیا اور آخرت میں اُس کی کوئی مدد نہ کرے گا اُسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے، پھر دیکھ لے کہ آیا اُس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کر سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے_____ ایسی ہی کھُلی کھُلی باتوں کے ساتھ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے، اور ہدایت اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔
جو لوگ ایمان لائے، اور جو یہودی ہوئے، اور صابئی، اور نصارٰی، اور مجوس، اور جن لوگوں نے شرک کیا، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اوردرخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سےوہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں؟ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کر دے اُسے پھر کوئی عزّت دینے والا نہیں ہے، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتاہے ۔
یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے کا جھگڑا ہے اِن میں سے وہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا ہے اُن کے لیے آگ کےلباس کاٹے جا چکے ہیں، اُن کے سروں پر کھَولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سےاُن کی کھالیں ہی نہیں پیٹ کے اندر کے حِصّےتک گل جائیں گے، اور اُن کی خبر لینے کے لیے لوہے کے گُرز ہوں گے۔ جب کبھی وہ گھبرا کو جہنّم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اُسی میں دھکیل دیے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کی سزا کا مزا۔ (دوسری طرف) جو لوگ ایمان لائے اور اور جنہوں نے نیک عمل کیے اُن کو اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جِن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیے جائیں گے اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ ان کو پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی اور انہیں خدائے ستودہ صفات کا راستہ دکھایا گیا۔
جن لوگوں نے کفر کیا اور جو (آج) اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اُس مسجدِ حرام کی زیارت میں مانع ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں (اُن کی روش یقینًا سزا کی مستحق ہے)۔ اِس (مسجدِ حرام) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
یاد کرو وہ وقت جب ہم نےابراہیمؑ کے لیے اِس گھر(خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ " میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو،ا ور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو، اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں، تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انہیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں، پھر اپنا مَیل کچَیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں، اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔
یہ تھا (تعمیرِ کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے
اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے، ما سوا اُن چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں۔ پس بُتوں کی گندگی سےبچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو، یکسُو ہو کر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گِر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے۔
یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرےتو یہ دلوں کے تقوٰی سے ہے۔ تمیں ایک وقتِ مقرر تک اُن (ہدی کے جانوروں) سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے پھر اُن (کے قربان کرنے )کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے۔
ہر امّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تا کہ (اُس امّت کے لوگ) اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں۔ (اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے ) پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیعِ فرمان بنو۔ اور اے نبیؐ، بشارت دے دے عاجزانہ رَوش اختیار کرنے والوں کو، جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سُنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اُٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نےاُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھَلائی ہے، پس انہیں کھڑا کرکے ان پر اللہ کا نام لو، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹِک جائیں تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھِلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارےلیے مسخّر کیا ہے تا کہ تم شکریہ ادا کرو۔نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسےتمہارا تقوٰی پہنچتا ہے۔ اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تا کہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو۔ اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو۔
یقینًا اللہ مدافعت کرتا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں۔ یقینًا اللہ کسی خائن کافرِ نعمت کو پسند نہیں کرتا۔ اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینًا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصُور پر کہ وہ کہتے تھے "ہمارا رب اللہ ہے"۔ اگر اللہ لوگوں کوایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔اللہ بڑا طاقتور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکٰوۃ دیں گے، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملا ت کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اے نبیؐ، اگر وہ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو اُن سے پہلے قومِ نوحؑ اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراھیمؑ اور قومِ لوطؑ اور اہلِ مَدیَن بھی جھٹلا چکے ہیں اور موسٰیؑ بھی جھٹلائے جا چکے ہیں۔ ان سب منکرینِ حق کو میں نے پہلے مُہلت دی، پھر پکڑ لیا۔ اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی۔ کتنی ہی خطاکاربستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر اُلٹی پڑیں ہیں، کتنے ہی کنویں بیکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہُوا کرتا ہے۔کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں، مَیں نے ان کو پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا۔ اور سب کو واپس تومیرے پاس ہی آنا ہے۔
اے محمدؐ، کہہ دو کہ "لوگو، میں تو تمہارے لیے صرف وہ شخص ہوں جو ( بُرا وقت آنے سےپہلے) صاف صاف خبردار کردینے والا ہوں۔ پھر جو ایمان لائیں گےا ور نیک عمل کریں گے اُن کے مغفرت ہے اور عزّت کی روزی۔ اور جو ہماری آیات کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے وہ دوزخ کے یار ہیں۔
اور اے محمدؐ، تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسول ایسا بھیجا ہے نہ نبی (جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو کہ) جب اُس نے تمنّا کی ، شیطان اس کی تمنّا میں خلل انداز ہو گیا۔ اِس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں کرتا ہےاللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات کو پختہ کر دیتا ہے، اللہ علیم ہے اور حکیم۔(وہ اس لیے ایسا ہونے دیتا ہے) تا کہ شیطان کی ڈالی ہُوئی خرابی کو فتنہ بنا دے اُن لوگوں کے لیےجن کے دلوں کو (نفاق کا ) روگ لگا ہُوا ہےاور جن کے دل کھوٹے ہیں ____ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں____اور علم سے بہرہ مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے او ر وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دل اس کے آگے جھُک جائیں، یقینًا اللہ ایمَان لانے والوں کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ اِنکار کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ یا تو اُن پر قیامت کی گھڑی اچانک آ جائے، یا ایک منحوس دن کا عذاب نازل ہو جائے۔ اُس روز بادشاہی اللہ کی ہو گی، اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ جو ایمان رکھنے والے اور عمل صالح کرنے والے ہوں گے وہ نعمت بھری جنتوں میں جائیں گے، اور جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور ہماری آیات کو جھُٹلایا ہو گا اُن کے لیے رسوا کن عذاب ہو گا۔ اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر قتل کردیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھّا رزق دے گا۔ اور یقینًا اللہ ہی بہترین رازق ہے۔ وہ انہیں ایسی جگہ پہنچائے گاجس سے وہ خوش ہو جائیں گے۔ بے شک اللہ علیم اور حلیم ہے۔ یہ تو ہے اُن کا حال، اور جو کوئی بدلہ لے، ویسا ہی جیسا اس کے ساتھ کیا گیا، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تواللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔
یہ اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے اور وہ سمیع و بصیر ہے۔یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہ سب باطل ہیں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں اور اللہ ہی بالادست اور بزرگ ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کی بدولت زمین سرسبز ہوجاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ لطیف و خبیر ہے۔ اُسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔بے شک وہی غنی وحمید ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اُس نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہےجو زمین میں ہے، اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے، اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئےکہ اس کے اِذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گر سکتا؟ واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔ وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی ہے، وہی تم کو موت دیتا ہےاور وہی پھر تم کو زندہ کرے گا۔ سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی مُنکرِ حق ہے۔
ہر امت کے لیے ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہےجس کی وہ پیروی کرتی ہے، پس اے محمدؐ، وہ اِس معاملہ میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ تم اپنے رب کی طرف دعوت دو، یقینًا تم سیدھے راستے پر ہو۔اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ " جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کو خوب معلوم ہے، اللہ قیامت کے روز تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔" کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کر رہے ہیں جن کے لیے نہ تو اس نے کوئی سند نازل کی ہےاور نہ یہ خود اُن کے بارے میں کوئی علم رکھتے ہیں۔اِن ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔اور جب ان کو ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکرینِ حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں اور ایسا محسُوس ہوتا ہے کہ ابھی وہ اُن لوگوں پر ٹوٹ پڑیں گے جو انہیں ہماری آیات سناتے ہیں۔ ان سے کہو "میں بتاؤں تمہیں کہ اس سے بدتر چیز کیا ہے؟ آگ، اللہ نے اُسی کا وعدہ اُن لوگوں کے حق میں کر رکھا ہے جو قبولِ حق سے انکار کریں، اور وہ بہت ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔ "
لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سنو۔ جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مِل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ وہ سمیع اور بصیر ہے۔ جو کچھ اُن کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے، اور سارے معاملات اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام "مسلم" رکھاتھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے)۔ تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو، زکٰوۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔ وہ ہے تمہارا مولٰی، بہت ہی اچھا ہے وہ مَولٰی اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ المومنون

سورۃ المومنون

یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے جو:
اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، لغویات سے دور رہتے ہیں۔ زکٰوۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملکِ یمین میں ہوں کہ ان پر (محفوظ نہ رکھنے میں) وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، اپنی امانتوں اور اپنے عہدو یمان کا پاس رکھتے ہیں، اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لو تھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا،پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقینًا تم اٹھائے جاؤ گے۔
اور تمہارے اوہر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے۔ اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھیرا دیا۔ ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں۔ پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ پیدا کر دیے، تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سےلذیذ پھل ہیں اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو۔ اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طُورِ سَیۡناء سے نکلتا ہے، تیل بھی لیے ہوئے اگتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی۔
اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ہم تہیں پلاتے ہیں، اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دوسرے دُوسرے فائدے بھی ہیں۔ اُن کو تم کھاتے ہو اور اُن پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو۔
ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ اس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی اور معبود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟" اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگے کہ " یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا۔ اِس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔ اللہ کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا۔ یہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سنی ہی نہیں (کہ بشر رسول بن کر آئے)۔ کچھ نہیں، بس اس آدمی کو ذرا جنون لاحق ہو گیا ہے۔ کچھ مدت اور دیکھ لو (شاید افاقہ ہو جائے)۔" نوحؑ نے کہا " پروردگار، ان لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تو ہی میری مدد فرما۔" ہم نے اس پر وحی کی کہ " ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر۔ پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں۔ پھر جب تو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی۔ اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے۔"
اِس قصے میں بڑی نشانیاں ہیں اور آزمائش تو ہم کر کے ہی رہتے ہیں۔
ان کے بعد ہم نے ایک دوسرے دَور کی قوم اٹھائی۔ پھر اُن میں خود انہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا (جس نے انہیں دعوت دی) کہ اللہ کی بندگی کرو، تمہارے لیے اُس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے ، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟" اُس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا، جن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودہ کر رکھا تھا، وہ کہنے لگے " یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا۔ جو کچھ تم کھاتے ہو وہی یہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی یہ پیتا ہے۔ اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت قبول کر لی تو تم گھاٹے ہی میں رہے۔ یہ تمہیں اطلاع دیتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جاؤ گے اُس وقت تم (قبروں سے ) نکالے جاؤ گے؟ بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے۔ زندگی کچھ نہیں ہے مگر بس یہی دنیا کی زندگی۔ یہیں ہم کو مرنا اور جینا ہے اور ہم ہرگز اٹھائے جانے والے نہیں ہیں۔ یہ شخص خدا کے نام پر محض جھوٹ گھڑ رہا ہے اور ہم کبھی اس کی ماننے والے نہیں ہیں۔" رسول نے کہا "پروردگار، اِن لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے، اس پر اب تو ہی میری نُصرت فرما۔" جواب میں ارشاد ہوا " قریب ہے وہ وقت جب یہ اپنے کیے پہ پچھتائیں گے۔" آخرکار ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ایک ہنگامہ عظیم نے ان کو آ لیا اور ہم نے ان کو کچرا بنا کر پھینک دیا۔ دُور ہو ظالم قوم۔
پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں اٹھائیں۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوئی اور نہ اس کے بعد ٹھیر سکی۔ پھر ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے۔ جس قوم کے پاس بھی اس کا رسول آیا، اس نے اُسے جھٹلایا، اور ہم ایک کے بعد ایک قوم کو ہلاک کرتے چلے گئے حتٰی کہ ان کو بس افسانہ ہی بنا کر چھوڑا۔ پھٹکار اُن لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے!
پھر ہم نے موسٰیؑ اور اس کے بھائی ہارونؑ کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند کےساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا۔ مگر انہوں نے تکبر کیا اور بڑی دوں کی لی۔ کہنے لگے " کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں؟ اور آدمی بھی وہ جن کی قوم ہماری بندی ہے۔" پس انہوں نے دونوں کو جھٹلا دیا اور ہلاک ہونے والوں میں جا ملے۔ اور موسٰیؑ کو ہم نے کتاب عطا فرمائی تاکہ لوگ اس سے رہنمائی حاصل کریں۔
اور ابنِ مریم اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشان بنایا اور ان کو ایک سطحِ مرتفع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے۔
اے پیغمبرو، کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں۔ اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس مجھی سے ڈرو۔
مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے۔ اچھا، تو چھوڑو انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقتِ خاص تک۔
کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال و اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں، اصل معاملے کا انہیں شعور نہیں ہے۔ بھَلائیوں کی طرف دَوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے تو در حقیقت وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں، جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ ہم کسی شخص کو اس کی مقدرت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے، اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو ( ہر ایک کا حال) ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے، اور لوگوں پر ظلم بہرحال نہیں کیا جائے گا۔مگر یہ لوگ اس معاملے سے بے خبر ہیں۔ اور ان کے اعمال بھی اس طریقے سے (جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے) مختلف ہیں۔ وہ اپنے یہ کرتوت کیے چلے جائیں گے یہاں تک کہ جب ہم ان کے عیاشوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے تو پھر وہ ڈکرانا شروع کر دیں گے۔اب بند کرو اپنی فریاد و فغاں، ہماری طرف سے اب کوئی مدد تمہیں نہیں ملنی۔ میری آیات سنائی جاتی تھیں تو تم (رسول کی آواز سُنتے ہی) الٹے پاؤں بھاگ نکلتے تھے، اپنے گھمنڈ میں اُس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اس پر باتیں چھانٹتے اور بکواس کیا کرتے تھے۔
تو کیا اِن لوگوں نے کبھی اِس کلام پر غور نہیں کیا ؟ یا وہ کوئی ایسی بات لایا ہے جو کبھی ان کے اسلاف کے پاس نہ آئی تھی؟ یا یہ اپنے رسول سے کبھی کے واقف نہ تھے کہ (ان جانا آدمی ہونے کے باعث) اس سے بدکتے ہیں؟ یا یہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ مجنون ہے؟ نہیں بلکہ وہ حق لایا ہے اور حق ہی ان کی اکثریت کو ناگوار ہے۔اور حق اگر کہیں اِن کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ نہیں، بلکہ ہم ان کا اپنا ہی ذکر اُن کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ذکر سے منہ موڑ رہے ہیں۔
کیا تُو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تیرے رب کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ تُو تو ان کوسیدھے راستے کی طرف بلا رہا ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ راہِ راست سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں۔
اگر ہم اِن پر رحم کریں اور وہ تکلیف جس میں آج کل یہ مبتلا ہیں دُور کر دیں تو یہ اپنی سرکشی میں بالکل ہی بہک جائیں گے۔ اِن کا حال تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں تکلیف میں مبتلا کیا، پھر بھی یہ اپنے رب کے آگے نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ البتہ جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ہم اِن پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تو یکایک تم دیکھو گے کہ اس حالت میں یہ ہر خیر سے مایوس ہیں۔
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سُننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیے۔ مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا، اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ وہی زندگی نخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ گردشِ لیل و نہار اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی؟ مگر یہ لوگ وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے پیش رَو کہہ چکے ہیں۔ یہ کہتے ہیں " کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے تو ہم کو پھر زندہ کر کے اٹھایا جائے گا؟ ہم نے بھی یہ وعدے بہت سنے ہیں اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بھی سنتے رہے ہیں۔ یہ محض افسانہائے پارینہ ہیں۔"
ان سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو، کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی۔ کہو، پھر تم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟ ان سے پوچھو، ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے الّٰلہ۔ کہو، پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ ان سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے۔ کہو، پھر کہاں سے تم کو دھوکا لگتا ہے؟ جو امرِحق ہے وہ ہم اِن کے سامنے لے آئے ہیں، اور کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ الہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لےکر الگ ہو جاتا اور پھر وہ ایک دسرے پر چڑھ دوڑتے۔ پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔ کھلے اور چھپے کا جاننے والا، وہ بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ تجویز کر رہے ہیں۔
اے نبیؐ، دعا کرو کہ " پروردگار، جس عذاب کی اِن کو دھمکی دی جارہی ہے وہ اگر میری موجودگی میں تو لائے، تو اے میرے رب، مجھے ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجیو۔" اور حقیقت یہ ہے کہ ہم تمہاری آنکھوں کے سامنے ہی وہ چیز لے آنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں جس کی دھمکی ہم انہیں دے رہے ہیں۔
اے نبیؐ، برائی کو اس طریقہ سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خوب معلوم ہیں۔ اور دعا کرو کہ " پروردگار، میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے میرے رب، میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔"
(یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ " اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں، امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا۔" ہرگز نہیں، یہ بس ایک بات ہےجو وہ بک رہا ہے۔ اب اِن سب (مرنے والوں ) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔ پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا، ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا ور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ اُس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا۔ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ آگ ان کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اور اُن کے جبڑے باہر نکل آئیں گے۔ " کیا تم وہی لوگ نہیں ہو کہ میری آیات تمہیں سنائی جاتی تھیں تو تم انہیں جھٹلاتے تھے؟" وہ کہیں گے " اے ہمارے رب، ہماری بد بختی ہم پر چھا گئی تھی۔ واقعی ہم گمراہ لوگ تھے۔ اے پروردگار، اب ہمیں یہاں سے نکال دے۔ پھر ہم ایسا قصور کریں تو ظالم ہوں گے۔" اللہ تعالی جواب دے گا " دور ہو میرے سامنے سے، پڑے رہو اسی میں اور مجھ سے بات نہ کرو۔ تم وہی لوگ تو ہو کہ میرے کچھ بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار، ہم ایمان لائے، ہیں معاف کر دے، ہم پر رحم کر، تُو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے، تو تم نے ان کا مذاق بنا لیا۔ یہاں تک کہ اُن کی ضد نے تمہیں یہ بھی بھُلا دیا کہ میں بھی کوئی ہوں، اور تم ان پر ہنستے رہے۔ آج اُن کے اُس صبر کا میں نے یہ پھل دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں۔" پھر اللہ تعالی ان سے پوچھے گا "بتاؤ، زمین میں تم کتنے سال رہے؟" وہ کہیں گے "ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ ہم وہاں ٹھیرے ہیں، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے" ارشاد ہو گا "تھوڑی ہی دیر ٹھیرے ہو نا، کاش تم نے یہ اُس وقت جانا ہوتا۔کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟"
پس بالاوبرتر ہے اللہ، پادشاہِ حقیقی، کوئی خدا اس کے سوا نہیں، مالک ہے عرشِ بزرگ کا۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے، جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔
اے نبیؐ، کہو، میرے رب درگزر فرما اور رحم کر، تو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ النور

یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے، اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں، شاید کہ تم سبق لو۔
زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کودامنگیر نہ ہواگر تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔
زانیہ نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ۔ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک۔ اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر۔
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں. ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور (ان کے‌حق میں) غفور و رحیم ہے.
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ایک شخص کی شہادت ( یہ ہے کہ ) وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ (اپنے الزام میں ) سچا ہے۔اور پانچویں بار کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ (اپنے الزام میں) جھوٹا ہو۔ اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص (اپنے الزام میں) جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اُس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ (اپنے الزام میں) سچا ہو۔ تم لوگوں پر اللہ کا فضل اور اس کا رحم نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا التفات فرمانے والا اور حکیم ہے، تو (بیویوں پر الزام کا معاملہ تمہیں بڑی پیچیدگی میں ڈال دیتا)۔
جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔ اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے۔ جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اِس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے تو عذابِ عظیم ہے۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟ وہ لوگ ( اپنے الزام کے ثبوت میں) چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں، اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آ لیتا۔ (ذرا غور تو کرو، اس وقت تم کیسی سخت غلطی کر رہے تھے) جب تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔
کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ “ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ، یہ تو ایک بہتانِ عظیم ہے۔” اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو۔ اللہ تمہیں صاف صاف ہدایات دیتا ہے اور وہ علیم وحکیم ہے۔
جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم وکرم تم پر نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق و رحیم ہے (تو یہ چیز جو ابھی تمہارے اندر پھیلائی گئی تھی بدترین نتائج دکھا دیتی)۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہو سکتا۔ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے، اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے۔ انہیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے۔
جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ وہ اس دن کو بھول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھرپور دے دیگا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا۔
خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔ ان کا دامن پاک ہے ان باتوں سے جو بنانے والے بناتے ہیں، ان کے لیے مغفرت ہے اور رزقِ کریم۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دیدی جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں اور جن میں تمہارے فائدے (یا کام ) کی کوئی چیز ہو۔ تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو، سب کی اللہ کو خبر ہے۔
اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے با خبر رہتا ہے۔
اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے۔ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھینیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے:
شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے لونڈی غلام، وہ زیرِدست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو ا س کا لوگوں کو علم ہو جائے۔
اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔
تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔ اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں انہیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں کریں، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے۔
اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتَبت کی درخواست کریں ان سے مُکاتبت کر لو اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے، اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔
اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں، اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لیے غفور و رحیم ہے۔
ہم نے صاف صاف ہدایت دینے والہ آیات تمہارے پاس بھیج دی ہیں، اور ان قوموں کی عبرتناک مثالیں بھی ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں اور وہ نصیحتیں ہم نے کر دی ہیں جو ڈرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں۔
 

قسیم حیدر

محفلین
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہو جو شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بڑھکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، (اس طرح ) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں)۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے راہنمائی فرماتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔ (اس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) اُن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اِذن دیا ہے۔ اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خریدوفروخت اللہ کی یاد سے اور اقامتِ نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی۔ وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پَتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی، ّ (اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں) تا کہ اللہ ان کے بہترین اعمال کی جزا ان کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔ ( اِس کے برعکس) جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسے ہے جیسے دشتِ بے آب میں سَراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا، مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا، بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا، جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا، اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔ یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اس پر ایک اور موج، اور اس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔ جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پڑ پھیلائے اڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آ تے ہیں۔ اور وہ آسمان سے، ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے، پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کر رہا ہے۔ اس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے۔
اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا۔ کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر۔ جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ہم نے صاف صاف حقیقت بتانے والی آیات نازل کر دی ہیں، آگے صراطِ مستقیم کی ہدایت اللہ ہی جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسولؐ پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہے۔ جب ان کو بُلایا جاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف، تاکہ رسول ان کے آپس کے مقدمات کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کَترا جاتا ہے۔ البتہ اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسول کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آ جاتے ہیں۔ کیا ان کے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہُوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں۔ ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تا کہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سُنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں۔
یہ (منافق) اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ “آپ حکم دیں تو ہم گھروں سے نکل کھڑے ہوں۔” ان سے کہو “قسمیں نہ کھاؤ، تمہاری اطاعت کا حال معلوم ہے، تمہارے کرتوتوں سے اللہ بے خبر نہیں ہے۔” کہو “ اللہ کے مطیع بنو اور رسول کے تابعِ فرمان بن کر رہو۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ رسول پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اُس کا ذمے دار وہ ہے اور تم پر جس فرض کا بار ڈالا گیا ہے اس کے ذمہ دار تم۔ اُس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پاؤ گے۔ ورنہ رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ صاف صاف پہنچا دے”۔
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔
نماز قائم کرو، زکٰوۃ دو، اور رسول کی اطاعت کرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ جو لوگ کفر کر رہے ہیں ان کے متعلق اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ وہ زمین پر اللہ کو عاجز کر دیں گے۔ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بڑا ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمہارے مملوک اور تمہارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمہارے پاس آیا کریں: صبح کی نماز سے پہلے، اور دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمہارے لیے پردے کے وقت ہیں۔ اِن کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ اُن پو، تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنے ارشادات کی توضیح کرتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔ اور جب تمہارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح اُن کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں۔ اس طرح اللہ اپنی آیات تمہارے سامنے کھولتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔
اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں، تاہم وہ بھی حیاداری ہی برتیں تو ان کے حق میں اچھا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اُوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھُوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کُنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے۔
مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسول کے ساتھ ہوں تو اُس کی اجازت لیے بغیر نہ جائیں۔ جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسول کے ماننے والے ہیں، پس جب وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کیا کرو، اللہ یقینًا غفور و رحیم ہے۔
مسلمانو، اپنے درمیان رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بُلانا نہ سمجھ بیٹھو۔ اللہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دُوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چپکے سے سَٹک جاتے ہیں۔ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے۔ خبردار رہو، آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ تم جس روش پر بھی ہو اللہ اس کو جانتا ہے۔ جس روز لوگ اس کی طرف پلٹیں گے وہ اُنہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں۔ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
قسیم۔ آپ نے اصل میں کیا فانٹ استعمال کیا ہے جو یہاں مسکھڑے بن گیا ہے!!! جلد تصحیح کریں کہ معاملہ تفسیر قرآن کا ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
درست کر دیا ہے۔ تہاما فانٹ تھا۔wsiwygمیں ایڈٹ کیا تو نہ معلوم کیا کچھ آ گیا اس میں۔ بہرحال ابھی ٹھیک ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ الفرقان
کے معانی کی ترجمانی

نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو۔ وہ جو زمین اور آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے، جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔ لوگوں نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جِلا سکتے ہیں، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں۔
جن لوگوں نے نبیؐ کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اِس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اِس کام میں اس کی مدد کی ہے۔ بڑا ظلم اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کرتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں۔ اے محمدؐ، ان سے کہو کہ “اسے نازل کیا ہے اُس نے جو زمین اور آسمان کا بھید جانتا ہے”۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور رحیم ہے۔
کہتے ہیں “ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں کو) دھمکاتا؟ یا اور کچھ نہیں تو اِس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی) روزی حاصل کرتا”۔ اور ظالم کہتے ہیں “ تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو”۔ دیکھو، کیسی کیسی عجیب حجتیں یہ لوگ تمہارے آگے پیش کر رہے ہیں، ایسے بہکے ہیں کہ کوئی ٹھکانے کی بات اِن کو نہیں سوجھتی۔ بڑا بابرکت ہے وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے، (ایک نہیں) بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں، اور بڑے بڑے محل۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ “اُس گھڑی” کو جھُٹلا چکے ہیں۔ اور جو اُس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔ وہ جب دور سے اِن کو دیکھے گی تو یہ اُس کے غضب اور جوش کی آوازیں سن لیں گے۔ اور جب یہ دست و پا بستہ اُس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے۔ (اُس وقت ان سے کہا جائے گا کہ ) آج ایک موت کو نہیں بہت سے مَوتوں کو پکارو۔
اِن سے پوچھو، یہ انجام اچھا ہے یا وہ اَبدی جنت جس کا وعدہ خداترس پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے؟ جو اُن کے اعمال کی جزا اور اُن کے سفر کی آخری منزل ہو گی، جس میں اُن کی ہر خواہش پوری ہو گی، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جس کا عطا کرنا تمہارے پروردگار کے ذمے ایک واجب الادا وعدہ ہے۔
اور وہ وہی دن ہو گا جب کہ (تمہارا رب) اِن لوگوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے اُن معبودوں کو بھی بُلا لے گا جنہیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پوج رہے ہیں، پھر وہ اُن سے پوچھے گا “ کیا تم نے میرے اِن بندوں کر گمراہ کیا تھا؟ یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے”؟ وہ عرض کریں گے “پاک ہے آپ کی ذات، ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولا بنائیں۔ مگر آپ نے اِن کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامانِ زندگی دیا حتٰی کہ یہ سبق بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے”۔ یوں جھٹلا دیں گے وہ (تمہارے معبود) تمہاری اُن باتوں کو جو آج تم کہہ رہے ہو، پھر تم نہ اپنی شامت ٹال سکو گے نہ کہیں سے مدد پا سکو گے۔ اور جو بھی تم میں سے ظلم کرے اسے ہم سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
اے محمدؐ، تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے ہیں وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔ دراصل ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کےلیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ کیا تم صبر کرتے ہو؟ تمہارا رب سب کچھ دیکھتا ہے۔
جو لوگ ہمارے حضور پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں “کیوں نہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے جائیں؟ یا پھر ہم اپنے رب کو دیکھیں”۔ بڑا گھمنڈ لے بیٹھے یہ اپنے نفس میں اور حد سے گزر گئے یہ اپنی سرکشی میں۔ جس روز یہ فرشتوں کو دیکھیں گے وہ مجرموں کے لیے کسی بشارت کا دن نہ ہوگا، چیخ اٹھیں گے کہ پناہ بخدا، اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اُسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے۔ بس وہی لوگ جو جنت کے مستحق ہیں اُس دن اچھی جگہ ٹھیریں گے اور دوپہر گزارنے کو عمدہ مقام پائیں گے۔ آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روز نمودار ہو گا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتار دیے جائیں گے۔ اُس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہو گی۔ اور وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہو گا۔ ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا “کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میرے کم بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اُس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی، شیطان انسان کے حق میں بڑا ہی بےوفا نکلا۔” اور رسول کہے گا کہ “اے میرے رب، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا۔”
اے محمدؐ، ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی رہنمائی اور مدد کو کافی ہے۔
منکرین کہتے ہیں “اِس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اُتار دیا گیا؟”۔ ہاں، ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں، اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے۔ اور (اس میں یہ مصلحت بھی ہے) کہ جب کبھی وہ تمہارے سامنے کوئی نرالی بات (یا عجیب سوال) لے کر آئے، اُس کا ٹھیک جواب بروقت ہم نے تمہیں دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی۔ جو لوگ اوندھے منہ جہنم کی طرف دھکیلے جانے والے ہیں ان کا موقف بہت بُرا اور ان کی راہ حد درجہ غلط ہے۔
ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارونؑ کو مددگار کے طور پر لگایا اور اُن سے کہا کہ جاؤ اُس قوم کی طرف جس نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے۔ آخر کار اُن لوگوں کو ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا۔ یہی حال قومِ نوحؑ کا ہوا جب انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ ہم نے اُن کو غرق کر دیا اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک نشانِ عبرت بنا دیا اور ان ظالموں کے لیے ایک دردناک عذاب ہم نے مہیا کر رکھا ہے۔ اِسی طرح عاد اور ثمود اور اصحاب الرس اور بیچ کی صدیوں کے بہت سے لوگ تباہ کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے (پہلے تباہ ہونے والوں کی) مثالیں دے دے کر سمجھایا اور آخر کار ہر ایک کو غارت کر دیا۔ اور اُس بستی پر تو اِن کا گزر ہو چکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی۔ کیا انہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہو گا؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں۔ (کہتے ہیں) “کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ اِس نے تو ہمیں گمراہ کر کے اپنے معبودوں سے برگشتہ ہی کر دیا ہوتا اگر ہم اُن کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے”۔ اچھا، وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب دیکھ کر اِنہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کو گمراہی میں دور نکل گیا تھا۔
کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے۔
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا۔ ہم نے سورج کو اُس پر دلیل بنایا، پھر (جیسے جیسے سورج اٹھتا جاتا ہے) ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔
اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس، اور نیند کو سکونِ موت، اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا۔
اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بشارت بنا کر بھیجتا ہے۔ پھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے تا کہ ایک مردہ علاقے کو اس کے ذریعے زندگی بخشے اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرے۔ اس کرشمے کو ہم بار بار ان کے سامنے لاتے ہیں تا کہ وہ کچھ سبق لیں، مگر اکثر لوگ کفر اور ناشکری کے سوا کوئی دوسرا رویہ اختیار کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک نذیر اٹھا کھڑا کرتے۔ پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہادِ کبیر کرو۔
اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے۔ ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور۔ اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔
اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔
اس خدا کو چھوڑ کر لوگ اُن کو پوج رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، اور اوپر سے مزید یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے۔
اے محمدؐ، تم کو تو ہم نے بس ایک مبشِّر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ اِن سے کہہ دو کہ “میں اس کام پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا، میری اُجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے۔”
اور اے محمدؐ، اُس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں۔ اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اُسی کا باخبر ہونا کافی ہے۔ وہ جس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمان کو اور اُن ساری چیزوں کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں، پھر آپ ہی (کائنات کے تختِ سلطنت) “عرش” پر جلوہ فرما ہوا۔ رحمٰن، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو۔
اِن لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں “رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں”؟ یہ دعوت ان کی نفرت میں الٹا اور اضافہ کر دیتی ہے۔
بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا۔ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے، یا شکرگزار ہونا چاہے۔
رحمان کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دعائیں کرتے ہیں کہ “اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اُس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے”۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرّر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ اِلّا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور رحیم ہے۔ جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔ (اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں، جنہیں اگر اُن کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔ جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ “اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد دے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا”۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزلِ بلند کی شکل میں پائیں گے۔ آداب و تسلیمات سے اُن کا استقبال ہو گا۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور وہ مقام۔
اے محمدؐ، لوگوں سے کہو “میرے رب کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو۔ اب کہ تم نے جھٹلا دیا ہے، عنقریب وہ سز پاؤ گے کہ جان چھڑانی محال ہو گی۔”
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ الشعراء کے معانی کی ترجمانی
ط۔ س۔ م۔
یہ کتابِ مبین کی آیات ہیں۔ اے محمدؐ، شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ہم چاہیں تو آسمان سے ایسی نشانی نازل کر سکتے ہیں کہ اِن کی گردنیں اس کے آگے جھک جائیں۔ اِن لوگوں کے پاس رحمان کی طرف سے جو نئی نصیحت بھی آتی ہے یہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اب کہ یہ جھٹلا چکے ہیں، عنقریب اِن کو اس چیز کی حقیقت (مختلف طریقوں سے) معلوم ہو جائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔
اور کیا انہوں نے کبھی زمین پر نگاہ نہیں ڈالی کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں ہر طرح کی عمدہ نباتات اس میں پیدا کی ہیں؟ یقینًا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔
اِنہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسٰیؑ کو پکارا “ظالم قوم کے پاس جا، فرعون کی قوم کے پاس، کیا وہ ڈرتے نہیں”؟ اُس نے عرض کیا “اے رب، مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے۔ میرا سینہ گھٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی۔ آپ ہارون کی طرف رسالت بھیجیں۔ اور مجھ پر اُن کے ہاں ایک جُرم کا الزام بھی ہے، اس لیے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔” فرمایا “ہرگز نہیں، تم دونوں جاؤ ہماری نشانیاں لے کر، ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔ فرعون کے پاس جاؤ اور اس کے کہو، ہم کو رب العٰٰلمین نے اس لیے بھیجا ہے کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے۔”
فرعون نے کہا “ کیا ہم نے تجھ کو اپنے ہاں بچہ سا نہیں پالا تھا؟ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے، اور اس کے بعد کر گیا جو کچھ کہ کر گیا، تو بڑا احسان فراموش آدمی ہے”۔
موسٰیؑ نے جواب دیا “اُس وقت وہ کام میں نے نادانستگی میں کر دیا تھا۔ پھر میں تمہارے خوف سے بھاگ گیا۔ اس کے بعد میرے رب نے مجھ کو حکم عطا کیا اور مجھے رسولوں میں شامل کر لیا۔ رہا تیرا احسان جو تو نے مجھ پر جتا یا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا تھا”۔
فرعون نے کہا “اور یہ رب العالمین کیا ہوتا ہے”؟
موسٰیؑ نے جواب دیا “آسمان اور زمین کا رب، اور اُن سب چیزوں کا رب جو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں، اگر تم یقین لانے والے ہو”۔
فرعون نے اپنے گردوپیش کے لوگوں سے کہا “سُنتے ہو”؟
موسٰیؑ نے کہا “تمہارا رب بھی اور تمہارے ان آباء و اجداد کا رب بھی جو گزر چکے ہیں”۔
فرعون نے (حاضرین سے) کہا “تمہارے یہ رسول صاحب جو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں، بالکل ہی پاگل معلوم ہوتے ہیں”۔
موسٰیؑ نے کہا “مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب، اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں”۔
فرعون نے کہا “اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو تجھے میں اُن لوگوں میں شامل کر دوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں”۔
موسٰیؑ نے کہا “اگرچہ میں لے آؤں تیرے سامنے ایک صریح چیز بھی”؟
فرعون نے کہا “اچھا تو لے آ اگر تو سچا ہے”۔
(اس کی زبان سے یہ بات نکلتے ہی) موسٰیؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک صریح اژدھا تھا۔ پھر اُس نے اپنا ہاتھ (بغل سے) کھینچا اور وہ سب دیکھنے والوں کےسامنے چمک رہا تھا۔
فرعون اپنے گردوپیش کے سرداروں سے بولا “یہ شخص یقینًا ایک ماہر جادوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو ملک سے نکال دے۔ اب بتاؤ تم کیا حکم دیتے ہو”؟
انہوں نے کہا “اسے اور اس کے بھائی کو روک لیجیے اور شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر سیانے جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں”۔
چنانچہ ایک روز مقرر وقت پر جادوگر اکٹھے کر لیے گئے اور لوگوں سے کہا گیا “تم اجتماع میں چلو گے؟ شاید کہ ہم جادوگروں کے دین ہی پر رہ جائیں اگر وہ غالب رہے”۔
جب جادوگر میدان میں آ گئے تو انہوں نے فرعون سے کہا “ہمیں انعام تو ملے گا اگر ہم غالب رہے”؟
اس نے کہا “ہاں، اور تم تو اس وقت مقربین میں شامل ہو جاؤ گے”۔
موسٰیؑ نے کہا “پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے”۔
انہوں نے فورًا اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینک دیں اور بولے “فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے”۔ پھر موسٰیؑ نے اپنا عصا پھینکا تو یکایک وہ ان کے جھوٹے کرشموں کو ہڑپ کرتا چلا جا رہا تھا۔ اس پر سارے جادوگر بے اختیار سجدے میں گر پڑے اور بول اٹھے کہ “مان گئے ہم رب العالمین کو، موسٰیؑ اور ہارونؑ کے رب کو”۔
فرعون نے کہا “تم موسٰیؑ کی بات مان گئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا! ضرور یہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ اچھا، ابھی تمہیں معلوم ہوا جاتا ہے، میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں میں کٹواؤں گا اور تم سب کو سولی چڑھا دوں گا”۔
انہوں نے جواب دیا “کچھ پرواہ نہیں، ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے، اور ہمیں توقع ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کر دے گا کیونکہ سب سے پہلے ہم ایمان لائے ہیں”۔
ہم نے موسٰیؑ کو وحی بھیجی کہ “راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ، تمہارا پیچھا کیا جائے گا”۔ اس پر فرعون نے (فوجیں جمع کرنے کے لیے) شہروں میں نقیب بھیج دیے (اور کہلا بھیجا) کہ “یہ کچھ مٹھی بھر لوگ ہیں، اور انہوں نے ہم کو بہت ناراض کیا ہے، اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکنا رہنا ہے”۔ اِس طرح ہم انہیں ان کے باغوں اور چشموں اور خزانوں اور ان کے بہترین قیام گاہوں سے نکال لائے۔ یہ تو ہوا اُن کے ساتھ، اور (دوسری طرف) بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث کر دیا۔
صبح ہوتے ہی یہ لوگ اُن کے تعاقب میں چل پڑے۔ جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسٰیؑ کے ساتھی چیخ اٹھے کہ “ہم تو پکڑے گئے”۔ موسٰیؑ نے کہا “ہرگز نہیں۔ میرے ساتھ میرا رب ہے۔ وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا”۔ ہم نے موسٰیؑ کو وحی کے ذریعہ سے حکم دیا کہ “مار اپنا عصا سمندر پر”۔ یکایک سمندر پھَٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہو گیا۔ اُسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے۔ موسٰیؑ اور اُن سب لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے، ہم نے بچا لیا، اور دوسروں کو غرق کر دیا۔
اس واقعہ میں ایک نشانی ہے، مگر اِن لوگوں میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔
اور اِنہیں ابراہیمؑ کا قصہ سناؤ جبکہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا تھا کہ “یہ کیا چیزیں ہیں جن کو تم پوجتے ہو”؟ انہوں نے جواب دیا “کچھ بت ہیں جن کی ہم پوجا کرتے ہیں۔ اور انہی کی سیوا میں ہم لگے رہتے ہیں۔” اس نے پوچھا “کیا یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم انہیں پکارتے ہو؟ یا یہ تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں”؟ انہوں نے جواب دیا “نہیں، بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے”۔ اس پر ابراھیمؑ نے کہا “کبھی تم نے (آنکھیں کھول کر) اُن چیزوں کو دیکھا بھی جن کی بندگی تم اور تمہارے پچھلے باپ دادا بجا لاتے رہے؟ میرے تو یہ سب دشمن ہیں، بجز ایک رب العالیمن کے، جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے، جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھ کو زندگی بخشے گا۔ اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا”۔ (اِس کے بعد ابراھیمؑ نے دعا کی) “اے میرے رب، مجھے حکم عطا کر۔ اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ ملا۔ اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر۔ اور مجھے جنتِ نعیم کے وارثوں میں شامل فرما۔ اور میرے باپ کو معاف کر دے کہ بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے ہے اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اُٹھائے جائیں گے۔ جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو”۔
(اس روز) جنت پرہیزگاروں کے قریب لے آئی جائے گی۔ اور دوزخ بہکے ہوئے لوگوں کے سامنے کھول دی جائے گی اور ان سے پوچھا جائے گا کہ “اب کہاں ہیں وہ جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کیا کرتے تھے؟ کیا وہ تمہاری کچھ مدد کر رہے ہیں یا خود اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں”؟ پھر وہ معبود اور یہ بہکے ہوئے لوگ، اور ابلیس کے لشکر سب سے سب اس میں اُوپر تلے دھکیل دیے جائیں گے۔ وہاں یہ سب آپس میں جھگڑیں گے اور یہ بہکےہوئے لوگ (اپنے معبودوں سے) کہیں گے کہ “خدا کی قسم، ہم تو صریح گمراہی میں مبتلا تھے جبکہ تم کو رب العالمین کی برابری کا درجہ دے رہے تھے۔ اور وہ مجرم لوگ ہی تھے جنہوں نے ہم کو اس گمراہی میں ڈالا۔ اب نہ ہمارا کوئی سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست۔ کاش ہمیں ایک دفعہ پھر پلٹنے کا موقع مل جائے تو ہم مومن ہوں”۔
یقینًا اس میں ایک بڑی نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔ اور حقیقت یہ ہےکہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔
قومِ نوحؑ نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جنکہ ان کے بھائی نوحؑ نے ان سے کہا تھا “کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور (بے کھٹکے) میری اطاعت کرو”۔ انہوں نے جواب دیا “کیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں نے اختیار کی ہے”؟ نوحؑ نے کہا “میں کیا جانوں کہ ان کے عمل کیسے ہیں، ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے، کاش تم کچھ شعور سے کام لو۔ میرا یہ کام نہیں ہے جو ایمان لائیں ان کو میں دھتکار دوں۔ مََیں تو بس ایک صاف صاف متنبہ کر دینے والا آدمی ہوں”۔ انہوں نے کہا “اے نوحؑ، اگر تو باز نہ آیا تو پھِٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہو کر رہے گا”۔ نوحؑ نے دعا کی “اے میرے رب، میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا۔ اب میرے اور ان کے درمیان دوٹوک فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے”۔ آخر کار ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو ایک بھری ہوئی کشتی میں بچا لیا۔ اور اس کے بعد باقی لوگوں کو غرق کر دیا۔
یقینًا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔
عاد نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جبکہ ان کے بھائی ہود نے ان سے کہا تھا “کیا تم ڈرتے نہیں؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو، اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو جبّار بن کر ڈالتے ہو۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ڈرو اُُس سے جس نے وہ کچھ تمہیں دیا ہے جو تم جانتے ہو۔ تمہیں جانور دیے، اولادیں دیں، باغ دیے اور چشمے دیے۔ مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے”۔ انہوں نے جواب دیا “تو نصیحت کر یا نہ کر، ہمارے لیے یکساں ہے۔ یہ باتیں تو یوں ہی ہوتی چلی آئی ہیں۔ اور ہم عذاب میں مُبتلا ہونے والے نہیں ہیں”۔ آخرکار انہوں نے اُسے جھٹلا دیا اور ہم نے ان کو ہلاک کو دیا۔؂
یقینًا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جبکہ ان کے بھائی صالحؑ نے ان سے کہا “کیا تم ڈرتے نہیں؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تم اُن سب چیزوں کے درمیان، جو یہاں ہیں، بس یوں ہی اطمینان سے رہنے دیے جاؤ گے؟ اِن باغوں اور چشموں میں؟ اِن کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے رس بھرے ہیں؟ تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ اُن میں عمارتیں بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اُن بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے”۔ انہوں نے جواب دیا “تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے۔ تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے۔ لا کوئی نشانی اگر تو سچّا ہے”۔ صالحؑ نے کہا “یہ اونٹنی ہے۔ ایک دن اس کے پینے کا ہے اور ایک دن تم سب کے پانی لینے کا۔ اس کو ہرگز نہ چھیڑنا ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تم کو آ لے گا”۔ مگر انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ دیں اور آخرکار پچھتاتے رہ گئے۔ عذاب نے انہیں آ لیا۔
یقیناً اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔
لوطؑ کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جبکہ ان کے بھائی لوطؑ نے ان سے کہا تھا “کیا تم ڈرتے نہیں؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مَردوں کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لیے جو کچھ پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو؟ بلکہ تم لوگ تو حد سے ہی گزر گئے ہو”۔ انہوں نے کہا “اے لُوط، اگر تو اِن باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں اُن میں تو بھی شامل ہو کر رہے گا”۔ اس نے کہا “تمہارے کرتُوتوں پر جو لوگ کُڑھ رہے ہیں میں اُن میں شامل ہوں۔ اے پروردگار، مجھے اور میرے اہل و عیال کو ان کی بدکرداریوں سے نجات دے”۔ آخرکار ہم نے اسے اور اس کے سب اہل و عیال کو بچا لیا، بجز ایک بُڑھیا کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ پھر باقی ماندہ لوگوں کو ہم نے تباہ کر دیا اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جو اُن درائے جانے والوں پر نازل ہوئی۔
یقینًا اس میں ایک نشانی ہے، مگر اِن میں سے اکثر ماننے والے نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔
اصحابُ الاَیکہ نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جبکہ شعیبؑ نے ان سے کہا تھا “کیا تم ڈرتے نہیں؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو۔ صحیح ترازو سے تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اُس ذات کا خوف کرو جس نے تمہیں اور گذشتہ نسلوں کو پیدا کیا ہے”۔ انہوں نے کہا “تو محض ایک سحرزدہ آدمی ہے، اور تو کچھ نہیں مگر ایک انسان ہم ہی جیسا، اور ہم تو تجھے بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں۔ اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کو کوئی ٹکڑا گرا دے”۔ شعیبؑ نے کہا “میرا رب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو”۔ انہوں نے اسے جھٹلا دیا، آخرکار چھتری والے دن کا عذاب ان پر آ گیا، اور وہ بڑے ہی خوفناک دن کا عذاب تھا۔
یقینًا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔
یہ رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے۔ اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار رُوح اتری ہے تاکہ تو اُن لوگوں میں شامِل ہو جو (خدا کی طرف سے خلقِ خدا کو) متنبّہ کرنے والے ہیں، صاف صاف عربی زبان میں۔ اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے۔ کیا اِن (اہلِ مکہ) کے لیے یہ کوئی نشانی نہیں ہے کہ اِسے علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں؟ (لیکن اِن کی ہٹ دھرمی کا حال یہ ہے کہ) اگر اہم اسے کسی عجمی پر بھی نازل کر دیتے اور یہ (فصیح عربی کلا) وہ ان کو پڑھ کر سناتا تب بھی یہ مان کر نہ دیتے۔ اِسی طرح ہم نے اس (ذکر) کو مجرموں کے دلوں میں گزارا ہے۔ وہ اس پر ایمان نہیں لاتے جب تک عذابِ الیم نہ دیکھ لیں۔ پھر جب وہ بے خبری ان پر آ پڑؑتا ہے اُس وقت وہ کہتے ہیں کہ “کیا اب ہمیں کچھ مُہلت مِل سکتی ہے”؟
تو کیا یہ لوگ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں؟ تم نے کچھ غور کیا، اگر ہم انہیں برسوں تک عیش کرنے کی مُہلت بھی دے دیں اور پھر وہی چیز ان پر آ جائے جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے تو وہ سامانِ زیست جو ان کو ملا ہوا ہے اِن کے کس کام آئے گا؟
(دیکھو) ہم نے کبھی کسی بستی کو اِس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ اُس کے لیے خبردار کرنے والے حقِّ نصیحت ادا کرنے کو موجود تھے۔ اور ہم ظالم نہ تھے۔
اِس (کتابِ مبین) کو شیاطین لے کر نہیں اترے ہیں، نہ یہ کام ان کو سجتا ہے، اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں۔ وہ تو اس کی سماعت تک سے دُور رکھے گئے ہیں۔
پس اے محمدؐ، اللہ کے ساتھ کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکارو، ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامِل ہو جاؤ گے۔ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ، اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ، لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو ان سے کہو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے مَیں بری الذّمّہ ہوں۔ اور اُس زبردست اور رحیم پر توکل کرو جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو، اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
لوگو، کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اُترا کرتے ہیں؟ وہ ہر جعل ساز بدکار پر اُترا کرتے ہیں۔ سُنی سُنائی باتیں کانوں میں پھُونکتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھُوٹے ہوتے ہیں۔
رہے شعراء، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں، بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا، اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ النمل کے معانی کی ترجمانی

ط ۔ س

یہ آیات ہیں قرآن اور کتابِ مبین کی، ہدایت اور بشارت اُن ایمان لانے والوں کے لیے جو نماز قائم کرتے اور زکٰوۃ دیتے ہیں، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے لیے ہم نے اُن کے کرتُوتوں کو خوشنما بنا دیا ہے، اس لیے وہ بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے بُری سزا ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہیں۔ اور (اے محمدؐ) بلاشبہ تم یہ قرآن ایک حکیم وعلیم ہستی کی طرف سے پا رہے ہو۔

(اِنہیں اُس وقت کا قصہ سناؤ) جب موسٰیؑ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ “مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے، مَیں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا کوئی انگارا چن لاتا ہوں تا کہ تم لوگ گرم ہو سکو”۔ وہاں جو پہنچا تو ندا آئی کہ “مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے ماحول میں ہے۔ پاک ہے اللہ، سب جہانوں کا پروردگار۔ اے موسٰیؑ، یہ میں ہوں اللہ، زبردست اور دانا۔ اور پھینک تو ذرا اپنی لاٹھی”۔ جُونہی کہ موسٰیؑ نے دیکھا لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے تو پیٹھ پھر کا بھاگا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ “اے موسٰیؑ، ڈرو نہیں۔ میرے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے، اِلّا یہ کہ کسی نے قصور کیا ہو۔ پھر اگر برائی کے بعد اُس نے بھَلائی سے اپنے فعل کو بدل لیا تو میں معاف کرنے والا مہربان ہوں۔ اور ذرا اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں تو ڈالو۔ چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ یہ (دو نشانیاں) نو (۹) نشانیوں میں سے ہیں فرعون اور اس کی قوم کی طرف (لے جانے کے لیے)، وہ بڑے بدکردار لوگ ہیں”۔

مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں اُن لوگوں کے سامنے آئیں تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے۔ انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔ اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا۔

(دوسری طرف) ہم نے داؤدؑ و سلیمانؑ کو علم عطا کیا اور انہوں نے کہا کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی۔ اور داؤد کا وارث سلیمان ہوا۔ اور اس نے کہا “لوگو، ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں، بیشک یہ (اللہ کا) نمایاں فضل ہے”۔ سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ (ایک مرتبہ وہ ان کے ساتھ کوچ کر رہا تھا) یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا “اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھُس جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کے لشکر تمہیں کُچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔ سلیمانؑ اس کی بات پر مُسکراتے ہوئے ہنس پڑا اور بولا “اے میرے رب، مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عملِ صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔

(ایک اور موقع پر) سلیمانؑ نے پرندوں کا جائزہ لیا اور کہا “کیا بات ہے کہ میں فلاں ہُد ہُد کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ کیا وہ کہیں غائب ہو گیا ہے؟ میں اسے سخت سزا دوں گا، یا ذبح کر دوں گا، ورنہ اسے میرے سامنے معقول وجہ پیش کرنی ہو گی۔ کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اُس نے آ کر کہا “میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں۔ میں سَبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں۔ میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جو اس قوم کی حکمران ہے۔ اُس کو ہر طرح کا سازوسامان بخشا گیا ہے اور اس ک تخت بڑا عظیم الشان ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے” شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے اور انہیں شاہراہ سے روک دیا، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے کہ اُس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھُپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو۔ اللہ کہ جس کے سوا کوئی مستحقِِ عبادت نہیں، جو عرشِ عظیم کا مالک ہے۔

سلیمانؑ نے کہا “ابھی اہم دیکھے لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ میرا یہ خط لے جا اور اِسے ان لوگوں کی طرف ڈال دے، پھر الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں”۔

ملکہ بولی “اے اہلِ دربار، میری طرف ایک بڑا اہم خط پھینکا گیا ہے۔ وہ سلیمانؑ کی جانب سے ہے اور اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔ مضمون یہ ہے کہ “میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ”۔

(خط سُنا کر) ملکہ نے کہا “اے سردارانِ قوم میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو، مَیں کسی معاملہ کا فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کرتی ہوں”۔ اُنہوں نے جواب دیا “ہم طاقت ور اور لڑنے والے لوگ ہیں۔ آگے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ خود دیکھ لین کہ آپ کو کیا حکم دینا ہے”۔ ملکہ نے کہا کہ “بادشاہ جب کسی مُلک مین گھُس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔ یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں۔ مَیں اِن لوگوں کی طرف ایک ہدیہ بھیجتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ میرے ایلچی کیا جواب لے کر پلٹتے ہیں”۔

جب وہ (ملکہ کا سفیر) سلیمانؑ کے ہاں پہنچا تو اس نے کہا “کیا تم لوگ مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں دیا ہے۔ تمہارا ہدیہ تمہی کو مبارک رہے۔ (اے سفیر) واپس جا اہنے بھیجنے والوں کی طرف۔ ہم ان پر ایسے لشکر لے کر آئیں گے جن کا مقابلہ وہ نہ کر سکیں گے اور ہم انہیں ایسی ذلت کے ساتھ وہاں سے نکالیں گے کہ وہ خوار ہو کر رہ جائیں گے”۔

سلیمانؑ نے کہا “اے اہل دربار، تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس لاتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ مطیع ہو کر میرے پاس حاضر ہوں؟ جِنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا “میں اسے حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں۔ میں اس کی طاقت رکھتا ہوں اور امانتدار ہوں”۔ جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا “میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں”۔ جُونہی کہ سلیمانؑ نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، وہ پکار اٹھا “یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں کا کافرِ نعمت بن جاتا ہوں۔ اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے”۔

سلیمانؑ نے کہا “انجان طریقے سے اس کا تخت اس کے سامنے رکھ دو، دیکھیں وہ صحیح بات تک پہنچتی ہے یا اُن لوگوں میں سے ہے جو راہِ راست نہیں پاتے”۔ ملکہ جب حاضر ہوئی تو اس سے کہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے؟ وہ کہنے لگی “یہ تو گویا وہی ہے۔ ہم تو پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم نے سرِ اطاعت جھُکا دیا تھا۔ (یا ہم مسلم ہو چکے تھے)”۔ اُس کو (ایمان لانے سے) جس چیز نے روک رکھا تھا وہ اُن معبودوں کی عبادت تھی جنہیں وہ اللہ کے سوا پُوجتی تھی، کیونکہ وہ ایک کافر قوم سے تھی۔

اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اترنے کے لیے اس نے اپنے پائینچے اٹھا لیے۔ سلیمانؑ نے کہا یہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔ اس پر وہ پکار اُٹھی “اے میرے رب، (آج تک) میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی، اور اب میں نے سلیمانؑ کے ساتھ اللہ رب العالمین کی اطاعت قبول کر لی”۔

اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالح کو (یہ پیغام دے کر) بھیجا کہ اللہ کی بندگی کرو، تو یکایک وہ دو متَخاصِم فریق بن گئے۔ صالحؑ نے کہا “اے میری قوم کے لوگو، بھلائی سے پہلے بُرائی کے لیے کیوں جلدی مچاتے ہو؟ کیوں نہیں اللہ سے مغفرت طلب کرتے؟ شاید کہ تم پر رحم فرمایا جائے”؟ انہوں نے کہا “ہم نے تو تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو بدشگونی کا نشان پایا ہے”۔ صالحؑ نے جواب دیا “تمہارے نیک و بد شگون کا سررشتہ تو اللہ کے پاس ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم لوگوں کی آزمائش ہو رہی ہے”۔

اُس شہر میں نو (۹) جتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے۔ انہوں نے آپس میں کہا “خدا کی قسم کھا عہد کر لو کہ ہم صالحؑ اور اس کے گھر والوں پر شبخون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم اس خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہ تھے، ہم بالکل سچ کہتے ہیں”۔ یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انہیں خبر نہ تھی۔ اب دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیا ہوا۔ ہم نے تباہ کر کے رکھ دیا اُن کو اور ان کی پوری قوم کو۔ وہ اُن کے گھر خالی پڑے ہیں اُس ظلم کی پاداش میں جو وہ کرتے تھے، اس میں ایک نشانِ عبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ اور بچا لیا ہم نے اُن لوگوں کو جو ایمان لائے تھے اور نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے۔

اور لوطؑ کو ہم نے بھیجا۔ یاد کرو وہ وقت جب اس نے اپنی قوم سے کہا “کیا تم آنکھوں دیکھتے بدکاری کرتے ہو؟ کیا تمہارا یہی چلن ہے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت رانی کے لیے جاتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ سخت جہالت کا کام کرتے ہو”۔ مگر اُس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا “نکال دو لُوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں”۔ آخرکار ہم نے بچا لیا اُس کو اور اُس کے گھر والوں کو، بجز اُس کی بیوی کے جس کا پیچھے رہ جانا ہم نے طے کر دیا تھا، اور برسائی اُن لوگوں پر ایک برسات، بہت ہی بری برسات تھی وہ اُن لوگوں کے حق میں جو متنبہ کیا جا چکے تھے۔

( اے نبیؐ ) کہو، حمد اللہ کے لیے اور سلام اس کے اُن بندوں پر جنہیں اس نے برگزیدہ کیا۔

(اِن سے پوچھو) اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنہیں یہ لوگ اس کا شریک بنا رہے ہیں؟ پھَلا وہ کون ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی (اِن کاموں میں شریک) ہے؟ (نہیں)، بلکہ یہی لوگ راہِ راست سے ہٹ کر جا رہے ہیں۔

اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اِس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑ دیں اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کر دیے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (انِ کاموں میں شریک) ہے؟ نہیں، بلکہ اِن میں سے اکثر لوگ نادان ہیں۔

کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔

اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے اور کون اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دُوسرا خدا بھی (یہ کام کرتا) ہے؟ بہت بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔

اور کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (اِن کاموں میں حصہ دار) ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔

اِن سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا، اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اُٹھائیں جائیں گے۔ بلکہ آخرت کا تو علم ہی اِن لوگوں سے گُم ہو گیا ہے، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، بلکہ یہ اُس سے اندھے ہیں۔ یہ منکرین کہتے ہیں “کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو چکے ہوں گے تو ہمیں واقعی قبروں سے نکالا جائے گا؟ یہ خبریں ہم کو بھی بہت دی گئی ہیں اور پہلے ہمارے آباء و اجداد کو بھی دی جاتی رہی ہیں، مگر ی بس افسانے ہی افسانے ہیں جو اگلے وقتوں سے سُنتے چلے آ رہے ہیں”۔ کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہو چکا ہے۔ اے نبیؐ، اِن کے حال پر رنج نہ کرو اور نہ اِن کی چالوں پر دل تنگ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ “یہ دھمکہ کب پُوری ہو گی اگر تم سچے ہو”؟ کہو کیا عجب کہ جس عذاب کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو اس کا ایک حصہ تمہارے قریب ہی آ لگا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب تو لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ بلا شُبہ تیرا رب خُوب جانتا ہے جو کچھ ان کے سینے اپنے اندر چھُپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔ آسمان و زمین کی کوئی پوشیدہ چیز ایسی نہیں ہے جو ایک واضح کتاب میں لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔

یہ واقعہ ہے کہ یہ قرآن بنی اسرائیل کو اکثر اُن باتوں کی حقیقت بتاتا ہے جن میں وہ اختلاف رکھتے ہیں اور یہ ہدایت اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے۔ یقینًا (اِسی طرح) تیرا رب اِن لوگوں کے درمیان بھی اپنے حکم سے فیصلہ کر دے گا اور وہ زبردست اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ پس اے نبیؐ، اللہ پر بھروسا رکھو، یقینًا تم صریح حق پر ہو۔ تم مُردوں کو نہیں سُنا سکتے، نہ اُن بہروں تک اپنی پکار پہنچا سکتے ہو جو پیٹھ پھیر کو بھاگے جا رہے ہوں، اور نہ اندھوں کو راستہ بتا کر بھٹکنے سے بچا سکتے ہو۔ تم تو اپنی بات اُنہی لوگوں کو سُنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرمان بردار بن جاتے ہیں۔

اور جب ہماری بات پُوری ہونے کا وقت اُن پر آ پہنچے گا تو ہم ان کے لیے ایک جانور زمین سے نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اور ذرا تصور کرو اُس دن کا جب ہم ہر امّت میں سے ایک فوج کی فوج اُن لوگوں کی گھیر لائیں گے جو ہماری آیات کو جھُٹلایا کرتے تھے، پھر ان کو (ان کی اقسام کے لحاظ سے درجہ بدرجہ) مرتب کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جب سب آ جائیں گے تو (ان کا رب ان سے) پوچھے گا کہ “تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا حالانکہ تم نے ان کا علمی احاطہ نہ کیا تھا؟ اگر یہ نہیں تو اور تم کیا کر رہے تھے”؟ اور ان کے ظلم کی وجہ سے عذاب کا وعدہ ان پر پورا ہو جائے گا، تب وہ کچھ بھی نہ بول سکیں گے۔ کیا ان کو سُجھائی نہ دیتا تھا کہ ہم نے رات ان کے لیے سکون حاصل کرنے کو بنائی تھی اور دن کو روشن کیا تھا؟ اسی میں بہت نشانیاں تھیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔

اور کیا گزرے اس روز جب کہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا، اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے۔ آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اُڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو، جو شخص بھلائی لے کر آئیگا اسے اُس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اُس دن کے ہَول سے محفوظ ہوں گے۔ اور جو بُرائی لیے ہوئے آئے گا، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے۔ کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو؟

(اے محمدؐ، اِن سے کہو) “مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اِس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اِسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں اور یہ قرآن پڑھ کر سناؤں”۔ اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے ہدایت اختیار کرے گا۔ اور جو گمراہ ہو اُس سے کہہ دو کہ میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں۔ اِن سے کہو، تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا اور تم انہیں پہنچان لو گے، اور تیرا رب بے خبر نہیں ہے اُن اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ القصص کے معانی کی ترجمانی

ط۔ س۔ م۔

یہ کتابِ مبین کی آیات ہیں۔ ہم موسٰیؑ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سُناتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں۔

واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کا وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دِکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔

ہم نے موسٰیؑ کی ماں کو اشارہ کیا کہ “اِس کو دُودھ پلا، پھر جب تجھے اُس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس واپس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے”۔ آخرکار فرعون کے گھر والوں نے اسے (دریا سے) نکال لیا تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے سببِ رنج بنے، واقعی فرعون اور ہامان اور اس کے لشکر (اپنی تدبیر میں) بڑے غلط کار تھے۔ فرعون کی بیوی نے (اس سے) کہا “یہ میرے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، کیا عجب کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو، یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں”۔ اور وہ (انجام سے) بے خبر تھے۔

اُدھر موسٰیؑ کی ماں کا دل اُڑا جا رہا تھا۔ وہ اس راز کو فاش کر بیٹھتی اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھا دیتے تاکہ وہ (ہمارے وعدے پر) ایمان لانے والوں میں سے ہو۔ اُس نے بچے کی بہن سے کہا اس کے پچھے پیچھے جا۔ جنانچہ وہ الگ سے اس کو اس طرح دیکھتی رہی کہ (دشمنوں کو) اس کا پتہ نہ چلا۔ اور ہم نے بچّے پر پہلے ہی دُودھ پِلانے والیوں کی چھاتیاں حرام کر رکھی تھیں۔ (یہ حالت دیکھ کر) اُس لڑکی نے اُن سے کہا “میں تمہیں ایسے گھر کا پتہ بتاؤں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمّہ لیں اور خیرخواہی کے ساتھ اسے رکھیں”؟ اس طرح ہم موسٰیؑ کو اس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔

پھر جب موسٰیؑ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گیا اور اس کا نشوونما مکمل ہو گیا تو ہم نے اسے حُکم اور علم عطا کیا، ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ (ایک روز) وہ شہر میں ایسے وقت میں داخل ہوا جبکہ اہلِ شہر غفلت میں تھے۔ وہاں اس نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں۔ ایک اس کی اپنی قوم کا تھا اور دُوسرا اس کی دُشمن قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اسے مدد کے لیے پکارا۔ موسٰیؑ نے اس کو ایک گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا۔ (یہ حرکت سرزد ہوتے ہی) موسیٰؑ نے کہا “یہ شیطان کی کارفرمائی ہے، وہ سخت دشمن اور کھلا گمراہ کُن ہے”۔ پھر وہ کہنے لگا “اے میرے رب، مَیں نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کر ڈالا، میری مغفرت فرما دے”۔ چنانچہ اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی، وہ غفور رحیم ہے۔ موسٰیؑ نے عہد کیا کہ “اے میرے رب، یہ احسان جو تو نے مجھ پر کیا ہے اِس کے بعد اب مَیں کبھی مجرموں کو مددگار نہ بنوں گا”۔

دُوسرے روز وہ صبح سویرے ڈرتا اور ہر طرف سے خطرہ پھانپتا ہوا شہر میں جا رہا تھا کہ یکایک کیا دیکھتا ہے کہ وہی شخص جس نے کل اسے مدد کے لیے پکارا تھا آّج پھر اسے پکار رہا ہے۔ موسٰیؑ نے کہا "تُو تو بڑا ہی بہکا ہُوا آدمی ہے"۔ پھر جب موسٰیؑ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی پر حملہ کرے تو وہ پکار اٹھا "اے موسٰیؑ، کیا آج تو مجھے اُسی طرح قتل کرنے لگا ہے جس طرح کل ایک شخص کو قتل کر چکا ہے، تو اس ملک میں جبّار بن کر رہنا چاہتا ہے، اصلاح نہیں کرنا چاہتا"۔ اس کے بعد ایک آدمی شہر کے پرلے سِرے سے دَوڑتا ہوا آیا اور بولا "موسٰیؑ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں، یہاں سے نکل جا، مَیں تیرا خیر خواہ ہوں"۔ یہ خبر سنتے ہی موسٰیؑ ڈرتا اور سہمتا نِکل کھڑا ہوا اور اس نے دعا کی کہ "اے میرے رب، مجھے ظالموں سے بچا"۔

(مصر سے نِکل کر) جب موسٰیؑ نے مَدیَن کا رُخ کیا تو اُس نے کہا "اُمید ہے کہ میرا رب مجھےٹھیک راستے پر ڈال دے گا"۔ اور جب وہ مَدیَن کے کنوئیں پر پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں۔ موسٰیؑ نے اِن عورتوں سے پوچھا "تمہیں کیا پریشانی ہے"؟ انہوں نے کہا "ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نکال کر نہ لے جائیں، اور ہمارے والد ایک بہت بوڑھے آدمی ہیں"۔ یہ سن کو موسٰیؑ نے ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا، پھر ایک سائے کی جگہ جا بیٹھا اور بولا "پروردگار، جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں"۔ (کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی "میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں"۔ موسٰیؑ جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اس سُنایا تو اس نےکہا "کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالموں سے بچ نکلے ہو"۔

ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا "ابّا جان، اس شخص کو نوکر رکھ لیجیے، بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو مضبُوط اور امانت دار ہو"۔ اس کے باپ نے (موسٰیؑ سے کہا "مَیں چاہتا ہوں کہ اپنی اِن دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کر دوں بشرطیکہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں ملازمت کرو، اور اگر دس سال پُورے کر دو تو یہ تمہاری مرضی ہے۔ میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ تم اِن شاء اللہ مجھے نیک آدمی پاؤ گے"۔ موسیٰ نے جواب دیا "یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گئی۔ ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پُوری کر دُوں اُس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو، اور جو کچھ قول قرار ہم کر رہے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے"۔

جب موسٰیؑ نے مدت پوری کر دی اور وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طُور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی۔ اُس نے اپنے گھر والوں سے کہا "ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اُٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو"۔ وہاں پہنچا تو وادی کے داہنے کنارے پر مبارک خطے میں ایک درخت سے پکارا گیا کہ "اے موسٰیؑ، میں ہی اللہ ہوں، سارے جہان والوں کا مالک"۔ اور (حکم دیا گیا کہ) پھینک دے اپنی لاٹھی۔ جونہی کہ موسٰیؑ نے دیکھا کہ وہ لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ (ارشاد ہوا) " موسٰیؑ، پلٹ آ اورخوف نہ کر، تو بالکل محفوظ ہے۔ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ اور خوف سے بچنے کے لیے اپنا بازو بھینچ لے۔ یہ دو روشن نشانیاں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے، وہ بڑے ہی نافرمان لوگ ہیں؟۔ موسٰیؑ نے عرج کیا "میرے آقا، میں تو ان کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں، ڈرتا ہوں کہ وہ مجھےمار ڈالیں گے۔ اور میرا بھائی ہارونؑ مجھے سے زیادہ زبان آور ہے، اسے میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے"۔ فرمایا "ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیرووں کا ہی ہو گا"۔

پھر جب موسٰیؑ اُن لوگوں کے پاس ہماری کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر پہنچا تو انہوں نے کہا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر بناوٹی جادوگر۔ اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ دادا کے زمانے میں کبھی سُنیں ہی نہیں۔ موسٰیؑ نے جواب دیا "میرا رب اُس شخص کے حال سے خوب واقف ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ آخری انجام کس کا اچھا ہونا ہے، حق یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے"۔

اور فرعون نے کہا "اَے اہلِ دربار، مَیں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا۔ ہامان، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اُونچی عمارت تو بنوا، شاید کہ اس پر چڑھ کر مَیں موسٰیؑ کے خدا کو دیکھ سکوں، میں تو اسے جھُوٹا سمجھتا ہوں"۔

اُس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انہیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے۔ آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکرون کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔ ہم نے انہیں جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیش رو بنا دیا اور قیامت کے روز وہ کہیں سے کوئی مدد نہ پا سکیں گے۔ ہم نے اِس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور قیامت کے روز وہ بڑی قباحت میں مبتلا ہوں گے"۔

پچھلی نسلوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسٰیؑ کو کتاب عطا کی، لوگوں کے لیے بصیرتوں کا سامان بنا کر، تاکہ شاید لوگ سبق حاصل کریں۔ (اے محمدؐ) تم اُس وقت مغربی گوشے میں موجود نہ تھے جب ہم نے موسٰیؑ کو یہ فرمانِ شریعت عطا کیا، اور تم شاہدین میں شامل تھے، بلکہ اس کے بعد (تمہارے زمانے تک) ہم بہت سی نسلیں اٹھا چکے ہیں اور ان پر بہت زمانہ گزر چکا ہے۔ تم اہلِ مَدیَن کے درمیان بھی موجود نہ تھے کہ اُن کو ہماری آیات سُنا رہے ہوتے، مگر (اُس وقت کی یہ خبریں) بھیجنے والے ہم ہیں۔ اور تم طور کے دامن میں بھی اُس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے (موسٰیؑ کو پہلی مرتبہ) پکارا تھا، مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تم کو یہ معلومات دی جار ہی ہیں) تا کہ تم اُن لوگوں کو متنبّہ کر دو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی متنبّہ کرنے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہوش میں آئیں۔ (اور یہ ہم نے اس لیے کیا کہ) کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کے اپنے کیے کرتُوتوں کی بدولت کوئی مصیبت جب اُن پر آئے تو وہ کہیں "اے پروردگار، تُو نے کیوں نہ ہماری طرف کوئی رسول بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہلِ ایمان میں سے ہوتے"۔

مگر جب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آ گیا تو وہ کہنے لگے "کیوں نہ دیا گیا اِس کو وہی کچھ جو موسٰیؑ کو دیا گیا تھا"؟ کیا یہ لوگ اُس کا انکار نہیں کر چکے ہیں جو اس سے پہلے موسٰیؑ کو دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا "دونوں جادوگر ہیں جو ایک دُوسرے کی مدد کرتے ہیں"۔ اور کہا "ہم کسی کو نہیں مانتے"۔ (اے نبیؐ،) ان سے کہو، "اچھا تو لاؤ اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو اِن دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو اگر تم سچے ہو، مَیں اسی کی پیروی اختیار کروں گا"۔ اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اُس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشتا۔ اور (نصیحت کی) بات پے در پے ہم انہیں پہنچا چکے ہیں تا کہ وہ غفلت سے بیدار ہوں۔

جن لوگوں کو اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اِس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں اور جب یہ اُن کو سُنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ "ہم اِس پر ایمان لائے، یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے، ہم تو پہلے ہی سے مسلم ہیں"۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اُس ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھائی۔ وہ بُرائی کو بھَلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جب انہوں نے بیہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہو گئے کہ "ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمارے لیے، تم کو سلام ہے، ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہتے"۔ اے نبیؐ، تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔

وہ کہتے ہیں "اگر ہم تمہارے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی اختیار کر لیں تو اپنی زمین سے اُچک لیے جائیں گے"۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پُرامن حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اِترا گئے تھے۔ سو دیکھ لو، وہ ا ن کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے، آخرکار ہم ہی وارث ہو کر رہے۔

اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسُول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیات سُناتا۔ اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہو جاتے۔

تم لوگوں کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دُنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے بہتر اور باقی تر ہے۔ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ بھلا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدی کیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف حیاتِ دنیا کا سروسامان دے دیا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز سزا کے لیے پیش کیا جانے والا ہو؟

اور (بھُول نہ جائیں یہ لوگ) اُس دن کو جب کہ وہ اِن کو پکارے گا اور پُوچھے گا "کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے"؟ یہ قول جن پر چسپاں ہو گا وہ کہیں گے "اے ہمارے رب، بے شک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا، اِنہیں ہم نے اُسی طرح گمراہ کیا جیسےہم خود گمراہ ہوئے۔ ہم آپ کے سامنے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ہماری تو بندگی نہیں کرتے تھے"۔ پھر اِن سے کہا جائے گا کہ پکارو اب اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو۔ یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ اِن کو کوئی جواب نہ دیں گے۔ اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے۔ کاش یہ ہدایت اختیار کرنے والے ہوتے۔

اور (فراموش نہ کریں یہ لوگ) وہ دن جبکہ وہ اِن کو پکارے گا اور پُوچھے گا کہ "جو رسول بھیجے گئے تھے انہیں تم نے کیا جواب دیا تھا"؟ اُس وقت کوئی جوان اِن کو نہ سُوجھے گا اور نہ یہ آپس میں ایک دُوسرے سے پُوچھ ہی سکیں گے۔ البتہ جس نے آج توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے وہی یہ توقع کر سکتا ہے کہ وہاں فلاح پانے والوں میں سے ہو گا۔

تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور (وہ خود ہی اپنے کام کے لیے جسے چاہتا ہے) منتخب کر لیتا ہے، یہ انتخاب اِن لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے، اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ تیرا رب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں۔ وہی ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، فرماں روائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔ اے نبیؐ، اِن سے کہو کبھی تم لوگوں نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے؟ کیا تم سُنتے نہیں ہو؟ اِن سے پوچھو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبُود ہے جو تمہیں رات لا دے تا کہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو؟ کیا تم کو سُوجھتا نہیں؟ یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم (رات میں) سکون حاصل کرو اور (دن کو) اپنے رب کا فضل تلاش کرو، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔

(یاد رکھیں یہ لوگ) وہ دن جبکہ وہ انہیں پکارے گا پھر پوچھے گا "کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے"؟ اور ہم ہر امّت میں سے ایک گواہ نکال لائیں گے پھر کہیں گے کہ "لاؤ اب اپنی دلیل"۔ اس وقت انہیں معلوم ہو جائے گا کہ حق اللہ کی طرف سے ہے، اور گم ہو جائیں ان کے وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے۔

یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسٰیؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا۔ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی۔ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا "پھُول نہ جا، اللہ پھُولنے والوں کو پسند نہیں کرتا، جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا"۔ تو اُس نے کہا "یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے"۔ کیا اس کو علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پُوچھے جاتے۔

ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پُورے ٹھاٹھ میں نِکلا۔ جو لوگ حیاتِ دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے "کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا نصیبے والا ہے"۔ مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے "افسوس تمہارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اُس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو"۔

آخرکار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دَھنسا دیا۔ پھر کوئی اس کے حامیوں کا گروہ نہ تھا جوا للہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کو آتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کر سکا۔ اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنےلگے "افسوس، ہم بھُول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نَپا تُلا دیتا ہے۔ اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دَھنسا دیتا۔ افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے"۔

وہ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں۔ اور انجام کی بھَلائی متقین ہی کے لیے ہے۔ جو کوئی بھَلائی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھَلائی ہے، اور جو بُرائی لے کر آئے تو بُرائیاں کرنے والوں کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے عمل وہ کرتے تھے۔

اے نبیؐ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے وہ تمہیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے۔ اِن لوگوں سے کہہ دو کہ "میرا رب خُوب جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھُلی گمراہی میں کون مُبتلا ہے"۔ تم اس بات کے ہرگز امیدوار نہ تھے کہ تم پر کتاب نازل کی جائے گی، یہ تو محض تمہارے رب کی مہربانی سے (تم پر نازل ہوئی ہے)، پس تم کافروں کے مددگار نہ بنو۔ اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کفّار تمہیں اُن سے باز رکھیں۔ اپنے رب کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو اور اللہ کے ساتھ کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکارو۔ اُس کے سوا کوئی معبُود نہیں ہے۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اُس کی ذات کے۔ فرماں روائی اُسی کی ہے اور اُسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سورۃ الروم کے معانی کی ترجمانی
ا۔ ل۔ م۔
رُومی قریب کی سرزمین میں مغلُوب ہو گئے ہیں، اور اپنی اِس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ اللہ نُصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔
لوگ دُنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غوروفکر نہیں کیا؟ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن ساری چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں برحق اور ایک مقرّر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ اور کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِنہیں اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ اِن سے زیادہ طاقت رکھتے تھے، اُنہوں نے زمین کو خوب اُدھیڑا تھا اور اُسے اتنا آباد کیا تھا جتنا اِنہوں نے نہیں کیا ہے۔ اُن کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے۔ پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔ آخرکار جن لوگوں نے بُرائیاں کی تھیں ان کا انجام بہت بُرا ہوا، اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا تھا اور وہ ان کا مذاق اُڑاتے تھے۔
اللہ ہی خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا، پھر اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔ اور جب وہ ساعت برپا ہو گی اس دن مجرم ہَک دَک رہ جائیں گے، ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے۔ جس روز وہ ساعت برپا ہو گی، اس دن (سب انسان) الگ گروہوں میں بٹ جائیں گے۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایک باغ میں شاداں و فرحاں رکھے جائیں گے۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ہے وہ عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے۔
پس تسبیح کرو اللہ کی جبکہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو۔ آسمانوں اور زمین میں اُسی کے لیے حمد ہے۔ اور (تسبیح کرو اس کی) تیسرے پہر اور جبکہ تم پر ظُہر کا وقت آتا ہے۔ وہ زندہ میں سے مُردے کو نکالتا ہے اور مُردے میں سے زندہ کو نکالتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ اسی طرح تم لوگ بھی (حالتِ موت سے ) نکال لیے جاؤ گے۔
اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر یکایک تم بشر ہو کہ (زمین میں) پھیلتے چلے جا رہے ہو۔ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقینًا اس میں بہت سے نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقینًا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے۔ اور اُس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔ یقینًا اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (غور سے) سُنتے ہیں۔ اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے خوف کے ساتھ بھی ااور طمع کے ساتھ بھی۔ اور آسمان سے پانی برساتا ہے، پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقینًا اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔ پھر جونہی کہ اُس نے تمہیں زمین سے پکارا، بس ایک ہی پکار میں اچانک تم نِکل آؤ گے۔ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اُس کے بندے ہیں، سب کے سب اسی کی تابع فرمان ہیں۔ وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔ آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے برتر ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔
وہ تمہیں خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے۔ کیا تمہارے اُن غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں اور تم اُن سے اُس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو؟ اس طرح ہم آیات کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ مگر یہ ظالم بے سمجھے بُوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اب کون اُس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو۔ ایسے لوگوں کو تو کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔
پس (اے نبیؐ،ا ور نبیؐ کے پیروو) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (قائم ہو جاؤ اِس بات پر) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے، اور ڈرو اُس سے، اور نماز قائم کرو، اور نہ ہو جاؤ اُن مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے۔؂
لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پُکارتے ہیں، پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انہیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں تاکہ ہمارے کیے ہوئے احسان کی ناشکری کریں۔ اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں؟
جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھُول جاتے ہیں، اور جب ان کے اپنے کیے کرتُوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے (جس کا چاہتا ہے)۔ یقینًا اس میں بہت سے نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔ پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق)۔ یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ جو سُود تم دیتے ہو تا کہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکٰوۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں۔
اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟ پاک ہے وہ اور بہت بالاوبرتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں؟ خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔ (اے نبیؐ ) اِن سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہو چکا ہے، ان میں سے اکثر مشرک ہی تھے۔ پس (اے نبیؐ )اپنا رُخ مضبوطی کے ساتھ جما دو اِس دینِ راست کی سمت میں قبل اسے کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صُورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ اُس دن لوگ پھَٹ کر ایک دُوسرے سے الگ ہو جائیں گے جس نے کفر کیا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے۔ اور جب لوگوں نے نیک عمل کیا ہے وہ اپنے ہی لیے فلاح کا راستہ صاف کر رہے ہیں تا کہ اللہ ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے۔ یقینًا وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے بشارت دینے کے لیے اور تمہیں اپنی رحمت سے بہرہ مند کرنے کے لیے اور اس غرض کے لیے کہ کشتیان اس کے حکم سے چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو۔ اور ہم نے تم سے پہلے رسُولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے، پھر جنہوں نے جرم کیا اُن سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں۔
اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اُٹھاتی ہیں،پھر وہ اِن بادلوں کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے،پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل سے ٹپکے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہو رہے تھے۔ دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مُردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جِلا اٹھاتا ہے، یقینًا وہ مُردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اگر ہم ایک ایسی ہوا بھیج دیں جس کے اثر سے وہ اپنی کھیتی کو زرد پائیں تو وہ کفر کرتے رہ جاتے ہیں۔ (اے نبیؐ ) تم مُردوں کو نہیں سُنا سکتے، نہ اُن بہروں کو اپنی پکار سُنا سکتے ہو جو پیٹھ پھیرے بھاگے چلے جا رہے ہوں، اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے نکال کر راہِ راست دکھا سکتے ہو۔ تم تو صرف انہی کو سُنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے اور سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں۔
اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت میں تمہاری پیدائش کی ابتدا کی،پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور وہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
اور جب وہ ساعت برپا ہو گی تو مُجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھیرے ہیں، اِسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے۔ مگر جو علم اور ایمان سے بہرہ مند کیے گئے تھے وہ کہیں گے کہ خدا کے نوشتے میں تو تم روزِ حشر تک پڑے رہے ہو، سو یہ وہی روزِ حشر ہے، لیکن تم جانتے نہ تھے۔ پس وہ دن ہو گا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا۔
ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا ہے۔ تم خواہ کوئی نشانی لے آؤ، جن لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ یہی کہیں گے کہ تم باطل پر ہو۔ اِس طرح ٹھپہ لگا دیتا ہے اللہ اُن لوگوں کے دلوں پر جو بے علم ہیں۔ پس (اے نبیؐ )صبر کرو، یقینًا اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے۔
 
Top