تخت بھائی کھنڈرات مردان کی تصاویر

اے خان

محفلین
ہوا کچھ یوں کہ ہم آج صبح جب یونیورسٹی پہنچے تو معلوم ہوا کہ آج صرف ایک کلاس ہے وہ بھی کمپیوٹر سکل کا تو دوستوں نے کہا کہ اپنا قیمتی دن صرف ایک کلاس کے لئے یونیورسٹی میں نہیں گزار سکتے.تو اسلئے پروگرام بنایا کہ چلو آج سیر کیلئے نکلتے ہیں بس پھر کیا تھا اپنے بیگ یونیورسٹی میں چھوڑ کر ایک دوست کی کار لی اور تخت بھائی کھنڈرات مردان دیکھنے روانہ هوگئے. جو یونیورسٹی سے تقریبًا ۱۵کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں.وہاں کی کچھ تصاویر جو آج صبح میں نے موبائل سےلی ہے.
15128849_339073389798951_7669862946419978875_o.jpg
 
آخری تدوین:

اے خان

محفلین
تخت بھائی (تخت بائی یا تخت بہائی) پشاور سے تقریباًً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بدھا تہذیب کی باقیات پر مشتمل مقام ہے جوکہ اندازاً ایک صدی قبلِ مسیح سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مردان سے تقریباًً 15 پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ سرحد میں واقع ہے۔ اس مقام کو 1980 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔ تخت اس کو اس لئے کہا گیا کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے اور بہائی اس لئے کہ اس کے ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا۔ تخت بھائی تحصیل مردان کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ یہاں کئی طرح کی فصلیں اُگتی ہیں، جن میں پٹ سن، گندم اور گنا وغیرہ شامل ہیں اس زمین کی زرخیزی کے پیشِ نظر ایشیا کا پہلا شکر خانہ یا شوگرمل برطانوی راج میں یہاں بدھا صومعہ (monastery) کے نزدیک بنائی گئی تھی۔
مآخذ
 

لاریب مرزا

محفلین
واؤ!! خوب ، خوب، خوب!! کتنے زبردست کھنڈرات ہیں :daydreaming:
تصاویر بھی خوب ہیں خان بھائی!! :thumbsup:
ہم بھی ایسے ہی کھنڈرات دیکھنا چاہتے ہیں جس سے رہنے والوں کی بودوباش کا اندازہ ہو سکے،
ایک بار پھر سے زبردست!! :thumbsup:
 

اے خان

محفلین
یہ مقام بدھ مت کی یہاں قدیم تہذیب و تمدن، طرزِ رہائش کے بارے میں نہایت مفصل معلومات و شواہد فراہم کرتاہے۔ اس گاؤں کی بنیاد ایک قدیم قصبے کی باقیات پر رکھی گئیں تھیں، وہ باقیات آج بھی عمدہ حالت میں دیکھنے والوں کے لئے علم و آگاہی کی فراہمی کا ذریعہ ہیں۔ یہاں پائے جانے والے قدیم زمانے کے سکوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں بدھ مت اورہندو نسل کے لوگ آباد تھے۔ یہاں تعمیر کی گئی عمارتیں جو کہ راہبوں کے لئے بنوائیں گئیں تھیں، ہر لحاظ سے تمام تر ضروریات ِ زندگی سے آراستہ تھیں۔ پہاڑی کے اوپر رہنے والوں کے لئے بھی فراہیٔ آب کا انتظام تھا۔ عمارتوں کی دیواروں میں ہوا کی آمد و رفت کے لئے روشندان اور رات میں تیل کے چراغ روشن کرنے کے لئے طاقیں بھی بنائی گئیں تھیں۔ کھدائی کے دوران یہاں جو چیزیں دریافت کی گئی ہیں، اُن میں بدھ مت کی عبادت گاہیں، صومعہ، عبادتگاہوں کے کھلے صحن، جلسہ گاہیں، بڑے بڑے ایستادہ مجسمے اورمجسموں کے نقش و نگار سے مزین بلند و بالا دیواریں شامل ہیں۔ پہلی مرتبہ تخت بھائی کی تاریخی حیثیت کی طرف توجہ 1836ء میں فرانسیسی آفیسر جنرل کورٹ نے مبذول کرائی تھی۔جبکہ تحقیق اور کھدائی کے کام کا آغاز 1852ء میں شروع کیا گیا۔
مآخذ
 

اے خان

محفلین
واؤ!! خوب ، خوب، خوب!! کتنے زبردست کھنڈرات ہیں :daydreaming:
تصاویر بھی خوب ہیں خان بھائی!! :thumbsup:
ہم بھی ایسے ہی کھنڈرات دیکھنا چاہتے ہیں جس سے رہنے والوں کی بودوباش کا اندازہ ہو سکے،
ایک بار پھر سے زبردست!! :thumbsup:
شکریہ! !!آپا..لیکن کھنڈرات دیکھنے کے لئے پہاڑی کے اوپر تک آپ کو پیدل جانا پڑے گا..
 
Top