تحیر میں ڈالنے والے کچھ قرآنی حقائق ۔۔

ربیع م

محفلین
آج وٹس ایپ پر ایک دوست نے میسج بھیجا تو سوچا شریک محفل کردوں۔ اگرچہ ان سب باتوں کی خود تحقیق نہیں کر سکا۔
‛‛‛عجائبات ﻗﺮﺁن‛‛‛

قرآن میں ریاضیاتی معجزہ

کاتب طارق اقبال نے – August 19, 2011 – کو شائع کیا 13 تبصرے
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جس چیز کو جس کے برابر کہا ہے اُن الفاظ کو بھی اتنی ہی دفعہ دُہرایاہے اورجس کو جس سے کم کہا ہے اسی نسبت سے ان الفاظ کو بھی قرآ ن مجید میں استعمال کیا گیاہے۔ اس دعوٰی کی بنیاد نہ تو اللہ تعالیٰ کے فرمان یعنی قرآن مجید میں موجودہے اورنہ ہی کسی حدیث یا صحابہ کے اقوال میں پائی جاتی ہے۔ بلکہ حال ہی میں جب کچھ مسلم اسکالرز نے اس جانب توجہ دی اور تحقیق فرمائی تو ان کو حیرت انگیز نتائج کا سامنا کرناپڑا اور ان کے سامنے قرآن مجید کا ایک اورمعجزانہ پہلو نکھر کر سامنے آگیا کہ جس کی مثال دنیا کی کسی دوسری کتاب میںملنا ناممکن ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات برملاکہی جاسکتی ہے کہ کوئی اگر کمپیوٹر کی مددسے بھی ایسا لکھناچاہے تو نہیں لکھ سکتا۔اوریہی قران مجید کا امتیا ز اورکمال ہے۔
٭مثلاً قرآن مجید میں حضرت عیسی کی مثال حضرت آدم سے دی گئی ہے:
(اِنَ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ)
”اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیداکیا اورحکم دیا کہ ہو جااوروہ ہوگیا”(1)​
معنی کے لحاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے مگر اگر آپ قرآن مجید میں عیسیٰ کا لفظ تلاش کریں تو وہ 25مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ اوراسی طرح آدم کا نام بھی 25دفعہ ہی قرآن میں موجودہے۔ یعنی معنی کے ساتھ ساتھ دونوں پیغمبروں کے ناموں کو بھی یکساں طور پر درج کیا گیا ہے۔
٭ اسی طرح سورة الاعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں سے اس (کے درجات)کو بلند کردیتے مگر وہ تو پستی کی طرف جھک گیااوراپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ایسے شخص کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تواس پر حملہ کرے تو بھی ہانپتا ہے اور نہ کرے تو بھی ہانپتا ہے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلادیا ”(2)
یہ کلمہ ”اَلَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یٰتِنَا” یعنی جو ہماری نشانیوںکو جھٹلاتے ہیں”قرآن مجید میں 5دفعہ آیا ہے جبکہ ”کَلْب”یعنی کتے کانام بھی پورے قرآن میں 5دفعہ ہی دہرایا گیا ہے۔
٭ اسی طرح سورة ”فاطر”میں فرمایا کہ
”اندھیرا اورروشنی ایک جیسے نہیں ہیں ”(3)
اب اندھیرے کو عربی میں ”ظلمت”کہتے ہیں اورقرآن میں یہ لفظ 23مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ جبکہ لفظ روشنی یعنی ”نور” ،کو 24مرتبہ دہرا یا گیا ہے۔ (4)
٭ قرآن مجید میں”سَبْعَ سَمٰوٰت”یعنی سات آسمانوں کا ذکر 7مرتبہ ہی ہوا ہے۔ نیز آسمانوں کے بنائے جانے کے لیے لفظ ”خَلَقَ”بھی 7مرتبہ ہی دہرایا گیاہے۔
٭ لفظ ”یَوْم”یعنی دن 365مرتبہ ،جبکہ جمع کے طورپر ”یَوْمَیْن یا اَیَّام”30مرتبہ اورلفظ ”شَھْر”یعنی مہینہ 12دفعہ دہرایا گیاہے۔
٭ لفظ ”شَجَرَہْ”یعنی درخت اورلفظ ”نَبَّات”یعنی پودے ،دونوں یکساں طورپر 26مرتبہ ہی دہرائے گئے ہیں۔
٭ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق ”انعام ”دینے کالفظ 117مرتبہ استعمال ہوا ہے جبکہ معاف کرنے کا لفظ ”مَغْفِرَہ” 234مرتبہ یعنی دگنی تعداد میں استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو معاف کرنا زیادہ پسند کرتاہے۔
٭ جب لفظ ”قُل”یعنی کہو ،کو گنا گیا تو وہ 332دفعہ شمارہوا۔ جبکہ لفظ ”قَالُوا”یعنی وہ کہتے ہیں یا پوچھتے ہیں؟کو شمار کیا گیا تو وہ بھی 332مرتبہ ہی قرآن میں دہرایا گیاہے۔
٭ لفظ ”دُنْیا”اور”آخِرَتْ”،دونوں مساوی طورپر 115دفعہ ہی دہرائے گئے ہیں۔
٭ لفظ ”شَیْطَان”88مرتبہ جبکہ لفظ”مَلَائِکَہ”یعنی فرشتے کو بھی 88دفعہ ہی دہرایا گیا ہے۔
٭ لفظ ”اِیْمَان”25دفعہ اورلفظ ”کُفْر”بھی اتنی مرتبہ ہی استعمال ہوا ہے۔
٭ لفظ ”جَنَّتْ”اورلفظ ”جَھَنَّم”یکساں تعداد میں یعنی 77مرتبہ دہرائے گئے ہیں۔
٭ لفظ ”زَکَوٰة”یعنی پاک کرنا،کو قرآن مجید میں 32دفعہ دہرایاگیا ہے جبکہ لفظ ”بَرَکَاة”یعنی برکت کو بھی 32دفعہ ہی استعمال کیا گیا ہے۔
٭ لفظ ”اَلْاَبْرَار”یعنی نیک لوگ کو 6دفعہ دہرایا گیا ہے اس کے مقابلہ میں لفظ ”اَلْفُجَّار”یعنی برے لوگ یا گنہگارلوگ،کو صرف 3مرتبہ دہرایا گیاہے۔
٭ لفظ ”خَمَرْ”یعنی شراب قرآن میں 6مرتبہ استعمال ہوا ہے جبکہ لفظ ”سَکَارٰی”یعنی نشہ یا شراب پینے والا،بھی 6مرتبہ ہی دہرایا گیا ہے۔
٭ لفظ ”لِسَان”یعنی زبان کو 25دفعہ لکھا گیا ہے اورلفظ ”خِطَاب”یعنی بات یا کلام ،کوبھی 25مرتبہ ہی دہرا یا گیا ہے۔
٭ لفظ ”مَنْفَعْہ”یعنی فائدہ ،اوراس کے متضادلفظ ”خُسْرَان”یعنی خسارہ ،نقصان’کو بھی یکساں طورپر 50,50مرتبہ ہی دہرایاگیا ہے۔
٭ لفظ ”مَحَبَّہ”یعنی دوستی اورلفظ ”طَاعَہ”یعنی فرمانبرداری”دونوں مساوی طورپر 83مرتبہ ہی دہرائے گئے ہیں۔
٭ لفظ ”مُصِیْبَة”یعنی تکلیف یا غم ،75مرتبہ استعمال ہواہے اورلفظ ”شُکْر”یعنی شکر گزارہونا ‘ حق بات کو ماننا،بھی 75مرتبہ ہی دہرایا گیا ہے۔
٭ لفظ”اِمْرَأة”یعنی عورت اورلفظ ”رَجُل”یعنی مرد یا آدمی ،دونوں یکساں طورپر 23,23مرتبہ ہی دہرائے گئے ہیں۔قرآن مجید میں ان الفاظ کا اتنی مرتبہ دہرانا بڑا دلچسپ اورحیران کُن ہے۔ کیونکہ جدید سائنس کے مطابق انسانی جنین کی تشکیل میں بھی 46کروموسومز حصہ لیتے ہیں اوران میں 23کروموسومز ماں کے اور23ہی باپ کے ہوتے ہیں اوریہ مرد کے جرثومے اورعورت کے بیضے میں موجودہوتے ہیں۔چنانچہ قرآن مجیدمیں دہرائے گئے ان الفا ظ کی جدید سائنس کے ساتھ مطابقت بڑی معنی خیز ہے۔
٭ لفظ ”صَلَوَات” یعنی نمازیں ،5دفعہ دہرایا گیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دن رات میں کُل پانچ نمازیں ہی پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے لفظ ”اَلْاِنْسَان”یعنی آدمی ،بشرکا لفظ 65مرتبہ دہرایا ہے۔ جبکہ انسان کی تشکیل کے سب مراحل کو بھی اتنی ہی دفعہ دہرایا ہے۔ ان مراحل کی تفصیل درج ذیل ہے۔
تُرَاب (مٹی)

17 دفعہ​
نُطْفَہ (منی کا قطرہ یا بوند)

12 دفعہ​
عَلَقَ (جمے ہوئے خون کا لوتھڑا)

6دفعہ​
مُضْغَہ (بوٹی)

3 دفعہ​
عِظَام (ہڈیاں)

15 دفعہ​
لَحْم (گوشت)

12 دفعہ​
مجموعہ

65 دفعہ​
اس لیے ان الفاظ کے درمیان مطابقت بھی بڑی معنی خیز ہے۔
٭ لفظ ”اَرْض”یعنی زمین کو قرآن مجیدمیں 13دفعہ دہرایا گیا ہے۔ جبکہ لفظ ”بَحْر”یعنی سمندریاد ریا ،کو 32دفعہ دہرایا گیاہے۔ان دونوں کا مجموعہ 45بنتاہے۔
چنانچہ ان کی نسبت کومعلوم کرنے کے لیے زمین اورسمندرکے انفرادی عدد کو ان دونوں کے مجموعے سے تقسیم کرتے ہیں تو درج ذیل نتیجہ سامنے آتاہے۔
زمین کے لیے 100 = 28.888888889% 13/45
سمندر کے لیے 100 = 71.111111111% 32/45
درج بالا حاصل ہونے والا نتیجہ جدید سائنس کے عین مطابق ہے۔ جس کے مطابق بھی زمین پر 71%پانی جبکہ 29%خشکی پائی جاتی ہے۔(5)

مذکورہ بالا تفصیل پر غوروخوض کے بعد یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید کا حسابی نظام اتنا پیچیدہ مگر منظم ہے کہ یہ انسانی عقل کے بس کی بات نہیں ،لاریب تمام جن وانس مل کر بھی ایسی بے مثال محیرالعقول کتاب تیارنہیں کرسکتے۔ حالاتِ حاضرہ پر نظر ڈالیں توآپ کو معلوم ہو گا کہ اس وقت شام ،دمشق،مصر اورعراق وغیرہ میں لاکھوں عیسائی اوریہودی ایک اندازے کے مطابق 1کروڑ 40لاکھ کے قریب موجود ہیں،جن کی مادری زبان عربی ہے جو عربی زبان میں نثر لکھنے پر قادرہیںجن کی ادارت میں اخبار اوررسائل اشاعت پذیر ہیں،ان میں ایسے ایسے ادیب اورماہر لسانیات ہیں جنہوں نے لغات ِ عربیہ پر نظرالمحیط،المنجد،اقرب الموارد اورالمحیط جیسی ضخیم کتابیں لکھ ڈالیں مگر وہ تورات،زبوراورانجیل کے بارے میں اس قسم کے کمپیوٹر ائزڈنظام نہ پیش کرسکے۔ یوںمحسوس ہوتاہے کہ قدرت نے یہ نظام ازل ہی سے قرآن مجید کے لیے مختص فرمادیاتھاجس کااظہار اب کمپیوٹر کے زمانے میں ہواہے۔
موٴلف ۔ طارق اقبال سوہدروی۔ جدہ ۔ سعودی عرب​
 
مدیر کی آخری تدوین:

زلفی شاہ

لائبریرین
قرآن پاک نے جو غور وحوض کرنے والوں کے متعلق کے کہا ہے کہ ان کے لئے علم کے نئے نئے باب کھلیں گے اس کی ایک ثبوت درج بالا تحریر میں بھی موجود ہے۔
 
بہت معلوماتی پوسٹ ہے کیا ویسے کوئی حوالہ یا کوئی مضمون وغیرہ شائع ہوا ہے اس تحقیق پر؟
کن کن مسلم سکالرز نے اس تحقیق میں حصہ لیا ہے؟
 

ربیع م

محفلین
بہت معلوماتی پوسٹ ہے کیا ویسے کوئی حوالہ یا کوئی مضمون وغیرہ شائع ہوا ہے اس تحقیق پر؟
کن کن مسلم سکالرز نے اس تحقیق میں حصہ لیا ہے؟
حوالہ مجھے نہیں مل سکا اور جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا کہ یہ مجھے میسج کے ذریعے موصول ہوا ،اب اس کی تصدیق کا یہی طریقہ ہے کہ المکتبہ الشاملۃ یا اس جیسے کسی سافٹ وئیر کےذریعے یہ اعداد وشمار چیک کئےجائیں۔
 

ربیع م

محفلین
بہت معلوماتی پوسٹ ہے کیا ویسے کوئی حوالہ یا کوئی مضمون وغیرہ شائع ہوا ہے اس تحقیق پر؟
کن کن مسلم سکالرز نے اس تحقیق میں حصہ لیا ہے؟

http://quraniscience.com/the-mathematical-miracle-of-quran/

یہ حدیثِ مبارکہ بہت معروف ہے اور یقینا آپ کی نظروں سے بھی گزری ہوگی۔
كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع۔ رواه مسلم في المقدمة 6 صحيح الجامع 4482 .

استاد محترم اس حدیث کا ترجمہ بھی بیان کر دیں تو بہت بہتر ہو گا۔

یہ "تحقیق" کچھ جعلی لگ رہی ہے۔ ذرا ایک دو چیزیں ہی چیک کر کے بتائیں۔

جی الحمدللہ میں چیک کرہا ہوں اب تک کچھ چیک کئے ہیں جو صحیح نکلے ،کچھ آپ بھی زحمت کر لیں:):):)

یہاں دیکھئے

اور یہاں بھی
 
مدیر کی آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
سطح زمین پر سب سے پست ترین مقام
اور رومیوں کی فتح کی خوشخبری

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے :​
(الم غُلِبَتِ الرُّ وْمُ o فِیْ اَدْنَی الْارْضِ وَہُمْ مِّنْمبَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ o فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ ط )
''الم۔رومی قریب کی (نشیبی )سرزمین میں مغلوب ہوگئے۔ تاہم وہ مغلوب ہونے کے چند ہی سال بعد پھر غالب آ جائیں گے'' (1)

اللہ تعالیٰ نے سورة روم کی ابتداء میں ہی دو عظیم باتو ں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک تو یہ خوشخبری تھی کہ اہل روم جو کہ اس وقت ایرانیوں کے آگے مغلوب ہوچکے ہیں وہ عنقریب (دس سال سے کم عرصہ میں )دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گئے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 614ء میں خسروپرویز نے روم کے بادشاہ ہرقل کو شکست فاش دی تھی۔ اس طرح دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی ہرقل نے اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہوئے2ہجری 624ء میں ایرانیوں پر فتح حاصل کرلی۔ اس طرح قرآن مجید کی یہ عظیم پیشین گوئی حرف بحرف سچ ثابت ہوئی اور بہت سے کافر اسی وجہ سے مسلمان ہوئے۔عربی زبان میںبضع کااطلاق دس سے کم پر ہوتاہے۔ (2)
دوسری پیشین گوئی اس میں لفظ ''ادنی '' ہے۔ عربی زبان میں ادنیٰ کامعنی اقرب بھی ہے اورنشیب بھی۔ نشیب کے مقابلہ میں بلندی ہوتی ہے۔ گویاادنی کامعنی ہے نیچا'یعنی نشیبی علاقہ۔ لہٰذا ''ادنی الارض ''سے مرادنشیبی علاقہ ہے۔ اوراس سے مراد فلسطین کانشیبی علاقہ ہے۔ یعنی بحیرہ مردار (Dead Sea)،جو سطح سمندر سے 392میٹر نیچے ہے۔(3)
چنانچہ جب زمین کے سب سے نچلے حصہ کی تلاش وتحقیق ہوئی تو وہی مقام نکلا جہاں رومیوں کو لڑائی میں شکست ہوئی تھی۔ اوریہ بحرہ مردار میں وہ جگہ ہے جو دنیا میں سب سے نشیبی یعنی سطح سمندر کے لحاظ سے سب سے پست ترین مقام ہے۔ اوراس کی گہرائی 408میٹر یا 1340 فٹ ہے۔ (4)


پروفیسر پالمر(Professor Palmer)امریکہ کے ایک صف اول کے ماہر ارضیات ہیں ان سے مسلمانوں کے ایک گروپ نے ملاقات کے دوران جب ان کو قرآن وحدیث میں موجود سائنسی معجزات کے بارے میں بتایا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ اور جب ان کو مندرجہ بالا آیت کی طرف متوجہ کیا گیا جو زمین کے پست ترین مقام کو ظاہر کرتی ہے تو وہ بہت متعجب ہوئے او رکہا :
دنیا میں اوربھی ایسے مقامات ہیں جو قرآن مجید میں مذکور مقام سے بھی بہت نشیب میں ہیں۔ انہوں نے یورپ اورامریکہ میں ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی اوران کے نام بھی بتائے۔ ان کو اصراراً بتایا گیا کہ قرآنی معلومات بالکل درست ہیں۔ان کے پاس جغرافیائی کرہ Topographical Globe) ( موجود تھا جو ارتفاع (Elevation) او ر نشیب (Depression) بتاتاتھا۔ انہوں نے کہا کہ اس ارض نما کرہ کے ذریعہ زمین کے پست ترین مقام کی نشاندہی کویقینی بنایا جا سکتا ہے۔انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ارض نما کرہ کو گھمایا تو وہ یروشلم کے نزدیک کے علاقے پر ایک مخصوص نشان پر مرتکز ہو گیا۔ ان کو تعجب ہواکہ اس علاقے کی جانب ایک علامت ان الفاظ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔​
"The lowest Part on the face of the Earth"
''سطح زمین پر سب سے پست ترین مقام ''​
پروفیسر پالمر نے تسلیم کرلیا کہ آپ (مسلمانوں )کی اطلاعات بالکل درست ہیں ، انہوں نے گفتگو جاری رکھی اورکہا کہ جیسا کہ آپ اس ارض نماکرہ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ یہی کرہ ارض پر سب سے پست تر ین زمینی مقام ہے۔ یہ بحر مردار (Dead Sea)کے علاقے میں واقع ہے۔ اوردلچسپی کی بات یہ ہے کہ ارض نما کرہ پر نشان لگا ہو اہے۔ Lowest Point
پروفیسر پالمر کی حیرانگی اس وقت مزید بڑھی جب انہوں نے دیکھا کہ قرآن مجید ماضی کے متعلق بھی گفتگو کرتاہے اوروضاحت کرتاہے کہ تخلیق کی ابتدا کیسے ہوئی۔ زمین وآسمان کی تخلیق کیسے ہوئی۔ زمین کی گہرائیوں سے پانی کے سوتے کیسے پھوٹے اور کس طرح پہاڑزمین پر مستحکم ہوئے۔ روئیدگی کے عمل کی ابتدا کیسے ہوئی ،زمین کیسی تھی۔ پہاڑوں کی تفصیلات، اس کے مظاہر کی تفصیلات ،سطح زمین پر جزیرہ عرب کی شہادتوں کی تفصیلات۔ پھر قرآن مجید مستقبل میں عرب کی زمین اوردنیا کے مستقبل کی بھی وضاحت کرتاہے۔ اس موقع پر پروفیسر پالمر نے تسلیم کر لیا کہ یہ ایسی کتاب ہے کہ جو ماضی ،حال اورمستقبل کی تفصیلات بتاتی ہے۔
دوسرے سائنس دانوںکی طرح پروفیسر پالمر پہلے تو ہچکچائے لیکن بعد میں انہوں نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہارکیا۔ انہوں نے قاہرہ میں ایک کانفرنس میں اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا جو کہ قرآن مجید میں ارضیاتی علوم سے متعلق معلومات پر مشتمل ایک بے مثال مقالہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سائنس کے شعبہ کے رسم معمولہ کیا تھے لیکن اس وقت علم اوروسائل کی کمی کے متعلق ضرور معلومات ہیں۔میں بغیر کسی شک وشبہ کے کہہ سکتاہوں کہ قرآن مجید آسمانی علم کی روشنی ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ ان کے مقالہ کے آخری ریمارکس یہ تھے:
'' ہمیں مشرق وسطیٰ کی ابتدائی تاریخ اورزبانی روایات کی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کیا یہ تاریخی واقعات (اس زمانے میں)دریافت ہو چکے تھے۔ اگر کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ہے تویہ بات اس عقیدہ کو مضبوط بناتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان علمی پاروں کو منتقل کیا جو آج موجودہ وقت میں دریافت ہوئے ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ قرآن مجیدمیں ارضیاتی تحقیق کے حوالے سے سائنسی موضوع پر گفتگو (تحقیق )جاری رہے گی۔ بہت بہت شکریہ''(5)

بہرحال یہ قرآن مجید کی حقانیت کا ایک ایسا ثبوت ہے کہ جسے جھٹلانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اہل غوروفکر کے لیے اس میں ایک واضح پیغام پنہاں ہے۔

موٴلف ۔ طارق اقبال سوہدروی ۔ جدہ ۔ سعودی عرب
 

یاز

محفلین
یہ "تحقیق" کچھ جعلی لگ رہی ہے۔ ذرا ایک دو چیزیں ہی چیک کر کے بتائیں۔

اہم سوال ہے زیک بھائی۔ بدقسمتی سے مذہب سے متعلق معاملات میں زیادہ تر لوگ ایسا جذباتی ہو جاتے ہیں کہ سوال اٹھانے کو ہی گناہ شمار کرتے ہیں، جواب دینا تو دور کی بات۔ جیسا کہ کچھ دن پہلے اسی فورم پہ ایک جگہ بات ہو رہی تھی مشہور لوگوں کے مسلمان ہونے کی جھوٹی خبروں پہ خوشی کے شادیانے بجانے کی۔ تو ایسا من حیث القوم ہمارے مزاج میں رچ بس سا گیا ہے کہ ایسی جو بھی بات پڑھیں یا سنیں تو بس ایمان لے آئیں۔ سوال ہرگز نہ کریں۔ ورنہ فتویٰ۔

بدرالفاتح بھائی نے بہت اچھا کام کیا ہے کہ مضمون کے شروع میں ہی اس کا اصل حوال بمعہ لنک شامل کیا ہے۔
اس لنک پہ جا کے میں نے نیچے تبصرہ جات پڑھے ہیں تو کچھ لوگوں نے اس پہ بات چیت کی ہے جس سے اندازہ ہوا ہے کہ شاید اس تحقیق میں بظاہر کچھ سہو رہ گئی ہے۔ اس میں سے ایک دو تبصرہ جات کو نیچے کاپی پیسٹ کرتا ہوں۔
------------
بھائی طارق اقبال
آپ نے اپنے مضمون میں ایک جگہ کہا ہے کہ قرآن پاک میں لفظ کلب یعنی کہ کتا پانچ دفعہ آیا ہے۔
بالکل ٹھیک یہ درست ہے
ایک دفعہ یہ لفظ کلب یعنی کتا سورہ الاعراف کی آیت نمبرایک سو چھہتر میں آیا ہے جبکہ ایک دفعہ سورہ الکہف کی آیت نمبر اٹھارہ میں اور تین بار سورہ الکہف کی آیت نمبر بائیس میں آیا ہے جبکہ اگلے ضمن میں آپ نے کہا ہے کہ کلمہ ”اَلَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یٰتِنَا” قرآن میں پانچ دفعہ ہی آیا ہے یہ درست نہیں ہے ۔
یہ کلمہ ”اَلَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یٰتِنَا” قرآن پاک میں تیرہ بار آیا ہے۔
اس ضمن میں اس حوالے سے آپ کا مضمون قابل اصلاح اور قابل درستگی ہے۔
جن تیرہ آیات میں یہ کلمہ ”اَلَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یٰتِنَا” آیا ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں ملاحظہ فرما لیں ۔
وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ
سورہ الانعام آیت نمبر 39
وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
سورہ الانعام آیت نمبر 49
وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا
سورہ الانعام آیت نمبر 150
وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ
سورہ الاعراف آیت نمبر 36
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ
سورہ الاعراف آیت نمبر40
وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ
سورہ الاعراف آیت نمبر64
وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَمَا كَانُوا مُؤْمِنِينَ
سورہ الاعراف آیت نمبر72
ذَٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا
سورہ الاعراف آیت نمبر176
سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنْفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ
سورہ الاعراف آیت نمبر177
وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ
سورہ الاعراف آیت نمبر182
وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا
سورہ یونس آیت نمبر 73
وَنَصَرْنَاهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا
سورہ الانبیاء آیت نمبر 77
فَقُلْنَا اذْهَبَا إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَدَمَّرْنَاهُمْ تَدْمِيرًا
سورہ الفرقان آیت نمبر 36
---------------
پیارے بھائی
قرآن میں ارض چار سو ساٹھ بار آیا ہے جبکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ارض تیرہ بار دہرایا گیا ہے۔.
————————
بحر اکتالیس بار قرآن میں آیا ہے جبکہ آپ نے کہا ہے کہ بحر کا لفظ بتیس بار دھرایا گیا ہے۔
آپ جو کام کر رہے ہیں میں اسکو خراج تحسین پیش کرتا ہوں میری آپ سے استدعا ہے کہ آپ جو بھی پوسٹ کریں پہلے اس کی تصدیق کیا کریں۔
قرآن پاک میں لفظ بحر اکتالیس بار آیا ہے. اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔.
1
سورہ البقرہ آیت نمبر 50.
2
سورہ البقرہ آیت نمبر164.
3
سورہ المائدہ آیت نمبر 96.
4
سورہ الانعام آیت نمبر 59.
5
سورہ الانعام آیت نمبر 63.
6
سورہ الانعام آیت نمبر97.
7
سورہ الاعراف آیت نمبر138.
8
سورہ الاعراف آیت نمبر 163.
9
سورہ یوسف آیت نمبر22.
10
سورہ یوسف آیت نمبر 90.
11
سورہ ابراہیم آیت نمبر 32.
12
سورہ النحل آیت نمبر14.
13
سورہ الاسراء آیت نمبر66.
14
سورہ الاسراء آیت نمبر 67.
15
سورہ الاسراء آیت نمبر 70.
16
سورہ الکہف آیت نمبر60.
17
سورہ الکہف آیت نمبر 61.
18
سورہ الکہف آیت نمبر 63.
19
سورہ الکہف آیت نمبر 79.
20
سورہ الکہف آیت نمبر 109.
21
سورہ طہ آیت نمبر77.
22
سورہ الحج آیت نمبر 65.
23
سورہ النور آیت نمبر 40.
24
سورہ الفرقان آیت نمبر53.
25
سورہ الفرقان آیت نمبر 63.
26
سورہ النمل آیت نمبر 61.
27
سورہ النمل آیت نمبر 63.
28
سورہ الروم آیت نمبر 41.
29
سورہ لقمان آیت نمبر 27.
30
سورہ لقمان آیت نمبر 31.
31
سورہ فاطر آیت نمبر 12.
32
سورہ الشوریٰ آیت نمبر 32.
33
سورہ الدخان آیت نمبر24.
34
سورہ الجاثیہ آیت نمبر 12.
35
سورہ الطور آیت نمبر 6.
36
سورہ الرحمن آیت نمبر 19.
37
سورہ الرحمن آیت نمبر 24.
38
سورہ التکویر آیت نمبر 6.
39
سورہ الانفطار آیت نمبر 3.

نوٹ
سورہ الکہف آیت نمبر 109.
اور سورہ لقمان آیت نمبر 27.
میں بحر دو دو دفعہ ہے. یوں بحر کل اکتالیس بار ہے.
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جس چیز کو جس کے برابر کہا ہے اُن الفاظ کو بھی اتنی ہی دفعہ دُہرایاہے اورجس کو جس سے کم کہا ہے اسی نسبت سے ان الفاظ کو بھی قرآ ن مجید میں استعمال کیا گیاہے۔
اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیداکیا اورحکم دیا کہ ہو جااوروہ ہوگیا”(1)
معنی کے لحاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے مگر اگر آپ قرآن مجید میں عیسیٰ کا لفظ تلاش کریں تو وہ 25مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ اوراسی طرح آدم کا نام بھی 25دفعہ ہی قرآن میں موجودہے۔ یعنی معنی کے ساتھ ساتھ دونوں پیغمبروں کے ناموں کو بھی یکساں طور پر درج کیا گیا ہے۔
پہلے ایسی تحقیقات اور نکات لاتے ہیں اور پھر جب لوگ انہی کی تحقیقات و نکات کی بنیاد پر سوال اٹھاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ اورحضرت آدمؑ کا نام مرتبے میں برابری کی وجہ سے 25 مرتبہ آیا تو حضرت محمدﷺ کا نام صرف 4 مرتبہ آنا کیا ثابت کرتا ہے۔
ایسے نکات نکالے ہی نہ جائیں جو بعد میں بدنامی کا باعث بنیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
http://quraniscience.com/the-mathematical-miracle-of-quran/
استاد محترم اس حدیث کا ترجمہ بھی بیان کر دیں تو بہت بہتر ہو گا۔
مجھے استاد کہنا تو خیرآپ کا حسنِ ظن ہے،حدیث کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کیے) ویسے ہی آگے بیان کر دے۔
 

ربیع م

محفلین
مجھے استاد کہنا تو خیرآپ کا حسنِ ظن ہے،حدیث کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کیے) ویسے ہی آگے بیان کر دے۔

آپ کو استاد کہنا میرا حسن ظن نہیں بلکہ یقین ہے۔
باقی اس مضمون کو میں نےسکہ بند تحقیق کے طور پر نقل نہیں کیا اسی لئے شروع میں بھی لکھا کہ میں خود تحقیق نہیں کر سکا ،بہرحال اس طرح نقل کرنا بھی میری غلطی ہے جس کیلئے معذرت خواہ ہوں۔
 
میری رائے اس موضوع پر یہ ہے کہ قرآن کے جو بیان کیے گئے حقوق ہیں ان پر عمل ہی پر ہمارا فوکس ہونا چاہئے۔
1- قرآن پر ایمان لانا, 2- اس کی تلاوت کرنا, 3- اس کے معانی کو سمجھنا اور اس میں غوروفکر کرنا, 4- اس پر عمل کرنا, 5- اسے دوسروں تک پہنچانا

اگر ہم ان اعداد کے فہم پر وقت ضائع کرنے کے بجائے قرآن کے الفاظ کے فہم پر وقت لگائیں تو زیادہ نفع بخش ہو گا۔ جزاک اللہ
 

آصف اثر

معطل
محترم محمد وارث صاحب نے جو حدیث بیان کی ہے وہ ہر مسلمان کے لیے تنبیہاً کافی ہے۔ باقی قرآن کے عظمت کو دیکھ کر اس کا ایک ایک لفظ انتہائی غوروفکر اور اختیاط کا متقاضی ہے۔
قرآن مجید فرقانِ حمید میں ایسی کئی نشانیاں اللہ نے کھلی طور پربیان کی ہےکہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ (میں ملحدین کی ”عقل“کی بات نہیں کررہا کیوں کہ ان میں شعور ہی نہیں۔ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد پاک ہے۔وهم لایشعرون)
بچے کا ماں کے پیٹ میں بننا ،مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِO زمین ،چاند ، سورج اور دیگر لاتعداد سیاروں کے گردش اورحرکت کا نظام ۔اور دیگر واضح نشانیاں۔۔۔(یہ اس وقت بتادی گئیں تھیں جب کسی کہ وہم وگمان میں بھی یہ باتیں نہ تھیں)۔
لیکن ان سب کے باوجود بھی دنیا کی اکثریت گم راہ ہے۔ کیوں کہ عقل کے پُجاری اپنی ”عقل “سے ہر چیز کو پرکھنے کے باوجود اپنی جہالت اور ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے۔آج کچھ لوگ اپنی چھوٹی سی ”عقل“ کو کُل کہہ کراللہ کے وجود کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔اُن کے دل ان سب کے باوجود ایمان نہیں لاتے۔جو لوگ قرآن کو جھٹلاتے ہیں ان کے لیے قرآن پاک کا ارشاد ہے:

وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۔(اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدۂ (قیامت) کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو)۔سورۃ یٰسین۔
اور پھر جب یہ وعدہ پورا ہوگا تو یہ کہیں گے:
قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ۔((روزِ محشر کی ہولناکیاں دیکھ کر) کہیں گے: ہائے ہماری کم بختی! ہمیں کس نے ہماری خواب گاہوں سے اٹھا دیا، (یہ زندہ ہونا) وہی تو ہے جس کا خدائے رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ فرمایا تھا) ۔ سورۃ یٰسین۔
 
Top