تحریر غالب کی ہے ؟؟

نایاب

لائبریرین
ویسے کس قسم کے شعر اس تحریر کا سبب بنے اگر ان میں سے کچھ لکھ دیے جائیں تو کیا مضائقہ ہے۔ ذرا منہ کا ذائقہ ہی تبدیل ہو جائے گا۔

""چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد ""
محترم اسد اللہ خان غالب صاحب خوباں سے چھیڑ چھاڑ کسی صورت میں ترک کرنے کے قائل نہیں تھے ،
اگر دوستی کی کوئی تدبیر کار گر نظر نہ آتی تو چچا کو خوباں سے عداوت بھی منظور تھی۔
اور ہم بھی اسی سلسلے کے مرید ہیں محترم انتہا بھائی
 

موجو

لائبریرین
لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ آپ کو بہت شوق ہے ۔ ۔ ۔ تاریک گوشوں میں ادب معترضہ پڑھنے کا :eek:
ہمیں ادب معترضہ کی حدود کیسے معلوم ہوں گی؟
تاریک گوشہ اس لئے کہ ایسی چیزوں کو پھیلانا نہیں چاہیے
ظلمت پر ظلمت ہی چھائی رہنی چاہیے
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
کتنے شیریں ہیں اس کے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسمان کیوں ہو

[/quote]
@محمد وارث بھائی کا کہنا ”بجا“ ہے کہ ”موقع کی مناسبت“ سے گالیاں دینے میں کوئی ”مضائقہ“ نہیں ہے۔ بالخصوص اگر یہ گالیاں اپنے محبوب شاعر کے ”شیریں لبوں“ سے ادا ہوں تو ”ادب شناس“ کبھی بے مزہ نہین ہوتے۔ چچا غالب اور ہم طرفدارانِ غالب کا یہی ”عقیدہ“ ہے۔:laughing: :laughing::laughing:
[/quote]

سراسر الزام

ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
""چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد ""
محترم اسد اللہ خان غالب صاحب خوباں سے چھیڑ چھاڑ کسی صورت میں ترک کرنے کے قائل نہیں تھے ،
اگر دوستی کی کوئی تدبیر کار گر نظر نہ آتی تو چچا کو خوباں سے عداوت بھی منظور تھی۔
اور ہم بھی اسی سلسلے کے مرید ہیں محترم انتہا بھائی
یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ

اور غالبؔ اپنے سے زیادہ خوب کسی کو ماننے پر تیار ہی کب تھے؟:D
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
محترم بھائی
منٹو صاحب اور عصمت چغتائی نے جو بھی لکھا کھلے طور لکھا ۔
جبکہ " چچا " نے یہ سب خطوط میں لکھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
منٹو اور عصمت کا امام بھی غالب ؔ ہی ہے
اس خط پر ایسی کوئی ہدایت نہیں لکھی غالب نے کہ پڑھ کر جلا دینا
بلکہ اہتمام سے چھپوانے کی تیاری کی گئی وہ تو زندگی نے وفا نہ کی اور یہ کام میر مہدی مجروحؔ اور حالیؔ صاحب کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا

منافقانہ ادب سے اردو کو الگ راہ دکھانے والا اگر کوئی غالبؔ سے پہلے ہوا ہو تو پلیز میری ناقص معلومات میں اضافہ فرما کر ثوابِ دارین حاصل کریں

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

لکھنے کی ہمت اور اخلاقی جرات غالبؔ سے پہلے کس میں تھی؟ بڑے بڑے شاعر اور علامہ صاحبان گزرے
مگر غالب ؔ کی طرح اپنا اچھا برا سب عوامی عدالت میں کسی نے پیش نہیں کیا
اور اس سب کے باوجود وہ غالبؔ ہیں

اس کے بعد سچ لکھنے والے منٹو اور عصمت بنے
جنہیں بڑے فخر سے "فحش نگار" کہہ کر جہالت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے

اور پھر ممتاز مفتی صاحب نے تو "علی پور کا ایلی" میں حد ہی مکا دی

امید ہے میں اپنی بات سمجھانے میں کامیاب رہا ہوں گا
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
ایک اور غلط فہمی آپ کی دور کرتا چلوں

کہ غالب نے یہ خط "برہانِ قاطع" کے جواب میں خود کو ملنے والی گالیوں کے جواب میں نہیں لکھا
نہ ہی غالب نے یہ خط کلکتہ کے مدرسہ کے طالب علموں کے نام لکھا

کاش آپ سمجھتے ہوتے کہ غالبؔ کو سب سے زیادہ پیار کس سے تھا
عورت کو محبوبہ سمجھنے والوں کو یقیناً میری بات مضحکہ خیز لگے گی (غیر متفق ہونے یا ناپسند کرنے کی کھلی اجازت ہے)
مگر ان لوگوں کو غالب کا پتا ہی نہیں
نواب جان، یا چودھویں بائی کو غالب کی محبوبہ قرار دینے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں

غالب کی محبوبہ تھی ان کی " الہامی شاعری"
کاش آپ سمجھ پاتے
کاش آپ سمجھ پاتے
کاش آپ سمجھ پاتے
کاش آپ سمجھ پاتے
کاش آپ سمجھ پاتے
کہ غالب کو اپنی شاعری سے کتنا پیار تھا

کاش آپ سمجھ پاتے کہ غالبؔ نے کس بے بسی کے عالم میں جھنجھلا کر یہ الفاظ لکھے ہوں گے

اور آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسمان کیوں ہو
@محمد وارث بھائی کا کہنا ”بجا“ ہے کہ ”موقع کی مناسبت“ سے گالیاں دینے میں کوئی ”مضائقہ“ نہیں ہے۔ بالخصوص اگر یہ گالیاں اپنے محبوب شاعر کے ”شیریں لبوں“ سے ادا ہوں تو ”ادب شناس“ کبھی بے مزہ نہین ہوتے۔ چچا غالب اور ہم طرفدارانِ غالب کا یہی ”عقیدہ“ ہے۔:laughing: :laughing::laughing:
[/quote]

سراسر الزام

ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں[/quote]
:haha::pagaldil::haha:
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے خیال میں ہر ادیب پہلے انسان ہے اور انسان عیبوں اور خوبیوں سے مزین ہوتا ہے اور غالب نے تو کبھی بھی اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ وہ شراب بھی پیتے تھے اور جوا بھی کھیلتے تھے اس کے علاوہ طوائفوں کے کوٹھوں پر بھی جاتے تھے۔ تو کیا اس قسم کی معمولی گالیاں وہ روزمرہ میں نہ نکالتے ہوں گے؟ یہاں جتنے بھی احباب اس اقتباس پر معترض ہو رہے ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا انہوں نے کبھی زندگی میں اس قسم کی گالیاں نہیں دیں؟
پہلا پتھر پھینکنے کا حق صرف اسے ہونا چاہیے جس نے خود کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو۔
 
Top