یوسف-2
محفلین
معروف ڈرامہ سیریز ’’اندھیرا اجالا ‘‘ کے ’’جعفر حسین‘‘ سے کون نہیں واقف؟ جس کی ہر وقت پینٹ ڈھیلی ہوئی رہتی تھی۔یہ کردار جمیل فخری پر ایسا جچا کہ بعد میں انہوں نے بے شمار کردار ادا کیے لیکن اُن کی پہچان جعفر حسین ہی بنا۔ہم سب اِنہیں پیار سے ’’تایا جی‘‘ کہتے تھے، تایا جی محفل لوٹنے کے ماہر تھے، دنیاجہان کے لطیفے اورجگتیں اُن کی گھٹی میں پڑی تھیں، خوش مزاج ایسے کہ پی ٹی وی کے جس پروڈیوسر کے کمرے سے قہقہوں کی فلک شگاف آوازیں بلند ہوتیں، سب سمجھ جاتے کہ یہاں تایا جی نے منڈلی جمالی ہوئی ہے۔2008 کے الیکشن میں مجھے پی ٹی وی کی طرف سے الیکشن ٹرانسمشن کے لیے اسلام آباد بلایا گیا،میرے دوست اور معروف کالم نگاریاسر پیرزادہ بھی میرے ساتھ تھے، پی ٹی وی کی طرف سے سب کو میریٹ ہوٹل میں کمرے الاٹ کیے گئے تھے۔ یہاں ہمارے علاوہ پورے پاکستان سے فنکار اکٹھے کیے گئے تھے، ریمبو، صاحبہ، طارق عزیز، عرفان کھوسٹ، زیبا شہناز،ماجد جہانگیر، اسماعیل تارا، جگن کاظم، مشی خان، ثانیہ سعید، حامد رانا، ذوالقرنین حیدر،تنویر جمال اور بے شمار چمکتے دمکتے ستارے ایک ہی چھت تلے مقیم تھے ، یہ ساری کہکشاں ناشتے کے وقت اکٹھی ہوجاتی اور میریٹ ہوٹل کی فضا میں رنگ بکھر جاتے۔تایا جی کا کمرہ میرے کمرے کے ساتھ تھا ، اسی لیے مجھے کسی پل سکون نصیب نہیں ہوسکا۔ تایا جی سیدھے سادے لاہوریے تھے لہذا ٹرانسمشن سے فارغ ہوکر میرے کمرے میں آجاتے اور ایسی ایسی بے ساختہ حرکتیں کرتے کہ تھکن سے چور ہونے کے باوجود میں ہنستے ہنستے بے حال ہوجاتا۔ایک دفعہ آدھی رات کو میرے کمرے میں آگئے اور کہنے لگے کہ بھوک بہت لگی ہے۔ میں نے کہا’’تایا جی آپ نے روم سروس پر فون کر کے کھانا منگوا لینا تھا‘‘۔ آہستہ سے بولے’’یار! رات بہت ہوچکی ہے، کہیں سالن وغیرہ ختم نہ ہوگیا ہو‘‘۔ میں نے ایک قہقہہ لگایا اور روم سروس کا نمبر ملا کر اُن کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا’’بے فکر ہوکر منگوائیں، یہ شیدے کا ہوٹل نہیں، یہاں ہر وقت ہر چیز مل جاتی ہے‘‘۔تایا جی نے خوش ہوکر رسیور کان سے لگایا ، دوسری طرف سے خاتون نے مترنم آواز میں ویلکم کہا ، تایا جی جلدی سے پنجابی میں بولے ’’پُتر۔۔۔کھانا مل جائے گا؟‘‘۔ آواز آئی’’جی ہاں، فرمائیے کیا کھائیں گے؟‘‘تایا جی خوش ہوگئے اور بڑے پیار سے بولے’’پُتر۔۔۔اج کیہہ پکا اے؟‘‘ دوسری طرف سے تھوڑی دیر خاموشی رہی، شاید خاتون بھی اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی تھی، پھر آواز آئی’’سب کچھ موجود ہے، آپ حکم کریں‘‘۔تایا جی نہال ہوگئے اور بولے’’بس پُتر، ایک مدری روٹی اور ہاف پلیٹ سبزی کی بھجوا دو‘‘۔۔۔!!!
تایا جی کی پنڈلیوں میں بڑا دردرہتا تھا،میں ٹرانسمشن سے واپس پر اکثر ان کی ٹانگیں دبایا کرتا تھا، ایک دن کہنے لگے ، یارچائے پینے کو بڑا دل کر رہا ہے، میں نے کہا ابھی منگو الیتے ہیں، جلدی سے بولے ،نہیں یار۔۔۔اِن کی چائے اچھی نہیں ہوتی، میں نے کچھ دیر سوچا اور کہا ’’تایا جی! آئیں سیرینا ہوٹل سے چائے پی کر آتے ہیں‘‘۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے، ایک نظر دیوار پر لگے کلاک پر ڈالی اور بولے’’رات کے ساڑھے بارہ بج رہے ہیں، اس وقت سیرینا ہوٹل کھلا ہوگا؟؟؟‘‘مجھے اُن پر بڑا پیار آیا، میں نے اثبات میں سرہلادیا، انہوں نے تھوڑی دیر سوچا ، پھر نفی میں سرہلاتے ہوئے بولے’’نہیںیار! یہ بڑے بڑے ہوٹلوں کی چائے ایک جیسی ہوتی ہے، باہر چل کر کسی کھوکھے والے کے ہوٹل سے چائے پیتے ہیں‘‘۔ میں نے حامی بھر لی، ہم دونوں ہوٹل سے باہر آگئے، تاہم کافی دیر کوشش کے باوجود قرب و جوار میں کوئی چائے کا کھوکھا نہ ملا۔ تایا جی کے چہرے پر مایوسی کے آثار ابھر آئے، میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ’’واپس ہوٹل چلتے ہیں ، میںآپکو چائے میں زیادہ ٹی بیگز ڈال دوں گا‘‘ تایا جی غصہ کر گئے، چلا کر بولے’’میں نئیں پینی تعویز اں آلی چاء‘‘۔۔۔!!!
تایا جی زندہ دلی کا منہ بولتا ثبوت تھے، ہر بات سے پہلے چھ سات گالیاں نکالنا فرض سمجھتے تھے ،تاہم کوئی مائنڈ نہیں کرتا تھا کیونکہ تایا جی اُسے گالیاں دیتے تھے جس سے زیادہ پیار ہوتا تھا۔ایک دفعہ میں نے موبائل فون تبدیل کیا تو کافی سارے نمبر بھی ڈیلیٹ ہوگئے جن میں تایا جی کا نمبر بھی تھا، تایا جی کا فون آیا تو میں ریکارڈنگ میں تھا ، شور کی وجہ سے آواز پہچانی نہیں گئی، میں نے پوچھا ’’آپ کون ہیں؟‘‘تایا جی نے دانت پیس کر اپنا نام بتایا، میں جلدی سے ریکارڈنگ چھوڑ کر باہر آگیا او ر معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ Unknown نمبر آنے کی وجہ سے میں پہچان نہیں پایا ،لیکن تایا جی بدستور غصے میں تھے، کڑک کر بولے’’ہن فیر گال کڈھاں؟؟؟‘‘ میں نے بوکھلا کر جلدی سے کہا’’نہیں تایا جی۔۔۔تہاڈا فون آگیا اے، میرے واسطے ایہو ای گال اے‘‘۔یہ سنتے ہی دوسری طرف سے تایا جی کا کان پھاڑ قہقہہ گونجا اور وہ مسلسل ایک منٹ تک ہنستے رہے۔۔۔یہ تایا جی کا آخری قہقہہ تھا۔۔۔اِس کے بعد کبھی کسی نے اُنہیں یوں بے ساختہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، ہنستے بھی تھے تودل کا سارا درد اُن کی آنکھوں سے عیاں ہوجاتاتھا۔۔۔!!!وہ ہر ایک سے فریاد کرتے پھرتے کہ مجھے میرے بیٹے کا پتا بتا دو۔ اُن کا بیٹا علی ایاز فخری کافی عرصے سے امریکہ میں مقیم تھا اور اچانک ہی نیویارک سے لاپتہ ہوگیا تھا۔وہ امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے فون کرتے تھے تو کوئی ان کا فون تک سننا گوارہ نہیں کرتا تھا۔ دوسروں میں قہقہے بکھیرنے والا یہ عظیم فنکار پاگلوں کی طرح حکومتی ایوانوں سے رابطے کرتا پھر رہا تھا لیکن کوئی اُس کے بیٹے کی خبر دینے کو تیار نہ تھا۔تایا جی کے چہرے کے رونقیں ماند پڑنے لگیں، جسم تیزی سے گھلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے بھرپور جسم والا’’جعفر حسین‘‘ایک لاغر ڈھانچے کی شکل اختیار کر گیا،ڈراموں میں کام ملنا بند ہوگیا۔انہی دنوں میں اے ٹی وی کے لیے عید کا ڈرامہ ’’ نولفٹ‘‘ لکھ رہا تھا، میں نے تایا جی کو مدنظر رکھ کر ایک کردار خصوصی طور پر اُن کے لیے لکھا، وہ ہمیشہ کی طرح لوکیشن پر ٹھیک وقت پر پہنچ گئے، تاہم جتنی دیر کیمرہ آن رہتا، وہ اپنے کردار کی شوخیوں میں گم رہتے اور جونہی Cut کی آواز آتی۔۔۔پھر گہری اداسیوں میں گم ہوکر میرے پاس آبیٹھتے، سوال وہی ہوتا۔۔۔کیا میرا بیٹا زندہ ہوگا؟؟؟
22 ماہ بیٹے کے غم میں سلگتے ہوئے اچانک ایک دن وہ بریکنگ نیوز بن گئے،بلکتی آنکھوں کے ساتھ انہوں نے سکرین پر آکر اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے التجا کی ، اس التجا کی ایک لائن نے تو ہر اہل دل کو تڑپا کے رکھ دیا جس میں تایا جی نے روتے ہوئے کہا کہ ’’زندہ نہ سہی، اُس کی لاش ہی مجھے لادو‘‘۔یہ کام شاید زیادہ آسان تھا اس لیے ایک دن رحمان ملک صاحب نے انہیں ’’خوشخبری‘‘ سنائی کہ نیویارک پولیس نے ان کے بیٹے کی جلی ہوئی لاش ڈھونڈ لی ہے۔یہ لاش ایک دن پاکستان پہنچ گئی، تاہم سختی سے حکم تھا کہ تابوت نہ کھولا جائے، پتا نہیں تابوت میں کچھ تھا بھی یا نہیں، لیکن تایا جی جب تابوت سے لپٹ کر روئے تو مجھے اُن کے چہرے پر ایک گہرا سکون نظر آیا۔اسی سکون نے انہیں کچھ عرصے بعد میوہسپتال میں سکون کی نیند سلا دیا۔والدین مر جائیں تو اولاد نہیں مرتی، لیکن اولاد مرجائے تو والدین جیتے جی مر جاتے ہیں۔ تایا جی 22 ماہ پہلے ہی مر گئے تھے لیکن شاید ایک خالی تابوت کو چھونے کی حسرت نے اُنہیں زندہ رکھا ہوا تھا۔ (نئی دنیا۔ 24 دسمبر 2012)
تایا جی کی پنڈلیوں میں بڑا دردرہتا تھا،میں ٹرانسمشن سے واپس پر اکثر ان کی ٹانگیں دبایا کرتا تھا، ایک دن کہنے لگے ، یارچائے پینے کو بڑا دل کر رہا ہے، میں نے کہا ابھی منگو الیتے ہیں، جلدی سے بولے ،نہیں یار۔۔۔اِن کی چائے اچھی نہیں ہوتی، میں نے کچھ دیر سوچا اور کہا ’’تایا جی! آئیں سیرینا ہوٹل سے چائے پی کر آتے ہیں‘‘۔وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے، ایک نظر دیوار پر لگے کلاک پر ڈالی اور بولے’’رات کے ساڑھے بارہ بج رہے ہیں، اس وقت سیرینا ہوٹل کھلا ہوگا؟؟؟‘‘مجھے اُن پر بڑا پیار آیا، میں نے اثبات میں سرہلادیا، انہوں نے تھوڑی دیر سوچا ، پھر نفی میں سرہلاتے ہوئے بولے’’نہیںیار! یہ بڑے بڑے ہوٹلوں کی چائے ایک جیسی ہوتی ہے، باہر چل کر کسی کھوکھے والے کے ہوٹل سے چائے پیتے ہیں‘‘۔ میں نے حامی بھر لی، ہم دونوں ہوٹل سے باہر آگئے، تاہم کافی دیر کوشش کے باوجود قرب و جوار میں کوئی چائے کا کھوکھا نہ ملا۔ تایا جی کے چہرے پر مایوسی کے آثار ابھر آئے، میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ’’واپس ہوٹل چلتے ہیں ، میںآپکو چائے میں زیادہ ٹی بیگز ڈال دوں گا‘‘ تایا جی غصہ کر گئے، چلا کر بولے’’میں نئیں پینی تعویز اں آلی چاء‘‘۔۔۔!!!
تایا جی زندہ دلی کا منہ بولتا ثبوت تھے، ہر بات سے پہلے چھ سات گالیاں نکالنا فرض سمجھتے تھے ،تاہم کوئی مائنڈ نہیں کرتا تھا کیونکہ تایا جی اُسے گالیاں دیتے تھے جس سے زیادہ پیار ہوتا تھا۔ایک دفعہ میں نے موبائل فون تبدیل کیا تو کافی سارے نمبر بھی ڈیلیٹ ہوگئے جن میں تایا جی کا نمبر بھی تھا، تایا جی کا فون آیا تو میں ریکارڈنگ میں تھا ، شور کی وجہ سے آواز پہچانی نہیں گئی، میں نے پوچھا ’’آپ کون ہیں؟‘‘تایا جی نے دانت پیس کر اپنا نام بتایا، میں جلدی سے ریکارڈنگ چھوڑ کر باہر آگیا او ر معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ Unknown نمبر آنے کی وجہ سے میں پہچان نہیں پایا ،لیکن تایا جی بدستور غصے میں تھے، کڑک کر بولے’’ہن فیر گال کڈھاں؟؟؟‘‘ میں نے بوکھلا کر جلدی سے کہا’’نہیں تایا جی۔۔۔تہاڈا فون آگیا اے، میرے واسطے ایہو ای گال اے‘‘۔یہ سنتے ہی دوسری طرف سے تایا جی کا کان پھاڑ قہقہہ گونجا اور وہ مسلسل ایک منٹ تک ہنستے رہے۔۔۔یہ تایا جی کا آخری قہقہہ تھا۔۔۔اِس کے بعد کبھی کسی نے اُنہیں یوں بے ساختہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا، ہنستے بھی تھے تودل کا سارا درد اُن کی آنکھوں سے عیاں ہوجاتاتھا۔۔۔!!!وہ ہر ایک سے فریاد کرتے پھرتے کہ مجھے میرے بیٹے کا پتا بتا دو۔ اُن کا بیٹا علی ایاز فخری کافی عرصے سے امریکہ میں مقیم تھا اور اچانک ہی نیویارک سے لاپتہ ہوگیا تھا۔وہ امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے فون کرتے تھے تو کوئی ان کا فون تک سننا گوارہ نہیں کرتا تھا۔ دوسروں میں قہقہے بکھیرنے والا یہ عظیم فنکار پاگلوں کی طرح حکومتی ایوانوں سے رابطے کرتا پھر رہا تھا لیکن کوئی اُس کے بیٹے کی خبر دینے کو تیار نہ تھا۔تایا جی کے چہرے کے رونقیں ماند پڑنے لگیں، جسم تیزی سے گھلنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے بھرپور جسم والا’’جعفر حسین‘‘ایک لاغر ڈھانچے کی شکل اختیار کر گیا،ڈراموں میں کام ملنا بند ہوگیا۔انہی دنوں میں اے ٹی وی کے لیے عید کا ڈرامہ ’’ نولفٹ‘‘ لکھ رہا تھا، میں نے تایا جی کو مدنظر رکھ کر ایک کردار خصوصی طور پر اُن کے لیے لکھا، وہ ہمیشہ کی طرح لوکیشن پر ٹھیک وقت پر پہنچ گئے، تاہم جتنی دیر کیمرہ آن رہتا، وہ اپنے کردار کی شوخیوں میں گم رہتے اور جونہی Cut کی آواز آتی۔۔۔پھر گہری اداسیوں میں گم ہوکر میرے پاس آبیٹھتے، سوال وہی ہوتا۔۔۔کیا میرا بیٹا زندہ ہوگا؟؟؟
22 ماہ بیٹے کے غم میں سلگتے ہوئے اچانک ایک دن وہ بریکنگ نیوز بن گئے،بلکتی آنکھوں کے ساتھ انہوں نے سکرین پر آکر اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے التجا کی ، اس التجا کی ایک لائن نے تو ہر اہل دل کو تڑپا کے رکھ دیا جس میں تایا جی نے روتے ہوئے کہا کہ ’’زندہ نہ سہی، اُس کی لاش ہی مجھے لادو‘‘۔یہ کام شاید زیادہ آسان تھا اس لیے ایک دن رحمان ملک صاحب نے انہیں ’’خوشخبری‘‘ سنائی کہ نیویارک پولیس نے ان کے بیٹے کی جلی ہوئی لاش ڈھونڈ لی ہے۔یہ لاش ایک دن پاکستان پہنچ گئی، تاہم سختی سے حکم تھا کہ تابوت نہ کھولا جائے، پتا نہیں تابوت میں کچھ تھا بھی یا نہیں، لیکن تایا جی جب تابوت سے لپٹ کر روئے تو مجھے اُن کے چہرے پر ایک گہرا سکون نظر آیا۔اسی سکون نے انہیں کچھ عرصے بعد میوہسپتال میں سکون کی نیند سلا دیا۔والدین مر جائیں تو اولاد نہیں مرتی، لیکن اولاد مرجائے تو والدین جیتے جی مر جاتے ہیں۔ تایا جی 22 ماہ پہلے ہی مر گئے تھے لیکن شاید ایک خالی تابوت کو چھونے کی حسرت نے اُنہیں زندہ رکھا ہوا تھا۔ (نئی دنیا۔ 24 دسمبر 2012)