تازہ غزل - برائے اصلاح

محمداعظم چشتی پاکستان کے مشہور نعت خواں تھے۔ وہ شاعر بھی تھے اور اپنا لکھا ہوا کلام پڑھتے تھے۔ ان کے لکھے ایک پنجابی کلام سے متاثر ہو کر چند اشعار لکھے ہیں۔ یہ کلام خود چشتی صاحب کے علاوہ قاری خوشی محمد الازھری (جو دنیا بھر میں قراءت کے حوالے سے مشہور تھے) نے اور کئی دوسرے نعت خواں حضرات نے پڑھا۔ قاری صاحب کی آواز نے اس کلام کو چار چاند لگا دیے۔ یُوٹیوب پر بھی اسے درج ذیل لنک پر سنا جاسکتا ہے۔
قاری خوشی محمد الازھری

محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، عظیم ، یاسر شاہ

علاج ناں ہی سہی درد بن کے آ جاتے یا علاج تم نہ سہی درد بن کے آجاتے یا نہ درماں بنتے -کبھی درد بن کے آجاتے
گلے لگا کے مجھے اور بھی رُلا جاتے

چلے ہی جاتے جھلک تو مگر دکھا دیتے
وہ شوق دِید مرا اور بھی بڑھا جاتے

بھلے وہ مجھ سے کبھی ہم کلام ناں ہوتے
مری وفاؤں کی آکر سزا سنا جاتے

امیدِ وصل میں یہ زندگی گذر جاتی
مجھے وہ جھوٹی سہی آس تو دِلا جاتے

رقیب بن کے سہی میرے رو برو آ کر
نظر ملا کے مرا جُرم تو بتا جاتے

وہ زندگی میں ہمیشہ مجھے جلاتے تھے
مری لحد پہ بھی آ کر دیا جلا جاتے
 

الف عین

لائبریرین
ناں تو اردو کا کوئی لفظ نہیں ہے، اور "نہ" کی یہ دو سلیبل کی شکل عروض کے اعتبار سے قابل قبول نہیں
مطلع کے مصرع اولی کی کوئی شکل پسند نہیں ائی

چلے ہی جاتے جھلک تو مگر دکھا دیتے
وہ شوق دِید مرا اور بھی بڑھا جاتے
دونوں مصرعوں کا "تے" پر اختتام اچھا نہیں لگتا اگرچہ یہ خفی ایطا ہے، ترتیب بدلیں
بھلے وہ مجھ سے کبھی ہم کلام ناں ہوتے
مری وفاؤں کی آکر سزا سنا جاتے
ایضاً،
بھلے وہ مجھ سے نہیں ہوتے ہم کلام کبھی
سزا سنانے میں ہم کلام ہونا شامل نہیں؟
امیدِ وصل میں یہ زندگی گذر جاتی
مجھے وہ جھوٹی سہی آس تو دِلا جاتے
درست
رقیب بن کے سہی میرے رو برو آ کر
نظر ملا کے مرا جُرم تو بتا جاتے
رقیب کا کام تو نہیں جرم بتانا!
وہ زندگی میں ہمیشہ مجھے جلاتے تھے
مری لحد پہ بھی آ کر دیا جلا جاتے
پہلے مصرع میں اگر "جلاتے رہے" کہیں تو بہتری محسوس ہوتی ہے؟
 
علاج ناں ہی سہی درد بن کے آ جاتے یا علاج تم نہ سہی درد بن کے آجاتے یا نہ درماں بنتے -کبھی درد بن کے آجاتے
گلے لگا کے مجھے اور بھی رُلا جاتے​
ناں تو اردو کا کوئی لفظ نہیں ہے، اور "نہ" کی یہ دو سلیبل کی شکل عروض کے اعتبار سے قابل قبول نہیں
مطلع کے مصرع اولی کی کوئی شکل پسند نہیں ائی
قرار تُم نہ سہی درد بن کے آ جاتے
گلے لگا کے مجھے اور بھی رُلا جاتے
 
چلے ہی جاتے جھلک تو مگر دکھا دیتے
وہ شوق دِید مرا اور بھی بڑھا جاتے​
دونوں مصرعوں کا "تے" پر اختتام اچھا نہیں لگتا اگرچہ یہ خفی ایطا ہے، ترتیب بدلیں
چلے ہی جاتے وہ بے شک مجھے دکھا کے جھلک یا چلے ہی جاتے اگر وہ مجھے دکھا کے جھلک
وہ شوق دِید مرا اور بھی بڑھا جاتے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ایک ہی شخص سے محبت کرنے والے دو لوگ آپس میں رقیب ہوتے ہیں۔ محبوب خود ہی رقیب کس طرح بن سکتا ہے؟ ہاں، دشمن، عدو یا اس قسم کا لفظ لایا جا سکتا ہے یہاں
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں
شوق دید والے شعر میں "اگر" والا متبادل بہتر ہے
 
رقیب بن کے سہی میرے رو برو آ کر
نظر ملا کے مرا جُرم تو بتا جاتے​
ایک ہی شخص سے محبت کرنے والے دو لوگ آپس میں رقیب ہوتے ہیں۔ محبوب خود ہی رقیب کس طرح بن سکتا ہے؟ ہاں، دشمن، عدو یا اس قسم کا لفظ لایا جا سکتا ہے یہاں
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں
شوق دید والے شعر میں "اگر" والا متبادل بہتر ہے
استادِ محترم! آپ کی توجہ اور شفقت کا شکریہ۔
واقعی رقیب یہاں مناسب نہیں تھا۔ اسے حریف سے بدل دیا ہے۔
حریف بن کے سہی میرے رو برو آ کر
نظر ملا کے مرا جُرم تو بتا جاتے
 
Top