تارے ۔ صوفی تبسّم

فرخ منظور

لائبریرین
تارے

رات آئی اور جاگے تارے
ننھے منّے چھوٹے چھوٹے
آ بیٹھے ہیں مل کر سارے
رات آئی اور جاگے تارے

دیکھو کیسے چمک رہے ہیں
گویا موتی دمک رہے ہیں
کتنے اچھے ، کتنے پیارے
رات آئی اور جاگے تارے

تھک جاتے ہیں چلتے چلتے
آخر آنکھیں ملتے ملتے
سو جاتے ہیں نیند کے مارے
رات آئی اور جاگے تارے

چُپکے چُپکے ہنستے رہنا
سب کچھ آنکھوں ہی میں کہنا
سارے ان کے کام ہیں نیارے
رات آئی اور جاگے تارے

چار نہیں ہیں ، آٹھ نہیں ہیں
بیس نہیں ہیں ، ساٹھ نہیں ہیں
لاکھوں ہیں یہ دوست ہمارے
رات آئی اور جاگے تارے

اِن سے کھیلے ، جی بہلائے
یا کوئی چپکے سے سو جائے
کیسے کوئی رات گزارے
رات آئی اور جاگے تارے

کوئی اِن کے بھید نہ پائے
بات کریں ، آواز نہ آئے
چُپکے چُپکے کریں اشارے
رات آئی اور جاگے تارے

لاکھ پکارو، لاکھ بلاؤ
لاکھ کہو تم آؤ! آؤ!
کبھی نہ آئیں پاس تمہارے
رات آئی اور جاگے تارے

(صوفی تبسّم)
 
Top