اسکین دستیاب تاریخ یوسفی المعروف بہ عجائبات فرنگ یوسف کمبل پوش

تاریخ یوسفی المعروف بہ عجائبات فرنگ گفتگو دھاگہ ربط

فہرست عنوانات

نقشہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5
تاریخ وار سیاحت نامہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔6
عجائبات فرنگ (متن)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7
تعارف مرتب(ڈاکٹر مظہر احمد)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔181
مقدمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔182
ضمیمہ-1 (بابت مذہب سلیمانی از تحسین فراقی)۔۔۔۔۔۔228
ضمیمہ-2 (بابت مذہب سلیمانی از اکرام چغتائی)۔۔۔۔۔۔232
حواشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔253
فرہنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔286
 
آخری تدوین:
ص 1 سے 40 حصہ اول
ستائش بے نہایت اس خدا کو لائق ہے کہ یوسفِ کنعانی کو حاکم مصر کا بنایا اور یوسفِ سلیمانی کو بیچ ملک انگلستان کے پہونچایا، انسان ضعیف البنیان کو مرتبہ ٔ شرافت عطا فرمایا اور ساتھ عنایت کرنے گویائی زبان کے سب حیوانوں پر ممتاز کیا، اگر ہر سرِمُو بدن کا زبان ہوجاوے، بیان حمد اوسکے کا ہرگز نہ امکان ہو۔ فرد:

وہ الحق کہ ایسا ہی معبود ہے
قلم جو لکھے اس سے افزود ہے (1)

بہر حال یہی بہتر ہے کہ گلستانِ سخن کو پھولوں نعت سے زیب و زینت دوں گونا گوں توصیف اس رسول کو زیبا ہے کہ گمراہوں کو کوچۂ ضلالت کے تئیں شاہراۂ ہدایت پر لایا اور نور رہنمائی اپنے سے جمال شاہد مقصود و عرفان و وحدانیت کا دکھایا۔ فرد:

نبی کون یعنی رسولِ کریم
نبوت کے دریا کا درِ یتیم (2)

از انجا کہ مدح بادشاہِ زمان مرکوز خاطر ناتواں ہے، یہاں سے ہاگ سمندِقلم کی کی اس کی طرف پھیرتا ہوں، سبحان اللہ عجب شاہنشاہ ہے کہ سبب عدالت اس کے سے شیر و بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں، رعایا سایۂ عنایت اس کی میں روز و شب بہ آصائش بسر کرتی ہے، چورنے شہر میں پاسبانی اختیار کی، شیر نے بیشہ میں پیشۂ شبانی، گلِ عشرت آبیاری عدل اس کے سے سیراب، خارِ عسرت چمن پیرائی رافت اس کی سے نایاب، سخاوت اس

ص 2
کی سے ابرِ گہر بار شرمسار، مناسبت اس کی سے حاتم طائی کو افتخار، مطلع مجدد و اعتلأ کوین وکٹوریا، فرماں روائے انگلستان تاج بخشِ شاہانِ جہاں، خلد اللہ سلطنتہا الی نہایت الزماں، بعد حمد و نعت کے کہتا ہے امید وارِ رحمت پروردگارِ خطاپوش، عذر نیوش، یوسف خاں کمل پوش کہ اس عاجز نے اکثر اوقات اپنی سیر ملکوں میں بسر کی اور کیفیت عجائبات زمانہ کی اپنی آنکھوں سے دیکھی، اکثر دوستوں پر رودادِ سفر عیاں کیا، انھوں نے نہایت محظوظ اور مشتاق ہوکر مجھ کو آمادۂ تالیف و بیان کیا، ناچار بپاسِ خاطر ان کے فقیر نے جو کچھ سفر میں دیکھا بھالا تھا، اس رسالہ میں مفصل لکھا، اس کے دیکھنے والوں سے امید وار ہوں کہ بمقتضائے بشریت اگر کہیں کچھ بھول جاؤں تو اپنی عنایت سے معاف کریں اور اس عاصی پُر معاصی پر عتاب نہ فرمائیں، اس لئے کہ انسان بھول چوک سے خالی نہیں اور خاکی کو رتبۂ عالی نہیں۔ فرد:

قاریا بر من مکن چندیں عتاب
گر خطائی رفتہ باشد درکتاب

چونکہ اس کتاب میں سب حال اپنا گزرا بیان تھا، نام اس کا تاریخِ یوسفی رکھا، الا ہتمام منی والاتمام مناللہ تعالیٰ، آغاز حال مؤلف : یہ فقیر بیچ سن اٹھارہ سو اٹھائیس عیسوی (۱۸۲۸ ؁ ) مطابق سن بارہ سو چوالیس ہجری کے حیدرآباد وطن خاص اپنے کو چھوڑ کر عظیم آباد و ڈھاکہ، مچھلی بندر، مندراج، گورکھپور، نیپال، اکبر آباد، شاہجہاں آباد وغیرہ دیکھتا ہوا بیت السلطنت لکھنؤ میں پہونچا، یہاں بمددگاری نصیبے اور یادری کپتان ممتاز خاں منکنس صاحب بہادر کی ملازمت نصیر الدین حیدربادشاہ سے عزت پانے والا ہوا، شاہ سلیمان جاہ نے ایسی عنایت اور خاوندی میرے حال پُر اختلال پر مبذول فرمائی کہ ہرگز نہیں تابِ بیان اور یارائے گویائی، رسالۂ خاص سلیمانی میں عہدہ جماعہ داری کا دیا، بعد چند روز کے

ص 3
صوبہ داری اسی رسالے کی دے کر درماہہ بڑھایا، بندہ چین سے زندگی بسر کرتا اور شکرانہ منعم حقیقی کا بجالاتا، ناگہاں شوق تحصلِ علمِ انگریزی کا دامنگیر حال ہوا، بہت محنت کرکے تھوڑے دنوں میں اسے حاصل کیا بعد اس کے بیشتر کتابوں تواریخ کی سیر کرتا، دیکھنے حال شہروں اور راہ و رسم ملکوں سے محظوظ ہوتا، اک بارگی سن اٹھارہ سو چھتیں عیسوی (۱۸۳۶؁) میں دل میرا طلبگارِ سیّاحی جہاں خصوص ملک انگلستان کا ہوا، شاہ سلیمان جاہ سے اظہار کرکے رخصت دوبرس کی مانگی، شاہِ گردوں بارگاہ نے بصد عنایت و انعام اجازت دی، عاجز تسلیمان بجالایا اور راہی منزلِ مقصود کا ہوا، تھوڑے دنوں بعد دار الامارۃ کلکتہ میں پہونچا، پانچ چھ مہینے وہاں کی سیر کرتا رہا، بعد ازاں جمعرات کے دن تیسویں تاریخ مارچ کے مہینے سن اٹھارہ سو سینتیس عیسوی (۱۸۳۷؁) میں جہاز پر سوار ہوکر بیت السلطنت انگلستان کو چلا، نام جہاز کا ازابیلہ، کپتان اس کا ڈبیڈ بران صاحب معد اپنی بی بی کے تھا، جہاز وزن میں چھ سو ٹن کا کنارے گنگا پر آلگا تھا، یہاں سے دریائے سور پہونچنے تک اس کی اعانت کو دھویں کا جہاز مقرر ہوا، تھوڑے دنوں میں اپنے زور سے ہمارے جہاز ازابیلہ کو گنگا سے کھینچ کر سمندر میں لے گیا، وہاں سے جہاز ہمارا چل نکلا، دونوں طرف گنگا کے کنارے سبزۂ آبدار لہلہارہا تھا جابجا مکان صاحبان انگریز کا بنا ہوا نادر اور زیبا، جہاز رواں کا عجب سماں تھا، بیان میں نہیں سماتا، اس سبزے کو دیکھ کر دل میرا ملول ہوا کہ دیکھئے پھر یہاں آنا ہو یا نہیں، جمعہ کے دن اکیسویں تاریخ مارچ کے کھجڑے میں پہونچ کر جہاز ٹھہرا، جب آدھی رات کا وقت ہوا، طوفان شدید آیا، سبھوں کا دل گھبرایا اور جہاز ڈگمگایا، مگر قدرتِ الٰہی سے زنجیر لنگر کی نہ ٹوٹی، روح کسی ذی حیات کی قفس بدن سے نہ چھوٹی، مصرع:

رسیدہ بود بلائے دلے بخیر گزشت

ص 4
خداخدا کرکے تیسری اپریل کو جہاز ہمارا دریائے گنگ سے سمندر میں پہونچا، ہوا موافق کا بہنا شروع ہوا، کپتان صاحب نے بادبانوں کو کھول دیا، جہاز تیر کی طرح چلا، ننکو خدمت گار میرا تیز روی جہاز سے ڈرکر کہنے لگا، کپتان صاحب بادبانوں کو باندھیں نہیں تو جہاز الٹ جاوے گا، میں نے کہنا اس کا کچھ نہ سنا، ہراساں ہوکر جہاز میں بیٹھ گیا اورکہتا تھا کہ میں عبث اپنے تئیں یہاں لایا اگر نہ آتا یہ مصیبتیں کیوں اٹھاتا، کپتان صاحب ہم سب لوگوں پر اتنی مہربانی فرماتے تھے کہ تکلیف اور مصائب جہاز کے کچھ نہ ہونے پاتے، ہر طرح کے کھانے ، پینے، میوے، دودھ، گوشت، شراب شام پین وغیرہ موجود تھے، عنایت کپتان صاحب سے ابواب تکلیف ہر صورت سے مسدود تھے، اتوار اور جمعرات کو موافق رسم مقرر انگریزوں ہر قسم کے کھانے اور مٹھائی زیادہ پکتے، ہر ایک کے کھانے میں آتے، غرض کہ ہر نہج سے آسائش تھی، گھر میں یہ بات میسر نہیں آتی۔
منگل کے دن چوتھی تاریخ ہوا بند تھی ایک عجیب تماشا اور کیفیت نظر آئی، ہزاروں کچھوے تیرتے ہوئے پانی پر پھرتے، کپتان صاحب نے جہازیوں کو حکم دیا کہ کشتی پر سوار ہوکر ان کا شکار کرو، جہازیوں نے بموجب حکم ان کے ناؤ پر سوار ہوکر کانٹوں آہنی سے کچھوؤں کو پکڑا، ایک امر عجیب دیکھا کہ ہر ایک کی گردن میں نیچے ایک چھوٹی مچھلی جونک کی طرح چمٹی تھی، کپتان صاحب نے ہڈی چمڑے سے گوشت ان کا صاف کرواکر لوگوں کو بانٹ دیا، مجھے اس گوشت سے نفرت اور کراہت آئی، ہر چند کپتان صاحب نے اصرار کیا، پر میں نے نہ کھایا اور لوگوں نے دو تین دن تک کباب اور شوربا اس کا بڑے مزے سے کھایا، یہ طرفہ ماجرا تھا کہ جس روز ہوا کا چلنا موقوف ہوتا، غول کچھوؤں کا خوابِ غفلت میں آکر بیباکانہ پانی کے اوپر آتا، اس وقت جس کا جی چاہتا آسانی سے ان کو پکڑ لیتا،

جہاز رواں تھا، ساتویں تاریخ مئی کے بڑا طوفان آیا، پانی ایسے زور سے اچھلتا کہ لب جہاز تک آتا، آخر صدمے اس کے سے دونوں کنارے جہاز کے ٹوٹے، گیارہ بٹیریں اور کئی مرغیاں اور بطخیں اور کتنے اسباب پانی میں ڈوبے، سب آدمی اپنی زندگی سے مایوس ہوکر روتے اور خدا وند تعالیٰ کی درگاہ میں عجز و نیاز کرتے، نویں تاریخ کچھ کم ہوا، کپتان صاحب نے باد بانوں کو کھولا، دسویں تاریخ اس سے زیادہ آیا، پھر یرابادبانوں کا شدت ہوا سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر پانی میں گرا اور مستول جہاز کا ٹوٹ گیا، ایک میز جہاز میں جذا تھا، صدمے ہوا سے جڑسے اکھڑ کر پانی میں ڈوبا، جہاز کے دونوں طرف سے آئینہ ساں قریب سر ہمارے کے اچھلتا مگر فضل الٰہی نے ہم کو اس صدمے سے بچایا، سب لوگ بہت گھبرائے اور اس سانحہ سے سخت حیران ہوئے کہ اے خدا سوائے تیرے ہمارا کوئی مددگار نہیں اور ہم میں سے کوئی اپنے بچانے کا مختار نہیں، حق تعالیٰ نے اپنی عنایت سے گیارہویں تاریخ اس طوفان کو دور کیا، خسرو خاورنے تختِ زریں فلک پر جلوۂ نور دکھلایا، دھوپ نکلنے سے میں ایسا مسرور ہوا کہ بیان اس کے سے زیان معذور، جیسے عاشقِ مہجور طالب دیدار معشوق کا ہو، ویسے جہاز والے کمالِ شوق سے دھوپ کو دیکھتے ہرسو، آخر بہ تائید الٰہی جہاز ان بلاؤں سے نجات پاکر روانہ ہوا۔

تیسری تاریخ جون کی ہفتہ کے دن دوپہر کو ایک بوم شوم بلندی ہوا سے جہاز کی طرف جھکا آکر، جس کوٹھری میں ہم سبھوں کا کھانا رکھا تھا، اس کی چھت پر آبیٹھا، کپتان صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا نشان ہے میں نے کہا خوب نہیں، ابھی ایک بلا نجات پائی ہے ایسا نہ ہو پھر کوئی اور سانحہ پیش آئے، خرابی میں پھنسائے۔
آٹھویں تاریخ جمعرات کو دوپہر کے بعد زمین جزیرۂ کیپ کی نمایاں ہوئی، مگر یہ

ص 6
سب ناسازی ہوا کے جہاز کے پہونچنے میں دیر بیکراں ہوئی، سترہویں تاریخ جہاز ہمارا جزیرۂ سیمن بیہ میں پہونچا، عجب شہر طراوت افزا تھا کہ ہر طرف اس کے پہاڑ بلند، سبزۂ رنگا رنگ سے سبز رنگ تھے، غیرت دہ کارنامۂ ارزنگ تھے،آب و ہوا وہاں کی ایسی معتدل اور لطیف تھی کہ ہر لحظہ بدن کو صحت، دل کو راحت آتی، ہر چند ابتدا میں ان پہاڑوں کو دیکھنے سے وحشت ہوئی، مگر فی الواقعی روح نے اس سے تازگی پائی، وہ حال خواب و خیال معلوم ہوتا اس لئے کہ ایسا شہر آباد کبھی نہ دیکھا تھا، اس شہر کے دیکھنے سے میں ایسا مسرور ہوا کہ کبھی دل سے نہیں بھولتا، اس واسطے کہ متواتر دو تین مہینے سے، سوا دریا کے شکل زمین نہ دیکھی تھی، وہاں پہونچ کر دوستوں کو یاد کرکے شراب پینے لگا، تماشائے قدرت صانع بیچوں کا ہوا، ایک جہاز تہلا یہ نام حفاظت کے واسطے مقرر تھا، پچاس ضرب توپ اور سامان لڑائی کا اس پر تھا، جہاز جو اُدھر سے جاتے وہ لوگ ان سبھوں کا حال دریافت کرتے، اگر کوئی بیمار ہوتا اس جزیرے میں اُترنے نہ پاتا، جب جہاز ہمارا وہاں جاکر پہونچا، ڈاکٹر صاحب اور اور لوگوں نے ہمارے جہاز پر آکر حال بیماروں اور تندرستوں کا پوچھا، افضالِ خداوندی سے کوئی بیمار نہ تھا، ڈاکٹر صاحب وغیرہ دیکھ بھال کر اپنے جہاز پر گئے۔

شام کے وقت ہم لوگ ناؤ پر سوار ہوکر سیمن بیہ میں اُتر گئے، وہاں کی خوبیاں اور بلندی مکانوں کی اور خوش اخلاقی آدمیوں کی دیکھ کر بہت خوش ہوئے، سرائے کلارنس میں شام تک اپنی صحبت اور جلسے میں بیٹھے رہے، جب رات ہوئی جہاز پر جانے کی نیت کی، ملاح نے کہا، رات کو ناؤ نہیں کھلتی ہے، ہم نے دیکھا کوئی تدبیر بنتی نہیں ہے، لاچار دس روپیہ دے کر اس کو راضی کیا تب جاکر مانجھی نے ہم کو ناؤ پر چڑھاکر جہاز تک پہونچایا، آدمی وہاں کے سب حسین و جمیل پر لے سرے کے خوبصورت اور شکیل، خواب میں بھی ایسی صورتیں نہ دیکھی تھیں جو بیداری میں نظر آئیں۔

ص 7
اٹھارھویں تاریخ افسران جہاز جنگی مجھ کو اپنے جہاز پر سیر دکھانے لے گئے، کام مضبوطی اور نفاست جہازکی دکھائی ، میں نے تو کبھی ایسا جہاز جنگی نہ دیکھا تھا،کاریگری اور خوبیاں اس کی دیکھ کر حیران ہواکہ یا اللہ اس کو آدمیوں نے بنایا یا فرشتوں نے سانچے میں ڈھالا ہے، پچاس تو پیس اس پر لگی تھیں اور بیس ضرب اٹھارہ پنی دائیں طرف اور بیس اٹھارہ پنی بائیں طرف، پانچ پانچ تینتیس پنی ادھر اُدھر کہ بے سلگائے پلیتے اور مہتاب کے سب چھوٹیں اور آئینہ کی طرح صاف صاف نظر آتیں، میگزین شیشے اور باروت کا ایسا مضبوط بناکہ کبھی اس کو صدمہ آگ یاپانی کا نہ پہونچتا، بمقتضائے احتیاط ایک شیشہ گندا اس کے اوپر کھڑا کیا، بجائے خود سدِ آہنی تھا، ہر گز آگ اورپانی کا اس پر اثر اور گذر نہ ہوتا، اُس جہاز پر تین سو پچاس آدمی مسلح بیٹھے تھے، ہر وقت مستعد رہتے، ایک کنارے سات حبشی پاہ زنجیر تھے، رنگ انکا ایسا کالاکہ اُس وقت اندھیرا معلوم ہوتا، بال ان کے ایسے پیچ دار کہ پیچ و تاب زمانہ ان سے شرم سار اوپر کا ہونٹ نتھنوں تک پہونچا، نیچے کا تھوڑی تک لٹک آیا، میں ان کو دیکھ کر جانور صحرائی سمجھا کہ جازیوں نے سیر و تماشا کے لئے پالا، جب جہاز والوں سے پوچھا، معلوم ہوا کہ حبشی ہیں، اسپانیل حبشیوں کو پکڑ لاتے ہیں، لوگوں کے کے ہاتھ بیچ جاتے ہیں، صاحبانِ انگریز نے جہاز جنگی مقرر کئے کہ جب اسپانیل حبشیوں کو پکڑ لاویں، اُن کو مع سب اسباب کے اُن سے چھین لیویں، چنانچہ ان کو ہم نے ان سے چھین لیا، بہ سبب و حشت کے زنجیر میں قید کیا، جب ان کی وحشت کم ہوگی، کچھ آدمیت ان کو آوے گی، چھوڑدیں گے، میں دیکھنے عجائبات اور خوش اخلاقی جہاز والوں سے بہت خوش ہوا ور رخصت ہوکر کنارے جزیرۂ کیپ کے آیا، تماشا عمارت و آبادی وہاں کا دیکھتا تھا کہ ایک مردِ ضعیف ہمارے پاس آیا، کمال مہربانی اور اخلاق کیا، مجھ کو اور بوچڑ صاحب اور ایک اور شخص کو اپنے گھر لے گیا، گھر اس کا اگرچہ چھوٹا تھا، مگر بہت خوب بنا تھا، ہم سبھوں کی ضیافت چائے اور شراب انگوری وغیرہ کی کی اور دو لڑکیوں خوب صورت اپنی کو تکلیف انگریزی باجے بجانے کی دی، ان دونوں سے ایک کتخدا اور دوسری کنواری تھی، پر ہر ایک انگریزی باجوں کے بجانے میں کمال رکھتی، سننے اس کے سے روح کو راحت حاصل ہوئی، دل کو فرحت آئی، دوتین گھڑی بڑی کیفیت سے گذری، آخر اُس بڈھے اور پریوں سے ہم نے رخصت لی، حال اُس بڈھے کا دریافت کیا، ظاہر ہوا کہ وہ شخص کارِ نجّاری میں یکتا تھا، جہازوں کو جوانی میں بناتا، اسی کام میں بہت روپے کمائے اور مکان خوب بنوائے، اب بہت دولت اور عزت رکھتا ہے، عیش و نشاط سے زمانہ بسر کرتا ہے، اسی سبب سے بادشاہ جان کہلاتا ہے۔

وہاں سے ہم تینوں آدمیوں نے شریک ہوکر ایک گاڑی چھ گھوڑوں کی ساٹھ روپے کرائے پر ٹھہرائی، اُس پر سوار ہوکر واسطے سیر شہر کیپ کے چلے راہ میں قدرت خدا کی نظر آئی، بڑے بڑے پہاڑ ہیں، سبزہ ان پر بیحد و بیشمار، سبزہ رخسارے معشوقوں کا اُس کے سامنے شرمندہ، دیکھنے اُس کے سے خاطر شاد، دل زندہ ہوتا، درخت پھولوں کے جھونکے ہوا سے پلتے، دل تماشائیوں کا اپنی طرف کھینچتے، دیکھنے روانی نہروں سے آنکھ میں ٹھنڈک آتی، صفائی پانی اس کے کی چشمۂ کوثر کی یاد دلاتی، بلبلیں درختوں پر بیٹھی چہچہاتیں، قمریاں سرو کے سایہ میں کوکو کا شور مچاتیں، ایسے ایسے طائر وہاں بیٹھے کہ طائر دل خود بخود جاپھنسے، قلم کو کیا طاقت کہ وصف وہاں کا لکھے، زبان کو کیا مجال کہ خوبیاں اس جاکی بیان کرے، صاحبانِ انگزیز نے جابجا مکان نفیس مع پائیں باغ بنوائے ہیں، روز و شب اس میں آسائش سے رہا کرتے تھے، راہ میں میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ کوئی بانسری بجاتا ہے، کوئی شراب پیئے ہوئے پانی کی لہروں کی سیر دیکھتا ہے، ان باتوں کو دیکھ کر میرا دل لہرایا، کاش کہ کوئی ایسا سبب ہوتا کہ میں بھی ساری عمر آرام سے یہاں رہتا اور زمانے سے سروکار نہ رکھتا، مگر کہاں ایسے نصیب کہ ہاتھ آتی یہ دولت عجیب، راہ میں مسافر خانے بنے ہوئے تاکہ مسافر کو کوئی تکلیف نہ پہونچے، مچھلی، انڈے، مرغی، شراب سب وہاں موجود اور جو کچھ نہ چاہئے وہاں سے مفقود، عجب شہر ہے لڑکوں، کنواروں، خوبصورتوں کو دیکا کہ اُستاد کے سامنے بڑے امتیاز سے بیٹھے پڑھ رہے ہیں، خردو بزرگ سے حسب مراتب ادب سے پیش آتے ہیں، میں حیران ہواکہ ہمارے وطن کے لڑکے اس سِن میں نشست و برخاست کی تمیز نہیں رکھتے ہیں، یہ کیا شئے ہیں جو اس صغر سنی میں باوجود حسن و جمال کے دانائی میں بڈھوں سے سبقت لے گئے ہیں، پریاں کوچہ و بازار میں کھڑیاں، دل عاشقوں کا عوض ایک جھپکی آنکھ کے پُھسلاتیاں۔

آدھی راہ میں ایک مسافر خانہ بہت خوب دیکھا، وہاں جاکر ہم سب بیٹھے راہ کی ماندگی سے سستائے، پک صاحب اُس سراکا مالک تھا، بہت اخلاق سے پیش آیا اور اپنی بی بی سے کہا ان کے واسطے شراب بیر اور پنیر اور مچھلی وغیرہ لا، وہ بہت ہوشیار اور دانا تھی، ایک کشتی میں سب چیزوں کو خوبی سے جماکر لائی، بہت تکلف سے ہر چیز کھلائی اور شراب پلائی، نہایت خوش ہوکر ایک ساعت ہم نے توقف کیا اور پک صاحب کو بطریق انعام کچھ دیا، اسی عرصہ میں یک بھیڑ کا بچہ آیا، ہمارے پانوں پر منھ اپنا رگڑتا اور زبان سے بدن ہمارا چاٹتا، جب تھوڑی شراب بیر اُس کوپلائی، نشے میں آکر اس نے آرام پائی، کنارے جا بیٹھا، معلوم ہوا اسی واسطے منھ رگڑتا تھا، ہر مسافر کو چاہئے کہ وہاں جاکر شراب بیر پیئے اور کیفیت اس کی معلوم کرے۔

وہاں سے روانہ ہوکر قریب شام کیپ میں پہونچ کر جارج کی سرا میں مقام کیا، عجب سراتھی کہ ہمارے شہر میں مکان بادشاہ کا بیھ ایسا عالی شان نہیں ہوتا ہے، بلکہ وہاں ایسی عمارت کا دیکھنا خواب میں بھی نہیں میسر آتا ہے، جھاڑ فانوس اُس کی چھتوں سے لٹکتے، جیسے ستارے آسمان پر چمکتے، صحن ایسا وسیع تھا اگر لشکر اُس میں آتا، ایک کونے میں سما جاتا، ہم لوگ وہاں جاکر دلجمعی سے بیٹھے، صحبت اور جلسے گرم ہوئے، نکلسن صاحب کپتان پلٹن اتھائیسویں انگریزی کے رخصت لے کر وہاں آئے تھے، آدمی ان کا ہمارے پاس پیغام لایا، اگر اجازت ہو ہم تمہاری ملاقات کو آویں، ہم نے کہلا بھیجا، ہم لوگ مشتاقِ ملازمت ہیں آپ تشریف لائیں، عنایت فرمائیں، رات کو کپتان صاحب آئے اور حرفِ دوستانہ زبان پر لائے، بعد صحبتِ تمکین اور کلامِ شیریں کے نوبت شراب کباب کی آئی، کپتان صاحب نے شراب پہ کر اور بہت خوش ہوکر خوب نغمہ سرائی کی، مجھ سے ٹوپی بدل کر رشتۂ برادری کو مضبوطی دی، ہم سبھوں نے رات خوشی سے بسر کی، جب ٹھوڑی رات رہی ، ہم سوئے، کپتان صاحب اپنے مقام پر گئے۔

سوا پہر دن چڑھے آنکھ کھلی، حاضری کھائی، بعد اس کے سب مل کر کیپ کی سیر کو چلے، وہاں تین قلعے دیکھے قوم ڈچ کے بنائے ہوئے تھے، دو قلعے بسبب بے مرمتی اور گذرنے مدتِ دراز کے ڈہے گئے، مگر ایک ان میں سے بہت مضبوب اور بلند، قریب اُس کے چھاؤنی گوروں کی قابل دیکھنے کے تھے، جاتے جاتے بازار میں پہونچے، دیکھا کہ بازار مختصر بہت اچھا تھا، دو طرفہ گوشت فربہ دُنبے اور گائے کا لٹکا، کنجڑنیاں دونوں طرف بیٹھی ترکاریاں بیچتیں، خریداروں کو اشارے آنکھ سے اپنی طرف مائل کرتیں،دوسری طرف اور بازار میں جاکر دیکھا کہ جشنیں بدشکل مچھلیاں بیچ رہی ہیں، عجب رنڈیاں چوتڑ اُن کے پہاڑ سے موٹے، بال پیچ دار، منھ کالے، پتلی آنکھ کی اُن کے دیکھنے سے زبان قلم کی ان کی سیاہی لکھنے سے کالی ہوئی، دیکھ کر ان کو میں ڈرا کہ کیوں ان چڑیلوں میں آپھنسا، لاچار وہاں سے بھاگا اور میوزیم میں آیا۔

میوزیم اُس مقام کو کہتے ہیں کہ انگریزوں نے عجائبات وہاں رکھے ہیں، چنانچہ ہر طرح کے ہتھیار وحشیوں کے اور جنگلی آدمیوں کے رکھے، مردہ جانور روغن ملے ہوئے کھڑے، عجب روغن تھا کہ اس کےملنے سے جسم جانوروں مردوں کا نہ سڑا بلکہ مردہ زندہ معلوم ہوتا ہے، ایک کھال دو چند کھال ہاتی سے نظر آئی، اس کو دیکھ مجھ کر حیرت چھائی، حال اس کا وہاں کے اہتمامی سے پوچھا، جواب معقول نہ دے سکا، ثابت ہوا کہ وہ خود کیفیت اُس کی نہ جانتا تھا اور لیاقت اہتمام اس مکان کی نہ رکھتا، وہاں سے باہر نکل کر مکان گورنر جنرل صاحب بہادر کا بہت خوش قطع بنادیکھا، دیکھا چشمہ پہاڑ سے نیچے اس کے بہتا، سوا اس چشمہ کے وہاں پانی نہ ملتا، اس واسطے کہ اُس جزیرہ میں کنواں نہ تھا، ہر کوئی پانی اسی کا پیتا، نہایت شیریں اور ہاغم طعام تھا، رنڈیاںوہاں کی خوبصورت، خوش منظر، زیبا طلعت، رنگت میں بہت گوری نہ کالی، اس لئے کہ باپ انگرز اور ماں باہر والی، ایک قوم ملائی وہاں مسلمان ہیں، شراب نہیں پیتے ہیں، مزاج میں غصہ بہت رکھتے ہیں، عورتیں اُن کی پتے کے لئے ایک کپڑا سر پر لپیٹے رہتی ہیں، عفیفہ اور پارسا معلوم ہوتی ہیں، ملائی جس کے نوکر ہوتے ہیں خوب اطاعت اس کی کرتے ہیں، ایک مسجد اپنی عبادت کے لئے بناکر ایک موذن اس پر مقرر کیا ہے، ہر چند کوئی ان میں سے علم دین کا نہیں پڑھا ہے، پر اپنے طریقہ پر استحکام رکھتے ہیں، شادی بیاہ سوا اپنے ہم جنسوں کے کسو سے نہیں کرتے ہیں، سوا اُن کے قومِ حبشی بھی وہاں رہتے ہیں، قمار بازی اور شراب نوشی میں پھنس کر کارِآقا سے باز رہتے ہیں، جب تنخواہ پاتے ہیں امورِ بیجا میں اُڑاتے ہیں، ہرگز آدمیت کا نام و نشان نہیں جانتے ہیں، راہیں بازار کی صاف نہیں، گاڈی اور بگھیاں ایک گھوڑے سے چھ گھوڑے تک کرائے پر ہاتھ آتیں، مقابل اس جزیرہ کے سمندر ہے، جس کا جی چاہے، ناؤ پر سوار ہوکر جہاز اور دریا کی سیر کو جاوے، بندہ گھوڑے پر بوچڑ صاحب گاڑی پر سوار ہوکر چلے جاتے تھے، ناگاہ ایک معشوقہ چودہ برس کی دیکھی، ایک دوکان میں بیٹھی پری صورت حور سیرت چاند اُس کو دیکھ کر شرمائے، سورج اُسی کے فراق میں دن بھر چکر کھائے، عجب حسن و جمال بے م ثال کہ بیان اس کا امرِ محال، گورے گورے گال، ہونٹھ لعل لعل، دانتوں میں چمک، کمر میں لچک، شیریں ادا، دل ربا، ابھری اس کی چھاتیاں، دل عاشقوں کا پُھسلاتیاں، فرد:

برس پندرہ یا کہ چودہ کا سِن
جوانی کا عالم تماشے کے دن

میں اس کے دیکھتے ہیں بے ہوش ہوگیا اور نشۂ بادۂ وصال اس کے سے مدہوش ہوا، پھر اپنے تئیں سنبھالا اور کنسٹانسیا یعنی انگورستان میں گیا، وہاں شراب عمدہ کھینچی جاتی ہے، ہر کسی کی طبیعت اس کے دیکھنے کو للچاتی ہے، وہاں کے مالک نے بہت اخلاق سے ملاقات کی اور شراب انگوری ہم کو پلائی، عجب ذائقہ کی تھی کہ کبھی دل سے نہیں بھولتی، ایک شخص قوم ملائی سے میرا نوکر تھا اس نے مجھ سے کہا تم مذہب مسلمانی رکھتے ہو شراب کیوں پیتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ حضرت پیغمبر ﷺ نے شیرۂ انگور کو منع نہیں کیا، اس بات سے صاحب خانہ خوش ہوکر ہنسا جس جگہ اپنے معشوق ساتھ شراب پیتا تھا، لے گیا، عجب جگہ کہ ایک پیپل کے سے درخت پر لکڑیوں کی پاڑھ باندھ کر گھاس پھوس کا مکان بنایا تھا، نیچے اُس کے ہر چہار طرف چشمہ بہتا، آب و ہوا وہاں کی دل کو بھائی، تھوڑی دیر بیٹھ کر شراب پی۔ بوچڑ صاحب نے ایک پیپا شراب خریدکی۔

پھر اُس سے رخصت ہوکر سرائے جارج میں آئے ، راہ میں ایک گاڑی دیکھی، اٹھارہ بیل سیاہ رنگ اُس کو کھینچتے، ایک شخص اکیلا اُن سب کو ہانکتا، میں اُس کو دیکھ کر متحر ہوا، کپتان براون صاحب بھی کسی کام کو آئے تھے، راہ میں ملے، ہم وہ باہم چلے، پک صاحب کی سرا میں آکر ٹھہرے، وہاں سے ایک گاڈی کرایہ کرکے کہتان صاحب کے ساتھ اُس پر سوار ہوکر سیمن بیہ کو راہی ہوئے، راہ میں ایک گانوں دیکھا، وہاں کے لوگوں نے اویل پر مدارِ معاش ٹھہرایا، اویل ایک مچھلی کا نام ہے، ہاتھی سے چار چند اُس کا اندام ہے، وہ لوگ اس کو پکڑتے ہیں ہڈی اور چربی اس کی بیچتے ہیں، چنانچہ وہاں کے سب مکان اسُ کی استخواں سے پٹے تھے بلکہ دروازے اور شہیتر اُسی کے بنے تھے، ایک ہڈی میں نے دیکھی بیس ہاتھ لنبی تھی، یہ سیر و تماشے دیکھتے، سیمن بیہ میں پہونچے۔
 
ص 1 سے 40 حصہ دوم

تیئسویں تاریخ جون کی جہاز پر سوار ہوکر لندن چلے، جابجا پہاڑ دریائی پانی میں چھپے تھے، جہازوں کے ٹکڑے ٹوٹتے، اس خیال سے باوصف ناموافقت ہوا اور برسنے مینہ کے کپتان صاحب نے ٹھہرانا جہاز کا مناسب نہ جان کر بڑی اُستادی سے جہاز ہانکا، بسبب رطوبت مینہ اور مخالفت ہوا کے کپتان صاحب کو استسقا ہوگیا۔
گیارہویں تاریخ جولائی کو جہاز ہمارا قریب اس پہاڑ کے پہونچا کہ قبر بونے پاٹ کی اس پر تھی، ہر چہار طرف اس کے سمندر جہاز بسبب مخالفت ہوا کے وہاں رکا، مجھے بونے پاٹ کی قبر دیکھنے کا بڑا شوق تھا، باوجود ان موانع کے کپتان صاحب نے جہاز میں لنگر نہ ڈالا، آگے بڑھایا، اس سبب سے پہاڑ کے اوپر جانے کا اتفاق نہ ہوا، مگر جہاز سے صاف نظر آتا۔

جاتے جاتے سترھویں تاریخ اسنشن پہاڑ پہونچے، تین راتیں برابر عجب حالات دیکھے، پانی سمندر کا چمکتا نظر آتا، میں حیران تھا کہ اس کا سبب کیا کہ پانی آگ سا چمک رہا ہے، طرفہ اس پر یہ ہوا کہ ایک شعلۂ جوالہ آدھی رات کو جہاز کے مستول پر اوپر سے گرا، کپتان صاحب سے حال چمکنے پانی کا پوچھا، انھوں نے جواب دیا کہ ایک قسم کے کیڑے ہیں جب وہ پانی کے اوپر آتے ہیں پانی کا یہ حال ہوتا ہے کہ شعلہ ساں چمکتا ہے، میرے یقین کے لئے ایک برتن میں پانی بھرلیا، میں نے دوربین سے بغور اس میں دیکھا، ننھے ننھے کیڑے نظر آئے، وہی باعث چمک پانی کے تھے، یہ حال دیکھتے بھالتے مصیبتوں سے بچتے بچاتے اکتیسویں تاریخ اگست کی ۱۸۲۷؁ میں قریب ولایت انگلستان کے پہونچے، ولایت لندن وہاں سے ڈیڑھ سو کوس باقی رہا، بندہ شکر خدا کا بجالایا اور کپتان صاحب سے کہہ کر ایک ناؤ سواری کے لئے بلوائی، اس میں دو ملاح اور ایک کپتان تھا، کشتی تو چھوٹی تھی مگر بہت مضبوط اور خوب بنی، باورچی خانہ آہنی اس میں خوش اسلوب، نہایت مرغوب جب وہ ہمارے پاس آئی چالیس روپے کرائے پر ٹھہرائی، کہتان صاحب سے رخصت ہوکر جہاز ازابیلہ سے اترے، بوچڑ صاحب کے ساتھ اس ناؤ پر سوار ہوکر چلے، آپ و ہوا وہاں کی دل کو بھائی، روح کو اس سے تازگی آئی۔

شام کے وقت ایک گانوں میں پہونچ کر سیر کی، ایک مکان دیکھا کہ اس میں بہت مرد اور رنڈیاں جمع ہیں، دیکھتے ہی انھوں نے مجھ کو گھیرلیا اور تُرک تُرک کہہ کر پکارا، شراب سیب کی وہاں بنتی تھی مجھ کو لاکر پلائی، تھوڑی سی پی، بعینہ مزا تاڑی کا پایا، کچھ انعام دے کر رخصت ہوا، آگے بڑھا ایک پہاڑ دیکھا، لوہے کی کان اس میں تھی، خوب سیر کی، پھر ایک چھوٹی ناؤ پر سوار ہوکر دریائی ڈاک منٹ کی سیر کو چلا، عجب دریا تھا کہ دونوں طرف اس کے پہاڑ تھے، اس پر مکان نفیس بنے ہوئے، پریاں ناؤ پر سوار اپنے عاشقوں کے ساتھ شراب پیتیں، چریاں خوش الحان کنارے پر بولتیں پھول ہر قسم کے پھولے، دیکھنے ان کے سے غمِ دل بھولے، جس کے پاس روپیہ ہووے وہاں جاکر عیش و نشاط سے بسر کرے اس سے بہتر کوئی مقام نہیں۔بیت:

اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں سب و ہمیں ست وہمیں ست

جدھر آنکھیں اٹھائیں، پریاں نظر آئیں، افسوس میں بادشاہ ہند کا نہ ہوا، نہیں تو ہر ایک پری کو ایک ملک بخش دیتا، دنیا مقام عجب ہے کہ مفلس کو کوئی نہیں پوچھتا ہے، ہر شخص روپیہ ڈھونڈتا ہے۔

سیر کرتے ہوئے ایک شہر میں پہونچا وہاں ناؤ سے اتر کر سرامیں گیا، اچھی سرا تھی کہ زبان اس کی توصیف سے عاجز ہوئی، ہر طرف شیشہ آلات اور آئینہ تصویر کے لٹکے، اوپر کمرے میں کرسیاں اور میز رکھے، سب کے سب صفائی سے آئینہ کی طرح چمکتے، فرش فروش زرینہ ہر مکان میں بچھے، مالک اس سرا کا ایک انگریز بہت خوب آدمی تھا، محبت اور اخلاص سے اس سرا کی عمارت اور ہر مکان مہربانی کرکے دکھایا، مجھ کو ہر گز یقین نہ ہوتا کہ یہ سرار ہے بلکہ جانتا یہ شخص ہنسی کرتا ہے، پہر رات تک جلسہ گرم رہا، بعد اس کے ہر ایک اپنی جگہ پر جاکر سویا، بندہ بھی ایک مکان میں جاکر بچھونے پر لیٹا، ایسا بچھونا کہ پَروں کا بھرا ہو، نرمی او رملایمت اس کی سے حریر اور قاقم شرمایا، بندہ رات بھر اس پر چین سے سویا صبح بیدار ہوا اور گاڈی میل کوچ پر ہمراہ بوچڑ صاحب کے سوار ہوکر آگے چلا، گاڑی چار گھوڑوں کی تھی تین درجے رکھتی، خط ڈاک کے اس میں روانہ ہوتے، چار چار کوس کے بعد گھوڑے بدلے جاتے، تمام دن رات میں بیس منت اس کو ٹھہراتے ہین، سب لوگ اتنی دیر میں کھانا کھاتے ہیں، ایک سپاہی نگہبانی کے لئے پیچھے رہتا ہے، وقت پہونچنے مقام اور روانگی کے ترئی بجاتا ہے، اگر اس وقت نہ پہونچے گاڈی چل نکلے، وہ وہیں پڑا رہے، وہاں کے لوگ گاڑی کے آنے جانے کے وقت جانتے ہیں، سراؤں میں ہر طرح کا کھانا تیار رکھتے ہیں تاکہ مسافروں کو بیس منٹ کی بھی کھانے پینے میں دیر نہ ہو، گاڈی پر سوار سیر دیکھتا جاتا تھا، ہر گاؤں کو آباد، آدمیوں کو خوش سلیقہ پایا، کنواریاں خوبصورت اپنے اپنے کھیتوں میں بیٹھیں اناج کاٹتیں، باوجود بے مقدوری کے بڑے ب ناؤ سنگار سے تھیں، بلکہ بول چال و حسن و جمال میں امیر زادیوں ہندوستان سے بہتر معلوم ہوتیں، لڑکے پری زاد جابجا جمع ہوکر عقل مندوں کی طرح بیٹھے باتیں کرتے، لڑکپن میں وہ دانائی حاصل کی کہ ہندوستان کے بڈھوں میں بھی نہیں ہوتی، کھیت غلّوں سے اور میوؤں سے بھرے ہوئے بالیاں دانوں سے پُر خوشۂ پروین سے پرے سرے، طراوت ان کی سے قطعۂ جنت شرمندہ، دانے ان کے موتیوں سے زیادہ تابندہ، دیکھنے اس سرزمین او رکھیتوں ارم تزئین سے ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ سلطنت ہفت اقلیم کی ہاتھ آئی، گائ، بکری، بھیڑ اور بیل ایسے موٹے تازے کہ تھوڑی دور چلنے سے تھک جاتے ہوا ایسی فرحت بخش تھی کہ نیند آنے لگی، مگر میں نے تماشا دیکھنے کے واسطے آنکھ نہ بند کی، سب طرح سے مجھ کو گاڈی پر آسائش تھی، مگر آدھی رات راہ میں ایذا پہونچی اس لئے کہ کوچوان نے ایک عورت بد شکل کو میرے پاس بٹھایا، پہاڑ سے موٹی تھی، صورت اس کی سے نفرت ہوتی، میں نے اپنے تئیں بہت بچایا تو بھی اس کے موٹاپے سے صدمہ پہونچا، خدا نے خیر کی کہ وہ آدھی راہ سے اتر گئی۔

جاتے جاتے وہاں پہونچا کہ ایک ستون سنگین بہت اونچا کھڑا تھا، ایک ستون پر کئی ستون رکھے، ظاہر میں مصالح وغیرہ سے نہیں جڑے ہیں، اس کو دیکھ کر متعجب ہوا کہ بے جڑائی مصالح کے ایک کو دوسرے پر کیوں کر قائم کیا ہے، یہ حکمت کس سے سیکھی اور کس نے بنایا ہے، آخر دریافت ہوا کہ مذہب اور زمانے انگریزوں سے پہلے ایک قوم تھی کہ وہ اس ستون کے نیچے آکر سورج پوجتی، آگے بڑھا مکان لارڈبیرن صاحب کا ایک ٹیلے پر دیکھا، خوب مضبوط بنا، کسی طرح کا اس میں نقصان نہیں آیا، خلاصہ یہ کہ پہر رات گئے لندن کی سڑک پر پہونچا، عجب راستہ دیکھا پتھر کابنا، بیچ میں جانوروں کی راہ تھی، اس میں آدمیوں کے چلنے کی ہرگز نہ اجازتِ شاہ تھی، ادھر اُدھر دو طرفہ چار چار یا تین تین گز راہ آدمیوں کی اسی سبب سے اُس میں خوب صفائی تھی، دوطرفہ شاخوں آہنی پر فانوس اور گیس جلتے، چمک اپنی سے ستاروں کو شرماتے، دونوں طرف بنے ہوئے مکان نفیس اور بہتر، جیسے دو صفیں جنگی کھڑی ہوں جم کر، بلندی اور اونچان میں ہر ایک برابر، مرد رنڈیوں، راہ چلنے والیوں کا کیا بیان، جیسے جنت میں حوروں کے ساتھ ہوں غلمان، خوبی شاہ راہ اور حسن و جمال کی اور کیفیت آب و ہوا اُس شہر کی دیکھ کر جانتا تھا کہ خواب و خیال ہے، ورنہ عالم بیداری میں اُن امروں کا دیکھنا خیال محال ہے، بعد اس سیر تماشے کے سرائے بل موت میں پہونچا، عجب سرا تھی کہ بہشت اُس پر رشک لے جاتی، سرا نہیں بلکہ قطعہ گلشن، گل شمع و فانوس ہر طرف روشن حال عمارت اس کی کا کیا لکھوں، فقط مضبوطی میں کوہِ بے ستوں کہوں، میں اُسے دیکھ کر گھبرایا کہ خڈایا خانۂ شاہ لندن میں آیا یا راہ بھول کر پرستان میں آنکلا جب وہاں جاکر پہونچا، دیکھا کہ صاحبانِ انگریز جابجا بیٹھے، اپنے اپنے کام میں مشغول تھے، کوئی اپنے یار کے ساتھ شراب پیتا، کوئی اچھی آواز سے گاتا کوئی درو دیوار دیکھتا، کوئی سیر کتابوں کی کرتا، ہر جگہ کرسی اور میز شیشہ آلات رکھے، انداز اور سامان وہاں کے سب اچھے، مالک سرا سے ہنوز کھانا نہ مانگا تھا کہ جو کچھ دل چاہتا تھا سامنے لایا، اس سے ثابت ہوا کہ وہ دل کا حال جانتا تھا یا فرشتہ اس کو سکھاتا، رات آرام سے بسر کی، فجر کو سرا کی سیر دیکھی، ایک رقم ایک ہزار تین سو گھوڑے ولایتی قدم باز زرخرید مالکِ سرا کے تھے، میل کوچ اور گاڈی میں کرائے پر چلتے، قیاس کیا چاہئے جس شہر کے سرا والوں پاس اتنے گھوڑے ہوئیں، رئیسوں کا سامان کس قدر ہوگا۔

تیسرے دن شہر کی سیر کو گیا جو کچھ دیکھا دل ہی جانتا ہے، زبان پر نہیں آتا، کنارے دریا کے جاکر دیکھا، سیکڑوں جہاز وہاں تھے اور ہزاروں ناؤ رواں، جہاز دھوئیں کے ادھر اُدھر آتے جاتے، اُس پر سے صاحبانِ انگریز اپنی بی بیوں کے ساتھ دریا کا تماشا شاد دیکھتے، کیا ہی عورتیں تھیں حسن و جمال میں پریوں کو شرماتیں، ایک اندھیرے نہ خانے کی سیر کی، صاحبِ خانہ نے راہ بتائی، دو آدمیوں نے ہاتھ میں مشعل لی، اس میں پیپے شراب کے رکھے تھے، اگر شاید کھلتے شراب کے دریا بہتے، جہاز ان میں چلتے، اُن پیپوں پر ایساروغن ملا تھا کہ ہرگز ان میں آگ کا اثر نہ ہوتا، شراب یہ خواص رکھتی ہے کہ ایک چنگاری سے رال کی طرح بھڑکتی ہے، یہ اُن لوگوں کی کاریگری تھی کہ آگ اُس میں اثر نہ کرتی، دو گھنٹے اُس میں روشنی مشعل سے پھرے تو بھی اس سرے سے اس سرے تک نہ پہونچے، نہ معلوم نہ خانہ کتنا بڑا تھا کہ میں اتنے عرصے میں کنارے نہ پہونچا، لاچار ہوکر باہر آیا، دوسری طرف جاکر دیکھا، تنباکو کا ڈھیر تھا، بہ خدا اس قدر ڈھیر نہ کبھی آنکھوں سے دیکھا نہ کانوں سے سنا جو تنباکو بابت چوری محصول کے چھن آتی تھی، ڈھیر کے ڈھیر جل رہے تھے، اگر اتنی تنباکو ہندوستان میں جلائی جاوے ہندوستانیوں کے دماغ سے ریزش نادانی کی ہوجاوے۔

لندن عجب شہر گلستان ہے، دانائی کی وہاں کان ہے، یہ تماشے دیکھ کر سرائے بل موت میں پھر آیا، راجڑ صاحب کو ساتھ لے کر مکان کرائے کا تلاش کیا، بہت جستجو سے محلہ سمورپلیس میں لمبر تیسرا قریب سینکرک کلیسا کے ایک مکان سوروپے کرائے پر ٹھہرایا، ایک شخص اور کو شریک کرکے اس میں رہا، بعد اس کے دوکانوں اور بازار کی سیر کرنے گیا، ایک راستہ دیکھا، پشت ماہی سا بنا تھا اور دونوں طرف زمین کے برابر لوہا لگا اس لئے کہ پہیا گاڈیوں دودی کا اونچا نیچا نہ ہوجاوے اور کنکریوں کا ان میں صدمہ نہ آوے، وہاں آٹھ سات گاڈیاں کھڑی تھیں، ایک بڑی گاڈی سب سے آگے، اس میں تین آدمی بیٹھے کوئلے سلگاتے، ہر گاڈی کی زنجیر دوسری گاڈی میں لگی تھی، بڑی گاڈی تک زنجیر بندی یوں ہی تھی، جب سب آدمی ان میں بیٹھ جاتے، بڑی گاڈی کے پیچ کو پھیرتے، فی الفور وہ تیرکی طرح دھویں کے زور سے رواں ہوتی، ہر ایک گاڈی زنجیر کے لگاؤ سے اس کے ساتھ چل نکلتی، میں نے ایسا کبھی تماشا نہیں دیکھا، نہایت مشتاق تھا، گاڈی بان سے پوچھا، کہاں جاؤ گے، اس نے کہا آٹھ کوس پر، میں نے کہا مجھ کو بھی سوار کر، اس نے کہا بہتر، آخر میں اُس پر سوار ہوا، اس نے گاڈی کا پیچ موڑا، فوراً گاڈی چلی، طبیعت بہلی، راہ میں ایک جگہ سر نکال کر دیکھا، قریب تھا کہ تیز روی اس کی سے پکڑی میری گرے، جلدی سے سر اندر کرلیا، پاؤ ساعت میں آٹھ کوس جا پہونچا، وہاں سے دھویں کی ناؤ پر سوار ہوکر موضع گرنچ میں سیر کو گیا، شہر دیکھا بہت گلزار اور آباد، عمارتیں شاہی اس میں جیسے باغ میں شمشاد، گورے جہاز کے جب کارِ سرکاری میں زخمی ہوتے ہیں انگلس پاکر چین سے زندگی وہاں بسر کرتے ہیں، میں نے دیکھا کھانے نفیس میزوں پر چنے ہیں، پیالے شراب بیر کے بھرے رکھے ہیں، گورے بڑے مزے سے کھاتے ہیں اور خوشی سے بیٹھے تھے، میرے دل میں آئی، صاحبانِ انگریز کی دانائی کہ کیا اچھی عقل رکھتے ہیں، جب سپاہی کچھ اچھا کام کرتے ہیں، ان کو انگلس دیتے ہیں، وہ آرام سے بسر کتے ہیں، مالک جب نوکر کے حال پر اتنی مہربانی کرے، نوکر کس طرح آقا کے کام میں جان کو جان سمجھے۔

آگے بڑھے ایک اور مکان میں پہونچے کہ وہاں تصویریں جہاز جنگی اور امیروں نامدار فرنگی کی تھیں، نشان جنگی لڑائی واٹرلو کا بطریق تحفہ و یاد گاری و یادگاری وہاں رکھا، مارے گولیوں کے سوراخ دار تھا، اس کے سامنے ایک الماری میں شیشہ تصویر لاڈنلس کا اور کُرتے خون بھرے ہوئےاس کے رکھے، وہ بھی گولیوں سے چھلنی ہورہے، نمونے جہاز وغیرہ کےاور طرح طرح کی تصویریں رکھیں، اس کے مقابل حضرت پالوس اور حواریوں کی تھیں، آدمیوں سے ایسی تصویریں بننا ممکن نہیں، مگر خداکی قدرت سے بنیں، امریکہ سے ایک رئیس وہاں آیا تھا،عوض ان تصویروں کے ڈیڑھ لاکھ روپیہ دیتاتھا، مگر انگریزوں نے نہ مانا اور تصویروں کو نہ دیا، ایک جاسات ستون سنگ مرمر کے ایک ڈال تشے کڑھے تھے، نہیں معلوم پتھر کتنے بڑے تھے کہ اُن سے اتنے اتنے بڑے ستون ایک ڈال ترشے، یہ سیریں دیکھ کر شام کو اپنے مکان میں پھر آیا۔
 
ص 1 سے 40 حصہ سوم

صبح کے وقت مکان کی سیر کرنے لا، باورچی خانہ میں ایک چھوٹا حوض کہ اس کے اوپر نل پیچ دار تھا، بندہ وہاں کی راہ و رسم سے محض نا آشنا تھا، باورچی خانہ کو حمام سمجھ کر نہانے لگا اور پیچ نل کا کھول دیا نوکر میرا بدن ملتا، تھوڑی دیرمیں پانی کمروں میں بھر گیا، تعجب کرکے عورت صاحب خانہ مع پیش خدمت اپنی کے دوڑ آئی مجھ کو نہاتے دیکھ بہت ہنس کر چلی گئی، نوکر میرا اور میں بھی حیران ہوا کہ باعث ہنسی کا کیا ہے، شاید یہاں رسم نہانے کی نہیں کہ نہاتے دیکھ کر ہنسیں، میں نے نہادھوکر حاضری منگوائی، اُس وقت وہ عورت نوکر صاحب خانہ کی پھر آئی، فقیر نے اس سے پرسش کی کہ مجھے نہاتے دیکھ کر تو اور تیری بی بی کیوں ہنسی، وہ پھر بہت ہنسی، میں نے ہَٹ کی، تب اُس نے کہا، جہاں تم نہائے باورچی خانہ ہے نہ غسل خانہ، ہم کو تمہاری نادانی پر ہنسی آئی کہ تمہیں باورچی خانہ اور غسل خانہ کی نہیں شناسائی، یہ سن کر میں شرمندہ ہوا اور کچھ جواب نہ بن آیا۔

اتوار کو سیر کرنے چلا، کلیسائے سنٹ پال میں گیا، وہ کلیسا ہزار برس کا بنا ہے مگر اب تک ویسا ہی مضبوط اور نیا ہے، میں ہندوستان سے اس کے دیکھنے کی آرزو رکھتا تھا، وہاں جاکر دیکھا کہ بہت انگریز اور پادری بندگی کے لئے جمع تھے، چونکہ میں پگڑی باندھے تھا، اندر کے جانے سے رُکا، مگر ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا، ان لوگوں کا طرز عبادت دیکھتا، اتنے میں نگہبان اس مکان کا ایک لکڑی ہاتھ میں لئے میں پاس آیا اور کہا، تو مرد اجنبی غیر قوم کا معلوم ہوتا ہے، میں نے کہا بجا ہے وہ بہت مہربانی اور شفقت سے پیش آیا، اونچی جگہ میں جہاں بڑے بڑے امیر نامدار بیٹھے تھے مجھ کو لے جاکر بٹھلایا، وہاں سے حال عبادت کا خوب دیکھا، ایک ارگن تیس ہاتھ کا بجاتے تھے اور دھیان طرف خدا کے لگاتے، اس کی آواز سننے سے میرے دل میں ہیبت سمائی، خدا کی قدرت یاد آئی، ایک طرف لڑکے کھڑے ہوئے مرثیہ کی طرح شکریہ خدا کا گاتے، داہنی طرف پادری اپنی جگہ پر کھڑے بندگی بجالاتے، انگریزوں کی رائے جہاں آرائے پر صد آفریں کہ مجھ اجنبی بے پہچان کو برابر اپنے بٹھایا، ہر گز خیال خلاف مذہبی کا نہ فرمایا، مسلمانوں کی مسجد اورہندوں کے بت خانہ میں سوائے اپنی قوم کے دوسرے کو جانے نہیں دیتے ہیں، مگر صاحبان انگریز باوصف حکومت اور اقتدار کے خیال اس کا نہیں کرتے ہیں، پگڑی باندھے گرجے جانا نہایت بے ادبی بہ طریقۂ عیسوی ہے،میں پگڑی باندھے گیا تھا، پر کسونے نہ کہا تو نے یہ کیا حرکت کی ہے، جس قوم میں اتنا حلم و صبر ہووے، حق تعالیٰ اسے کیوں کر نہ سرفراز کرے، پہلے ایک نورانی شکل بڈھے پادری نے آکر نماز پڑھی، ضعف و نقاہت اس کی سے صفاف آواز میرے کان میں نہ آئی، میں سچ کہتا ہوں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ آواز ارگن اور گانے فقرے شکریہ لڑکوں اور نمازپادریوں سے شوق خدا کا ہر دم زیادہ ہوتا، دل میں آتا کیا اچھا ہوتا اگر سب گناہوں سے توبہ کرکے یہاں بیٹھ رہتا، دل میں ایسا ذوق شوق ہوا کہ خیال میں نہیں آتا، کلیسا کے اندر کام سونے کا ایساکیا ہے کہ عقل دریافت کرنے خوبیوں اس کی سے بے سروپا ہے، اگر کوئی برسوں وہاں رہے، ہرگز خوبیاں اس کی دریافت نہ کرسکے، میناروں پر بھیپانی سونے کا پھرا ہوا، فرش زمین کا سنگِ مرمر سپید سے بنا ہوا، قبریں بادشاہوں عالیشان اور پادریوں کی اس میں جابجا، اس کی چھت پر سے تمام شہر لندن نظرآتا، میں نے روضہ تاج بی بی کا دیکھا تھا، جب وہاں پہونچ کر اس کی عمارت کو دیکھا سخت حیران ہوا کہ روضۂ تاج بی بی سے اس کو تشبیہہ دوں یا اس سے بہتر کہوں، خلاصہ یہ کہ ایک دوسرے سے بہتر ہے، وہ اس سے یہ اس سے خوشتر، دن بھر سیر اس کی دیکھتا رہا، رات کو اپنے گھر آیا، دوسرے دن کالاسم میں گیا،وہ مکان طلسمات کاتھا، نیچے کے درجے میں تصویریں پتھر کی تراشی ہوئی استادوں کامل کی ہرطرف رکھیں، اس میں ناخنِ پا سے سر تلک پٹھے اور رگیں نظر آتیں، جسم آدمی سے اُن میں فرق ایک بال کا نہ تھا، بنانے والوں کو تحسین کہ کی خوب ان کو بتایا، اس کے بعد وہاں کے چوکیدار نے کہا، آؤ تم کو ایک مکان دکھلاؤں کہ کبھی نہ دیکھا ہو، میں اُس کے ہمراہ ہوا، ایک چھوٹے مکان میں لے گیا کہ اس کے اندر سوا چار آدمیوں کے جگہ بیٹھنے کی نہ تھی، میں نے پوچھا یہ مکان کیا خوبی رکھتا ہے نہ اس میں وسعت ہے نہ عمارت اچھی، ایک بارگی وہ مکان مانند تخت حضرت سلیمان کے ہوا پر اوڑا، جھٹ پٹ بہت بلند ہوا، اُس پر سے سب آبادی و عمارت مرد، رنڈیاں ، راہ، گلی، بازار، جہاز، ناویں، سمندر کے پہاڑ، جنگل، لندن کا آسمان ابر نظر آتا ، میں ہرکز نہیں جانتا کہ یہ طلسم خیال کا ہے، بعددریافت کرنے کے ثابت ہوا کہ وہ سب طلسم خیال کا تھا، پھر چوکیدار نے کہا، آؤ اس سے ایک اونچا مکان دکھلاؤں، میں ششدر ہوا کہ اس سے زیادہ اونچا کیا ہوگا، شاید قریب آسمان لے جاوے گا، اس کے ساتھ چلا اس جگہ لے گیا کہ پہلے سے کچھ کم تھا، مگر شہر لندن سب معلوم ہوتا، اس کو دیکھ کر اس کے ساتھ پھر نیچے گیا، وہاں ایک حوض دیکھا کہ اس میں فوارہ مدوّر جاری تھا، دونوں طرف پھول رنگا رنگ اور سبزہ ہرا، آگے بڑھا، ایک پہاڑ اور خندق دیکھا، اس کے پاس جاکر تامل کیا، اُس گھڑی پہاڑ نقلی کو اصلی سے کچھ فرق نہ پایا، جابجا سے پانی جاری، بسبب رطوبت کے اس پر کائی جم گئی، اس کے اندر گیا، سمندر لہریں مارتا ہوا دیکھا اور ایک جہاز طوفان میں تباہ ہوا دوسری طرف بہاڑ تھا کہ پانی اس سے ایک چشمہ میں آتا اورپانی سے وہ چشمہ لبالب تھا، اس میں مرغابیاں او راور جانور ار ایک باز بھی بیٹھا، ایک طرف دیکھا میزلگی ہوئی، اس میں کھانے عمدہ چنے ہوئے، شرابیں رنگا رنگ شیشہ کے برتنوں میں رکھی ہوئیں، پریاں قریب میز کے بیٹھی کھاپی رہیں، میں ان کے پاس گیا، ایک پری نے پیالہ شراب کا مجھ کو دیا، شکر خدا کا کرکے پیالہ اس کے ہاتھ سے لیا اور دوستوں غائب کو دیاد کرکے پیا، کرسی بونے پاٹ کے بیٹھنے کی وہاں رکھی تھی، یہ سب سیریں دیکھ دوسری سمت چلا، وہاں بھی ایک مکان طلسم کا دیکھا کہ استادوں کامل نے نقشہ گانوں انگریزوں کا بنایا ہے، ہرگز ثابت نہ ہوتا کہ یہ طلسم کاخیال کا ہے، جابجا مکان انگریزوں کا بنا ہے، دھواں آتش دانوں سے نکلتا ہے، مزدور اور گدھے راہوں میں چلتے نظر آتے، گھاس اور کھیت اور جانور رواں سب دکھائی دیتے، ایک مکان میں ایک ایسا شیشہ بناکر لگایا ہے کہ باوجود بند ہونے مکان کے سب چیزیں اور صورت آدمیوں باہر کی دیکھیں، یہ جو کچھ میں نے دیکھا سب کارخانہ طلسمات کا تھا، یہ حالات دیکھ کر شام کو اپنے مکان پر آیا۔

صبح ہی بیدار ہوکر میوزیم گیا وہ بھی ایک عجب مکان ہے، تعریف اس کی نہ یار اے بیان ہے، عمارت اس کی میں لاکھوں روپیہ صرف ہوئے ہوں گے، ہر طرح کے تحفے اور عجائبات وہاں رکھے، بہت مورتیں مصر کی اور ہتھیار لڑائی کے، جانور دو پائے، چوپائے قسم قسم کے رکھے ہیں، سب چیزیں نادر ہر یاک جا سے بہت تلاش سے لائے ہیں، حضرت نوح کے طوفان کے ڈوبے ہوئے مرد اور عورتیں وہاں تھیں، اکثر لاشیں مردوں اور رنڈیوں کی جو پتھر کے نیچے پانی میں دبیں اور مدت تک پڑی رہیں، گوشت سارا گل گیا، مگر ہڈیاں ان کی پتھروں میں لگی رہیں اور اسی طرح ڈھانچے گھڑیال اور کتنے اور جانوروں کے یعنی فقط ہڈیاں پتھروں میں لگی وہاں نظر آئیں، اسی طوفان میں ایک درخت دو پتھروں کے بیچ دبا تھا، انگریزوں نے آرے سے اسے چیرا، آدھا درخت نیچے کے پتھر میں لگارہا ہے، اور آدھا اوپر والے میں جما ہوا ہے، میں نے ان امروں کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر طوفان نوح کا عتبار کیا اور دل میں یقین لایا، بعد اس کے سر ایک جانور کا دیکھا کہ دُگنا ہاتھی کے سر سے تھا، اگلے زمانے میں وہ جانور نکلتا ، اب شاید نہیں پیدا ہوتا، اس کو دیکھ کر قدرت خدا کی نظر آئی کہ کیسے کیسے جانور اور صورتیں بنائیں وہ تمام روز اسی سیر میں بسر کیا۔

دوسرے دن سیر کلیساے منسٹر آبی کو گیا، بادشاہی مکانوں کی سیرمیں مشغول ہوا، درِ دولت شاہی پر ایک شخص مشکیں گھوڑے دور کا بے پر سوار زرہ بکتر پہنے طیارہ نظر آیا، خود میں اس کے ریچھ کے بال لگے تھے، قد اس کا جوں سروِسہی، موچھیں اس کی کھری ، میں نے بہت سفر کیا، پر ویسا سوار کہیں نہیں دیکھا، مقابل در دولت کے ایک پائیں باغ تھا کہ باغ ارم اس پر رشک لے جاتا، اس میں حوض پانی کے بھرے ہوئے، جانور اس میں تیرتے، ملکہ عالم آرا یعنی کوئن وکٹوریا اس روز اس مکان میں آئی تھی، اس لئے مجھ کو اندر ان مکانوں کے رسائی نہ ہوئی، باہر سے خوب تماشا دیکھا اور خوش ہو کے اپنے گھر آیا، دل میں کہا ایسی زبان کہاں سے لاؤں کہ خوبیاں یہاں کی بیان کروں۔

گیارھویں تاریخ ستمبر کی رات کے وقت باغ بادشاہی کی سیر کرنے گیا، نام اس کا رایل جولاجکل گاڈن تھا، وہاں ایک دریا بڑا، اس میں کئی جہاز کا لنگر پڑا ہوا، کنارے دریا کے شاہ لندن نے پہاڑ بنوایا کہ پہاڑ اسلی سے ذرا فرق نہ رکھتا، نیچے اس پہاڑ کے کئی شہر آباد تھے، بعینہٖ مانند نفشۂ شہرِ یونان کے معلوم ہوتے، ایک مکان میں باجے والے بادشاہی نوکر عجیب و غریب باجے بجاتے، سامنے اس کے دوسرے مکان میں گیس اور چراغ اور فانوس بہت روشن تھے، اس میں میز لگی ہوئی اور شیشہ کے برتن اور کھانے عمدہ چنے ہوئے شرابیں طرفح طرح کی شیشہ کے ظروف میں رکھیں، پریاں لندن کی وہ کھانے اور شراب بیچتیں، سب کی سب خوبصورت تھیں، سوائے اس شہر کے مقابل ان کا روئے زمین میں نہیں، ان میں سے ایک پری چودہ برس کی سراپا غضب تھی، نگاہ اس کی آفت ڈھاتی، تعریف جمال اس کی محال، بالوں اس کے سے عاشقوں کو زندگی وبال، شعر:

زلفیں یوں بکھری ہوئی چہرہ پہ مانگیں تھیں دل

جس طرح ایک کھلونے پہ ہٹیں دو بالک

میں یہ تماشا دیکھ رہا تھا کہ وقت آدھی رات کا ہوا، اک بارگی پہاڑ سے دھویں رنگا رنگ نکلنے لگے، ہر ساعت زیادہ ہوتے جاتے، بعد دوچار گھڑی کے ایک آواز گرجنے کی سی آئی، پہاڑ کے نیچے رہنے والوں پر تباہی لائی، وہ سب پریشان و تباہ ہوئے، نام و نشان کو باقی نہ رہے، یہی نقشہ تباہی یونان کا ہوا کہ پہاڑ سے گندھک نکل کر آدمیوں پر گری اور ہلاک کیا، میں یہ طلسم دیکھ کر اپنے گھر آیا۔

صبح کو راجڑ صاحب اور ایک شخص اور کی صلاح سے نقل گھر گیا، اس مکان کو انگریزی میں اسلس ٹیاٹر کہتے ہیں، اس مکان میں تین درجے تھے، سب سے اوپر کمینے اور کم ظرف بیٹھے تماشا دیکھتے، درجہ اوسط میں صاحبانِ والا شان مع اپنی بیبیوں کے رونق افروز تھے، نیچے کے درجے میں غریب اور مفلس جی بہلاتے، مکانات خوب نفیس اور مضبوط بنے تھے، ہم ہر آدمی پیچھے دو دو روپئے دے کر بیچ کے درجے میں بیٹھے، نقالوں نے پہلے نقل لڑائی مظفر شاہزادہ قزلباش اور ترکمانوں کی بیان کی، ایک چادر اٹھادی، سبھوں کی نظرمیں دریا جہاز جنگل آیا اور معلوم ہوا کہ مظفر شاہزادہ بھاگا، ترکمانوں نے اس کا تعاقب کرکے پکڑا، ایک گھوڑے ننگی پیٹھ پر چت لٹاکر رسیوں سے باندھا اور گھوڑا ہانک دیا، گھوڑے نے اپنے تئیں دوڑا کر دریا میں ڈالا، ایک باز اُوپر سے حملہ کرتا اور ایک بھیڑیا پیچھے اس کے پڑا، مگر گھوڑا گرتے گرتے دریا سے پار ہوا اور قریب ہلاکت پہونچا، اسی عرصہ میں معشوقہ شاہزادہ کی ایک لوٹا تانبے کاہاتھ میں لئے ہوئے پہاڑ سے نکلی اور اپنے عاشق کے اچھے ہونے کے لئے خدا کی درگاہ میں رو رو کر دعا کی، شہزادے کو گھوڑے کی پیٹھ سے کھول کر شیر کے چمڑے پر بٹھلایا اور لوٹے میں پانی لاکر زخموں کو دھو دھا کر صاف کیا، بعد دو گھڑی کے باپ شاہزادے کا آکر اپنے بیٹے کو نظرِ عنایت سے دیکھ رہا تھا کہ ترکمان بھی آپہونچا، ان دونوں شخصوں میں نوبت ڈھال تلوار کی آئی، شاہزادہ بھی اٹھ کھڑا ہوا، مستعدِ جنگ آرائی، فی الفور دونوں طرف سے سپاہ آئی، آخر فوجِ قزلباش نے ترکمان پر فتح پائی، فوج ترکمانی نے بھاگنے کی راہ لی، شاہزادہ بڑے جلوس اور دھوم سے شادیانے فتح کے بجاتے ہوئےاپنے گھر آیا، جب یہاں تک نوبت نقل کی پہونچی پردہ گرایا اور پھر اٹھایا، اس میں سے ڈکرو نکلا، بڑا نقال پوشاک عربی پہنے ہوئے تھا، ایک میدان مدور دوہاتھ کے نیچے میں آکر ٹھہرا، سامنے اس کے ایک گھورا ابلق اسی میدان میں آیا، ڈکرو جدھر اشارہ کرتا گھوڑا اُدھر پھرتا، اسی عرصہ میں ڈکرو نے ایک پتھر دو گز کا طول میں اس میدان میں ڈالا، گھوڑے نے دونوں پانوں اگلے اپنے کو اس پر جمایا، تصویر ساں بے حس و حرکت ہوا، پھر ڈکرو کے اشارے سے پانوں پتھر سے اتار کرناچنے لگا، بعد اس کے نو آدمیوں نے حلقے لکڑیوں کے گھوڑے کے قد برابر لئے اور گھوڑے کے گرد کھرے ہوئے، جب ڈکرو اشارہ کرتا، گھوڑا ہوا کہ طرح ہر حلقہ سے نکل جاتا، بلکہ ایسی تیزیاں کرتا کہ ہوا کو بھی اس پر رشک آتا، بعد ازاں لوگ نو لکڑیاں بڑی بمفاصلہ جسم گھوڑے کے لے کر کھڑے ہوئے، گھوڑا ہر لکڑی سے اُچک کر اس سرے سے اُس سرے پہونچتا، اسی طرح اُدھر سے ادھر آتا، بعد ان حرکتوں کے تماشائیوں کے سامنے گھٹنا زمیں پر ٹیکا اور سرجھکاکر سلام کیا، کیا اچھا گھوڑا تھا، مرتبہ شناسی میں آدمی سے زیادہ ہوش رکھتا، ڈکرو اس پر سوار ہوکے چلاگیا، تھوڑی دیر کے بعد بہت روشنی ہوئی، ڈکرو آیا، اس کے پیچھے ایک گھوڑا سبزہ اسی گول میدان میں موجود ہوا، ڈکرو اس کی ننگی پیٹھ پر سوار ہوکر اسی میدان میں کاوا دیتا اور نیزہ کو بہت فستی سے ہلاتا، کبھی گھوڑے کی پیٹھ پر آتا کبھی گردن پر جاتا، کبھی پانوں میں چمٹتا، کبھی وہاں سے ہٹتا، گھوڑا ویسا ہی رواں تھا، غرضکہ ڈکرو نے ایسی چالاکی کی دکھائی کہ دیکھنے والوں کو حیرت آئی، بعد اس کے آٹھ گولیاں پیتل کی نکالیں، گھوڑا دوڑتا جاتا، وہ ان گولیوں کو اچھا کر ہاتھ میں روکتا، یہاں تک کہ بارہ گولیاں کی نوبت آئی، زمین میں ایک بھی نہ گرنے پائی، اسی تیز روئی میں ایک رکابی تانبے کی لکڑی کا دستہ لگی ہوئی نکالی، گولیاں اچھال کر اس رکابی میں روکتا اور وہ رکابی کی لکڑی ہاتھ میں پکڑے تھا، کبھی گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑا ہوجاتا، کبھی دُم کے پاس کھڑا ہوکر یہ کمال دکھاتا، اسی حال میں چھت سے ایک رسی لٹکا کر اپنے پانوں کو اس میں باندھا اور اوندھا لٹک گیا، گھوڑا ویسا ہی دوڑتا تھا، اکبارگی قلابازی کھاکر رسی کو اپنے پانوں سے کھولا اور گھوڑے پر آبیٹھا بعد اس کے ایک پلٹن آئی، کپتان اس کا مجنوں کی طرح دبلا اور ناتواں، سپاہی سب بے ساماں، کسی کے پاس بندوق نہ تھی، کسی پاس تھی، پر چانپ سے خالی، کسوپاس کپی باروت کی نہیں، کوئی کہیں کوئی کہیں، ان سپاہیوں کو دیکھ مجھ کو فوج شاہِ اودھ کی یاد آئی، اتنے میں خدمت گاروں نے مسخروں کی طرح آکر کرسی اور میز لگایا، اس پر شراب اور کھانا ہر قسم کا چنا، کپتان نے کرسی پر بیٹھ کر شراب پہ اور کھانا کھایا، سپاہیوں کو اپنے برابر بٹھلایا، جب خوب نشہ میں چور ہوا سائیس سے گھوڑا منگواکر سوار ہو بیٹھا، اسی میدان مدور میں گھوڑا پھرایا، بندوق کی قواعد ایسی کی کہ میں نے کسی انگریز یا ہندوستانی کی نہیں دیکھی، اگرچہ کپتان عمر میں دس برس کان ہایت نزار و لاغر تھا، مگر ایسے ایسے کمال دکھائے کہ عقل میں نہ آئے، گھوڑ کی تیز روی سے ثابت ہوتا کہ یہ لڑکا اس پر گر پڑے گا، مگر گھوڑا بے تحاشا ویسا ہی دوڑاتا، نہایت مدہوشی میں کمیس پتلون بدن سے اتارا،فقط ایک باریک کپڑا ریشمی کمیس کے نیچے کا پہنے رہا، ایک پانوں اٹھاکر انگلیاں اس کی دانتوں سے کاٹتا، سب تماشائیوں نے اس کی تیزی دیکھ کر بہت تعریف کی اور ٹوپی ہر ایک نے سر سے اتاری، میں بھی حیران کہ اس نے کیا کام کیا شاید دیو کا بچہ ہے، جو ایسے کام کرتا ہے ورنہ آدمی کی کیا مجال، جو دکھلاوے ایسے کرتب اور کامل، خلاصہ یہ کہ وہ قواعد کرکے غائب ہوا، ڈکرو پھر آیا، تین گھوڑے بے زین باگ دار ساتھ لایا، اس کے اشارہ سے وہ گھوڑے اسی گول میدان میں گئے اور برابر کا وا پھرنے لگے، ڈکرو نے کود کر ایک پانوں ایک گھوڑے پر رکھا، دوسرے گھوڑے پر دوسرا پانوں جمایا، تیسرے کو درمیاں میں لے کر آپ کھڑا ہوکر خوب دوڑاتا، تین گھوڑے اور آئے ان کو بھی آگے کرلیا، اور باگ ہاتھ میں لے کر برابر دوڑایا، بعد ایک لحظہ کے تین گھوڑے اور موجود ہوئے، ان کو بھی ویسا ہی چھ گھوڑوں پہلے کے آگے کرلیا، سب کی باگیں پکڑ کر برابر دوڑانے لگا، کیا کمال رکھتا تھا کہ نو گھوڑوں کو برابر بے کم و بیش دوڑاتا، یہ تماشے دیکھ کر میں اپنے گھر آیا۔
 
ص 40
پوچھا، اس نے بیان کیا کہ عرصہ تین ہزار برس کا ہوا کہ یہ مردہ مصر سے آیا اور اسی طرح رکھا ہے، جس کو شوق تحصیل علم ڈاکتری کا ہوتا ہے، یہاں آکر رگ پٹھے دیکھتا ہے اور پہچانتا ہے، وہاں سے پھر کر شام کو بموجب طلب راجڑ صاحب کے مکان میں جاکر چائے پی، وہاں پادری ماٹ مر اور دو تین بی بیاں آئی تھیں، ان سے مجھ سے باتیں ہوئیں، پہلے پادری صاحب نے کہاکہ ہم کو ہے مقام بڑے تعجب کا کہ سو برس سے پادری ہندوستان میں جاکر وعظ و نصیحت کرتے ہیں ، مگر ہندوستانی لوگ نہیں سمجھتے ہیں اور راہ راست پر نہیں آتے ہیں، میں نے جواب دیا وہ لوگ آپ راہِ راست پر ہیں اگر پادری کے کہنے پر عمل نہ کریں، کیا تعجب کا مقام ہے، انھوں نے کہا، کیوں کہ سیدھی راہ پر ہیں، بت پرستی کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے غافل ہوتے ہیں، میں نے کہا جیسے کوئی عاشق معشوق تک نہ پہونچ سکتا ہو اور دیکھنا اس کا منظور رکھتا ہو، ناچار وہ تصویر اس کی سامنے رکھتا ہے اور اپنے دل کو اس سے تسلی دیتا ہے اسی طرح ہندو بن کو اپنے سامنے رکھتے ہیں، حقیقتاً اس کو خدا نہیں جانتے، بلکہ خدا کو وحدہٗ لاشریک کہتے ہیں، انھوں نے یہ سن کر سکوت کیا، دوسرا کلام فرمایا کہ یہ ہم نے مانا، بیل اور درختوں کے پوجنے کا سبب کیا، میں نے کہا جس نے مذہب ہندوؤں کا ایجاد کیا مرد عاقل تھا ہندوستان میں گرمی بہت ہوتی ہے، مسافروں کو دھوپ سے ایذا ہوتی ہے، راہ میں جہاں کہیں درخت پاتے ہیں اس کے سایہ میں بیٹھتے ہیں، اس صورت میں اگر موجد مذہب ان کے درخت پرستی کا حکم نہ کرتا لوگ جڑ سے درخت کو کاٹ ڈالتے اور مسافروں اور جانوروں کو بسبب نہ ہونے سایہ کے بہت رنج پہونچتے، بلکہ قریب المرگ ہوتے باوجود اس تاکید کے اب بھی درخت کٹتے ہیں اور لوگ نہیں سمجھتے ہیں، اگر یہ اعتقاد نہ ہوتا خدا جانے کیا حال ہوتا اور کوئی درخت باقی نہ رہتا، گاؤ پرستی کا حال بھی یوں ہی ہے، اکثر امر ہندوستان کے بیل پر موقوف ہیں جیسے کھیتی اور سینچتا اور گاڈی میں بھی جُتیں، پس اگر گاؤ پرستی کا حکم نہ ہوتا، کوئی بیل

ص 41
زندہ نہ بچتا، لوگ ان کو کھاجاتے، ان سب باتوں میں ہرج واقع ہوتے، غرض یہ سب باتیں مصلحت کے واسطے ہیں، وحدانیت خدا میں کچھ دخل نہیں رکھتی ہیں، اگر کوئی نادان بیل کو خدا جانتا ہے، جادہ پیمائے حماقت کا ہے، ہر روز کا نہانا، برتنوں کا مٹی سے دھونا، پکانے کی جگہ چوکا دینا، شراب نہ پینا، گوشت کا نہ کھانا یہ بھی فائدہ سے خالی نہیں، اس لئے کہ ہندوستان گرمی کی کان ہے، اگر نہ نہائیں وبا اور مرض میں گرفتار ہوجائیں، اگر شراب اور گوشت استعمال کریں، احتراقِ خون میں مبتلا ہوکر ہلاکت کو پہونچیں، پس یہ سب امر منفعت کے واسطے ہیں، نہ مذہب میں داخل ہیں، مگر ہندوؤں کے پیشوانے ان باتوں کو ازراہ دانائی اعتقادات میں شامل کیا کہ اس وجہ سے ان سب امروں کو ضرور ماننا پڑے گا، سوا اس کے آپ ملاحظہ فرمائیں، جو تلنگے یا متصدی ہندو نوکر شاہِ لندن کے ہیں اپنے اوپر کیا کیا مصیبتیں اٹھاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک وقت روٹی کھاتے ہیں اور اپنے ماں باپ کو خرچ بھجواتے ہیں، جب آپ رخصت لے کر گھر جاتے ہیں ہر طرح سے والدین کی خدمت کرتے ہیں اور اپنی کتاب او رپوتھی پر چلتے ہیں، پس کس طرح راہ راست سے ہٹے ہیں، صاحبان انگریز باوصف جاننے انجیل اور تحصیل علوم کے کیا عمل کرتے ہیں، باوجود اماکن اور مقدور کے ماں باپ سے غافل ہوکر بیبیوں حسینوں کے ساتھ مشغول رہتے ہیں اور ماں باپ سے مطلق سروکار نہیں رکھتے، یہ بات آشکارا ہے کہ فرزند پھل زندگانی کا ہے، یعنی ماں باپ اس سے بڑھاپے میں چین اٹھاویں اور اس کی جہت سے آرام پاویں، جب ان کو لڑکےسے کچھ فائدہ نہ ہوا مقام افسوس کا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کوئی تم میں سے عیب آدمیوں کا دیکھے گا، خداوند تعالیٰ اس کے گناہوں پر نظر کرے گا، یہ بھی فرمایا کہ اے اُمت کے لوگو! جہاں تک تم سے ہوسکے اپنے ہم قوموں سے کسی کو بھوکا پیاسا نہ رکھو اور محتاجوں کو اپنے پاس جگہ دے کر کھانا پانی دو، و گر نہیں تم نے مجھی کو بھوکا پیاسا رکھا، قیامت

ص 43
کے دن تم پر اس کا عذاب ہو گا، اس زمانہ میں عیسائیوں کا حال یوں ہے کہ اپنی قوم کے بھوکے پیاسے کو عیب لگاکر نکال دیتے ہیں، ہر گز نان و نمک نہیں دیتے ہیں، اب تم سے انصاف چاہتا ہوں کہ ہندؤں کو اچھا کہوں یا عیسائیوں کو، اگر چہ دینِ عیسائی اور دینوں سے بالذات بہتر ہے، لاکن کسی عیسائی کا عمل نہیں ہے اس پر، پس پہلے اپنے ہم مذہبوں کو راہِ راست پر لانا چاہئے، بعد اذاں اوروں کو سمجھانا، جب یہ لوگ اپنے طریقے پہ قائم ہوئیں اور لوگ بھی ان کا کہنا مانیں اور پادریوں کے سمجھانے سے راہ پرویں، آدمی جب آپ ہی عمل نہ کرے، دوسرے کو کیا سمجھاسکے، ویسی ہی مثل ہے، جیسے کوئی آپ شراب پئے اور بیٹے کو منع کرے، بھلا وہ کیوں کر مانے گا اور شراب پینے سے باز آوے گا، ایک شخص نے کہ نام اس کا یوسف تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا، وہ کون کام ہے کہ خداوند تعالیٰ بسبب اس کے مجھ سے راضی رہے، فرمایا کہ خدا نے دس حکم جو کئے ہیں آدمیوں کی بھلائی کے لئے ہیں، ان پر ہمیشہ عملکیا کر بصدق و یقین، اس سے بہتر کوئی امر نہیں، یوسف نے کہا جب سے میں نے ہوش سنبھالا، ان ہی دس حکموں پر عمل کیا، آنحضرت نے فرمایا، جا سب مال اپنا خدا کی راہ پر لٹاکر میرے ساتھ آ، یوسف نے یہ سنتے ہی سرجھکایا اور کچھ جواب نہ دیا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ اونٹ کا نکلنا سوئی کے ناکے سے آسان ہے اس سے کہ دولت مند خدا کی سلطنت میں داخل ہوئے، غرض یہ امرناامکان ہے، ایک روز ایک شخص نے آنحضرت سے پوچھا کہ آپ کے رہنے کی کون سی ہے جا، فرمایا کہ جانوروں، درندہ کو بہت جگہ ہے مگر میرے لئے اتنی جگہ نہیں کہ سر رکھ کر سو رہوں، حضرت عیسی علیہ السلام کب گھوڑ کی گاڈیوں پر معشوقۂ رعنا کے ساتھ سوار ہوکر بازار کی سیر کرنے جاتے تھے او رکب گرجے میں مخملی فرش پر نماز پڑھتے تھے، کب پَر بھرے بچھونے پر سوتے تھے، تم لوگ ہر طرح سے دلجمعی رکھتے ہو، خوشی سے رات سے دن کرتے ہو۔

ص 44
زبانی دینداری کا دعویٰ دل میں ذرا بھی خیال نہیں آتا، پادریوں کا وہ حال کہ مال میں مشغول ہوکر بی بیوں ساتھ گاڈیوں پر چڑھ کر سیرکرتے پھرتے ہیں، خدمت گار ان کی اطاعت میں حاضر رہتے ہیں، راہ خدا ایک کوڑی نہیں دیتے ہیں، غریبوں پر کم توجہی کرتے، بھوکے کو روٹی نہیں دیتے، زبانی وعظ و نصیحت کہتے ہیں اور آپ عمل نہیں کرتے، بھوکا روٹی روٹی پکارتے، وہ نصیحتوں پر اتارے، بھلا یہ کہاں کی دینداری ہے۔ ع:

ترک دینا بمردم آموزند
خویشتن سیم و غلہ اندوزند

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کب عیش و نشاط کے ساتھ زندگی بسر کی اور عبادت خدا کی میں کب کوتاہی کی، تم نے خزانہ جمع کئے، خدا کی راہ میں دو پیسے بھی نہ دئے، زبانی نصیحت کرنا تمہارا لوگوں کو کیا فائدہ بخشے گا، میں نے اکثر پادریوں سے ملاقات کی، ان کی فربہی اور جسامت سب سے زیادہ دیکھی، اگر عبادت اور ریاضت میں رہتے اس قدر موٹے نہ ہوتے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے دن سب لوگ امت میری کے، مجھ سے ملیں گے اور مجھ کو دیکھیں گے، تھوڑے ان میں سے مقبول ہوکر مجھ تک پہونچیں گے اور بہت سے نا مقبول ہوکر رہ جائیں گے، یہاں سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی جنیو پہنے اور بطور برہمنوں او شاستر کے عمل نہ کرے، برہمن نہیں اور مسلمان فقط ختنے کرنے سے مسلمان نہیں ہوتا ہے، جب تک اپنے پیغمبر کے طریقہ کار پر عبادت نہیں کرتا ہے، اسی طرح کوئی شخص پوشاک انگریزی پہننے سے عیسائی نہ ہو، جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی راہ پر قائم اور شناسائی نہ ہو، یہ مثل ویسی ہے جیسے کوئی کالے کپڑے پہن کر اپنے تئیں سپاہی بناوے، وقت لڑائی کے حال شجاعت اس کی کا کُھل جاوے، یوں ہی حال پرہیز گار اور ریا کار کا دن قیامت کے ظاہر ہوگا، میں یہ کہہ رہا تھا کہ ایک میم نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا تم نے جوابدہی ہندوؤں کی خوب کی، مسلمانوں کی بات باقی رہی، میں کچھ ان کے مذہب سے بھی سوال کروں، اگر آپ آمادۂ بیان ہوں، میں نے کہا بہت اچھا، تب انھوں نے یہ کہا کہ مسلمانوں کے مذہب میں نکاح ایک مرد کا چار بی بیوں سے جائز ہوتا ہے ظاہراً یہ امر خلاف عقل نظر آتا ہے کہ ایک مرد چار عورتوں کی رفع حاجت کرے اور ہر ایک کی خیر گیری کی طاقت رکھے، میں نے جواب دیاکہ ابتداظہور اسلام میں حضرت محمد ﷺ کا ایمان تھوڑے سے لوگ لائے تھے، کافر خلاف اپنے جان کر بمقابلہ پیش آتے، جو کچھ شہید ہوتے اور بھی تھوڑے رہتے، لہٰذا پیغمبر ﷺ نے بمقتضائے مصلحت چار نکاح جائز رکھے، اس سبب سے لڑکے زیادہ پیدا ہوتے، امت کی زیادتی ہوتی گئی اور اسلام کی ترقی ہوئی اور یہ جو پیغمبر ﷺ نے گوشت سور کا کھانا، شراب کا پینا منع کیا، بہت سا اس میں فائدہ تھا، ملک عرب گرم اور آدمی وہاں کے جہل مطلق تھے، اگر گوشت سور کا کھاتے اور شراب پیتے، نشہ میں آکر لڑلڑ مرتے اور ہر طرح کے مرض میں مبتلا ہوتے، سوا اس کے سور کا پالنا کچھ محنت نہیں رکھتا ہے، فر دانے چارے اس کی کا نہیں کرنا پڑتا ہے، وہ خود چرچ چگ کر پیٹ اپنا بھرتا ہے، عرب کے لوگ اس کو غنیمت جانتے او رپالتے، یاد الٰہی سے باز رہتے، پس یہ کیا خوب بات ہے گویا ان کے لئےراہِ نجات ہے او ان کے ہاں پانچ وقت کی نماز اور وضو کا حکم ہے، فرمایئے اس میں کیا سقم ہے، آگے عرب کے لوگ بسبب جہالت کے بت پرستی کرتے تھے، اب نماز پنج وقت اور یاد خدا میں مصروف رہتے ہیں، وضو باعث نفاستِ بدن ہے اور موجب صحت و سلامت تن اور ذبح کرنا جانوروں کا فائدے رکھتا ہے بے انتہا، تم خوب جانتے ہوکہ زیادہ ہونا خون کا باعث ہے امراض اور جنون کا،اس لئے وہ لوگ جانور کو ذبح کرکے خون بہاتے ہیں اور گوشت نفیس اس کا کھاتے ہیں، اب فرمایئے کون سی بات اسلام کی قابلِ حرف گیریٔ جناب ہے، جو کوئی اپنے طریقہ پر قائم نہ ہو اس کا کیا حساب ہے، جیسے دین عیسائی بہتر ہے بالذات، مگر کوئی نہیں رکھتا ہے اُس پر ثبات، پس یہ خطا صاحبِ دین کی ہے، نہ نفسِ دین و آئین کی، پھر میں نے پادری صاحب سے کہا مسلمانوں میں ختنہ کرنا رواج رکھتا ہے یہ بھی سبب نفاست کا ہے نہ عیب و کراہت کا، آخر پادری صاحب نے پوچھا تمہارا مذہب کیا ہے میں کہا، بندہ بارہ برس کے سن سے اسی تحقیقات میں پھرتا ہے اور روز و شب اسی تلاش میں رہتا ہے مگر کسی دین میں ایسا شخص نہ پایا کہ حرص و طمع دنیا سے علاقہ نہ رکھتا ہو، بہت روز ان فاضلوں کی صحبت میں کاٹے کہ ممبروں پر چڑھ کر وعظ و نصیحت کہتے اور روتے آخر جو ان کو دیکھا، ہوائے نفسانی سے صاف نہ پایا، برسوں برہمنوں اور ہندو فقیروں کی خدمت میں رہا کہ شاید انہی سے ہاتھ لگے راہِ راست کا پتا، بعضے فقیروں کو دیکھا کہ درختوں سے پانوں باندھ کر اُلٹے لٹکتے، بعض شدت گرمی میں آگ تاپتے لیکن جب خوب غور کیا سوائے مکر و فریب کے کچھ نہ پایا، اسی طرح پادریوں پاس اکثر رہا، ان کو بھی بموجب حکم حضرت عیسیٰ علیہ اسلامکے روپیہ کی طلب سے خالی نہ پایا، آخر لاچار ہوکر مذہب سلیمانی اختیار کیا، اس کو سب سے اچھا جانا، وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے فرمایا ہے، بنی اسرائیل میں مجھ سا بادشاہ کوئی نہیں ہوا، حق تعالیٰ نے سب نعمتیں جہاں کی مجھ کو دیں، نہیں طاقت شکر اس کے کی میرے تئیں، اتنی مدت میں میں نے خلاصۂ مطلب یہ سمجھا، نیتک بخت وہ شخص ہے جو کسب اور وجہ حلال سے معاش پیدا کرے، اس میں سے کچھ آپ کھاوے باقی کچھ غریبوں کو دے، بدبخت وہ ہے کہ گدھے کی طرح بوجھ روپے کا اپنے اوپر اٹھاوے، نہ آپ کھاو ے نہ کسی کو کھلاوے، نہ دن کو آرام پاوے، نہ رات کو سووے، یایک اس کی موت آوے، جہاں سےلے جاوے، وہ بیکسی سے مرے اوروں کے لئے مال اپنا چھوڑے، جیسے کتا مرے، نہیں معلوم روح اس کی بہشت میں یا دوزخ میں پڑے، اسی طرح بعد مرنے کے روح نہیں ثابت ہوتی ہے کہ کہاں جاتی ہے، اسی قول پر مذہب بندے کا ہے کہ خداوند تعالیٰ کو برحق جانتا ہے، بدکاری، چوری او سب گناہوں کو بد سمجھتا ہے، ہر وقت ہر کام کے لئے مقرر ہوا، سونے کے وقت سونا، کھانے کے وقت کھانا، جیسے کہ کسی بزرگ نے کہا، کل امر مرہون باوقاتہا، بندہ یہ جانتا ہے کہ خدا نے جو کچھ پیدا کیا ہے، آدمی کے واسطے ہے، مگر آدمی کو تمیز کھانے کی چایئے کہ اعتدال سے تجاوز نہ کرے، میں نے بے دھڑک مذہب اپنا ظاہر کیا، بھروسہ خدا پر رکھا، چاہے کوئی بھلا جانے ، چاہے بُرا مانے، مثل: راجہ روٹھے نگری راکھے، رام سے کت جاندا، میری ان باتوں سے سبھوں نے سکوت کیا۔

بعد اس کے رخصت ہوکر اپنے گھر آیا اور تئیسویں تاریخ ستمبر کے روز ہفتہ کے ڈایہ رام میں گیا، جب اندر جانے کا ارادہ کیا، آنکھوں میں اندھیرا چھایا، اس سبب سے ہاتھ میرا ایک عورت کے کندھے پر جاپڑا، سخٹ ندامت زدہ ہوا، اکبارگی روشنی چمکی، شکل ہیکل حضرت پالوس کی نظر آئی، زمین اس کی سنگ مرمر کی تھی، دونوں طرف کے ستون بھی ایسے ہی قربان گاہ کے مقابلےتصویر پوپ کی رکھی، دفعۃً اس ہیکل میں آگ لگی اور چھت گری، اس میں سے آسمان نظر آتا، فرش زمین میں جو سنگ مرمر سے بنا تھا نہ ثابت ہوا کہ کیا ہوگیا تصویر پوپ کی ٹوٹ گئی مگر قربان گاہ اپنی حالت اصلی پر رہی، بعد اس کے جس زمین پر بندہ اور دو تین انگریز اور بی بیاں بیٹھی تھیں، اپنی جگہ سے ہلی، ایک گاؤں میں جاکر پہونچی، نام اس کا الکتا، بہت آباد وسیع لطیف تھا، گرد اس کے ہر طرف پہاڑ بلند، رات بسبب چاندنی کے دن سے دہچند، چراغ اور شمعیں روشن تھیں اکبارگی پہاڑ سے آوازیں ہیبت ناک آئیں، برف کا ایسا طوفان آیا کہ شمع اور چراغوں کا نور جاتا رہا، ا ندھیرا چھا گیا، کلیساؤں میں گھنٹا بجا کہ یہ وقت ہے قہر و آفت کا، سبھوں کو چاہئے کریں ذکر خدا کا، یہاں تک کہ کوئی مکان نہ دکھائی دیتا، مگر کنگرہ کلیسا کا نظر آتا، بعد عرصہ کے ثابت ہوا کہ صبح ہوئی، آفتاب بدستور مقرر پچھم سے نکلا، میں ہرگز نجانتا کہ یہ سب پہاڑ گانوں خیال ہے اور شعبدہ، لاکن درحقیقت یہ سب طلسمات تھا اور صاحبانِ فرنگ کا کمالات، مگر مجھ کو ہرگز یقین نہ آیا کہ یہ سب ہی طلسم بنا ہوا، بلکہ دو ایک شخصوں سے تکرار کی اور اس کے طلسم ہونے کا انکار، پھر ظاہر ہوا، انھیں کا قوم سچ تھا، یہ طلسم دل کو بہت بھایا، یہ ہیکل بعینہٖ اس ہیکل کا تھا کہ کنسٹان تینا کے بادشاہ نے روم کی پچھم طرف آدہ کوس فاصلے پر بنوائی تھی، عرض اس کا ایک سواڑتالیس فٹ اور دوسوفٹ کی لنبائی، گھیر مر مر کے ستونوں اس کے گیارہ فٹ آٹھ انگل، فرش زمین اس کی کامرمر سے بالکل، ایک قربان گاہ اس میں بنی، مقابل اس کے تصویر پوپ اور ایک عورت کی کھڑی، جب وہ ہیکل قریب طیاری کے پہونچی، سن اٹھارہ سو تئیس عیسوی میں سولھویں تاریخ جولائی کے اس کی چھت میں آگ لگی، یہاں تک کہ جل کر گری، ہر ایک ستون ٹکڑے ٹکڑے ہوا، فرش سنگ مرمر کا بھی جل کر گم ہوگیا، تصویر پوپ اور اس عورت کی بھی ٹوٹ گئی، مگر قربان گاہ بدستور رہی، یہاں کی ہیکل طلسمی جو میں نے دیکھی وہیں کی نقل تھی پر اصل معلوم ہوتی۔

پہلی اکتوبر ۱۸۳۷ ؁ء کے بندہ تاج گھر گیا، اس کا نام رائل سری ٹیاٹر تھا، کئی شعبدہ باز عرب سے وہاں آئے تھے اپنے اپنے کمال دکھلاتے، ایک نے ان میں سے نو آدمیوں ہمراہیوں اپنے کو برابر کھڑا کرکے ننگی تلواریں ہاتھ میں دیں، انھوں نے بموجب اس کے کہنے کے ہاتھ اٹھاکر تلواریں علم کیں، وہ شخص پھلانگ مارکر ان تلواروں کے اوپر سے کود جاتا، ایک طرف ایک موٹا کپڑا بچھا تھا، اُڑ کر کبوتر کی طرح اس پر جابیٹھا، بعد اس کے ایک لکڑی کھڑی کی، اس کے اوپر ایک تھالی جمائی، اس میں ہاتھی دانت کے مہرے رکھے، ہر ایک قلا بازی کھاکر اچھل کر اس تھالی سے مہرہ ہاتھ سے اٹھاتے، ان کی چالاکیاں دیکھ کر ہم حیران ہوئے، اس لئے کہ ویسے کرتب والے دکھن اور مچھلی بندہ میں بھی نہ دیکھے تھے۔

ص 49
دوسری تاریخ اکتوبر کی پڑلی صاحب نے دعوت کرکے اپنے گھر بلایا، میں وہاں جاکر بہت خوش ہوا، دونوں بہنیں گران صاحب کی اور اورپریاں اس مجلس میں بیٹھی شراب پیتیں، ایک مرد ضعیف بھی بیٹھا تھا، ذکر علم ریاضی اور گردشِ فلکی کا درمیان لایا، میں نے لطائف الحیل سے اس کو ان قصوں سے روکا، پروہ اس ذکر سے باز نہ آیا، لاچار ہوکر صاف صاف کہا کہ میں فن تحصیلِ معاش کا جوہر آدمی کو ناگزیر ہے نہیں رکھتا ہوں ، علم نجوم اور ستاروں کا کہاں سے لاؤں، یہ کہہ کر اس کی طرف سے منھ پھیرا پریوں کے ساتھ شراب پینے لگا، رقص و سماع کی گرمی رکھتی، رات بہت کیفیت سے کٹی، صبح کو اس بڈھے کو دیکھا، کرسی پر بے خبر سوتا، کسی نے کہا یہ سوتا ہے، میں نے کہا نہیں خیال ستاروں میں ڈوبا ہے، جگانا ضرورت نہیں رکھتا ہے۔

تیسری تاریخ وہاں سے اپنے گھر آیا، تنہا ملول بیٹھا تھا، چھوٹے بھائی بوچڑ صاحب کے آئے، کلام خاطر داری کے زبان پر لائے کہ اے یوسف خان تو کیوں آزردہ ہے، میرے ساتھ سیر کو آ، میں بپاس خاطر ان کے ساتھ چلا، اس مکان میں لے گئے کہ عجائبات خطۂ یونان کے وہاں تھے، انگریزوں نے ان چیزوں کو گڑھوں اور تہ زمین سے پایا، اس مکان میں تماشے کے لئے رکھا، سوائے اور عجائبات کے ایک صندوق پتھر کا وہاں نظر آیا، اس کے اندر ایک کھوپڑی کاغذ کی طرح صاف تھی گرد اس کے حمائل زریں لپٹی، جس کی وہ کھوپڑی تھی اسی کی تلوار بھی اس صندوق میں رکھی، چھلنی کے مانند مشبک ہوئی، بسبب اس کے کہ مدت تین چارہزار برس کی اس پر گزری، گرد صندوق کے خط یونانی زبان قدیمی میں حال اور نام اس نامدار کا لکھا تھا، مگر مجھ سے بسبب ناآشنائی اس زبان کے پڑھا نہ گیا، اس کے ہاتھ لگنے کی یہ صورت ہے کہ ایک دفعہ انگریزوں نے زمین یونانکھودوائی، تہہ زمین میں صورت اس صندوق کی نظر آئی، بہت شوق سے اس کو نکالا اور یہاں لاکر رکھا،

ص 50
بندہ صاحبانِ لندن کے اخلاق کا حال بیان نہیں کرسکتا ہے، ایک دوسرے پر سبقت رکھتا ہے میرے مکان پر آکر تسلی دیتے اور باوجود اجنبیت کے اپنا ہمراز مجھ کو کرتے، حال وہاں کا دیکھ کر ہم اپنے گھر آئے، شام کوبوچڑ صاحب کے بھائی میرے پاس آکر اپنے ساتھ سیر کو لے چلے، راہ میں دو پریاں نظر آئیں، دوکان پر بیٹھی قہوہ پلاتیں، ایک نگاہ سے دل تماشائیوں کا پھسلاتیں، میں نے اپنے ساتھ سے کہا قہوہ پیو، اس نے جواب دیا پھرتی دفعہ پی لینا، میں نے کہا زندگی کا کیا عتبار، پھر آنے کا اقرار، اگر اتنی دیر میں چراغ زندگی بجھے، یہ آرزو دل ہی میں رہے، یہ شہر میرے نزدیک جنت الماویٰ ہے، اگر بخوبی نہ دیکھا اور آدمیوں کو نہ پہچانا کیا فائدہ، آخر وہ راضی ہوئے وہ دوکان پر ٹھہرے، قہوہ نوشی کے حیلہ سے ان کے نظارے کئے، بعد اس کے اپنے گھر پھرے۔

آٹھویں تاریخ اکتوبر کی کپتان لاڈ صاحب کے ساتھ موضع ٹیٹرس ہل میں گیا، وہ گورستان ہے انگریزوں کا، لندن سے بہت فاصلہ رکھتا، سبب دورگاڑنے مردوں کا یہ تھا کہ مبادا روم یا مصر کی طرح بسبب مُردوں کے متعفن ہو ہوا، مصر اور روم میں وبا اکثر آتی ہے، باعث اس کا یہی ہے کہ عین شہر میں بہت تکئے ہیں، مردے وہیں دفن کئے ہیں، موضع ٹیٹرس ہل بلندی پر واقع ہوا، وہاں سے تمام لندن نظر آتا ہے، ایک کلیسا بھی اس میں خوب بنا ہے، اس مقام کو بنظرِ غربت دیکھا، پھر کپتان صاحب کے مکان پر آکر کھانا کھایا اور عرض کیا، مدت سے آرزو رکھتا ہوں کہ ہیکل یہودیوں کو دیکھوں، کپتان صاحب نے لی بیسن یہودی جوہری کے کے مکان پر لے جاکر مجھ سے ملاقات کروائی، اس نے بہت اخلاق اور محبت سے ملاقات کی اور مہربانی فرمائی، مجھ سے اس سے دیر تک ہر مقدمہ میں خاص مذہب کے باب میں گفتگو رہی، آخر ا س نے خوش ہوکر یہ بات کہی کہ کل ہماری عید کا دن ہے، اگر تم آؤ اپنے ساتھ ہیکل میں لے چلوں، لطف وہاں کا تمہیں دکھاؤں۔

صفحہ 51 سے 55
دیکھتا رہا۔ انہوں نے ایک مکان گنبددار پھولوں کا بنایا۔ اس کے اندر دو تین کاہنوں کو بٹھلا کر کھانا کھلایا ۔وہ لوگ اپنے کاہنوں کی تعظیم بادشاہوں کی مانند کرتے ہیں۔ بجا آوری احکام ان کے میں مستعد رہتے تھے۔ بادشاہ انگلستان کا بھی ان کی عزت کرتا ہے اور معزز رکھتا ہے۔ میں یہ حال دیکھ کر اپنے گھر آیا اور یہ سنا کہ نویں تاریخ نومبر کی جمعرات کے دن جلوس کوئین وکٹوریا کاکل ڈھال (1) میں ہوگا ۔ یعنی اجلاس تخت سلطنت ابتد اسی دن ہوا تھا۔ اس روز کے جلوس دیکھنے کو لوگ منزلوں سے آ کر جمع ہوتے ہیں۔ٹڈیوں کی طرح ہر طرف کے رئیس امیر دیکھنے کو آتے ہیں۔ اس روز کلڈھال کے نزدیک مکان کرایہ کا نہیں میسر آ تا- مجھ کو اس جلوس کے دیکھنے کا شوق غالب ہوا- چند روز بیشتر سے ایک مکان قہوہ خان کے بائیں طرف قریب کلڈھال کے ایک دن کیلئے ایک اشرفی کرایہ کا ٹھہرایا- جس روز جلوس ہوا- صبح ہی اٹھ کر اس مکان میں چلا- راہ میں ایسا ہجوم تماشائیوں کا تھا کہ اس مکان تک پہنچنا دشوار ہوا- یہ ہزار وقت جا پہنچا- بعضے شخصوں کو دیکھا کہ مکان کرایہ کا ڈھونڈھتے۔ دو سو روپیہ ایک دن کا کرایہ دیتے۔ مگر ہاتھ نہ لگا۔ ایسا آدمیوں کا انبوہ تھا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ میں اس مکان میں بیٹھا۔ سواری آنے کی راہ دیکھتا۔ دن قریب ڈیڑھ پہر کے آیا۔ ترشح مینھ کا شروع ہوا۔ اس سبب سے جلوس ہمراہی شاہزادے میں کمی تھی۔ دوپہر پر دو بجے سواری آئی۔ وقت سوار ہونے شاہزادی کے گھنٹے کلیساؤں میں بجنے لگے۔ لوگوں کو اس امرِخیر سے خوشخبری دینے لگے۔ سب سے پہلے سردار اور منصب دار گھوڑوں پر سوار کلڈھال میں داخل ہوئے۔ بعد ان کے ارکانِ دولت اعیان سلطنت چار چھ گھوڑے کی گاڈیوں پر سواروں کے شامل ہوئے۔ گھوڑے گاڈیوں کے اصیل ولایتی قدم باز راہوار۔ سب ساز ان کا جڑاؤ نہایت آبدار۔ نوکر پوشاک زرینہ و زربفت پہنے ، ایک دوسرے سے زیادہ بنے چنے۔ پھر سواری وزیراعظم لاڈمیر (2) کی آئی۔ بعد اس کے گاڑی ملکہ جم جاہ کی نمو ہوئی-

گاڑی ستھری جواہر جڑے۔ آٹھ گھوڑے سمنداس میں لگے۔ صورت و سیرت میں سب برابر تھے ایک ذرہ آپس میں فرق نہ رکھتے۔ اگر ایک چھپایا جاتا دوسرا سامنے آتا۔ دھوکہ اس کا اس پر ہوتا اور ہر گز فرق نہ ثابت ہو سکتا۔ویسے گھوڑوں کی صورت دیکھنا مجھ کو پھر نہ نصیب ہوئی۔ بھوک پیاس ان کے دیکھنے سے بھولی۔ اصیل اور قدم بازی میں چاق۔ خوبی میں ہر ایک یکتائے آفاق۔ جب وہ گاڈی اگاڈی بڑھی ، میرے قریب آئی۔ دو تصویریں رومیوں کی قد آدم اس میں کھڑی تھیں۔ میں سمجھا دو رومی زندہ ہیں ، تصویریں نہیں۔ جب خوب غور سے دیکھا شبھہ مٹا۔ ملکہ مہر سیما کوئن وکٹوریا مع اپنی والدہ ماجدہ کے اس پر سوار تھیں۔ چاند صورت ، سورج طلعت دکھائی دیتیں۔تخمیناََ عمر میں اٹھارہ برس کی۔ مجمع شرم و جمال و عفت بے شمار تھیں۔ میں نے صورت دیکھتے ہی دل میں دعا کی۔ یاللہ گاڈی ملکہ کی میرے پہنچ کر ایک لحظہ ٹھہرے ، خدا نے سن لی۔ جب گاڈی میرے سامنے آئی ، ایک ساعت رکی ، چہرہ نورانی ملکہ کا میں نے بغور دیکھا ، نمونہ قدرت ایزدی کا پایا۔ آداب تسلیمات بجا لایا۔ نگاہ عنایت سے میری طرف دیکھ کر تبسم فرمایا۔ ان کی ماں نے بھی دیکھا۔ میں خوشی سے پھولوں نہ سمایا اور دل میں دعائیں دیتا رہا کہ یااللہ اس کی سلطنت کو کبھی زوال نہ ہوئے۔ ہمیشہ زیادتی اور کمال ہوتا رہے۔ غرض قدوم میمنت لزوم سے کلڈھال رشک گزار ہوا اور وہ میدان کثرت فوج و سپاہ وردی پوش سے رشکِ لالہ زار۔ ایک رسالہ سواروں مشکی گھوڑوں کا زرہ اور خود پہنے نظر آیا۔ ہر ایک کی موچھیں کھڑی ، کمال ہیبت اور شان سے ٹولیاں باندھے قدم با قدم برابر جاتا۔ تماشائیوں کو ان سے ہرگز صدمہ نہ پہنچتا۔ سوا ان کے بہت توزک سے اور فوج مسلح تھی۔ دیکھنے سے اس کے بہت ہیبت آتی۔ القصہ فوج بادشاہی اور تماشائیوں کا ایسا اژدہام تھا کہ بیان میں نہیں سماتا۔ سننے میں آیا کہ اس جلوس میمنت مانوس میں ڈیڑھ کروڑ روپیہ صرف ہوا۔ فقیرے نے تیسرے پہر کا کھانا وہیں کھانا۔ شام

کو اپنے گھر آیا۔ اثنائے راہ میں چراغ فانوس روشن تھے۔ چاند ، سورج ، ستارے روشنی کے ایسے بنے کہ چمک دمک میں مہر و ماہ و ستاروں سے ڈِگتے۔ دوکانوں پر دو شاملے رومال سرخ سرخ ، کار کشمیر کے رکھے اور ہر طرح کی چیزیں ، اسباب عجیب و غریب وہاں تھے۔ نہیں معلوم بایں افراط کہاں سے ہاتھ آئے۔ ہر پریزاد فرنگ کے خوشی سے راہ میں آتے جاتے۔ ہر ادا سے اعجاز مسیحائی دکھاتے۔ مرد رنڈیاں پہلو بہ پہلو خوش رفتار۔ جیسے جنت میں حور و غلمان نمودار۔ دوکان نان بائیوں کی نعمتوں سے بھری۔ فریفتہ ہوا جس کی نظر اس پر پڑی۔ لوگوں کی بول و چال و دیدارِ حسن و جمال مجھ کو خواب و خیال معلوم ہوتا۔ ورنہ بیداری میں ایسی کیفیت دیکھنا محال تھا۔ فی الواقعی جو دیکھا خیال ہی تھا کہ اب اس کا دیکھنا میسر نہیں آتا۔ بلکہ جس سے وہ حال کہتا ہوں اعتبار نہیں کرتا۔ اگر اپنی آنکھوں سے دیکھے تو مانے۔ اسی طرح سب کام دنیا کے خیال ہیں۔ لذاتاس کی سریع الانتقال ۔ کوئی کیفیت اس کی برقرار نہیں رہتی۔ کوئی لذت اعتبار نہیں رکھتی۔ عاقل کو چاہیے کام آج کا کل پر نہ ڈالے شاید کل کوئی اور سانحہ پیش آئے؎

کہ داند کہ فردا چہ خواہد رسید
زدیدہ کہ خواہد شدن نا پدید

رباعی
دنیا خوا بے ست کش عدم تعبیر ست
صید اجل ست چہ جوان و چہ پیر ست
ہم روی زمین پرست وہم زیر زمین
ایں صفحہ خاک ہر دو رو تصویر ست

گیارہویں تاریخ نومبر کے الود بوچڑ صاحب میرے مکان پر آئے۔ اپنے ساتھ

کلڈھال کا تماشادکھانے لے گئے ، جہاں جلوس شاہی ہوا تھا۔ کوئی اس کے اندر بے ٹکٹ جانے نہ پایا۔ مگر جو چٹھی رکھتاہوتا ، البتہ جا سکتا ، اس لیے انہوں نے اپنے باپ سے ٹکٹ لے لیا تھا۔ اس ذریعہ سے میں بھی کلڈھالکے اندر گیا۔ وہاں کا خوب تماشا دیکھا۔ برابر میز لگی ہوئی تھی۔ ان پر ظروف نقرہ و طلائی رکھے۔ سب سے آگے میز بادشاہی لگا۔ اس کا عجب ٹھاٹھ تھا۔ دستر خوان زربفتکا ، مقیشی جھالر لگا ہوا اس پر بچھا۔ بہت برتن سونے چاندی کے برابر چنے۔ جھاڑ شیشہ بلور کے کی چھت اور دیوار پر لٹکے۔ برابر اس میز کے ایک کرسی زرنگار ، مقابل اس کے چھت سے لٹکتا ایک چتر طلائی بشکل تاج شہر یار۔ وہ کرسی اور میز خاص مقام اجلاس شاہزادی کا تھا۔ عمدہ اسباب بادشاہی وہاں رکھا۔ تصویریں امیرانِ نامدار کی دیوار میں لگیں۔ ان سب نادر چیزوں کے دیکھنے میں مصروف تھے، سارے تماشا بین۔ میں نے دیر تلک تماشا دیکھا۔ پھر بھی وہاں سے نکلنے کو جی نہ چاہتا۔ بلاچاری مکان پر آیا، انگلستان میں ایسی ایسی عجیب چیزیں اور تماشے دیکھے کہ ہندوستان میں کانوں بھی نہ سنے تھے۔ خدا اس شہر کو قیامت تلک قائم رکھے اور وہاں کے فرماں روا کو مدد بخشے؎
تیرہویں تاریخ نومبر کی ایک شخص کے ساتھ ماڈم ترساد(1) میں گیا۔ جب قریب اس کے جا پہنچا۔ اپنی آنکھ سے دیکھا کہ ایک مجلس آراستہ ہے۔ اس میں نامدار بیٹھے۔ میں نے اس ساتھی سے کہا۔ تو مجھ سے ہنسسی کرتا ہے کہ بے تعارف و شناسائی امیروں کی محفل میں لے چلتا ہےاس نے کہا ، یہ تصویریں امیروں کی موم کی بنی ہیں۔ صاحبانِ تصویر کچھ مرے کچھ جیتے ہیں۔ میں یہ سن کر سخت متحیر ہوا۔ اس کا کہنا ہرگز یقین نہ ہوتا مگر ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ قریب تصویروں کے پہنچا۔ تو بھی یہ شبہہنہ مٹا کہ امیر زندہ ہیں یا
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 95
بنوائیں۔ وہاں آگے لوگ اس فن کو بُرا جان کر نفرت کرتے تھے۔ اب ایسا رواج ہوا کہ ہنر سمجھے۔ جابجا مدرسہ بنوایا ہے۔ عالموں اور طالب علموں کا درماہہ مقرر کیا ہے۔ بہت سے لڑکے نوکر رکھ کر انگلستان اور فرانس فنِ جہاز رانی سیکھنے کے لیے بھیجے۔ اسی طرح صد ہا امرِ خیر اُس نے اپنی ذات سے رواج دئیے۔ غرض کہ بعضی بات میں قابلِ تحسین و آفریں ہے۔ بعض رسمِ ظلم و ستم سے سزاوارِ نفریں۔
یہ حالات دیکھ کر انتیسویں تاریخ فروری کی گد ہے پر سواری کی اور اونٹ باربرداری کا کرایہ پر ٹھہرا کر بندہ پر نکل صاحب اور ہیڈصاحب کے ساتھ مصر سے سوئیس (۱) کو چلا۔ یہاں سے وہاں تک تین منزل کا فاصلہ تھا۔ تمام راہ کھانا پانی میسر نہ آتا، اس لیے ہر چیز ضروری اور کھانا، پانی، شراب میوہ اُونٹوں پر لاد کر ساتھ لیا۔ راہ میں عورتیں مصر کی دیکھیں۔ برقع ریشمی پہن کر مقدوروالیاں باہر نکلتی تھیں اور جو غریب اور بے مقدور تھیں سوتی برقع پہنے پھرتیں۔ بہ سبب برقع کے بدن اُن کا سر سے پاؤں تک چھپا تھا۔ کوئی عضو نظر نہیں آتا۔ آنکھوں کے برابر ایک ٹکڑا جعلی کا سیا تھا۔ اُس سے رستہ نظر آتا۔ بعض کو دیکھا کہ پردہ اُٹھا کر منھ اپنا راہیوں کو دکھاتیں۔ برقع برائے نام پہنے تھیں۔ چہروں اُن کے سے جمالِ یوسفی عیاں تھا۔ چال ڈھال میں حسنِ زلیخائی نمایاں۔ مگر اتنا عیب رکھتیں کہ قدوقامت میں اکثر موٹی تھیں۔ ایک مکان نظر آیا۔ وہ مقبرہ حضرت امام حسینؓ کا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ یہاں سر مبارک آنحضرت کا دفن ہوا۔ (۲) عمارت اُس کی عالیشان۔ ستون اُس کے چاندی کے مستحکم بنیان۔ گرد اُس کے قرآن خواں قرآن شریف پڑھتے۔ مرادوا لےوہاں آ کر منت مانتے۔ دیکھتے بھالتے کنارے مصر کے پہونچا۔ وہاں دو تین لڑکیوں خوبصورت نے آ گھیرا۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنے سوال بخشش و انعام کا کرتیں اور پیچھے ہمارے دوڑتی آتیں۔ مجھ کو ان کے جمال اور کمالِ افلاس پر رحم آیا۔ ان گلوں کا کانٹوں میں دوڑنا دل کو نہ بھایا۔ بطریقِ

صفحہ 96
بخشش اُن کو کچھ دیا اور رخصت کیا۔ وہ اپنی زبان میں دعائیں دیتی پھر گئیں اور بخشش پانے سے نہایت خوش ہوئیں۔ مصر میں اس قدر غلبہ سائلوں اور فقیروں کا ہوتا ہے کہ مسافروں کو راہ چلنا مشکل پڑتا ہے اور خوف ترکوں سے کوئی عورتوں کی طرف بدنظری سے نہیں دیکھ سکتا ہے۔ میری زبان جہاں کے میوؤن سے ذائقہ یاب ہوئی۔ مگر کہیں بہتر مصر کی نارگی سے کوش ذائقہ نہ پائی۔مٹھائی اس کی مثل شیریں ادائی معشوق۔ کھٹائی اُس کی مرغوبِ طبائعِ مخلوق۔
مصر سے دو کوس آگے بڑھے۔ کئی مقبرے قدیمی صحرا میں نظر آئے۔ اہل عرب سے حال اُن کا پوچھا۔ انہوں نے کہا مقبرہ ہارون رشید (۱) اور کئی بادشاہوں کا ہے۔مدّت کا بنا ہے۔ سامنے سے عمارت مستحکم اور وسیع نظر آئی۔ مگر بہ سبب رواروی راہ کے وہاں کی سیر نہ ہو سکی۔ اس خیال سے کہ جہاز دودی سوئیس سے رواں ہو جاوے گا۔ بندہ سرگرم تردد تھا۔ چلتے چلتے صحرائے ریگستان میں پہونچا۔ وہاں ہم سب کھانا کھا کر سو رہے، صبح اٹھ کر پھر چلے۔ راہ پر آفت و بلا تھی۔ صورت دانے پانی کی کہیں نظر نہ آئی۔ ہزار خرابی سے قطع مسافت کرتے تھے۔ تیسری منزل تیسویں تاریخ فروری کے پر نکل صاحب اور ہیڈ صاحب کہنے لگے ہم آگے چلتے ہیں، سوئیس میں جا کر جہاز ٹھہراتے ہیں، تم آہستہ آہستہ اُونٹوں کے ساتھ آؤ۔ اُن کو احتیاط سے لے آؤ۔ اگر جہاز چلا جاوے گا کچھ بن نہ آوے گا۔ چلتے وقت ہیڈصاحب نے میرے گدہے کو تیز رفتار قدم باز دیکھ کر اپنی سواری میں لیا۔ اپنا گدہا سست قدم میری سواری کو دیا۔ میں نے چارناچار قبول کیا۔ وہ دونوں صاحب جلدی سے آگے بڑھے۔ ہم اونٹوں کے ساتھ چلے۔ جب رات آئی۔ بہت تاریکی چھائی۔ چلتے چلتے پاؤں گدہے میرے کا ایک گڑہے میں جاتا رہا۔ میں بھی اُس کے اوپر سے مع تلوار بندوق کے اُس میں گرا۔ عرب جو میرے ساتھ تھے، حال پوچھنے لگے۔ میں زبان عربی سے ناآشنا تھا۔ ا س وقت اور ہر حال میں طائب طائب کہتا۔ طائب ان کی بولی میں بجائے بہتر کے بولتے اور میں نے کہا بیچ
صفحہ 97
ایسے وقت مصیبت کے۔ اُنہوں نے یہ سن کر قہقہہ مارا اور غار سے مجھ کو نکالا۔ بڑی محنت اور مشقت سے ڈیڑھ پہر رات گئے سوئیس میں مج صاحب کے مکان پر جا کر اُترا۔ سارا اسباب اونٹوں سے اُتارا۔ مج صاحب ملازم شاہ لندن کے تھے۔ پہونچانے اسباب ضروری جہاز کے لیے مقرر سرکار سے تھے۔ اپنے دونوں ہمراہیوں کو خواب غفلت میں پایا۔ جگانا اُن کا مناسب نہ سمجھا۔ ہاتھ پاؤں دھو کر کچھ کھانا کھایا اور سو رہا۔
صبح اُٹھا حال جہاز کا پوچھا۔ معلوم ہوا کہ ان دونوں کے آنے سے پہلے روانہ ہو گیا۔ یہ سن کر بہت ملول ہوا کہ یہاں کچھ دنوں رہنا پڑا۔ حال اس شہر کا اس طرح دیکھا کہ کہیں سبزی اور درختوں پھول کا نام و نشان نہ تھا۔ یہاں تک کہ پہاڑ بھی سبزے سے خالی پایا۔ تمام شہر کے کنوؤں کا پانی کھاری تھا۔ نہ کوئی چشمۂ شیریں جاری ہے۔ وہاں سے تین کوس کے فاصلہ پر ایک کنواں اچھا تھا۔ نام اس کا بیر موسےٰ (۱) اور پانی اُس کا میٹھا۔ سقّے مشکوں میں پانی اُس سے بھر لاتے۔ بازار میں لا کر بیچ جاتے۔ خریداروں پر ہجوم کرتے۔ شہد کی طرح مول لیتے۔ سوا پانی کے سوئیس میں ہر چیز ملتی۔ آسانی سے بے تکلف میسر آتی۔جیسے گوشت، دودھ، دہی، پنیر، گھی اور تنباکو پینے کا۔ حقہ چپک بھی وہاں خوب بنتا۔ قہوہ خانوں میں شراب اور چائے موجود مہیّا۔ ایک سراپختہ تھی۔ جگہ اُترنےمسافروں اور سوداگروں کی۔ یہ شہر مقام تجارت اسباب مصر کا ہے۔ دریائے شور سے لگا ہے۔ بگلے عرب کے یعنی چھوٹے جہاز وہاں آتے ہیں۔ اسباب خرید کر کے جدّے اور مکّے لاد لے جاتے ہیں اور وہاں کا اسباب یہاں بیچنے لاتے ہیں۔ پر نکل صاحب نے مج صاحب سے اترنے کی جگہ مانگی۔ اُنہوں نے ایک جگہ بہتر رہنے کے لیے تجویز کر دی ۔ حق یہ ہے کہ مج صاحب مردِدانا تھا۔ لیاقت چوگنی درماہے کی رکھتا۔ اُس وجہ مقرر سے کہ سرکار کمپنی سے پاتا۔ اُس شہر میں رہنا ہر کسی کا کام نہ تھا۔ قوم گریک (۲) سے کتنے آدمی وہاں رہتے تھے۔ لوگ حال بیان کرنے

صفحہ 98
لگے کہ یہاں گرمی کی فصل میں اکثر تپ و بخار آتا ہے۔ ہر شخص شراب دوا جان کر پیتا ہے۔ انہیں دنوں میں سے کلن صاحب سے جو مج صاحب کے مکان پر رہتے تھے ملاقات کی۔ دوستی اور محبت بدرجہ کمال بہم پہونچی۔ وہ تھے رہنے والے ڈیلن کے۔ پسٹن فوج انگریزی رسالہ ہارس ٹرین کے سرکار سے رخصت لے کر مصر کی سیر کرنے آئے تھے۔اُس شہر کو پسندکر کے چندے ٹھہرے ۔ ہم اکژ ان کی صحبت میں رہتے۔ وہ بہت سیاح اور جہاں دیدہ تھے۔ جب سے وہ ا س جوار میں آئے ترکوں کی طرح ڈاڑھی مونچھ بڑھا دی او ر پوشاک ترکی پہنتے۔ بندہ بیشتر اُن کے ساتھ دریائے شور اور بازار کی سیر کرنے جاتا باتوں شیریں اُن کی سے ذائقہ یاب ہوتا۔ قہوہ خانوں میں ہمراہ اُن کے جا کر قہوہ و شراب پیتا اور مج صاحب کے مکان پر جو کنارے دریا کے تھا، اُن کے ساتھ بیٹھ کر حقّہ چپک پیتا، پانی کی لہروں کی سیر دیکھتا۔ ہر روز نہانے کو ان کے ساتھ سمندر جاتا۔ اسی لطف میں ہفتہ عشرہ گزرا۔
ایک دن دوپہر کو دل گھبرایا۔ کنارے دریا کے جی بہلانے گیا۔ وہاں سے پھر ا آتا تھا۔ راہ میں ایک پھاٹک کے نیچے ایک بیمار پڑا دیکھا۔ اُس نے میرے دیکھتے ہی سوال کیا کہ للہ مجھ بیمار غریب الوطن پر بہ تصدّق حضرت عیسیٰ کے رحم کرو اور کہیں رہنے کی جگہ دو۔ میں نے اُس سے پوچھا تو کہاں کا رہنے والا اور مذہب تیرا کیا۔ کہا وطن میرا بمبئی اور مذہب میرا عیسوی ہے۔ ایک صاحب والا شان کا نوکر ہوکر اُس کے ساتھ جاتا تھا۔ مصر میں پہونچ کر مرض تپ اور بخار میں گرفتار ہوا۔ لاچار ہو کر اپنے آقا سے عذر بیماری کا کیا۔ درماہہ لے کر یہاں تک آیا۔ اب یہاں کوئی خبرگیر میرا نہیں ہوتا۔ پھر میں نے اُس سے کہا۔ میں مذہب سلیمانی کا یقین اور آئین رکھتا ہوں۔ کوڑی پیسا پاس نہیں رکھتا ہوں۔ تو اپنے مذہب والوں سے مطلب اپنا ظاہر کر۔ اُس نے کہابہت خوب اور بہتر۔ بعد اس کے میں اُسی پھاٹک پاس کھڑا چپک پیتا رہا۔ ایک شخص عیسائی سوئیس کا رہنے والا تسبیح ہاتھ میں لیے

صفحہ 99
سامنے آتا تھا۔ اپنے مذہب میں بہت پرہیزگار اور متقی۔ ملک شام میں زیارت مقبرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کی۔ بظاہر اپنے مذہب والوں سے تقویٰ، طہارت میں سبقت لے گیا۔ نہایت مرفَہ الحال اور صاحب مقدور تھا۔ میں نے اُس بیمار سائل سے اشارے آنکھ سے کہا۔ یہ جو صاحب بڑے دیندار آتے ہیں ان کو حال اپنا کہہ سنا۔ وہ برابر آئے۔ اُس نے گڑگڑا کر کہا میں مذہب عیسائی رکھتا ہوں، مسافرت میں بیمار پڑا ہوں۔ برائے خدا مجھ پر رحم اتنا کرو کہ گھر لے چل کر میری دوا کرو۔ انہوں نے اُس سے یہ بات سن کر پوچھا تو خط صلیبی کھینچنا جانتا ہے۔ ا س نے فی الفور خط صلیبی ابرو سارے بدن پر کھینچ کر دکھلایا اور اُن کے پاؤں پر گرا۔ وہ خفا ہو کر سخت کلمے کہہ کر چلے گئے، ایک پیسا بھی نہ دے گئے۔ سوا باتوں سخت و ناروا کے۔ اسی طرح بہت پادری اور کتنے اور صاحب اُس راہ سے نکلے۔ حال اُس کا دیکھتے گئے۔ سبھوں سے اُس نے سوال کیا مگر کسی نے اُس پر رحم نہ کیا۔ اس سخت دلی اُن لوگوں سے ثابت ہوا کہ عقیدہ درست نہیں ہے کسی کا۔ ظاہر میں پادری اور سب صاحب مذہب عیسائی کا دم مارتے ہیں، باطن میں ذرّہ بھر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ نے ان لوگوں کے حق میں فرمایا کہ حال ان کا مثل مقبرے کے ہے۔ ظاہر میں آراستہ و خوشنما، اندر اُس کے سوائے ہڈیوں مردہ کے اور کیا۔ اسی طرح میری امت کے لوگ ظاہر میں میری محبت کا دعویٰ کریں گے۔ باطن میں کچھ اُس کا خیال نہ رکھیں گے۔ دین عیسائی بالذات بہتر ہے۔ لیکن اس مذہب والے اپنے طریق سے بےخبر ہیں۔ اکثر آنحضرت علیہ السلا نے یہ بھی فرمایاکہ فردائے قیامت میں تم سے کہوں گا کہ اے میری امّت کے لوگو میں بھوکا تھا، تم نے مجھ کو کھانا نہ کھلایا، پیاسا تھا پانی نہ پلایا، ننگا تھا کپڑا نہ پہنایا، مسافر تھا تم نے اپنے گھر رہنے کا ٹھکانہ نہ دیا۔ مراد اس سے یہ ہے کہ میری امّت کے بھوکوں ، پیاسوں، ننگوں کو تم نے کامیاب نہ کیا ۔ باوصف یہ کہ سلوک کرنے کا تم کو اختیار تھا۔

صفحہ 100
القصہ جب اُس مسافر بیمار کا کوئی پرساں نہ ہوا۔ میں نے پرنکل صاحب کے آدمی سے کہا کہ اس شخص کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ باورچی خانہ میں رہنے کی جگہ دو۔ وہ اس کو اپنے ساتھ لے گیا۔ باورچی خانہ میں اُتارا۔
ازانجا کہ جہاز کے آنے میں عرصہ تھا۔ لاچار اُس اطراف و جوانب کی سیر کا ارادہ کیا۔ پرنکل صاحب اور ہیڈ صاحب اور کلن صاحب کے ساتھ ایک گریک کی کشتی پر سوار ہوئے اور سمندر میں چلے۔ نام اُس گریک کا نکلس۔ کشتی بھری ہوئی تھی غلّہ سے۔ تھوڑی دور تک ناؤ موافقت ہوا سے اچھی طرح چلی۔ جب بیچ میں جا پہونچی، ہوا ناموافق زور سے بہی۔ کشتی ڈگمگائی۔ لہر پانی کی ناؤ تک آئی۔ ہوا کے زور سے ناؤ کبھی اونچی ہوتی۔ کبھی نشیب میں جا گرتی۔ نکلس بڈھا تھا۔ تدبیر سے عاجز ہوا۔ ایک ملّاح اور تھا۔ اُس نے لاچار ہو کر اپنے تیئں دریا میں گرا کر ہلاک کرنا چاہا۔ ہم نے منع کیااور منع کرکے پکڑ رکھا۔ بادبان کی رسّی کاٹ دی۔ ناؤ ٹھہرائی لیکن تدبیر آدمی کی ہوا پانی سے کچھ کام نہیں کرتی۔ کشتی ویسی ہی ڈانواڈول رہی۔ کنارے لے جانے کی بھی صورت نہ تھی۔ اس لیے کہ کنارے پر درخت مونگے کے ایسے سربرآوردہ تھے کہ اگر کشتی اُن پر جاتی ، توڑ ڈالتے۔ یہ وہی مقام تھا کہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر آئے۔ پانی خدا کے حکم سے خشک ہوا، وہ پار اُتر گئے۔ ہم لوگ اس مصیبت میں پڑے۔ خدا کی درگاہ میں دعا کرتے تھے۔ اکبارگی بگلہ عرب کا نظر آیا۔ ہم نے اُن سے اظہارِخیال کیا۔ اُنہوں نے ایک چھوٹی ناؤ بھیج کر اپنے پاس بلایا۔ ہم نے اُس ناؤ پر سوار ہو کر اُن کے بگلے پر پہونچنا غنیمت جانا۔ سبب بچنے جان کا ہوا۔ بعد ایک ساعت کے ایسی ہوا موافق چلی کہ کشتی اس گریک کی بھی بخیریت کنارے پر پہونچی۔ ہم اُس بگلے پر چڑھ کر موضع طور میں آئے۔ وہ وطن یہودیوں کا تھا۔ کئی گھر عرب کے اور دو تین گھر گریک کے تھے۔ اُس کی طرز آبادی سے معلوم ہوتا کہ سابق میں خوب آباد

صفحہ 101
ہو گا۔ قسم غلہ سے کوئی چیز وہاں نہیں پیدا ہوتی۔زمین اُس کی سنگستان اور کان نمک کی تھی۔ اس سبب سے درخت میوہ دار اور سبزہ بھی نہ تھا۔ مگر درخت کھجور کا البتہ اُگتا۔ ظاہرا کم پانی غلّہ اور ہر چیز کی تنگی سے لوگ وہاں سے نکل گئے، وطن مالوف اپنے سے ٹل گئے۔ غذا وہاں کے لوگوں کی مچھلی ہے۔ اسی سے اُن کو سیری ہے۔ غلّہ ٔ مصر اور طرفوں کو جاتا ہے۔ اس سبب سے گراں بکتا ہے۔ اسی لیے لوگوں نے مچھلی کھانا اختیار کیا ہے۔ پانی کنوؤں کا کھاری ہوتا ہے۔ اگرچہ بہت شوریت نہیں رکھتا ہے۔ مگر بدمزہ پایا جاتا ہے۔ وہاں دریائے شور میں مچھلی کی زیادتی سے گویا کان ِ ماہی ہے۔ جب بگلہ یعنی جہاز ہمارا وہاں پہونچا۔ آدمیوں معزز کو دیکھا کہ جال شکار کے واسطے دریا میں ڈالا۔ جب اُس کو پانی سے اُٹھایا، اتنی مچھلیاں بھر گئیں کہ اُٹھانا جال کا دشوار ہوا۔ اُس مقام سے دو تین کوس کے فاصلہ پر ایک حوض سنا کہ وہ حمام حضرت موسیٰ اور مقام تعظیم کا تھا۔ پانی اس کا بھی خوب شیریں نہ تھا۔ اُس میں ہم نے جا کر غسل کیا۔ بعد فراغت کے پھر وہاں سے طور (۱) کو چلے۔ راہ میں کئی جھانکل اُڑتے دیکھے۔ میں نے چھرے بھر کر اُن پر ایک بندوق ماری۔ اتفاقاً اُن میں سے ایک کو زخم لگا کاری ۔ وہ زخمی ہو کر گرا۔ میں نے شکرِ خدا ادا کر کے گوشت اس کا کھایا۔ پنجہ اور چونچ پھینک دیا۔ اُس کو عرب کے لڑکوں نے بھون کھایا۔ طور میں آ کر بہت تلاش کر کے اونٹ بہم پہونچائے۔ ان پر سوار ہوکر کوہِ طور پر چلے۔ طور سے کوہِ طور تک چار روز کی راہ تھی۔ ہم نے اپنی تیز روی سے دن بھر چل کر تین روز میں طے کی۔ راہ میں ایسے ایسے راستے پہاڑ کے دیکھے کہ بسبب تنگی کے دو اونٹ برابر نہ جا سکتے۔ بلکہ سوا اونٹ کے دوسرا جانور ہرگز تاب و طاقت نہ رکھتا کہ اُن راہوں دشوارگزار سے چل سکتا۔ اونٹ عجیب جانور ہوتا ہے کہ اپنے اوپر تکلیف سہہ کر سوار کو منزل تک پہونچا تا ہے۔ جس جگہ پہاڑوں پر اونٹ تھک جاتے ، اونٹ والے غزلیں عربی گاتے ۔ اکبارگی اُونٹ جوش میں آتے ۔ تیز ہو کر چل نکلتے۔ فی


صفحہ 102
الواقعی غزل سرائی بدووں کی عجیب کیفیت رکھتی۔ میری طبیعت بھی اُس کو سن کر مسرور ہوتی۔ راہ بھر پہاڑوں پر کہیں سبزہ نہ دیکھا۔ مگر ایک آدھ چشمہ نظر آیا کہ بلندی سے نشیب میں بہتا اور درخت کھجور کا بھی اُس کے پاس تھا۔ وہاں بیٹھ کر کھانا کھایا، پانی پیا، بدن دھویا۔ باقی تمام راہ اپنے ساتھ کی مشکوں سے پانی پیتا گیا۔ دیر تک وہاں بیٹھ کر سستائے۔ ٹھنڈی ہوا مزے دار پانی پر للچائے۔ آگے چلنے کو دل نہ چاہتا۔ مگر لاچار قدم آگے رکھا۔ نام اُس کا وادیٔ ایمن (۱) مقام بنی اسرائیل کا تھا ۔ چالیس برس تک گروہ بنی اسرائیل کا اُس میں حیران و پریشان رہا۔ جابجا پہاڑوں پر خطوط عربی، ہندی ، عبرانی لکھے۔ ظاہر ا وہ سب لکھے ہوئے بنی اسرائیل کے تھے۔ ہر چند غوروخوض کیا۔ مگر مضمون اس کا ہم میں سے کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ ایک جگہ تکیہ قبرستان بدویوں کا نظر آیا اور اکڈال پتھر قبروں انگریزوں زمانہ قدیم کا بھی دیکھا۔ درمیان انہیں پہاڑوں کے اونٹ پر نکل صاحب او ر کلن صاحب کی سواری کے بیمار ہوئے اور تھک کر راہ چلنے کے قابل نہ رہے۔ ہم کو سخت حیرانی ہوئی کہ یہاں سے جان کیوں کر بچے گی۔ بدوی اسی جنگل میں دوڑے گئے۔ اپنے بھائیوں کے پاس سے دو اونٹ لائے۔ کلن صاحب اور پرنکل صاحب ان پر سوار ہو کر چلے۔
تیسرے دن چلتے چلتے شام کو کوہِ طور پر پہونچے۔ دور سے پہاڑ نظر آئے۔ ایک باغ نفیس تھا بیچ میں اُن کے۔ دیکھنے اُس کے سے میں بہت خوش ہوا، پھولا نہ سمایا۔ تمام عمر میں دو مرتبہ مجھ کو جتنی خوشی حاصل ہوئی ویسی کبھی خیال میں نہیں آتی ہے۔ ایک دیکھنا زمین جزیرۂ کیپ طراوت آباد کا۔ دوسرے بعد از صحرا نوردی مشاہدہ اس باغِ ارم بنیاد کا۔ اُن دونوں پہاڑوں میں سے جو دہنی طرف تھا۔ کوہ ِ طور نام رکھتا۔ پہاڑ کے اوپر ایک قلعہ بنا ہے۔ بلندی میں آسمان سے باتیں کرتا ہے اگر اتنا بلند نہ ہوتا ، مال اور اسباب اُس کا لُٹ جاتا۔ اس لیے کہ بدوی ہمیشہ مستعد تاراج و یغما رہتے ہیں، قابو پانے پر مال و سباب لوٹ لے جاتے

صفحہ 103
ہیں۔ باغ اور قلعہ میں گریک کے دو سو پادری ترک دنیا کرکے بیٹھے ہیں۔ تما م عمر عورت سے نہیں واقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ حال اُن کا مشہور ہے، معلوم ِ نزدیک د دور ہے مگر حال باطن اُن کے کا خدا جانتا ہے کہ دل مکدّر ہے یا صفائی رکھتا ہے۔ قوم گریک کے رئیس نے قلعہ کے اندر ایک مسجد بنوائی ہے۔ رضامندی بدّویوں کے لیے یہ بات بنائی ہے تا کہ بدوی اُن کو محض کافر نہ گنیں۔ اُن کی طرف سے دل میں محبت رکھیں ۔ اسی واسطے دو سو بدویوں کو ہر روز کھانا کھلاتا ہے۔ عنادو خصومت سے باز رکھتا ہے۔ پھر بھی وہ آمادہ غارت گری رہتے ہیں۔ قابو پانے پر نہیں چوکتے ہیں۔ قلعہ جانے کی راہ ایک دروازہ مستحکم ہے۔ راہ باغ کی بھی اُسی سے توام ہے اور طرف کوئی دروازہ نہیں لگا ہے۔ وہ ایک بھی خوف بدویوں سے ہمیشہ بند رہتا ہے۔ سابق دروازہ پر گھنٹے تھے کہ مسافر جب وہاں پہونچتے گھنٹا ہلاتے۔ لوگ قلعہ کے اُس کی آواز سے خبردار ہو کر مسافر کو اندر لےجاتے۔ بدوی کئی بار اُن کو اُٹھا لے گئے۔ اب انہوں نے لاچار ہو کر دروازہ پر ایک لکڑی رکھی۔ کھڑکھڑانے کے لیے۔ مسافرجب جاتا ہے وہ لکڑی دروازہ پر دے مارتا ہے۔ قلعہ والے جب اُس کی سنتے ہیں، مسافروں کو اندر بلا لیتے ہیں۔ ہم لوگ جب وہاں پہونچے۔ اطلاع کے لیے لکڑی دروازے پر بجانے لگے۔ قلعہ والے دوڑے۔ بلندی پر ایک کھڑکی تھی اُس کے پٹ کھولے، نیچے دیکھا۔ ہمارا حال پوچھا۔ کلن صاحب نے چٹھی سفارش کی اُن کے نام پر لکھوائی تھی، دکھلائی۔ انہوں نے ایک رسّی پیچ لگی ہوئی، نیچے لٹکائی۔ چٹھی پیچ میں رکھوا کر اوپر کھینچ لی۔ بعد اس کے اُسی رسّی پیچ دار کو پھر لٹکایا۔ ہم کو اور اسباب ہمارے کو اوپر کھینچ لیا۔ اندر لے جاکر مہمانی میں مشغول ہوئے۔ دو ایک صاحب نہایت مہربانی فرما کر دو چار کلیسوں میں جو وہاں تھے لے گئے۔ ایک کلیسا قدیمی بہت بڑا تھا۔ اندر اُس کے اسباب چاندی سونے کا رکھا۔ فرش سنگِ مرمر سپید و سیاہ کا مانند خانوں شطرنج کے بنا ہوا۔ جھاڑ چاندی کے چھت اور


صفحہ 104
دیواروں پر لٹکے۔ فریم تصویر اولیا انبیا کے جابجا لگے۔ قدرت خدا کی اس مکان والا شان سے پیدا ۔دوسری طرف ایک اور مکان گنبددار تھا۔ حضرت موسیٰ اسی جگہ روشنی اور تجلیّ خدا کی دیکھ کر سجدہ میں آئے تھے۔ اب تلک وہاں جانے والا کانپتا ہے ہیبت سے۔ اندر اس کے بتیاں اگر کی جلتیں اور ہر طرح کی خوشبوئیں تھیں۔ اُس کے سامنےازراہِ ادب جوتا پہنے کسی کو جانے نہیں دیتے ہیں۔ گریک اور انگریز ہر کوئی برہنہ پا ہو کر زیارت اُس کی کرتے ہیں۔ میں نے ، اور ہمراہیوں میرے نے وہاں جا کر زیارت کی۔ بعد اس کے رہنمائی اُن دونوں صاحبوں سے تہ خانہ کی راہ سے جو ملحق باغ سے تھی، باغ میں آئے۔ اُس کا تماشا اور سیر دیکھتے رہے۔ عجب نادر اور سرسبز تھا کہ نہال خشک قلم مدح نگاری اس کی سے بارور ہوا ؎
دراں باغ مرغاں بجوش آمدہ
ز ہر یک دگرگوں خروش آمدہ
درخت بادام، پشتہ، ناریل، زیتون اور ہر ایک میوہ کے پھلوں سے لدے ہوئے۔ ہر قسم کے پھل او ر میوے وہاں موجود تھے۔ وہ پادری تارک الدنیا جو وہاں رہتے، سوائے کھانے کے وہ میوے کھاتے۔ اسی سیر میں شام ہوئی۔ دل کو خواہشِ طعام ہوئی۔ ازانجا کہ مقیموں پر دعوت مسافروں کی لازم ہے۔ یہی طریقہ ہمیشہ سے قائم ہے۔ ہم ان کو مہمان نوازی پر منتظر رہے۔ زیادہ تر اس سبب سے کہ کوئی جا گہ خریدوفروخت کھانے کی نہ جانتے۔ اتنے میں میز دستر خوان بچھا۔ ستھرے برتنو ں صاف کو اُس پر چُنا۔ دو تین بڑے برتنوں میں چاول تر بتر پلاؤ کی صورت لائے۔ اسی قدر روٹی سیاہ بد ہئیت۔ ترکاری روغن ِ زیتون کی پکی ہوئی۔ قہوہ اور شراب بھی آئی۔ چاولوں کو دیکھ کر بندہ بہت محظوظ ہوا کہ مدّت کے بعد پلاؤ میسّر آیا۔ جب کھانا آ چکا اور ہر ایک برتن میز پر قرینے سے جما ۔ کھانا شروع ہوا۔ چاولوں پر میں نے پہلے ہاتھ ڈالا اور ایک لقمہ کھایا، تیل کا پکا ہوا پایا۔ ایسا تنفّر ہوا کہ پھر کوئی

صفحہ 105
نوالہ اُس کا حلق سے نہ اُترا، مگر ترکاری وغیرہ سے البتہ قدرے قلیل کھایا او ر قہوہ بھی پیا۔ ہیڈ صاحب نے بھی میری طرح عمل کیا۔ مگر پر نکل صاحب نے چند لقمہ روٹی کے کھائے، بعد اس کے خاموش ہو کر بیٹھے۔
کلن صاحب مردخودنما تھے، ہاتھ بڑھا کر ایک برتن کے چاول صاف کر گئے۔ پھر دوسرا برتن اپنے آگے کھینچ لیا۔ اُس میں سے بھی تھوڑا سا کھایا۔ ہم اور سب لوگ مانع ہوئے کہ چاول تیل کے پکے ہرگز ہضم نہ ہوں گے۔ انہوں نے کچھ خیال نہ کیا۔ ازراہ جہالت شکم سیر کھایا اور کہا تم اس کھانے کا مزا نہیں جانتے ہو،
یہ کھانا خوب ہوتا ہے، ناحق منع کرتے ہو۔ میں نے ترکوں کے ساتھ اکثر کھایا۔ اس نے کبھی مجھ کو ضرر نہیں کیا۔ کچھ زبانِ عربی تھی سمجھتے تھے۔ اُن لوگوں کے جواب میں تعال ہیں، تعال ہیں کہتے، لیکن ہم لوگ زبان عربی اور گریک کچھ بھی نہ سمجھتے۔ جب کھانے پینے سے فراغت ہوئی، قہوہ اور چپک کی نوبت آئی ۔ اسی کیفیت میں رات ہوئی۔ کلن صاحب کے پیٹ میں درد اُٹھا، شوروغل مچایا۔ منگوا کر عرق انگور کا ایک پیالہ پیا، تب کچھ افاقہ ہوا۔ مگر ہنوز دردِ خفیف باقی تھا کہ وقتِ فجر ہوا۔ میں نے اُٹھ کر بعد سلام رسم ِ خاص و عام کے ان کے مزاج کا حال پوچھا انہوں نے حال بتایا اور کہا وہ روغن سوائے زیتون کے کچھ اور ہی تھا۔ ورنہ اتنا رنج نہ دیتا۔
دوسرے دن ہم نے پادریوں سے کہا کہ ہم میں سے کوئی زیتون وغیرہ کھانے کی عادت نہیں رکھتا۔ اگر گھی میّسر آئے تو البتہ ہضم ہوئے۔ اُنہوں نے جواب دیا ہم لوگ یہاں ترک ِ لذات کر کے بیٹھے ہیں۔ انہی چیزوں کو کھاتے ہیں۔ میں نے پرنکل صاحب سے کہا۔ قرینہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہم سے کچھ پاویں، راضی ہو کر کھانے نفیس کھلاویں۔ پر نکل صاحب میرے کہنے پر راضی ہوئے۔ ایک کو اُن میں سے پانچ روپے دیے۔ اُس دن دوپہر کو جب میز پر دستر خوان بچھا۔ پستہ ، بادام ، انڈا، روٹی ، چاول اور

صفحہ 106
ہر طرح کا کھانا موجود ہوا۔ میں نے دل میں کہا۔ سبحان اللہ، باوصفیکہ انہوں نے ترک تعلقات کر کے یہاں بیٹھنا اختیار کیا۔ اُس پر بھی دل سے دنیا کی محبت کو نہ چھوڑا۔ تھوڑے روپے دینے سے کیا کیا تکلف کیا اور اقسام اقسام کا کھاناسوائے گوشت کے میز پر لگایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اُن کا اظہار نانِ خشک کا بیجا تھا۔ میوے اور کھانے مرغَن کھاتے۔ نہیں تو ایسے موٹے کیوں کر ہو جاتے کہ سب جنگلی سور کی طرح پھولے تھے لنبے چوڑے نظر آتے۔ دوسری دلیل یہ کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، ایک شخص ایک برتن کندھے پر رکھے آتا۔ پکی مچھلیوں سے بھرا تھا۔ اُن پادریوں کے لیے لایا۔ مخفی جگہ پر بیٹھ کر انہوں نے کھایا۔ تیسرے پہر کو میں نے چھپ کر اُن کے کھانے کا مکان دیکھا۔ ہر ایک طرح طرح کی نعمتیں کھا رہا تھا اور شراب و چپک پیتا۔ اِنہیں دنوں دو انگریز ایک کا نام ڈاکتر ہال رائے صاحب (۱) دوسرا ایندرو صاحب وہاں سیر کے لیے وارد ہوئے۔ دونوں دولت مند اور صاحب ثروت تھے۔ فقط سیر اور تجربہ اور حصول علموں اور صنعتوں کے پھرتے۔ چنانچہ روم ، شام ، عربستان طے کرکے یہاں پہونچے تھے۔ ڈاکٹر ہال رائے صاحب جس ملک کو دیکھتا نقشہ اس کا کھینچتا، ایندرو صاحب حال ہر ملک کا لکھتا دونوں صاحب پوشاک عربی پہنے تھے۔ اس لیے ہم ان کو شیخ عرب سمجھے۔ بعد کلام کرنے کے ثابت ہوا اُن کا انگریز ہونا۔ ایک لڑکا حبشی خدمت کے لیے اور ایک ڈیرہ و خیمہ چھوٹا بوجھ ایک گدہے کا ان کے ہمراہ تھا۔ میں بہت اشتیاق سے اُن کی ملاقات کرنے گیا۔ اُس وقت وہ کھانا کھا رہے تھے۔ دونوں اپنے ہاتھ سے نوالہ اُٹھا کر منھ میں لے جاتے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا چھری کاٹنے سے کھانا کیوں موقوف کیا۔ انہوں نے کہا۔ سفر میں اس قدر بوجھ اُٹھانا اور لباس انگریزی پہننا عقل کے خلاف دیکھا۔ عربی پوشاک پہنی اس ملک میں جہاں ہم جاتے ہیں لوگ اخلاق سے مل کر اچھی جگہ عزت سے بٹھلاتے ہیں۔ وہ ایسے تپاک سے مجھ سے ملے اور کلملات نصائح

صفحہ 107
بیان فرمائے کہ اُن کے پاس سے اٹھنے کو دل نہ چاہتا۔
صاحبان ِ انگریز کیا عقل رسا اور فہم و ذکار رکھتے ہیں کہ باوجود ثروت کے ہمیشہ علم و ہنر کے طالب رہتے ہیں۔ ایک لحظہ اپنی اوقات برباد نہیں کرتے ہیں۔ مستعدِ تلاش امور عجیب کے ہوتے ہیں۔ ایک نئی بات حاصل کر کے اہل جہاں اور واماندوں کے لیے یادگار چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسی ہی باتوں سے ملک ہندوستان وغیرہ اپنے قبضۂ تصرف میں کیا اور کرتے جاتے ہیں۔ وائے بحال رئیسانِ ہندوستان کہ زندگی اپنی بیجا باتوں میں برباد دیتے ہیں۔ کبوتر اور مرغ اور بٹیر اور قماربازی میں مشغول رہتے ہیں۔ دنیا اور مافیہا سے خبر نہیں رکھتے ہیں۔ خوشامدی اُن کے پاس بیٹھ کر تعریفیں فضول کرتے ہیں۔ غرض وہ تحصیل علوم اور فنون سے کامل ہیں۔ آمادۂ امورِ بے حا صل اور لاطائل ہیں۔ اس سبب سے روز بروز مغلوب اور ضعیف ہوتے جاتے ہیں۔ انگریز اپنی مستعدی چالاکی سے اُن پر غالب آتے ہیں۔ سابق انگریزوں کے قبضہ میں سوائے انگلستان کے دوسرا ملک نہ تھا۔ اب انہوں نے اپنی مستعدی سے کتنے ملکوں کو سر کیا۔ شاہ ہندوستان جو کابل و قندھار تک قبضہ رکھتا۔ اب کاہلی اور نامستعدی سے مثل شاہِ شطرنج کے اپنے گھر میں بے دخل ہوا۔ اے قلم تو ارادہ مطلب نگاری کا رکھتا ہے۔ اظہار عیب و ہنر سے ہر ایک کو ناحق دشمن اپنا بنا کر بات بڑھاتا ہے۔
قصہ مختصر دوسرے دن بندہ مع احباب ہمراہ کے اور ایک عرب سقّے کے کو ہ ِ طور پر آیا۔ ایک شخص راہ بتانے والا قلعہ سے ساتھ لیا۔ کوہ طور آٹھ ہزار فٹ بلندی رکھتا۔ اوپر چڑھنے کو ایک زینہ پتھر کا قدیم سے بنا ہوا۔ اُس زینہ سے رستہ آمدورفت کا مشہور ہے کہ وہ ہزار برس کا شاہ گریک کا بنوایا ہے۔ کوہ ِ طور پر ایک حوض نظر آیا۔ کنارے اُس کے ایک درخت سرو کا لگا۔ اگرچہ حوض پانی سے خالی تھا۔ مگر ایسا تروتازہ اور سیدھا درخت سرو کا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگے بڑھ کر ایک غاردیکھا پانی اس کا شربت سا میٹھا۔ میں اُس کو پی کر چپ

صفحہ 108
و راست پھرا۔ پہاڑ عظیم الشان نظر آیا۔ تھوڑا آگے بڑھا۔ نشان پیٹھ حضرت موسیٰ کا پتھر میں پایا۔ تفصیل اُس کی یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت موسیٰ تحریر احکام الہیٰ میں مشغول تھے۔ ناگہاں ایسی چمکاری نور کی چمکی کہ حضرت موسیٰ پیٹھ پہاڑ سے لگا کر حیران ہوئے۔ ازراہ اعجاز پتھر میں نقش پیٹھ آنحضرت کا پڑ گیا۔ یہ وہی پتھر اعجاز نشان تھا۔ حضرت محمد مصطفیٰ کا بھی معجزہ وہاں تھا۔ یعنی اُن کے اونٹ کے سم کا نقش پتھر پر بنا تھا۔ یہ حال سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور عرب سے حال اُن کا مفصل سنا۔ عبادت خانہ گریک او ر اہل ِ اسلام کا اُس پہاڑ پر تھا۔ یہ سیر دیکھ کر اور مقام پر گیا کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسی ٰ سے بہت مبالغہ سے پانی مانگا۔ حضرت موسیٰ نے عصا اپنا پتھر پر مار کر چشمہ پانی کا نکالا۔ اب اُس میں پانی نہ تھا مگر نشان ثابت ہوتا اور ایک جگہ پر نشان سرِگو سالہ پر ستش بنی سرائیل کا تھا۔
جب حضرت موسیٰ نے اُن کو پرستش سے منع کیا اور غصّہ کر کے سمجھایا تب بنی اسرائیل کے سرداروں نے اس گوسالہ کو سر کے بل دے مارا۔ سر اُس کا مع سینگوں کے پتھر میں دھس گیا۔ نشان اُس کا اب تلک باقی رہا۔ عرب نے حال کہا کہ اگر مینھ برسے اتنا کہ پہاڑ ڈوبے تو بھی پانی اُس گڑھے میں نہ آوے۔ یہ بات میں نے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھی۔ پر عربوں کی زبانی سنی۔ ایک اور جگہ تھی وہاں مسلمان بھیڑی بکری کی قربانی کرتے ہیں اور اس قربانی کو سبب برکت اور زیادتی بکریوں کا سمجھتے ہیں۔ آگے بڑھ کر ایک پتھر دیکھا۔ جس پر بیٹھ کر وعظ کہتے تھے حضرت موسیٰ۔ ان سب باتوں کو دیکھ کر بندہ نے اعتماد کیا۔ قدرت الہیٰ سے بعید نہ جانا۔ مگر بعضے انگریز جو کم عقل رکھتے ہیں۔ ان امروں کو محض جھوٹ جان کر کہتے ہیں۔ کیوں کر حضرت موسیٰ سمندر سے پار اُتر گئے ہوں گے۔ اگر بالفرض پانی بھی سوکھا ہو۔ جال درخت مونگے کے کس طرح راہ سے ہٹے ہوں گے۔ اسی طرح سارے حال قصے کہانی جانتے ہیں۔ دل میں یقین نہیں لاتے ہیں۔ مجھ کو اُن کی نادانی پر تا سّف آتا ہے کہ جو شخص

صفحہ 109
تحصیل معاش کے فنون سے خبر نہیں رکھتا ہے، قدرت خدا اور معجزہ انبیا سے کیا جان کر انکار کرتا ہے۔ عمداً گمراہی میں بھٹکتا ہے۔ اُ س واسطے کہ قدرت خدا کی عقل میں نہیں آتی۔ عقل کو کیا طاقت اس کے بھید دریافت کرنے کی۔ حال ان لوگوں کا مانند حال اُس دولت مند کے ہے کہ ایک فقیر لازرس نام نے ساتھ اُمید ٹکڑے روٹی کے اُس کے دروازہ پر رہنا اختیار کیا۔ مرضِ جذام میں گرفتار، سراپافگار تھا۔ وہ دولت مند بخیلی کے سبب سے اُس کو کبھی پارہ ٔ نان نہ دیتا اور اپنی تن پروری خوب طرح کرتا۔ ایک دن فکر بارہ برس کے سامان کی کرتا تھا۔ ایک بارگی قضا آئی مر گیا۔ وہ فقیر بھی خرابی اور مفلسی میں مرا۔ دولت مند دوزخ میں داخل ہوا۔ فقیر حضرت ابراہیم کی گود میں آرام سے بیٹھا۔ دولت مند نے فقیر کو حضرت ابراہیم کی گو د میں بیٹھا دیکھا۔ لجاجت سے کہنے لگا۔ اے نبی اللہ کے مجھ کو اس مصیبت سے چھڑا کر اپنے پاس بلا۔ آنحضرت نے جواب میں فرمایا۔ ہمارے اور تیرے درمیان ایک بڑا غار ہے۔ آنا جانا اس کے سبب سے دشوار ہے۔ تو دنیا میں سائلوں محتاجوں کو اپنے دروازہ سے نکالتا تھا او ر خدا کے دیے ہوئے سے کچھ نہ دیتا تھا۔ اُس کے عوض خدا تعالیٰ نے یہاں تجھ کو اپنی نعمت سے محروم رکھا۔ دولت مند نے پھر عرض کیا۔ میں مستحق اس ظلم و جفا کا ہوں ۔ اب یہ التماس رکھتا ہوں کہ ان مردوں میں سے کسی کو ارشاد ہووے تا کہ میرے بھائیوں زندوں کو خبر میری مصیبت و تکلیف کی پہونچاوے۔ آنحضرت نے فرمایا اگر نہوں نے کتاب خدا اور رسول مقتدیٰ پر اعتماد نہ کیا۔ ایک مردے کی خبر دینے سے کیا فائدہ ہوئے گا۔ اسی طرح اگر کوئی معجزوں انبیا کا نہیں قائل ہوتا ہے۔ عاقبت اپنی خراب کرتا ہے۔ میں نے یہ سب معجزے پیغمبروں کے اپنی آنکھ سے دیکھ کر اس کتاب میں لکھے۔ اگر کوئی اعتبار نہ کرے اپنی بلا سے۔
ہم نے بعد زیارت ایسے مکانوں پاک کے نیت سوئیس میں پھرنے کی کی ۔ اُن پادریوں سے اجازت رخصت چاہی۔ چلتے وقت انہوں نے زادِ رراہ اور قہوہ اور روٹی سیاہ

صفحہ 110
چھوٹی او ر تھوڑی سی شکر دی۔ وہ بھی چھ منزل راہ میں پوری نہ پڑی ۔ اس خیال سے کہ یہ مسافر انعام نہ دے چلے، گھبرائے ہوئے تھے۔ فی الحقیقت ان کو کچھ دینا ضرور نہ تھا۔ اس لیے کہ کئی ہزار روپے کا سالیانہ سر کار شاہ گریک سے اُن کو ملتا۔ چنانچہ ہر ایک صاحب نصاب تھا۔ میووں باغ کا کچھ حساب نہ تھا۔ سوا اس کے فقیروں کو روپے لینے سے کیا غرض و مدعا۔ بخل اور امساک جبلّی سے چلتے وقت ہم کو میووں باغ یا کھانوں نفیس سے سوا روٹی سیاہ اور تھوڑی شکر کے کچھ نہ دیا۔ شاید انہوں نے قول شیخ سعدی کا نہیں سنا کہ ہمارے ساتھ ایسا معاملہ کیا ؎
بزرگاں مسافر بجاں پرورند
کہ نام ِ نکوشاں بعالم برند
اُن کو لازم ہے کہ سب روپیہ اپنا خدا کی راہ پر دے ڈالیں، اگر بھلائی دنیا و آخرت کی چاہیں۔ نہ یہ کہ بخیلوں کی طرح روپے جمع کر کے اُس کی محبت دل میں رکھیں اور مسافروں سے انعام کی خواہش کریں۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا۔ جس چیز کو زیادہ دوست رکھتے ہو بت ہے تمہارا۔ پرستش اُس کی کرتے ہو۔
اس زمانہ میں مسلمان ، ہندو، انگریز وغیرہ سے میں کسی کو نہیں دیکھتا ہوں کہ روپے کا عشق دل میں نہ رکھتا ہو۔ سب لوگ مذہب زرپرستی رکھتے ہیں۔ اپنے طریقے پر نہیں چلتے ہیں۔ زیادہ اس سے کیا ہو گا کہ ان پادریوں نے دنیا اور عزیزوں قریبوں کو چھوڑا۔ جنگل پہاڑ پر رہنا اختیار کیا۔ خدا تعالیٰ سے دھیان لگایا۔ افسوس کہ زرپرستی سے باز نہ آئے۔ ہمیشہ طالب روپیہ کے ہیں۔ جب میں نے دیکھا کہ انہوں نے ہمارے انعام نہ دینے سے چہرہ پر آثارِ ملال ظاہر کیا۔ میں نے پرنکل صاحب سے اشارہ سے کہہ کر انعام اُن کو دلوایا۔ سردار پادری نے روپیوں کو لے لر کپڑے میں مضبوط باندھا اور اپنے مقام پر گیا۔ ظاہر ا اسی امید پر

صفحہ 111
ٹھہرا تھا۔ جب پا گیا رخصت ہوا۔ ہم سب جس طرح قلعہ پر گئے تھے۔ اُسی طرح ہنڈولے میں بیٹھ کر نیچے اُترے اور روانہ منزل مقصود ہوئے۔
بروقت روانگی کلن صاحب اور پرنکل صاحب کے آدمی سے کسی بات پر تکرار ہوئی۔ وہ ہمیشہ اُس کو جان کہہ کر پکارتے۔ اس وقت بھی تعال ہیں، تعال ہیں جان کہتے۔ چاند اُن کو کلم کلم کہتا۔ اسی بحث و تکرار ا میں دو گھڑی کا عرصہ ہوا آخر ہم نے مشکیزے پانی کے اونٹوں پر لا دے اور آپ بھی اونٹوں پر سوار ہوکر سوئیس چلے۔ سب رستہ کو ہستان ہے ۔ تکلیف اور مصیبت بیحد و پایاں ہے۔ ہم کو راہ میں ایسی تکلیف ہوئی کہ نہیں طاقت بیان کی۔ تپش آفتاب کی اس درجہ پر تھی کہ ساری جلد منھ اور بدن کی جلی، رنگت سیاہ ہوئی۔ پر نکل صاحب اور ہیڈ صاحب اوّل مرتبہ لندن سے ہندوستان آتے تھے۔ صعوبتِ سفر سے خبرنہ رکھتے تھے۔ یہ سب تکلیفیں سہتے مگر حرفِ شکایت زبان پر نہ لاتے ۔ خوراک سوا سیاہ روٹی اور شکر کے کچھ نہ تھی۔ سو بھی بخیال کمی اور بہم نہ پہنچنے کسی چیز کے ایک ایک روٹی حصّہ میں آتی ۔ سوئیس کے قریب نوبت آدھی روٹی کی بلکہ اس سے کم کی آئی۔ پرنکل صاحب ہمیشہ دودھ گائے اور بھیڑ کا پیتے تھے ۔ یہاں تک کہ قہوہ بھی بے دودھ نہ پیتے ۔ راہ میں نہ ملنے اُس کے سے سخت حیران ہوئے۔ اگر کہیں گلّے بکریوں بدویوں کے ملتے۔ کلن صاحب خوش طبع تھے، ازراہ خوش طبعی دودھ بکریوں کا پی لیتے ۔ پرنکل صاحب کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑتے۔ بلکہ ازراہ سادہ مزاجی تھن بکریوں کے منھ میں لیتے اور بے تکلف دودھ پیتے۔ بدوی شوروغل مچاتے ۔ مگر وہ کچھ بھی نہ سنتے، پتھر پہاڑوں پر سے ڈھکیلتے۔ ایک مرتبہ قریب تھا کہ اُس کے ساتھ آپ بھی گر پڑتے۔ مگر عنایت الہیٰ سے بچ گئے۔ ایک چھری پاس رکھتے۔ جہاں کہیں ڈیرہ قنات استادہ ہوتی طناب اور میخیں اُس سے کاٹ ڈالتے اور چھوڑ دیتے۔ جابجا تعال ہیں ۔ تعال ہیں کہتے۔ غرض کہ تما م راہ میں یہی حرکتیں کرتے رہے۔ راہ میں ہم نے ایک بکری کو

صفحہ 112
بدویوں سے مول لے کر ذبح کیا۔ گوشت اُس کا کھایا۔ جو باقی رہ گیا۔ شتربانوں عرب کو تقسیم کر دیا، عجب احمق و نادان تھے کہ گوست پوست مع ناخونوں کے بھون کر کھا گئے۔ فقط سینگ بسبب سختی کے اور نہ چنائے جانے دانتوں کے پھینک دیے۔ اونٹ ہماری سواری کے جب منزل پر ہونچے۔ شتربان اُن کو پہاڑ جنگل میں چرنے کو چھوڑ دیتے۔ اُس اطراف میں سوا ایک قسم سوکھی گھاس کے نہیں ہوتی ہے۔ شام تک اونٹ اُس کو چرتے رہتے ۔ جب اندھیرا ہوتا اونٹ والے اپنے اپنے اونٹ کو اُس کا نام لے کر پکارتے ۔ اونٹ اپنے مالکوں پاس بلا تحاشا دوڑ آتے ۔ اونٹ والے قریب سیر بھر کے دانہ اُن کو کھلاتے ۔ پانی تین تین روز تک نہ پلاتے ۔ مگر باوجود اس کمی دانہ کے بارثقیل اپنے اوپر لاد کر منزل تک پہونچاتے ۔ اگر اونٹ اُس طرف نہ ہوتا۔ ریگستان اور کوہستان میں گذرنا دشوار تھا۔ ع:
بے چارہ خارمی خورد و بارمی برد
اونٹ والے عرب شام کو بھوسی سے کوئی چیز نکالتے۔ اُس کو حریرے کی طرح اونٹ کی مینگنیوں میں پکا کر کھاتے ۔ عقل و تمیز سے مطلق بہرہ نہ رکھتے۔ جانوروں کی طرح سب افعال اُن کے تھے۔
ہم چلتے چلتے قریب سوئیس کنارے دریا کے جا پہونچے۔ اُس کشتی پر سقّے پانی بیر موسیٰ سے بھرے لیے آتے تھے، سوار ہوئے۔ کلن صاحب جلدی سے ایسا کود کر ناؤ پر چڑھے کہ پرنکل صاحب اُن کے دھکے سے ناؤ میں گر پڑے۔ کلن صاحب نے شرمندہ ہو کر پرنکل صاحب کو اُٹھا کر بٹھلایا اور عذر کیا اُنہوں نے راضی ہوکر معاف کیا کہ یہ امر اختیاری نہ تھا۔ بلکہ سہواً ہوا۔ اس میں کیا مقام رنجش کا۔
اس مصیبتوں سے بچ کر سولہویں تاریخ مارچ کے دن جمعہ کے دریا کے پار جا کر سوئیس میں پہونچے اور مج صاحب کے مکان پر اُترے۔ انہوں نے فی الفور رسم ِ دعوت کھانے نفیس

صفحہ 113
منگوائے۔ ہم لوگوں کو کھلوائے۔ اس وقت وہ کھانے مزیدار بہشت کے کھانے اور میوے معلوم ہوتے۔ اس لیے کہ بہت دنوں بعد کھانے میں آئے۔ انہیں دنوں میں فابر صاحب مع اپنی بی بی کے اور ارکٹ صاحب گورنر جرنیل کے بیٹے ہندوستان جانے کو مصر سے سوئیس آئے۔ جہاز کی انتظاری میں مقام کر کے خیمے کھڑے کروائے اور کئی صاحب بمبئی سے لندن جاتے تھے۔ وہ بھی یہاں پہونچ کر سستانے کے لیے چند روز رہ گئے۔ سب صاحبوں سے ملاقات ہوئی، ہر ایک نے مجھ سے مہربانی اور عنایت فرمائی۔ الاّ فابر صاحب اور ان کی بی بی اور ارکٹ صاحب سے مجھ سے زیادہ تر موافقت ہوئی۔ اس لیےکہ انہوں نے شفقت بزرگانہ میرے حال پر مبذول کی۔ اتفاقاً لشکر پیدل شاہ مصر کے نے آ کر وہاں کئی دن مقام کیا۔ حبش کی لڑائی کا قصد رکھتا تھا۔ خیمہ اور ڈیرہ لشکر کا مانند فوج انگریزی کے صاف اور خوشنما تھا۔ اچھی جگہ پر استادہ ہوا۔ میں نے اُن لوگوں سے ملاقات کی ۔ ہر ایک کی صورت دردناک اور غم گین تھی۔ حال پوچھا کہ تم لوگوں کو کیا صدمہ ہوا۔ اُنہوں نے کہا۔ ملک حبش بہت گرمی رکھتا ہے ہم میں سے زندہ بچ کر ایک بھی پھرتا نہیں نظرآتا ہے۔ ہر ایک کی ماں بہنیں سوئیس تک پہونچانے آئیں تھیں ۔ گویا لب قبر تک پہونچانے چلیں۔ مجھ کو ان کی جوانی پر رحم آیا کہ افسوس ہر ایک جوان مارا جائے گا۔ برداشت گرمی اور مقابلہ اہل حبش کی کون لائے گا۔ بعد دو تین دن کے جہاز اٹلنٹا سے آیا۔ سبھوں نے پہونچنا اُس کا غنیمت جانا اور فکر روانگی میں ہوئے۔ مگر میرے پاس روپے خرچ کے تھوڑے باقی رہے اور کرایہ جہاز کا سوئیس سے بمبئی تک آٹھ سو روپے تھے۔ ہم متردّد ہو کر اس بات پر مستعد ہوئے کہ عرب کے بگلے پر سوار ہوکر جدّے میں جا کر ٹھہرتا ہے۔ جب ہو ا موافق ہوتی ہے وہاں سے رواں ہوتا ہے۔ اس سبب سے تم کو بمبئی پہونچنے تک پانچ چار مہینے کا

صفحہ 114
عرصہ ہو گا۔ خرچ پاس نہ رہے گا اور زیادہ تر دد ہوگا۔ جب میں جہاز کے مکان دیکھنے جاؤں گا، لو صاحب کپتان جہاز سے تمہاری سعی کر کے کوئی جگہ ٹھہرادوں گا۔ میں نے ان کا کہنا قبول کیا۔ بہتری سمجھ کر راضی ہوا۔ جب پرنکل صاحب اور ہیڈ صاحب جہاز پر مکان دیکھنے گئے، کپتان جہاز سے سفارش کر کے میرے لیے بھی ایک مکان ٹھہرا آئے۔ میں نے ادائے شکر اُن کا کیا۔ بعد اس کے اس درویش سائل کے رہنے کا ٹھکانا چاہا۔ خدا ان صاحبوں کو ترقی مرتبہ پر پہونچاوے۔ میرے حال پر کیا کیا عنایتیں فرماتے ۔ میری خاطر سے اُس کو بھی جہاز پر جگہ دی اور یہ بات کہی کہ تم اور لوگوں کرایہ دینے والوں سے زیادہ آرام پاؤ گے۔ کسی طرح تکلیف نہ اُٹھاؤ گے۔
تیسویں تاریخ مارچ کی بندہ ہمراہ اُن صاحبوں عالیشان کے سوار ہوا۔ ایک کمرہ ٔ ہوادار پر بیٹھ کر خانساماں جہاز کے ساتھ بمبئی چلا۔ کپتان صاحب نے تخفیف کرایہ کے واسطے نام میرا نوکروں میں لکھوایا۔ اس سبب سے کرایہ بمبئی تک کا چالیس روپے پر ٹھہرا۔ میں ہوادار کمرے میں خانساماں کے ساتھ بیٹھا آرام سے جاتا تھا۔ خانساماں فارسی نژاد عدل جُو نام ، سراپا عدل تھا کہ اپنے اوپر تکلیف گوارا کرتا۔ مگر مجھ پر کوئی تکلیف نہ ہونے دیتا۔ ارکٹ صاحب بعد کھانے کے میرے پاس آ کر چپک پیتے ۔ باتیں مصر اور ہر ایک شہر کی کہتے سنتے۔ چلتے چلتے جہاز مخے (۱) میں پہونچا۔ قہوہ وہاں کلکتہ سے آتا ہے اور وہیں سے کویلہ وغیرہ جہاز کے لیے خرید ہوتا ہے۔ اس خیال سے کہ مبادا راہ میں کویلہ خرچ ہو جاوے۔ جہاز دودی جودھویں کے زور سے چلتا ہے روانگی سے باز نہ رہے۔ کپتان صاحب نے جہاز ٹھہرایا اور کویلہ وہاں سے خرید کیا۔ میں نے دور سے مخے کو بہت آباد دیکھا۔ مگر جب وہاں جا پہونچا، گلیوں کو تنگ آدمیوں کو لا بنا، دبلا پتلا پایا۔ ہر ایک بدشکل ، سیا ہ رنگ تھا۔ گرمی کا ایسا زور کہ ٹھہرنا دشوار ہوا۔ قہوہ خانے یہاں کے بُرے تھے۔ مانند قہوہ خانوں مصر کے ستھرے نہ تھے۔ چنانچہ میں
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
عجائبات فرنگ صفحہ 115 آرکائیو صفحہ 121

نے ایک قہوہ خانہ میں قہوہ پیا، پسند نہ آیا۔ سابق یہ شہر عملداری عرب میں تھا۔ اب محمد علی شاہ حاکم مصر نے زور شمشیر سے اس کو قبضہ اپنے میں کیا۔ آدمی شاہ مصر کے چوکی پہرے کو مقرر تھے۔ توپیں پرانی پڑی تھیں۔ قریب دیوار شہر پناہ کے مسلمان اور انگریز حبش کے جو شاہ مصر کے ہاں پکڑے آئے تھے۔ بھوکے پیاسے دھوپ میں بیٹھے پک رہے تھے۔ میں ان کا حال دیکھ کر بےقرار ہوا۔ جہاز پر آیا۔ دیکھا کہ مخے * کویلوں کو جہاز میں بھر رہے ہیں۔ آمد و رفت میں گرد و غبار اڑا رہے ہیں۔ صورت ان کی ہوبہو بندر کی سی الّا ایک فرق کہ دم نہ تھی۔ کپتان نے جب جہاز کولوں سے بھرا، لنگر کھولا۔ جہاز چل نکلا۔ مکلا (1) میں پہونچ کر ٹھہرا۔ میں اتر کر اس شہر میں گیا۔ آدمیوں کو سیاہ رنگ، بدصورت پایا۔ وہاں دو تین ہندو پیشہ ور تھے۔ نہیں معلوم عربوںمیں کیوں کر گذارن کرتے۔ پھر ایک چھوٹی ناؤ پر سوار ہو کر جہاز پر آیا۔ ملاحوں عرب کے لڑکوں نے ناؤ پر مجھ سے کہا کہ اگر ایک پیسا دو ہمارا تماشا دیکھو۔ یعنی غوطہ ماریں جہاز کے نیچے سے نکلیں۔ بندہ نے بموجب خواہش ان کی ایک لڑکے کو ایک پیسا دیا۔ اس نے غوطہ مارا جہاز کے نیچے سے نکل آیا۔ ڈر مچھلی گھڑیال کا نہ کیا۔ میں اس کو دیکھ کر متحیر ہوا کہ یہ لڑکے مچھلی کی طرح تیرتے ہیں۔ آفتوں دریا سے ہر گز نہیں ڈرتے۔
جاتے جاتے جہاز قریب ملک سلون (2) کے پہونچا۔ ہندی میں نام اس کا لنکا۔ سامنے اس کے سمندر میں دونوں طرف سے دو پہاڑ برابر سر نکالے ہیں۔ اس کے مابین سے جہاز کی راہ ہے۔ ہندو ان کو راون کا پل (3) کہتے ہیں۔ رام لچھمن نے اس کو وقت لڑائی راون کے بیچ سے توڑا دیا۔ میں یہ سیر و تماشے جزیروں کے دیکھتا آتا تھا۔ ناگہاں وہ بیمار عیسائی قریب ہلاکت پہونچا۔ علاوہ اس کے دھوپ گرمی سے سخت حیران تھا۔ پرنکل صاحب سے حال غلبہ مرض اور تکلیف دھوپ میں بیٹھنے کی اس کے کی بیان کی۔ انھوں نے کپتان صاحب سے کہہ کر ایک جگہ سایہ دار اس کے رہنے کو ٹھہرا دی۔ وہ طاقت ایک قدم
--------------------------------------------------------------------

عجائبات فرنگ صفحہ 116 آرکائیو صفحہ 122

چلنے کی نہ رکھتا۔ میں نے جہازیوں سے اس کو اٹھا لانے کو کہا۔ میرا کہنا کسی نے نہ سنا۔ آخر ایک گورا ولایتی ثواب جان کر اس کو دھوپ سے چھاؤں میں اتھا لایا۔ از انجا کہ وہ قریب المرگ ہو رہا تھا۔ حال اس کا زیادہ تر بگڑا۔ مجھ سے کہا میرا مذہب عیسوی ہے۔ اس وقت کوئی سرہانے میرے بندگی پڑھے۔ میں نے سبھوں سے کہا کوئی بندگی پڑھنے پر راضی نہ ہوا۔ مگر پرنکل صاحب نے عنایت کر کے سرہانے اس کے بندگی پڑھی۔ بندگی سنتے ہی اس نے قضا کی۔ ہم نے اس کو طریقۂ عیسائی پر کفن پہنا کر دریا میں ڈالا اور ڈوب جانے کے لیے ایک گولہ توپ کا کمر اس کی سے باندھا۔ اس کی بیکسی اور مفلسی دیکھ کر عبرت آئی کہ بےزر کا دنیا میں کوئی نہیں ساتھی۔ بے روپے کے کوئی حاجت نہیں بر آتی۔ حسب حال یہ شعر یاد آیا ؎

اے زر تو خدا نای ولیکن بخدا
سّتارِ عیوب و قاضی الحاجاتی!

بعد اس کے سبزہ پہاڑ اور کنارے دریا کا دیکھتے ہوئے خیر و صلاح سے بمبئی (1) پہونچے۔ وہاں جا کر سب علیٰحدہ مکانوں میں اترے۔ پرنکل صاحب نے ازراہ عنایت فرمایا۔ تم کو مناسب ہے ہمارے مکان پر رہنا۔ میں نے ساتھ رہنا مناسب نہ دیکھا۔ کثرت صحبت کو موجب کمیٔ الفت سمجھا۔ کنارے سمندر کے قریبِ قلعہ ایک مسلمان کا مکان تھا۔ بندہ وہاں اترا۔ صندوق کپڑوں کا اس کے گھر رکھ دیا۔ دن بھر شہر کی سیر کرتا۔ رات کو وہاں سو رہتا۔ بستی بمبئی کی دو جگہ پر تھی۔ ایک اندرون قلعہ دوسری باہر تھی۔ قلعہ مستحکم و استوار ہے۔ پر تکیزوں کا بنایا ہوا۔ قبل ازیں وہ شہر انھیں کے عمل میں تھا۔ ان سے انگریزوں کے قبضہ میں آیا۔ اب صاحبانِ انگریز نے بازار و قلعہ و شہر بہت خوب بنایا۔گرد قلعہ دو کھائیاں گہری بنائی ہیں۔ پنیا سوت تک پہونچائی ہیں۔ دیوار قلعہ کی پختہ ہے۔ اندر اس کے بازار و شہر بستا ہے۔ صبح کو چوک میں اژدہام ہوتا ہے۔ رستہ شہر و بازار کا وسعت رکھتا ہے۔ ہمہ چیز بازار
----------------------------------------------------------------------

عجائبات فرنگ صفحہ 117 آرکائیو صفحہ 123

میں مہیا تھی۔ مچھلی اور انڈے کی زیادتی۔ ایرانیوں اور پارسیوں کے مکان نفیس بنے تھے۔ بلند۔ ایک کلیسا بھی وہاں تھا، فلک پیوند۔ کنارے دریا کے درخت ناریل کے ہرے ہیں۔ سوا ان کے اور درخت سبز لگے ہیں۔ وہ مقام نہایت وسعت و فضا کا ہے۔ عجب لطیف و طراوت فزا ہے۔ شام کو پارسی وہان جا کر اپنے طور عبادت کرتے ہیں۔ انگریز بھی سیر و تماشا دیکھتے جاتے ہیں۔ بندہ بخدا سچ کہتا ہے۔ وہ مقام ہر شام نمونہ روضہ رضوان ہوتا ہے۔ لعل باڑی نام ایک مقام کا ہے کہ نسیم جیو واڑہٹیہ پارسی نے وہاں ایک مکان اور باغ بنوایا ہے۔ عجب جائے عشرت افزا ہے کہ سارا سامان امیرانہ و رئیسانہ اس میں مہیا ہے۔ جھاڑ و فانوس تصویریں امیروں کی اور شبیہیں اور جانور مردے ہر قسم کے مصالح سے بھر کر وہاں رکھی ہیں۔ اکثر امیر شہر کے اس میں جا کر محفل ناچ رنگ کی جما کر عیش و عشرت کرتے ہیں۔ ان سیروں سے فراغت کر کے ماما ہرالی صاحبہ کے روضہ میں گیا۔ سراپا زیب و زینت تھا۔ ایک پتھر سونا اور جواہر جڑا رکھا عجب لطف رکھتا۔ پہاڑ بسبب رطوبت ہوا کے سبز ہو رہے تھے۔ چشم نظارہ طلب کو تازگی بخشی۔ باہر شہر کے ایک پہاڑ ہے۔ پارسی اپنے مردوں کی لاش کو لے جا کر اس پر پھینک آتے ہیں۔ چیل کوے گدھ اس کو کھا جاتے ہیں۔ پارسی لوگ آتش پرست ہوتے ہیں۔ مگر امورات دنیوی میں عقل کامل رکھتے ہیں۔ کرانیوں میں بیشتر نوکر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ صاحبان انگریز ان کو معتمد سمجھتے ہیں۔ جو ان میں زیادہ عزت رکھتے ہیں، جہاز کا کام کرتے ہیں۔ فقیر نے اکثر ان کو صاحبانِ علم و لیاقت پایا۔ لباس ان کا سفید اور بہتر تھا۔ عورتیں ان کی عصمت و عفت رکھتی ہیں۔ بدی پر ہر گز مائل نہیں ہوتی ہیں۔ اندر شہر کے ایک آتش کدہ ہے۔ برسوں سے اس میں آگ جلتی ہے۔ کبھی سرد نہیں ہونے پاتی۔ سب پارسیوں نے متفق ہو کر یہ امر ٹھہرایا ہے کہ ہر روز ایک شخص بموجب حصہ کے صندل کی لکڑی مول لے کر اس میں جلاتا ہے۔ اعتقاد اس کا دل میں رکھتے ہیں۔
-------------------------------------------------------------------

عجائبات فرنگ صفحہ 118 آرکائیو صفحہ 124

خلاف مذہب اپنے کو اس میں جانے نہیں دیتے ہیں۔
اتوار کے دن بائیسویں تاریخ اپریل 1838ء کے ایک چھوٹی کشتی پر سوار ہو کر جزیرۂ الف انٹا (1) میں گیا۔ زبان ہندی میں نام اس کا گورہ پوری اور بمبئی سے چار کوس کا فاصلہ رکھتا۔ ایک پہاڑ دیکھا اس پر ہاتھی کے قد برابر ایک ہاتھی پہاڑ سے تراشا بنا اور ایک بت خانہ نفیس بھی پہاڑ کا تراشا ہوا تھا۔ اسی طرح اور بہت مکان گرے پڑے تھے اور بت بڑے بڑے پہاڑ کے ترشے نظر پڑے۔ عجیب و غریب تھے۔ اب شاہ لندن نے ایک شخص اس کی نگہبانی کے لیے مقرر کیا۔ قرینہ سے ایسا ثابت ہوتا کہ وہ مقامِ پرستش ہندؤوں کا تھا۔ زمانۂ سابق میں خوب طیار و آباد ہو گا۔ بعضوں کے کلام سے ثابت ہوا کہ شاہ اورنگ زیب عالمگیر نے ان بتوں کا توڑ ڈالا۔ بعضوں نے کہا نہیں پرتکیزوں نے اپنی عملداری میں اس بت خانہ کو کھودا۔ راست و دروغ بہ گردنِ راوی۔ میرے نزدیک قول دوسرا قریب صداقت ہے۔ اس واسطے کہ پرتکیزوں کو بت اور بت پرستی سے کمال نفرت ہے۔ یہ سیر و تماشا دیکھ کر شام کو ایک ناؤ پر سوار ہو کر اپنے مقام پر آیا جب تلک میں بمبئی میں رہا۔ شام کو سیر کرتے ہوئے پریٹ کے کنویں تک ضرور جاتا۔ عورتیں ہندوؤں کی جو کنویں سے پانی بھرنے آتیں۔ صورت شکل میں فنتۂ روزگار تھیں۔ زیور اور ریشمی لہنگے پہنے چھم چھم کرتی آتیں۔ دیکھنے والوں کا ہوش اڑا لے جاتیں۔ جتنا حسن و جمال بمبئی میں تھا۔ ہندوستان میں کہیں نہیں نظر آیا۔
تیسویں تاریخ اپریل کی ٹون ہال میں جو قلعہ کے اندر تھا۔ بندہ تماشا دیکھنے گیا۔ دو تین بت پتھر کے ترشے کھڑے تھے۔ ایسے خوب کہ پھر میں نے ویسے کہیں نہ دیکھے۔ کئی سطر عبارت ہندوی کی پتھر پر کُھدی۔ میں نے کیفیت حال بتوں کی استفسار کی۔ لوگوں نے یہ بات کہی۔ ایک انگریز سیاح ہندوستان سے ان کو لایا ہے بطریقِ سوغات لندن لیے جاتا
----------------------------------------------------------------------

عجائبات فرنگ صفحہ 119 آرکائیو صفحہ 125

فی الواقعہ استاد نے ان کو ایسا تراشا کہ ہر ایک قابل تماشا تھا۔
ایک دن پرنکل صاحب نے مالکم صاحب کے مکان پر میری دعوت کر کے بلایا۔ میں بموجب فرمانے ان کے کے مالکم صاحب کے مکان پر گیا۔ کئی صاحب اور بھی موجود تھے۔ مالکم صاحب اور سب مجھ سے با اخلاق پیش آئے۔ عزت سے بٹھلایا، اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔ پھر مالکم صاحب نے پرنکل صاحب کی طرح میرے حال پر عنایت فرمائی۔ ازراہِ اشفاق یہ بات ارشاد کی، جو کچھ تم کو درکار ہو بے تکلف ہم سے ظاہر کرو۔ تاکہ ہم اس کو حاضر کریں، تم سے شرمندہ نہ رہیں۔ میں نے کہا آپ کی عنایت میرے حق میں کافی ہے۔ دل میں کوئی آرزو نہیں باقی ہے کہ آپ سے بیان کروں۔ بعد ان باتوں کے میں نے پرنکل صاحب سے کہا کہ بندہ پرسوں قصد رکھتا ہے یہاں سے روانگی کا۔ یہ کہہہ کر اپنے مقام پر آیا۔
چھبیسویں تاریخ اپریل کی پھر پرنکل صاحب کے پاس رخصت ہونے گیا۔ قصور اپنے ان سے بخشوائے۔ اس وقت وہ آنکھوں میں آنسو بھر لائے۔ میرے بھی آنسو نکل آئے۔ ہم دونوں بے اختیار روئے۔ پرنکل صاحب کے بھائی کلکتہ میں تھے۔ دو تین قطعہ ان کے نام لکھ کر مجھ کو دیے۔ میں رخصت ہو کر گھر آیا۔ راہ خشکی سے کلکتہ کا ارادہ کیا۔ سواری کے لیے گھوڑا تلاش کرنے لگا۔ وہاں گراں قیمت بکتا تھا۔ اس سبب سے نہ لیا۔
ستائیسویں تاریخ اپریل کی ناؤ پر سوار ہو کر آگے چلا۔ اس پر ایسا ہجوم آدمیوں کا تھا کہ جنبش کرنا محال ہوا۔ ہزار خرابی سے نو کوس بعد پنولی (1) میں پہونچ کر اترا۔ وہاں سے ڈھرّہ پہاڑ کا تین کوس تھا۔ دوسرے دن پا پیادہ بارہ کوس راہ چل کر بڑگانوں (2) تک آیا اور مقام کیا۔ تیسرے دن پھر بارہ کوس کی منزل طے کر کے پونا (3) میں داخل ہوا۔ پنولی سے یہاں تک زمین اور پہاڑ سبزہ زار، سڑک وسیع اور صاف ہموار تھی۔ قرینے سے دریافت ہوتا کہ بگھی اس راہ سے آتی جاتی۔ یہ رستہ مانند راہ ولایت لندن کے تھا۔ میں نے پونا پہونچ کر
-------------------------------------------------------------------

عجائبات فرنگ صفحہ 120 آرکائیو صفحہ 126

ایک دن مقام کیا۔ یہ شہر پرانا ہندوؤں کا لبِ دریا ہے۔ ہر ایک مکان ہندوؤں کا رفیع الشان بنا ہے۔ چھاؤنی انگریزوں کی شہر سے باہر دو کوس کے فاصلے پر ہے۔ یہاں میں نے چاہا گھوڑا خرید کرنا مگر قابل سواری کے ہاتھ نہ لگا۔ لاچار وہاں سے پیدل روانہ ہوا۔ سات کوس طے کر کے موضع لونی میں پہونچا۔ بعد پونا کے راہ میں نشیب و فراز تھا۔ دو عورتیں مرہٹوں کی نوجوان گھوڑوں پر سوار ہتھیار باندھے جاتیں۔ عجب عورتیں کہ جرأت و مردانگی میں مردوں سے سبقت لے گئیں۔ لونی سے گیارہ کوس چلا۔ کڑے گاؤں میں آ کر ٹھہرا۔ صبح اٹھ کر بعادت مقرری راہ چلتا تھا۔ وقت دوپہر اور شدت دھوپ کا ہوا۔ ہزار خرابی سے ریت کے جنگل میں قدم اٹھاتا تھا۔ ناگاہ ایک طرف غول آہوؤں کا نظر آیا۔ ایک ان میں سے سیاہ رنگ تھا۔ میں نے چاہا شکار کرنا اس کا۔ اس خیال سے اس کی طرف کو جا کر ایک گولی ماری۔ اس ہرن کے لگی مگر باوجود گولی کھانے اور زخمی ہونے کے بھاگا۔ میں نے یہ سمجھ کر کہ آخر کہیں گر پڑے گا، اس کا پیچھا کیا۔ یہاں تک کہ دوڑتے دوڑتے دور تک گیا۔ کوہستان اور ریگستان میں پہونچ کر تھک گیا۔ ہرن نظر سے غائب ہو گیا۔ دوڑنے اور دھوپ کی گرمی سے ایسا غلبہ پیاس کا ہوا کہ قریب ہلاکت پہونچا بلکہ مرنے میں کچھ باقی نہ رہا تھا۔ مگر صبر کر کے ایک درخت سایہ دار کے تلے لیٹا۔ لیٹنے کے ساتھ ہی بے ہوش ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ہوش آیا۔ پانی کی تلاش میں چلا۔ دور سے ایک تالاب سا دیکھا۔ قریب اس کے جا کر سوکھا پایا۔ مگر جابجا کیچڑ چہللا تھا۔ گڑھوں میں ہاتھ پانوں ڈال کر پانی ڈھونڈنے لگا۔ حسب اتفاق ایک گڑھے میں کیچڑ ملا ہوا پانی تھوڑا سا ملا۔ جلدی سے اس کو منھ میں ڈال کر گدلا پانی پیا۔ میرے نزدیک آب حیات سے بہتر تھا۔ گویا اس کے پینے سے دوبارہ زندہ ہوا۔ بعد اس کے اپنے تئیں اس گڑھے میں گرا کر سارا بدن تر کیا۔ پھر اس درخت کے سایہ میں آ کر لیٹا اور سویا۔ شام کو آگے چلنے کی نیت کی۔ مگر اعضا نے یاراے حرکت نہ دی۔ لاچار وہاں رہ
--------------------------------------------------------------------

عجائبات فرنگ صفحہ 121 آرکائیو صفحہ 127

گیا۔ رات کے کھانے کو دو میناؤں کا شکار کیا۔ آگ پتھر سے نکال کر گوشت ان کا کباب کر کے کھایا اور اسی گڑھے سے پانی پی کر رات کو وہیں سو رہا۔ ہر چند خوف جانوروں، درندہ سے نیند نہ آئی۔ مگر جوں توں کر کے رات بسر کی۔ صبح اٹھ کر راہ راست تلاش کرنے لگا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے راستہ پر آ پہونچا۔ دوپہر کو سپا میں پہونچ کر ٹھہرا۔ دودھ دہی میٹھے کو جی چاہا۔ ہر چند تلاش کیا پر اس اجاڑ گانوں میں ہر گز میسر نہ آیا۔ فقط دال خشکے پر قناعت کی۔ رات وہاں کاتی۔ علی الصباح اٹھ کر چلا۔ راہ میں قافلہ بنجاروں کا دیکھا۔ عورت لڑکے ملا کر قریب دو سو آدمیوں کے تھے۔ اناج شکر گھی اور اور جنس بیلوں اور چھکڑوں پر لادے تھے۔ کئی گائے بکریاں اور کتے ہمراہ رکھتے۔ میں مدت سے جویاے صحبت اس قوم کا تھا۔ ملنا قافلہ کا غنیمت جان کر ان کے ساتھ ہوا اور کہا کہ میں ارادہ رکھتا ہوں تمہارے ساتھ چلنے کا۔ انھوں نے پہلو تہی کی کہ ہم آہستہ آہستہ منزل چلتے ہیں۔ آپ قطع مسافت میں تیز روی رکھتے ہیں۔ اس صورت میں ہمارا تمہارا ساتھ نہ نبھے گا۔ میں ان کی پیروی پر راضی ہو کر ساتھ لگا۔ منزل بہ منزل جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ہڑھے میں پہونچا۔ آخر صحبت برآر نہ ہوئی۔ دیکھنے حرکات بد ان کی تاب نہ آئی۔ تفصیل اس کی یہ کہ وہ بنجارے باوجود یہ کہ ہندو تھے۔ مگر بیلوں چھکڑوں اور گون لدے ہوؤں کو کمال تکلیف دیتے۔ یعنی اگر بیل ساری منزل میں سے کہیں ٹھہر کر چلتے، وہ بے رحم اتنا پیٹتے کہ پیٹھ اور پیٹ بیلوں کے زخمی ہوتے، تو بھی وہ پیٹنے سے باز نہ آتے۔ جب مقام پر پہونچتے تھوڑا سا بھوسا دے کر چرنے کو چھوڑ دیتے۔ ہر گاہ وہ بیل تمام دن محنت بار برداری میں رہیں۔ شام کو دانہ چارہ آدھا پاویں۔ کیوں کر زیادہ بوجھ اٹھاویں اور جنگل میں خاک چریں کہ قدم اٹھانے کی طاقت نہ رکھیں۔ آپ وہ بنجارے چھکڑے یا بیل پر سوار مقام تک پہونچتے۔ کھانے مزیدار مرغن پکا کر کھاتے اور گھی شکر ملا کر ناک تک بھر لیتے۔ رات کو بیبیاں اپنی گود میں لے کر سوتے۔ زندگی کے
-----------------------------------------------------------------

عجائبات فرنگ صفحہ 122 آرکائیو صفحہ 128

مزے اڑاتے۔ اس سے زیادہ کمبختی اور بے رحمی اور کیا ہے کہ بیلوں بےزبانوں باربرداروں کو بھوکا پیاسا رکھتے۔ آپ پیٹ بھر کھا کر جورو کے ساتھ سو رہتے۔ دوسرے دن پھر انھیں پر سوار ہو کر آگے چلتے اور تھوڑے توقف میں بہت سا مارتے۔ میں حال ان کا دیکھ کر سراپا حیرت ہوا۔ اگر ان کے مذہب میں بیل کا گوشت کھانا جائز ہوتا، نہیں معلوم کیا مفسدہ برپا کرتے اور بیلوں کو کس طرح ستاتے۔ گاؤ پرستی ان کے ہاں حکمِ شاستر ہے۔ اس پر یہ حالِ ابتر ہے۔ شاید اگر یہ حکم نہ ہوتا۔ ہر ایک بیلوں کے حق میں قسائی بنتا۔ یہ طرفہ ماجرا ہے اور قصہ نیا ہے کہ آپ ان بےزبانوں پر اتنا ظلم و ستم کرتے ہیں اور انگریزوں اور مسلمانوں کو گاؤ خوری پر طعنہ دیتے ہیں۔ جو کوئی بیل ذبح کرے بہتر اس سے کہ تمام عمر باربرداری اور محنت اور فاقہ کشی میں رکھے۔ انگریز کھانے نفیس بیلوں کو کھلا کر پالتے ہیں۔ بعد اس کے ایک جائے مقرر پر لے جا کر بیچ سے ایک پتھر ان کے سر پر دے مارتے ہیں۔ بیل فی الفور مر جاتا ہے۔ کچھ صدمہ اور رنج نہیں پاتا ہے۔ اس صورت میں کس کا ظلم زیادہ ہوتا ہے اور کس کا قصور بہت پایا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ میں بڑہی پہونچ کر تاب بے رحمی ان کی نہ لایا۔ وہاں سے ساتھ ان کا چھوڑ کر آگے چلا۔
بارہ کوس چل کردہ گاؤں (1) میں آیا۔ وہاں سے نو کوس راہ چل کر اورنگ آباد (2) پہونچا۔ تامس صاحب کپتان رسالے ساتویں کے نے چکس صاحب کو ایک خط لکھا تھا۔ وہ میرے پاس بندھا تھا۔ چکس صاحب اورنگ آباد میں رہتے۔ نظام کی پیدل فوج میں کپتان تھے۔ خیال آیا کہ ان کے پاس جاؤں۔ خط ان کا ان کو پہونچاؤں۔ پھر دل نے کہا اگر تو خط ان کے پاس لے گیا، وہ اپنے مکان پر اتاریں گے۔ تکلیف مہمانداری کی اٹھاویں گے اور اس شہر میں دو تین روز رہنے کا ارادہ تھا۔ اس سبب سے یہ بہتر معلوم ہوا کہ پہلے کہیں اور اتروں۔ بعد اس کے خط ان کے پاس لے جاؤں۔ قریب شہر پناہ کے ایک فقیر کا
------------------------------------------------------------------
عجائبات فرنگ صفحہ 123 آرکائیو صفحہ 129

مکان تھا۔ وہ صاحب کمالوں میں مشہور وہاں تھا۔ میں بھی لباس بدویوں عرب کا پہنے ہوئے تھا اور صورت فقیروں کی رکھتا۔ وہاں جا کر سلام کے بعد کہا میں مسافر اس شہر میں تازہ وارد ہوا ہوں۔ اترنے کی جگہ چاہتا ہوں۔ شاہ صاحب نے جواب دیا کہ کیا مضائقہ اتر رہنے کا۔ اس درخت کے نیچے اتر۔ مگر میں مقدور مہمانی کی نہیں رکھتا ہوں۔ تم آپ اپنے کھانے پینے کی فکر کرو۔ میں غنیمت سمجھا۔ درخت کے نیچے کمل بچھا کر بیٹھا۔ رات بھر وہاں رہا۔ صبح ہی اٹھ کر دولت آباد (1) جانے کا قصد کیا۔ اس واسطے کہ قریب دوت آباد کے مقبرہ شاہ اورنگ زیب عالمگیر اور مزار ولیوں کامل کا تھا (2) اورنگ آباد سے دولت آباد نو کوس کا فاصلہ رکھتا۔ گٹھری کپڑوں کی اور لوٹا تانبے کا شاہ صاحب کے پاس لے جا کر کہا۔ میرا قصد ہے اورنگ آباد جا کر زیارت مزار عالمگیر اور ولیوں کا۔ لہذا امیدوار ہوں کہ ایک دو روز اسباب اپنا امانتاً آپ کے پاس رکھوں۔ انھوں نے کہا ہمارا ہرج کیا۔ لیکن جس دن سے اس حاجی پاجی نے مجھ کو فریب دیا میں نے ہر کسی کی امانت رکھنا موقوف کیا۔ ایسا نہ ہو تم بھی ویسا کرو اور مجھ کو ستاؤ۔ میں نے پوچھا اس حاجی نے آپ کو کیا ایذا دی اور خدمت شریف میں کیا تقصیر کی۔ سابق ازیں ایک حاجی فقیروں کی صورت میں میرے پاس آ کر اترا۔ تمہاری طرح دولت آباد جانے کے وقت اپنا اسباب میرے پاس تفویض کر گیا۔ جب وہاں سے پھرا سب اسباب اپنا لیا۔ پھر اس کافر نے دغا دی۔ اشرفی اور روپیوں کا دعوئے باطل کیا۔ محکمۂ کوتوالی میں نالش کر کے مجھ کو گرفتار کروایا۔ ازانجا کہ جھوٹ کو سچ کے سامنے فروغ نہیں ہوتا، آخر دعوے بے جا سے شرمندہ ہو کر آپ ہی قید ہوا۔ اس سبب سے ڈرتا ہوں کہ مبادا تم بھی وہاں سے پھر کر دعویٰ روپوں کا کرو اور میری عزت پر حرف لاؤ۔ مجھ کو اس کلام سے شبہ ہوا کہ شاید یہ شخص چور ہے بصورت فقیر بنا۔ اس کے امتحان کے لیے کنارہ گیا۔ شیشے کی پچاس گولیوں کو روپے پیسے کی طرح ایک پتھر سے گول اور چپٹا کیا اور ایک روپیہ بازار سے خوردہ کر کے پیسے ان میں
------------------------------------------------------------------------

عجائبات فرنگ صفحہ 124 آرکائیو صفحہ 130

ملائے۔ ایک تھیلی میں رکھ کر منھ اس کے پر لاکھ لگائی۔ اس پر مہر اپنی کر دی۔ اس کو گٹھری میں رکھ کر شاہ صاحب کے پاس لے گیا۔ بطریق امانت اس کے سپرد کر کے رخصت ہوا۔ انھوں نے گٹھری ہاتھ میں رکھ لی۔ گراں وزن سمجھ کر دو چار سواروں کے سامنے جو ساتھ اپنے کے بھنگ پیا کرتے تھے۔ یہ بات کہی۔ تم سب شاہد رہو، اس شخص کی گٹھری میں نہیں روپیہ پیسہ ہے۔ اگر آئندہ دعوے کرے بیجا ہے۔ میں نے کہا سچ یونہی ہے۔ سوا دو چار پیسے کے اس میں کچھ نہیں ہے۔ یہ کہہ کر راہی ہوا دولت آباد جا پہونچا۔ راہ میں کئی سرائیں دیکھیں، شاہ عالمگیر کی بنوائی ہوئیں۔ بسبب بے مرمتی کے ہر ایک جابجا سے ٹوٹی اور خراب پڑیں۔ یقین کہ اورنگ آباد اور دولت آباد زمانہ سابق میں خوب آباد ہوں گے۔ اس لیے کہ اب تک نشان عمارتوں قدیم کا ہے باقی۔ قریب اورنگ آباد شاہ عالمگیر نے ایک مکان عالیشان بنوایا ہے۔ چاروں طرف قطعات مستحکم رکھتا ہے۔ اندر اس کے ایک حوض، مقابل اس کے ایک مسجد فلک توامان ہے۔ رہتے ہیں اس میں قرآن خواں۔ مسافر وہاں جا کر ٹھہرتے ہیں۔ حوض سے پانی لے کر وضو کر کے نماز مسجد میں پڑھتے ہیں۔ میں بھی اس مکان میں گیا۔ سہ پہر تک بیٹھا رہا۔ بعد اس کے ایک ولی کی مزار پر گیا نام اس کا فراموش ہوا۔ مجاور درگاہ کے ساتھ ہوئے۔ تربت تک لے گئے۔ گنبد کے اندر انڈا شتر مرغ کا للٹکتا۔ (1) برابر اس کے چھبّا مقیش کا گلدستہ کی طرح لگا۔ چادریں پھولوں اور کمخواب کی تربت پر بچھیں ایک طرف بتیاں اگر کی جلتیں۔ میں نے اندر جا کر فاتحہ پڑھا اور تھوڑی دیر ٹھہرا۔ تین روپے کی مٹھائی مول لے کر فاتحہ دے کر مجاوروں کو تقسیم کر دی۔ بعد اس کے کچھ خیرات بھی ان کو دی۔ انھوں نے تھوڑے پھول اور ٹکڑا چادر تربت کا پھاڑ کر مجھ کو تبرک دیا۔ میں اس کو لے کر باہر آیا۔ ہر چند ارادہ یہ تھا کہ سب ولیوں کی قبروں پر جا کر فاتحہ پڑھتا مگر سوال اور تقاضاے مجاوروں سے تنگ آیا اور خوفِ صرفِ زائد سے باز رہا۔فقط اورنگ زیب کے مقبرہ پر گیا۔ (2) گرد قبر کے کٹھرا
----------------------------------------------------------------------
 

الشفاء

لائبریرین
کتاب کا صفحہ نمبر 145 سے صفحہ نمبر 154 تک
--------------------------------------

صفحہ 145
-------
میرے پیشہ اور مقام سکونت سے کیا کام، اس سے کیا غرض و انجام۔ وہ موذی تقریر بیجا سے باز نہ آئے۔ بلکہ تھوڑی دیر بعد کہنے لگے۔ ہمارے ساتھ چلو تم کو کوتوال نے بلایا ہے۔ میں نے ان کا کلام پوچ و لچر سمجھ کر یہ کہا۔ اگر کوتوال کو تحقیقات منظور ہوئے۔ میرے پاس آ کر حال پوچھ جائے۔ میں اُس کے پاس ہر گز نہ جاؤں گا۔ اپنے عیش میں خلل نہ لاؤں گا۔ میں نے کسی کی چوری نہیں کی اور تھیلی نہیں کاٹی کہ کوتوال نے مجھ پر طلبی بھیجی۔ شام تک اُسی کیفیت میں رہا، رات کو کھانا کھا کر سویا۔ صبح ہی گھوڑے پر سوار ہو کر آگے چلا۔ انھیں پیادوں نے آ کر روکا کہ کوتوال کا حکم نہیں تمہارے جانے کا۔ میں نے کچھ نہ سنا۔ اپنا رستہ لیا۔ دو کوس تک پیادے ساتھ آئے۔ بعد اس کے پھر گئے۔ ظاہراً معلوم ہوا کہ کوتوال جھبل پور کا مسافروں کو تہمت دزدی سے گرفتار کرتا تھا اور اُن سے دھمکا کا رشوت لیتا تھا۔ مگر مجھ سے اُس کو کچھ وصول نہ ہوا۔ جھبل پور اگرچہ بہت وسعت نہیں رکھتا ہے مگر آباد اچھا ہے۔ کسی انگریز نے اُس کا چوک بنوایا ہے۔ بہت نادر نقشہ اُس کا ہے۔ چوطرفہ دیوار ہے اندر اس کے دوکانیں اور بازار ہے۔ ہر قسم کی چیز اُس میں رکھی ہے۔ شام کو آدمیوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ جھبل پور سے آگے راستہ ہموار ہے، دو طرفہ درخت آنبہ کے سایہ دار۔ مسافر سایہ میں راہ چلے۔ جہاں چاہے آنب کھائے اور ٹھہرے۔ اُس سال درختوں میں آنبہ لدے تھے۔ مسافر راہ چلتے آنبہ کھاتے جاتے۔ یہاں پہاڑ سیاہ بہت نظر آئے۔
میں جھبل پور سے چلا۔ نو کوس کے بعد سہوڑا میں پہنچا۔ پھر نو کوس چل کر دنیڑی آیا۔ وہاں سے آٹھ کوس چلا، سہا گنج میں گیا۔ وہاں سے دس کوس آگے بڑھا۔ مہیر (1)میں پہنچا۔ مہیر موضع آباداں ہے، ایک راجہ ہندو حاکم ہے وہاں۔ اُس نے ایک چھوٹا سا قلعہ پختہ مضبوط بنوایا ہے ہزاروں طوطوں نے اُس کی دیوار کے رندوں میں آشیانہ بنایا ہے۔ گرد قلعہ کے خندق گہری پانی سے بھری ہے۔ آدمی اُس موضع کے نادان، بدقطع اور احمق ہیں گویا

صفحہ 146

-------
حیوان مطلق ہیں۔ ایک شب بندہ وہاں رہا۔ صبح ہی پانچ کوس بڑھ کر امریٹن میں آیا۔ یہاں بھی عمل ایک راجہ کا۔ انتظام ملک خاک نہ تھا۔ عملداری راجاؤں کی۔ انھیں راہوں میں مسافر اکثر مارے جاتے ہیں۔ راہزن اسباب راہیوں کا لوٹ لے جاتے ہیں۔ کوئی شنوائی نہیں کرتا ہے کہ یہ کیا ظلم و فساد ہوتا ہے۔ امریٹن پہنچ کر ایک درخت کے نیچے سو رہا۔ آدھی رات کو بیدار ہوا۔ ایسی چاندنی کھلی تھی کہ رات دن معلوم ہوا۔ آدمی کو آواز دے کر جگایا۔ میں نے اُس نے دونوں نے جانا کہ تڑکا ہوا۔ وہاں سے اُسی وقت چل کھڑا ہوا۔ جب دو کوس نکل آیا دو آدمی جنگلی لٹیرے ملے۔ ایک ایک لاٹھی لوہا لگی ہوئی، کندھوں پر رکھے۔ آواز دی کہ اے مسافر گھوڑا اور اسباب اپنا ہم کو دے۔ سیدھی طرح گھر کی راہ لے نہیں تو ہم تجھ کو مار ڈالیں گے۔ گھوڑا اور سب اسباب لے لیویں گے۔ میرے پاس چمقماق بھری ہوئی اور سب ہتھیار تھے دل میں ہراس نہ لایا اُن کی اس گفتار سے بلکہ یوں جواب دیا۔ تم اپنی راہ جاؤ، میرے نزدیک مت آؤ۔ ورنہ ایک کو گولی سے ماروں گا۔ دوسرے کا تلوار سے کام تمام کر دوں گا۔ انھوں نے یہ سن کر دو کوس تک پیچھا کیا۔ میں بھی اُن کے مقابلہ سے غافل نہ ہوا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ہ شخص ہوشیار ہے ۔ اسباب اس کا لینا دشوار ہے، آپس میں کچھ صلاح کی اور اپنی راہ لی۔ میں درگاہ الٰہی میں شکر بجا لا کر آگے بڑھا، لیکن ابھی تک صبح صادق کا پتا نہ تھا۔ تب یہ بات ثابت ہوئی کہ چلتے وقت رات بہت باقی تھی۔ تھوڑی دور آگے چلا۔ دیکھا کہ ایک مہاجن راہ میں بیٹھا مع متعلقوں کے رو رہا ہے۔ میں پوچھا حال کیا ہے۔ اُس نے کہا میں ناگپور جاتا تھا۔ جب یہاں آ کر پہنچا دو ڈکیت آئے۔ اسباب میرا لوٹ لے گئے اور لاٹھی لوہے کی لگی ہوئی سے مجھ کو زخمی کیا۔ اب مجھے کچھ نہیں بن پڑتا، اگرچہ خرچ پاس ہوتا تو گھر پھر جاتا یا منزل مقصود تک پہنچتا۔ سخت حیران ہوں۔ الٰہی کیا کروں میں اس کا حال دیکھ بہت کُڑھا مگر کچھ نہ بن آیا۔ لاچار اپن رستہ لیا۔

صفحہ 147
-------
دس کوس چل کر نریمان میں آیا۔ سنا کہ ایک سوار سپاہی پیشہ پچاس سواروں کے ساتھ بڑے ٹھاٹ سے گوالیر(1) سے نوکری چھوڑ کر یہاں آیا ہے۔ ارادہ نوکری راجہ کا رکھتا ہے۔ میں نہایت مشتاق دیکھنے اس کے کا ہوا۔ جا کر اُس کو اور اُس کے ہمراہیوں کو دیکھا۔ فی الواقع جوان وجیہ اور دیدارو تھا۔چنانچہ وہاں کے راجہ نے اُس کو پان سو روپے درماہے کا نوکر رکھا اور ہمراہیوں اس کے کا بھی درماہہ حسب لیاقت مقرر کیا۔ بعد اس کے قلعہ اور شہر کی سیر دیکھنے گیا۔ رستہ بازار کا تنگ تھا۔ مکان راجہ کا نہ نسبت اور مکانوں کے اچھا بنا۔ اگرچہ قابل تعریف نہ تھا۔ گرد قلعہ اور شہر کے خندق کی طرح چاروں طرف دریا ہے۔ پانی اُس میں پتھر اور پہاڑ سے آتا ہے۔ عجب کیفیت دیتا ہے۔ جب یہ سیروتماشا دیکھ چکا۔ سات کوس رہ نوردی کر کے منکونا میں آیا بسبب گرمی اور نہ برسنے مینھ کے کنویں سوکھے تھے۔ حالات تشنگی شہدائے کربلا کے یاد آئے۔ چھ کوس کے بعد مئو (2)میں پہنچا۔ اس ویرانے گاؤں میں بھی پانی کا یہی حال تھا۔ وہاں سے سات کوس چلا، بن منا (3)میں آیا۔ بعد اس کے درمن گنج(4) میں پہنچا۔ چار کوس کا مفاصلہ تھا۔ ذرمنس صاحب نام کسو انگریز کا ہے، اُس نے یہ گنج ڈالا ہے، اس سبب سے نام اُس کا درمن گنج مشہور ہوا۔ یہاں سے عمل انگریزی تھا۔ پہاڑ سے رستہ چلتا ہے۔ ڈیڑھ کوس تک نشیب و فراز رکھتا ہے۔ جو کوئی اسباب اُس راہ سے لے جاتا ہے۔ وہاں کے پرمٹ میں محصول دینا پڑتا ہے۔ سابقاً ہندوستانی لوگ مقرر تھے۔ محصول ہر شے کا لے کر جمع کرتے۔ آخر انھوں نے تغلّب تصرف کیا۔ انگریزوں نے یہ عہدہ اُن سے نکال کر ایک سارجن کو بجائے اُن کے مقرر کیا۔ وہ لیاقت نوشت و خواند کی نہ رکھتا۔ فقط بسبب امانت داری کے معتمد علیہ سرکار کا ہوا۔ ہندوستانی عجب عقل ناقص رکھتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ اگر چوری نہ کرتے کیوں اس عہدہ سے موقوف ہوتے۔ وہ پہاڑ رفیع الشان تھا۔ نشیب و فراز بیحد و پایاں رکھتا۔ آدمی بمشکل اس

صفحہ 148
-------
راہ سے جاتا۔ بگھی یا گاڈی کا ہر گز گزر نہ ہو سکتا۔ صاحبان انگریز نے جا بجا سے پہاڑ کاٹ کر رستہ برابر اور ہموار کیا۔ بلکہ اب بھی درست کرتے جاتے ہیں۔ اس سبب سے اب بگھی چھکڑے بھی اُس راہ سے جا سکتے ہیں۔ میں جب وہاں پہنچا۔ لوگوں نے آگے بڑھنے سے منع کیا کہ یہاں ایک شیر لاگو رہتا ہے۔ ہر روز ایک آدمی مارتا ہے۔ تم یہاں ٹھہرو آگے مت بڑھو۔ جب سو پچاس آدمیوں کا جماؤ ہو آگے جانے کا قصد کرو۔ پہلے میں نے اُن کا کہنا خیال نہ کیا کہ میرے پاس بندوق بھری ہے۔ اگر شیر سامنے آوے گا ماروں گا۔ سوا اس کے میں خوفناک مقاموں پر گیا۔ افضال الٰہی سے ہمیشہ محفوظ رہا۔ یہاں بھی صدمہ سے بچوں گا۔ مگر پھر قول سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا یاد آیا۔
گرچہ کس بے اجل نخواہد مرد
تو مرو در وہاں اژدہا​
اس وجہ سے ٹھہر گیا۔ جب بہت لوگ جمع ہوئے، سب مل کر غُل کرتے ہوئے اُس پہاڑ ناہموار سے نیچے آئے۔ میں بھی اُن کے ساتھ آیا۔ چڑھاؤ اُتار سے تھک گیا۔ ایک درخت سایہ دار کے نیچے اُتر رہا۔ آدھی رات کو باران رحمت برسا۔ میں نے کمبل اوڑھ لیا اور وہیں رات بھر بسر کی۔ صبح ہی اٹھ کر قصد چلنے کا کیا۔ اپنے زانو کے نیچے دو بچھوؤں سیاہ کو بیٹھے پایا۔ فضل الٰہی شامل حال تھا کہ انھوں نے ڈنک نہیں مارا۔ میں چمٹے سے اُٹھا کر گھاس میں ڈالا پر جان سے ان کو نہ مارا۔ اگرچہ یہ امر خلاف عقل تھا۔ مگر اُس وقت بمقتضائے وحدانیت یہی بہتر معلوم ہوا۔ وہاں سے چستی چالاکی سے سات کوس طے کر کے لال گنج(1) کی سرا میں پہنچا۔ کئی منزل سے ایک صوبہ دار کسی راجہ کا نوکر مع رفیقوں اپنے کے ہمراہ ہمارے تھا۔ اسی طرح ایک کہار بھی دور سے ہمراہ ہمارے آتا۔ میرزا پور کا رہنے والا تھا۔ بہت دنوں کے بعد روپے اشرفی جمع کر کے اور کپڑے نفیس اپنی جورو کے لیے بنوا کر نوکری

صفحہ 149
-------
پر سے گھر اپنے آتا تھا۔ کم بختی نصیبہ سے یہ سمجھ کر کہ گھر قریب آ پہنچا۔ لال گنج کی منزل میں ہم سے جدا ہو کر شراب نوشی میں مشغول ہوا۔ ہم لوگ سرائے لال گنج ووہیں پہنچے تھے کہ کہار بھی آیا، زخمی روتے پیٹتے۔ میں حال پوچھا۔ کہا کیا کہوں، غضب ہوا۔ میرے سارے روپے اور اشرفیاں دو تین چوروں نے زبردستی چھین لیں اور مجھ کو کر کے ننگا نکال دیا۔ میں نے کہا تو نے ازراہ بے عقلی و احمقی ہمارا ساتھ چھوڑا۔ جو اس مصیبت و تکلیف میں گرفتار ہوا۔ میں بسبب ماندگی راہ کے لاچار ہوا۔ نہیں تو ضرور ان رہزنوں کا پتا لگاتا۔
دل میں خیال آیا کہ عمل انگریزی میں بھی باوجود اس قدر انتظام کے ظلم صریح ہوتا ہے پس اور حاکموں ہندوستان کو بسبب بے انتظامی کے الزام دینا بیجا ہے اگر انگریز مثل اورنگ زیب عالمگیر کے رہزنوں کو جان سے ماریں تو البتہ اُس پیشہ والے رہزنی سے باز آئیں۔ فقط تہدید زبانی سے کام نہیں نکلتا ہے، انتظام قرار واقعی نہیں ہوتا ہے۔
الغرض صبح ہی وہاں سے سات کوس چلا۔ میرزا پور (1) آ کر ایک سرا میں اُترا۔ عجب سرا کہ مکان اُس کے معدن حرارت، بھٹیاریاں ڈائنوں کی صورت میلے کپڑے پہنے۔ سیکڑوں چیلڑ اُس میں بھرے۔ صفائی ستھرائی کی یہ حالت تھی کہ رینٹ ہونٹوں تک لٹکتی۔ کوئی اپنے سر کے بال کھجلاتی، کوئی اپنے چوتڑوں پر ہاتھ دوڑاتی۔ مسافر اپنی شامت اعمال سے اگر وہاں آ نکلا۔ عذاب دوزخ میں گرفتار ہوا۔ یعنی ہر ایک اپنی طرف بلاتی ہے۔ ایک مکان تاریک و تنگ میں اُتارتی ہے ۔ وہاں مچھر ہجوم لاتے ہیں۔ ہڈی چمڑا زخمی کر ڈالتے ہیں۔ میں بھی اس سرا میں اُترا۔ ایک تو گرمی مکان اور تکلیف مچھروں سے حیران تھا، دوسرے لید اور گوبر کی بو دماغ کو پریشان کرتی۔ طرفہ اُس پر یہ کہ ہر ایک بھٹیاری آدھی رات تک آپس میں لڑی۔ ان وجہوں سے نیند آنکھ میں حرام ہوئی۔ یہاں کی تکلیف سے لندن کی سرا یاد آئی کہ وہاں کیا کیا آسائش تھی۔ مسافر جب وہاں پہنچتا ہے، ایک شخص سپید پوش دروازے تک

صفحہ 150
-------
آتا ہے۔ بڑی عزت اور تکلف سے دو منزلے مکان بلند میں لے جاتا ہے۔ شیشہ آلات درودیوار میں لگے۔ کوچ مخملی بچھونوں کی ہر چہار طرف بچھے۔ ہوا کھڑکیوں کی راہ سے جو آتی ہے، مانند نسیم بہشت روح میں قوت دیتی ہے۔ مکھی یا مچھر کا ہر گز اُس میں نام و نشان نہیں۔ نیچے کے مکان میں میزوں پر ہر طرح کے کھانے چنے ہوئے بصد تزئین۔ مسافر کو جس کھانے کی تمنا ہے، میز پر مہیا ہے۔ جب کھانے کی نوبت آئے، ایک پری زاد سامنے بیٹھ کر بین بجائے۔ بعد فراغت کے شراب وین خوشبودار اور میوے ہر قسم کے مزیدار لا کر کھلاتی ہے۔ صبح کے وقت ایک رنڈی نہایت حسین سرہانے آ کر ملائم آواز سے آہست آہست جگاتی ہے اور آواز "امروز روز خوش" کی مسافر کے کان میں سناتی ہے۔ سوا اُس کے اور پریاں پوشاک نفیس پہنے سامنے آتی ہیں۔ تراش خراش میں ایک نرالے انداز دکھاتی ہیں۔ علاوہ اس سے کوچ گاڈی فرش مخملی وغیرہ کی سواری کے لیے ہر جگہ ملتی ہے۔ ایک دن میں سو کوس کی منزل پر بے رنج و تکلیف پہنچا سکتی ہے۔ مسافر سفر میں ایسی آسائش پاتا ہے کہ گھر بھول جاتا ہے۔ اس سراؤں کو اگر بہشت کہوں تو بجا ہے اور اگر باغ ارم سے تشبیہ دوں روا ہے۔ انگریز لوگ اگر ہندوستان کے مکانوں اور سراؤں کو ناپسند کریں، ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ لندن کے مکانوں یا سراؤں سے یہاں کا کوئی مکان اور سرا نسبت نہیں رکھتا ہے۔ ع:
چہ نسبت خاک را با عالم پاک​
اُس نواح میں چار کوس کے بعد ہر چیز ملتی ہے۔ بلکہ جا بجا بستی ہے۔ یہاں اگر مسافر سارا دن چل کر بہ ہزار خرابی سرا میں پہنچے۔ عذاب دوزخ اور سخت بلا میں مبتلا ہوئے۔ بھلا انگریزوں کو یہ سرا کیوں کر بھاوے۔ جب ہم ہی لوگوں کو پسند نہ آوے۔
قصہ مختصر بندہ ایک دن سیر و تماشے کے لیے وہاں رہا۔ بازار اور دریا کی سیر کو گیا۔ ایک جگہ ایک فقیر فربہ لحیم و جسیم ہندو مذہب بیٹھا تھا۔ سر سے پاؤں تک ننگا۔ عورتیں ہندوؤں اور

صفحہ 151
-------
مہاجنوں کی اس کے عضو تناسل کو پوج رہی تھیں۔ اپنے نزدیک گویا عبادت کرتی تھیں۔ کوئی بہت ذوق و شوق سے اُس کو ہاتھ میں لے کر چومتی۔ کوئی چاول اور پھول اُس پر چھڑکتی۔ وہ فقیر ننگا عجب صاحب نصیب تھا کہ اندر کے اکھاڑے میں بے پروائی سے بیٹھا، نطارہ جمال پری زادوں کا کرتا۔ ایک نے اپن پریوں میں سے گاڑھے دودھ میں قند کا چورہ ملایا۔ بہت خوشامد و لجاجت سے اُس بے حیا کو پلایا۔ مجھ کو یہ ماجرا دیکھ کے بے اختیار غصہ آیا۔ یہی جی چاہا کہ اس مردک بے شرم کو ایک لاٹھی ماروں اور رنڈیوں کو اُس کے پاس سے ہٹا دوں۔ پھر جو غور کیا یہ امر مناسب نہ سمجھا، ناچار صبر کیا۔ اس واسطے کہ وہ رنڈیاں بہت حسن اعتقاد سے لنگ پوجتی تھیں۔ صورت تہدید میں اُس نابکار کو رنج ہوتا اور وہ بھی آزردہ ہوتیں۔ مزاحمت کرنا مناسب نہ دیکھا۔ بلکہ دل میں خیال آیا کہ میں بھی سپہ گری اور دوا دوش ملکوں کی چھوڑوں، ننگا ہو کر اپنے تئیں مہا پرش بناؤں اور ان رنڈیوں حسینوں سے اپنا لنگ پجواؤں، زندگی کا مزہ اور لطف پاؤں۔ نوکری میں اذیت ہے پر اس فقیری میں عجب کیفیت ہے۔ پریاں اطاعت میں حاضر رہتی ہیں۔ دودھ اور موہن بھوگ لا کر کھلاتی ہیں۔ بھلا یہ مزہ نوکری میں کہاں۔ اس سے اُس سے تفاوت زمین و آسمان۔ ہندو عجب بے تمیز ہوتے ہیں کہ اپنی جوروؤں کو برہنہ مکار فقیروں پاس بھیج کر لنگ پجواتے ہیں۔ چاہیے تھا اُن کو اس امر بیجا سے روکنا سو برعکس بخوشی اجازت دیتے ہیں۔ ننگے آدمی سے مرد آنکھ بچا جاتے ہیں۔ حیف ہے کہ اس کے پاس رنڈیاں جا کر لنگ پوجیں۔ یہ کیا لچر حرکت ہے اور کیسی رسم ابتر ہے۔(1) خیر بندہ یہ حال دیکھ کر سرا میں آیا۔ لوگوں سے یہ قصہ نقل کیا۔ ایک بھٹیاری نے کہا۔ تم نے ابھی کیا دیکھا۔ یہ تو ذرا سی بات ہے۔ اگر فلانے گھاٹ پر چھپ کر جاؤ دیکھو ان کی کیا کیا حرکات ہے۔ میں نہایت مشتاق ہوا۔ رات کو اس گھاٹ پر جا کر مخفی بیٹھا۔ ڈیڑھ پہر رات گئے دو تین جوگی مسنڈے نوجوان مٹھائی ہاتھ میں لیے آئے اور دو تین حسین رنڈیاں

صفحہ 152
-------
مہاجنوں کی بیویاں ساتھ لائے۔ ایک دونگی پر سوار ہو کر دریا کے پار گئے۔ ایک باغ میں نفیس بچھونا بچھا کر چین سے بیٹھے۔ بندہ بھی چالاکی کر کے ایک چھوٹی ناؤ پر سوار ہو کر پار اُترا۔ کرائے اُس کے کا ایک روپیہ دیا۔ اُن کی آنکھ سے چھپ کر ایک کنارے بیٹھ رہا۔ انھوں نے مجھ کو نہ دیکھا۔ پہلے سبھوں نے مٹھائی مل کر کھائی۔ بعد اس کے اُن میں اور رنڈیوں میں بات چیت کی نوبت آئی۔ یہاں تک ہنگامہ عیش و نشاط گرم ہوا کہ جوگیوں نے اُن سے مساس کیا۔ آخر طرفین سے قوائے شہوانی جوش میں آئے۔ جوگیوں نے ساق بلوریں اُن پریوں کی ہاتھ میں لے کر کمر سے کمریں ملائیں۔ کیفیتیں صحبت کی اُٹھائیں۔ جام وصال اُن کے سے بادہ نوش ہوئے۔ ساری فقیری اور جوگ بھولے۔ جب فراغت کر چکے اس پار آئے۔ رنڈیاں اپنے اپنے گھر گئیں۔ جوگیوں نے ایک درخت کے نیچے آسن مارے اور مونگے کا مالا ہاتھ میں لے کر رام رام جپنے لگے۔ یہ ماجرا دیکھ اول دل میں آیا کہ ضرور ہی ان حرام زادیوں کے حال سے ان کے وارثوں کو خبر کرنا چاہیے۔ پھر یہ سمجھا کہ اگر یہ حال جا کر اُن سے کہوں ۔ وہ بے عقل ہیں۔ شاید برخلاف مذہب باعث خصومت جان کر آمادہ مقابلہ ہوں۔ ناحق بات بڑھے، حاکم تک پہنچے۔ بہرحال اس مقدمہ میں سکوت کرنا بہتر معلوم ہوا۔ سرا میں آیا۔ ہندو عجب عقل ناقص رکھتے ہیں کہ ننگ و ناموس کا کچھ خیال نہیں کرتے ہیں۔ یعنی ازراہ حماقت جوگیوں طویل القامت بدمستوں کو صاحب کمال جانتے ہیں، بے تکلف اپنی جوروؤں کو ان کے پاس بھیج کر خراب کرواتے ہیں۔
قصہ مختصر بندہ سرائے میرزا پور سے گھوڑے پر سوار ہو کر آگے چلا۔ سولہ کوس منزل طے کر کے بنارس پہنچا۔ یہ شہر میرا دیکھا ہوا تھا۔ پر اس بار بھی خوب پھرا اور سیر دیکھتا رہا۔ رستہ بازار کا مانند شہروں ہند کے تنگ تھا۔ الّا خوب آباد ہے اور اسباب سب قسم کا ملتا۔ قصائی جو بکری کا گوشت بیچتے تھے ایک سڑی دوکان مثل بیت الخلا پر بیٹھے تھے۔ میلے کچیلے کپڑے

صفحہ 153
-------
پہنے۔ گوشت کو ایک کثیف چیتھڑے پر رکھے ہوئے۔ اوپر سے ایک اور میلا کپڑا اوڑھائے، خریداروں کو اُس کے دیکھنے سے نفرت آئی۔ بیچتے وقت ہزاروں مکھیاں گرتیں۔ بہتیری اُس میں حل ہوتیں۔ ہندوستان میں یہ شہر عمدہ مشہور ہے۔ جب اُس کا یہ دستور ہے اور قصبات و دیہات کا کیا مذکور ہے۔ برخلاف انگلستان کے کہ وہاں قصائی پوشاک سپید و نفیس پہنے، دوکان رشک گلستان پر نفاست سے بیٹھے ہیں۔ ٹکڑے گوشت فربہ کے مانند دستوں پھول کے برابر لٹکا کر بیچتے ہیں۔ ایک طرف پارچے اور بھیڑ مسلّم لٹکی۔ دوسری طرف چٹھی قیمت ہر ایک کی لکھی ہے۔ جو خریدار آتا ہے ۔ بے تکلف چٹھی کے موافق قیمت دے کر ٹکڑا گوشت کا لے جائے۔ اسی طرح مچھلی اور مرغی بیچنے والوں کا حال ہے۔ وہاں کے سب دوکانداروں کی یہی چال ہے۔ دوکانوں کو سیسر سے بلند کیا۔ صفائی سے اُن پر جوبن تھا۔ افسوس کہ ہندوستانی اپنے اپنے فنون میں کاہل ہیں۔ صفائی ستھرائی ہر چیز کی سے غافل ہیں۔ بنارس میں کنارے گنگا کے ایک مکان عالیشان بنا ہے۔ سابق وہ بت خانہ تھا عالمگیر نے اپنے عہد میں اس کو کھدوا کر بطور مسجد بنوایا ہے۔(1) اب وہ تماشا گاہ خلائق ہوا۔ بندہ بھی ایک روز اس کو دیکھنے گیا۔ بدویوں کی پوشاک پہنے تھا۔ کئی راجہ ہندو اور مسلمان صاحب آبرو وہاں موجود تھے۔ میری وضع نرالی دیکھ کر حیران ہو کر پوچھنے لگے۔ تم کون ہو کہاں سے آتے ہو۔ میں نے کہا۔ فقیر ہوں پھرتے پھرتے ادھر بھی آ نکلا۔ تمہیں اس تقریر سے غرض کیا۔ انھوں نے نہ مانا زیادہ اصرار کیا۔ میں جواب دیا کہ مرد سیاح جادہ و پیما ہوں۔ ملک فرنگستان سے آتا ہوں۔ وہ بہت متعجب ہوئے کہ اللہ بہت دور سے آئے۔ اب بتاؤ کہ انگلستان بنارس کی سی آبادی رکھتا ہے۔ یہاں کا سا مکان اور محل بلند سنگین وہاں بھی بنتا ہے۔ یہ سن کر میں ہنسا۔ انھوں نے تعجب کیا کہ سچ کہو ہنسنے کا باعث کیا ہے۔ تب تو میں نے کہا۔ وہ ملک روئے زمین میں بہشت خانہ ہے۔ اُس کے سامنے یہ شہر اور عمارت اُس کی پاخانہ ہے۔ اس شہر ناہموار کو

صفحہ 154
-------
اُس سے کیا نسبت۔ اس میں اُس میں بڑا تفاوت۔ وہاں ایسی فضا اور وسعت ہے کہ گویا نمونہ جنت ہے اگر وہاں ایسی تنگی اور عفونت ہوتی، انگریزوں کی زیست اصلاً نہ ہوتی۔ یہاں کی سی بے حیائی اگر وہاں کے لوگ کرتے انگریز ان لوگوں کو جان سے مارتے۔ یہاں کے لوگ عجب بے حیا ہوتے ہیں کہ ایک لنگوٹی غرقی سے ستر ڈھاکتے ہیں، اُس سے مقام بول و براز نظر آتے ہیں۔ پر وہ کسی زن و مرد سے شرم و حیا نہیں رکھتے ہیں۔ انگلستان میں مرد اور عورت تہرے چوہرے کپڑے پہنتے ہیں۔ یہ کیا ممکن کہ سارے بدن میں اکہرا کپڑا بھی پہنیں۔ اس سرزمین میں بہ نسبت ہر اقلیم کے میوے اور نعمتوں کی زیادتی ہے۔ روز بروز ثروت اور حشمت کی ترقی ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر وہاں یہ سب امر میسر ہوتے ہیں انگریز کیوں اُس شہر کو چھوڑ کر تلاش معاش میں اور ملکوں میں پھرتے ہیں۔ تم ہندوستانی ہو کر لندن کی تعریف کرتے ہو۔ شاید وہاں انگریزوں کے ساتھ کھانا کھایا اور اُن کے مذہب میں آئے ہو۔ اس سبب سے اُن کا دم بھرتے ہو۔ میں نے کہا تم غلط کہتے ہو، کوئی کسی کے ساتھ کھانے سے اُس کے مذہب میں نہیں آ جاتا ہے۔ مذہب دل سے تعلق رکھتا ہے۔ ساتھ کاھنے اور زیادتی صحبت غیر مذہب والے سے مذہب میں کچھ خلل نہیں آتا۔ میں نے اگرچہ انگریزوں کے ساتھ کھایا۔ پر اس وجہ سے اُن کے مذہب میں نہیں آیا۔ جب تک دل سے ایمان نہ لاؤں اور ان کے مذہب میں نہ آؤں۔ میں مذہب سلیمانی رکھتا ہوں۔ موافق اور مخالف دونوں سے صلح کرتا ہوں۔ میں نے تم سے جو تعریف لندن کی کی۔ ساری حق اور صحیح تھی۔ اس میں مذہب سے کچھ واسطہ نہیں۔ انگریزوں سے مجھ کو علاقہ نہیں اور یہ جو تم نے کہا کہ اگر انگلستان میں یہ ناز و نعمت ہوتی، انگریز لندن سے کیوں باہر نکلتے۔ صورت اس کی یوں ہے کہ اُس اقلیم کی وسعت پان سو کوس کی ہے۔ ہمیشہ لوگوں کی اولاد بڑھتی ہے۔ اگر سب وہیں رہتے۔ مکان رہنے کے نہ ملتے۔ اس واسطے بعضے اُس شہر کو چھوڑ کر عربستان یا
-----------------------------------------------
(کتاب کے صفحہ نمبر 145 سے صفحہ نمبر 154 تک مکمل)
-----------------------------------------------

 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
صفحہ 140 سے 144

ص 140

البتہ وہاں سے لے جاسکتا۔

ایک دن بندہ چھاؤنی کابئ کا تماشا دیکھئے گیا۔ قبریں انگریزوں کی دیکھ کرسخت ملول ہوا کہ یہ لوگ کس قدرراه دور و دراز سے بامید بہبود یہاں آئے ہوں گے۔ کامیاب ہوکرارادہ پھرنے ملک اپنے کارکھتے ہوں گے مگر صیادِ اجل نے مہلت نہ دی، وطن جانے کی نوبت نہ آئی۔ اسی حال میں دوست لندن کے یاد آئے۔ آنسو بے اختیار بہے۔ بعد ایک ساعت کے خیال آیا کہ اس رنج و غم سے فائدہ کیا ۔ بہتر یہ ہے کہ دوا دلِ غمگین کی کروں اور طبیعت کو بہلاؤں ۔ قریب چھاؤنی کے جا کر ایک بوتل شراب وین خرید کی اور بھر کر سامنے رکھ لیا اپنا چپک مصری۔ دوستوں کو یاد کر کے کئی پیالے شراب وین کے پیے۔ بعد اس کے چپک پینے میں مشغول ہو کرغم دل سے دور کیے۔ بقول حافظ شیراز-بیت:

اے نورچشم من سخنے ہست گوش کن
تا ساغرت پرست بنوشاں ونوش کن

دو چار گھڑی اسی چین اور خوشی میں اوقات گذاری کی۔ پھراسی کیفیت وسرور میں گھوڑے پر سوار ہو کر باگ اس کی ڈھیلی کی ۔ سوجھائی نہیں دیتا کہ گھوڑا کدھر جاتا۔ اُس نے چلتے چلتے ایک کالے پتھر پر پاؤں رکھا اور پھسل پڑا۔ میں بھی اُس پر سے گر کرزخمی ہوا۔ تھوڑی ون وہیں زخم میں پلا کر خوب مضبوط باندھا۔ پھر گھوڑے پر سوار ہو کرسٹک کو چلا۔ وہاں سے نو کوس تھا۔ اثنائے راہ میں بہ سبب نہ برسنے مینہ کے حال آدمیوں اور جانوروں کا پریشان پایا۔ کنوئیں سوکھ گئے تھے۔ اسی سبب سے راہ میں پانی کہیں نہ ملتا۔ اکثر جانور پرند نظر آئے کہ شدّت پیاس سے درخت سے گر کر مر گئے۔ میں نے جیوں تیوں سٹک میں پہونچ کر مقام کیا۔
دوسرے دن گیارہ کوس چل ڈوگر تال میں آیا۔ راہ میں سارا جنگل اور پہاڑ تھا۔ وہاں

141

ایک جانور بصورت شیر گھانس میں چھپا نظر آیا ۔ گھوڑے سے اُتر کر گھوڑا نوکر کے حوالے کیا۔ آپ پیدل ہو کر پہاڑ پر ایک پتھر مشبک کی آڑ میں بیٹھا، بندوق کو گولی سے بھرا، پتھر کے سوراخ سے منہ بندوق کا نکالا ،تاک کراس جانور کا شکار کیا ۔حسب اتفاق گولی کا زخم کاری لگا۔ جانوراچھل کرگرا مگر میں خوف سے قریب اُس کے نہ گیا۔ ایک اور گولی ماری ۔ یہاں تک کہ سرد ہوا۔ تب پاس اس کے جا کر دیکھا، چیتا تھا۔ قد و قامت میں بہت بڑا۔ اُس کو ساتھ اپنے ڈونگرتال لوا لایا اور ایک رو پیہ مزدوری دے کے چمڑا اُس کا نکلوا لیا۔
دوسرے دن ڈوگر تال سے دسں کوس آگے چلا۔ موضع کڑھے میں آ کر ٹہرا- اُس دن منہ خوب برسا تھا۔ راہ بھرعجب حال دیکھا ۔ لاش ہندؤوں کی جا بجا پڑی۔ کوئی تڑپ رہا، کسی کی جان نکلی ۔ گوشت بدن اُن کے کا گیدڑ اور جانور کھا گئے ۔ کوئی شفیق نہ تھا کہ اُن کے حال پررحم کرے۔
ایک شخص ان میں سے ہوش و حواس بجا رکھتا۔ میں نے اُس سے استفسارِ حال کیا۔ اُس نے کہا۔ ہم لوگ ہندو ہیں۔ رامیشر (۱) سے تیرت کر کے آتے ہیں۔ اپنے قافلہ کے ساتھ کاشی جی (۲) جاتے تھے۔ یہاں آ کر بیمار ہوئے۔ ساتھی ہمارے ہم کو اس حال میں چھوڑ کر چلے گئے۔ اب ہم اس عذاب و مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ زندگی سے بیزار ہیں۔
بہتیرے پڑے پڑے بسبب بھوک و پیاس کے مر گئے ۔ بہتوں کو جانور درندے ہلاک کر گئے ۔ گوشت بدن کا کچھ کھایا، کچھ چھوڑ گئے۔ ہڈیوں کو بھی توڑ گئے ۔ بعضے مانند میرے حالت نزع میں تڑپ رہے ہیں۔ موت آنے کی راہ دیکھتے ہیں ۔ مجھ کو دل میں رنج آیا کہ افسوس اس حالت میں کوئی نہیں اُن کا پوچھنے والا - با وجود یہ کہ ہندوؤں کے غول تیرت کیے ہوئے اُس راہ سے نکلتے تھے اور وہ گرفتاران مصیبت حال اپنا کہہ کر رام لچھمن کا واسطہ دلاتے تھے۔ مگر کوئی متوجّہ حال نہ ہوا اور کسو نے اُن کے حال پر رحم نہ کیا۔ بندہ اُن ہندوؤں کی سخت دلی سے متحیر ہوا کہ باوجود بھگتی اور تیرت رامیشر کے اپنی ہم قوموں کا حال نہ پوچھا۔



ص142


رامیشر اور کاشی جانے سے کیا فائده ، جو دل میں اُس سے سختی آئی زیادہ ۔ چاہیے تھا کہ اگردل سخت پتھرسا ہوتا - تیرت سے موم ساملائم ہو جاتا۔ یہاں برعکس ہویدا ہوا کہ تیرت سے اور زیادہ کڑا ہوا۔ صاحبانِ انصاف ملاحظہ کریں کہ ایسے امور بے رحمی اور شقاوف کس مذہب میں جائز ہیں ان سے زیادہ سخت دل اور نالائق کون ہو گا کہ اپنے ہم مذہب اور ساتھیوں پر اتنا ظلم روا رکھا۔ میں نے بہت ملکوں میں پھر کر بے رحمی میں بدویوں عرب کو مستثنیٰ کیا تھا۔ مگر حال ہندوؤں کا دیکھ کر ہندوستانیوں پر ختم بے مروتی کا کیا۔ اس سے زیادہ یہ ماجرا کہ جس کو کچھ مقدور ہوا، کمینہ ہو یا اشراف ۔ شریف ہو یا اجلاف۔ ہندی نزاد اُس کی خوشامد کر کے دماغ اُس کا آسمان پر پہونچاتے ہیں۔ شرافت اور کمینگی کا ہرگز پاس نہیں کرتے ہیں۔ سامنے خداوند پیرمرشد کہتے ہیں - غایبانہ ہزاروں گالیاں دیتے ہیں ۔ زبان سے وہ قال ومقال ہے، دل میں یہ خیال ہے۔ انہیں حرکات سے خداتعالیٰ نے ان پر غضب نازل کیا۔ سلطنت ہندوستان کی بیچ قبضہ وتصرف انگریزوں کے لایا۔ یہ ملک وسیع ایسا نہ تھا کہ بآسانی جماعت قلیل سے انگریزوں کے ہاتھ لگتا مگر ان کی طرف بہ سبب نیک طینتی کے تائید الہٰی ہے اور ان پر حرکاتِ ظلم ان کے سے تباہی آئی ۔ کوئی کسی سے موافقت نہیں رکھتا ہے۔ بھائی بھائی سے کنائی کاتٹا ہے۔ ظاہر میں اپنے تئیں بھگت اور پرہیز گار بناتے ہیں۔ باطن میں ہر رشتہ نفس سے دام فریب بنتے ہیں۔ یہ پرہیزگاری ظاہرنمائی کی آخرت میں کیا فائدہ دے گی۔ ۔ بموجب مثل ہندی " دیا دھرم نہیں تورے من میں ۔ کیا دیکھے تو مکھ درپن میں"۔ زیادہ اس سے لکھنا فضول ہے۔ کلام طویل کرنا، عاقلوں کے سامنے نامقبول ہے۔
خلاصہ یہ کہ دس کوس راہ طے کر کے مو ضع کرہی سے سہنی (1) میں آیا۔ یہاں سے عمل راجوں کا تھا۔ خلقت یہاں کی نرالی اور انداز نیا ہے۔ بے زجر اور تنبیہ کے کام نہیں نکلتا ہے۔ راہ میں میں نے کنوؤں پر جا کر لوگوں سے بہ خوشامد پانی مانگا۔ کسو نے ازراہ بد ذاتی


ص 143


گھونٹ بھرپانی نہ پلایا۔ بلکہ نرے پن سے جواب سخت دیا۔ بنیوں کی دوکانوں پر جا کر نرمی اور لجاجت سے رات بھراُتر رہنے کی اجازت چاہی ۔ اُنھوں نے بھی میرا کہنا خیال میں نہ لا کر انکار کیا ۔ جب میں نے دیکھا کہ آشتی سے کام نہیں چلتا، انگریزی کپڑے پہن کر اپنے تئیں صوبے دار فوج انگریزی کا ظاہر کیا ۔ جہاں کہیں جاتا ۔ اہل حرفہ کو گالیاں دیتا بلکہ جوتیاں مارتا۔ کوئی سرتابی نہ کر سکتا۔ سب موم کی طرح پگھل کر فرمانبرداری کرتے ۔ دل و جان سے اطاعت میں مشغول رہتے۔ اسی طرح تلنگے انگریزی جس گانوں میں جاتے ہیں ۔ بیگاری پکڑ کر اس پر اسباب اپنا لاد کرمنزل تک لے جاتے ہیں۔ ایک کوڑی بھی مزدوری نہیں دیتے ہیں۔ جب دوکان پر بنیوں کی پہو نچتے ہیں گالیاں بے سبب دے کر قرارواقعی تنبیہ اُن کی کرتے ہیں۔ آٹا بہ نسبت اور خریداروں کے ارزاں مول لیتے ہیں۔ چلتے وقت انعام میں گالیاں دے جاتے ہیں۔ میرے نزدیک بہت اچھا کرتے ہیں۔ وہ نالائق ، ہد ذات بغیر اس کے نہیں مانتے ہیں ۔ سابق بندہ بدزبانی اور بے رحمی انگریزوں سے ہندوستان میں شاکی تھا۔ رودادِ سفر اور سابقے اُن لوگوں سے ثابت ہوا کہ بغیر بد زبانی اور بے رحمی کے کام نہیں نکلتا ہے۔ اگر کوئی صد ہا روپیہ خرچ کرے ویساہرگز اجرائے کار نہیں ہوتا ہے۔ غریب مسافر ٹٹووں پر سوار آتے تھے، محافظانِ راہ زیادہ قیمت ٹٹو سے محصول لیتے۔ پھر بھی نجات نہ دیتے۔ ایک شخص نے میرے سامنے تین روپے کا ایک چھوٹا ٹٹو مول لیا تھا۔ چوکیداروں نے چارروپیہ اس کا محصول لیا۔ آخر اُس بچارے نے حیران ہوکرٹٹو کو ایک طرف چھوڑ دیا کہ اس آفتِ جان سے میں در گذرا۔ جابجا مجھ سے بھی چوکیداروں سے تکرار ہوئی۔ مگر میں وضع ہندوستانی سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس سے اُن ظالموں سے نجات پائی۔ اگر کوئی اپنی بی بی ان راہوں میں ساتھ لے جاوے، سخت خرابی میں گرفتار ہووے ۔ اگر گھوڑے ٹٹو پر سوار چلے، دونا قیمت سے محصول دے۔ اگر کوئی عورت اکیلی اس راہ سے سفر کرے ممکن نہیں کہ



ص 144


گذر سکے۔ غرض کہ ہر منزل میں محافظ منکرنکیر تھے۔ مسافراُن کی ایذارسانی سے دلگیر تھے ۔ راجہ ہائے ہندوستان شامت اعمال اپنے سے محکوم انگریزوں کے ہوئے۔ ورنہ کیا مجال کہ ایسا ملک فسیح الفضا انگریز فوجِ قلیل سے لے سکتے ۔ یقین کے انہیں حرکتوں سے ہمیشہ فرماں روا اوروں کے رہیں۔ ظلم و جبرغیروں کے اپنے اوپر سہیں۔
قصہ مختصر بندہ سہنی سے نو کوس چلا نراین گنج میں پہونچا۔ وہاں سے نو کوس کی منزل طے کرکے گنیش گنج آیا، پھرنو کوس کے بعد دہونان میں اُترا، وہاں سے دس کوس چل کر چری بدی میں پہونچا۔ پھردس کوس منزل کر کے جھبل پور(۱) مقام کیا۔وہ نواح دل کو بھایا۔ اُس پار جھبل پور کے دریائے نربدا(۲) تھا۔ میں شکارمیں مشغول ہوا۔ یہ دریا مقام پوجا ہے اور نہانے ہندوؤں کا ہے۔ فی الواقعی پانی أس کا مزیدار اور میٹھا ہے۔ ہندو راہواں دور سے آکر اس دریا میں نہاتے ہیں ۔ اپنے نزدیک اس پانی سے سارے گناہوں کو دھو جاتے ہیں۔ ایک دن میں نے نربدا پر مقام کیا۔ شکار کر کے کئی جانور پکڑ لایا۔ ایک جگہ گنجان درختوں کا سایہ اور خوب سبزہ تھا ، اُتر کر شکاری جانوروں کا کباب بنا کر کھایا اور شب باش ہوا۔ بنده جب نربدا پہونچا، گرمی کا غلبہ تھا۔ اسی سبب سے پانی دریا کا گھٹ گیا۔ یہاں تک کہ پہاڑ دریائی جونربدا میں تھا نظر آتا ۔ کشتی کا رستہ مسدود تھا ۔ دوسرے دن خاص جھبل پور میں آ کر ایک بنیے کی دوکان پر اترا ۔ راہ کی ماندگی سے سستایا۔ اُس دن ابر تھا دل میں خیال آیا کہ راہ کے چلنے سے ماندہ ہوا ہوں، بہتر یہ ہے کہ ایک آدھ روز یہاں چین کروں ، بنیے کی دوکان کو صاف کروایا۔ عرقِ انگور پینے میں مصروف ہوا۔ گوّیوں خوش آواز کو بلا کر راگ سننے لگا۔ اُنبہ، خربوزے مول لے کر آپ کھائے ۔ باقی گویوں اورنوکرکو تقسیم کردیے۔ اسی عیش ونشاط میں دو تین پیادے کوتوالی کے آ کر پوچھنے لگے۔ تم کون ہو، کیا پیشہ رکھتے ہو۔ کہاں سے آئے، کہاں جاتے ہو۔ میں نے کہا مسافر ہوں۔ بمبئی سے آتا ہوں بنارس جاتا ہوں۔ تم کو
 
آخری تدوین:

محمد عمر

لائبریرین
131

۱۲۵

لکڑی کا لگا۔ مقبرہ چنداں نفیس نہ تھا۔ میں دیکھے اُس کے سے عبرت پذیر ہوا کہ یہ بادشاہ ہندوستان کا کتنے ملک زور شمشیر سے اپنے قبضہ میں لایا۔ اپنے زمانہ میں کس طرح غلبہ رکھتا تھا۔ اب خاک میں ملا۔ یاراے حس و حرکت، جنبش دست و پا کی طاقت نہیں رکھتا۔ دنیا عجیب مقام ہے۔ ہر ایک کا یہی انجام ہے۔ یہ سوچ کر باہر آیا۔ تھوڑی دور چلا۔ ایک باغ نظر آیا۔ اس کے اندر جا کر دیکھا۔ ہر طرف دیوار پختہ رکھتا۔ ہر سمت مکان نفیس بنا۔ درمیان باغ کے مقبرہ زیب النساء دختر عالمگیر کا تھا۔(۱) وہ سارا مع تربت کے سنگِ مرمر سے تیار ہوا۔ چھت اور فرش سنگ مرمر کا تھا۔ گرد قبر کے حوض بھی اُسی کا اور ہر طرف تربت کے فوّارہ پانی کا۔ چنانچہ ایک فوارے میں میں نے منہ لگا کر پھونکا۔ دوسرے فوارے سے پانی نکلا۔ بہ سبب بے حرمتی کے گرد جمی تھی۔ بلکہ ہر چیز میں شکستگی آئی۔ اغلب کہ اب بھی اگر کوئی درستی کرے، آب و تابِ اول پر آوے۔ فوّارے بھی جاری ہوویں۔ اس لیے کہ ابھی تک نقصان سے بچے ہیں۔ سبحان اللہ جب تیار ہوا ہو گا۔ کیا نفیس بنا ہو گا کہ اب تک اس میں وہی رونق باقی ہے۔ طبیعت کو دیکھنے سے فرحت آتی ہے۔ ان دنوں نظام الملک آصف جاہ حاکم حیدر آباد(۲) سنگ مرمر وغیرہ وہاں کھدواتا ہے اور اپنے باپ کے مقبرے پر لگاتا ہے۔ اگر چندے یہی حال رہے گا۔ یہ مقبرہ ویران اور برباد ہو گا۔ ایک دن وہ تھا کہ باپ زیب النساء کا دبدبۂ عالمگیری اور کشور کشائی رکھتا۔ کسی کو دم مارنے کا امکان نہ تھا۔ آج وہ زور ہے کہ اُس کے لختِ جگر کے مقبرہ سے پتھر کھودے لیے جاتے ہیں۔ خوف خدا دل میں نہیں لاتے ہیں۔ وہ کچھ خبر نہیں رکھتا۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ بموجب مذہب سلیمانی یوسف کمل پوش کے ہر امر ہر ایک وقت پر مقرر ہے۔ بُرا ہو یا بہتر۔ ایک وقت وہ تھا کہ یہ مقبرہ بنا۔ ایک یہ ایّام ہیں کہ خراب ہوا۔ دنیا مقام پاداش ہے۔ نہ جاے بود و باش۔ اے مغرور غرّہ نہ کر اپنے کاموں کا کہ ایک وقت سزا پاوے گا۔ اس باغ سے باہر ہے ایک تالاب اور

132 ۱۲۶

بہت سے باغ اور عمارات قدیمی۔ میں نے ان سبھوں کی گنتی نہ کی۔ سارا دن ان مکانوں کی سیر میں آخر کیا۔

دوسرے روز حالِ عجیب ایک پہاڑ کا سنا کہ دیوؤں کا تراشا تھا۔ (۱) نہایت مشتاق ہو کر اس کی سیر کرنے گیا۔ پہاڑ دیکھا آدھ کوس کے گھیر میں تھا۔ اُس پر مکانات عالیشان سہ منزلے پہاڑ سے ترشے بنے۔ ستون بھی پتھر کے تھے۔ بُت بڑے بڑے قد آدم بلکہ زیادہ اس سے، سنگ کوہ کے تراشے جا بجا کھڑے۔ ایسا ہی ایک طرف دیو ہرا پہاڑ کا ترشا بنا۔ ہاتھیوں پیل قد کے سر پر رکھا۔ وہ بھی پہاڑ سے ترشے تھے۔ قد و قامت میں برابر ہاتھی کے تھے۔ اندر بت خانہ کے ایک بڑا بت، سنگی رکھا۔ ہندوؤں میں کیلاس (۲) نام اس کا مشہور ہوا۔ برہمن اُس میں رہتے ہیں۔ شام کو چراغ اُس میں جلاتے ہیں۔ باہر سے وہ بت خانہ چھوٹا دکھائی دیتا ہے مگر بھیتر سے جگہ ہزاروں آدمیوں کی اور بہت وسعت رکھتا۔ تصویر جانوروں کی مثل بندر وغیرہ کے ترشی تھیں۔ بخدا میں نے ایسی مورتیں کہیں نہیں دیکھیں۔ در حقیقت یہ کام بشر کا نہ تھا۔ شاید جنات اور دیوؤں نے تراشا۔ حال اس کا سن کر میں قصّہ جانتا تھا۔ آنکھوں سے دیکھ کر یقین لایا۔ اگر لاکھوں آدمی برسوں تراشے۔ ویسی صورتیں اور مکان ہرگز نہ بنا سکتے۔ اندر اُس بت خانہ کے نہر تھی۔ جگہ نہانے ہندوؤں کی۔ ہندو ملکوں دور دراز سے یہاں آ کر نہاتے ہیں۔ اپنے زعم میں گناہوں تمام عمر سے اس غسل سے پاک اور مبرّا ہو جاتے ہیں۔ اسی سیر و تماشے میں پہر دن باقی رہا۔ میں اطراف پہاڑ کما ینبغی نہ دیکھنے پایا۔ اس لیے قصد شب باشی کا وہاں کیا۔ چھرّے بندوق سے کئی کبک شکار کر لایا۔ نمک ایک فقیر سے لے کر اُن کا کباب بنایا۔ روغنی روٹی کے ساتھ جو پاس بندھی تھی کھا کر پانی اس چشمہ سے پیا اور مقام کیا۔ رات کے وقت اکثر الّو اور چمگیدڑ اُڑتے اور وہ بت دیوؤں کی طرح ہیبت ناک نظر آتے۔ مگر دیو و پری اصلی کا نشان نہ پایا۔ صبح ہی اُٹھ کر پھر سیر میں

133 ۱۲۷

مشغول ہوا۔ اکثر عورتیں ایسی نظر آئیں کہ بعضی بعضی دھڑ نہ رکھتیں۔ دریافت ہوا کہ شاہ عالمگیر نے توپ کے گولوں سے اُن کو بے سروپا کیا، کسی کا سر اُڑ گیا، کسی کا پاؤں اُکھڑ گیا۔ مکانات ٹوٹے، ستون گرے پڑے۔ ایک سمت ایک مکان تھا۔ ترشا پہاڑ کا۔ اس کے گنبد پاس کڑیاں ترشیں پتھر کی لگیں۔ بعینہ کڑیاں چوبی معلوم ہوتیں۔ اُس میں ایک بت عظیم الشان تھا۔ وہ مکان کوٹھری بڑھئے کی کہلاتا۔ لوگوں سے معلوم ہوا جس کیا یہ سب صنعت ہے اُسی کی یہ صورت ہے۔ ایک نجّار تھا، جس نے پہاڑ تراشا۔ تصویر ایک بخیل کی بڑھئی کی کوٹھری میں کھڑی بہت خوب بنی تھی۔ لاغری اور نحافت سے ہر جوڑ بدن کا نظر آتا۔ ایک روپیہ ہاتھ میں لیے مٹھی زور سے بند کیے تھا۔ دو ہندو وہاں رہتے تھے۔ ان سے میں نے حالات اُس پہاڑ کے پوچھے۔ چونکہ عقل و خرد نہ رکھتے، حال مفصل بیان نہ کر سکے۔ اسی قدر کہا کہ یہ دیوؤں کا کام ہے، ہزاروں برس سے بنا۔ اُس صحرا میں ایک تالاب بھی تھا اور میدان میں وسعت زیادہ۔ اس قرینے سے مجھ کو ثابت ہوا کہ سابق وہ مقام عملداری ہندوؤں میں آباد ہوا ہو گا۔ گردشِ زمانہ سے اب ویران ہوا۔ نام و نشان باقی نہ رہا۔ میں نے بہت ملکوں میں سفر کیا مگر ویسے بت اور بت خانہ اور پہاڑ کہیں نہ دیکھے۔ لہٰذا بندہ شائقوں کو اطلاع دیتا ہے کہ جو کوئی اورنگ آباد کی طرف جاتا ہے اس کو چاہیے کہ اس پہاڑ پر جاوے۔ سیر و تماشا وہاں کا ضرور دیکھے۔ اورنگ آباد سے اُتر طرف تھا۔ بارہ کوس فاصلہ رکھتا۔

وہاں سے پھر قلعہ دولت آباد میں آیا۔ صورت اُس کی یہ کہ ایک پہاڑ تھا۔ انڈے کی طرح نیچے سے کم عرض اوپر سے چوڑا۔ حاکمون نے تراش کر اس کا قلعہ اور مکان بنوایا۔ جا بجا توپیں لگیں۔ بلندی میں ہمتاے چرخِ بریں۔ اگر اس قلعہ میں کوئی مثل انگریزوں کے بندوبست کرتا، کسی کو یاراے مقابلہ اُس سے نہ ہوتا۔ اب اس میں قبضہ نظام الملک کا ہے۔ ویران اور خراب پڑا ہے۔ حفاظت کے لیے براے نام سو سپاہی نجیب دروازہ پر بیٹھے ہیں۔

134 ۱۲۸

عجب سپاہی کی بندوقیں ان کی زنگ آلودہ کپڑے کالے، میلے کچیلے پہنے ہیں۔ جب میں نے وہاں پہونچ کر اندر جانے کا قصد کیا، انہوں نے روکا کہ بے اجازت اور پروانگی نظام الملک کے کسی کو حکم نہیں اندر جانے کا۔ اس سبب سے میں اندر اُس کے جان سکا۔ باہر سے بلندی اور وسعت اس کی دیکھتا رہا۔ گر دولت آباد کے دیوار شہر پناہ پختہ ہے۔ آٹھ سات ہزار آدمی اس میں بستا ہے۔ جب فقیر ان سیروں سے فراغت کر چکا۔ اورنگ آباد میں جس فقیر کے مکان پر اُترا تھا۔ آنے کا ارادہ کیا۔ راہ میں ایک عورت نوجوان مرہٹن پری زاد، زعفرانی اطلس کے کپڑے پہنے ہوئے ملی۔ نیزہ ہاتھ میں لیے ایک کمیت گھوڑے پر سوار جاتی تھی۔ شعر

جمالش چو در نیم روز آفتاب

کرشمہ کناں نرگسِ نیم خواب

عجب حسن و جمال درخشاں رکھتی کہ دیدۂ خورشید نے اس کی طرف ٹکٹکی باندھی۔ چہرہ اس کا درمیان بالوں عنبریں کے یوں چکنا جیسے سورج کالی گھٹا سے نکلا۔ زیور خورشید طلائی بالوں میں گندھا۔ عجب کیفیت دکھاتا۔ انداز اُس کا معشوقانہ۔ دل دیکھتے ہی لوٹ جاتا۔ جدھر آنکھ اُٹھا کر دیکھتی۔ فتنہ بپا کرتی۔ فقیر جو نہیں چار چشم ہوا۔ آئینہ ساں حیران ہو کر دیکھتا رہا۔ جب قریب آ پہونچی۔ میں نے بے اختیار شوق سے یہ بات کہی۔ اگر اجازت پاؤں کچھ آپ کی خدمت میں عرض کروں۔ نگاہ تیز سے میری طرف دیکھا اور اشارے سے حکم کیا۔ میں نے کہا۔ اُس مصور بیچوں پر صد آفریں کہ تیری یہ تصویر کھینچی نازنین۔ اس کلام سے وہ معشوقہ ہنس کر کہنے لگی۔ اے فقیر صاحب کمال سچ بتا کہ عمل مرہٹوں کا ہندوستان میں کب ہو گا اور کتنے دنوں میں انگریزوں پر زوال آوے گا۔ میں نے کہا اے جان جب میرا نکاح تیرے ساتھ ہووے گا، عمل انگریزوں کا ہندوستان میں نہ رہے گا۔ اُس نے کہا فقیر کو نہ چاہیے ایسی خوش طبعی اور استہزا۔ میں نے کہا تمہاری خاطر نازک میں رنج نہ آوے۔ سابق

135 ۱۲۹

میں رہتا تھا بیچ محبت پریوں کے۔ ہر وقت ان کے جمال کا تماشائی اور ہم کلام تھا۔ شامت اعمال سے وہاں سے نکلا۔ پھر وہاں جانے کی آرزو رکھتا ہوں۔ خدا سے استمداد چاہتا ہوں۔ یعنی انگلستان میں تھا۔ وہاں کی رنڈیوں پری وشوں کا جمال دیکھتا۔ اس وقت جو تجھ کو دیکھا۔ دل میں ولولہ آیا۔ اس سبب سے حرفِ شوق بے اختیار زبان سے نکلا۔ بعد اس گفتگو کے اُس معشوقہ رعنا نے ہوا کی طرح گھوڑا تیز کیا۔ اور یوسف حلیم کمل پوش آہ فغاں کرتا اورنگ آباد کی طرف چلا۔

جب قریب شہر آ پہونچا۔ ایک پرانا مقبرہ دیکھا۔ وسعت اور صفائی خوب رکھتا۔ دو تربوز مول لے کر پانی اُن کا پیا۔ اتنے میں ایک فقیر جو وہاں رہتا تھا ملا۔ بہت اخلاق سے پیش آیا۔ حقہ پانی سامنے لایا تخمیناً نو دسالہ تھا۔ مگر سن اپنا سو برس کا بتلایا۔ نور الہٰی پیشانی اس کی سے چمکتا۔ عقل و دانائی سے بہرہ کامل رکھتا۔ ایسا خوش زبان اور شیریں بیان تھا کہ بندہ صحبت اُس کی غنیمت سمجھا۔ اُس مقبرہ میں دو قبریں تھیں۔ ساتھ ساتھ اُس کے جا کر دیکھیں۔ حال قبروں کا پوچھا۔ اُس نے جواب دیا کہ میں نے حال صاحب قبر کا اپنا سا پایا ہے۔ اس سبب سے یہاں رہنا اختیار کیا ہے۔ اسی گفتگو میں تھا کہ میں نے ایک تربوز اُس کے آگے رکھا اور تنباکو تھوڑا اپنے پاس سے نکال چلم بھر اس کے آگے کیا اور مستفسر حال اس کے کا ہوا۔ اُس مرد دانا نے مجھ کو فقیر جان کر کہا۔ اگرچہ میں یہ شیوہ اور عادت نہیں رکھتا ہوں کہ کسی سے حال اپنا بیان کروں۔ لیکن تم کو زیادہ شائق پاتا ہوں۔ قصہ اپنا کہہ سناتا ہوں۔ میری کیفیت یہ ہے کہ لڑکپن سے جوانی تک سایہ پدری میں فارغ البال اور آسائش سے رہا۔ سوائے تلاوت قرآن شریف اور تحصیلِ فنونِ سپہ گری کے پچیس برس تک کوئی کام نہ رکھتا۔ باپ میرا نظام الملک کی سرکار میں امتیازیوں میں نوکر تھا۔ بلکہ اُس زمانہ میں کوئی بسبب آسودگی کے نوکری کی پروانہ رکھتا۔ رئیس قدر دان جویائے اہل سیف و قلم کے رہتے۔

136

ہر ایک کی بقدرِ لیاقت عزت کرتے۔ سلطنت ہندوستان میں انگریزوں کا کچھ دخل نہ تھا۔ کوئی ان کا نام و نشان نہ جانتا۔ حسب اتفاق ایک میرے عزیز کی برات تھی۔ محفل رقص و سماع گرم ہوئی۔ میں بھی بمقتضائے قرابت شریکِ محبت ہوا۔ ناچ ایک رنڈی کا دیکھتا رہا۔ نام اُس کا تراب کنور تھا۔ ایک بارگی تیر عشق اُس کے کا دل میں لگا۔ تمام رات اُس کے منہ پر ٹکٹکی باندھے رہا اور پوشیدہ اُس سے کہا کہ فلانے دن میں کسی باغ میں محفل جماؤں گا، دوست آشناؤں کو بلاؤں گا۔ چاہتا ہوں کہ تم بھی اُس دن شریکِ محفل ہو۔ حال دوستوں پر مہربانی کرو۔ اُس نے کہا بہت اچھا ضرور آؤں گی۔ مجھ کو تو بے تابی تھی۔ بروز مقرر مجلس آراستہ کی۔ دوستوں کو تکلیف تشریف آوری کی دی۔ تراب کنور بموجب وعدہ آئی۔ رات بھر محفلِ عشرت گرم رہی۔ اس صحبت میں مجھ کو اُس پر اور زیادہ شیفتگی ہوئی۔ بہت سا زرِ نقد خرچ کیا۔ ذائقہ وصال سے چاشنی یاب ہوا۔ دل یہ چاہتا کہ جس طرح سے قابو پاؤں اُس کے ساتھ نکاح کر لوں۔ والد بزرگوار نے یہ حال سنا۔ وعظ و نصیحت سے سمجھایا اور اس امر بےجا سے تابمقدور منع کیا۔ جب میرے خیال میں نہ آیا۔ لاچار انہوں نے بہت روپے خرچ کر کے اس رنڈی کے ساتھ میرا نکاح کر دیا۔ مدت تک میں عیش کرتا رہا۔ اُس کی صحبت سے حظ زندگی اُٹھاتا۔ بعد چند روز حضرت قبلہ گاہی نے کار سرکاری پر قضا کی۔ ساری جمع اُن کی میرے ہاتھ لگی۔ میں اس روپے کا ملنا غنیمت سمجھا۔ دوستوں کی مہمانداری میں مشغول ہوا۔ ایک سال میں سب اُڑایا۔ اس عرصہ میں اُس رنڈی کا دل حریف ہم صحبت پر آیا۔ بد بات کا سامنا ہوا۔ چونکہ مجھ کو اُس کے ساتھ عشق تھا، حرفِ شکایت زبان پر نہ لایا۔ جب سب نقد و جنس خرچ ہو چکا۔ خوابِ غفلت سے سمجھ کر چونکا۔ ایک گھوڑا باقی تھا۔ اُس پر سوار ہو کر تلاش روزگار کو نکلا۔ سعی سفارش چاہنے لگا سوائے بیس تیس روپے کے روزگار میسر نہ آتا۔ سخت حیران ہوا مگر اُس کو نہ اختیار کیا۔ اس وقت اس رنڈی نے بھی راہِ بے مروتی میں

137 ۱۳۱

قدم رکھا۔ ترکِ محبت کا قصد کیا۔ میں نے کہا تجھ سے میرا نکاح ہوا ہے تو نے مفارقت کا کس طرح ارادہ کیا ہے۔ جواب دیا ہم نے نکاح کو بالائے طاق رکھا۔ جب تک تو مال رکھتا۔ قابلِ صحبت تھا۔ اب وقت گزاری کیوں کر کرے گا۔ دوست آشنا بھی جو شریکِ خوان تھے آنکھ چرانے لگے۔ لاچار بندے نے دنیائے دوں سے دل اٹھایا۔ اس گوشے میں بیٹھ رہا۔ نظم

جہاں را ندیدم وفاداریے

نخواہد کس از بیوفا یاریے

بریدم زہر آشنائے شمار

بس ست آشناے من آمرزگار

اب میں یہاں رہتا ہوں۔ خداوند تعالیٰ کو اپنا رفیق جان کر چاہتا ہوں کہ ساری عمر اس جا رہوں اور بعد مرگ یہیں دفن ہوں۔ حال ان دو قبروں کا یہ ہے کہ ایک قبر اس میں سے ایک رئیس زادہ کی ہے۔ دوسری قبر کتّے کی۔ میں نے کہا قبر کتّے کی آدمی کے برانر بنانا کیا ضرور تھی۔ تب اُس نے یوں حقیقت حال کیا کہ حیدر آباد میں ایک امیر صاحبِ ثروت تھا۔ سرکار نظام الملک سے در ماہہہ بیش قرار پاتا۔ سوا اس کے پانسو گھوڑے اپنی سرکار میں داغ کروائے۔ بار گیران پر مقرر کیے۔ یہ فائدہ علاوہ درما ہے اس کے سے تھا۔ ایک بیٹا عاشق مزاج رکھتا۔ بعد مرنے اُس امیر کے سارا مال و متاع بیٹے کے ہاتھ لگا وہ نوجوان اور کمسن تھا۔ چندا بائی نام کی ایک نوچی پر عاشق زار ہوا۔ تھوڑی مدت میں سب مال و اسباب لٹایا۔ جب نقد و جنس باقی نہ رہا۔ گھوڑوں کو بیچا۔ آخر چندو لال نائب نظام الملک نے اُس کی بد وضعی سے آگاہ ہو کر نوکری سے معزول کیا۔ ناچار یہ شخص بھی حیران پریشان ہو کر گھوڑے پر سوار ہوا۔ ملکوں دور و دراز میں مثل شاہجہاں آباد، اکبر آباد وغیرہ بتلاشِ روزگار پھرتا رہا اور ایک کتّا

138 ۱۳۲

ولایتی ساتھ لیا، نام اُس کا شیرا تھا۔ حسبِ اتفاق کہیں روزگار خاطر خواہ نہ ہوا۔ اورنگ آباد آ کر بسبب مفلسی کے گھوڑا بیچا اور کنجِ عزلت میں گوشہ نشین ہوا۔ نوبت فقر و فاقہ کی پہونچی۔ بہ سبب امارت مزاج کے طبیعت کسی سے سوال کرنے کو نہ چاہتی۔ کتّا ولایتی جو رفیق تھا۔ رات کو نکلتا، نان بائیوں کی دوکان سے روٹی منہ میں لے کر اپنے مالک پاس لاتا۔ نان بائی کتّے کی چالاکی سے حیران تھے۔ پتہ اور نشان نہ پاتے۔ اورنگ آباد میں شہرہ ہوا تیزی اور چالاکی کتّے کا۔ لوگوں نے پکڑنے اُس کے کی فکر کی۔ وہ کتّا دن کو باہر نہ نکلتا اس سبب سے کسی نے اس کا پتا نہ پایا۔ بعد چند روز کے اورنگ آباد میں چکلہ دار نیا سرکار نظام الملک سے مقرر ہو کر آیا۔ اس گوشہ نشین کے بزرگوں اور حال ریاست اُس کے سے خوب آگاہ تھا۔ اس شخص نے ایک پرچہ کاغذ پر حال اپنا لکھا اور اس کے پاس بھجوایا۔ حاکم نے اطلاع پا کر بہت عزت سے اُس کو اپنے پاس بلایا۔ حسبِ لیاقت درماہہ مقرر کیا اور اپنی بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کر دیا۔ تائید بخت سے پھر امیر ہوا۔ تھوڑے دنوں بعد کتّا مرا۔ صاحب اپنے کو داغِ مفارقت دے گیا۔ اُس نے بہت ماتم کیا۔ عزّت و آبرو سے آدمیوں کی طرح یہاں دفن کیا اور مقبرہ بنوا دیا۔ برابر اُس کی قبر کے اپنے لیے قبر کی جگہ تجویز کی اور وارثوں سے وصیت کر دی کہ بعد از مرگ مجھ کو بھی یہیں دفن کیجیو۔ یہ قول میرا یاد رکھیوں۔ نہیں تو فرداے قیامت تمہارا دامن گیر ہوں گا۔ درگاہ خدا میں تمہاری نالش کروں گا۔ اُنہوں نے اقرار کیا کہ تمہارا کہنا عمل میں آوے گا۔ بعد چند روز وہ بھی مر گیا۔ بموجب وصیت وارثوں نے اُس کو یہاں لا کر دفن کیا۔ ان دونوں قبروں سے ایک قبر اُس کیا ہے۔ دوسری قبر کتّے کی۔ حال اس شخص کا میرے حال سے مشابہت رکھتا ہے اس سبب سے فقیر یہاں کا مجاور ہوا ہے۔ تابہ زندگی یہیں رہے گا۔ بعد مرنے کے بھی یہیں دفن ہو گا۔ دوستوں سے وصیت کر چکا ہوں کہ بعد مرنے کے مجھ کو اسی مقبرہ میں دفن کریں۔ یہ کلام دھیان رکھیں۔ اُس شہر میں وہ مقبرہ کتّے کا

139 ۱۳۳

مشہور تھا۔ میں نے یہ حال سن کر دل میں خیال کیا۔ کیا اچھا کتّا تھا کہ اپنے مالک کا نمک ادا کیا۔ بلکہ اس نے ایسی رفاقت کی کہ عزیزوں قریبوں سے نہ ہو سکتی۔ گو کتّا تھا پر سیرت میں آدمی سے اچھا تھا۔ خیال آیا میں بھی یہاں بیٹھے رہوں اس درویش صاحب کمال سے جدا نہ ہوں۔ پھر دل نے کہا۔ اے یوسف کمل پوش اوقات اپنی یہاں بیٹھ کر ضائع کرنا سیروں جہاں سے محروم رہنا ہے۔ لنحوں کی طرح بیٹھنا، اوروں کے ہاتھ تاکنا جواں مردی سے بعید ہے۔ تماشائے جہاں قابلِ دید ہے۔ چل پھر کر کوششںِ بازو سے کچھ پیدا کیا چاہئے۔ غریب و غربا کو اپنی وجہ سے آرام پہونچانا چاہیے۔ مثل شیروں کے شکار کر کے آپ کھا اور اوروں کو کھلا۔ نہ اپنے تئیں گیدڑ کی طرح پست حوصلہ بنا۔ دل کے سمجھانے سے میں اُس ارادہ سے باز آیا۔ اپنے اوپر جبر کر کے اس فقیر سے رخصت ہوا۔

اورنگ آباد میں اس فقیر کے مکان پر آیا۔ جس کے پاس گٹھری اور لوٹا چھوڑ گیا تھا۔ اُس سے ملاقات کی اور گٹھری اپنی مانگی۔ وہ ظاہر میں فقیر باطن میں چور تھا۔ شیطان کو تعلیم برائیوں کی کرتا۔ چیں برجیں و ترش رو ہو کر کہنے لگا۔ تم اپنا اسباب لو۔ اسی وقت میرے مکان سے نکلو۔ تم چور اور راہزن معلوم ہوتے ہو۔ اگر نہ مانو گے، کوتوالی چبوترے میں کہہ دوں گا۔ قید ہو گے۔ ہر چند میں نے کہا۔ حضرت مجھ سے کیا قصور ہوا۔ جو باعثِ خفگی ٹھہرا۔ انہوں نے کچھ نہ سنا۔ اُسی غصہ میں گٹھری لا دی۔ میں نے کھول کر دیکھی۔ تھیلی پیروں اور چپٹے شیشے کی۔ منھ پر لاکھ بدستور لگی۔ مگر مہر میرے نام کی بالکل بگڑی۔ ظاہراً اُس درویش مکّار نے تھیلی روپے اشرفی کی سمجھی۔ لاکھ جس پر مہر میری لگی تھی توڑ کر تھیلی کھولی۔ جب اس میں کچھ جمع نہ دیکھی، شرمندہ ہو کر لاکھ بدستور جما دی۔ مگر مہر میری اُس کے پاس نہ تھی۔ وہ کیوں کر بن سکتی۔ اس سبب سے حرف مہر کے مٹے تھے۔ ہم دیکھتے ہی دریافت کر گئے کہ اس نابکار کو برد ہاتھ نہ لگی۔ اس لیے دل میں رنجش آئی۔ اصل یہ ہے کہ مجھ کو تجربہ اُس کی

140 ۱۳۴

دیانت داری کا منظور تھا۔ ورنہ شیشے کی گولیوں کو چپٹا کر کے پیسوں کے ساتھ بھرنا کیا ضرور تھا۔ اب اے صاحبان عقل و شعور ملاحظہ فرما کہ ان لوگوں نے ظاہر میں فقیری کا جامہ پہنا ہے۔ باطن میں چوری اور غارت گریِ خلق مدعا ہے۔ نہیں تو فقیر کو کیا کام تھا کہ میری گٹھری غائبانہ کھول کر دیکھتا۔ میں نے اکثر فقیروں ہندوؤں کو دیکھا۔ کوئی اُلٹا درخت سے لٹکا، کوئی شدّت گرمی میں آگ میں بیٹھا۔ اسی طرح فقر اے اہل اسلام کو بھی اپنے طور پر عبادت میں غرق پایا۔ آخر جب امتحان کیا، سب کا مکر و فریب پایا۔ جب وہ فقیر شیطان سیرت نہایت بدمزہ ہوا۔ اُس کے مکان کے قریب ایک کھنڈر تھا۔ اسباب اپنا بندہ وہاں اُٹھا کر لے گیا اور گھوڑے کی تلاش کرنے لگا۔ ایک شخص حیدر آباد کا رہنے والا نوکر نظام الملک کا اورنگ آباد میں تعینات تھا۔ اُس نے حال خرید و فروخت گھوڑوں کا پوچھا۔ اُس نے مجھ کو اپنا ہم وطن سمجھ کر بہت خاطر داری کر کے کہا اندک صبر کرو اور چندے یہاں رہو۔ میں تمہارے لیے گھوڑا قدم باز ٹھہرائے دیتا ہوں۔ جہاں سے بنتا ہے تلاش کیے لاتا ہوں۔ پھر کہا ایک گھوڑا چہار سال فلانے جمعدار پاس ہے۔ ہاتھ پاؤں سے صاف ہے۔ مگر عیب نحوست رکھتا ہے۔ جو اس کو مول لیتا ہے، نوکری سے برطرف ہوتا ہے اور اس کے گھر کوئی مر جاتا ہے۔ اس لیے میں تمہارے واسطے نہیں لے سکتا۔ ورنہ بہت خوب ہے اور قیمت مناسب پر ٹھہر جاتا۔ جس نے ان دنوں اُس کو مول لیا تھا، نوکری سے چھُٹ گیا اور لڑکے اُس کے نے انتقال کیا۔ اب وہ ارادہ رکھتا ہے کہ گولی بندوق سے اُس کو مار ڈالے۔ میں یہ سنتے ہی اُس کا طالب ہوا اور بیس روپے کو مول لیا۔ بجہت نحوست فہمی اُس شخص کے بھوکوں کا مارا تھا۔ میرے پاس دانہ گھاس پیٹ بھر کھا کر قد و قامت خوب نکالا۔ میں چند روز وہاں رہا۔ کوچہ و بازار کا تماشا دیکھا۔

ایک دن عالمگیر اورنگ زیب کی بی بی کے مقبرے (۱) پر گیا۔ فرش اور چھت سنگ مرمر کا تھا۔ اگر بسبب کہنگی کے آب و تاب اولیٰ نہ رکھتا مگر تاہم بہتر اور نقشہ اُس کا مانند
 

اوشو

لائبریرین
(نوٹ: کچھ الفاظ ٹھیک سے پڑھنے میں نہیں آ رہے ان کے ساتھ * لگا دیا ہے تاکہ چیک کرنے میں آسانی رہے۔)



فرہنگ

آرکائیو صفحہ 286

فرہنگ

(الف)

آبادان : آباد
آتش دان : گھریلو آتش دان جو چمنی کی تہہ میں ہوتا ہے۔
آرام گاہ : آرام کی جگہ
آشتی : ملاپ، صلح، صفائی
آگ بگولا : غضب ناک، افروختہ
آلہا : ایک بہادر بادشاہ کا نام جس کا قصہ اکثر عوام برسات میں گاتے ہیں۔
آہنیں : لوہے کا بنا ہوا، مضبوط
ابطال : باطل کرنا، چھوٹا کرنا
ابلق : دورنگا گھوڑا، ایسے گھوڑے کو کہتے ہیں جس کے چاروں پیر سفید ہوں۔
اجلاف : رذیل، کمینے
احتراق : طب کی اصطلاح: اس کو کہتے ہیں کہ حرارت کے سبب سے کسی خلط کے اجزائے لطیف و رقیق فانی ہو جائیں اور مابقی اس طرح کثیف ہو جائیں کہ وہ خلط اپنی جنس سے خارج ہو نہ کر جل کر خاکستر ہو جائے (نور)
احتراقِ بلغم : ایک بیماری کا نام
اختراعی : مصنوعی، گھڑی ہوئی
احتراقِ سودا : پت کی گرمی
اختلال : خلل ڈالنا، خلل پڑنا
اختلالِ حواس : حواس میں فتور آنا
ارزنگ : (ارژنگ) نگار خانہ چین کے ایک مشہور مصورت کا نام
ارکانِ دولت : امیر و وزیر
ارگن : (آرگن)( ایک باجے کا نام
ارم : جنت
از کار رفتہ : بیکار
اژدحام : (ازدحام) لوگوں کی بھیڑ، ہجوم، جماؤ
استادہ : کھڑا ہوا
استسقا : جلندھر، وہ مرض جس میں پیاس بڑھتی جاتی ہے، پیٹ بڑھتا جاتا ہے اور تمام بدن ڈھیلا اور سست ہو کر پھول جاتا ہے۔
استمداد : مدد چاہنا
استہزا : ہنسی، تمسخر
اشراف : شریف کی جمع
اشفاق : مہربانیاں، عنایتیں
اصیل : خاندانی، اچھے نسب والا
اعتلاء : بلند ہونا
اعیانِ سلطنت : امرائے سلطنت
افتادہ : غیر مزروعہ، غیر آباد، بنجر
افتران : نزدیکی، نزدیک ہونا
اقلیم : ملک، آباد زمین کا ساتواں حصہ
-----------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 287

اگاڈی : آگے
الّا : حرفِ استثنا، لیکن، بجز
الاہتمام منی والاہتمام من اللہ تعالی : اہتمام کرنا میرا کام ہے اور اس کو انجام تک پہچانا اللہ کا کام ہے۔
الحانِ داؤدی : حضرت داؤد علیہ السلام چونکہ زبور کو ایسی سُریلی آواز سے پڑھتے تھے کہ چرند و پرند کیا خلقت تک کا ہجوم ہو جاتا تھا اس واسطے نہایت خوش آوازی کے واسطے اس ترکیب کا استعمال ہونے لگا۔ داؤدی سُر
الناس علٰی دین ملوکہم : (عربی کہاوت) عوام اپنے حکمرانوں کے طریق پر چلتے ہیں۔
امتیازی : درباری
امساک : حسّت، کنجوسی، بخل
امساکِ جبّلی : قدرتی خسّت
امصار : مصر کی جمع، شہر
اُنبہ ۔ آنبہ : آم، آم کا درخت
انٹہ بازی : بلیرڈ، اسنوکر
اندارے : (اندارہ) بہت چوڑا اور عمیق کواں جس میں بے انتہا پانی ہو۔ باؤلی
اندام : بدن
اندر کا اکھاڑہ : راجہ اندر کی سبھا جس میں حوریں ناچتی ہیں، وہ محفل جہاں بہت سے اربابِ نشاط ہوں۔ پریوں کا جمگھٹا
اندک : تھوڑا سا، ذرا سا
انگلس : پینشن
اوٹے جوٹے موٹے : معمولی
اورنگ : تخت
اونچان : اونچائی
اونچے : بلندی، فراز، مرتفع، اوپر
اویل : وہیل مچھلی
اہتمامی : بندوست کرنے والا

(ب)
بارِ ثقیل : بھاری بوجھ
بارگیر : بوجھ اٹھانے والا جانور، وہ سوار جس کا ذاتی گھوڑا نہ ہو
باروت : بارود
بالطبع : فطرت یا مزاج کے مطابق
بخیلی : کنجوسی
بدقرینے : برا ڈھنگ، برا طرز، بری روش، برا طور، طریق
برانڈی : ایک قسم کی شراب
برد : بالائی یافت، ناجائز دولت
بردہ فروش : لونڈی، غلاموں کی تجارت کرنے والے، بیچنے والے
برودت : ٹھنڈک، خنکی
بساط بوسی : کسی مقتدر شخص کی خدمت میں حاضر ہو کر زمین بوسی کرنا۔
بگلہ : ایک قسم کی کشتی یا بحری جہاز جو دور سے بگلے کی شکل کا نظر آتا ہے۔
بلا تحاشا : بے درنگ، فوراً، اسی وقت
بلا چاری : بامر مجبوری
-------------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 288

بلّور : کھان سے نکلنے والا چمکدار جوہر، جو نہایت صاف و شفّاف ہوتا ہے، شیشہ
بندگی : پرستش، عبادت
بندوق توڑے دار : وہ بندوق جو فلیتے کے ذریعے چھوڑی جائے۔
بنوا کنڈے : اُپلے
بول و بزار : پیشاب پاخانہ
یوم شوم : منحوس اُلّو
بہتیری : بہت، کئی
بھٹیاری : بھٹیارے کی جورو، سرا میں کھانا بنانے والی
بھوسی : وہ غلّہ کا چھلکا جو آتے میں سے نکلتا ہے
بہرہ : فائدہ
بہ مقتضائے بشریت : انسانیت کے مطابق
بیچوں، بیجگوں : وہ جس کی صفات تک عقل کی رسائی نہ ہو یعنی خدا
بیر : بیئر (شراب کی ایک قسم)
بیشتر : زیادہ تر، اکثر بار ہا
پیشہ : جنگل، بیاباں
بیگاری : بیگار میں کام کرنا، کرنے والا (بیگار : بلا اجرت، جبراً مزدوری کرانا)
بیگانہ وضعی : اجنبی روش یا انداز
بین : وینا : ہندوستان کا نہایت قدیم ساز جس کی آسان اور اصلاح شدہ شکل ستار ہے۔ وینا دو تونبوں پر ایک ڈانڈ لگا کر بنائی جاتی ہے سروں کے اتار چڑھاؤ کے لئے اس میں پردے نہیں ہوتے صرف تار اور تربیں ہوتی ہیں۔ اسے مضراب سے بجاتے ہیں۔

(پ)

پارچہ : ٹکڑا، گوشت کے ٹکڑے
پاڑھے : ہرن کی قسم کی ایک جنگلی جانور، بارہ سنگھا
پالنگی : لنگڑا پن
پائیں باغ : وہ باغیچہ جو محل یا مکان کی چار دیواری کے اندر، محل یا مکان کی سطح سے اونچا ہو۔
پٹاری : چھوٹی ٹوکری جس پر ڈھکن ہوتا ہے۔
پٹکا : کمر بند، کمر کے بیچ کا وہ ڈوپٹہ یا رومال جس کو سپاہی اور سوار کمر سے لپیٹ لیتے ہیں۔
پٹّہ : دستاویز، جو کاشتکار زمیں دار کو کاشت کے متعلق لکھ کر دیتا ہے۔
پُرساں : پوچھنے والا، پرسش کنندہ، فریاد رس
پروانہ : حکم نامہ، شاہی فرمان، اجازت
پری : خوب صورت، اعلٰی درجے کی
پرے : پرا کی محرف صورت (پرا : صف، قطار، غول، گروہ)
پرے سرے : اس پار، پیچھے (مراد بلند)
پلیتا : مروڑی ہوئی روئی، بٹا ہوا کاغذ
پنیا سوت : وہ تالاب جس میں سوت سے پانی آتا ہو
پنی : پونڈ سے منسوب، پونڈ کے وزن والی، رانگ یا پیتل کا ورق
پوتھی : ہندوؤں کی مذہبی کتاب
پوجاپے : پوجنے کے لائق
پوچ و لچر : لغو، بے ہودہ
-------------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 289

پوست و استخواں : کھال اور ہڈیاں
پلیتہ : فتیلہ، توڑا، بتی
پھٹک کھڑے ہونا : ایک طرف کھڑے ہونا
پھریرا : جھنڈے کے اوپر کا کپڑا، جھنڈا
پھلانگ : چھلانگ، ڈگ، زغند، جست
پہلو تہی، پہلو خالی کرنا، چشم پوشی
پھرتی دفعہ : لوٹتے وقت۔ واپس آتے ہوئے
پیادے : ہرکارے، چپراسی، قاضی کی عدالت کا ملازم
پیپے، پیپا : وہ چوبی ظرف جو ڈھول کی قطع کا ہوتا ہے۔
پیش خدمت : زنان خانے میں اوپر کا کام کرنے والی ملازمہ
پیشۂ شبانی : چروائے کا پیشہ (مراد پیغمبروں کا پیشہ)

(ت)

تاراج : لوٹ مار، غارت
تاڑی : تاڑ کا دودھ، جس کے پینے سے نشہ ہوتا ہے۔
تاکیداکید : بہت تاکید
تبر : کلہاڑی کا وضع کا بنا ہوا ہتھیار
تحصیلتے : تحصیل کرنا، حاصل کرنا، وصول کرنا
ترشح : ہلکی پھوار، بوندا باندی، پھوئیاں پڑنا
ترش رو : ناراض، ناخوش، زود رنج
ترئی : بگل
تزئین : آراستگی، آرائش، زینت
تصدیعہ : ایک بار تکلیف دینا
تصّرف : قبضہ، اختیار
تصّرفِ بے جا : غبن، کسی ناجائز طریقے سے تصّرف میں لانا، خورد برد کرنا
تعلیم : کچھ سکھانا
تعلّب : تصّرفِ بے جا، غبن، خیانت
تفاوت : فاصلہ، دوری، فرق
تفویض : سپردگی، تحویل، حوالگی
تقصیر : قصور، خطا، کوتاہی
تکیہ : گورستان، قبرستان، فقیر کے رہنے کی جگہ، فقیر کا گھر
تلنگے : شروع کے زمانے میں انگریزی فوج کے ہندوستانی سپاہی، جو انگریزی وردی پہنتے تھے۔
تمغہ : مہر سلطانی، نشان
تنفّر : نفرت، بیزاری
توام : ساتھ ساتھ، جڑواں
توزک : سامان، آسائش، انتظام، شان و شوکت، قانون قاعدہ، ضابطہ، آئین
تونگر : امیر، دولت مند
تہدید : ڈرنا، دھمکانا، خوف دلانا
تہرے چوہرے : تین چار تہہ کے
تیرت : تیرتھ، زیارت (ہندو) پر جانا، مقدس مقامات جو دریا کے کنارے واقعے ہوں، کی زیارت کرنا

(ٹ)

ٹاپو : جزیرہ
ٹرّہ پن : اکھّڑ پنا، بد مزاجی
ٹھنا : جمنا، جچنا، تہ نشیں ہونا، قرار پانا، ٹھیرنا

(ث)

ثروت : دولت، تونگری
---------------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 290

(ج)

جاڑی : جاڑا، سردی
جذام : کوڑھ
جریدہ : تنہا
جسیم : موٹا
جعلی دار : جالی دار
جماعہ داری : وہ شخص جو چند سپاہیوں کا افسر ہو (جمعدار)
جم جاہ : جم (جمشید) جیسے کرّ و فر والا
جنت الماویٰ : بہشت
جنیو : زنّار، وہ بٹا ہوا دھاگہ جس کو برہمن گلے میں ڈالتے ہیں
جوار : ہمسائیگی، پڑوس
جوائی : روانگی، کوچ، جانے کا عمل
جہاز دودی : دھواں (بھاپ) سے چلنے والا پانی کا جہاز
جھانکل : پرندوں کا جھنڈ
چھبّا : پھندنا، گچھا، سیاہ ابریشم کا پھندنا جو علم پر باندھتے ہیں، پرچم
جہدِ بلیغ : مکمل کوشش
جہت : طرف، جانب، سمت

(چ)

چار چشم : کمال مشتاق، نہایت آرزو مند
چار چند : چوگنا
چاشنی : چکھنے کے موافق کوئی چیز، کسی قدر شیریں و ترش
چاشنی یاب : چاشنی پانے والا
چاق : تر و تازہ، صحیح و درست، چالاک
چانپ : بندوق کا وہ پرزہ جس کے ذریعے ****** سے جڑا رہتا ہے۔
چپک *** : پائپ
چتر : ایک طرح کی بری زرکار چھتری جو بادشاہوں اور امرا کے سر پر لگائی جاتی ہے
چٹھی : کاغذ کا ٹکڑا جس پر قیمت لکھ کر کپڑوں اور تھانوں پر رکھ دیتے ہیں۔
چرمی : چمڑے کا بنا ہوا
چرمینہ : چمڑے کا
چمقاق : آگ نکالنے کی پتھری جو اکثر بندوق پر لگائی جاتی ہے (مراد بندوق)
چکلہ دار : صوبہ دار، ناظم جاگیردار
چلتہ : ذرہ، جو لڑائی کے وقت لوہے کا لباس پہنا کرتے تھے
چمکاری : روشنی
چمگیڈر : چمگاڈر، ایک پرند کا نام جو اکثر چھتوں پر لٹکتا رہتا ہے اور رات کو اڑا کرتا ہے اور جس کو دن کو دکھائی نہیں دیتا۔
چمن پیرا : چمن کو سنوارنے والا، باغبان
چوکا دینا : رسوئی کا لیپنا
چھاڑ : جھاڑ، فانوس
چھوارا : خرما، ایک قسم کی بری اور سوکھی کھجور
چھنال : بد کار عورت، فاحشہ
چھلّا : زمین سے گریس یا تیل کا دھبّہ لگنا، کیچڑ کا داغ
چہلا : کیچڑ کی زمین، وہ زمین جو کیچڑ دلدل سے بھری ہوئی ہو
چیلڑ : ایک قسم کی جوں، جو میلے کپڑوں میں پڑ جاتی ہے۔
-----------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 291

(ح)

حاضری : ناشتہ، تھوڑا سا کھانا جو اس وقت موجود ہو۔
حرام زدگی : حرمزدگی، شرارت، بدمزاقی، فتنہ انگیزی
حرقتِ خون : خون کی گرمی
حریر : ریشم
حریری : حریرہ (اصل) ایک پتلی غذا جو عام طور پر آٹے یا سوجی کو گھی میں بھون کر شکر اور پانی ڈال کر بنائی جاتی ہے
حسنِ یوسفی : یوسف علیہ السلام جیسا حسن، خوبصورت
حشمت : دبدبہ، بزرگی
حَضَر : سفر کے خلاف، ایک جگہ کا قیام
حلم : بردباری، برداشت، تحمل
حلیم : بربار، فروتن، گمبھیر، متحمل مزاج
حمائلِ زریں : گلے میں ڈالنے کی سونے کی چیز، زیور، مالا

(خ)

خارِ آہنی : لوہے کا کانٹا (مراد لنگر)
خاطر : دل (جو کچھ دل میں اترے)
خاوندی : آقا کی مرضی، خدا کی مرضی، خدا کا حکم، بندہ نوازی، پرورش
خبر گیر : نگہبان، محافظ، دستگیر
خدا راہ : اللہ واسطے، راہِ اللہ میں
خُرد : چھوٹا
خرمہرہ : بڑا مہرہ، کوڑی
خسرو، خاور : سورج (پورب کا بادشاہ)
خصومت : دشمنی، عداوت، کینہ
خطا پوش : گناہوں کو چھپانے والا
خلائق : خلق کی جمع، خلقت، مخلوقات
خلد : جنت
خلد اللہ : اللہ کی مخلوق
خلقت : مخلوق، مراد ہے انسان
خُو : عادت، خصلت
خوانِ انعام : انعام کی سینی، طباق، دستر خوان، طشت
خود : لوہے کی گول ٹوپی جو لڑائی کے وقت پہنی جاتی ہے
خوردہ : ریزگاری، جزو (اصل خرُرہ)
خوشتر : انتہائی خوش، انتہائی تسکین بخش
خوشہ : اناج کی بالی، گچھا
خوشۂ پروین : چھ ستاروں کا گچھا جو موسمِ سرما میں سرِ شام نظر آتا ہے
خیر و صلاح : سلامتی اور راے مشورے سے

(د)

دارالامارہ : پایۂ تخت
داغ کرانا : لوہے وغیرہ کی کوئی چیز گرم کر کے اس کا نشان جس کے کسی حصے میں ڈالنا
دام ودد * : جنگلی جانور
درز : شگاف، جھری
درشتی : سختی، بد خلقی
ورماہہ : ماہانہ تنخواہ
دریائے شور : سمندر
دواد وش : دوا اور کوشش مراد ہوتی ہے، دوڑ دھوپ
دست بہ خدا، دعا مانگنا، دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا
----------------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 292

دودی : دھویں والا
دورکابے : رکاب، لوہے کا وہ حلقہ جو گھوڑے کی زین میں دونوں طرف لٹکتا ہے اور سوار اس پر پاؤں رکھ کر گھوڑے پر چڑھتا ہے، دو رکابوں والا گھوڑا
دہ چند : دس گنا
دیدارو : شکیل، صورت شکل کا اچھا، وجیہہ

(ڈ)

ڈال : بغیر جوڑ کے یا بغیر سلائی کے
ڈکیت : ڈاکو
ڈکیتے : ڈکیت
ڈِگتے : روشن، چمکنا
ڈونگی : چھوتی ناؤ، جو بری کشتی یا جہاز کے ساتھ بندھی رہتی ہے
ڈھابلی : مرغوں کے بند کرنے کا ٹاپا، دھابلی
ڈھال : سِپر
ڈھانگر : گہری وادی، دریا کا اونچا کنارا
ڈھرّہ : شارعِ عام، مجاز اروشِ قدیم، کمبل پوش کی مراد پہاڑوں کے سلسلے سے ہے

(ذ)

ذلہ ربا : ذلہ چیں، خوشہ چیں، کسی سے فائدہ یا فیض حاصل کرنے والا

(ر)
راجہ روٹھے نگری راکھے راکھے رام رُسے کت جانداں : راجا روٹھے گا اپنی نگری میں لے گا مگر رام (بھگوان) روٹھے گا تو کہاں جاؤ گے
راست : سیدھا، سچ، ٹھی، موزوں
راست گفتار : صاف اور سچی بات کرنے والا
راست و دروغ بہ گردنِ راوی : سچ اور جھوٹ کہنے والے کے ذمے
رافت : مہربانی
رال : ایک گوند کا سا نباتی مادہ، جس میں آگ جلد اثر کرتی ہے
راہوار : گھوڑا
رتبۂ اتحاد : اتحاد کا مرتبہ
رطوبت : تری
رفاہیت : تن آسانی، نیکی، بھلائی، بہوبودی
رفاہیتِ خلائق : خلق کی بھلائی
رقم : قسم، جنس
رَند : وہ سوراخ جو قلعے کی دیواروں میں اس غرض سے رکھتے ہیں کہ غنیم پر اندر سے بندوق کا فیر کریں۔
رنڈی : عورت
روزینہ : ہر روز کا خرچ جو روز بہ روز ملتا ہے۔
روضۂ رضواں : رضوان کا باغ، جنتِ فردوس
روغن : وارنش، لُک، چمک دمک، آب و تاب
روکشِ بہشتِ بریں : جنت کے مقابل، جنت جیسا
رونّا : تصدیقی پروانہ، ٹکٹ، مال کی روانگی کا پرچہ
ریزش : زکام، نزلہ
رینٹ : گاڑھا پانی جو ناک سے نکلتا ہے۔

(ز)
-------------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 293

زجر : ڈانٹنا، جھڑکنا
زدودہ : پاکیزہ، صاف شدہ
زربفت : سونے کے باریک تانے اور ریشم کے بانے سے بنا ہوا کپڑا، انتہائی قیمتی کپڑا
زر ریزی : زرخیزی
زرنگار : جس پر سنہرا کام کیا گیا ہو، سنہرے نقش و نگار بنائے گئے ہوں۔
زرہ : باریک کڑیوں کا چھوٹی آستین کا فولادی لباس، جسے جنگ کے وقت جسم کی حفاظت کے لیے عام لباس کے اوپر پہنا جاتا ہے
زرینہ : سنہری، سونے کا بنا ہوا
زمرد گوں : زمرد جیسی رنگت والا
زمرے : سنگت، ساتھ، ہمراہی، گروہ
زنبورِ عسل : شہد کی مکھی
زنبورِ سیاہ : کالی بھِڑ
زیبا طلعت : خوب صورت چہرہ
زیب پذیر : خوبی والا، سجا ہوا
زین : چار جامہ، گھوڑے کا لباس، کجاوہ

(س)

سابقے : اگلے، پہلے
سات سنگار : عورتوں کی آرائشیں، سرمہ لگانا، مہندی لگانا، پان کھانا، مسّی لگانا، سر گوندھنا، زیور پہننا، افشاں لگانا، چوڑیاں پہننا
سارجن : سارجنٹ
ساقِ بلوریں : شیشے کی طرح صاف پنڈلی
سالیانہ : وہ رقم جو سالانہ کسی کو ملے
سائلِ نان طلب : فقیر، روٹی مانگنے والا فقیر
سبزہ : کسی قدر سیاہی مائل سفید رنگ گھوڑا، یعنی سفیدی میں میلا پن ہو۔ عام طور پر بد رنگ سمجھا جاتا ہے۔
سبکباری : ہلکا بوجھ، کنایتاً اکیلا، فارغ البال
سدِّ آہنی : لوہے کی دیوار
سرخاب : ایک آبی پرندے کا نام
سرخاب کا پر لگنا : دولت پر مغرور ہونا، شان و شوکت میں کسی کو اپنے برابر نہ سمجھنا، کوئی عجیب یا انوکھی بات ہونا
سرفراز : عزت، عزت دینا
سرو : ایک سیدھا لمبا، سوئی کی نوکیلی پتیوں والا مخروطی شکل کا درخت
سروِ سہی : وہ سرو جس کی شاخیں اوپر کو چلی گئی ہوں
سریانی : ملکِ شام کی قدیم زبان
سریع السیر : تیز چلنے والا
سریع الانتقال : جلد منتقل ہونے والا
سزاوارِ نفریں : نفرت کے لائق
سڑیل : غلیظ، گندا، متعفّن
سقم : عیب، نقص، خرابی
سلاح خانہ : ہتھیار خانہ، وہ مکان جہاں ہتھیار رکھے ہوں
سُم : گھوڑے یا کسی بھی چوپائے کے کھُر
سمند : گھوڑا
سنگِ کوہ : پہاڑ کا پتھر
سنگی : پتھر کی
سنگستان : پہاڑ، جہاں نرے پہاڑ ہوں
-------------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 294

سہیم : شریک، حصہ دار
سیاحان : سیر کرنے والے
سیسر : کمان کا وہ فیتہ جس میں تیر رکھ کر کمان کھینچتے ہیں اور تیر چلاتے ہیں۔ فیتہ

(ش)

شاخوں آہنی : لیمپ پوسٹ، کھمبے
شادیانے : خوشی، مبارک باد کے گیت، خوشی کے باجے
شاستر : کسی دیوتا یا منی کا بنایا ہوا گرنتھ، پستک، پوتھی، ویدانت، قانون، آئین، شرع، کتابِ عقائدِ ہنود
شالی : شال کے کپڑے کا
شام پین : شیمپئین، ایک قسم کی شراب
شب باش : رات کو رہنا
شبھہ، شبھا : شک کرنا
شبیہہ : مانند، مشابہ، تصویر
شتربان : اونٹ کا نگہبان، ساربان، اونٹ والا
شطرنجی : بغیر روئیں کا خالص سوتی، دونوں طرف سے یکساں، دری کی وضع پر تیار کیا ہوا قالین
شعلۂ جوالہ : گردا گرد پھرنے والا شعلہ، اگن چرخ
شقاوت : نحوست، بدبختی، سختی، سنگ دلی
شکیل : خوب صورت
شمّہ : تھوڑا، قلیل مقدار، بہت کم مقدار میں، ذرا سا
شنوا : سننے والا
شوریت : کھاری پن
شہتیر : بڑی کڑی
شیشہ : بوتل، مینا
شیشہ آلات : روشنی کا سامان
شیشۂ ساعت : ریت گھڑی، دونوں طرف شیشے کی چمنیاں * بیچ میں نلی جڑی ہوتی ہے ایک طرف بالو بھری ہوتی ہے۔ جو ایک باریک سوراخ سے ذرا ذرا کر کے ایک گھنٹے میں پوری گر جاتی ہے۔ اس سے گھنٹے کا حساب کرتے ہیں۔ اسے بالو گھری بھی کہتے ہیں۔
شیفتگی : حیرانی، فریفتہ

(ص)

صالحہ : نیک بخت، نکوکار عورت
صانعِ بے چوں : خدا
صباح : سویرا، تڑکا، صبح
صبوحی : وہ شراب جو صبح کو پی جائے
صحبتِ برآر : صحبت کا موافق ہونا، دوستی نبھانا
صدق بیان : سچ بولنے والا
صریح : ظاہر، آشکارا
صلب : خاندانی، بزرگی، حسب و شرفِ آبائی، نسل، نطفہ
صناعی : کاریگری، دستکاری، فن کی مہارت
صیقل : جِلا، صفائی
طینت : سرشت، خُو، عادت

(ض)

ضعیف البنیان : جس کی بنیاد کمزور ہو، عموماً انسان کے لیے بطور صفت آ جاوے
-------------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 295

طباق : بری کرابی، تھالی، تسلا
طبائع : طبیعت کی جمع، طبیعت: مزاج، خو، عادت
طراوت : تازگی، شادابی
طراوت افزا : ٹھنڈک پہنچانے والا
طُرّہ : انوکھی بات، بڑھ کر ہونا
طلائی : سونے کا
طلبی : بلاوا
طیّار : آمادہ، مستعد، کام کے قابل

(ع)

عاصی پُر معاصی : گناہ گار
عامل : کارندہ، اہلکار، سرکاری ملازم، شاہی عہدے دار
عبرانی : بنی اسرائیل کی زبان، رسمِ خط
عذر نیوش : عذر (معافی) سننے والا
عزیمت : ارادہ
عسرت : مفلسی، غریبی، نادانی، بےزری
عسس : کوتوال
عشر عشیر : دسویں حصے کا دسواں حصہ، کنایتاً ذرا سا، رتی بھر
عفونت : بدبو، گندگی
عفیفہ : پاک دامن، پارسا عورت
علانیہ : ظاہرا، کھلم کھلا
علم کرنا : بلند کرنا، اونچا کرنا، کھڑا کرنا
علی الصباح : صبح کے وقت
عناد : دشمنی، مخالفت
عنان : لگام، باگ دوڑ
عود : ایک قسم کی سیاہ لکڑی جو آگ میں جل کر عمدہ خوشبو دیتی ہے، اسے اگر بھی کہتے ہیں۔

(غ)

غرقی : ایک قسم کی کم عرض لنگوٹی
غیرت دہِ کارنامۂ ارژنگ : جس پر ارژنگ کے کارنامے بھی رشک کریں

(ف)

فاصلہ : منزل کرنا، ایک پڑاؤ کا راستہ چلنا
فانوس : ایک طرح کا شمع دان، بڑی قندیل
فائز : کسی بلند درجے پر پہنچا ہوا، بامراد، کامیاب
فائزِ ملاقات : ملاقات کرنے میں کامیاب ہوا یعنی ملاقات ہوئی
فبہا : تو بہتر ہے، ٹھیک ہے، بس بہت مناسب، بس یہی مدعا ہے
فتق : فوتوں کے ایک مرض کا نام
فربہ : موٹا
فربہی : موٹاپا
فرحت : خوشی، شادمانی
فرطِ دوستی : دوستی کی افراط یا شدت
فسیح الفضا : فراغ فضا والا
فلک پیوند : آسمان سے جڑا ہوا، بلند و بالا
فلک توامان : آسمان جیسا، بلند و بالا
فیل پائی : ایک مرض کا نام جس میں پاؤں ہاتھی کے پاؤں کی مانند سوج جاتے ہیں۔
--------------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 296

(ق)

قابلِ تعزیر : سزا کے لایق، سزا کا حقدار
قابو پانا : قدرت پانا، اختیار پانا، موقع پانا
قاز : ایک پرند کا نام
قاقم : نیولے کے خاندان کا نہایت نرم اور سفید بالوں والا سنجاب کی قسم کا جانور، جس کی کھال پوستین بنانے کے کام آتی ہے۔ بہت گرم ہوتی ہے۔
قال و مقال : بات چیت
قالیچہ : چھوٹا قالین
قبض : قابو، بس
قدرتِ صانع : بنانے والے کی قدرت
قدم باز : خوش رفتار، تیر رفتار
قدوم میمنت لزوم : برکت سے بھرا ہوا آنا، تشریف آوری
قسائی : گوشت فروش
قطعۂ خط : خط کا ٹکڑا
قلزم : دریا
قلع و قمع : اکھاڑ پچھاڑ، توڑ پھوڑ، مسمار کرنا
قلیاں : حقّہ
قمار بازی : جوا
قواعد : سپاہیوں کی ورزش
قہرِ درویش بجانِ درویش : غریب کا غصہ اپنے ہی اوپر اترتا ہے۔

(ک)

کاٹ : لکڑی
کاردان : واقف کار، تجربے کار
کاشف : کھولنے والا، ظاہر کرنے والا
کاوا : گھوڑے کو سدھانے کے لیے ایک مقرر دائرے میں اس کو چکر یا پھیرے دینا
کاہن : غیب کی باتیں بتانے والا
کباب کرنا : سوختہ کرنا، بھوننا
کبک : چکور
کّپی : تانبے یا پیتل کا ظرف جس میں بارود رکھتے ہیں
کتخدا : (کدخدا) شادی شدہ
کثیف : میلا، گندا، گدلا، لطیف کی ضد
کثیف پوش : گندا لباس پہننے والا
کریۂ الہییت : بری ہئیت والا
کسالت : کاہل ہونا، سستی
کشتی : ایک مستطیل تختہ لکڑی کا جس کے چاروں طرف چار لکڑیاں مثل کگر کے جڑی ہوتی ہیں تاکہ جو شے اس میں رکھی جائے وہ گر نہ پڑے۔
کشور کشائی : بادشاہی
کَل : مشین، پرزہ
کل امر مرہون باوقاتہا : ہر کام کا وقت مقرر ہے
کلمۃ الخیر : نیک بات، نیک صلاح
کما ینبغی : حسبِ اطمینان، بخوبی، جیسا کہ چاہیے (اکرام)
کمخواب : ایک عمدہ ریشمی کپڑا
کمیت : سیاہی مائل سرخ رنگ کا گھوڑا
کمیس : قمیص
کنجڑیاں : سبزی فروخت کرنے والی عورتیں
کنکریلی : کنکر ملی ہوئی، کرکری
-------------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 297

کنگرہ : کسی چیز کی بلندی کا سرا، بلند ترین مقام
کّنی کاٹنا : کترانا
کوتاہ اندیش : کم عقل، کم فہم
کوتوالی چبوترے : وہ مقام جہاں مختلف قسم کے نزاعات پیش ہوا کرتے تھے۔
کوچ : ایک قسم کا پلنگ، ایک قسم کی کرسی جس پر کئی آدمی بیٹھ سکتے ہیں اور ایک آدمی لیٹ سکتا ہے، صوفہ
کوچوان : گھوڑا گھاڑی چلانے والا
کوچۂ ضلالت : گمراہی کی گلی
کوڑی : ایک قسم کا چھوٹا سنکھ جو خرید و فروخت میں ادنیٰ سکے کا کام دیتا تھا
کوکا : بجانا، باجوں کا سر ملانا
کوہِ بے ستوں : ایران کا وہ مشہور پہاڑ جس کی وادی میں خسرو پرویز کا محل تھا اور فرہاد سے اسی پہاڑ کو کاٹ کر شیریں کے لیے دودھ کی نہر نکالنے کے لیے کہا گیا تھا۔ یہ پہاڑ ہمدان اور حلوان کے درمیان ہے۔
کھِجڑے : گودی، بندرگارہ (متروک) حوالہ : ہندی شبد ساگر پرچارنی سبھا، بنارس

(گ)

گڈھی : چھوٹا قلعہ
گرز : ایک ہتھیار کا نام جو اوپر سے گول موٹا اور نیچے سے پتلا ہوتا ہے اور دشمن کے سر پر مارنے میں کام آتا ہے۔
گُل : لیمپ وغیرہ کی بتی کے جلے ہوئے سرے پر جما ہوا کاجل
گماشتہ : کارندہ، ایجینٹ، وہ ملازم جس کے سپرد لین دین اور تجارت سے متعلقہ کوئی خاص کام دیا گیا ہو۔
گو سالہ : گائے کا ایک سال کا بچہ، بچھڑا
گون : بیلوں پر لادنے کی بوری، جو دو رخی ہوتی ہے۔ دونوں طرف منہ ہوتا ہے اور دونوں طرف سے منہ بند کیا جاتا ہے۔

(ل)

لاطائل : بے فائدہ، لا حاصل
لاکن : لیکن
لاکھ : درختوں کا گوند جسے زمانۂ قدیم سے خطوں وغیرہ کو سیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے (نور)
لاؤبالی : لا اُبالی (اصل) میں پرواہ نہیں کرتا، بے پروا، بیباک
لجاجت : خوشامد، منّت، سماجت
لحظہ : پل، لمحہ
لذّات : لذّت کی جمع، مزہ، ذائقہ، سواد
لطائف الحیل : طرح طرح کے حیلے بہانے جو دوسروں کو ناگوار گزرتے ہوں۔
لمبر : نمبر
لنبی : لمبی
لنج : لنجا، وہ شخص جس کے ہاتھ کی انگلیاں ٹیڑھی ہوں، جس کی وجہ سے اس کے پنجے سے کوئی کام نہ ہو سکے۔
لنگوٹی غرقی : نیچے پہننے والی لنگوٹی
لہو و لعب : کھیل کود، تفریح کے کام، سیر تماشا
لئیق : یہ لفظ عربی نہیں ہے، لائق سے بگاڑ کر بنا لیا ہے۔ فصحا اس جگہ لائق بولتے ہیں۔ لائق: قابل، قابلیت رکھنے والا، موزوں، زیبا
----------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 298

(م)

ماندگی : تھکاوٹ، خستگی
مانع : اسم: منع کرنے والا، روکنے والا، فعل: مزاحم ہونا، معترض ہونا، روکنا
ماہی پشت : قبّہ دار، گنبدی، محدّب
مبرور : گناہوں سے بری کیا گیا، جنتی، مرحوم و مغفور
متحیر : حیرت زدہ، ہکا بکا
متردد : فکر مند، متفکر، مضطرب، پریشان
متصدی : پیشکار، دفتری، حساب کتاب رکھنے والا، منیم، گماشتہ
متضّمن : شامل کرنا، مشتمل
متکّفل : ضامن کفیل، ذمہ دار
متلاشی : تلاش کرنے والا، ڈھونڈنے ولا
متنبہ : ہوشیار، چوکس
متوسل : وسیلہ ڈھونڈنے والا، نزدیکی ڈھونڈنے ولا
مُجدّد : تجدید کرنے والا، پرانے کو نیا کرنے، ایجاد کرنے والا
محافظت : حفاظت، پاسبانی، رکھوالی
محروسہ : نگہبانی کیا گیا، ماتحت کیا گیا
محصول : ٹیکس
محظوظ : خوش، خرم، مگن، شادمانی، باغ باغ
محنت شائقہ : سخت محنت، دشوار کام
مخفی : پوشیدہ، چھپا ہوا
مدّتہا : زمانۂ دراز سے
مدوّر : گول، دائرہ نما
مردِ خود نما : مغرور شخص، متکبر
مردک : حقیر آدمی، کلمۂ حقارت جو گالی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
مرضی مولٰی از ہمہ اولٰی : ہر ایک امر میں خدا کی رضا پر راضی رہنا چاہیے۔ (انسان بے بس ہے)
مرفّہ الحال : خوش حال، دولت مند
مژدۂ طرب افزا : خوش خبری
مساس : ہاتھ سے ملنا، جماع کرنا
مستثنیٰ : الگ کیا گیا، چنا گیا
مستفسر : استفسار کرنے والا، پوچھنے والا
مستحکم بنیان : پائدار، مضبوط، سخت
مسدود : رکا ہوا
مستول : بادبان
مشبک : جس میں بارک سوراخ ہوں
مَشک : پانی بھرنے کی کھال، چھاگل، وہ بکری کی سلی ہوئی کھال جس میں سقّے پانی بھرتے ہیں۔
مشکیزہ : چھوٹی مشک
مشعل چیں: مشعل جلانے والا
مصالح : عمارت کے ضروریات جیسے چونا اور لکڑی اور اینٹ وغیرہ، چونے گارے وغیرہ کا آمیزہ جو عمارت بنانے کے کام آتا ہے۔
مضرت : ضرر، نقصان پہنچانا
مطلّا : سونےکا ملمع کیا ہوا، سونے کا پانی چڑھا ہوا
مطلع : طلوع ہونے کی جگہ
معتمد : جس پر بھروسہ کیا جائے، اعتماد کیا جائے
معطوف : پھیرا گیا، لپٹا ہوا
------------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 299

مفاصلہ : باہمی فرق، بُعد، دوری، مسافت
مفسدہ : جھگڑا، فساد
مفقود : غائب، کھویا ہوا
مقتدیٰ : امام، پیشوا، رہنما
مقدور : طاقت، مجال، شکتی
مقدمہ : مسئلہ، واقعہ، فریاد، دعویٰ
مقیّد : قید کیا گیا، اسیر، قیدی
مقیّش : سونے چاندی کے تاروں کا بُنا ہوا کپڑا، زری
ملازمت : ملاقات، حاضر باشی
ملایمت : نرمی، نزاکت
ملتفت : توجہ کرنے والا
منزل : اترنے کی جگہ، ٹھہرنے کی جگہ، پڑاؤ
منعمِ حقیقی : نعمت دینے والا، مراد خدا
منفعت : نفع، سود، فائدہ
منکر نکیر : وہ دو فرشتے جو قبر میں مردوں سے سوال کرتے ہیں
مواخذہ : جواب دہ، ذمہ دار
مواضع : گاؤں
موانع : رکاوٹیں
موذی : ایذا دینے والا
موہن بھوگ : پرساد
مونگا : مرجاں، حجر البحر، ایک قسم کا درخت جو سمندر میں پیدا ہوتا ہے اور بنات و سنگ کے درمیان خیال کیا جاتا ہے۔ لہذا لوگ اس کی مالا بناتے ہیں اور نو رتنوں میں سے ایک رتن مانتے ہیں۔
مہا پرش : دھرماتما، بھگت، مہاتما، ولی، مقدس
مہتاب : ایک قسم کی آتش بازی جس کے روشن کرنے سے چاندنی سی پھیل جاتی ہے۔
میل کوچ : ڈاک گاڑی
میمنت لزوم : برکت یا سعادت لازم ہونا
میمنت مانوس : جانی پہچانی سعادت
(ن)

ناپیدا کنار : جس کا کنارہ نظر نہ آئے، بہت بڑا
نا خدا : کشتی چلانے والا، ملاح، جہاز کا معلم
ناعاقبت بیں : بات کا انجام نہ سوچنے والا، کوتہ اندیش
نامدار : مشہور، نامی، نامور
نجار : بڑھئی
نحافت : لاغری، دبلا پن
نصائح : نصیحت کی جمع، پند، سیکھ، بھلے کی بات
نفسانیت : خود غرضی، غرور، نخوت
نقرہ : چاندی
نگراں : دیکھنے والا، پاسبان، محافظ
نمود : ظاہر ہوا
ننگ و ناموس : لحاظ و شرم، عزت و حرمت، عصمت و عفت
نوچی : بازی عورتوں کی لونڈی یا بیٹی جس سے وہ کسب کموا کر کھاتی ہیں۔
نودسالہ : نوے سال کا، بہت بوڑھا
نوشتہ مہری : لکھا ہوا، قلمی، مہر لگی ہوئی دستاویز،
نہج : طریق، طور، ڈھنگ
----------------------------------------------------------

آرکائیو صفحہ 300

(و)

والا شان : بڑی شان والا
واماندہ : پس ماندہ، باقی اور قائم رہا ہوا، عاجز
وحید : یگانہ، تنہا، اکیلا
وگر نہیں : اور اگر نہیں
وضع : انداز، طور، طریق، روش
وضیع : ادنیٰ، کمینہ
وضیع و شریف : اچھے برے، اعلیٰ ادنیٰ، شریف اور کمینے لوگ
ولایت : آباد ملک، دیس، اقلیم، ملکِ غیر، ایک بادشاہ کی حکومت، بادشاہت
وو : وہ کی جمع، وے
وین : وائن

(ہ)

ہتکھنڈا : چالاکی، ہاتھ کا کرتب، فریب کو سمجھ نہ پانا
ہٹ : ضد
ہراس : خوف، ڈر، ہول
ہرچہ بر خود نہ پسندی بدیگرے مپسند : جو کچھ تمہیں اپنے لیے پسند نہ ہو اسے دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو۔
ہر ملکے و ہر رسمے : ہر جگہ کا چلن جدا ہوتا ہے۔
ہریسہ : ایک طرح کی حلیم، جو گیہوں کے آٹے، گوشت کی یخنی اور دودھ سے پکایا جاتا ہے۔
ہفت اقلیم : سات ولایتیں، پرانی تقسیم کے مطابق دنیا کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر حصہ اقلیم تھا۔ ہفت اقلیم سے مراد ہوتی ہے ساری دنیا۔
ہمتا : برابر، مثل، نظیر
ہنڈولا : جھولا، گہوارا
ہویدا : ظاہر، آشکارا، روشن
ہیکل : وہ بت جو کسی سیارے کے نام پر بنایا جائے، بت خانہ

(ی)

یاوری : مدد، دستگیری، سہارا
یغما : مالِ غنیمت، لوٹ کا مال
یکتائے آفاق : ساری دنیا میں بے نظیر، نرالا
-----------------------------------------------------
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 166
صاحب چھوٹے صاحب کے نام پر لایا تھا۔ دونوں صاحبوں کو لے جا کر دکھلائیں۔ اُنہوں نے کمال اخلاق اور عنایت سے پیش آکر یہ باتیں کہیں کہ ہم کو شاہ اودھ کی فوج میں سفارش کرنے کا اختیار نہیں۔ مہربانی زبانی اُن کی سے شکر گذرا ہوا۔ اگرچہ خوبیٔ ایّام سے کچھ بھی نہ اجرائے کار ہوا۔ میں نے یہ حال کپتان مینگنس صاحب سے کہہ کر رخصت ہونے کا قصد کیا۔ اُنہوں نے اپنے مکان کے نزدیک ایک مکان کرایہ کا میرے رہنے کے لیے ٹھہرا دیا اور جدا ہونا میرا ہر گز گوارا نہ کیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد تدبیر کر کے سرکار شاہی میں عرضداشت کی اور اسامی قدیمی بحال کروائی۔ یعنی اپنے ہمراہی رسالہ سواروں اور توپ خانہ کی صوبہ داری دی کھانے میں اپنے ساتھ شریک رکھا۔ چنانچہ آج تک وہی طور چلا آتا ہے کہ بندہ انہیں کے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ کپتان صاحب نے جس قدر عنایت میرے حال پر فرمائی زبان طاقت نہیں رکھتی ہے۔ اس کی شکر گذاری کی ۔ جب تک جیوں گا اُن کا احسان مند رہوں گا۔ ان دنوں ڈاکٹر کاربائن صاحب نے ازراہ اشفاق چھٹی سفارش میری کی افسران فوج انگریزی کے نام پر میرے پاس لکھ بھیجی تھی کہ اگر تم کو منظور ہو اُن کے پاس جاؤ۔ پلٹن انگریزی میں جو قندھار جاتی ہے۔ تمہاری نوکری ضرور ہو جاوے گی۔ بندہ فقط پابندی مہربانیوں کپتان صاحب موصوف کی سے وہاں جانے سے باز رہا۔ ورنہ بے شبہہ و شک وہاں جاتا۔ اس شہر میں جتنے صاحب لوگ رہتے ہیں میرے اوپر کمال شفقت فرماتے ہیں ۔ چنانچہ جس دن بڑے صاحب اور چھوٹے صاحب یعنی کا لفیلڈ صاحب اور دلکی صاحب اس شہر میں آئے تھے۔ شاہزادہ ولی عہد صاحب عالم بہادر ثریاّ جاہ اُن کے استقبال کو تھوڑی دور تک گئے تھے۔ بندہ بھی ہمراہ رکاب ظفر انتساب تھا۔ دلکی صاحب نے راہ میں نظر عنایت سے میری طرف دیکھا۔ جب آ کر اپنی کوٹھی میں داخل ہوئے اور کاروبار ضروری سے فراغت کر چکے۔ میری یاد فرمائی اور بلا کر بہت سی مہربانی کے بعد اس کے بڑے

صفحہ167
صاحب سے میرا ذکر کیا۔ اپنے ساتھ لے جا کر مشرف ملازمت کروایا۔ بڑے صاحب نے بھی قدردانی کی۔ بمقتضائے ریاست قر ب بساط بوسی سے عزت دی۔ بندہ گاہ گاہ اب بھی دلکی صاحب اور کا لفیلڈ صاحب کے پاس جاتا ہے۔ ووہی عنایت ِ سابقہ اپنے حال پر مبذول پاتا ہے۔ جب سے کا لفیلڈ صاحب اس ملک میں آئے۔ مزاج محمد علی شاہ بادشاہ اودھ کا انتظام ِ ملکی پر مصروف کر لائے ہیں ۔
نصیرالدین حیدر جو سابق یہاں کے تخت نشین تھے۔ روانہ خلدِ بریں ہو کر دریا پار کی کر بلائے نو تعمیر میں مدفون ہوئے۔ میں ان کا نمک خوار و خدمت گزار تھا۔ نہایت ملول ہو کر اُن کے مقبرے پر گیا۔ دیکھا کہ بجائے فرش حریر و ریشم کے فرش زمین خوابگاہ ہوا اور جسم نازک ان کا جو پھولوں کا ہار بار جانتا۔ ہزاروں من اینٹ پتھر کے نیچے دبا۔ کوئی رفیقوں اور جلسہ والوں سے پاس نہ رہا۔ دنیا عجیب مقام ہے کبھی اوج کمال پر پہونچاتی ہے ، کبھی خاک میں ملاتی ہے۔ ایک دن وہ تھا کہ وہ حضرت ِ خلد منزل تختِ سلطنت ہندوستان پر جلوہ فرما تھے۔ نوکر اور خدمت گزار حسب مراتب اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے ہو کر تسلیمات بجا لاتے۔ رنڈیاں ناچنے گانے والیاں الحان ِ داؤدی اور حسن ِ یوسفی سے دل تماشائیوں کا پھسلاتیں ۔ جام طلائی و نقرئی میں شراب بھر بھر کر اہل محفل کو بطور دور پلاتیں وہ خود بدولت کمال عیش و عشرت سے زرریزی میں مشغول ہوتے۔ فقرا اور مساکین کو دفعتہً تونگر کر دیتے۔ کوئی ہندوستانیوں سے باقی نہ رہا کہ ذلہ ربائے خوان ِ انعام شاہ خلد آرامگاہ کا نہ ہوا۔ کوئی اہل ِ علم و کمال اس اقلیم میں نہ آیا کہ قدردانی اُس مغفور مبرور سے ترقی مدارج پر نہ پہونچا۔ زندگی میں وہ حال تھا۔ آج یہ ماجرا نظر آیا کہ جنبشِ دست و پا کی طاقت نہیں رکھتے ہیں ۔ مثل خزانہ تہ ِ خاک و خشت دبے ہیں ۔ بندہ شاہ سلیمان جاہ کا مقبرہ اور حال بے کسی ان کی کا دیکھ کر سخت ملول ہوا اور دیر تک سرہانے قبر کے کھڑے ہو کر روتا رہا۔ حال وفات ان

صفحہ168
کی کا اس طرح سنا کہ نمک حراموں نے زہر پلا کر مارا۔ (۱) افسوس صد افسوس ان کم بختوں نے غضب کیا کہ ایسے بادشاہ ِ فیاض کو یوں برباد کیا۔
بعد انتقال ان کےکے مرزا فریدوں بخت عرف منا جان جو اپنے تئیں صلبِ شاہِ خلد آرام گاہ سے جانتے تھے اور شاہ سلیمان جاہ حالت حیات اپنی میں نوشتہ مہری اپنا متضمن ابطال دعوی ٰ فرزندی ٰ اُن کی کاسرکار کمپنی میں بھجوا چکے تھے ۔ (۲) بے اجازت بڑے صاحب کی آ کر تخت سلطنت پر بیٹھے اور اپنے طور پر معروفِ نظم و نسق ہوئے۔ بڑے صاحب یعنی کرنیل لو صاحب نے کہا تم کو نہیں مناسب تخت پر بیٹھنا۔ اس لیے کہ تم بموجب نوشتہ شاہ ِ مغفور کے ان کے نطفہ سے نہیں ثابت ہوتے ہو۔ پس ارادہ سلطنت کا کس دعوے سے رکھتے ہو۔ بہتر یہ ہے کہ اس خیال سے باز آؤ۔ خیریت سے اپنے گھر جاؤ۔ نہیں تو بعد دو گھڑی کے گرفتار ہو گے ، نہایت ذلیل و خوار ہو گے۔ مرزا فریدوں بخت نے کہنا بڑے صاحب کا نہ جانا اور اپنے تئیں مستحقِ سلطنت جانا ۔ لاچار بڑے صاحب نے اپنی ہمراہی پلٹنوں اور توپ خانہ کو حکم دیا۔ یکایک گولی اور گولہ برسنے لگا۔ مصطفی ٰ خان قندھاری رسالہ دار اسی جھگڑے میں مارے گئے اور بہت لوگ ناحق مفت کام آئے۔ تختِ زرنگار اجلاسِ شہر یار گولے توپ سے پرزے پرزے ہوا۔ فریدوں بخت مع بادشاہ بیگم دادی اپنی کے گرفتار ہو آیا۔ بعد اس کے لو صاحب نے بموجبِ حکم ِ شہنشاہ انگلستان نصیرالدولہ بہادر کو تخت سلطنت پر بٹھلایا۔ تمام اختیار امورِ سلطنت کا اُن کو دیا۔ چنانچہ یہاں کے اب وہی فرماں روا ہیں۔ صاحبِ سکّہ دلواہیں۔ کسی نے سکّہ اُن کا یوں کہا۔ بندہ نے یادداشت کے لیے اس رسالہ میں لکھا فرد:
بہ جو د و کرم سکہ زد در جہاں
محمد علی بادشاہ زماں

صفحہ169
محمد علی شاہ نے ابتدائے جلوس اپنے سے روشن الدولہ نائب شاہ خلد منزل کو عہدۂ نیابت سے معزول کیا اور سبحان علی خان کمبو مشیر اُس کے کو بسبب مفسدی طینت اس کی کے مع اہل و عیال گنگا پار کر دیا۔ حکیم مہدی علی خان منتظم الدولہ بہادر کو فرخ آباد سے بلا کر بجائے روشن الدولہ کے عہدۂ وزارت پر سرفراز کیا۔ چند روز خان مسطور نے نہایت خوش سلیقگی سے کاروبارِ وزارت نباہا۔ پر افسوس اجل نے مہلت نہ دی۔ تھوڑے دنوں کے بعد قضا کی۔ بعد اُن کے بھتیجے اُن کے منور الدولہ بہادر نے خلعتِ نیابت سے سربلندی پائی اپنے چچا کے طور پر انہوں نے بھی یہی خدمت انجام دی۔ اگرچہ مقلد مجتہد کے مثل نہیں ہو سکتا۔ الااثر اس کا کچھ آ جاتا ہے۔ اسی طرح ان دنوں منور الدولہ اگرچہ مستعد رہتے ہیں ۔ پر اجرائے کار میں اپنے چچا کو نہیں پہونچتے ہیں ۔ عظیم اللہ خان جو قدیم سے رفیق شاہ حال تھے۔ ابتدائے تخت نشینی شاہ زمان سے مالا مال اور نہال ہوے۔ داروغگی دیوان خانہ ٔ سلطانی کی انہیں کے نام ہے۔ سوا اُس کے اور کار خانجات کا انہیں کے حوالہ سرانجام ہے۔ بادشاہ کے مزاج میں نہایت دخل رکھتے ہیں ۔ جلوت و خلوت میں باریاب ہوتے ہیں ۔ جب سے محمد علی شاہ نے تخت سلطنت پر اجلاس فرمایا ہے۔ رومی دروازے کے سامنے دولت خانہ میں ایک امام باڑہ قبر اپنی کا اور مسجد اور دروازہ ، جواب رومی دروازے کا اور دوکانیں اور بازار بطور امام باڑہ اور مکانات آصف الدولہ بہادر کے بنوایا ہے اور اب تک بنتا جاتا ہے۔ اگر چہ امام باڑہ ٔ آصف الدولہ کو نہیں پہونچتا ہے۔ مگر تاہم قابل تماشا ہے اور بہت بلکہ اور سب عمارتوں اس شہر سے نفیس بنا ہے۔ عمارت عالی شان رکھتا ہے۔ آگے اس مقام کا نام جمنیا باغ تھا۔ اب بسبب بننے امام باڑہ کے خطاب اُس کا حسین آباد ہوا۔ بڑے صاحب کی کوٹھی مقام بیلی گارد اور دولت خانہ بادشاہی سے حسین آباد تلک سڑک وسیع بنی ہے۔ ایسی ہمواراور درست ہوئی کہ اندھا بھی اُس پر بے تکلف دوڑتا چلا جائے۔ کہیں ٹھوکر نہ کھائے۔ دو طرفہ

صفحہ170
راہ میں دو دو تین تین گز کے فاصلہ پر لکڑیاں گڑی ہیں۔ رات کو اُن پر لالٹینیں روشن ہوتی ہیں اور راہوں کی درستی کا بھی حکم ہوا ہے۔ جابجا رستہ بنتا جاتا ہے چنانچہ لکھنؤ سے شاہجہان پو ر تک سڑک بنتی آتی ہے۔ تھوڑے دنوں میں لائق آمدورفت بگھیوں کے ہوئی جاتی ہے۔ غرض کہ مزاج بادشاہ کا ہر صورت سے رعایا پروری پر مصروف ہے اور عنان عزیمت کی رفاہیت خلائق پر معطوف۔ گرفتاری رہزنوں اور قزاقوں اور کھود ڈالنے گڈھی زمینداروں سرکشوں کے لیے بہ تاکید ِ اکید حکم دیا ہے۔ بموجبِ حکم محکم قزاق ہر شہر سے پکڑے آتے ہیں اور قلع وقمع گڈھیوں کا ہوتا ہے۔ ان دنوں بندہ بھی دو تین دفعہ ہمراہ کپتان منگنس صاحب اورر اجہ درسن سنگہ غالب جنگ کی زمینداروں اور رہزنوں کے پکڑنے کو گیا تھا۔ ایک دن موضع سریان میں گڈھی کھودنے اور گرفتاری امام بخش زمیندار کے واسطے گیا۔ دیکھا کہ گڈھی بہت مضبوط بنی۔ گرد اُس کے چاروں طرف خندق گہری کھدی۔ ہر سمت اس کے جنگلا تھا ۔ دیکھنے والے کا دم رکتا۔ اُس گڈھی میں آٹھ سو آدمی بندوقچی تھے۔ ملازم بادشاہی اُس کی گرفتاری کو تین ہزار آدمی مع دس ضرب توپوں کے گئے۔ بعضے عاقلوں اور بھائیوں اُس کے نے اُس کو سمجھایا کہ تو لڑائی سے باز آ۔ مقابلہ فوج بادشاہی نہ کر سکے گا۔ اُس کوتاہ اندیش نے ہرگز نہ مانا۔ ہمراہی اُس کے سب گڈھی سے نکل گئے۔ فقط سولہ آدمی امام بخش کے ساتھ گڈھی میں رہ کر گولیاں مارتے۔ ادھر سے تین ہزار آدمی مستعد تھے۔ اُن کے سوا دس ضرب توپ کے گولے پڑتے۔ آخر وہ سولہ آدمی اما م بخش سمیت مارے گئے اور فوج بادشاہی سے دو آدمی کام آئے اور کتنے زخمی ہوئے۔ حق یہ ہے کہ گڈھی والوں نے بہت جرأت کی۔ لیکن فوج بادشاہی کے سامنے ان کی کیا حقیقت تھی۔ اگر چند روز حکم بادشاہ کا یوں ہی جاری رہے گا۔ رہزنوں اور ڈکیتوں کا ممالک محروسہ بادشاہی میں نام و نشان باقی نہ رہے گا۔ ملک کا انتظام بخوبی ہو ئے گا۔ روپیہ سرکاری بے کدو کا وش تحصیل آئے گا۔
 

سیما علی

لائبریرین
90ص

مملوک (۱) تھا۔ مدت سے اس شہر میں رہے شجاعت و بہادری میں بینظیرتھی۔ اطاعت
بادشاہ کی بسبب جرات کے نہ کرتے۔ سب سات سونفر تھے۔ آخر ایک دن شاہ مصر نے ان
سے فریب کیانی یعنیٰ دعوت سے سب کو اس مکان میں بلایا۔ جب وہ سب جمع ہوئے۔
دروازے بند کروادیے اور اپنے لوگوں کو دیواروں پر چڑھایا ۔ گوئی، نیزے تلوار سے ان کو
مروایا۔ وہ زخموں سے چور دوڑے دوڑے پھرتے ۔ سیدھے انھی کے خون کے دھبےہیں ، جو
دکھائی دیے۔ (۲) یہ حال سن کر میں نے بہت افسوس کیا کہ یہ امر دانائی وشجاعت سے دور
ہے بہت سا۔ اول عنایت ومہربانی سے بلاتا، پھر دغابازی سے قتل کرنا خلاف دیانت و
امانت کے ہے۔ جو اپنے کہے پر قائم نہ ر ہے، کتے سے بدتر ہے۔ اس واسطے کہ کتا
نمک ملحوظ رکھتا ہے۔ پس یہ شخص کتے سے بھی برا ہے۔ دنیاناپایدار ہے کسی کو یہاں قرار ہے۔
افسوس کہ اس پر بھی آدمی نہیں سمجھتے ہیں ظلم و بدعت پر آمادہ ہو قتلِ انسان کرتے ہیں ۔
بالاتفاق ہر مذہب میں ثابت ہے کہ کوئی گناہ قتل بنی آدم سے ہیں زیادہ ہے۔ باوجود اس
کے جس کو دیکھیے از راہ نفسانیت خوں ریزی پر آمادہ ہے۔ انسان نمونہ قدرت کاملہ حق تعالی
کا ہے۔ جو اسکو قتل کرتا ہے دونوں جہاں میں منھ اس کا کالا ہے۔
قصہ مختصر وہاں سے پھر کر اس بازار میں آیا کہ لونڈی غلاموں کے بکنے کا وہ مقام تھا۔
برده فروش لونڈیاں علانیہ بیچتے ہیں۔ خوف حاکم و حس نہیں رکھتے ہیں جو لونڈیاں
خوبصورت کم سن دیکھتے ہیں۔ ان کو علیحدہ ایک مکان میں پردہ نشین کرتے ہیں۔ جس
خریدار وصاحب عزت وثروت جانتے ہیں اس مکان میں لے جا کر کھلاتے ہیں۔ باقی اور
لونڈیاں سر بازار بیٹھلا کر بیچتےہیں۔ لوگ دیکھ بھال کر مول لیتے ہیں۔ حال أن بے چاریوں
کا ان ظالموں کے ہاتھ سے متغیر تھا۔ کسی کا بسبب فاقه کشی کے بدن میں فنا پڑارہا کی کا
سارا بدن انکے فقط چمڑا رہا۔ بندہ کپڑے پید انگریزی پے تھا۔ اظهار خریداری لوڑی خوبصورت کا کیا۔
144


91
ص

بردہ فروشوں نے اندر مکان کے لے جا کر لونڈیاں خوبصورت دکھلائیں ۔ صورت شکل میں
سب پری کے مانندتھیں ۔ مگر بسبب تکلیف دینے ان ظالموں کے روٹی کپڑے سے سوکھ کر
پوست و استخواں ہیں ۔ سب کی سب میری طرف دیکھ کر عاجزی سے اشار ہ خریداری اپنی کا
کرتیں ۔ میں دیکھنے حال تکلیف اور مصیبت اُن پریوں سے سخت رنجیدہ ہو کر باہر آیا۔ بخدا
اگر مجھے کومقدور ہوتا۔ ان ستمگاروں ناخداترس سے سب کو مول لے کر آزاد کر دیتا۔ مگر لاچار
ہوا کہ تارو پر کہاں سے لاتا۔ بجز کھانے کے چارہ نہ دیکھا۔ دل میں تعجب آیا کہ اس قدر
زیادتی لونڈیوں کاباعث کیا۔ لوگوں نے کہامحمد علی شاہ مصر کا جس ملک کو فتح کرتا ہے۔ اس
شہر کے زن ومرد پر لانا ہے۔ ان کو درما ہےکے عوض سپاہیوں کوتقسیم کر دیتا ہے۔ ہر ایک سپاہی
ان کو اس بازار میں لاکر سر دست ان ظالموں کے ہاتھ کم قیمت بیچ جاتا جاتا ہے۔ یہ
بہتدر یج بیچتے ہیں، قیمت زیادہ لیتے ہیں ۔ شاہ مصر کی دانائی سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ رعیت
پر اس قدر ظلم گوارا کرتا ہے باوصف کمال ہوشیاری کے خدا تعالی سے نہیں ڈرتا ہے۔ میں
حیران ہوں کہ اس ظلم سے قیام سلطنت اس کی کا کیوں کر ہوتا ہے۔ آخر ایک دن خدا
فریاد مظلوموں کی سنے گا۔ ان اعمالوں سے سلطنت اس کی خاک میں ملادے گا۔ (1)

آگے چلا ، ایک مکان بادشاہی دیکھانیا بنا تھا۔ ہر ستون اور فرش اس کا ترشاسنگ
مرمر کا ۔ یقین کہ بعد طیاری کے بہت خوب ہوگا۔ سنگ مرمر جابجا سے بہت تلاش سے باہمی
پہونچایا۔ وہ مکان نہایت عالیشان تھا۔ اس کے بعد ایک اور عمارت نظر آئی۔ پاس اس کے
دوکان نان بائی کی۔ میں نے پوچھا یہ مکان کس کا ہے۔ لوگوں نے اظہار کیا۔ دیوانے تمام
شہر کے اس میں قید رہتے ہیں۔ جومسافر ادھر سے گزرتے ہیں۔ نان بائی کی دوکان سے
روئی مول لے کر ان کو کھلاتے ہیں۔ میں نے بھی اس دکان سے روئی مول لی، اس مکان
میں جانے کی نیت کی ۔ اندر گیا ۔ دیوانوں کو دیکھا، کتوں کی طرح دست و پا زنجیر میں


۹۲ص۔

بندھے، چنائی پر بیٹھے ۔ گلوں میں طوق پہنی پڑے ۔ کثافت سے کپڑوں میں جوں پڑی
تھیں ۔ کھیوں کے غول ہر ایک پاس بھن بھنا رہے تھے۔ اسی طرح دوسری طرف رنڈیاں
دیوانیاں گرفتار۔ وہ بھی یوں ہی بحال زار۔ ان قیدیوں کا حال دیکھ کر مجھ کوعبرت آئی۔ روٹی
ہر ایک کے سامنے پھینک دی۔ ایسے بھوکے تھے کہ جلدی سے روٹی منھ میں ڈال کر کتو ں کی
طرح نکل گئے۔ ان کے لیے سرکارشاد نصر سے کھانا مقررتھا۔ مگر کارندوں کی بد دیانتی سے
ایک ٹکڑا روٹی کا بھی ان کو نہ ملتا ۔خوراک ان کی مسافروں کے آنے پر ہے۔ سبھی جو مسافر
نرم دل اس راہ سے گزرتا ہے اور حال اُن کاسنتا ہے۔ اس مکان میں جا کر ان کو روٹی کھلاتا
ہے ہیں تو اپنی راہ چلا جاتا ہے۔ ان میں ایک جوان وجیہ الئیق تر کی نزاد عمر چالیس برس کا
اس حال میں مبتلا تھا۔ اس کے پاس جا کر میں نے حال پوچھا۔ زبان ترکی سے کچھ کام کیا۔
مگر میں اس کو سمجھا۔ بہرحال و خف عقل و ہوش رکتا ۔ ناحق اس مکان میں قید تھا۔ یہ
ثابت ہوا کہ مصر میں اگر کسی کو کیسے عناد ہوتا ہے قاضی کو رشوت دے کر اس کو دیوانہ ظاہرکر
کے اس مکان میں قید کرواتا ہے۔ مجھے تعجب اور تاسف آتا ہے کہ رعیت په خاص دیوانوں
پر اتنا تنظلم ہوتا ہے۔ مگر بڑا صاحب جو وہاں رہتا ہے ،شاہ مصر سے ان کے مقدے میں کچھ
نہیں کہتا ہے۔ سوا اس کے اکژانگریز اور اس راہ سے گزرتے ہیں۔مگران دیوانوں کے
میں شاہ مصر سے کلیمتہ الخیرنہیں بولتے ہیں۔ باوجودے کی نیت صاحبان انگریز کی رفاہیت
خلائق پر مصروف ہے اور باگ ارادے ان کے بہود خلقت پر معطوف ہے۔ جو کوئی اُن
چاروں کو اس مصیبت سے چھڑالے، دنیاو آخرت میں اجر عظیم پاوے۔ ایک مکان سودائیوں
کا لندن میں دیکھا تھا۔ ہر ایک نفاست سے سنگ مرمر کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ پوشاک نفیس پنے
ہوئے۔ آدی خدمت کے لیے سرکار سے مقرر تھے۔ ڈاکٹر علاج کے واسطے مقرر۔ ہرطرح
کی دواوغذا سرکار سے مقرر ۔ مکان ایاصاف اور بہتر تھا مکھی کا ہرگز گذر نہ تھا
۔ جب کوئی
146



ص
۹۳


جنوں سے مت پاتا ہے اپنے گھر خیریت سے بھیج دیا جاتا ہے۔ یا ملازم سرکاری ہوتا ہے۔
یہاں برخلاف اس کے عمل میں آتا ہے۔ کوئی ان دیوانوں کی خبر ہیں لیتا ہے۔ اگر مسافر
آ نکلے، ان کو کچھ کھلاوے ہیں تو فاقہ کریں، مصیبت میں رہیں۔ اگر خدا کی قدرت سے بے
دوا اور علاج کوئی اچھا ہو جاوے، اس مکان سے نکلنے نہ پائے انگلستان میں کتے بھی ان
دیوانوں سے اچھے رہے ہیں۔ کھانے کی طرف سے ہرگز تکلیف نہیں کھنچتے ہیں۔ یہ عجیب
بادشاہ اور عجب کارندے ہیں ۔ بنی آدم کو ایسی تکلیف میں ڈال کر روٹی کی خبرنہیں لیتے ہیں۔
یہاں کا حال دیکھ کر اس تہ خانہ میں گیا کہ فرعون علیہ ا لستعنت(1) نے حضرت یوسف کو
اس میں قید کیا تھا۔ دروازہ اس کا ہمیشہ بندرہتا۔ میرے ساتھ چوبدار بڑے صاحب کا
تھا۔ اس لیے ایک عورت نے دروازہ کھولا اور ہاتھ میں مشعل لے کر اندر دکھایا۔ میں نے
چاروں طرف دیکھا۔ فرش زمین پتھرکا تھا اور وہ تہ خان سنگستان میں بنا۔ بئچوں بیچ اس کے
ایک کنواں گہرا۔ بعد اس کے ایک اور مکان میں گیا۔ وہ دریائے نیل (۳) کے پارتھا، پہاڑ
کے مانند بڑا اور اونچا تین کنگرے رکھتا ۔ (۳) مجھ کو تیل کے اترنے میں دیر ہوئی ۔ یہاں
تک کہ شام ہوگئی۔ آدی پرنکل صاحب کا دوڑا آیا کہ جلدی چلے آو نہیں تو درواز ہ شہر پناہ کا
بند ہوجائے گا۔ پھر شہر میں پہونچنا دشوار ہو جائے گا اور پرنکل صاحب کا قصد ہے کل یہاں
سے روانگی کا۔ بندہ یہ بات سنتے ہی سیراس مکان سے پھرا۔ دروازه شهر پناه پر آپہونچا،
پھاٹک بند ہوتا تھا۔ میں چستی سے اندر آیا اور اپنے مقام پر پہونچا ۔ بخوبی اند دیکھنے آس
مکان سے بہت تاسف کیا۔ الا لاچار ہوا کچھ بن نہ پڑا۔ میرے نزدیک مصر میں ہی طریقہ
اچھا ہے کہ رات کو کوئی ہے روشنی قندیل کے باہرنہیں نکلتا ہے۔ اگر چوکیدار کو کو بے قندیل
دیکھتے ہیں، بے دھڑک گرفتار کر لیتے ہیں۔ اس سبب سے چور اور شاہ پہچانا جاتا ہے۔ چور
چوری نہیں کرتا ہے۔ سوا اس کے ہر محلہ میں ایک پھاٹک لگا ہے۔ رات کو بند ہوجاتا



۹۴ص

کوئی ادھر سے ادھر نہیں جانے پاتا ہے۔نہ شب کو کوئی تماشا ہے کہ آدھی اس کو دیکھنے کے اور
سیر کرے ۔مگر ایک امر قابل دید ہے۔ نادید واشند ہے۔ وہ یہ کہ رات کے وقت ترک اور
عرب تہہ خانوں میں بیٹھ کر چپک کے دم کھینچتے ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ داستان گو اُن کے
کے سامنے قصہ کہانیاں نادر کہتے ہیں۔ سابق شراب نوشی کا رواج نہ محمدعلی شاہ کے زمانہ
سے اس کا بہت چرچا ہوا، اس لیے کہ بادشاہ اور شہزادہ ولی عہدعلانیہ شراب پیتے ہیں۔ سفر
اور حضر میں اس کو ساتھ رکھتے ہیں۔ شاہزادہ ولی عہد محمد ابراہیم نام رکھتا ہے۔ زبانی وہاں کے
لوگوں کے شجاعت و بہادری میں یکتا ہے۔ باوصف اس قدر حکومت واقدار کے لڑائی کے
وقت سامان آسائش کا ساتھ نہیں لے جاتا ہے۔ خیال سبکباری سے جریدہ رہتا ہے۔ ایک
دن لڑائی میں دو تین اونٹ بوجھ سے لدے ہوئے نظر پڑے۔ پوچھا کہ یہ اسباب کسی کا اور اونٹ
کسں کے ۔ مصاحبوں نے عرض کیا کہ ان پر اسباب ہمارا لدا ہوا ہے۔ بہت ناخوش ہوکر کہا
میں اپنے ساتھ کچھ سامان نہیں رکھتا اور رات کو زمین پر سوتا تم کو اس قدر اسباب ساتھ لے
چلنا کیا ضرور تھا ۔ اس آرام طلبی کی وجہ سے ان کو نوکری سے جواب دیا۔ از انجا که مزاج
بادشاہ اور شہزادے کا متوجه شراب نوشی کے ہے۔ ساری فوج اور رعیت کواثر اس کا آیا ہے۔
یعنی ہر ایک شراب پیتا ہے۔ چنانچہ سعدی شیرازی نے فر مایاالناس علی دین ملو کہم۔
قبل اجلاس اس بادشاہ کے مصر میں انگریزوں کو گھوڑے پر سوار ہونے کا علم تھا۔محمد
علی شاہ نے اپنے عہد سلطنت سے اس بات کو خلاف جان کر انگریزوں کو گھوڑوں کی سواری
کا حکم دیا اور بہت سی رسمیں اورحکمتیں ایجاد کیں ۔جو زمانہٓ سابق مصر میں نہ ہو سکتیں تھیںاِن میں سے ایک یہ امر نیا ہے کہ لوگوں کو توپ اور بندوق ڈھالنا سکھایا ہے۔ چنانچہ تو پیں تیار
کرواتا ہے۔ فوج کوقواعد انگریزی سکھلاتا ہے۔ مصوروں کا مل کونوکر رکھا ہے۔ رعایا کو حکم
دیا ہے کہ اپنے لڑکوں کوفن تصویری تعلیم کر دائیں۔ لندن کی طرح تصویر موی بھی ان سے


148



 

محمد عمر

لائبریرین
۱۶۰

کسی پاس روپیہ اور مال ہووے وہاں جا کر مزہ زندگانی کا لوٹے کہ ہمہ چیز وہاں ملتی ہے۔ ہر ملک کے آدمیوں کی صورت نظر آتی ہے۔ کنارے گنگا کے چنپا گھاٹ پر ہر روز ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ شامِ اودھ اور صبحِ بنارس بھول جاتی ہے۔ ہر طرف سبزہ اُگا ہے۔ جاڑے گرمی اور ہرفصل میں ہرا رہتا ہے۔ جہاز روم اور روس اور حبش کے یہاں آ کر مقام کرتے ہیں۔ صاحبان انگریز اور بی بیاں بگھی پر سوار ہو کر وہاں ہوا کھانے جاتے ہیں۔ گھوڑے اور بگھی مانند رسم لندن کے یہاں کرایہ پر ملتے ہیں۔ روز بروز سب سامان اور انداز لندن کے سے ہوتے جاتے ہیں۔ صاحب علم اگر اُس شہر میں جائے، ہرگز مُفلس و محتاج نہ رہنے پائے۔ سڑکیں یہاں کی ہموار اور صاف، آئینہ مثال۔ کوڑی یا مردے جانور پڑے رہنے کا کیا مجال۔ رستے ایسے ماہی پشت بنے کہ پانی یا جو کچھ اُس پر گرے۔ دونوں طرف ڈھلے۔ ایک قسم آدمی پہاڑی جوڈھانکر کہلاتے ہیں۔ سرکار سے کئی ہزار روپے درماہہ سوا چھکڑوں کے پاتے ہیں۔ وہ تمام شہر کا کوڑا اور گندا پانی موریوں کا چھکڑوں پر لاد کر باہر پھینک آتے ہیں۔ اب ہندوستان میں کوئی شہر مقابل اُس کے نہیں نظر آتا ہے۔ بندہ از راہ انصاف سچ کہتا ہے۔ میں اسی سیر و تماشے میں دو مہینے وہاں رہا اور حال سفر اپنے کا بہ طور کتاب جمع کرنا چاہا مگر میرے پاس خرچ تھوڑا سا رہ گیا تھا اور کوئی یار و مددگار نہ ہوا۔ لا چار قصد روانگی کا کیا۔

ساتویں تاریخ ستمبر کی ایک چھوٹی ناؤ کرائے پر ٹھہرا کر گنگا کی راہ سے بنارس چلا۔ اُس سال گنگا بڑی طغیانی پر تھی اور بسبب بڑھنے پاٹ کے آنبہ کے باغوں میں بہتی۔ یعنی اپنی جگہ اصلی سے بہت بڑھی تھی۔ زور بہنے اپنے کے سے سیکڑوں درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر ڈوبایا۔ دو تین دن تک ہم کو کنارہ نہ نظر آیا۔ لاچار ہو کر ایک آنب کے درخت میں ناؤ کی رسی کو باندھا۔ شب بھر وہاں مقام کیا۔ یعنی پھر روانہ ہوا۔ میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا۔ اس

۱۶۱

مرتبہ گائے بھینسوں کو پانی میں ڈوبتے، سینکڑوں سانپ بچھو ہماری ناؤ پر چڑھے آتے ۔ ہہزار خرابی دن رات چل کر دیوان گنج میں بھاؤ سنگہ کی کوٹھی میں ڈاکٹر راجڑ صاحب کے پاس پہونچے۔ وہ تجارت نیل اور ریشم کی کرتے تھے۔ راجڑ صاحب اور ان کی میم نے نہایت شفقت و عنایت فرمائی۔ میں نے بہر صورت وہاں آسائش پائی۔ سچ تو یہ ہے کہ بندہ نے ان کی میم صاحب کی سی عورت خلیق کم دیکھی کہ مسافر نوازی میں بدل و جان مصروف ہوئی۔ بندہ تین دن عیش و عشرت میں رہا۔ تفریح طبع کے واسطے شکار بھی کیا۔ رمفری صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، انہوں نے بیماری سابقہ سے صحت پائی تھی۔ بہت گرمجوشی سے پیش آئے۔ دیر تک ذوق شوق سے ہم آغوش رہے۔ بعد تین دن فقیر نے نیّت چلنے کی کی۔ راجڑ صاحب اور میم صاحب سے رخصت پائی۔ دونوں صاحبوں نے یہ بات کہی، ابھی نہ جاؤ، چند روز یہاں رہو، میں نے بہت کہہ سُن کر راضی کیا اور رخصت ہو کر وہاں سے روانہ ہوا۔ حق تعالیٰ راجڑ صاحب اور ان کی میم صاحب کو ترقی مراتب پر پہونچاوے کہ دل اُن کا مسافر نوازی پر مصروف رہتا ہے۔ ولایت میں ان کے بھائی سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے بھی میرے حال پر کمال مہربانی فرمائی تھی۔

جب بندہ راجڑ صاحب سے رخصت ہو کر کشتی پر سوار ہو کر چلا۔ راہ میں ایک دن تیسرے پہر دریائے گنگ میں ایک کو ڈوبتے دیکھا۔ ملاحوں سے کہا شاید یہ کوئی آدمی ہے ڈوبتا۔ اگر کوئی تم میں سے جائے اور اس کو میرے پاس لائے۔ موافق مقدور کے انعام دوں گا۔ ملاحوں نے جواب دیا، اس دریائے قہار میں اپنے تئیں گرانا عاقبت اندیشی سے دور ہے اور ناؤ کو بھی اس طرف لے چلنا سراپا فتور ہے، مبادا صدمہ پانی کا پہونچے، ناؤ ڈگمگا کے ڈوبے۔ اسی طرح سینکڑوں آدمی ڈوبتے ہیں۔ ہم کس کس کو دریا سے نکالیں۔ جب ملاحوں نے میری بات نہ سنی اور کسی اور نے بھی اس کی طرف توجہ نہ کی۔ میں نے بے اختیار

۱۶۲

ہو کر دل میں کہا اگر طبیب دوا مریض کی نہ کرے مواخذہ دار ہووے۔ میں تیرنے میں دخل رکھتا ہوں۔ اگر اس کو دریا سے نہ نکالوں گنہگار خدا کا ہوں۔ بلا تحاشہ آپ اُس دریا میں کودا۔ اُس ڈوبتی عورت کو نکالا، کنارے لا کر کہا۔ اگر تجھ کو منظور ہو میری ناؤ پر آ کہ تیری دوا کروں۔ صورتِ صحت دکھلاؤں۔ اس کمبخت نے نہ مانا۔ دل میں کچھ اور ہی خیال کر کے کہا۔ میں کیوں تیری کشتی پر آؤں تو دھرم میرا برباد کرے گا۔ میں نے دل میں کہا۔ سبحان اللہ جس سے نیکی کی وہ کچھ اور ہی سمجھے۔ کلام شیخ سعدی کا یاد آیا:

نکوئی با بداں کردن چناں ست

کہ بد کردن بجای نیک مرداں

آدی کو چاہیے کہ ناقدر دان کے لیے جان اپنی ہلاکی میں نہ ڈالے۔ بُروں کے ساتھ برائی سے در گزر کرے۔ یہ حال دیکھا اپنی ناؤ پر سوار ہوا اور منزل مقصود کا رستہ لیا۔

چلتے چلے منگیر (۱) پہونچا۔ ناؤ سے اُتر کر شہر میں گیا۔ شہر چنداں وسعت نہ رکھتا مگر آباد خوب تھا۔ آب و ہوا وہاں کی اور شہروں سے معتدل اور بہتر تھی۔ قریب اس کے کئی پہاڑ اُن پر سبنری لگی۔ متصل اس سے ایک چشمہ پانی کا خوشگوار کئی مکان سارجنوں کے اس قرب میں طیار۔ سارجن مع اپنی بی بی لڑکوں کے لبِ جو بیٹھے، مچھلیوں کا شکار کر رہے تھے۔ ان کے چہروں پر آثار شگفتگی اور بشاشت کے نمودار۔ پیشہ ور وہاں کے اپنے اپنے فن میں کمال رکھتے۔ عمدہ عمدہ چیزیں کنارے گنگا کے لا کر مسافروں کشتی نشینوں کے ہاتھ سستی بچتے۔ چنانچہ میرے سامنے پنجرے عجیب و غریب اور گوشت اور مچھلیاں اور سب چیزیں ارزاں بیچیں۔ ایک شخص نے چھ مچھلیاں بڑی ایک روپے کی مول لیں۔ میرے نزدیک اس قیمت پر مفت تھیں۔ وہاں سے ایک پالکی کرایہ کی لے کر سیتا کنڈ کے جنگل میں گیا۔ شہر سے تین کوس پرے تھا۔ وہاں پہاڑ بسبب روئیدگی کے سبز ہو رہے تھے۔ درخت میوؤں سے

۱۶۳

لدے ہوئے، آواز جانوروں کی موزوں۔ سبزہ اُگا زمرّد دگوں ۔ ویسی زمین ارم تزئین ہندوستان میں کم نظر آئی۔ میری اور ہوائے ساز گار اسی کی دل کو بھائی۔ اُس دشت پُر فضا میں تین چار تالاب برابر تھے۔ خوشگواری میں ایک دوسرے سے بہتر، سرد پانی سبھوں کا۔ الا بیچ والے کا نہایت گرم تھا۔ ووہی سیتا کنڈ کہلاتا، اگر کوئی اُس میں ہاتھ ڈالتا۔ شدّتِ گرمی سے آبلہ پڑ جاتا۔ میں یہ ماجرا دیکھ کر قدرت الہیٰ پر غش کر گیا کہ سبھوں میں پانی سرد ہے بیچ میں جلتا آگ سا۔ کئی ٹھلیاں مول لے کر ٹھنڈا اور گرم ملایا۔ جب وہ حد اعتدال پر آیا اُس سے نہایا۔ عجب تاثیر اُس کی تھی کہ کسالت اور ماندگی دور ہوئی۔ بعد اس کے ایک درخت کے سائے میں بیٹھا شیشہ عرقِ انگور کا جو ساتھ لے گیا تھا کھولا۔ ٹھنڈھا پانی اُس چشمۂ شیریں کا ملا کر دوستوں کو یاد کر کے دو تین پیالے اس کے پیے، زندگی کے مزے اور لطف حاصل کیے۔ جب وہ چشمے خوشگوار اور کوہ و صحرائے سبزہ زار دیکھا۔ بے اختیار دل میں آیا کہ ساری عمر یہاں بیٹھ کر یادِ خدا میں مصروف رہوں۔ طریقۂ اسلاف پر گلّہ بکریوں اور گھوڑوں کا چراؤں مگر بن نہ پڑا۔ مشکل نظر آیا۔ بعد چار گھڑی کے وہاں سے پھر آیا۔ ناؤ پر سوار ہو کر راہی ہوا۔

عظیم آباد(۱) پہونچ کر دو دن سیر کرنے کو رہا۔ وہ شہر کنارے گنگا کے ہے بہت آباد ہوا۔ مگر یہاں کی آب و ہوا میں رطوبت ہے۔ اکثر لوگوں کو مرض پر صعوبت ہے۔ یعنی رہنے والے یہاں کے اکثر مرض فتق یا فیل پائی میں گرفتار ہیں سبھوں کا رنگ زرد، دبلے اور نزار ہیں۔ قریب اُس کے دانہ پور ہے۔ وہاں انگریزوں کا توپ خانہ اور لشکر ہے۔ آب و ہوا وہاں کی بہ نسبت عظیم آباد کے بہتر ہے۔ یہ سب سیر دیکھ کر بنارس میں آیا۔ یہاں آ کر ایک چھکڑا کرایہ کا ٹھہرایا۔ اسباب اپنا ناؤ اسے اُتار کر اُس پر لادا اور گھوڑا پچھّم کا مول لیا ہوا جو وقت جانے کلکتہ کے یہاں چھوڑ گیا تھا۔ اُس پر سوار ہو کر دارالسلطنت لکھنو چلا۔ عمل

۱۶۴

انگریزی سے بخوبی نبھہ آیا۔ مگر شاہ اودھ کے عمل میں زمینداروں نے جا بجا کوس دو گوس کے بعد بابت کوڑیوں محصول کے سخت ستایا۔ ہر چند کہتا تھا میرے چھکڑے میں نہیں کوئی اسباب محصول کا پھر تم کسی چیز کا محصول مانگتے ہو۔ ناحق اور بے وجہ ستاتے ہو۔ اس کا جواب یہ دیتے تم ہمارے کانوں سے آ نکلے ہو، اس کا محصول دو۔ جا بجا اس بات پر تکرار ہوئی پر کسی نے میری بات نہ سنی۔ آخر لا چار ہو کر ایک کتّا ولایتی جو اپنے ساتھ لایا تھا۔ اُس کے گلے میں رسّی ڈال کر چھکڑہ سے باندھا۔ جہاں کوئی زمیندار رہ گذری کی کوڑیاں مانگتا، میں جواب میں کہتا۔ یہ کتّا اور چھکڑہ ہے، کپتان ڈاسن صاحب کا۔ سارا اسباب تم کو سونپا ہوں۔ میں کپتان صاحب پاس جاتا ہوں۔ تم اس کی حفاظت کرو۔ مبادا کچھ کم ہو، جوابدہی میں پھنسو۔ نام انگریز کا سنتے ہی سب خاموش ہو جاتے۔ بزرگی اور ملایمت سے پیش آتے۔ طرفہ تر یہ ماجرا ہے۔ قابل استہزا ہے کہ جو لوگ ملازم شاہ اودھ کی نگاہ بانی کے لیے مقرر ہیں وہ بھی کوڑیاں تحصیلتے ہیں۔ آمادہ تر محافظت راہ کی جیسی جیسی کچھ کرتے ہیں، لوگ خوب جانتے ہیں۔ زمین اس نواح کی قابل زراعت اور بہت بہتر ہے۔ مگر بسبب ظلم عالموں کے ہزاروں بیگھہ خراب افتادہ اور ابتر ہے۔ بلکے گانوں کے گانوں جا بجا جلے پڑے ہیں۔ سوائے جانوروں درندوں کے کہیں آدمی نظر نہیں آتے ہیں۔ شاہ اودھ کی طرف سے جو چکلہ دار آبادی ملک اور تحصیل روپے کے لیے جاتا ہے، حاکم سابق سے زیادہ ظلم و بدعت کرتا ہے۔ اپنی منفعت کے خیال سے خوف خدا اور بادشاہ سے غافل ہوتا ہے۔ رعیت کو ظلم سے اُجاڑ دیتا ہے عاملوں کے یہ ہتھکنڈے ہیں کہ وقت تردد کے اسامی اور زمینداروں کو دِلاسے سے بلاتے ہیں۔ پٹہ قبولیت روپے بیگھہ کا لکھواتے ہیں۔ جب غلّہ طیار ہوا۔ دو روپے بیگھہ مانگتے ہیں۔ اپنے قول و قرار سے بدل جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے کسان بھاگتے ہیں۔ زمیندار عالموں سے مقابلہ کرتے ہیں اور بد قولی کے سبب سے ایک کوڑی نہیں دیتے ہیں۔

۱۶۵

عامل فوج بادشاہی بلوا کر گڈھی قلعہ اُن کا کھدواتے ہیں۔ گائے، بیل اور غلّہ ان کا بیچ کر دُگنا تگنا روپیہ بٹھلاتے ہیں۔ زمین یہاں کی قابل زراعت ہے۔ پر افسوس کہ چکہ داروں کی بدعت ہے۔ شاہ اودھ بسبب کثرت مشاغل کے اس امر سے غفلت رکھی ہے۔ ورنہ ان ظالموں بوم ہفت کو اس ظلم ناحق سے متنبہ کرتا۔

بندہ یہ حالات دیکھتے قرب و جوار لکھنؤ کے پہونچا، ایک گاؤں میں آ کر ٹھہرا۔ شکار میں مشغول ہوا۔ ایک چڑیا کو چھرّے سے مارا۔ پچاس آدمی جنگلی دوڑ پڑے۔ ڈھال تلوار ہاتھ میں لیے ہوئے کہ تم نے ہمارے گاؤں کے جانور کو کیوں مارا۔ سبھوں نے آ کر مجھ کو گھیر لیا۔ میں مقابلہ کرنا اُن سے مناسب نہ سمجھا۔ نرمی اور آشتی سے پیش آیا۔ لیکن وہ لوگ بد ذاتی سے باز نہ آئے۔ آمادہ میرے قتل پر تھے۔ کوئی کہتا اس کا سر کاٹ ڈالو۔ کسی کے خیال میں آتا، نہیں زندہ پکڑ لے چلو۔ جب میں نے دیکھا کہ جان مفت جاتی ہے۔ کوئی تدبیر نہیں بن آتی ہے۔ انگریزی بولی میں گفتگو کی۔ انہوں نے انگریز سمجھ کر طرح دی اور اپنی راہ لی۔ اُس دن اگر میں اپنے تئیں انگریز نہ بناتا، بیشک و شبہ مارا جاتا۔ اسی طرح سینکڑوں آدمیوں کا خون ہوتا ہے۔ کوئی کسی کا حال نہیں پوچھتا ہے۔ وہاں سے بچ کر خدا خدا کر کے متصل لکھنو کے آیا۔ ایک چھٹی میں کپتان ممتاز خان منگنس صاحب بہادر کو لکھا کہ اگر آپ کی مرضی ہو میں حاضر ہوں۔ نہیں تو اور کسی طرف جاؤں۔ کپتان صاحب نے اس کے جواب میں چھٹی عنایت آمیز لکھ بھیجی کہ ضرور آؤ۔ مجھ کو ہے تمہاری انتظاری۔ بندہ بموجب حکم کے اُن کے مکان پر گیا۔ فیضیاب ملازمت ہوا۔ انہوں نے نہایت مہربانی فرمائی اور دعوت و مہمانی کی۔ ایک خیمہ کھڑا کروایا۔ اُس میں فقیر کو اُتروایا۔ بعد چندے میں نے قصد اور سمت کا کیا۔ انہوں نے باز رکھ کر فرمایا۔ تم یہاں رہو اور رسم سابق اپنے کے درستی کرو۔ بندہ چٹھیاں سفارش کی افسروں ولایت کی لکھی ہوئیں کرنیل لو صاحب، بڑے صاحب اور پاٹن
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 155

ہندوستان وغیرہ میں جاتے ہیں۔ نقد و اسباب جمع کرکے پھر اپنی ولایت آتے ہیں۔ اسی سے خیال کرو اگر اُس ملک میں یہ لطف و خوبی نہ ہوتی کیوں انگریز اور شہروں سے روپیہ جمع کرکے وہاں چلے جاتے اور جو کہ سامان خاطر خواہ نہیں پاتے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں وہیں بسر کرتے ہیں۔ اس صورت میں انگریزوں کا اور ملک میں رہنا بہ لاچاری ہے۔ گویا بلبل باغ کی رہنے والی کو قفس میں گرفتاری ہے۔ جب پنجرے سے چھوٹے۔ باغ میں اُڑ جائے۔ انگریز بھی جب طاقت پائیں، ملک بیگانہ سے لندن میں جاویں اور یہ جو ہندی مشہور کرتے ہیں کہ انگریز ہندوستان میں اکثر ثروت پاتے ہیں۔ لندن سے محتاج آتے ہیں۔ محض جھوٹ کہتے ہیں۔ اُس ملک کا انتظام ایسا کہ جب لڑکا کسی کے ہاں پیدا ہوا۔ دائی کی گود میں سونپا۔ یہاں تک کہ سنِ شعور کو پہنچا۔ صفائی کا یہ عالم کہ کوئی کپڑا میلا یا متعفن اُس کے پاس تک نہیں آنے پاتا۔ پھر مکتب گلزار آئیں میں فرش سفید بچھاتے ہیں۔ پوشاک صاف ستھری پہنا کر اُس کو پڑھواتے ہیں۔ ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔ ناز و نعمت سے پرورش دیتے ہیں، بعد اس کے زیادہ مستعدی کے لیے اسکول بھیجتے ہیں۔ وہاں بھی ہزاروں روپے عوض تعلیم وغیرہ کے دیتے ہیں۔ بعد فراغت ان سب باتوں کے کسی عہدہ ادنیٰ میں سو سوا سو روپے کا نوکر شاہی ہوتا ہے۔ بتدریج عہدہ اعلیٰ کو پہنچتا ہے۔ بھلا اگر اُن کو دولت و حشمت نہ ہوتی۔ صورت تعلیم و تربیت اس صرف زاید سے کیوں کر ہوسکتی۔ خرد بزرگ وہاں کے پُر شرم و حیا۔ لڑکوں کا ایسا فہم رسا کہ ثروت آبائی پر مغرور نہ ہو کر مثل عوام کے ہزاروں محنت و مشقت سے علم و ہنر حاصل کرتے ہیں۔ باپ اُن کے ان باتوں سے نہایت راضی اور خوشی ہوتے ہیں۔ لڑکے ہندوستان کے باپ کی حشمت پر غرہ کرتے ہیں۔ کسبیوں کی صحبت میں اوقات برباد کرکے انجام کار نہیں سوچتے ہیں کہ بعد باپ کے ہم تدبیر معاش کس ہنر سے کریں گے۔ زندگی اپنی کیوں کر نباہیں گے۔ طرفہ ماجرا یہ ہے کہ
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 156

باپ اُن کے اُن کا حال لہو لعب دیکھ کر فکر مآل سے غافل ہوکر خوش ہوتے ہیں۔ درشتی کا کیا مقام کلمئہ پند و نصیحت بھی نہیں کہتے ہیں۔

القصہ یہ کلام کرکے اس مکان سے سرا میں آیا۔ ارادہ کلکتہ (ا) جانے کا کیا۔ اس سبب سے کہ میں جریدہ راہ خشکی سے آیا تھا۔ اسباب ضروری لندن سے اپنے ہمراہ لایا تھا۔ باقی کپڑے اور اسباب اپنا راہ دریا سے کلکتہ میں پروانہ کردیا تھا۔ یہاں آکر کپڑے پرانے ہوئے۔ اس واسطے اور زیادہ ہم کلکتہ جانے پر مستعد ہوئے۔ خرچ راہ کا میرے پاس تھوڑا رہا۔ یقین کہ خشکی کی راہ سے پورا نہ پڑتا۔ اس وجہ سے ناؤ کی تلاش کرنے لگا۔ بہت جستجو سے ثابت ہوا کہ کئی برہمنوں نے شریک ہوکر ایک کشتی ٹھہرائی ہے۔ کلکتہ کی طرف ان کی جوائی ہے۔ بندہ نے اُن کے پاس جاکر اظہار کیا کہ میں بھی تمہارے ساتھ کلکتہ چلوں گا۔ انہوں نے یہ بات کہی۔ ہماری تمہاری شرکت نہ نبھے گی۔ تم ترک کہلاتے ہو، گوشت جانوروں کا کھاتے ہو۔ ہم لوگوں کو اس سے نفرت ہے پھر بھلا ہمارے تمہارے کیا لطفِ صحبت ہے۔ میں نے کہا۔ بہر صورت تمہاری اطاعت کروں گا۔ راہ بھر گوشت نہ کھاؤں گا۔ جب یہ قول و قرار ہوچکا۔ ناؤ کا کرایہ ٹھہرایا۔ پھر پانچویں تاریخ جولائی کو ان برہمنوں کے ساتھ ناؤ پر سوار ہوکر کلکتہ چلا۔ بموجب اقرار ساری راہ روٹی گیہوں کی اور ماش کی دال کھایا۔ زمفری صاحب جو شریک حصہ ہملٹن صاحب کمپنی کے تھے۔ بسبب بیماری کے ایک بڑی ناؤ پر سوار ہوکر تبدیل آب و ہوا کے لیے نیل کی کوٹھی میں اپنے بھائی ڈاکٹر راجڑ صاحب پاس آتے تھے۔ راہ میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ دور سے مجھ کو دیکھ کر بہت اشتیاق سے آواز دی کہ اے یوسف کمل پوش سلیمانی مذہب کہاں جاتے ہو اور کدھر سے آتے ہو۔ میں اُن کی ناؤ پر جاکر دو گھڑی ٹھہرا۔ حال اپنا بیان کیا۔ پھر رخصت ہوکر اپنی ناؤ پر آیا۔ برہمنوں نے کلام انگریزی جب میری زبان سے سنا، حیران ہو کر پوچھنے لگے۔ سچ کہو تم کون ہو۔ اگر مذہب مسلمانی
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 157

رکھتے ہو، زبان انگریزی کہاں سے سیکھے ہو۔ میں نے کہا اس کا تعجب کیا۔ بہت مسلمان کلکتہ میں رہتے ہیں۔ انگریزی بولی بول سکتے ہیں۔ وہ تو بہت گھبرائے تھے۔ پر میرے سمجھانے سے سمجھے۔

چلتے چلتے ناؤ ہماری قریب چنکی پور کے پہنچی۔ بابت محصول پرمٹ کے وہاں روکے گئے اور بہت کشتیاں دیر سے رکیں تھیں۔ اس لیے کہ بے محصول دیے کیوں کر جاسکتیں۔ میں نے پوچھا سبب کیا جو محصول دینے میں اتنا عرصہ کھینچا۔ لوگوں نے کہا۔ بابو فلانا یعنی داروغہ گھاٹ کا ابھی سوتا ہے۔ جب میں نے یہ حال سنا آدمی کے ہاتھ کہلا بھیجا۔ بابو صاحب کتنی دیر میں جاگیں گے۔ دریافت ہوا دو تین گھڑی بعد خوابِ راحت سے فراغت پائیں گے۔ چار نا چار میں نے ناؤ کو ٹھہرایا۔ اسی عرصہ میں ایک فقیر لنگڑے گونگے نے ناؤ کے سامنے آکر اشارے انگلیوں سے سوال کیا۔ مجھ کو پالنگی اور بے زبانی پر رحم آیا۔ روٹی اور ترکاری منگوا کر دینے لگا۔ اُس حرام زادے نے تکرار کرکے سر ہلایا کہ مجھ کو پیسا دو، روٹی نہ لوں گا۔ کچھ کوڑیاں دیں وہ بھی نہ لیں۔ تب میرے ساتھیوں سے ایک برہمن نے روغنی روٹی نکال کر دی۔ وہ بھی دیکھ کر انکار کی۔ پیسا مانگتا اور کچھ نہ لیتا۔ معلوم ہوا کہ پیٹ بھرا ہے۔ شرارت اور بدذاتی سے مانگتا ہے۔ ہم نے سکوت کیا اور اُس کو کچھ نہ دیا۔ وہ کسی طرح نہ مانتا۔ ناؤ پر ڈھیلے پھینکتا۔ ہم اس کے ہاتھوں سے تنگ آئے۔ لاچار ہوکر اس کی پیٹھ پر دو تین کوڑے مارے۔ دکھلانے کو گونگا تھا۔ کوڑے کھا کر صاف بولنے لگا۔ لنگڑاہٹ بھی جاتی رہی۔ گالیاں سخت دیتا۔ میں نے خواب سمجھایا کہ اس حرکت سے تو باز آ۔ اُس نے ہرگز نہ مانا اور کہا تم کو تھانہ دار پاس لے چل کر قید کراؤں گا۔ مجھ کو اور زیادہ غصہ آیا اُس کو دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر ایک گڑھے کیچڑ بھرے میں دے مارا۔ سارا بدن اُس کا کیچڑ سے بھر گیا۔ لیکن اگلی باتوں سے باز نہ آیا۔ آخر میں اُس کی بے حیائی سے لاچار ہوا۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 158

چار پیسے دے کر رخصت کیا۔ بعد اس کے کچہری پرمٹ میں آکر کہا۔ ہم نے چار گھڑی ناؤ کو یہاں ٹھہرایا۔ بابو صاحب ابھی تک آرام خواب میں ہیں، ہم ناحق عذاب میں ہیں۔ نائب اور گماشتوں اس کے نے رنجش سے کہا۔ سینکڑوں کشتیاں رکی رہیں۔ تم میں کیا سرخاب کا پر لگا۔ جو اتنی دیر میں گھبرا گئے۔ ہم تک شکوہ لائے۔ چار گھڑی کیا اگر چار روز بھی تمہاری ناؤ یہاں رہے، بعد نہیں۔ بلکہ حق بجانب ہے۔ میں اُس فقیر کی حرام زدگی سے پہلے ہی سے جل رہا تھا۔ ان کے کلام سن کر آگ بگولا ہوگیا۔ مگر جواب تند نہ دے سکا۔ اپنے تئیں سنبھالا بقول شخصے قہر درویش بجان درویش۔ غصہ ضبط کیا۔ اسکول گھر میں ایک ماسٹر انگریزی لڑکوں کے پڑھانے پر مقرر تھا۔ میں نے لاچار ہو کر اُس کے پاس جا کر زبانِ انگریزی میں کہا۔ تمہارے شہر میں یہ کیا اندھیر اور زیادتی ہے مسافروں کی ناؤ چار چار روز روکی جاتی ہے۔ بندہ محصول دیتا ہے۔ ناحق داروغہ گھاٹ کشتی روکتا ہے۔ ماسٹر صاحب نے میرے ساتھ بابو کے مکان پر آکر محصول دلوایا اور جھٹ پٹ رَونا لکھوا کر مجھ کو دیا۔ انگریزوں کی رائے صائب سے یہ امر بعید نظر آتا ہے کہ اُن کی عمل داری میں بسبب غفلت کے ایسا ظلم صریح ہوتا ہے۔ وہ بابو یعنی داروغہ پرمٹ جس کو انگریز جانتا، فی الفور رَونا کشتی اُس کی لکھوا کر روانہ کرتا۔ مگر ہندوستان پر جبر تھا۔ شاید کوئی انگریز لباس ہندوستانی سے وہاں نہیں آیا۔ نہیں تو حال اُس کا کھل جاتا اور تدارک قرار واقعی ہوتا۔

چلتے چلتے پچیسویں تاریخ جولائی کی ناؤ ہماری کلکتہ پہنچی۔ دوستوں آشناؤں سے ملاقات ہوئی، سبھوں نے میرے حال پر شفقت کی۔ حملٹن کمپنی اور کران صاحب نے یہ بات کہی کہ تم کرایہ کی حویلی نہ لو، ہمارے مکان پر اُترو۔ میں نے کثرت صحبت باعثِ کمی الفت سمجھ کر نہ مانا۔ محلہ ٹبک خانہ میں ایک مکان بیس روپے کرایہ کا مع تنخواہ باغبان لے کر رہا۔ بیچ میں عمارت نفیس اور مکان خوش وضع تھے۔ گرداگرد، درخت میوے اور پھولوں کے۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 159

جب میں لندن جاتا تھا۔ سیر اس شہر کی بخوبی کرچکا تھا۔ مگر اس خیال سے کہ شاید انقلاب زمانہ سے کچھ صورت بدلی ہو پھر پھرا۔ حال وہاں کا دیکھا۔ جن دو کانوں پر چھپڑ پڑے تھے، کھپر پل بنی۔ جن راہوں میں تنگی تھی، وسعت ہوئی۔ جو دوکانیں سابق بدقطع تھیں۔ اب کی مرتبہ مرتب اور طیار دیکھیں۔ زمانہ عجب انقلاب رکھتا ہے کہ کسی آدمی یا جگہ کو سدا ایک حال پر نہیں چھوڑتا ہے۔ بعد اس کے اور مکانوں میں جن کو پہلے نہیں دیکھا تھا۔ دوستوں کے ساتھ دیکھنے گیا۔ لطف و صنعت سبھوں کا بنظرِ غور دیکھا۔ چنانچہ مارچ صاحب نے کلڈھال میں، مارس صاحب نے ٹون ہال میں کران صاحب نے میوزیم اور جاؤں پر لے جاکر تماشا دکھلایا۔ وصف اُن مکانوں کا زبان سے بیان نہیں ہوسکتا۔ بنگالیوں کے لڑکے دیکھے۔ بے تکلف مثل ولائیتیوں کے کلام انگریزی کرتے۔ چرچا علم کا روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ اگر یہی حال بیس برس تک رہتا ہے۔ یقین کہ وہاں کے رہنے والوں سے کوئی بے علم و جاہل نہ رہے گا۔ بلکہ بجائے خود ہر ایک اُستاد بنے گا۔ لڑکے بنگالیوں کے شوق دلی سے علم انگریزی پڑھتے ہیں۔ مدرسوں میں اُستاد فارسی خواں بھی نوکر رہتے ہیں۔ علم فارسی لڑکوں کو پڑھاتے ہیں۔ اسی طرح عربی کے لیے عالم کامل جانب شاہِ لندن سے مقرر ہوئے ہیں۔ طالبِ علموں کو صرف نحو، منطق، ریاضی، ہیئت، فلسفہ، حکمت پڑھانے میں مستعد رہتے ہیں۔ اگرچہ بندہ عربی فارسی میں دخل نہیں رکھتا ہے کہ بیان کمالات ان کے کا بتفصیل کرے۔ مگر ایک عالم کے دو تین شاگردوں سے ملاقات ہوئی۔ کامل پائی اُن کی عقل و دانائی۔ اس دلیل سے ثابت ہوا حال مستعدی مدرسوں کا کہ جن کے ادنیٰ شاگردوں میں یہ عقل رسا ہے کیا مذکور اُن کے علم و فضیلت کا ہے۔ غرض کہ کوشش انگریزوں سے کلکتہ دارالعلم ہوا ہے۔ قلعہ کلکتہ کا سب قلعوں سے زیادہ مضبوط ہے اور متین، سیکڑوں توپیں لگیں۔ اگر روپیہ آدمی کے پاس موجود ہو جو چیز کہیں نہیں ملتی، اُس شہر میں میسر آتی ہے۔ عجب نادر شہر اور بستی ہے۔ اگر
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 50


تصویر اِستادہ۔ آخراُس شخص نے میرے رفع شک کے لئے ایک تصویر کے منہ پر ہاتھ رکھا۔ ہرگز سر یا ہاتھ اُس نے نہ ہلایا۔ تب میں نے بھی گستاخ ہوکر چہروں پر ہاتھ رکھا اوراُن کے تصویر ہونے کا یقین لا یا۔ ایک طرف تصویر وکٹوریا شاہزادی کی اور والدین اُس کے کی بنی تھی۔ میں نے دیکھتے ہی تسلیم بجالانی چاہی۔ اُس نے کہا یہ بھی تصویرملکہ کی ہے ، نہ ملکہ اصلی ہے۔ بخدا ایسی تصویر کہ اصل اپنی سے سرِمُو تفاوت نہ رکھتی - لباس ، رنگ ، قد و قامت میں تل بھر کم وبیش نہ تھی۔ اسی سبب سے دیکھنے والے کواصل اور نقل میں تمیز نہ ہوتی۔ تصویریں مومی شیکس پیر(1)، لاڈ بائرن (۲) ، سروالٹرسکاٹ (۳) شاعروں ذی رتبہ کی کھڑی تھیں۔ ایسا ثابت ہوتا کہ شعروشخن میں طبیعتیں اُن کی لڑیں۔ اسی طرح لاڈ نلسن سپہ سالار جہاز جنگی اور کئی بادشاہوں انگلستان کی مثل ولیم اور جارج کے اور کئی بادشاہوں روس اورکئی رہزنوں کی تصویریں مومی بنی تھیں ۔ سوا اُن کے اور کتنوں کی کہ دیکھنے والوں کو زندہ معلوم ہوتیں۔ جن کی وہ نقل تھی، اگر سامنے ہوتے دیکھنے والے اصل اور نقل میں تمیز نہ کر سکتے۔ فقیر یہ مکان ارزنگ نشان دیکھ کر اپنے گھر آیا۔
ویب صاحب نے بتقریب ضیافت مجھے طلب فرمایا۔ بموجب طلب بائیسویں تاریخ نومبرکی، میں ان کے مکان پر گیا ۔ ازانجا کہ مہمان نوازی طریقہ رئیسوں کا ہے، خاص طرز انگریزوں کا۔ انھوں نے بہت اشفاق فرمایا اور اپنی دو لڑکیوں پری پیکر پاس بٹھلایا۔ میز پر ہر قسم کا کھانا پینانعمتوں کا چُنوایا۔ اپنے ساتھ مہربانی سے کھلایا۔ میں درمیان اُن دونوں گلوں کے کا نٹا معلوم ہوتا ۔ جب کھانا کھا چکے۔ آتشدانوں کے گرد سب برابر بیٹھے۔ ایک نے دونوں پریوں میں سے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا آگ کیا خاصیت ہے اس کی اگر ہمارے ملک میں نہ ہوتی۔ بغیر اس کے بہت اذیت پہو نچتی۔ میں نے کہا یہ خواص رکھتی ہے، پانی سے بجھتی ہے۔ مگر آگ حسن تمہارے کی غضب ڈھاتی ہے۔ ایک چنگاری اُس کی جس پر


ص 51


گرے جان جگر جلاتی ہے۔ پانی سے زیاد بھڑک آتی ہے۔ حشر تک بجھنے نہیں پاتی ہے۔ آدھی رات تک یہی راز و نیاز رہا۔ بعد اس کے میں رخصت ہو کر اپنے گھر چلا ۔ ایک گلی تنگ و تاریک میں پہونچا ۔ ایک رنڈی رومال منہ میں لپیٹے چلاتی غل مچاتی ۔ ایک مرد اس پر زیادتی کر رہا تھا۔ اُس سے اپنے تئیں بچاتی ۔ مجھ کو دیکھتے ہی اس گرفتارپنجہء ظالم نے مجھ کو پکارا کہ برائے خدا مجھ کو اس کے ہاتھ سے چھوڑا۔ مرد نے کہا اے مرد اگر ذرا بھی آگے بڑھا۔ میں نے تجھ کو مارا۔ میں سخت متردد ہوا۔ ہرطرف آدمیوں تھانے پولیس کو دیکھنے لگا۔ کوئی نظرنہ آیا۔ لاچار ہوکر دل میں سوچا۔ اگر تو اس عورت کو اس خرابی میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے، خلاف جواں مردی اور آدمیت کے ہوتا ہے۔ اگر تھانہ دار کوخبر کرتا ہے، وقت ہاتھ سے جاتا ہے۔ اگراُس آدمی سے الجھتا ہے اورآدمی تھانے کے دیکھ پاویں ، ساتھ ان کے تجھ کو بھی گرفتار کر لے جاویں۔ سردست بدنامی خدا راہ ہوئی۔ کوئی اصل مطلب سے آگاہ نہ ہوے۔ آخردل میں یہی ٹھنا کہ اُس حرام کار سے اُس رنڈی کو بچالوں۔ یہ امر خدا راہ کا کرتا ہوں۔ اپنی ذات کا کچھ لگاؤ نہیں رکھتا ہوں۔ جو کچھ ہونا ہو سو ہوے۔ مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ۔ خدا کو یاد کر کے دونوں پائوں اُس کے زمین سے اُٹھا کر دے مارا اور اُس کے اوپر چڑھا۔ کشتی کے بیچ سے دونوں شانوں کو اس کے مضبوط گانٹھا۔ اس عورت سے کہا کہ میری کمرے سے کھول شالی ٹپکا اُس سے اس کے پائوں باندھ۔ اُس نے ویسا ہی کیا۔ کمربند میرا کھول کر پائوں کو اُس کے خوب باندھا۔ میں نے زمین میں اُس کو خوب سارگڑ کر ہاتھ بھی باندھے۔ تب وہ مردک گڑگڑانے لگا کہ میں نے بڑا گناہ کیا ، قصور میرا معاف کرو، خدا کے لیے مجھ کو چھوڑ دو، نہیں تو تھانہ میں گرفتار ہوؤں گا ،سزا پاؤں گا۔ مجھےکوتم سے شرم آتی ہے۔ آنکھ نہیں سامنے کی جاتی ہے۔ لعنت میری اوقات پر کہ اپنے ہم جنس اور ہم مذہب سے ارادہء بد رکھتا تھا۔ رحمتِ خدا تم پر کہ باوجود اجنبیت و بیگانہ وضعی کے اس بدی سے باز رکھا۔ میں


ص 52

سمجھا کہ یہ اپنی سزا کو پہونچا۔ درصورتِ گرفتاری تھانہ بہت ذلیل ہوگا ۔ قول و قرار لے کر چھوڑ دیا۔ اُس نے چھوٹتے ہی سلام کیا اور بھاگا، تب میں نےعورت سے پوچھا کہ اس وقت تمہارا نکلنا کیونکر ہوا اور یہ شخص نالائق تم سے کیا تعلق رکھتا تھا۔ اُس نے جواب دیا کہ میں اپنی ماں کے کام کو جاتی تھی۔ جب یہاں آکر پہونچی، اس بدمست نے ہاتھ میرا پکڑا۔ خیال بدی کا رکھتا تھا۔ اتنے میں خدا نے تم کو یہاں پہونچایا کہ مجھ کواُس سے چھوڑایا۔ میں نے سن کر اس کے گھر تک پہونچا کر اپنے گھر کا راستہ لیا۔ اُس نے بہت مبالغہ سے بلا کر یہ حال اپنی ماں اور عزیزوں سے کہا۔ اُن لوگوں نے شکر گزار ہو کر مجھ کوکئی پیالے شراب کے پلائے اور پتا مکان کا پوچھنے لگے۔ میں نے اس خیال سے کہ مسافر کوکسی سے دوستی کرنا نہ چاہئے۔ لاؤبالی پتابتا کر رخصت ہوا اور اپنے گھر آیا۔
تیئسویں تاریخ نومبر کی کپتان لاڈ صاحب کے مکان پر گیا ۔ اُن کو اپنےساتھ لیا۔ جس مکان میں دیوانے اور سودائی قید تھے، دیکھنے چلا۔ حال اُس کا یہ ہے کہ شاہ لندن نے ایک مکان بنوایا ہے۔ جو کوئی لندن میں دیوانہ ہو جاتا ہے۔ وہ اُس مکان میں مقید ہوتا ہے۔ اُس مکانِ عالیشان میں کئی درجے ہیں ۔ مرد رنڈیوں سے جدا رہتے ہیں۔ ڈاکترعلاج ومعالجہ کے لیے مقرر کئے گئے ہیں۔ جب کوئی اُن میں سے اچھا ہو جاتا ہے، اپنے گھر چلا آتا
ہے۔ جب میں اُس مکان میں پہونچا، نگہان نے روکا کہ بغیر چٹھی سند کے کوئی اندر نہیں جانے پاتا۔ میں نے اُس سے اظہار کیا۔ میں مسافر ہوں ، دشوار ہے چھٹی ملنا، تو اپنی مہربانی
سے اس مکان کو دکھلا۔ مسافر نوازی سے بعید نہ ہوگا۔ اس بات سے وہ برسرِعنایت ہوا۔ مجھ کو اندر لے گیا۔ ہر ایک درجہ دکھلایا ۔ دیوانوں کو دیکھا ، جا بجا بیٹھے کوئی ہنستا، کوئی روتا، کوئی کاغذ اخبار پڑھتا۔ ایک نے اُن میں سے مجھ کو دیکھتے ہی بہت اشتیاق سے ہاتھ سے ہاتھ ملایا اور کہا ، اتنے دنوں سے تو کہاں تھا ۔ میں تیرا بہت مشتاق، نگراں تھا۔ میں تجھ کو خوب


ص53


پہچانتا تو قوم مملوک سے ہے۔ پونے پاٹ کی لڑائی میں شریک تھا۔ اُس کی گرم جوشی سے ڈاکٹر صاحب اور ہر ایک دیکھنے والا حیران ہوا کہ یہ شخص بیس برس سے قید ہے، کسو سے بات نہیں کرتا۔ تم سے اتنا کیوں ملتفت ہوا۔ ہم کو ہے مقام بڑے تعجب کا ۔ حال اس کا یوں بیان کیا کہ یہ سارجن ہے نوکرِ بادشاہی تھا۔ بعد لڑائی بونے پاٹ کے کئی بادشاہ لندن کے سیر
کو آئے۔ لارڈ منگلٹن صاحب نے سبھوں سے اُس کی تعریف فنون سپہ گری اور بہادری اس کے کیا ظاہر کی۔ سب لوگ مشتاق دیکھنے کے ہوئے ۔ اُس نےاِس میدان میں کئی بادشاہ اور لاکھ سوار و پیادے موجود تھے، گھوڑے پر چڑھ کر کمال اپنے دکھلائے ۔ شاہِ روس نے بہت تعریف کر کر کہا کہ ہم نے کوئی سوار اس کمال کا نہیں دیکھا۔ یہ شخص فنون سپہ گری میں کامل اور یکتا۔ تب سے یہ دیوانہ ہو کر اس حال کو پہو نچا کہ یہاں آ کر قید ہوا۔ اُس مکان میں تین درجے تھے۔ پہلے میں وہ دیوانے کہ بسببِ احتراقِ بلغم کے اختلالِ حواس مبہم پہونچایا۔ مزاج اُن کا مائلِ نرمی وملائمت تھا۔ دوسرے میں وہ لوگ کہ بسبب حرقتِ خون کے اُن کے دماغ میں فساد آیا۔ تیسرے میں نہایت دیوانے پرلے سرے کے جن کا مزاج بسبب احتراق سودا یا صفرا کے بالکل منحرف ہوا۔ ہر ایک کو ایک جگہ بلند کرسی کی شکل پر ہاتھ باندھ کر بٹھلایا۔ کوئی مجال حس وحرکت کی نہیں رکھتا اس خیال سے کہ ناخونوں سے اپنی آنکھیں نہ پھوڑیں۔ ہاتھوں میں دستانہ چرمی پہنائے، دروازے آتشدانوں کے لوہے کے جعلی دار بنائے کہ مبادا کوئی اپنے تئیں اُس میں گراے ۔ اسی طرح دوسری طرف رنڈیاں درجے بہ درجے قید تھیں ، حسن جمال میں بے مثال تھیں ۔ دیکھنے والا ان کا دیوانہ بن جاتا۔ اپنے تئیں واسطے دیدارِ جمال اُن کے کے اُس مکان کا قیدی بناتا۔ بعضی اُن میں جو اچھی ہو چلی تھیں، علیحدہ مکان میں اپنے اپنے کام اور پیشہ میں لگی تھیں ۔ میں دو تین عورتوں باہوش کو اس قید میں دیکھ کر بہت ملول ہوا۔ فی الفور باہرنکل کر اسکول میں آیا۔ وہاں دیکھا لڑ کے بن


ص 54
باپ کے یتیم پټلوان زرد پہنے ہوئے لکھنے پڑھنے میں مشغول تھے۔ خرچ ضروری اُن کے بادشاہ کے وہاں سے مقرر اور معمول تھے۔ وہ سب لڑکے امیروں نامدار کے ہیں۔ بہت صاحبِ لیاقت طبیعت اُن کی نوشت وخواند پرایسی مصروف پائی کہ مجھ کو حیرت آئی ۔ اپنے دل میں کہا سبحان اللہ! لڑکے ہندوستان کے باوجود تاکید والدین کے تحصیلِ علم میں ہرگز نہیں مشغول ہوتے ہیں۔ اوقات اپنی مفت برباد دیتے ہیں۔ بلکہ چھٹ پنے میں حرکتیں بیجا کرتے ہیں۔ یعنی ماں باپ کو گالیاں دیتے اور ان کے سامنے حقہ پیتے ہیں۔ وہ انھیں باتوں میں لڑکپن ان کا سمجھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ ایک اور مکان میں گیا۔ اُس میں نصیحت کرنے والے اور پادری سرکار بادشاہی سے مقرر ہوئے ہیں۔ جوعورت زنا کاری سے باز آئے اورحرام کاری سے تو بہ کرے، اُن کے پاس جا کر ظاہر کرے کہ میں تمہارے ہاتھ سے توبہ کرتی ہوں اور گناہوں سے باز آتی ہوں۔ وہ لوگ اُس کو اُس مکان میں رہنے کی جگہ دیتے ہیں۔ وعظ کہہ کر تعلیم کرتے ہیں اور سرکارِ شاہی سے اُس کے لیے کچھ خرچ مقررکرواتے ہیں۔ جب وہ راہِ راست پر آوے، کسی مرد کے ساتھ نکاح کردیتے ہیں۔ ایک اسکول اور ہے اُس میں اندھےلڑ کے رہتے ہیں۔ روٹی کپڑا سرکار سے پاتے ہیں ۔ پادری اشارے سے اُن کو تعلیم کرتے ہیں۔ بندگی عبادت بخوبی سکھاتے ہیں ۔ ایک اسکول اور ہے، جو لڑکا چھنال رنڈیوں کا یا حرامی پیدا ہوئے۔ وہ اس لڑکے کووہاں ڈال جاوے۔ سرکار سے پرورش اُس کی ہوتی ہے۔ جب سنِ شعور کی نوبت پہونچتی ہے، پڑھاپا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس سے فراغت پاتا ہے۔ بعد اس کے کسی عہدے میں نوکربادشاہی ہوتا ہے۔ اب صاحبان عقل غور کریں کہ ان باتوں میں کیا کیا فائدے ہیں۔ جہاں کہیں ہرمقدمہ میں ایسا انتظام ملحوظِ خاطر ہو۔ کیوں کرکسی امر میں خلل اور فساد ظاہر ہو ایسے لوگ جہاں پر کس طرح مسلط اور قادر نہ ہوں۔ ہندوستان میں کوئی کسی کو نہیں پوچھتا ہے۔ بادشا فکررعایا سے
 
آخری تدوین:
Top