تاریخ بر والہ - صفحات 141 - 153

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 141

تحریک آزادی، قیام پاکستان اور ہجرت​

سیاسی شعور – بروالہ سیدان ایک انتہائی پسماندہ علاقہ کا قصبہ تھا۔ ہریانہ کا علاقہ پنجاب کے ان علاقوں میں شامل تھا جنہیں انگریز حکومت نے دانستہ پسماندہ رکھا تھا۔ اگرچہ یہاں کے لوگ میدان جنگ میں جوانمردی اور بہادر کے لیے معروف تھے مگر ان علاقوں کو پسماندہ رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں کے لوگوں کے سامنے فوج کی ملازت کے سوا اور کوئی راستہ نہ رہے اور انگریز حکومت کی فوج کو افرادی قوت بلا روک ٹوک مہیا ہوتی رہے۔ چنانچہ ہریانہ کے راجپوت اور جاٹ اکثر فوج میں جاتے تھے اور اپنی پامردی کے لیے معروف تھے۔ مگر اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے انگریز حکومت نے علاقہ کو اس قدر پسماندہ رکھا کہ یہاں کی تعلیمی اور معاشی حالت ہمیشہ اپنی پست ترین سطح پر رہی۔ زندگی کا دارومدار صرف زراعت پر تھا اور زراعت کا انحصار بارش پر ہونے کے باعث فصلوں کی حالت ہمیشہ غیر یقینی رہتی تھی۔ ہر دو چار سال بعد قحط کی سی صورت پیدا ہوتی رہتی تھی۔ صنعت و حرفت کا تمام علاقہ میں کوئی ادارہ نہ تھا۔ ذرائع معاش اس قدر محدود تھے کہ اکثر لوگ ہمہ وقت معاش کے چکر میں ہی مبتلا رہتے تھے۔

اس قدر پسماندگی اور ناخواندگی اور جہالت کے ماحول میں سیاسی شعور کو پنپنے کی گنجائش کہاں مل سکتی ہے۔ اس لیے سیاست بروالہ سیداں کے باشندوں کا کبھی مسئلہ نہیں بنی۔ یہی کافی تھا کہ ملکی حالات سے باخبر رہنے کے لیے پورے قصبہ میں آٹھ دس اخبار آتے تھے۔ جو ڈاک کے ذریعہ تیسرے چوتھے دن قصبہ میں پہنچتے تھے۔ ان میں بھی آدھے اخبار تو سید حسن علی کے خاندان کے گھرانوں میں آتے تھے اور باقی سکول، ہسپتال اور بنک جیے اداروں میں آتے تھے۔ قصبہ میں چند مقامات ایسے تھے جہاں شام کے وقت کچھ سیانے لوگ جمع ہو کر حقہ کے کشوں کے ساتھ مختلف مسائل پر تبادلہ خیالات کیا کرتے تھے۔ اسی گفتگو کے دوران سیاسی مسائل پر بھی تبصرہ ہو جاتا تھا۔ مگر یہ تبادلہ خیالات بے خبر لوگوں کی گپ شپ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔

پورے قصبے میں پختہ سیاسی شعور سے بہرہ ور اگر کوئی شخصیت تھی تو وہ سید ممتاز حسن کی تھی۔ ان کے ہاں،زمیندار. لاہور اور .مدینہ. بجنور شاید اسی وقت سے آتے تھے جب یہ اخبار جاری ہوئے تھے اور ان کی باقاعدہ فائلیں موجود تھیں۔ ان کے علاوہ کئی ایسے جرائد بھی ان کے ہاں مستقل طور پر آتے تھے جن کے ذریعہ وہ اپنے وقت کے سیاسی احوال و رحجانات سے پوری طرح باخبر رہتے تھے۔ مختلف اوقات میں وہ ان سیاسی رحجانات میں عملی طور پر بھی حصہ لیتے رہے تھے۔ سب سے پہلے تحریک خلافت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 142

میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا۔ اپنے علاقہ کی خلافت کمیٹی کے سیکرٹری چنے گئے اور اس تحریک کے لیے اخبارات میں کئ زور دار مضامین لکھے۔ بعد میں وہ کانگریس سے وابستہ ہو گئے اور اس دفعہ بھی انہیں علاقہ کانگریس کمیٹی کا سیکرٹری چنا گیا۔ اس حیثیت میں وہ کافی عرصہ تک کام کرتے رہے۔ مگر نہرو رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد وہ کانگریس سے بدظن ہو گئے۔ اور کچھ عرصہ بعد اس پارٹی کے عہدہ اور بنیادی رکنیت سے استعفٰی دے دیا۔

سید ممتاذ حسن، اقبال کے کلام کے پرستار تھے۔ کانگریس سے مستعفٰی ہونے کے بعد وہ ذہنی طور پر اقبال کے مقلد رہے مگر عملی سیاست کا کوئی راستہ انہین کھلا نظر نہیں آیا۔ مسلم لیگ ابھی اپنی تنظیم نو کے مرحلہ میں تھی کہ 1936 عیسوی میں ہریانہ میں اتنا شدید قحط پڑ گیا کہ لوگ قحط کے تباہ کن اثرات کے سوا اور ہر بات بھول گئے۔ قحط کے اثرات ابھی ختم ہوئے ہی تھے کہ دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ اس جنگ نے لوگوں کے معاشی مسائل میں اضافہ کیا۔ مہنگائی بڑھنے لی اور اشیا کی دستیابی مشکل ہو گئی۔ اگرچہ جنگ نے فوجی ملازمت اور تجارت کی شکل میں معاش کے دروازے بھی کھولے تھے۔ مگر بروالہ کے سادات ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ ملازمت کو وہ زیادہ پسند کرتے تھے اور تجارت کو صرف بنیوں کا کام سمجھتے تھے۔ اس لیے جنگ کی پیدا کردہ مشکلات سے تو ان کا سابقہ رہا۔ البتہ جنگ کے باعث پیدا ہونے والے معاشی مواقع سے وہ کوئی حصہ حاصل نہیں کر سکے۔

تحریک پاکستان – جنگ عظیم دوم کا زمانہ وہ ہے جو تحریک پاکستان کی سرگرمی کا بھی زمانہ ہے۔ اس زمانہ میں بروالہ سیدان میں لوگوں کی گفتگو کا اصل موضوع اگرچہ جنگ کے واقعات ہی ہوتا تھا، کیونکہ اس جنگ نے عام آدمی کی مشکلات میں بہت اضافہ کر دیا تھا۔ اور سب پر مشتزاد راشنگ کا نظام تھا جو اشیائے ضرورت کی قلت کے باعث بافذ کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود تحریک پاکستان کے اثرات ہر محفل میں محسوس کیئے جانے لگے تھے۔ اس زمانہ میں سیاسی وابستگی یا سیاسی سرگرمی صرف زبانی کلامی اظہار خیال تک ہی محدود رہ سکتی تھی اور عملی طور پر کسی سرگرمی کا اظہار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مگر لوگ ذہنی طور پر قائد اعطم کی رہنمائی کے قائل ہوتے جا رہے تھے اور پاکستان کے مطالبہ کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر اس کے حق میں آواز بلند کرنے لگے تھے۔

جنگ عظیم دوم کے اختتام تک تحریک پاکستان اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ سادات بروالہ میں اس کے لیے بڑا جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا اور اب ہر محفل اور ہر گفتگو کا موضوع یہی تحریک بنتی جا رہی تھی۔ اخبارات کی خبروں میں بہت زیادہ دلچسپی بڑھ گئی تھی۔ اور قصبہ میں سید مہدی حسن کے ہاں ایک ریڈیو بھی آ گیا تھا جو بیٹری سے چلتا تھا۔ اس طرح تازہ ترین خبریں حاصل ہونے کا ذریعہ پیدا ہو گیا تھا۔ خبریں نشر ہونے کے وقت ریڈیو کے گرد بہت سارے لوگوں کا ہجوم ہو جاتا تھا۔ اور اس کے فوراً بعد ان لوگوں کے ذریعہ یہ تمام خبریں پورے قصبہ میں پھیل جاتی تھیں۔ پھر ان کے بارے میں ہر جگہ گفتگو چل نکلتی تھی۔ اس طرح تحریک پاکستان کے حوالہ سے لوگوں میں سیاسی شعور بیدار ہو گیا تھا اور سب لوگ خود کو اس تحریک کا حصہ خیال کرنے لگے تھے۔

تھوڑے عرصے بعد ملک میں عام انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ انتخابات ایک لحاظ سے مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 143

تعین کرنے والے تھے۔ اس لیے تحریک پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے تھے۔ ان انتخابات نے سادات بروالہ کو پوری طرح سے تحریک پاکستان کا فعال حصہ بنا دیا تھا۔ اس قصبہ میں کسی قسم کی کوئی مذہبی، سیاسی یا نظریاتی گروہ بندی نہیں تھی۔ اس لیے سب لوگ متحدہ طور پر مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔ اس ے بعد جب سردار شوکت حیات کو صوبائی کابینہ سے برطرف کیا گیا اور پنجاب کے مسلمان عوام نے انہیں "شوکت پنجاب" کا خطاب دیا تو انہوں نے صوبہ کا دورہ کیا اور ہر جگہ انہیں بے انتہا پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس دورہ کے سلسلہ میں وہ بروالہ سیدان بھی پہنچے۔ یہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور سٹیشن سے قصبہ تک جلوس کی شکل میں لایا گیا۔ مگر ان کا قیام بہت مختصر تھا اس لیے کوئی عام جلسہ منعقد نہیں کیا گیا۔ سید ممتاز حسن کی رہائش گاہ پر قصبہ کے تمام مسلمان زعماٗ جمع ہوئے۔ سردار شوکت حیات نے ان سے مختصر سا خطاب کیا اور اس اجلاس میں مسلم لیگ کی مقامی شاخ کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا۔ اس شاخ کے ۔۔۔۔۔۔۔ سید مہدی حسن صاحب اور سیکرٹری سید احسن شاہ صاحب چنے گئے۔

اس طریقہ سے سادات بروالہ کی مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے ساتھ وابستگی کو ایک نئی جہت ملی اور وہ اب عملی طور پر خود کو تحریک پاکستان میں شامل سمجھنے لگے۔ مسلم لیگ کی مقامی شاخ کے تحت اجلاس منعقد ہونے لگے اور مختلف طریقوں سے تحریک پاکستان کی اہمیت کو واضح کیا جانے لگا۔ قصبہ کے در و دیوار پر مسلم لیگ کے مخصوص نعرے لکھے جانے لگے۔ ان میں سب سے زیادہ مقبول دو نعرے تھے۔ اول "مسلم لیگ میں آ۔" دوم " پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الٰہ اِلا اللہ" ان سرگرمیوں کے باعث گھر گھر مسلم لیگ کے پیغام اور پاکستان کے نام کا چرچا ہونے لگا اور تحریک پاکستان کے لیے سب لوگوں کے دل میں بہت جوش و خروش پیدا ہو گیا۔ قصبہ کی ہندو آبادی چونکہ بہت کم تھی اور مسلمانوں سے دبی ہوئی تھی۔ اس لیے انہوں نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا اور ان کےساتھ مسلمانوں کے تعلقات بدستور خوشگوار اور معمول کے مطابق رہے۔

1947 عیسوی کے آغاز میں خضر وزارت کے خلاف مسلم لیگ نے تحریک نافرمانی شروع کی۔ اسلامیہ کالج لاہور کے طلبا نے اسی تحریک میں بے مثال جوش و جذبہ اور جرات کے ساتھ حصہ لی۔ وہ مسلم لیگ کا ہراول دستہ تھے۔ اس لیے صوبہ میں جگہ جگہ پھیل گئے اور لوگوں کو تحریک سول نافرمانی کے لیے منظم کیا۔ سید جمیل حسین نقوی ان دنوں اسلامہ کالج میں سال سوم کے طالب علم تھے۔ وہ اس مشن کو لے کر بروالہ پہنچے اور یہاں سول نافرمانی کی تحریک کو منظم کیا۔ جلسوں اور تقریروں کے ذریعہ لوگوں کو اس تحریک کے مقاصد سے روشناس کرایا۔ اس کے خد و خال واضح کیے اور لوگوں کو عملی طور پر اس تحریک میں حصہ لینے پر تیار کیا۔ چنانچہ تحریک سول نافرمانی کے سلسلہ میں حصار شہر میں سب سے پہلا جلوس 3 فروری 1947 عیسوی کو نکلا اور 5 فروری 1947 عیسوی کو بروالہ سیدان میں پہلا جلوس نکالا گیا۔ اس جلوس کی قیادت سید مہدی حسن صاحب، سید احسن شاہ صاحب اور سید جمیل حسین نقوی نے کی۔ تقاریر جگہ جگہ صرف سید جمیل حسین نقوی نے ہی کیں۔ بعد کے چند دنوں میں بھی چند جلوس نکالے گئے اور سید جمیل حسین نقوی کی تقاریر نے لوگوں کے لیے تحریک پاکستان کے مقاصد کو واضح کرنے میں بڑا اہم کام انجام دیا۔ وہ بروالہ سیدان میں اپنا کام مکمل کر کے 13 فروری کو واپس لاہور چلے گئے۔ جہاں طلبا تنظیم کی جانب سے ان کے ذمہ دیگر کام لگائے گئے اور انہوں نے تحریک سول نافرمانی میں بھر پور کام کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 144

آخر سول نافرمانی کی یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ 3 مارچ 1947 عیسوی کو خضر وزارت نے گھٹنے ٹیک دیئے اور مستعفٰی ہو گئی۔ اس طرح مسلم لیگ کو ایک بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی تھی مگر ہندو ذہنیت نے اس کامیابی کے پھل سے مسلمانوں کو محروم کرنے کی خاطر اس موقعہ پر سکھوں کو استعمال کیا اور پنجاب میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ مگر بروالہ سیدان کے ماحول پر ان فسادات کا کوئی واضح اثر نہیں پڑا۔ اس علاقہ کے لوگ امن و سکون سے رہتے رہے اور ان کے تعلقات کم و بیش معمول کے مطابق ہی رہے۔ اگرچہ ملک کے حالات اپنا اثر ہر جگہ ڈال رہے تھے۔ اسی اثر کو کسی حد تک بروالہ سیدان میں بھی محسوس کیا گیا مگر یہ بات احساس تک ہی رہی۔ عملی طور پر زندگی کا معمول جوں کا توں رہا اور اس علاقہ میں کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ فسادات کے باعث کالج بند ہو گئے تو مئی کے تیسرے ہفتہ میں سید جمیل حسین نقوی بروالہ سیدان پہنچ گئے۔ قصبہ میں ان کی موجودگی کے باعث لوگوں کو بہت تقویت حاصل ہوئی۔ کیونکہ تمام علاقہ میں سے وہ پہلے مسلمان نوجوان تھے جو کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں عقل، فہم اور اصابت رائے کی نعمتوں سے نوازا تھا۔ اس لیے لوگ جدید رحجانات، خیالات، نظریات اور حالات کے سلسلہ میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔

قیام پاکستان – 3 جون 1947 عیسوی کو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا۔ اس اعلان کو لوگوں نے قائد اعظم کی زبان سے ریڈیو پر ان کی تقریر کی صورت میں انتہائی شوق اور جذبہ کے ساتھ سنا۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ نے اپنی تقریر کے آخر میں جب پاکستان زندہ باد کے الفاظ ادا کیے تو لوگ جوش مسرت سے ناچ اٹھے۔ جیسے ان کے دل کی سب سے بڑی آرزو پوری ہو گئی ہو۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور دیوانہ وار پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ اس موقع پر سید جمیل حسین نقوی نے ایک جلسہ کا اہتمام کیا اور اس میں تقریر کرتے ہوئے قیام پاکستان پر دلی مسرت کا اظہار کیا۔ تمام مسلمانوں کو بالعموم اور تحریک پاکستان میں کام کرنے والوں کو بالخصوص مبارکباد دی اور ساتھ ہی بروالہ سیدان کی غیر مسلم آبادی کو دعوت دی کہ اس قصبہ کے لوگ ہمیشہ کی طرح مل جل کر زندگی بسر کریں اور ایک دوسرے پر اعتماد کی ایسی مثال پیش کریں جو دوسروں کے لیے قابل تقلید ثابت ہو سکے۔

پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا اصول تو 3 جون کے اعلان میں ہی شامل تھا۔ 8 جون 1947 عیسوی تک یہ پتہ بھی چل گیا کہ انبالہ ڈویژن ہندوستان میں رہے گا۔ اس لیے سادات بروالہ کو یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ آئندہ اس قصبہ میں ان کی حیثیت کیا ہو گی۔ اور انہیں اپنے لیے اب کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ اگرچہ قصبہ کا ماحول اور سارے علاقہ کے حالات اب تک ہر طرح پرسکون تھے، اور سارا کام معمول کے مطابق ہو رہا تھا، لیکن غیر محسوس طور پر ایک ایسی تبدیلی آ چکی تھی جس کا احساس ہر شخص کو تھا مگر اس کا اظہار کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ ہر شخص اپنی جگہ پر سوچتا تھا کہ اب پہلے جیسی بات نہیں رہی ہے۔ اور نہ شاید آئندہ وہ بات پیدا ہو سکتی ہے۔ اب تو مستقبل ایک نئی صورت حال لے کر سامنے آئے گا اور سب کو اسی کے مطابق عمل کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ صورتحال کیا ہو گی؟ اس کا واضح طور پر کسی کو پتہ نہیں تھا۔ اس لیے فوری طور پر کوئی شخص یہ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کہ اسے اب کیا کرنا چاہیے۔

البتہ کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات پیدا ہوئی کہ اگر کسی طرح زمین جائیدار کے تبادلہ کی صورت پیدا ہو جائے اور پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں میں اس طرح کوئی ٹھکانا بن جائے تو بہت اچھا ہو۔ یہ صورت صرف ان گھرانوں کے لیے سود مند ثابت ہو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 145

سکتی تھی جو بڑے زمیندار تھے اور جن کی ملکیت میں زیادہ زمین تھی۔ ایسا خاندان بروالہ سیدان میں صرف سید حسن علی کا تھا۔ اس خاندان کے لوگ بارسوخ بھی تھے۔ چنانچہ ملتان اور گوجرانوالہ کے دو غیر مسلم زمیندار خاندانوں کے ساتھ اس خاندان کی بالواسطہ طور پر کچھ بات چل بھی پڑی تھی۔ پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں کے غیر مسلم خاندان بھی کسی ایسی صورت کی تلاش میں تھے کہ غیر منقولہ جائیداد کے تبادلہ کی صورت میں انہیں کوئی بہتر ٹھکانہ میسر آ جائے۔ مگر ان دنوں حالات کی رفتار اس قدر تیز تھی اور واقعات اس حد تک ناگہانی پیش آ رہے تھے کہ جائیداد کے اس طریقہ سے تبادلوں کی مہلت باقی نہیں رہی تھی۔ اس لیے ایسی کسی صورت پر عمل نہیں ہو سکا۔

فسادات – 14 اگست 1947 عیسوی کو پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا۔ مسلمانوں کو گویا اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی۔ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کا بھی یہ تصور تھا کہ پاکستان اس کے لیے تقویت کا باعث بنے گا اور اس کے سہارے وہ ہندوستان میں رہتے ہوئے باعزت زندگی گزار سکیں تھے۔ لیکن ہندو اپنے مخصوص متعصبانہ ذہن کے باعث نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو پاکستان قائم کرنے کی سزا دینا چاہتا تھا بلکہ ایسے حالات پیدا کر دینا چاہتا تھا کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے سے پہلے ہی ناقابل عمل ثابت ہو کر ختم ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے پنجاب میں سکھوں کو استعمال کیا گیا اور دن بدن فسادات کی آگ زیادہ سے زیادہ بھڑکتی چلی گئی۔ اور آہستہ آہستہ اس کے اثرات بروالہ سیدان کے نزدیک آتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ 26 اگست کو بروالہ کے اسٹیشن کے گزرنے والی گاڑیاں فسادات کے باعث بند ہو گئیں۔ اور اب نزدیکی علاقوں سے بھی فسادات کی خبریں آنے لگیں۔ مقامی طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اعتماد کی بنیادیں بڑی حد تک متزلزل ہو گئیں اور پہلے جیسی بات باقی نہیں رہی۔ آخر 30 اگست کو حصار شہر میں بھی فساد ہو گیا اور حالات نے ایک دم تشویش کا وہ رنگ اختیار کر لیا جس کا خدشہ کافی دنوں سے واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔

فسادات کا طریق کار یہ تھا کہ ایک باقاعدہ منصوبہ کے تحت مسلمانوں کی آبادی پر حملہ کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے ہندوؤں اور سکھوں نے اپنے نوجوانوں کی باقاعدہ تربیت کے کیمپ قائم کر رکھے تھے اور ان کو بڑے پیمانے پر اسلحہ مہیا کیا جاتا تھا۔ مسلمان آبادی پر حملہ کے ساتھ بے دریغ قتل و خون کا بازار گرم کر دیا جاتا تھا۔ مال اسباب لوٹ لیا جاتا تھا اور مکانوں کو آگ لگا دی جاتی تھی۔ دوسری جانب مسلمان غیر منظم تھے، ان کے وسائل محدود تھے اور ہندوستان کی حکمرانی میں ہونے کا نفسیاتی دباؤ بھی ان پر موجود تھا۔ لیکن حفاظت خود اختیاری کے لیے جو ذرائع بھی ممکن ہو سکتے تھے انہیں اختیار کیئے بغیر چارہ کار نہیں تھا۔ اس لیے وہ عام بلوائیوں کے سامنے اس طرح ڈٹ جاتے تھے کہ ان کا پلہ بھاری رہتا تھا اور بلوئیوں کو نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ لیکن فساد زدہ علاقہ میں جب پولیس اور فوج امن قائم کرنے کے نام پہنچتی تھی تو مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا ہو جاتی تھیں۔ یہ سرکاری تنظیمیں کلی طور پر ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھیں، ان کے پاس جدید ترین اسلحہ ہوتا تھا اور امن قائم کرنے کے لیے وہ بلوائیوں کے ساتھ شامل ہو کر مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہو جاتی تھیں۔

بروالہ سیدان سادات کا بہت قدیم قصبہ تھا اور سادات کا رعب اور بھرم تمام علاقہ میں بہت زیادہ تھا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ سید حسن علی کے خاندان کے گھرانوں میں تو لائسنس والا کافی اسلحہ تھا۔ اس کے علاوہ پورے قصبہ میں چند گھر ہی ایسے ہوں گے جہاں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 146

بارہ بور کی بندوقیں تھیں۔ اور کسی کے پاس کچھ نہ تھا۔ بس یہ تھا کہ سادات کی دھاک بہت تھی۔ اب صورتِ حال یہ ہو گئی کہ حصار شہر بھی فساد کی زد میں آ گیا اور نزدیکی مقامات سے بھی فساد کی خبریں آنے لگیں تو سادات کو بھی تشویش ہوئی۔ اور وہ اپنی حفاظت کی ممکنہ تدابیر اختیار کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ سب سے پہلا کام تو یہ کیا گیا کہ رات کے وقت عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقامات پر یکجا کر دیا جاتا تھا تا کہ وقت پڑنے پر ہر گھر کی حفاظت مسئلہ نہ بن سکے۔ اس کے بعد نوجوانوں کی ڈیوٹیاں لگائی جانے لگیں جو رات بھر پہرہ دیتے تھے۔ مقامی طور پر اسلحہ بنانے کا کام بھی بڑے پیمانے پر کیا گیا اور مقامی مستریوں نے بڑا کارنامہ انجام دیا کہ بے شمار بندوقیں اور پستول بنا ڈالے۔ ماہر شکاریوں کی وہاں کمی نہیں تھی اس لیے بارود اور گولیاں بنانے کا مسئلہ بھی حل کر لیا گیا۔ اس طرح سادات نے ممکنہ حد تک خود کو مسلح کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔

اس گھریلو صنعت کے بنے ہوئے اسلحہ کا یہی بڑا کام تھا کہ سادات کا حوصلہ قائم رہا اور ہمت بندھی رہی۔ ورنہ اسے استعمال کی ضرورت پڑ جاتی تو جانے کس حد تک کارآمد ثابت ہوتا۔ مگر یہ ضرورت اس لیے پیش نہ آئی کہ اللہ تعالٰی نے سادات کا ایسا رعب تمام علاقہ میں قائم کر دیا کہ مقامی ہندو آبادی تو قطعاً سہم کر رہ گئی۔ بلکہ بنئے تو اپنی دولت کو بچانے کی فکر میں اپنے مکانوں کو تالے لگا کر ایک ایک کر کے قصبہ چھوڑ گئے اور دوسرے بستیوں میں اپنے عزیز رشتہ داروں کے پاس جا ٹھہرے۔ بروالہ کے اردگرد با اثر ہندو آبادی جاٹوں کی تھی۔ ان کے ساتھ سادات کے صدیوں کے روابط تھے۔ مگر ان دنوں یہ جاٹ بھی مسلمانوں کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ البتہ ۔۔۔۔۔۔کے سادات کے ساتھ انہوں نے اپنے روابط بحال رکھنے کی کوشش کی۔ وفود کی صورت میں مسلسل بروالہ آتے رہے تا کہ آپس کے اعتماد کو قائم رکھا جائے اور سادات سے یہ ضمانت حاصل کی جائے کہ ان کی جانب سے آس پاس کی ہندو آبادیوں کو کوئی خطرہ پیدا نہیں ہو گا۔ یہ صورت حال صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی فضل و کرم کے باعث تھی کہ اس نے سادات کا بھرم آخری دم تک قائم رکھا ورنہ سادات کا جو حال تھا وہ انہین خود بہت اچھی طرح معلوم تھا۔

قصبہ میں صرف دو ریڈیو تھے۔ ایک سید مہدی حس کے ہاں تھا اور دوسرا تھانہ میں اسٹیشن ماسٹر بابو خورشید کے گھر میں تھا۔ بابو خورشید نے حالات کے مخدوش ہو جانے کے باعث ریلوے سٹیشن کے ویرانے میں واقع کوارٹر سے اپنے بچوں کو تھانہ کے ایک کوارٹر میں منتقل کر دیا تھا۔ دونوں جگہ ریڈیو سے خبریں سننے کے لیے لوگوں کا ہجوم رہتا تھا اور بعد میں سارا وقت ان خبروں پر تبصرہ ہوتا رہتا تھا۔ مگر کسی خبر سے اور کسی طریقہ سے پتہ نہیں چلتا تھا کہ اگلے لمحہ ہی کیا ہونے والا ہے۔ حالات قطعاً غیر واضح تھے اور کسی طرح کا بھی کوئی اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا۔ ہر شخص سخت پریشانی اور الجھن میں گرفتار تھا۔ ہر چیز دھندلا کر رہ گئی تھی۔ کچھ بھی واضح طور پر نظر نہیں رہا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی کند ہوتی جا رہی تھیں اور ہر لمحہ ایک قسم کا دھڑکا اور خدشہ دل کو مسوستا رہتا تھا۔

تبادلہ آبادی – آخر یکم ستمبر کو اطلاع ملی کہ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتیں پنجاب میں آبادی کے تبادلہ پر رضا مند ہو گئی ہیں۔ کیونکہ فسادات کو روکنے کا اور کوئی طریقہ موجود نہیں تھا۔ اب یہ ہو گا کہ سپیشل ریل گاڑیوں اور لاریوں کے قافلوں میں فوج کی حفاظت کے ساتھ مغربی پنجاب سے غیر مسلم آبادی کو مشرتی پنجاب اور مشرقی پنجاب کی مسلمان آبادی کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 147

مغربی پنجاب منتقل کر دیا جائے گا۔ یہ خبر اس لحاظ سے انتہائی تکلیف دے تھی کہ اس جگہ کو ہمیشہ کے لیے ترک کرنے کی بات کی جا رہی تھی جہاں صدیوں سے نسل در نسل رہتے چلے آ رہے تھے، جہاں کی مٹی میں زندوں کے اول نال اور مُردوں کی ہڈیاں دفن تھیں، جہاں کی زمین کی خوشبو، درختوں کی چھاؤں، کھیتوں کی وسعت، بستیوں کے نقسے اور گلیوں کی دھول روح کی گہرائیوں میں رچی بسی تھی۔ اس جگہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ مگر وہاں حالات اس قدر مخدوش ہو چکے تھے اور زندگی اس حد تک غیر یقینی ہو گئی تھی کہ سب لوگ ذہنی طور پر جلد ہی ترک وطن کے لیے تیار ہو گئے۔ یہ ترک وطن خاص طور پر اس لیے اطمینان کا ایک پہلو لیے ہوئے تھا کہ اب پاکستان پہنچنا تھا۔ وہ پاکستان جس کی تمنا ہر شخص نے بڑی آرزوؤں کے ساتھ کی تھی۔ جس کے خواب بڑی تمناؤں کے ساتھ دیکھے تھے اور جس کے لیے ہر ایک نے مقدور بھر جد و جہد کی تھی۔ اس ارض تمنا میں پہنچنے کی خاطر تو ہر عزیز شے کی قربانی دی جا سکتی تھی۔ اس کے لیے ترک وطن پر مجبوری تو کوئی بڑی قربانی نہیں تھی۔ وہاں پہنچنے کے بعد تو ہر دکھ درد دور ہو جانا تھا۔ اس لیے اس کی خاطر ہر بڑے سے بڑا دکھ جھیلا جا سکتا تھا۔

2 ستمبر کو ہانسی میں بھی فساد ہو گیا اور وہاں بے انتہا قتل و غارت ہوئی۔ یہاں ہندو فوج بلوائیوں کا ساتھ دیتی رہی اور ان کی حفاظت کر رہی تھی۔ چنانچہ مسلمانوں کے مکانوں کو آگ لگا دی گئی، مال و اسباب لوٹ لیا گیا اور اس قدر قتل و غارت ہوئی کہ بہت کم مسلمان جان بچا کر ادھر ادھر پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ وہاں مسلمانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ اس کے ساتھ بروالہ میں بھی حملہ کی افواہیں پھیلنی شروع ہو گئیں۔ کئی بار دن میں اور اکثر رات کے وقت افواہ پھیل جاتی کہ فلاں جانب سے حملہ آور چڑھے آ رہے ہیں۔ اس صورت حال پر بروالہ کے لوگ زیادہ چوکنے ہو گئے۔ نوجوانوں کی ٹولیاں بنا کر پہرہ کا انتظام زیادہ مؤثر کر دیا گیا۔ حملہ آوروں کے مقابلہ کے لیے مختلف مقامات پر اور چھتوں پر مورچے بنا لیے گئے۔ جامع مسجد کے نقارہ کی آواز کو تنبہہ کے لیے مقرر کر دیا گیا تا کہ خطرہ کے وقت اس آواز کو سنتے ہی سب لوگ اپنی اپنی جگہ چوکس ہو جائیں۔ اس طرح یہ دفاعی کام کسی حد تک منظم طور پر چل رہا تھا۔ مگر یہ سارا انتظام صرف اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے کامیاب رہا۔ ورنہ مسلح افواج کے سامنے کوئی کیا کر سکتا تھا۔ انہی دنوں یہ بھی ہوا کہ بروالہ کے تھانیدار اب تک ایک مسلمان چودھری محمد صدیق تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی حفاظت اور ان کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے ان تھک محنت کی تھی۔ مگر اب دیگر ملازمین سمیت انہین حصار کیمپ میں بھیج دیا گیا تا کہ وہاں سے پاکستان چلے جائیں۔ ان کے باعث بروالہ کے مسلمانوں کو بڑی ڈھارس تھی۔ اس لیے ان کے چلے جانے کو مسلمانوں کا نقصان خیال کیا گیا۔

اب صورت حال اس حد تک خراب ہو چکی تھی کہ تمام راستے غیر محفوظ ہو چکے تھے۔ بستی کی حدود سے باہر نکلنا غیر محفوظ تھا۔ اکیلے دوکیلے آدمی راستہ چلتے قتل کردیئے جاتے تھے۔ ارد گرد کے چھوٹے چھوٹے دیہات میں مسلمانوں کے جو گھر آباد تھے وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کرتے ہوئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بروالہ میں چلے آئے تھے۔ رات دن میں کئی بار افواہیں پھیلتی تھیں کہ فلاں جانب سے حملہ آور آ گئے ہیں۔ نقارہ بجا دیا جاتا تھا اور لوگ اسلحہ لے کر مقابلہ کےھ لیے تیار ہو جاتے تھے۔ مگر اللہ تعالٰے کا شکر ہے کہ یہ افواہیں غلط ثابت ہوتی تھیں۔ اس موقع پر قاری جی کی ذات قصبہ کے لیے بڑی ہمت اور برکت کا باعث بنی رہی۔ لوگ ہر وقت ہدایت اور رہنمائی کے لیے ان کے پاس جمع رہتے تھے۔ ایک دن انہوں نے گھوڑی پر بیٹھ کر تمام قصبہ کے گرد چکر لگائے اور ساتھ ہی کچھ پڑھتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 148

رہے۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ قصبہ کے گرد انہوں نے حصار کھینچ دیا ہے۔ اب کوئی حملہ آور بری نیت سے قصبہ کے اندر داخل ہونے کی جرات نہیں کر سکتا۔ مگر قصبہ والوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بستی کی حدود سے باہر نہ نکلیں۔ ان ہدایات پر عمل کیا گیا تو انشاٗ اللہ تعالٰے قصبہ ہر نقصان سے محفوظ رہے گا۔ اور اللہ تعالٰے نے واقعی اس قصبہ کو ہر نقصان سے محفوظ رکھا۔ اس علاقہ کے بزرگوں میں اب تک یہ بات مشہور ہے کہ حصار شہر میں فسادات کے باوجود مسلمان کسی بڑے نقصان سے اس لیے محفوظ رہے کہ وہاں حضور جی کی خدا رسیدہ ہستی موجود تھی۔ بروالہ کو اللہ تعالٰی نے قاری جی کی برکت سے محفوظ رکھا۔ اس کے مقابلہ میں ہانسی اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔

انہی دنوں پتہ چلا کہ حصار میں ایک کیمپ قائم کر دیا گیا ہے جہاں فساد زدہ مقامات کے لٹے پٹے اور زخمی مسلمان اکٹھے ہو رہے ہیں۔ ہانسی اور بھوانی میں بھی ایسے کیمپ قائم کر دیئے گئے تھے۔ تاکہ مسلمانوں کو یہاں اکٹھا کر کے بعد میں پاکستان بھیج دیا جائے۔ ایک خبر یہ پھیلی کہ بروالہ کے مسلمانوں کو بھی حصار کے کیمپ میں جانا پڑے گا اور وہاں سے پاکستان جائیں گے۔ یہ خبر کافی پریشان کن تھی مگر جو بھی صورت ہو۔ اب ہجرت کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔ سب لوگ اپنا ضروری اور مختصر سامان تیار کر رہے تھے جو سفر میں ساتھ لیا جا سکتا تھا۔ باقی سامان کو یا تو یکجا کر کے بند کر رہے تھے یا اپنے ہندو دوستوں کے ہاں رکھوا رہے تھے۔ ایک بہت موہوم سی امید تھی کہ شاید بعد میں اس سامان کو آ کر لے جا سکیں۔ ہجرت کی ان تیاریوں میں شدید بارشوں کے باعث بڑی رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس ۔۔۔۔۔۔۔ کا موسم بہت سخت اور خشک رہا تھا۔ مگر ستمبر کا مہینہ آیا تو بارشیں شروع ہو گئیں۔ اور پھر اتنی ہوئیں کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ ان بارشوں کے باعث بہت سے گھروں کی چھتوں اور دیواروں کو کافی نقصان پہنچا اور لوگوں کے لیے مزید پریشانی کی صورت پیدا ہوئی۔

بروالہ سیدان کے علاقہ میں مسلمان راجپوتوں کے دو بڑے گاؤں لوہاری اور ننگ تھلہ تھے۔ اردگرد کے ہندو جاٹ اکٹھے ہو کر ان دونوں بستیوں پر کئی بار حملے کر چکے تھے مگر نقصان اٹھا کر پسپا ہونے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ شنید ہے کہ ایک مجذوب پھرتا ہوا لوہاری پہنچ گیا تھا اور اس نے وہی نصیحت کی تھی کہ بستی کے لوگ اپنی جگہ پر رہ کر اپنی حفاظت کریں گے تو انہیں کوئی نقصان نہیں ہو گا مگر کچھ پرجوش نوجوانوں نے اس اصول کی پرواہ نہ کی۔ جن بستیوں کے جاٹ ان پر حملہ آور ہوا کرتے تھے، یہ بھی بدلہ لینے کے لیے ان میں سے ایک بستی پر چڑھ دوڑے۔ مگر سخت نقصان اٹھانا پڑا اور ساتھ ہی اپنی بستی کو تباہ بھی کرا لیا۔ یہاں کے لٹے پٹے اور زخمی 5 اکتوبر کو بروالہ پہنچے۔ بعد میں ننگ تھلہ کی آبادی کا قائم رہنا بھی ناممکن ہو گیا۔ چنانچہ وہاں کے لوگ بھی اپنا گاؤں خالی کر کے بروالہ شریک ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی اردگر کے متعدد دیہات کے لوگ اپنی آبادیوں کو غیر محفوظ پا کر بروالہ میں آ گئے۔

اسی دوران پتہ چلا کہ حصار شہر کی مسلمان آبادی بھی اپنے گھروں کو چھوڑ کر کیمپ میں منتقل ہو گئی ہے۔ اس شہر میں دو تین مرتبہ یہ ہوا۔ مسلمانوں کو زیر کرنے کی بڑی کوشش کی گئی۔ مگر وہ برابر ڈٹے رہے اور اپنی جگہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ حکام کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں اور وہ کیمپ میں جانے کے بجائے اپنے گھروں میں مقیم رہنے پر بضد رہے۔ آخر حکام نے حضور جی کو قائل کر لیا تو انہوں نے مسلمانوں کو یہ بات ماننے پر آمادہ کیا اور وہ سب کیمپ میں منتقل ہو گئے۔ فوجی اور سول حکام سرکاری گاڑیوں میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 149

تمام علاقہ کا دورہ کر کے امن و امان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ کئی بار یہ حکام بروالہ بھی پہنچے۔ یہاں کے سادات نے ڈپٹی کمشنر سے درخواست کی کہ انہیں حصار کیمپ میں جانے کے لیے نہ کہا جائے بلکہ ان کے لیے بروالہ میں ہی کیمپ قائم کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ قصبہ کی حفاظت کے لیے فوج کا ایک مستقل دستہ مقرر کر دیا جائے۔ کئی دفعہ یہ خبر پھیلی کہ ایک سپیشل ریل گاڑی آئے گی جو بروالہ کی مسلمان آبادی کو پاکستان لے کر جائے گی۔

مگر 12 اکتوبر کو پانچ لاریوں میں سوار فوج کا ایک بہت بڑا دستہ بروالہ پہنچا۔ اس دستہ کا کمانڈر ایک گورکھا کپتان تھا جو سادات بروالہ کی خوش قسمتی سے اچھا آدمی تھا۔ اس نے بتایا کہ بروالہ کے مسلمان قافلہ کی صورت میں یہاں سے ہی پاکستان جائیں گے۔ اس وقت تک بروالہ میں ارد گرد کے بہت سے دیہات سے مسلمان جمع ہو چکے تھے اور ان کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہو گئی تھی۔ فوجی دستہ کے کپتان نے روانگی کی تاریخ بھی بتا دی کہ 20 اکتوبر کو قافلہ روانہ ہو گا۔ ترک وطن کے لیے لوگ تیاریاں تو پہلے سے ہی کر رہے تھے۔ اب قصبہ فوج کی حفاظت میں تھا۔ اس لیے یکسو ہو کر تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ زاد راہ کے لیے چنے بھنوا لیے گئے۔ آٹا پسوا لیا گیا۔ ضروری استعمال کے کپڑے اور برتن ساتھ رکھے گئے یا پھر بہت قیمتی اشیاء لے لی گئیں۔ اس سے زیادہ کچھ بھی ساتھ نہیں رکھا جا سکتا تھا کیونکہ قافلہ نے اپنی مدد آپ کے اصول پر سفر کرنا تھا۔ حکومت کی جانب سے سواری کا کوئی ذریعہ مہیا نہیں کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ ریڑھو، گڈے اور باربرداری کے جانور تیار کر لیے گئے۔ قافلہ کی روانگی کی خبر تمام علاقہ میں فوراً پھیل گئی۔ نواحی دیہات کے جاٹ اور دیگر غیر مسلم گروہوں کی صورت میں الوداعی ملاقاتوں کے لیے آنے لگے۔ بروالہ کے بنئے بھی سب واپس آ گئے جو اپنے گھروں کو خوف کے عالم میں چھوڑ کر دوسرے دیہات میں چلے گئے تھے۔

ہجرت – 19 اکتوبر کی شام تک کوچ کی ہر طرح سے تیاری کر لی گئی۔ کیونکہ اگلے دن صبح روانگی تھی۔ ساتھ جانے والا سامان سواریوں میں رکھ لیا گیا۔ اس مٹی کو جی بھر کر چوم لیا گیا جس نے آٹھ سو سال تک سادات کو اپنے سینے سے لگا کر پرورش کیا تھا۔ ان دو و دیوار کو ان گنت بوسے دے لیے گئے جنہیں بنانے سنوارنے اور مضبوط کرنے میں کئی پشتوں کی محنت صرف ہوئی تھی۔ زمین کے اس حصے اور آسمان کے اس ٹکڑے کو دل میں سمو کر ساتھ لے جانے کی کوشش کی گئی جسے اب دوبارہ دیکھنا کبھی نصیب نہیں ہونا تھا۔ ان قبروں پر آخری بار فاتحہ پڑھ لی گئی جن میں آرام کرنے والے صدیوں سے جیتے جاگتے معاشرہ کا لازمی حصے تھے۔ اور جن کے ذکر کے بغیر کوئی محفل، کوئی تقریب مکمل نہیں ہوتی تھی۔ اس مال و اسباب کو آخری بار تالے لگا دیئے گئے جس کے جمع کرنے پر کئی نسلوں کی محنت اور سرمایا صرف ہوا تھا۔ جن میں مرے ہوئے لوگوں کی زندہ نشانیاں بھی شامل تھیں اور جس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ قصبہ میں آباد اور آس پاس کے دیہات کے غیر مسلموں سے آخری ملاقات کر لی گئی جن کے ساتھ صدیوں سے مرنے جینے اور غمی خوشی کا ساتھ رہا تھا۔ غرض وہ رات بھی قیامت کی رات تھی۔ ہر دل پر اس رات میں کیا کیا قیامتیں نہیں گزر گئیں۔ اپنی جنم بھوم کو ترک کرنا بھی کتنا کٹھن کام ہوتا ہے۔ حالات کتنے ہی پُرخطر ہو جائیں اور وہاں زندہ رہنا کتنا ہی ناممکن ہو جائے۔ جی یہ چاہتا ہے کہ جو حشر ہونا ہے وہ اسی جگہ ہو جائے۔ اس مقام کو چھوڑنے کے لیے مجبور نہ ہونا پڑے۔ مگر ہجرت کا عمل مسلمانوں کے لیے سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت سے دین کا حصہ ہے اور یہ ہجرت ارضِ تمنا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 150

پاکستان جانے کی غرض سے تھی اس لیے بروالہ سیدان کا قافلہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر 20 اکتوبر کو صبح آٹھ بجے روانہ ہو گیا۔ ریڑھوں گڈوں اور دوسری سواریوں پر راشن اور ضرورت کا سامان لدا تھا اور عورتوں اور بچوں کو سوار کرا دیا گیا تھا۔ مرد تمام پیدل چل رہے تھے۔ حفاظت کے لیے فوج کا دستہ تھا۔ اس دستے کا گورکھا کپتان بداتِ خود اچھا آدمی تھا۔ اس کی اچھائی کو مزید پختہ کرنے کےلئے سادات بروالہ نے اسے پیسہ بھی بہت دیا تھا۔ ایک دفعہ بروالہ میں قیام کے دوران اسے کافی دولت دی گئی۔ دوسری دفعہ قافلہ کی روانگی کے موقعہ پر ایسا ہی کیا گیا۔ اس وقت مال و دولت کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی تھی۔ اصل اہمیت عزت و آبرو اور جانوں کی تھی۔ اس کپتان نے بھی قافہ کی حفاظت پوری تندہی سے کی۔ سفر کے تیسرے دن جاٹوں نے قافلہ کے ایک حصہ پر حملہ کر کے کچھ مال و اسباب اور مویشی چھین لیے، مگر اس کپتان نے فوراً اقدام کر کے یہ سارا مال اسباب بھی واپس لیا اور حملہ کرنے والوں کو گرفتار بھی کر لیا۔ اس طرح اللہ تعالٰی نے ایسے اسباب مہیا فرما دیئے کہ یہ قافہ حفاظت اور امن میں رہا۔

قافلہ چونکہ بہت بڑا تھا۔ عورتوں اور بچوں کا ساتھ تھا اور پیدل سفر کرنا تھا۔ اس لیے ایک دن میں دس پندرہ میل کا فاصلہ طے کرتا تھا اور رات کے لیے کسی کھلی جگہ پر پڑاؤ ڈال دیتا تھا۔ تین دن کے سفر کے بعد یہ قافلہ فتح آباد کے مقام پر پہنچا۔ یہاں منگالی، ۔۔۔۔۔۔ اور دائمہ کے قافلے پہلے سے پہنچ چکے تھے اور بروالہ کے قافلہ کے انتظار میں تھے۔ ان کے شامل ہونے کے بعد قافلہ میں شامل افراد کی تعداد اسی ہزار تک پہنچ گئی اور یہ غالباً مشرقی پنجاب سے پاکستان پہنچنے سب سے بڑا پیدل قافلہ تھا۔ فتح آباد کے مقام پر قافلہ والوں نے پھر رقم جمع کی اور فوج والوں کی دی تاکہ آگے کا سفر آرام سے گزرے اور حفاظت کا کام بخوبی انجام پا سکے۔

راستے میں ملٹری اور پولیس والے کہیں کہیں قافلہ کو تنگ کرتے تھے۔ نظم و ضبط قائم رکھنے کے نام پر ڈنڈے برساتے تھے اور بے جا سختی کا اظہار کرتے تھے۔ مگر قافلہ والے بے چارے سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور تھے۔ البتہ بیرونی زیادتیوں سے فوج کے دستے نے قافلہ کی پوری حفاظت کی۔ 26 اکتوبر کو قافلہ سرسہ سے چار پانچ میل نکل کر خیر پورہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا کہ لوگوں نے سر شام سکھوں کو قافلہ کے آس پاس گھومتے دیکھا۔ انہوں نے خدشہ کی بُو سونگھی اور چوکنا رہے۔ رات کو بارہ بجے کے قریب سکھوں کے ایک بڑے گروہ نے قافلہ پر حملہ کر دیا۔ قافلہ والے چونکہ اس کے لیے پہلے سے تیار تھے اس لیے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ فوج کے دستہ نے بھی قافلہ کی حفاظت کے پورے اقدامات کیے اور مشین گن بھی استعمال کی۔ چنانچہ سکھ بھاگ گئے اور قافلہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہا۔ اگلے دن صبح جب قافہ آگے کی جانب روانہ ہوا تو سکھوں نے ایک اور کوشش کی۔ قافلہ کے پچھلے حصہ پر حملہ کر دیا اور کچھ بیل چھین کر لے گئے۔ مگر فوجی بروقت پہنچ گئے۔ انہوں نے سکھوں کو مار بھگایا اور ان سے بیل واپس لے آئے۔

اب ریگستانی علاقہ کا سفر شروع ہو گیا تھا۔ دور دور تک سوائے ریت کے اور کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اونچے نیچے ٹیلوں اور غیر ہموار سطح کی شکل میں چاروں جانب ریت پھیلی ہوئی تھی۔ آبادی یا روئیدگی کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ ایک گاؤں نظر بھی آیا تو ویران پڑا تھا۔ اس کی مسجد بہت خوبصورت تھی۔ جہاں اب اذان دینے والا کوئی نہیں رہا تھا۔ اس ریگستان میں اتنے بڑے قافلہ کے لیے پانی کا حصول بڑا مسئلہ بن گیا۔ وہ تو اللہ تعالٰی کی رحمت سے اس سال ستمبر میں بارشیں خوب ہو گئی تھیں۔ جن کا پانی جوہڑوں اور تالابوں میں اکٹھا ہو گیا تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو اس بے آب و گیاہ ریگستان میں اکثر لوگ پیاس سے ہی مر جاتے، بہر حال 27 اکتوبر کا سفر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 151

کافی کٹھن تھا۔ اس دن گرمی کافی زیادہ تھی۔ ریگستان کا سفر تھا۔ دوپہر کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ اور پانی کہیں دستیاب نہیں تھا۔ راستے میں ایک تالاب نظر بھی آیا۔ مگر وہاں ایک سپاہی کھڑا تھا جو کسی کو وہاں سے پانی نہیں لینے دیتا تھا۔ شاید وہ پانی استعمال کے قابل نہیں تھا۔ غرض بڑی مصیبت اور مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے بوڑھے اور بچے اس سختی کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ آخر شام کا نزدیک ہوا تو راستے میں سکھوں کا ایک گاؤں پڑا۔ یہاں کے باشندوں کے دل میں اللہ تعالٰے نے رحم ڈال دیا اور وہ تمام دن کی شدید گرمی اور پیاس کے ستائے ہوئے قافلہ کے ساتھ اس قدر مہربانی سے پیش آئے کہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ انہوں نے خود لا لا کر قافلہ والوں کو پانی پلایا۔ ان کے اندر بھنے ہوئے چنے تقسیم کیے اور کچھ آٹا، دال وغیرہ خشک راشن بھی پیش کیا، قافلہ والے اللہ تعالٰی کی اس بے پایاں رحمت پر شکر بجا لائے اور اپنا سفر بخوبی جاری رکھ سکے۔

اگلے دو دن کا سفر بھی ریگستانی علاقہ کا تھا۔ اس لیے کافی دشوار اور کٹھن تھا، پانی کمیاب تھا، مویشیوں کے لیے چارہ نایاب تھا۔ اور ریگستان میں پیدل سفر کرنا دشوار تھا۔ غرض غریب الوطنی کے سفر کی تمام مشکلات پوری شدت کے ساتھ درپیش تھیں۔ کسی کسی جگہ مسلمانوں کے اجاڑ اور ویران گاؤں راستے میں پڑتے تھے تو وہاں سے پانی حاصل کر لیا جاتا تھا، مگر ایک اور مشکل یہ ہوئی کہ آگ جلانے کے لیے بالن کا حصول اس ریگستان میں انتہائی دشوار تھا۔ چنانچہ 28 اکتوبر کے پڑاؤ میں کھانا پکانے کا مسئلہ بہت پریشان کن رہا۔ آخر 29 اکتوبر کو قافلہ منڈی ڈیوالی پہنچ گیا اور ڈیوائی کی آبادی سے ایک میل آگے چل کر پڑاؤ کیا۔ یہ بستی ضلع حصار کی آخری حد تھی۔ اور ڈوگرہ فوج کے دستہ کو اسی مقام تک قافلہ کے ساتھ آنا تھا۔ یہاں پہنچ کر اس کی ذمہ داری ختم ہو جاتی تھی۔ اس سے آگے کے سفر میں قافلہ کے حفاظت کے لیے پاکستانی فوج کے دستہ کو پہنچنا تھا جو اب تک نہیں پہنچا تھا۔

اس دستہ کے انتظار میں قافلہ کو پانچ دن تک وہاں ٹھہرے رہنا پڑا۔ یہ پانچ دن انتہائی دشواری، پریشانی، بے یقینی اور مصیبت کے دن تھے۔ قافلہ بہت بڑا تھا اور پڑاؤ کی جگہ بہت تنگ تھی جو بہت دقت کا باعث بنی۔ ضروریات کی قلت پیدا ہو گئی۔ آس پاس کے لوگ ضرورت کی اشیاء فروخت کرنے کے لیے آ گئے اور من مانی قیمتیں وصول کر کے قافلہ والوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ اتنے بڑے قافلہ کے پانچ دن تک ایک ہی جگہ ٹھہرے رہنے کے باعث آس پاس تعفن اور گندگی پھیل گئی اور بیماریاں پھوٹ پڑنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا اور سب سے بڑی مصیبت یہ کہ ڈوگرہ فوج کے دستہ کا کہنا تھا کہ ان کی ذمہ داری پوری ہو چکی ہے کہ قافلہ کو ضلع حصار کی حد تک بعافیت پہنچا دیا ہے۔ اب انہیں واپس چلے جانا چاہیے۔ مگر مسلمان فوج کے آئے بغیر یہ دستہ واپس چلا جاتا تو قافلہ غیر محفوظ رہ جاتا اور لازماً اس پر حملہ کر دیا جاتا اور اس کا بھی وہی حشر ہوتا جو بہت سے دوسرے قافلوں کا ہو چکا تھا۔ اس لیے قافلہ والے سخت خوف اور دہشت کے عالم میں ایک ایک لمحہ بسر کر رہے تھے اور روزانہ کافی بڑی رقم جمع کر کے فوج والوں کو دیتے تھے تاکہ وہ قافلہ کو غیر محفوظ نہ چھوڑ جائیں۔ اس کے باوجود 2 نومبر کو انہوں نے حتماً کہہ دیا کہ قافلہ کے ساتھ یہ ان کا آخری دن ہے اور خواہ کچھ ہو، دوسرے دن وہ واپس چلے جائیں گے۔ اس پر تو قافلہ میں سراسیمگی پھیل گئی۔ گڑگڑا کر اللہ تعالٰی سے رحمت کی دعا مانگی جانے لگی۔ کچھ بلند ہمت بزرگوں نے حوصلہ بڑھایا کہ جب اور کوئی چارہ نہیں ہے تو صورت حال کا مردانگی سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا۔ نوجوان اپنی اپنی لاٹھیاں وغیرہ تیار کر کے منصوبہ بندی کرنے لگے کہ فوج کے بغیر قافلہ کی حفاظت کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں گی، سب سے زیادہ فکر عورتوں اور بچوں کی تھی۔ اور پریشانی کا اصل سبب یہی کمزور پہلو تھا۔

مگر اللہ تعالٰے نے اپنا بے پناہ فضل و کرم فرمایا۔ اسی دن 2 نومبر کو دوپہر کے وقت بلوچ رجمنٹ کا ایک دستہ پہنچ گیا اور قافلہ کی حفاظت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 152

کی ذمہ داری سنبھال لی۔ اب قافلہ والوں کی جان میں جان آئی۔ انہوں نے سکون کا سانس لیا اور اللہ تعالٰے کا بے انتہا شکر ادا کیا۔ سخت مایوسی کے عالم میں اللہ تعالٰے نے ان کی غیب سے مدد فرمائی تو گویا گزشتہ پانچ دنوں کے تمام دکھ تکلیفیں ایک دم فراموش ہو گئیں۔ اس سب اس طرح خوش ہو گئے جیسے ہر مصیبت کا بوجھ سر سے اتر گیا ہو۔ مسلمان فوج نے جب قافلہ کے پڑاؤ کی حالت، چاروں جانب پھیلی گندگی اور لوگوں کی تکلیف کو دیکھا تو فوراً کوچ کا حکم دے دیا۔ قافلہ والے بھی سخت تنگ آئے ہوئے تھے۔ اس لیے شکر دوپہر کا وقت ہونے کے باوجود فوراً اٹھ کر روانہ ہو گئے اور پانچ میل آگے پہنچ کر پڑاؤ کیا۔ یہ جگہ اچھی تھی۔ اب مسلمان فوج کی موجودگی میں حفاظت اور اعتماد کا بھی پورا احساس تھا اس لیے لوگوں کو کئی دن بعد ایک گہرے سکون کا احساس ہوا۔ منڈی ڈیوالی میں قافلہ والوں کی مجبوری سے آس پاس کے لوگوں نے جو ناجائز فائدہ اٹھایا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے دن وہاں ایک روپیہ میں گندم ایک سیر، گڑ سات چھٹانک، چارہ چار سیر اور لکڑی دو سیر فروخت ہوئی اور آخری دن ایک روپیہ میں گندم آدھ سیر، گڑ ایک پاؤ، چارہ ایک سیر اور لکٹری ایک سیر کے حساب سے ملتی رہی۔ یہی حال ضرورت کی دیگر اشیاء کا بھی رہا۔

مسلمان فوج کے آ جانے کے بعد قافلہ والوں کے لیے بڑی آسانی اور سہولت پیدا ہو گئی۔ فوج والے بڑی نرمی اور ہمدردی سے پیش آئے تھے اور قافلہ کی حفاظت اور سہولت کا ہر طرح خیال رکھتے تھے۔ راستہ میں جو آبادیاں پڑتی تھیں، وہاں سے قافلہ گزارنے کے لیے سخت قسم کا کرفیو نافذ کر دیتے تھے تاکہ قافلہ کے گزرنے تک ادھر اُدھر کوئی شخص نظر نہ آئے۔ یہاں تک کہ کھیتوں میں بھی کوئی آدمی نظر نہیں آتا تھا۔ اب علاقہ بھی نسبتاً سرسبز آ گیا تھا۔ بارشوں کے باعث گھاس وغیرہ کافی تھی۔ اس لیے مویشیوں کے لیے چارہ اور آگ جلانے کے لے بالن کی دستیابی آسان ہو گئی تھی۔ گزشتہ ریگستانی سفر اور ڈیوالی میں قیام کے سختی اور دشواری کے مقابلہ میں اب بڑی آسانی اور سہولت کا احساس ہو رہا تھا۔ اب راستے میں ایسی آبادیاں پڑ رہی تھیں جہاں سے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے تھے اور پاکستان سے سکھ یہاں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ یہ سکھ بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے تھے اور اس کا ذمہ دار ہندوؤں کے بجائے مسلمانوں کو ٹھہراتے تھے اس لیے مسلمانوں کے اس قافلہ کے لیے بھی ان کی جانب سے پورا خطرہ ہر وقت موجود تھا۔ مگر فوج والے پوری طرح مستعد رہے اور قافلہ کی پوری حفاظت کی۔ البتہ 5 نومبر کو ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ اس دن فاصلہ زیادہ طے کرنا تھا۔ اس لیے قافلہ کو رات کے ایک بجے ہی کوچ کرا دیا گیا۔ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھا کر سکھوں نے قافلہ پر دو دفعہ حملہ کیا۔ ایک دفعہ پچھلے حصہ پر اور دوسری دفعہ درمیانی حصہ پر۔ مگر دونوں دفعہ فوجی دستہ نے فوری کاروائی کر کے سکھوں کو مار بھگایا اور قافلہ نے بغیر کسی نقصان کے اپنا سفر بحفاظت جاری رکھا۔

پاکستان زندہ باد – آخر وہ دن بھی آ گیا جس کی امید میں ہر طرح کی مصیبتیں جھیلی گئی تھیں۔ ہر سختی کو حوصلہ اور ہمت کے ساتھ برداشت کیا گیا تھا اور ہر مشک سہہ لی گئی تھی۔ 7 نومبر کو قافلہ ہندوستان میں اپنے آخری پڑاؤ سے صبح دو بجے ہی روانہ کر دیا گیا کیونکہ اس دن کا سفر بھی طویل تھا۔ ظہر کے وقت قافلہ دریائے ستلج ہیڈ سلیمانکی پہنچ گیا۔ سب نے اللہ تعالٰی کا بے حد و شمار شکر ادا کیا۔ شکرانے کے نفل ادا کیے اور پاکستان کی مٹی کو ماتھے سے لگا کر چوما۔ اس پاک سر زمین میں پناہ کی امید پر تو زندگی کا رشتہ قائم تھا۔ یہ پاک وطن اللہ تعالٰی کی جانب سے برصغیر کے مسلمانوں کو عطا نہ ہوتا تو اس خطہ میں مسلمانوں کا حشر اس سے بھی بدتر ہوتا جو سپین میں ہوا تھا۔ اور یہ بھی اللہ تعالٰے کا سادات بروالہ پر خاص فضل و کرم تھا کہ ان کا اتنا بڑا قافلہ اتنی خیریت اور حفاظت کے ساتھ پاکستان پہنچ گیا تھا۔ ان دنوں کسی قافلہ کا اتنی عافیت کے ساتھ اتنا طویل سفر کر کے پہنچ جانا بہت حیران کن بات تھی۔ مگر اللہ تعالٰی کی رحمت سے یہ قافلہ بحفاظت ہیڈ سلیمانکی کا پل پار کر کے پاکستان میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 153

داخل ہوا اور دو میل اندر آ کر اس کا پڑاؤ کرایا گیا۔

اس قافلہ نے کل 163 میل کا سفر طے کیا جو انیس دن میں پورا ہوا۔ یہ تمام عرصہ اور پورا سفر اس قدر سختی اور صعوبت سے بھرا تھا جو الفاظ میں شاید بیان نہیں ہو سکتا۔ بچے اور بوڑھے پیدل سفر پر مجبور تھے کیونکہ سواریاں کافی نہیں تھیں اور مسلسل سفر نے ان کے پاؤں زخمی کر دیئے تھے۔ مگر اس حالت مین بھی سفر جاری رکھنا ضروری تھا۔ وہ سیدانیاں قافلہ میں ساتھ تھیں جنہوں نے کبھی باپردہ سواری کے بغیر گھر سے پاؤں نہیں نکالا تھا۔ اب نہ صرف مسلسل سفر کی اذیت کو برداشت کرنے پر مجبور تھیں بلکہ ہر پڑاؤ پر بغیر کسی سہولت اور سامان کے کھانا پکانے کا انتظام بھی کرنا پڑتا تھا۔ سخت گرمی کے موسم میں نہانے دھونے کا تو کیا ذکر ہے پینے کے لیے پانی مشکل سے ملتا تھا۔ تمام سفر میں منہ ہاتھ دھونے یا کپڑے تبدیل کرنے کا بھی کم ہی موقع ملا۔ اور پاکستان پہنچنے تک بہت سے بدنوں پر لباس تار تار ہو چکا تھا۔ بہت سے لوگوں کی سواریاں راستے میں ناکارہ ہو گئیں۔ ریڑھو یا گڈے کے پہیے ٹوٹ گئے یا بیل ناکارہ ہو گئے۔ ان کا مال اسباب بھی اس سواری کے ساتھ ہی پیچھے رہ گیا اور وہ صرف تن کے کپڑوں میں پاکستان پہنچے۔ جو لوگ بیمار پڑ گئے ان کے علاج کی کوئی سبیل نہیں تھی اور جو لوگ راستے میں ہی جان کی بازی ہار گئے ان کے کفن دفن کے وسائل موجود نہیں تھے۔ بس جہاں کسی کا آخری وقت آیا اسی جگہ جوں توں کر کے اسے دفن کر دیا اور آگے روانہ ہو گئے۔ غرض یہ سفر اس قدر سختی اور شدت کا سفر تھا کہ بعد میں خصوصاً خواتین یہ سوچ کر حیران ہوا کرتی تھیں کہ انہوں نے یہ سفر کیسے طے کر لیا۔ مگر جب سفر اللہ تعالٰے نے خیر خیریت کے ساتھ مکمل کرا دیا اور پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ایک نئی زندگی کا ہر ایک کو احساس ہوا، جس میں خوف، دہشت، بےگانگی، بےیقینی، سختی اور دشواری کے بجائے امن، سکون، اپنائیت، حفاظت، یگانگت، آسانی اور سہولت کی فضا موجود تھی تو گویا سفر کی تمام صعوبتیں یکایک فراموش ہو گئیں۔ ہر ایک نے گہرے سکون کا سانس لیا اور پاک مٹی کے فرش پر لیٹ کر ایک طویل مدت کے بعد سکون اور بے فکری کی نیند آئی۔ ایسی نیند جس نے طویل اور دشوار سفر کی تھکن دور کر دی۔

اس قافلہ کو دو دن تک سلیمانکی میں ٹھہرانے کے بعد بورے والا کی جانب روانہ کر دیا گیا۔ مگربورے والا پہنچنے سے قبل ہی لوگ اپنے اپنے تعلقات کی بنا پر ادھر ادھر بکھرنا شروع ہو گئے۔ جس کو جہاں کچھ سہولت کی امید نظر آئی، اپنے خاندان کو لے کر وہاں چلا گیا۔ بہت سے گھرانے ایسے بھی تھے جو راستے کی آبادیوں میں رہ پڑے۔ مگر اس طرح ادھر اُدھر رہ جانے والوں کی تعداد پھر بھی بہت زیادہ نہیں تھی۔ اکثر و بیشتر لوگ قافلہ کے ساتھ رہے اور بورے والا پہنچے۔ یہاں بھی ایک کیمپ لگا کر اس قافلہ کو ٹھہرایا گیا۔ سید احسن شاہ صاحب کو حکومت کی طرف سے کیمپ کمانڈنٹ مقرر کر دیا گیا تا کہ کیمپ میں راشن اور دیگر ضروریات کی تقسیم منظم طریقہ پر کرائیں اور دیگر معاملات میں کیمپ میں مقیم لوگوں کی رہنمائی کریں۔

بھونہ اور منگالی کے قافلوں میں شامل لوگ یہاں بروالہ سیدان کے کیمپ سے علیحدہ کیمپوں میں مقیم تھے۔ چند دن بعد صرف بروالہ کے کیمپ کو بورے والا میں روک لیا گیا اور باقی دونوں کیمپوں کو آگے روانہ کر دیا گیا۔ بروالہ کے لوگ یہاں مقیم رہ کر آہستہ آہستہ نزدیکی دیہات میں آباد ہوتے چلے گئے۔ اسی لیے سادات بروالہ کی اکثریت کی آبادی بورے والا کے علاقہ میں ہے۔ البتہ کچھ گھرانے بعد میں ادھر ادھر بھی جا کر آباد ہو گئے جیسے گوراپانہ کے بہت سے گھرانے میلسی اور اسماعیل پانہ کے کافی گھرانے چک شفیع میں آباد ہیں۔ ان کے علاسہ بھی چند گھرانے دوسرے مقامات پر جا بسے۔ لیکن اس سادات کا مرکز ابتک بورے والا ہی ہے۔ اور اکثر و بیشتر گھرانے اس شہر میں یا اس کے نواح میں آباد ہیں۔
 
Top