شمشاد
لائبریرین
صفحہ 141
سیاسی شعور – بروالہ سیدان ایک انتہائی پسماندہ علاقہ کا قصبہ تھا۔ ہریانہ کا علاقہ پنجاب کے ان علاقوں میں شامل تھا جنہیں انگریز حکومت نے دانستہ پسماندہ رکھا تھا۔ اگرچہ یہاں کے لوگ میدان جنگ میں جوانمردی اور بہادر کے لیے معروف تھے مگر ان علاقوں کو پسماندہ رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں کے لوگوں کے سامنے فوج کی ملازت کے سوا اور کوئی راستہ نہ رہے اور انگریز حکومت کی فوج کو افرادی قوت بلا روک ٹوک مہیا ہوتی رہے۔ چنانچہ ہریانہ کے راجپوت اور جاٹ اکثر فوج میں جاتے تھے اور اپنی پامردی کے لیے معروف تھے۔ مگر اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے انگریز حکومت نے علاقہ کو اس قدر پسماندہ رکھا کہ یہاں کی تعلیمی اور معاشی حالت ہمیشہ اپنی پست ترین سطح پر رہی۔ زندگی کا دارومدار صرف زراعت پر تھا اور زراعت کا انحصار بارش پر ہونے کے باعث فصلوں کی حالت ہمیشہ غیر یقینی رہتی تھی۔ ہر دو چار سال بعد قحط کی سی صورت پیدا ہوتی رہتی تھی۔ صنعت و حرفت کا تمام علاقہ میں کوئی ادارہ نہ تھا۔ ذرائع معاش اس قدر محدود تھے کہ اکثر لوگ ہمہ وقت معاش کے چکر میں ہی مبتلا رہتے تھے۔
اس قدر پسماندگی اور ناخواندگی اور جہالت کے ماحول میں سیاسی شعور کو پنپنے کی گنجائش کہاں مل سکتی ہے۔ اس لیے سیاست بروالہ سیداں کے باشندوں کا کبھی مسئلہ نہیں بنی۔ یہی کافی تھا کہ ملکی حالات سے باخبر رہنے کے لیے پورے قصبہ میں آٹھ دس اخبار آتے تھے۔ جو ڈاک کے ذریعہ تیسرے چوتھے دن قصبہ میں پہنچتے تھے۔ ان میں بھی آدھے اخبار تو سید حسن علی کے خاندان کے گھرانوں میں آتے تھے اور باقی سکول، ہسپتال اور بنک جیے اداروں میں آتے تھے۔ قصبہ میں چند مقامات ایسے تھے جہاں شام کے وقت کچھ سیانے لوگ جمع ہو کر حقہ کے کشوں کے ساتھ مختلف مسائل پر تبادلہ خیالات کیا کرتے تھے۔ اسی گفتگو کے دوران سیاسی مسائل پر بھی تبصرہ ہو جاتا تھا۔ مگر یہ تبادلہ خیالات بے خبر لوگوں کی گپ شپ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔
پورے قصبے میں پختہ سیاسی شعور سے بہرہ ور اگر کوئی شخصیت تھی تو وہ سید ممتاز حسن کی تھی۔ ان کے ہاں،زمیندار. لاہور اور .مدینہ. بجنور شاید اسی وقت سے آتے تھے جب یہ اخبار جاری ہوئے تھے اور ان کی باقاعدہ فائلیں موجود تھیں۔ ان کے علاوہ کئی ایسے جرائد بھی ان کے ہاں مستقل طور پر آتے تھے جن کے ذریعہ وہ اپنے وقت کے سیاسی احوال و رحجانات سے پوری طرح باخبر رہتے تھے۔ مختلف اوقات میں وہ ان سیاسی رحجانات میں عملی طور پر بھی حصہ لیتے رہے تھے۔ سب سے پہلے تحریک خلافت
تحریک آزادی، قیام پاکستان اور ہجرت
سیاسی شعور – بروالہ سیدان ایک انتہائی پسماندہ علاقہ کا قصبہ تھا۔ ہریانہ کا علاقہ پنجاب کے ان علاقوں میں شامل تھا جنہیں انگریز حکومت نے دانستہ پسماندہ رکھا تھا۔ اگرچہ یہاں کے لوگ میدان جنگ میں جوانمردی اور بہادر کے لیے معروف تھے مگر ان علاقوں کو پسماندہ رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں کے لوگوں کے سامنے فوج کی ملازت کے سوا اور کوئی راستہ نہ رہے اور انگریز حکومت کی فوج کو افرادی قوت بلا روک ٹوک مہیا ہوتی رہے۔ چنانچہ ہریانہ کے راجپوت اور جاٹ اکثر فوج میں جاتے تھے اور اپنی پامردی کے لیے معروف تھے۔ مگر اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے انگریز حکومت نے علاقہ کو اس قدر پسماندہ رکھا کہ یہاں کی تعلیمی اور معاشی حالت ہمیشہ اپنی پست ترین سطح پر رہی۔ زندگی کا دارومدار صرف زراعت پر تھا اور زراعت کا انحصار بارش پر ہونے کے باعث فصلوں کی حالت ہمیشہ غیر یقینی رہتی تھی۔ ہر دو چار سال بعد قحط کی سی صورت پیدا ہوتی رہتی تھی۔ صنعت و حرفت کا تمام علاقہ میں کوئی ادارہ نہ تھا۔ ذرائع معاش اس قدر محدود تھے کہ اکثر لوگ ہمہ وقت معاش کے چکر میں ہی مبتلا رہتے تھے۔
اس قدر پسماندگی اور ناخواندگی اور جہالت کے ماحول میں سیاسی شعور کو پنپنے کی گنجائش کہاں مل سکتی ہے۔ اس لیے سیاست بروالہ سیداں کے باشندوں کا کبھی مسئلہ نہیں بنی۔ یہی کافی تھا کہ ملکی حالات سے باخبر رہنے کے لیے پورے قصبہ میں آٹھ دس اخبار آتے تھے۔ جو ڈاک کے ذریعہ تیسرے چوتھے دن قصبہ میں پہنچتے تھے۔ ان میں بھی آدھے اخبار تو سید حسن علی کے خاندان کے گھرانوں میں آتے تھے اور باقی سکول، ہسپتال اور بنک جیے اداروں میں آتے تھے۔ قصبہ میں چند مقامات ایسے تھے جہاں شام کے وقت کچھ سیانے لوگ جمع ہو کر حقہ کے کشوں کے ساتھ مختلف مسائل پر تبادلہ خیالات کیا کرتے تھے۔ اسی گفتگو کے دوران سیاسی مسائل پر بھی تبصرہ ہو جاتا تھا۔ مگر یہ تبادلہ خیالات بے خبر لوگوں کی گپ شپ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔
پورے قصبے میں پختہ سیاسی شعور سے بہرہ ور اگر کوئی شخصیت تھی تو وہ سید ممتاز حسن کی تھی۔ ان کے ہاں،زمیندار. لاہور اور .مدینہ. بجنور شاید اسی وقت سے آتے تھے جب یہ اخبار جاری ہوئے تھے اور ان کی باقاعدہ فائلیں موجود تھیں۔ ان کے علاوہ کئی ایسے جرائد بھی ان کے ہاں مستقل طور پر آتے تھے جن کے ذریعہ وہ اپنے وقت کے سیاسی احوال و رحجانات سے پوری طرح باخبر رہتے تھے۔ مختلف اوقات میں وہ ان سیاسی رحجانات میں عملی طور پر بھی حصہ لیتے رہے تھے۔ سب سے پہلے تحریک خلافت