ساغر صدیقی تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں

تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں
اے ساکنان خلد سنو میں نشے میں ہوں

کچھ پھول کھل رہے ہیں سرِ شاخ مے کدہ
تم ہی ذرا یہ پھول چنو میں نشے میں ہوں

ٹھہرو ابھی تو صبح کا مارا ہے ضوفشاں
دیکھو مجھے فریب نہ دو میں نشے میں ہوں

نشہ تو موت ہے غمِ ہستی کی دھوپ میں
بکھرا کے زلف ساتھ چلو میں نشے میں ہوں

میلہ یوں ہی رہے یہ سرِ رہ گزار زیست
اب جام سامنے ہی رکھو میں نشے میں ہوں

پائل چھنک رہی ہے نگار خیال کی
کچھ اہتمام رقص کرو میں نشے میں ہوں

میں ڈگمگا رہا ہوں بیابان ہوش میں
میرے ابھی قریب رہو میں نشے میں ہوں

ہے صرف اک تبسمِ رنگیں بہت مجھے
ساغرؔ بدوش لالہ رخو میں نشے میں ہوں
ساغرؔ صدیقی
 
Top