مصطفیٰ زیدی بے سمتی ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
بے سمتی

گئیر بدلتے ہوئے، منہ سے پھینک کر سگرٹ
ڈرائیور نے ٹریفک کو ماں کی گالی دی
کہا، حضور کہاں کیڈلک، کہاں پیجُو

کہاں حکایتِ شیریں دہان و شہد لباں
کہ ایک سیر شکر کا نہ مل سکا پرمٹ
کہ دفتروں کو چلاتے ہیں تلخ گو بابو

گمان بن گئی تہذیبِ رستم و سہراب
حکومتوں نے بہ حقِ خزانہ ضبط کیے
رموزِ کیسۂ ماژندرانِ کیخسرو

تمام دستخطی فائلوں میں ڈوب گئیں
پری رخانِ عجم کی جھکی جھکی پلکیں
طلسمِ ۃوش رُبا کا گھنا گھنا جادو

کہاں مسائلِ روحانیت، کہاں عرفان
مکان، قلّتِ اسباب، کثرتِ اولاد
شکار، بینک، برج، ریس، غم دوا، دارو

یہ تھوڑی دور پہ دوکانیں فاحشاؤں کی
لبوں پہ آخرِ شب کی بجھی ہوئی بیڑی
بدن میں تلخیِ شہوت سے تارکول کی بُو

شعور و بے خبری کی حدیں نہیں ملتیں
اَب اُن کو صورِ سرافیل کیا جگائے گا
جگا چکا جنہیں مل میں لگا ہوا بھونپو

ہر ایک شب مری محبوبہ مجھ سے ملتی ہے
لبوں پہ سِحرکناں میکس فیکٹر کی ہنسی
کُسن کا حسنِ نظر، ریولان کے ابرو

عدالتوں میں ہوا فیصلہ دل و جاں کا
نہ وہ سُہاگ کی لو آئینے کے چہرے پر
نہ وہ دلھن کی نگاہوں میں حیرتِ آہُو

جہاز اڑ گئے بمباریوں کے عزم کے ساتھ
کہیں سے دل کی صدا آئی اِس طرح جیسے
فلپ کے بلب کے آگے چراغ کے آنسو

نظر جھکائے ہوئے قافلے چلے آئے
ہزار صبحِ بنارس نے راستہ روکا
ہزار شام اودھ کے بکھر گئے گیسو

ہر ایک نِیم پہ جھُولے کی ڈوریاں لٹکیں
ہر ایک کھیت میں سرسوں کی بالیاں مہکیں
دلوں کے زخم کو لیکن نہ بھر سکی خوشبو

ادب کی ایک جماعت کا فیصلہ یہ ہے
کہ رکنیت کی بنا پر خزف بھی کہلائے
چراغِ لالہ و سیّارۂ فلک پہلو

کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوار وطن
کبھی کبھی تجھے تنہائیوں میں سوچا ہے
تو دِل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو

یہ قطرے قطرے پہ اعلانِ قلزم و جیحوں
ذرا ذرا سی نمی پر امیدِ زرخیزی
یہ دشتِ بے سر و ساماں! یہ آفتاب! یہ لو

مرے وطن، مرے مجبور، تن فگار وطن
میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے
میں نیویارک کا دشمن نہ ماسکو کا عدو

جلے جلائے کلیسا، لُٹے لٹائے حرم
طلوع ہو تو کِدھر سے نئی سحر کا گجر
سکوت طوق بہ دست و صدا رسن بہ گُلو

شفا نصیب ہو کیسے مریضۂ افکار
بڑھے تو کیسے بڑھے قافلہ خیالوں کا
ضمیر و نطق پہ پہرے قلم پہ گسٹاپو

تمام مشرقِ وسطیٰ کا ایک کلچر ہے
ہر اک درخت میں آبِ حیاتِ انگلستان
ہر ایک فصل میں واشنگٹن کا جوشِ نمو

کہیں سے آئی صدا علم سب سے اعلیٰ ہے
کہیں سے آئی صدا عشق سب سے برتر ہے
کہیں سے آئی صدا لا الہٰ الّا ھُو

رہِ نجات نہ آوارگی نہ سادہ روی
علاجِ تیرگیِ مے کدہ نہ عقل نہ عشق
نہ مُلحدوں کے پیالے نہ صوفیوں کے کدو

دل و نظر کی یہ واماندگی یہ بے سمتی
مبصرّو کوئی بھرپور فلسفہ لاؤ
یہ چاک، سوزنِ مذہب سے بھی ہوا نہ رفو

(مصطفیٰ زیدی)
 
آخری تدوین:
Top