بیگم

رمضان میں فاقوں سے کہاں ہرتی ہے بیگم
ہاں چپ کا اگر روزہ ہو تو جھرتی ہے بیگم

ہمسائی نے پہنا ہو، ڈیزائن بھی نیا ہو
ہر ایسے لبادے پہ تو بس مرتی ہے بیگم!

تقریب دسمبر میں جو فیشن کا جنوں ہو
بے بازو قمیضوں میں بھی کب ٹھرتی ہے بیگم

ناکام نہ منصوبہ کوئی اُس کا کبھی ہو
الزام میاں پر ہی سدا دھرتی ہے بیگم

وہ حال کیا ہے کہ شبہ ہونے لگا ہے
چنگیز کے لشکر میں کہیں بھرتی ہے بیگم

ہوتی ہے جو ڈائٹنگ پہ تو کھاتی نہیں کچھ بھی
ہاں پھر بھی مرا مغز بہت چرتی ہے بیگم

ویسے ہی کریزیں میری نیت کی نکالے
جیسے میرے کپڑوں کو پریس کرتی ہے بیگم

وہ سانڈ سدھایا ہے جسے کہتے ہیں شوہر
حیرت ہے کہ پھر چوہے سے کیوں ڈرتی ہے بیگم

جس طور کے نخرے ہیں، اگر ویسی ہے نازک
چلتے میں ہلائے ہوئے کیوں دھرتی ہے بیگم

میں نے بھی ظفرؔ بحث کبھی کی نہیں اس سے
سو’’ میسنا‘‘ مجھ کو بھی کہا کرتی ہے بیگم


نویدظفرکیانی
 
Top