بینظیر بھٹو کی واپسی

قسیم حیدر

محفلین
دخل در معقولات کے لیے معذرت۔ لیکن مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ اگر بے نظیر کو پتا تھا کہ دھماکے ہوں گے تو پھر کس لیے لوگوں کی جان کو خطرے میں ڈالا؟ کیا یہ صریح ظلم نہیں‌ ہے۔ جب ڈیڑھ سو لاشیں گر چکیں تو محترمہ آرام سے بلاول ہاؤس چلی گئیں۔ کیا وہ انتظار کر رہی تھیں کہ کب دھماکے ہوں اور کب وہ گھر جائیں؟ ایسے ہوتے ہیں لیڈر؟ ہمارے سیاست دانوں کو چاہے وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں، کچھ لاشیں چاہیے تھیں وہ مل گئیں۔ اب سب سیاست چمکائیں گے۔ عوام بے وقوف بنیں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
 

زینب

محفلین
جناب یہ بھی تو دیکھیے کی دھماکوں‌کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہونے والاتھا۔۔۔۔۔۔۔طاہر ہے بی بی کو۔۔۔۔۔۔۔مشرف سے ڈیل کر کے اپنے سارے گھپلے معاف کروا کے ارہی تھی تو اس کا ووٹ بینک کافی نیچے چلا گیا تھا جو 8 سال سے مشرف کو گالیاں دے رہے تھے وہ اس کے ساتھ کیسے بیٹھتے بی بی کو ہمدردی چاہیے تھی جو ملی اور جی بھر کے سمیٹ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔دھماکوں کا فائدہ کسی کو نہیں تھا ۔۔۔ارباب رحیم۔۔۔۔پرویز الٰہی اور برگیڈئر امجد۔۔۔۔۔کسی کا فائدہ نہیں تھا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بی بی کو جو چاہیے تھا اسے ملا 150 لاشیں گریں تو کیا ہوا کون سا اس کے بھائی بیٹے تھے۔۔۔۔۔۔۔تعزیت کی اللہ اللہ خیر سلہ۔۔۔۔۔۔۔
 

باسم

محفلین
بی بی کا بلٹ پروف ٹرک دیکھیے
pic10.jpg

ڈان 21 اکتوبر
 
خون میں فرق

قطع نظر اس کے کہ فائدہ کس کو ہوا، مجھے ایک بات یاد آرہی ہے جب لال مسجد کا آپریشن سائلنس ہوا تھا اور اس میں بڑی تعداد طالبات کی اللہ کو پیاری ہوگئی اس وقت تو بی بی صاحبہ بجائے اس کے اس واقعے کی مذمت کرتی اس نے اس واقعے کی حمایت کردی۔ کیا انسانوں کے خون میں فرق ہوتاہے۔ مجھے پی پی کے لواحقین سے ہمدردی ہے البتہ سوال بڑی قیادت سے ہے۔ اس روز ایک پی پی رہنما کا بی بی سی ریڈیو پر انٹرویو سنا جس میں وہ کہ رہے تھے کہ کجھ کارکن مارے گئے لیکن اللہ کا شکر ہے ہماری قیادت محفوظ ہے۔ یہ مفادات کی جنگ ہے۔ عام آدمی کی کوئی حیثیت نہیں۔
 

Dilkash

محفلین
یار بڑا خوبصورت بیڈ ہے۔۔واہ جی ہر جگہ مزے ہی مزے۔

سولنگی صاحب۔

دھماکوں کے اج ٹی وی پر پہلا انٹرویو زمرد خان کا ایا جو انکے ساتھ ٹرک پر تھا۔۔کہہ رہا تھا۔۔کچھ نہیں ہوا۔۔ہمارے حوصلے بلند ہیں اور بی بی ہر صورت مزار جناح صاحب پر جائیگی اور چاہے فجر ہو وہاں تقریر فرمائیگی۔
جب پوچھا گیا کہ لوگ مرے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ شائد زخمی پڑے تھے مگر بیبی الحمداللہ بچ گئی ہے اور ۔۔
 

خرم

محفلین
وہ جی غلاموں کی اس سے زیادہ اوقات ہوا بھی نہیں کرتی فیروز بھائی۔غلام بھی وہ جو بے دام خریدے گئے ہوں اور بصد شوق طوقِ غلامی نہ صرف خود اپنے گلے میں ڈالتے ہیں بلکہ اس پر بھنگڑے بھی ڈالتے ہیں۔ یہ تو جنگل کے وہ ہرن ہیں جو اس بات پر خوش ہیں کہ ان کے روٹھے ہوئے شیر واپس آگئے ہیں۔ چند ایک مرگئے تو کیا، ایسی لاکھوں جانیں قربان ان کی ایک جھلک پر۔ یہ طنز نہیں کر رہا، کسی بھی جیالے سے پوچھ لیجئے گا۔
 

ظفری

لائبریرین
سیاست ، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ممکنات کا کھیل ہے ۔ جس میں اگر کامیابی حاصل کرنا مقصود ہے تو موجود حقائق کا ادراک کرنا بھی لازمی ہے ۔ ایسی ہی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ تیسری دنیا میں آنے والی کم وبیش ہر سیاسی تبدیلی میں امریکہ کا ایک بنیادی کردار ہوتا ہے ۔ اور ایسے ممالک جہاں فوج اور کابینہ میں اہم ذمہ داریاں واشنگٹن کی منظوری سے تفویض کی جاتیں ہوں ۔ وہاں یہ خیال کرنا غیرسیاسی سوچ ہوگی کہ کوئی فرد امریکہ کے لیئے قابلِ قبول نہ ہو اور وہ ملک کا وزیرِ اعظم بن جائے ۔اس پس منظر میں اگر بینظیر کی وطن آمد اور وزارتِ عظمیٰ کی طرف پیش قدمی کو دیکھا جائے تو یہ بات بلکل واضع ہے کہ محترمہ کو واشنگٹن کا آشیر باد مل چکا ہے ۔ وہ شخص اس منصب کے لیئے سنجیدہ ہی نہیں ہے جو امریکہ کو برا بھلا کہتا رہے ۔ اسی طرح ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ کی یہ تائید اسی کے کچھ کام آسکتی ہے جس کے پاس اپنی کوئی طاقت ہو ۔ خواہ یہ طاقت بادشاہت کی شکل میں ہو یا پھر عوامی حمایت و تائید کی شکل میں ۔ امریکہ کو یہ دونوں صورتیں گوارا ہیں ۔ اگر کوئی اپنی اس طاقت کو اس کے خلاف استعمال نہ کرے ۔

گو کہ بینظیر بھٹو نےگذشتہ سات سالوں میں ملک میں کوئی ساکھ نہیں بنائی ۔ مگر جس طرح سے لوگ ان کی آمد پر جمع ہوئے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ اس پارٹی کے بانی قائد کی ذات میں آج بھی وہ کشش باقی ہے جوکہ اور کسی جماعت یا لیڈر میں نہیں ہے ۔ مگر عجیب سی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایک دن بھی عوام کو اپنی طرف بلایا اور نہ ہی ان کے سامنے اپنے قائد کا اصل تعارف رکھا ہے ۔ پاکستان کا سیاسی کلچر جس ارتقائی مراحل سے گذرا ہے ۔ اس میں بھٹو کی خوبیاں نمایاں ہوئیں ہیں جبکہ خامیاں دب گئیں ہیں ۔ غیر منتخب حکومتوں کے تسلسل نے ان کے مزاج میں موجود سختی کے تاثر کو کم کیا ہے ۔ اور عالمی طاقتوں کے سامنے موجودہ حکومت کی کمزور حیثیت نے بھٹو کی جرات رندانہ کو نمایاں کیا ہے ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا انہوں نے جس طرح Myth Of Independence میں دفاع کیا ہے اسے اگر آج کے حکمرانوں کے معذرت خواہانہ لہجے کے مقابل رکھا جائے تو بھٹو کے وجود میں پاکستانی عوام کو اپنے جذبات کی تسکین کا سامان ملتا ہے ۔ جس کا ایک مظاہرہ 18 اکتوبر کو دیکھا گیا ۔

میرا اپنا یہ خیال ہے پیپلز پارٹی آج پاکستان کو وہ قیادت فراہم کر سکتی ہے جس کو ملک کی اشد ضرورت ہے ۔ آج اس قوم کو ایسی قیادت درکار ہے جو اسے امریکہ کی دشمنی کے مضر اثرات سے محفوظ رکھے ۔اور جس کی تمام دلچسپی پاکستان اور اس کی عوام کی ترقی سے ہو ۔ اگر بینظیر اپنے باپ کے نیشلزم کا احیاء کرتے ہوئے ، نئے عالمی تناظر میں پاکستانی مفاد کے تحفظ کے لیئے آگے بڑھیں تو یہ بات نیک شگون بن سکتی ہے ۔ مگر معلوم نہیں وہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے ان کو اپنی ساری آرزوؤں کی تکمیل کے لیئے واشنگٹن کی چوکھٹ پر بٹھا دیا ہے ۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے دانستہ اس " نیشلسٹ بھٹو " کے احیاء سے گریزاں ہے جو پاکستانی عوام کے لیئے امید کی کرن بن سکتا ہے ۔ اس کی وجہ بھی شاید وہی واشنگٹن سے امیدیں وابستہ ہیں ۔ موجودہ پاکستان میں ایک " نیشنلسٹ بھٹو " کا کردار امریکہ کے عالمی منصوبے سے میل نہیں کھاتا ۔ یہ کردار پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تسلسل اور تیسری دنیا کے اتحاد کا نقیب ہے ۔ اگر ایسے کردار کو تیس پینتیس سال پہلے عبرت کا نشان بنانے کی بات کی جاتی تھی تو اب یہ کام زیادہ آسان ہوگیا ہے ۔ اب آنکھ میں وہ شرم باقی نہیں جس کا اظہار بیسویں صدی میں کہیں نہ کہیں ہوجاتا تھا ۔ بینظیر نے اپنی " سیاسی تجربے اور بصیرت " کو استعمال کرتے ہوئے واشنگٹن کو خوش رکھنے کی غرض سے پارٹی کے بہت سے اہم مقاصد کو پس پشت ڈالا ہے اور ان کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ وہ مجلس ِ عمل کے ساتھ ایک ہی میز پر بھی بیٹھنے سے گریزاں ہیں ۔ مگر ان کا یہ تجزیہ حقیقت پسندانہ نہیں ہے ۔
امریکی قیادت آج بھی ان عناصر سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے جن سے بینظیر گریز کر رہیں ہیں ۔ بہرحال بینظیر ملکی سیاست میں اعتدال کی علامت بن کر کھڑی ہوئیں ہیں ۔ اور امریکہ بھی اسی لیئے ان کے ساتھ ہے ۔ لبرل اور انتہا پسندی کے نام پر معاشرے میں موجود تقسیم کو کم کرنے میں یہ رویہ کافی سود مند ثابت ہوسکتا ہے ۔ مگر امریکی ایجنڈے کا غیر مشروط اتباع ان کو پاکستانی عوام سے دور کر سکتا ہے ۔ اور اگر اس صورتحال میں انہوں نے اپنی موجودہ طاقت کھو دی تو وہ پھر امریکہ کے لیئے بھی زیادہ دیر تک قابل قبول نہیں رہیں گی ۔
 
Top