بینظیر بھٹو کی واپسی

پاکستانی

محفلین
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو نے اپنی وطن واپسی کے پروگرام کی تجدید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے ملک میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں گی اور اگر پرامن طریقے سے تبدیلی ممکن نہ ہوسکی تو ’گلی محلوں میں احتجاج کریں گے۔‘

دبئی میں بدھ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں اپنے واپسی کے پروگرام میں کسی تبدیلی کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کو ساڑھے بارہ بجے کراچی کے ہوائی اڈے پر اتریں گی۔

مزید
 

پاکستانی

محفلین
یہ تو نہیں معلوم کہ کل دوپہر جب بینظیر بھٹو کا طیارہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترے گا تو وہ کھڑکی سے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ سکیں گی یا نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر سب خیر خیریت رہی تو کئی برس بعد کراچی کو ایک بڑا پاکستان گیر جلوس اور جلسہ دیکھنے کو ملےگا۔

یہ وہی شہر ہے جہاں آج سے اکیس برس پہلے جب بینظیر بھٹو پانچ مئی انیس سو چھیاسی کو اتری تھیں تو پانچ لاکھ کے لگ بھگ افراد نے ان کا خیرمقدم کیا تھا۔

تو کیا کل بھی تاریخ خود کو دھرائے گی۔پیپلز پارٹی والے ابھی سے دس لاکھ کے مجمعے کا دعوٰی کر رہے ہیں اور کل چاہے جتنے بھی لوگ آئیں پیپلز پارٹی والے لگتا ہے کہ اپنے اس پیشگی دعوے پر قائم رہیں گے۔

لیکن یہ بھی تو ہے کہ پانچ مئی انیس سو چھیاسی اور اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کے درمیان اکیس برس حائل ہیں۔ان اکیس برسوں میں آنکھوں سے بہت سا پانی بہہ کر خشک ہوچکا۔

مزید
 

پاکستانی

محفلین
’جان جائے پرواہ نہیں، آئے تو اب صرف بے نظیر آئے‘۔ یہ وہ صدائیں ہیں جو کئی دن سے لیاری کے گلی کوچوں میں گونج رہی ہیں اور لگتا ہے کہ ہر طرف بھٹو ہی بھٹو ہے مثلاًَ لیاری کے باسیوں میں سے عبدالرحمان کو ہی لیجیے جن کے سر پر بھٹو کا جنوں چڑھا ہوا ہے مگر جتنا وہ خود خوش ہیں اُن کے گھر والے شاید اُن سے اِتنے ہی تنگ ہیں۔

چاچا عبدالرحمان نے اپنے گھر کا سارا سامان تتر بتر کر دیا ہے اُنہیں تلاش ہے اُن چار آڈیو کیسٹوں کی جو انہوں نے ماضی میں محفوظ کی تھیں اِن کیسٹوں میں بی بی سی ریڈیو سے نشر ہونے والی خبریں اور ذوالفقار علی بھٹو کی آواز ہے یہ وہ وقت تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کے بُرے دنوں کی ابتداء ہوئی تھی۔

مزید
 

ماوراء

محفلین


دبئی: 7:20 محترمہ بے نظیر بھٹو دبئی میں اپنی رہائش گاہ سے دبئی ائیر پورٹ کے لیے روانہ۔ گاڑیوں کا ایک قافلہ بھی ساتھ روانہ ہو چکا ہے۔
 

زیک

مسافر
کیا وقت تھا 1986 کا جب بینظیر بھٹو پاکستان واپس آئی تھی اور لاہور لینڈ کیا تھا۔ اس واپسی اور آج کی واپسی میں شاید کافی فرق ہے۔
 

ماوراء

محفلین
زیک، اکیس سال پہلے کی بات ہے۔ فرق تو ہو گا ہی۔ ویسے کہا جا رہا ہے کہ 1986 سے زیادہ لوگوں کی تعداد ویلکم کے لیے پہنچے گی۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔


--: بے نظیر ائر پورٹ پہنچنے کے بعد وی آئی پی لاؤنج میں داخل۔
 

ماوراء

محفلین
بے نظیر نارمل کاؤنج میں پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ موجود ہیں۔ ائیر پورٹ میں سخت سیکورٹی انتظامات۔ میڈیا کو ائیر پورٹ میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بورڈنگ کا اعلان کر دیا گیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو ہرے رنگ کے جوڑے اور سفید ڈوپٹے میں بہت اچھی لگ رہی ہیں۔ :p
 

ساجد

محفلین
بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر جاری اس رواں تبصرے کے لئیے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے " اردو محفل کی ہر دلعزیز ناظم (ہ) خاص ماوراء اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جناب زکریا (زیک) نے ، دیگر معاونین میں شامل ہیں جناب منیر احمد طاہر صاحب اور یہ نا چیز"۔
اب جب کہ محترمہ کا طیارہ ہواؤں کے دوش پر جانبِ پاکستان کُوچ کرنے ہی والا ہے اور جی آلے کراچی ائر پورٹ کے پویلین پر ان کے استقبال کے لئیے تیار بیٹھے ہیں ، مزید تبصرے کے لئیے ایک بار پھر ماوراء۔ :)
 

ماوراء

محفلین
اصل میں ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔ اور رات کے وقت بور ہو رہی تھی۔ سوچا یہی کام کر لوں۔ جو ایک بار ساجد نے بھی کیا تھا۔

اس وقت بے نظیر بھٹو کا طیارہ کراچی کی طرف رواں دواں ہو گا، یا شاید ابھی نہیں۔ دبئی سے کراچی میرا خیال ہے، دو سے ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں اور شاید پاکستان کے وقت کے مطابق ایک بجے جہاز لینڈ کر جائے۔

اب پاکستان پہنچنے کے بعد پتہ چلے گا کہ کیا ہوتا ہے۔
 

ساجد

محفلین
اصل میں ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔ اور رات کے وقت بور ہو رہی تھی۔ سوچا یہی کام کر لوں۔ جو ایک بار ساجد نے بھی کیا تھا۔

اس وقت بے نظیر بھٹو کا طیارہ کراچی کی طرف رواں دواں ہو گا، یا شاید ابھی نہیں۔ دبئی سے کراچی میرا خیال ہے، دو سے ڈھائی گھنٹے لگتے ہیں اور شاید پاکستان کے وقت کے مطابق ایک بجے جہاز لینڈ کر جائے۔

اب پاکستان پہنچنے کے بعد پتہ چلے گا کہ کیا ہوتا ہے۔
ہونا کیا ہے ، دما دم مست قلندر ہو گا۔ فلک شگاف اور گلا پھاڑ نعرے گونجیں گے۔ پھولوں کی پتیوں کی بے حرمتی کی جائے گی۔ قائد کی روح کو تکلیف پہنچانے کے لئیے ان کے مزار پر نزول فرمایا جائے گا۔ گلابی اردو کو انگریزی کا تڑکا لگا کر بولنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ سوچا جائے گا کہ پر امن تبدیلی کے لئیے مشرف صاحب سے کتنے معاہدے اور کئیے جائیں۔ اور پھر گلیوں میں احتجاج کے نوبت آئے تو وہ کون سی گلیاں ہوں گی کہ جہاں یہ احتجاج رنگ چوکھا لائے۔ ویسے یہاں تو کوئی 10 ڈاؤننگ سٹریٹ بھی نہیں ہے ، شاید یہ گیت بھی گنگنایا جائے "تیری گلیوں میں آنے جانے سے ، دُشمنی ہو گئی ہے زمانے سے"۔ اور اسی دشمنی کو پیشِ نظر رکھ کر بُلٹ پروف کار کا پیشگی انتظام کیا گیا ہے تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
اپنے کارناموں سے زیادہ ابا مرحوم کے کارناموں کو کیش کروایا جائے گا کیوں کہ اپنے کام تو سیاست سے بھی آؤٹ کرنے کے لئیے کافی ہیں اس لئیے سیاسی مجاورت کے مزار پر پھر سے محفلیں سجائی جائیں گی۔
باقی پھر کبھی!!!
اب زیک
 

ساجد

محفلین
بحیرہ عرب میں کوئی ایسا سائیکلون نہیں جو جہاز تک پہنچ پائے؟ ;)
ساجد اقبال ،
خدا نہ کرے کہ سائیکلون وغیرہ کا چکر ہو۔ اس جہاز میں صرف بے نظیر ہی نہیں میرے اور آپ جیسے ڈھائی تین سو مزدور بھی بیٹھے ہوں گے جو بیچارے اپنے اہلِ خانہ اور پیاروں سے برسوں بعد ملنے کے لئیے بے تاب ہوں گے۔
 

پاکستانی

محفلین
پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں مقامی طالبان کے کمانڈر حاجی عمر نے کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو امریکہ کے کہنے پر پاکستان آ رہی ہے تاکہ وہ ’مجاہدین‘ کے خلاف کارروائیاں کرسکیں لیکن اگر انہوں نے ایسے کیا تو صدر جنرل پرویز مشرف کی طرح ان پر بھی حملے کیے جا سکتے ہیں۔
بدھ کو کسی نامعلوم مقام سے بی بی سی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے حاجی عمر نے بتایا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ بینظیر بھٹو خود اپنی مرضی سے پاکستان نہیں آ رہیں بلکہ امریکہ کے کہنے پر آ رہیں ہے۔ انہوں نے برطانیہ میں بھی کافی وقت گزارہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں اگر جنرل مشرف کی حکومت ہو یا بعد میں بینظیر بھٹو کی حکومت بنتی ہے، ہماری جنگ تو دونوں کے خلاف جاری رہے گی۔‘

مزید
 

پاکستانی

محفلین
بے نظیر بھٹو کے ساتھ میں مخدوم امین فہیم،ناہیدخان رحمن ملک،صنم بھٹو اورلیلیٰ کے علاوہ دیگر رہنما وکارکنان بھی کراچی آئے ہیں۔واضح رہے کہ بے نظیر بھٹو کی بیٹیاں،بیٹا اور ان کے شوہران کے ساتھ کراچی نہیں آئے ۔دوسری جانب کراچی میں بے نظیر بھٹو کی آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اورکراچی اےئرپورٹ کی حدود میں کسی غیر متعلقہ شخص کو داخلے کی جازت نہیں ہے۔جبکہ اےئرپورٹ کے باہر لوگوں کا بہت بڑاہجوم موجود ہے جو ملک کے مختلف علاقوں سے اپنی رہنما کے استقبال کیلئے آئے ہیں۔ بینظیر بھٹو اےئرپورٹ ٹرمینل1سے بلٹ پروف ٹرک میں سوار ہوکر باہر آئیں گی جوخاص طور پر تیار کیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق بے نظیر بھٹوجلوس کی قیادت کرتے ہوئے سب پہلے مزارقائد پر حاضری دیں گی اور پھر بلاول ہاؤس روانہ ہونگی۔بے نظیر بھٹو کی کراچی آمد کے موقع پر بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی میڈیا بھی موجود ہے۔
 

پاکستانی

محفلین
’مارئي ملیر جی (مارئی ملیر کی)‘ یہ تھا وہ خطاب جو ایک نعرے کی صورت میں سندھ کے لوگوں نے بھٹو کی بیٹی کو انیس سو چھیاسی کو لمبی جلاوطنی سے واپسی پر دیا تھا۔

انیس سو چھیاسی کی بینظیر بھٹو اور دو ہزار سات کی بینظیر میں وہی فرق ہے جو ماروی اور ایک ایکٹریس میں ہے۔

اس نے انیس سو اسّی کی دہائي میں ستّر کلفٹن سے لندن جلاوطنی میں جاتے ہوئے اسکی طرف دوڑتے ہوئے چند صحافیوں کے ذریعے عوام کو کہلایا تھا ’میدان میں ملیں گے۔‘ وہ میدان میں ملی ضرور تھی لیکن ککری گراؤنڈ لیاری میں آصف زرداری کیساتھ اپنی شادی کے ولیمے میں۔

اور پھر وہ واقعی جلاوطنی سے اس ملک واپس آئی تھی جہاں، بقول ان کے ’تمام لوگوں کے سروں پر ضیاءالحق موت کی طرح منڈلا رہا تھا۔‘ سندھ کے لوگوں نے اسے ایک لمبی جلاوطنی سے واپس آنے پر ’مارئي ملیر جی‘ کا خطاب دیا تھا۔ وہ سندھی شاعری کی ایک اور سورمی بن گئي تھی۔ دور مشرق سے سورج ابھارنے کے لیے ایک اپنے جسم پر اوڑہی ہوئی کالی شال کے نیچے چھپائي ہوئی ڈھال اور ہاتھ میں چمکتی کڑکتی بجلی کی طرح تیزی سے تلوار چلاتی آتی ہوئي ایک دو شیزہ۔ یہ تھی انیس سو چھیاسی کی بینظیر جسے سب سندھی اپنی بہن کہتے۔
’بھین اسانجی آئی آہے پہنجے دیس نیارے میں، انشاءاللہ ووٹ وٹھندی ہاں ڑے ہیل سیارے میں۔‘ (ہماری بہن اپنے دیس نیارے میں واپس آئی ہے اور انشاءاللہ وہ ووٹ حاصل کری گي۔‘ یہ اس کی جلاوطنی سے چند دو سال بعد مشہور عوامی سندھی فنکار جلال چانڈیو نے گایا تھا۔

مزید
 

پاکستانی

محفلین
بے نظیر بھٹو کی واپسی کے سلسلے میں بی بی سی اردو پر کئے گئے لوگوں کے تبصرے

1- بی بی کو جمہوريت پسند ليڈر نہيں مانا جا سکتا کيوں کہ وہ ملک کی سب سے بڑی کرپٹ سياست دان ہے اور امريکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ايک آمر شحص کے ذريعے پاکستانی عوام پہ مسلط ہونا چاہتی ہے۔ يہ سب کچھ وہ اپنی ذات کے لیے کر رہی ہے۔ اگر اس کو پاکستان اور اس کی عوام سے محبت ہوتی تو وہ چوروں کی طرح مفاہمتی آ رڈيننس کے ذريعے اپنے رستے کے کانٹوں کو صاف کرنے کی معصوم سي غلطی کبھی نہ کرتي۔ جو لوگ س کا استقبال کر رہے ہيں وہ اعلی درجے کے بےوقوف یا آمريت پسند ہيں۔

Muhammad Tahir Javed، Göteborg


2۔ فوجی چھتری ميں پرورش پانے اور ايجينسيوں کی بيساکھيوں کے سہارے لفافوں کے بل بوتے پر اور خفيہ ملکی اور غير ملک سہاروں پر قصر حکومت ميں بيٹھے کب چاہيں گے کہ عوامی قيادت ملکی باگ دوڑ عوام کے اپنے ليڈروں کے ہاتھوں ميں ميں آئے۔ شيدا ٹّلی، محمد علی درانی و ديگر مارشل لاء کی دھمکياں دينے والں کی راتوں کی نيند گئی اور دن کا چين نا پيد ہوا جاتا ہے۔ کچھ دير جمہوری دور رہا تو لوگ وردی والوں کو ان کے مخصوص آئينی کردار تک محدود کر ديں گے، اسی ميں بچت ہے۔

Mian Asif Mahmood، Frederick, MD - U.S.A


3۔ اقتدار کی ہوس نے ديوانہ کرديا ہے ورنہ خاتون تھيں وہ کبھی بڑے کمال کي۔ کھيلتے کھيلتے اس بات پہ راضی ہو گئی ہيں کہ چلو کنگ ميکنگ ميں ہی حصہ مل جائے، پھر بھی مزے، نہ کسی کرپشن کے الزام کا خطرہ نہ عزت جانےکا ڈر؟ شايد يہ سبق چوہدری شجاعت اور مشرف اسے سمجھانے ميں کامياب ہوگئے ہيں۔ ان کا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ وہ رگڈ اليکشن کو منصفانہ ہونے کا تاثر دينے کے لیے عوام میں سے اتنے بےوقوف اور لٹيرے اکھٹے کرہی ليں گي۔ پھر جاتی دفعہ کہيں گی سناؤ کيسا لگا ميرا کرتب؟

فياض کوروٹانہ، London، برطانیہ


4۔ 86 ميں بی بی مظلوم بن کر آئی تھيں۔ ايک ايسی خاتون کی حيثيت سے جس کے والد کو پھانسی دے دی گئی تھی اور پارٹی کے کارکنوں کو کوڑے مارے گئے تھے۔ اس وقت اور اس کے بعد 88 ميں ہونے والے انتخابات ميں محترمہ نے اپنے والد کی موت کو کيش کروايا لیکن اب محترمہ کے پاس مظلوميت کی کوئی سند ہے نہ ہی معصوميت کي۔ بلکہ وہ اپنے گلے ميں آمر سے معافی لينے کا ہار ڈالے ہوئے ہيں اس جواز کے ساتھ کہ ’پہلے دوسروں کو بھی تو معافی مل چکی ہے‘۔

محمد خالد جا نگڈ ا، Karachi، پاکستان


مزید یہاں
 
Top