بیدل اور غالب

الف نظامی

لائبریرین
اب موقع ہے کہ ہم بتا دیں کہ کیوں بیدل بیدل ہے اور غالب غالب۔
دونوں کے درمیان بین فرق ہے جو دونوں کے مطالعے کے بعد پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔ غالب کی طرح بیدل بھی تورانی نژاد تھے ، فولاد کی طرح توانا فطرت رکھنے والے۔ لیکن ان کی توانائی فقر و تصوف کی وجہ سے مہذب صورت اختیار کر گئی۔ مہذب کامعنی یہ ہے کہ اخلاق و احوال تصوف کو اپنی فطرت میں جاری و ساری کرنے کے بعد اس نے انکساری اور تواضع کی ردا پہن لی۔ وہ مغلوب ہوگئی اور کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کر کے اسے اپنا بہت بڑا کارنامہ تصور کیا۔ لیکن غالب کی اس طرح تہذیب نہ ان کا تصوف کر سکا ، نہ ان کی فرزانگی ، نہ زمانے کے حالات اور نہ ہی ان کے انحطاط پذیر قوائے۔ وہ مسائل تصوف بھی بیان کرتے ہیں اور خدا کے سامنے اپنی حسرتوں کو اس طرح بیان کرتے ہیں گویا ان کے لیے حظِ نفس کی جملہ ضروریات کا انتظام نہ کر کے اس نے اپنے سر بہت بڑا الزام لے لیا ہے۔ ظاہر ہے تصوف اور حظائظِ نفس کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں۔ اسی طرح وہ عقل و بینش کی مدح سرائی میں بیسیوں شعر کہہ ڈالتے ہیں لیکن حکیمانہ روش طبیعت میں جو استغناء ، قناعت اور استقامت پیدا کرتی ہے اس سے وہ کوسوں دور رہتے ہیں۔ ان کی شکست نا پذیر انا کا یہ عالم ہے کہ قیدخانے میں بھی جاتے ہیں تو کس شان سے جاتے ہیں۔
ان کے مشہور حبسیہ کے صرف تین شعر سنیے:
پاسباناں بہم آئید کہ من می آیم
درِ زنداں بکشائید کہ من می آیم

ہاں عزیزاں کہ دریں کلبہ اقامت دارید
بخت خود را بستائید کہ من می آیم

تا بہ دروازہء زنداں پئے آوردنِ من
قدمی زنجہ نمائید کہ من می آیم

یہاں من می آیم کی گردان بتاتی ہے کہ حالاتِ زمانہ غالب کومطیع و مغلوب نہ کر سکے۔ وہ بے شک اپنے آپ کو غالب مغلوب لکھتے رہیں (یہ بھی ان کی ایک ادا ہے) ، ان کی انا اپنی ابتدائی صورت میں اپنی پوری آن بان کے ساتھ آخر دم تک قائم رہی۔
فیضِ بیدل از ڈاکٹر عبد الغنی ، صفحہ 77
 
Top