ٹائپنگ مکمل بیتی کہانی.... شہر بانو بیگم

مقدس

لائبریرین
صفحہ 39

بیتی کہانی کا آغاز

بوا مس فلچر میری کہانی پڑھ کر تم کیا نفع پاؤ گی، رنج و غم کھاؤ گی، اپنا جی دکھاؤ گی اور کچھ حظ نہ اٹھاؤ گی۔ اور اگر ضد ہی کرتی ہو تو ایلو میں اپنی سرگذشت ابتدا سے انتہا تک لکھے دیتی ہوں۔ ذرا خیال سے پڑھنا گھبرا نہ جانا۔

تاریخ پیدائش:

میں بدنصیب پانچویں ربیع الثانی 1264ھ کو پیدا ہوئی تھی۔ میرے پیدا ہونے کی میرے ابا جان نواب محمد اکبر علی خاں صاحب مرحوم رئیس پاٹودی کو بڑی خوشی ہوئی تھی۔ چناںچہ اسی وقت توپ خانے میں حکم پہنچا کہ خوشی کی شلکیں سر ہوں۔ بس توپیں چھوٹنے لگیں اور چاروں طرف مبارک سلامت کا غل مچ گیا۔ دادی اماں نے میرے ابا جان سے کہا کہ میاں تم نے تو لڑکی کے پیدا ہونے کی ایسی خوشی کی ہے جیسے کوئی بیٹا پیدا ہونے کی کرتا ہے۔ ابا جان نے جواب دیا کہ اماں جان مجھے تو اس بیٹی کے پیدا ہونے کی ایسی خوشی ہوئی ہے کہ سات بیٹوں کے پیدا ہونے کی بھی اتنی خوشی نہ ہوتی۔ لو بوا یہ دھوم دھام ہورہی تھی کہ:

صفحہ 40

رئیس جھجر کا آنا:

اتفاق سے اسی دن نواب عبدالرحمن صاحب رئیس جھجر بھی پاٹودی میں آن موجود ہوئے۔ اندر محل میں آئے۔ مبارک سلامت کا غوغا سن کر پوچھا کہ آج کاہے کی خوشی ہے؟ دادی اماں نے جواب دیا کہ میاں آج میرے ہاں پوتی پیدا ہوئی ہے۔ یہ سنتے ہی نواب صاحب نے کہا کہ لاؤ لڑکی کو مجھے بھی دکھاؤ۔ مجھے بدنصیب کو دیکھ کر جھٹ گود میں اٹھا لیا، پیار کیا اور میرے ابا جان سے کہا کہ دادا جان یہ لڑ کی تو میں نے لے لی۔ یہ کہہ کر اسی وقت مصری منگا میری گھٹی میں ڈال دی۔

قرار پانا نسبت کا:

اور فرمایا کہ اس کی نسبت میں نے اپنے فرزند محمد نور علی خاں کے ساتھ کی۔ نواب صاحب کا یہ کہنا تھا کہ اسی وقت شادیانے بجنے لگے۔ دھوم مچ گئی۔ گھر گھر یہ خوش خبری پہنچ گئی۔ ہر ایک محل سے بیگمیں آنی شروع ہو گئیں۔ سواریوں پر سواریاں اترنے لگیں۔ خوشی کی محفلیں جم گئیں۔ ناچ رنگ ہونے لگا۔ ڈوم ڈھاڑی ماما اصیلوں کو انعام تقسیم ہونے لگے۔ میری یہ حقیقت ہوئی کہ ایک نواب صاحب کے گھر تو پیدا ہوئی تھی، دوسرے کی بہو ٹھہری۔ اب تو انا، دوا، چھوچھو مانی ہاتھوں چھاؤنی، الله بسم اللہ کرنے لگیں۔

بیگماتوں کا آپس میں اشارہ کنایہ کرنا

اور محلوں سے بیگمیں جو آئیں، آپس میں اشارہ کنایہ کرتی تھیں۔ کوئی کہتی تھی، اچھی، دیکھنا کیا نصیب دار لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ پیدا ہوتے ہی نواب صاحب کی بہو بن گئی۔ کوئی بولی، ہاں بوا، آخر پیدا بھی تو نواب صاحب ہی کے گھر ہوئی ہے۔

صفحہ 41
نصب داری تو اس کی ظاہر ہے۔ کسی نے کہا، اچھی، دیکھ تو سہی، ہمارے نواب صاحب کی اللہ رکھے اور بھی تو اولاد ہے۔ اس کے اور بھی تو بہن بھائی ہیں، کوئی بھی ایسا نصیب دار پیدا ہوا؟ کوئی جواب دیتی، بوا اپنا اپنا نصیب اپنے اپنے ساتھ ہے۔ غرض کوئی حد سے کھسیانی ہوتی تھی، کوئی خوش ہو کر ہنستی تھی۔ پیدا ہونے کے ساتویں روز دستور کے موافق عقیقہ ہوا۔ شہر بانو بیگم میرا نام رکھا گیا۔ بڑے چلے تک خوب گہما گہمی رہی۔ بس دن عید، رات شب برات تھی۔ اس موقع پر نواب صاحب نے بڑے دھوم دھام سے چھٹی دی اور سو روپے ماہوار میری شیر خواری کا مقرر کر دیا۔

منگنی کی رسم:

اسی دن منگنی کی رسم بھی نہایت کروفر سے ادا ہوئی۔ پھر تو ہر تہوار پر لین دین کی رسمیں ہونے لگیں۔ آج کیا ہے، عیدی چلی آتی ہے۔ کل، محرم کی قفلیاں اور گونہ آیا ہے۔ شب برات کی آتش بازی چلی آتی ہے۔ اسی طرح طرفین سے ہزار ہا روپیہ صرف ہو گیا۔ شادی کے دن تک ہی بکھیڑے ہوتے رہے۔

حالات شادی:

جب میں پانچ برس کی ہوئی تو نواب صاحب نے شادی کا پیغام میرے ابا جان کو بھیجا۔ دونوں طرف سے بیاہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ بھلا بوا نواب صاحب کا تو کہنا کیا وہ تو بارہ محال کے مالک تھے۔ انھوں نے تو دو ڈھائی لاکھ روپیہ اس شادی میں لگا دیئے۔ دو مہینے پہلے اپنے ہاں ناچ رنگ کی محفلیں جما دیں۔ تمام شہر جھجر اور اپنے سارے لشکر کی دعوت کی۔ دہلی اور اس کے گرد و نواح کے رئیسوں امیروں کو جمع کیا۔ جب تین روز نکاح کے باقی رہے تو بڑے تجمل سے برات لے کر پاٹودی آئے ۔

صفحہ 42
برات کا پاٹودی آنا:

ایک پلٹن پیاده اور پانچ سو سوار، ایک توپ خانہ، بگھیاں، خاصے، گھوڑے، ہاتھی، رتھیں، تمام دہلی اور اس کے آس پاس کے رئیس، امیر، سینکڑوں تماشائی، نفیری والے، نقارچی، سو ڈیڑھ سو طائفے، بیسیوں دکاندار اس سارے بکھیڑے کو ساتھ لیے ہوئے پاٹودی سے دو میل کے فاصلے پر، جہاں پڑاؤ ہے، آن کر اترے۔ اور پڑاؤ سے قعلے تک دو روپیہ ٹھاٹر بندی کرائی۔ سنا ہے کہ رات بھر اس میں چراغوں کی ایسی روشنی رہتی تھی کہ دن کے اجالے کو مات کرتے تھے۔ ہر چند میرے ابا جان ایک چھوٹی سی ریاست کے مالک تھے مگر اس پر بھی لاکھ سوا لاکھ روپیہ میری شادی میں صرف کیے تھے۔ تین روز تک اپنے تمام لشکر اور امیروں، رئیسوں، مہمانوں کی دعوت کی۔ ہندوؤں کو پوری، کچوری، مٹھائی دی۔ مسلمانوں کو پلاؤ، زرده۔ متنجن وغیرۂ انواع و اقسام کے کھانے کھلائے۔ خیر یہاں تو یہ جلسے ہو رہے تھے

ساچق کا تماشا دیکھنے دلہن کا جانا:

اب میرا حال سنو، کہ میں نگوڑی پانچ برس کی جان، بھلا مجھ کو کیا خبر کہ نکاح کس کو کہتے ہیں اور شادی کیا چیز ہے۔ بوا، جس وقت ساچق آئی، باجوں کا شور اور توپوں کی کڑک سنی، بے اختیار پلنگ پر سے کود پڑی۔ اور جھٹ دادی اماں کے گلے میں جا کر بانہیں ڈال دیں کہ اچھی دادی اماں، ہم بھی برات کا تماشا دیکھیں گے۔ بس میرا یہ کہنا تھا کہ ساری عورتوں نے ایک قہقہ مارا اور چاروں طرف سے آن کر مجھے گھیر لیا۔ انا، ودا، مانی، چھوچھو کہنے لگیں کہ اوئی بیوی، ہم تیرے واری قربان جائیں، بھلا ایسا بھی کوئی کرتا ہے۔ اب سمدھنیں اتریں گی تو وہ دیکھ کر کیا کہیں گی کہ خود دلہن ساچق کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ مگر بوا، میں نے ایک نہ سنی، لگی ایڑیاں رگڑنے اور ایسا رونا شروع کیا کہ سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ سب کے ہوش اڑا دیے۔ آخر دادی اماں نے کہ، اللہ ری ضد ن بچی، اتنی سی جان نے ناچ نچا دیا۔

صفحہ 43

ارے لوگو، میں اسے کیوں کر تماشا دکھانے کو اس وقت اوپر لے جاؤں۔ اندھیرے اجالے وقت اپنی ماں کی اکلوتی بچی۔ اے اس کی ماں کہاں ہیں، انہیں تو بلاؤ۔ لیکن میں نے تو بلک بلک کر ان کو ناچار کر دیا۔ آخر وہ اپنے دوپٹے کا آنچل اڑا، سیدھے کوٹھے پر لے چڑھیں۔ آپ اوٹ میں کھڑے رہیں اور میرا آدھا چہرہ باہر کر دیا۔ پھر تو میں نے بھی ساچق کا خوب تماشا دیکھا۔ دادی اماں بچاری بوڑھی تھیں، تھوڑی دیر میں تھک گئیں۔ جلدی سے مجھے لے کر نیچے اتریں۔ سانس چڑھ گیا، دم پیٹ میں نہ سمائے، عجیب حال ہوا۔ لوگ انہیں دیکھ کر لگے بسم الله، بسم اللہ کرنے۔ اتنے میں میری اماں جان بھی سامنے سے آ گئیں۔ دیکھ کر کہنے گئیں۔ ٹپکی پڑے لڑکی تیرے ڈھنگوں پر۔ دیکھ تو دادی کا کیا حال ہو گیا۔ وہ یہ کہہ رہی تھیں کہ سمدھنیں چھم چھم اترنے لگیں۔ خیر ساچق کی رسم ادا ہوئی۔ آدھے بجے رات کے ابا جان نے مہندی بڑے کروفر کے ساتھ دی۔ دوسرے روز بڑی دھوم دھام سے برات آئی۔

تاریخ نکاح:

24 جمادی الاول 1299ھ کو صبح کی نماز کے بعد میرا نکاح ہوا، ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا مہر بندھا۔ قاضی کو ڈھائی سو روپیہ نقد اور ایک دوشالہ نکاح خوانی کا دیا۔ دہلی کے شہدوں کو سوا سو روپیہ اور ایک شال انعام ملا۔ باقی گھر کے مکینوں کو ہزاروں روپیہ تقسیم کیے۔ دوپہر تک رخصت کا سامان ہوا۔ میرے ابا جان نے قریب ساٹھ ستر ہزار روپیہ کے جہیز دیا تھا۔ کیا نہ تھا، سب ہی کچھ تھا۔ ڈیڑھ سو دیگ بہوڑے کے کھانے کے ساتھ کیے۔

رخصت ہونا برات کا:

بوا جس وقت میں رخصت ہوئی ہوں، محل میں ایسا کہرام تھا کہ روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ بندھ جاتی تھیں۔ اور خاص کر میری اماں کی بے قراری اور

صفحہ 44
دادی اماں کی آہ و زاری سے تو کلیجے کے ٹکڑے اڑتے تھے اورمحل سے لے کر تمام قلعے میں ایسا سناٹا تھا، یہ معلوم ہوتا تھا کہ خدا نہ کرے دور پار سے شیطان کے کان ہہرے کوئی لوٹ کر لے گیا ہے۔ بس مجھے جا کر خیموں میں اتارا۔ شام کو چوتھی کی رسم ادا ہوئی۔

برات کا جھجر پہنچنا:

دوسرے روز پچھلے پہر میں پاٹودی سے چل کر دس بھے دن کے جھجر کے قریب پہنچی۔ شہر سے ہم دو میل کے فاصلے پر تھے کہ ہزاروں آدمی تماشائی سڑک کے گرد جمع ہو گئے۔ نواب صاحب کی تمام فوج برات کی پیشوائی کو آئی ہوئی اور سڑک کے گرد جمع ہوئی کھڑی تھی۔ جب ہم اس انبوہ کے قریب پہنچے تو نواب صاحب بگھی سے اتر کر ہاتھی پر سوار ہوئے اور میری سکھ پال پر سے اشرفیاں نچھاور کرنی شروع کیں۔ قلعے کے دروازے تک اشرفیاں نچھاور کرتے چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ کئی سو اشرفیاں نواب صاحب نے اس روز میری سکھ پال پر سے نثار کیں۔ قلعے کے دروازے پر پہنچی تو پلٹنوں کے باجے بجنے لگے اور سلامی کی شلکیں دھائیں دھائیں چلنے لگیں۔

بیت
بلند ہوتا تھا طنبور سے رو جھر اٹا
کرے ہے دیر تلک سن کے جس کو جی سن سن
کڑکتے تاشے تھے نقارے بجتے تھے دوں دوں
کڑکتی توپ سلامی کے وقت تھی دن دن

جب قلعے کے اندر پہنچی تو مبارک سلامت کی صدائیں ہر طرف سے آنے لگیں۔ غرض بڑی دھوم دھام اور تجمل سے مجھے محل میں جا کر اتارا۔ پھر وہاں جو کچھ ریت رسم ہوتی ہے، وہ ادا ہوئی۔ اور اس روز سے پانسو روپے ماہوار میر ے خرچ پاندان کے نام سے نواب صاحب نے مقرر کر دیے۔ دو روز وہاں رہی، پھر اپنے

صفحہ 45
میکے چلی آئی۔ اس کے بعد چالوں کی رسم ہوئی۔ جب چاروں چالے ہو چکے تو اس کے بعد یہ دستور ٹھہرا کہ جب بھی میں سسرال جاتی تو والدہ میرے ساتھ جاتیں۔ یہ بےتکلفی اس سبب سے تھی کہ نواب صاحب سے میرے ابا جان کا رشتہ پہلے سے بھی تھا اور آپس کا اتحاد بہت بڑھا ہوا تھا۔ بس میں دو تین روز رہتی پھر میکے چلی آتی۔ یہاں آتی تو اپنی ہمجولیوں سہیلیوں سے کھیلتی رہتی۔ دو تین گھنٹے استانی جی سے پڑھتی بھی تھی۔ جہاں سبق یاد ہوا جھٹ استانی جی کو سنا دیا اور چھٹی ملی۔ پھر کھیل شروع ہوا۔ کبھی کڑھائی چڑھتی ہے، کبھی کچھ اور ہنڈیا کلیا پکتی ہے۔ کبھی گڑیوں کے بیاہ کی دھوم ہے، کبھی چمنا چمنی کی چٹی میں ہمسائے کی لڑکیوں کا ہجوم ہے۔ غرض رات دن عیش میں گزرتا تھا۔ غم پاس نہ چلتا تھا۔ بوا ایک تو بچپن الیل عمر، دوسرے میں اپنی ماں کی اکلوتی، ماں باپ کی لاڈلی۔ تیسرے امیر کے گھر میں پیدا ہوئی۔ امیر ہی گھر بیاہی گئی۔ آٹھ برس کی عمر کھیل کود ہی میں بسر کی۔ پھر تو نہیں معلوم کس کم بخت کل جنی کا ٹوکا لگ گیا اور ایسی کسی چڑیل کی بد نظر اثر کر گئی کہ سارے عیش اور کھیل کود کی کسر نکل گئی۔ نواں برس کیا شروع ہوا کہ ایک آفت کا گولا ٹوٹ پڑا۔

حالات غدر 1273ھ مطابق 1857ء

مجھے خوب یاد ہے کہ رمضان کا مہینہ سولہواں روزہ تھا اور 1273ھ مطابق 1857ء تھی۔ خوب چلچلاتی گرمی پڑ رہی تھی۔ پیاس کی شدت لوں کی تیزی سے دگنی چوگنی ہوتی تھی۔ منہ پر ہوائیاں اڑی ہوئی، ہونٹوں پر پیڑیاں جمی ہوئی۔ ایسی حالت میں خدا خدا کر کے شام ہوئی۔ روزہ کھول، شربت پیا، ذرا دم لیا۔ ناتوانی سے جان سنسنا گئی تھی۔ تکان کے ہارے کچھ نیند سی آ رہی تھی۔ چاہا کہ دم کے دم ایک جھپکی لے لوں۔ آنکھیں آدھی کھلی آدھی بند تھیں۔ دیکھتی کیا ہوں، ابا جان کچھ اداس صورت بنائے گھر میں تشریف لائے مگر زبان سے کچھ نہیں فرماتے۔ میں جلدی سے تعظیم کے لیے کھڑی ہو گئی۔ بے وقت آنے کا سبب پوچھا۔ مجھ سے تو کچھ نہ فرمایا۔

صفحہ 46
دہلی کے فساد کی خبر:

لیکن اماں جان سے کہا کہ بیوی دلی سے سوار آیا ہے اور یہ خبر لایا ہے کہ وہاں غدر ہو گیا۔ یہ سن کر بدن میں سناٹا سا تو آ گیا۔ مگر بچپن ہی تو تھا، کچھ زیادہ خیال نہ کیا۔ ہم کیا جانیں غدر کیا ہوتا ہے۔ اس کا انجام کیا ہو گا۔ جب ابا جان تشریف لے گئے، ہم بھی سو رہے تھے۔ صبح ہی نماز کے وقت ابا جان پھر آئے۔ میں نے بھی آنکھیں ملتے ہوئے انھیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا اور اماں جان سے کہنے لگے کہ دلی سے ڈاک آئی ہے۔ وکیل نے لکھا ہے کہ کل دس بجے دن کے کچھ ترک سوار سرکار انگریزی سے بگڑ کر دہلی میں گھس آئے۔ اور بہت سے انگریزوں، ان کے بے گناہ بچوں اور میموں کو بڑی بے رحمی سے قتل کر ڈالا۔ کوٹھیاں لوٹ لیں، بنگلے پھونک دیے۔ یہ سنتے ہی ہوش اڑ گئے اور اب سمجھ میں آیا کہ غدر اس کو کہتے ہیں۔ پھر تو صبح شام خبریں آنے لگیں کہ آج میگزین اڑا اور کل بنک لٹا۔ جب کوئی خبر وحشت ناک سنتی اداس ہو جاتی۔ تھوڑی دیر میں پھر کھیل کود میں لگ جاتی۔ اسی طرح تین مہینے گزرے۔

پاٹودی کی تباہی کا حال:

بقر عید کی چودھویں یا پندرھویں تاریخ تھی۔ نہیں معلوم موئے کہاں کے الفتی ان پر خدا کی مار، باغیوں کے ساٹھ ستر سوار ہماری ریاست کے لوٹنے کی نیت سے پاٹودی میں آ دھمکے۔ اور آتے ہی میرے بڑے بھائی جان محمد تقی علی خاں مرحوم کو پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ ہم تو پانچ ہزار روپیہ لیں گے، جب ان کو چھوڑیں گے۔ ان کی بہت منت سماجت کی اور سمجھایا مگر ان کے سر پر تو شیطان سوار تھا۔ وہ کب سنتے تھے۔ ان کو نہ چھوڑا۔ ادھر ہم نے جو سنا تو جان بے کل ہوگئی اور ہوش ٹھکانے نہ رہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی سنا کہ بھائی جان کے رفیق باغیوں کو مارنے کو اور اپنی جان دینے کو موجود ہیں۔ صرف یہ تامل ہے کہ کیا تدبیر سے بھائی جان ان کے

صفحہ 47
چنگل سے صحیح سالم نکل آ ئیں۔ اب تو محل میں ایک کھلبلی مچ گئی۔ کوئی کہتی ہے "الہی میرا بیٹا خیر صلاح سے آ جائے تو بیوی کی صحنک کروں،" کوئی کہتی ہے "میرا میاں جیتا جاگتا پھرے تو پیر دیدار کا کونڈا کروں۔" ہم بھی بلبلا بلبلا کر اپنے پروردگار سے دعا مانگتے تھے کہ "الہی بھائی جان کو جان کی سلامتی کے ساتھ اپنے گھر میں آنا نصیب ہو۔" عجب طرح کا تلاطم پڑا ہوا تھا۔ کسی کے اوسان بحال نہ تھے۔ اس وقت دادی اماں نے ابا جان سے کہا۔ "میاں اس کی جان پر سے صدقہ کیے تھے پانچ ہزار روپیہ۔ تم ان کو روپیہ دو اور بچے کو چھڑا کر لاؤ۔ خدانخواستہ بچے کی جان پر کچھ بن گئی تو کیسی کم بختی ہوگی۔" آخر ناچار ابا جان نے پانچ ہزار روپیہ ان موذیوں کو بھیجا تو صبح سے گھرے ہوئے چار گھڑی دن باقی رہا تھا جو بھائی جان ان کے پھندے سے چھوٹ کر سلامتی سے اپنے گھر آئے۔ خدا نے ہمیں پھر ان کی صورت دکھائی۔ ان کو دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی۔ بہتیری نیازیں نذریں ہوئیں اور خدا کا شکر ادا کیا۔ بڑی خوشی ہورہی تھی، مبارک سلامت کا غل مچ رہا تھا۔

باغیوں کا قتل کرنا:

کہ اتنے میں بھائی جان محل سرا سے باہر گئے اور دم کے دم میں واپس آن کر کہنے لگے کہ "لؤ ہماری فوج کے آدمیوں نے باغیوں کے ان ساٹھ ستر سواروں کا کام تمام کر دیا۔" پوچھا کہ "بھائی کیوں کر؟" کہا کہ "بس فوج کے لوگ تاک میں تھے ہی، موقع دیکھ کر ان پر چڑھ گئے، چاروں طرف سے گھیر لیا اور بندوقیں مارنی شروع کر دیں۔ ان کا وار خالی جاتا تھا اور ان کی بندوقیں کام کرتی تھیں۔ آخر وہ سب کے سب کھیت رہے۔" خیر یہ تو جو کچھ ہوا سو ہوا، مگر دیکھے اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ اسی اندیشے میں بیٹھی تھی کہ کسی نے آ کر کہا کہ "کم بختو، بیٹھے کیا ہو، باغیوں کی اور فوج آ گئی۔" بس یہ سننا تھا کہ بوا پاؤں تلے کی زمین نکل گئی اور کلیجہ دھک ہو گیا۔ ہول پر ہول اٹھنے لگے کہ الہیٰ اب کیا ہو گا۔ ہمارا تو یہ حال تھا،

صفحہ 48

ریاست کی فوج کا حال:

اب ریاست کی فوج کا حال سنو کہ پہلے تو ایسے مردوے بنے کہ باغیوں کو جا کر قتل کر ڈالا اور جب ان کی کمک آنے کی جھوٹی خبر سنی تو سب مردانگی بھول گئے اور ایسے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ کیا پیادہ اور کیا سوار، کوئی بھی نہ ٹھہرا۔ سپاہی پہرا چھوڑ چھوڑ کر چل دیے۔ جس کا جدھر منہ اٹھا، چنپت بنا۔ ہر ایک ہی کہتا بھاگتا تھا کہ "وہ فوج آ گئی۔ یہ دیکھو قلعے کے قریب آ گئی۔ جس کو بھاگنا ہو جلد بھاگو، ہرگز نہ ٹھہرو۔" غرض تھوڑی دیر میں سارا بیڑا خالی ہو گیا۔ ابا جان نے بہتیرا سمجھایا اور چاہا کہ یہ تھمیں، مگر کون سنتا تھا۔ گویا موت سامنے کھڑی دکھائی دیتی تھی۔ آخر جب کوئی نہ رہا تو ابا جان نے فیل خانے سے ہاتھی کسوا کر منگائے اور وہ بھی اپنے بیٹوں کو ساتھ لیے ہاتھیوں پر سوار جھجر کی طرف روانہ
ہوئے۔

عورتوں کی تباہی کا حال

اب محلوں میں صرف عورتیں ہی عورتیں رہ گئیں۔ پہلے تو بھائی جان ہی کے دم کے لالے پڑے ہوئے تھے اور ان کے ہی سہم کے مارے خون خشک ہو گیا تھا، جب ان کو خدا نے اس آفت سے بچایا تو دوسری ان ہوئی بلا آئی۔ بیت:
ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا
پڑ گئی اور یہ کیسی میرے اللہ نئی

قلعے کو دیکھا تو سنسان، ایک ہو کا میدان، اوسان جاتے رہے اور کہتے تھے، خدایا اب کیا ہو گا؟ یہاں ٹھہرے بنتی نہیں اور نکلیں تو سواریاں کہاں سے لائیں؟ سارے کارخانے خالی ہو گئے۔ اسی فکر میں آدھی رات الٹ گئی۔ آخر میری اماں جان نے نرگس ماما سے کہا۔ "اری تو رتھ خانے میں جا تو سہی، صندل رتھ بان کو جا

صفحہ 49
کر تلاش تو کر، اگر وہ ہو تو جس طرح بنے اپنے رتھ جڑوا لا۔" نرگس دوڑی گئی۔ دیکھی تو صندل گھبرایا ہوا پھر رہا ہے۔ اس نے صندل سے رتھ جڑوا، لا حاضر کیے۔ ادھر دادی اماں کے رتھ تیار ہو کر آ گئے۔ تیسری، موتی محل نے اپنی رتھ منگا لی۔ ضرف تین تو رتھیں تھیں۔ اور دو سو عورتیں۔ الٰہی اب کیا کریں۔ کس کو چھوڑیں کس کو ساتھ لے چلیں۔ آخر ناچار جتنی سواریاں رتھوں میں سمائیں وہ تو کھچ پچ ہو کر سوار ہوئیں۔ باقی ماما، اصیلیں اور بیبیاں بھی پیادہ پا چلیں۔ بال بچوں کو گودیوں میں اٹھائے ہوئے۔ گٹھڑی بغچی بغل میں دبائے ہوئے۔ حیران، سرگرداں، مرد کوئی ساتھ نہیں۔ بے سرا قافلہ ہے کہ جھجر کے رستے چلا جاتا ہے۔ اور پھر گھروں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں۔ نہ جن پر چونکی دار ہے اور نہ رکھوال۔ مگر اس وقت کیا گھر اور کسی کا مال ٹال۔ اگر خیال تھا تو یہ تھا کہ آگے بڑھیے اور جلدی سے جھجر پہنچیے۔ لیکن پیادہ پا کی حالت عجب بے کسی اور بے بسی کی تھی۔ پاؤں پر چھالے، لبوں پر نالے۔ چشم گریاں، آنسو رواں۔ کسی کا پانچہ جھاڑ میں الجھا تو کسی کا دوپٹہ کھیت کی باڑ میں الجھا۔ کوئی چلتی تھی، کوئی تھکتی تھی، کوئی اٹھتی تھی، کوئی بیٹھتی تھی۔ بھلا کبھی کسی نے رستہ چلا ہو تو چلا جائے۔ اور جس حال میں کھٹکا یہ لگا ہوا کہ وہ باغی آئے۔ چوروں کا ڈر جدا۔ ہزار مشکل اور خرابی سے میل ڈیڑھ میل پاٹودی سے نکلے تھے۔ اندھیری رات، گھٹا سر پر تلی کھڑی تھی کہ بجلی جو چمکی تو سامنے سے پانچ چھ سوار کھڑے نظر آئے۔ جانا مقرر۔ یہ باغیوں کی فوج کے سوار ہیں۔ اب یہ ہم سب کو لوٹیں گے، قتل کریں گے۔ افسوس اس جنگل میں قضا آئی اور بے گور و کفن۔ یہیں طعمہ زاغ رغن ہوئے۔ اتنے میں ان میں سے ایک سوار نے آواز دی۔ یہاں جان تھی کہ سہم گئی۔ اور سب تو گھبرا گئے، مگر صندل رتھ بان نے آواز پہچانی اور کہا کہ "یہ تو قادر بخش سوار کی آواز ہے۔" جب وہ قریب گیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے ہی ہاں کے سوار ہیں۔ جلدی سے اس نے واپس آ کر کہا تو سب کی جان میں جان آئی۔ پھر صندل نے جا کر ہماری کیفیت ان سے بیان کی اور پوچھا کہ تم کہاں جاتے ہو۔ وہ بولے ہم جھجر کو سرکار کے پاس جاتے ہیں۔ اور اب ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جب وہ سوار ہمارے ساتھ ہوئے تو اب ہمیں کچھ تسلی ہوئی۔ آگے بڑھے اور ایک گاؤں میں پہنچے جس کا نام سنا کہ

صفحہ 50
کھنڈ یولا ہے۔ اے، اس گاؤں کے زمیندار ہمارے قافلے کو دیکھ کر لٹھ کاندھوں پر دھر، گنڈاسے ہاتھوں میں لیے ہمارے لوٹنے کو آن موجود ہوئے۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ساتھ اتنے سوار ہیں تو جھجک گئے اور دلیری نہ کر سکے۔ خیر ان موذیوں سے بھی نجات پائی اور آگے چلے۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور گاؤں نظر آیا۔ وہاں تھمے۔ سب پیاسے تھے پانی پیا، ذرا دم لیا، پھر آگے کو روانہ ہوئے اور دوپہر چلے۔ دوپہر کے بعد سواڑی گاؤں میں پہنچے اور فقیر کے تکیے میں جا کر اترے، لیکن برا حال۔ بانکے وہاڑے تشنگی مارے، حلقوں میں کانٹے پڑ گئے تھے۔ اور بچی بہو کی جدا بلبلا رہی تھی۔ خیر پانی تو پیا مگر روٹی کہاں سے لائیں۔ آخر دادی اماں نے کچھ روپے فقیر کو دیے کہ سائیں ہمارے بچوں کے واسطے روٹی پکا دو۔ اے اس موئے ٹکڑ گدا نے جو کے آٹے کے دس پندرہ روٹ پکا کر ہمیں لا دیے۔ جوں ہی نوالہ منہ میں ڈالا، گولی بنا حلق میں پھنسا، کوئی رویا کوئی ہنسا۔ غرض دو دو چار چار نوالے پانی کے گھونٹوں سے حلقوں میں اتارے۔ جب کھانا نگل چکے تو اب پان کی سوجھی۔ بھلا وہاں تو پیپل کے بتوں کے سوا پان کا نشان بھی نہ تھا۔ ہاں بعض شوقین ایسی بھی تھیں کہ انھوں نے سب کچھ تو وہیں چھوڑا تھا مگر پاندان ضرور لاد کر لائی تھیں۔ ان سے کسی نے پان لیا، کسی نے چھالیا۔ جس کو جو کچھ ہاتھ آیا وہ لے کر کھا لیا۔ یہاں تو یہ ہو رہا تھا،

عورتوں کا جھجر پہچنا:

کہ اتنے میں کسی نے آن کر کہا کہ او صاحبو تم سب کے لیے جھجر سے سواریاں آ گئیں۔ اس خبر سے ہم سب خوش ہو گئے۔ ابا جان صبح ہوتے ہی جھجر پہنچ گئے تھے۔ ان سے تمام حال ہمارا معلوم ہوا۔ اور فورا سواریاں روانہ کیں۔ پھر ہم سب إن سواریوں میں بیٹھ کر قریب شام جھجر پہنچ گئیں۔ اور وہاں پہنچ کر اگرچہ سب طرح راحت پائی مگر خانہ ویرانوں کو خاطر خواہ تسلی کب آئے۔ دس بارہ روز وہاں رہے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ حقیقت میں باغیوں کی اور فوج پاٹودی میں نہیں آئی اور جو خبر ہوئی تھی کسی نے جھوٹ اڑائی تھی، تو سب کی خاطر جمع ہوئی اور ابا جان نے
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 51
واپس جانے کا ارادہ کیا۔ سب خوش ہوئے۔ بیت:
ہر ایک دیتا تھا آن آن کر مبارک باد
خدا نے خانہ ویراں کو پھر کیا آباد

پاٹودی کی آبادی کا حال:

ابا جان جھجر سے روانہ ہو کر پاٹودی پہنچے اور ہم ان کے سب متعلقین بھی ایک دوسرے کے بعد آ گئے۔ دیکھا تو عجب طرح کا سناٹا ہے۔ اب یہ دور اوجڑ بستی سونے دیس کی مثل صادق آتی ہے۔ گھر ہے کہ بھائیں بائیں کر رہا ہے۔ نہ کوٹھریوں میں اسباب ہے نہ دالانوں میں فرش۔ چیز بست کیا نام، جھاڑو دینے کو تنکا تک نظر نہیں آیا۔ چینی کے برتن ٹوٹے ہوئے پڑے ہیں۔ شیشہ کے آلات چکنا چور ہوئے دھرے ہیں۔ نہ پینگ ہے نہ چار پائی، نہ دری ہے نہ چٹائی۔ مال اسباب نقد و جنس جو جو کچھ تھا سارے گھروں سے موئے گنوار ان پر خدا کی مار، لوٹ کر لے گئے۔ آخر ان کی جانوں پر صبر کر کے نئے سرے سے پھر سامان درست کرنا شروع کیا۔ گو ہزاروں کا نقصان ہوا لیکن جس قدر اس کا رنج تھا اس سے زیادہ اپنے لئمٹے گھروں میں آ جانے کی خوشی ہوئی۔ اس ہماری مصیبت کو دو ڈھائی مہینے گزرے تھے

دہلی کی فتح کی خبر:

جو سنا کہ 14 ستمبر 1857ء کو فوج سرکار انگریز نے دہلی فتح کر لی اور دہلی پر قبضہ کر کے 17 اکتوبر 1857ء کو فوج سرکاری مقام پاٹودی آئی۔ چونکہ والد مرحوم نے باغیوں کی مفسده پردازی کے دنوں میں سرکار انگریز کی خیر خواہی کی تھی یعنی فورٹ صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر گوڑ گانوں نے ایک انگریز اور اس کی میم کو جو محفوظ رکھنے کے لیے بھیجا تھا، ان کو بحفاظت تمام رکھ کر پہاڑی پر انگریزی کیمپ میں بجھوا دیا تھا۔ اس کے علاوہ ان مفسدوں کو تہ تیغ کیا تھا جو باغی فوج کی حیثیت سے

صفحہ 52
پاٹودی پر چڑھ آئی تھی۔ اس نظر سے سرکار دولت مدار نے میرے والد کی جاگیر بحال اور برقرار رکھی۔ اور وہاں سے فوج دوسرے روز ریواڑی گئی۔ اس مقام کے قبضے کے بعد دادری پہنچی اور وہاں سے 17 اکتوبر 1857ء کو چھوچھک واپس پہنچ کر نواب عبدالرحمن خاں رئیس جھجر کو گرفتار کیا۔

رئیس جھجر کی گرفتاری:
کوئی آدھے بجے ہوں گئے، عین دوالی کی رات 27 ماه صفر کی تھی کہ نواب عبدالرحمن خاں کی گرفتاری اور ریاست جھجر کی بربادی کی وحشت ناک خبر سنی۔ ایسا صدمہ اور قلق ہوا کہ بیان کے قابل نہیں۔ پھر یہ فکر ہوا کہ دیکھیے انجام اس کا کیا ہوتا ہے۔ افسوس اس کا انجام یہ ہوا کہ نواب جھجر کو تو پھانسی ہوئی اور ریاست ضبط کی گئی، نوکر چاکر تباہ اور برباد ہوئے اور ان کے رشتے دار اور اہل و عیال جلا وطن کیے گئے۔ مردوں کو لودھیانہ جانے کا حکم ہوا۔ اور عورتوں کو یہ اجازت ملی کہ چاہیں لودھیانہ رہیں با جھجر کے سوا جہاں مرضی ہو وہاں۔ خیر ان سب میں میرے شوہر کو بھی لودھیانہ جانے کا حکم ملا۔

میری ساس کا خط ابا جان کے نام آنا:
اس پر نورگل بیگم جو میری ساس تھیں، انہوں نے اس مضمون کا ایک خط میرے ابا جان کے نام لکھا کہ ہم کو لودھیانہ جانے اور وہاں کے رہنے کا حکم ہوا ہے، اس لیے آپ کو لکھتی ہوں کہ آپ میری بہو شہر بانو بیگم کو بھی میرے ساتھ کر دیں کہ میں انہیں اپنے ہمراہ لودھیانہ نے جاؤں گی۔ کوئی پہر دن باقی ہو گا، دیکھتی کیا ہوں کہ ابا جان اداس چہرہ بنائے ہاتھ میں خط لیے چلے آتے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بے اختیار رونے لگے۔ انہیں روتا دیکھ کر میں بھی رونے گی۔ اماں جان نے جو رونے کی آواز سنی، وہ بے تحاشہ دوڑیں اور آن کر کہنے لگیں۔ "اے ہے خدا کے لیے کہو تو سہی

صفحہ 53
کیا ہوا۔" اس وقت ابا جان نے وہ خط پڑھ کر سنایا۔ بس کیا (کہوں) خط کا سننا تھا کہ سب کے عقل کے طوطے اڑ گئے۔ کہ ہے ہے یہ کیا ہوا۔ اور مجھے تو یہ سناٹا تھا کہ ہائے آب وطن چھوٹے گا۔ ماں باپ سے جدا ہوں گی (پرائے) شہر جانا پڑے گا۔ اور سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔ کہتے تھے کہ "جھجر والے کا خاندان کا خاندان مجرم ٹھہرا۔ وہ سب کے سب لودھیانہ جا کر قید کر لیے جائیں گے۔ اور پھر وہاں سے آنے نہ پائیں گے۔" میں ہر ایک کی سنتی تھی اور ایک ایک کا منہ تکتی تھی۔ اور کہتی تھی الہیٰ یہ آفت آسمانی جو نازل ہوئی تھی، میرے ہی سر پڑی۔ یہ غدر جو ہوا تھا میری ہی بربادی کے لیے ہوا تھا۔ بس زار و زار روتی تھی اور رو رو کر اپنی جان کھوتی تھی۔ میرا یہ حال دیکھ کر سہیلیاں بولیں کہ "بیگم کیوں اپنا جی کھوتی ہو، جو اس طرح بلک بلک کر روتی ہو۔ وہ دن خدا دکھائے گا کہ تم کو پھر ساتھ خیر کے یہاں لائے گا۔" بھلا ایسے دلاسوں سے مجھے چین کہاں۔ جان زار و نزار تھی اور دل ہے قرار تھا۔ کھانا کیسا اور نیند کیسی۔ جب ابا جان نے میرا یہ حال دیکھا تو گھبرا گئے اور کہنے لگے، میں تو لڑکی کو نہیں بھیجتا۔ ارادہ موقوف کرو۔ لیکن اماں جان نے نہ مانا اور میرا بھیجنا ہی مناسب جانا۔ سفر کی تیاری شروع کی۔

لودہیانہ کے سفر کے حالات

اول جھجر کا جانا:
جب میں جھجر روانہ ہوئی ہوں تو مجھے یاد ہے کہ شعبان کا آخری دہا تھا۔ اس روز کی حقیقت کیا کہوں۔ پاٹودی میں اس دن اسی اداسی چھائی ہوئی تھی کہ اپنا پرایا جو تھا غمگین تھا اور میرے والدین کا تو یہ حال تھا کہ جیسے بن پانی کی مچھلی تڑپتی ہے۔ ہائے میری اماں جان کی بے قراری و آہ و زاری سے تو کلیجے کے ٹکڑے اڑتے تھے۔ آخر دادی اماں نے اماں جان کو سمجھایا، کہا کہ "بیوی خدا سے خیر مانگو۔ دعا دینے کا

صفحہ 54
وقت ہے۔ اللہ اس کو اس کے سسرال میں آباد و شاد رکھے اور پھر صحیح سلامت یہاں لائے۔ خدا کرے یہ ست پوتی ہو اور بوا بیٹیوں کا تو یہی معاملہ ہے۔ کیسی کیسی مصیبتوں سے پالا پرورش کیا۔ پر یہ دھن پرائے کا پرایا کیا کریں۔ کچھ بن نہیں آتا۔ ورنہ شہر بانو بیگم کو کبھی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیتے۔ بس اٹھو اور اس کے سوار کرنے کی تیاری کرو" غرض سمجھا بجھا کر ان کو اٹھایا۔
ادھر میرا یہ حال تھا کہ جبھی حیرت میں نقش دیوار ہو جاتی تھی کبھی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگاتی تھی۔ اتنے میں مانی نے آن کر کہا کہ بیگم سواریاں تیار ہو کر آ گئیں پالکی دیوہڑی (دیوڑھی) پر لگی ہے، رتھیں قلعہ کے گھوگس میں کھڑی ہیں۔ سنتے ہی کلیجہ دھک ہو گیا۔ اسی وقت ابا جان آئے۔ مجھ سے مل کر بہت روئے اور دلاسا دے کر کہنے لگے "اچھا بیٹا سدھارو، میں تم کو اللہ کی امان میں رخصت کرتا ہوں۔ اور خدا چاہے تو جلدی بلا لوں گا۔ تم گھبرانا نہیں اور جی نہ کڑھانا۔" اماں جان نے مجھے کو لے میں بھر کر گود میں اٹھا لیا اور سب نے گلے لگایا۔ اور کہا کہ "لو بیوی، بسم اللہ کر کے سوار ہو، تمہارا اللہ بیلی، اللہ نگہبان، امام ضامن کی ضامنی، جس طرح تم ہمیں پیٹھ دکھاتی ہو، اسی طرح خدا تمہارا منہ دکھائے، غم دوری دلوں سے دور ہو جائے۔" خیر جبرا قیرأ سوار ہوئی۔ سوار ہوتے ہوتے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی تھی اور کہتی تھی بیت :
چلے جائیں گے اس جا کام ناکام
جہاں کا آ سکے نامہ نہ پیام
ہائے ماں باپ سے یہ آخری ملنا تھا اب قید فرنگ میں جاتی ہوں, کیوں کر رہائی پاؤں گی، جو پھر ان سے ملنے کو آوں گی۔ قہر درویش برجان درویش۔ ہم پاٹودی سے روانہ ہو کر قریب شام جھجر پہنچے۔ میری والدہ میرے ساتھ تھیں اور ایک استانی جی، ایک ددا اور ایک مانی، دو کنیز دو مامائیں، گو میری اتنی رفیق میرے ساتھ تھیں لیکن دل میں وہی کھٹکا لگا ہوا تھا کہ دیکھیے پھر بھی آنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔ اگرچہ میرے ابا جان نے میری آمد و رفت کے باب میں انگریز حاکموں سے بخوبی پختگی کر لی تھی، مگر اس پر بھی میری مایوسی بدستور تھی۔

صفحہ 55

جھجر سے لودہیانے کو جانا:

آخر رمضان کی ساتویں یا آٹھویں تاریخ 1274 ہجری میں لودہیانے کو ہم سب کا کوچ ہوا۔ اماں جان تو پاٹودی واپس چلی آئیں اور میں اپنی سسرال والوں سمیت کو لودھیانہ روانہ ہوئی۔ روز کا سفر ماں باپ کی جدائی کا غم، طبیعت نہایت اداس رہتی تھی۔ لیکن یہ غنیمت تھا کہ میری دو بہنیں کبریٰ بیگم اور کلثوم بیگم بھی میری شریک سفر تھیں۔ اس لیے کہ میری سسرال کے خاندان میں ان دونوں کی بھی شادیاں ہوئی تھیں۔ بس بوا رات بھر چلتے، صبح کو منزل پر اترے۔ گرمی کے دن تھے اور ریل ان دنوں میں تھی نہیں۔ ہزار بارہ سو آدمیوں کا قافلہ تھا۔ کچھ عورتیں تو پانی پت میں ہی رہ گئیں، کیونکہ ان کو وہیں رہنے کی اجازت ملی تھی۔ باقی قافلہ سیدھا لودہیانے کو چلا گیا۔

قافلے کا لودھیانہ پہنچنا:

خدا خدا کر کے بیس دن کے عرصے میں لودھیانہ پہنچے۔ شاید رمضان شریف کی 28 تاریخ تھی۔ کیونکہ ہم نے عید کا چاند اور لودھیانہ میں جا کر دیکھا تھا۔ وہاں کے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے ہم سب کے لیے پہلے سے مکان کا انتظام کر رکھا تھا۔ پرانی سرائے جو وہاں مشہور ہے وہ ساری کی ساری خالی کرا رکھی تھی۔ اس میں جا کر اترے مگر قافلہ بڑا تھا۔ گنجائش نہ ہوئی۔ اس واسطے لوگوں نے کرائے کے مکانات لے کر سکونت اختیار کی۔ مگر میری ساس اور ان کے سب متعلقین سرائے میں رہے۔ میرا یہ حال کہ دل اچاٹ رہتا۔ کیوں کہ نیا شہر نئے لوگ۔ سسرال میں بھی اتنا رہنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اول اول نہ کسی سے شناسائی نہ ملاپ، عجب طرح کی کشمکش میں مبتلا تھی۔

ساس کی ناحق کی خفگی:

اس پر طرہ یہ ہوا کہ خوش دامن صاحبہ کی ناحق کی خفگی مجھ پر ہونی شروع

صفحہ 56
ہوئی۔ وہ خوش دامنی کا نازیبا داب بٹھانے لگیں۔ صبح کو سلام کرنے کے لیے گھڑیوں کھڑی ہوں، آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔ چپ، ششدر ہوں کہ الہیٰ کیا کروں۔ کوئی خطا ہو تو معاف کراؤں۔ میرے میکے سے خط آتا ہے اور کسی کنیز یا ماما نے جا کر کہا کہ بیوی پاٹودی سے خط آیا ہے، تو اس کو جواب یہ دیتیں کہ پھر میں کیا کروں۔ کبھی خدا کی بندی نے یہ نہ پوچھا کہ خیر صلاح تو ہے یا اگر کوئی پیار ہے تو وہ کیسا ہے۔
میں اپنی ہمجولیوں میں بیٹھی ہوئی اگر کسی بات پر ہنس پڑتی تو کہتیں، "تمہیں کیا دکھائی دیا جو ہنستی ہو؟" اور جو مجھے کبھی اپنے ماں باپ یاد آئے اور میں رونے گئی تو پوچھتیں "کیا تمہارا کوئی مر گیا ہے یا سناونی آئی ہے جو روتی ہو۔" ناک میں دم آ گیا۔ میرے ساتھ کے جو آدمی تھے وہ بھی زچ ہو گئے۔ ایک دن استانی جی نے انور محل صاحبہ سے، جو میری سوتیلی ساس تھیں، جا کر کل حقیقت بیان کی:

سوکن کا سوکن کو سمجھانا:

انہوں نے آ کر میری ساس کو بہت سی ملامت کر کے اور پس و پیش سمجھا کر کہا کہ "دیکھو بہو کے ساتھ ایسا برتاؤ برتو جیسے دنیا جہاں کا دستور ہے۔ وہ بات نہ کرو جس میں لوگ تمہیں نکو بنا دیں۔ بہو کو شفقت اور دلاسے سے رکھو، کیوں کہ وہ ابھی نادان ہے نگوڑی نو برس کی جان ہے۔ پہلے ہی پہل وہ اپنے ماں باپ سے جدا ہوئی ہے۔ انہوں نے صرف تمہارے ہی بھروسے پر سینکڑوں کوس بھیج دیا ہے۔ کیا اس کے بدلے تمہیں یہی چاہیے کہ تم اس کے خون کی پیاسی ہو جاؤ۔ خدا کو کیا منہ دکھاؤ گی۔ آخر پچھتاؤ گی۔ اور دیکھو اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ تمہاری برابری میں جواب دینا سیکھ جائے تو کیا بات رہ جائے گی۔ علاوہ اس کے وہ کوئی غریب فقیر زادی تو نہیں ہے۔ امیر کی لڑکی ہے، اگر اس کے ماں باپ کو خبر ہو گئی تو کیسی تھڑی تھڑی ہو گی۔ بوا خدا کو مانو، ایسی باتوں سے باز آو۔ بہو کی دل داری کرو۔ گلے سے لگاؤ" ہزار طرح سے سمجھایا، مگر بھلا وہ کب مانتی تھیں۔

صفحہ 57

میری ددا اور سانس کی تکرار:

آخر ایک دن میری ددا اور ساس میں خوب چخ ہوئی۔ ددا بھی بھری تو بیٹھی تھی، ایسے پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑیں کہ انہیں پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا۔ پر بوا، مجھے تو ہمیشہ بک بک جھک جھک کرنے سے چڑ رہی ہے، جلتی بیٹھتی مگر دم نہ مارتی۔ چپ لگ گئی تھی۔ اور ایسا حال ہو گیا تھا کہ اچھی طرح نہ کھاتی تھی نہ پیتی تھی۔ رنگت زرد، آنکھوں میں حلقے، چہره اداس، صورت غمگین۔

استانی جی کا سمجھانا

ایک روز استانی جی نے مجھے دیکھ کر کہا کہ "بیگم ایسی چپ چپ کیوں رہتی ہو، بہو، ساس، نندوں کا تو ایسا ہی معاملہ ہے۔ ابھی سلامتی سے تمہارے میاں نادان ہیں۔ جس وقت ماشاء اللہ ہوشیار ہو جائیں گے، اپنے نیک و بد کو آپ سمجھنے اور اپنی بگڑی باتوں کا آپ بندوبست کرنے لگیں گے تو یہ سارے جھگڑے ٹنٹے جاتے رہیں گے۔" میں نے جواب دیا کہ "ہے ہے استانی جی، اتنی مدت تک یہ ظلم مجھ پر ہوتے رہیں گے اور میں اس ہر دم کی کوفت سے جب تک کیوں کر زندہ بچوں گی۔ استانی جی میں نے تو ایسی ساس نہ کسی کی سنی نہ دیکھی۔ میں تو ایسی زچ ہوئی ہوں کہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہوں۔ جو بات ہے سو ٹیڑھی، جو ادا ہے سونرالی۔" اس پر ددا نے کہا کہ "استانی جی، خدا خدا کرو، نوج ایسی ساس کسی کی ہو۔ دیکھتی ہو کہ بات بات پر لڑکی سے الجھتی ہیں۔ انھوں نے سمجھا کیا ہے۔ اب وہ ایک کہیں گی تو دس سنیں گی۔ کیوں کہ صبر کی حد ہو چکی۔ اب ہم سے نہیں رہا جا تا۔ تم کو یاد ہے، جس دن میرے منہ لگی تھیں تو میں نے کیسے کیسے جواب دیے تھے۔ چپ ہی تو ہو رہیں۔" بوا، چھے مہینے میں وہاں رہی، اس تکا فضیحتی میں کٹی۔

صفحہ 58

ابا جان کا خط میری ساس کے نام آنا اور میرا پاٹودی جانا:

چھے مہینے کے بعد ابا جان نے ایک خط میرے بلاوے کا میری ساس کے نام لکھ کر صوبیدار اسمعیل خاں کے ہاتھ بھیجا۔ اور دس سوار چار پہرے سپاہیوں کے ان کے ساتھ کیے۔ جس دن اسمعیل خاں مع اپنے ہمراہیوں کے لودھیانہ میں پہنچے ہیں اور انھوں نے وہ خط میری ساس کو دیا ہے اور اس کا مضمون مجھے معلوم ہوا ہے، اس روز کی خوشی کا کیا بیان کروں۔ مارے خوشی کے خود بخود تھیں کہ باچھیں کھلی جاتی تھیں اور یہ جی چاہتا تھا کہ اگر پر ہو جائیں تو اسی وقت اڑ کر چلی جاؤں۔ سہیلیاں آن آن کر چپکے چپکے مبارک باد دیتی تھیں۔ اور میں باغ باغ ہوتی تھی۔ چار پانچ روز اسمعیل خان، لود ہیانہ میں رہے۔ میں نے وہ دن گن گن کر کاٹے۔

لودہیانہ سے پاٹودی کو آنا:

چھٹے روز لودھیانہ سے روانہ ہوئی۔ منزل بمنزل چلتے تھے۔ چودہ پندرہ روز میں دہلی آئے۔ یہاں پہنچ کر ایک سوار کو پاٹودی روانہ کیا۔ اس نے جا کر وہاں میرے آنے کی خبر پہنچائی۔ سن کر ماں باپ کی جان میں جان آئی۔ دوسرے روز دہلی سے روانہ ہوئی اور گوڑ گاؤں میں پہنچ کر قیام کیا۔ شب وہاں گزار کر پاٹودی کا رخ کیا۔

بڑے بھائی صاحب کا پیشوائی کو آنا:

آدھی منزل طے کی ہو گی ، سنتی کیا ہوں کہ بڑے بھائی جان محمد تقی علی خاں صاحب مرحوم میرے لینے کے واسطے چلے آتے ہیں۔ قریب آئے تو سواریاں دیکھتے ہی گھوڑے پر سے کود پڑے۔ آن کر مجھ سے ملے۔ رتھ میں سے اتار کر پالکی میں سوار کیا۔ نو بجے کے قریب پاٹودی میں پہنچے، محل میں اترے۔ اماں جان نے بلائیں لیں۔ گلے سے لگایا، پیار کیا۔ ابا جان مل کر بہت خوش ہوئے۔ دور نزدیک سے مبارک باد کی

صفحہ 59
صدا پیدا ہوئی۔ مہمان آنے لگے۔ ڈومنیاں مبارک باد گانے لگیں۔ پیر دیدار کا کونڈا ہوا۔ بیوی کی نیاز دلائی۔ رات بھر رت جگا رہا۔ میں نے سسرال کا سارا قصہ سنایا، کبھی ہنسایا کبھی رلایا۔ پھر تو بوا ہم سوا برسں میکے میں رہے۔ نہایت خوش و خرم نہ کسی کا فکر غم۔ اپنی ہم جولیاں تھیں اور ہم۔ خوب آرام سے گزری۔ بعد سوا برسں کے پھر ساس نے بلاوا بھیجا۔ جی تو ہر گز جانے کو نہ چاہتا تھا، مگر ناچار روانگی کی تیاری کی۔

پاٹودی سے لودھیانہ کو جانا:

اور آخر ماں باپ بہن بھائیوں سے رخصت ہو کر ایک روز لودھیانہ کو روانہ ہوئی۔ اور رستے کی منزلیں طے کر کے سسرال میں پہنچی۔ اپنی ساس کو جو دیکھتی ہوں تو وہی بد مزاجی، بدزبانی، خود پسندی، جنگ جوئی۔ میں نے بہتیرا چاہا کہ اپنا ادب رکھیں اور میری زبان نہ کھلوائیں۔ اول اول تو بہت سا ٹالا، پر وہ کب مانتی تھیں۔ روز کی جھک جھک سے میرا دل جل گیا تھا۔

ساس بہو کا تکرار:

ایک دن یاد نہیں کیا بات تھی۔ اس پر جو وہ اپنی عادت کے موافق بھبک کر بولیں، ایسے کہ گویا ابھی کھا جائیں گی، تو بوا میں نے بھی ایسا پتھر توڑ جواب دیا کہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔ کیا کرتی کہاں تک سنتی، کلیجے میں آبلے پڑ گئے تھے۔ پھر تو اس کا خوب چرچا ہوا۔ رفتہ رفتہ انور محل صاحبہ کو بھی خبر پہنچی۔ انھوں نے میری ساس کو آن کر بہت شرمایا۔ اور کہا "کیوں، ہم نہ کہتی تھیں کہ تم ناحق بہو کے سر نہ ہوا کرو۔ اب راضی رہیں۔ دیکھو آخر ناچار ہو کر وہ بھی دو بدو جواب دینے آ گئی نا۔ بڑی شرم کی بات ہے۔ تم نے اپنا وقار اپنے ہاتھوں سے کھویا۔ ابھی کیا ہے، اگر تم اسی طرح روز کی رد و کد رکھو گی تو آئندہ دیکھنا کہ وہ تمہارا کیسا کھوجڑا کھوتی ہے۔ آخر شریف زادی، امیر زادی ہے، کوئی پجوڑی تو نہیں ہے۔" غرض انھوں نے ایسا جھنجھوڑا

صفحہ 60
کہ شرمندگی کے مارے عرق عرق ہو گئیں۔ اس روز سے میرے منہ تو پھر وہ لگی نہیں، میرا پیچھا تو چھوٹا۔ گو وہ تا مرگ میرے خون کی پیاسی رہیں مگر پھر میری طرف کوئی بدزبانی وغیرہ کا حملہ نہیں کیا۔ اس پر چند ہی روز گزرے تھے،

بھائی جعفر علی خاں کی شادی کا حال:

میرے بھائی محمد جعفر علی خاں صاحب مرحوم کا بیاہ رچا۔ ان کی برات لودھیانہ میں آئی۔ کیوں کہ میری ایک سوتیلی نند ان سے منسوب ہوئی تھیں۔ زیادہ اس سبب سے کہ امید تھی بیاہ کے بعد میں بھی بھائی کے ہم راہ اپنے میکے جاؤں گی۔ بس جب شادی ہو چکی اور برات رخصت ہونے لگی تو بھائی نے آن کر میری ساس سے کہا کہ "اگر آپ اجازت دیں تو میں بہن کو اپنے ساتھ لے جاؤں۔" پر بوا، وہ تو طوطے کی طرح دیده بدل گئیں، صاف انکار کر دیا۔ میری سوتیلی ماں اور بھائی نے بہتیری منتیں کیں، ہاتھ تک کے جوڑے، انھوں نے ایک نہ سنی۔ اور مجھ کو نہیں بھیجا۔ میں نے رو رو کر بہتیری اپنی نکڑی اڑائی مگر وہ ایسی سنگدل تھیں کہ ذرا بھی نہ پسیجیں۔ ناچار بھائی بیچارے، آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے ان کے پاس سے اٹھ کر میرے پاس آئے۔ مجھے بہت سے دلاسے دے کر سوار ہو گئے۔ میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی لیکن خدا کے واری جاؤں کہ اس نے میری آہ و زاری اور بے قراری پر رحم کیا اور ایسی داد دی کہ دو مہینے نہ گزرے تھے جو دلہن کی ماں نے میری ساس سے کہا کہ "بوا تم پاٹودی جاؤ اور میری بیٹی کو جا کر لے آؤ" ہر چند انہوں نے ٹالے بالے بتائے، مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور ایسا دبایا کہ بغیر جائے کچھ بن نہ آیا۔

لودہیانہ سے پاٹودی کو آنا:

غرض لودھیانہ سے روانہ ہوئے اور منزل بمنزل چل کر پاٹودی میں پہنچے۔ میں بھی شکر خدا کا بجا لائی۔ یوں کہ ساس کے ہم راہ اپنے میکے میں آئی۔ وہ پاٹودی آ
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 61
کر کوئی بیس روز رہیں۔ پھر انہوں نے لودھیانہ کی تیاری کی۔ مجھے اپنے ہم راہ لے جانا چاہا، پر میرے ماں باپ نے نہ بھیجا۔ بہتیری تیوری بدلی، ناک بھوں چڑھائی، پر کچھ بن نہ آئی۔ اپنا سا منہ لے کر چلی گئیں۔ میں اپنے میکے میں خوش و خرم رہی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری ساس لودھیانہ کو روانہ ہوئی ہیں تو جمادی الثانی کا مہینہ 1278ھ تھی۔ سو بوا ڈیڑھ دو مہینے تو خوب ہنسی خوشی میں کٹے۔

والد کا بیمار ہونا اور ان کا انتقال کرنا:

شعبان کی بارہویں تاریخ تھی جو سنا کہ ابا جان کو بخار چڑھا۔ اس وقت بڑی انا کو خیر صلاح کے لیے بھیجا۔ وہ واپس آئی تو معلوم ہوا کہ بخار بہت شدت کا ہے۔ جب تین روز ابا جان محل میں نہ آئے تو سب گھبرائے کہ خدا خیر کرے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ عادت ان کی نہ تھی۔ کیسے ہی بیمار ہوتے مگر محل میں ضرور ہو جاتے۔ پھر تو مرض کی یہ صورت ہوئی کہ روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا۔ بہتیرے علاج کیے، مسہل دی، سب کچھ کیا، پر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ بخار نے جنبش نہ کھائی۔ یکم رمضان 1278ء کو انہوں نے انتقال کیا۔ دن کے نو بجے ہوں گے، جو یکایک باہر سے رونے کی آواز آئی۔ اماں جان نے گھبرا کر کہا "ارے خدا کے لیے جا کر دیکھو تو سہی کیا ہوا۔" اتنے میں بڑی انا باہر سے روتی پیٹتی ہوئی اندر آئی۔ اس کے آتے ہی محل میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف رونے پیٹنے کی آواز بلند ہوئی۔

دادی اماں کی گریہ و زاری دیکھ کر مجھ کو غش آنا:

اور خاص کر دادی اماں کی گریہ و زاری اور بے قراری کو تو سننے اور دیکھنے کی تاب نہ تھی۔ جس وقت وہ یہ بیان کرتی تھیں کہ "ہائے میرے لعل، میرے گھر کو بے نور کر گیا۔ ہائے میرے چاند کدھر چھپ گیا۔ ارے میری آنکھوں کے نور، میرے دل کی تسکین، میرے کلیجے کی ٹھنڈک جاتی رہی۔ ارے میرے فرزند میرے دل ۔۔۔۔۔۔۔۔اکیلا ہی چلا گیا، مجھے تنہا چھوڑ گیا۔ جنگل آباد کیا، میرا گھر ویران کر دیا۔ ہے ہے میں

صفحہ 62
کیا کروں۔ اس کے بغیر کیوں کر جیوں۔" یہ سن کر اپنے تو اپنے اجنبی بھی اپنے ٹکڑے اڑاتے تھے۔ میرا یہ حال ہوا کہ پہلے تو میں سہمی ہوئی ششدر تھی، اس لیے کہ مرنا کسی کا بھی آنکھ سے دیکھا نہ تھا، اب دیکھا تو اپنے باپ کا مرنا۔ اور باپ بھی
عاشق زار باپ۔ بس مجھے، ان پر خدا رحمت نازل فرمائے، کمال ہی درجے کی ان سے الفت تھی۔ میں نے جو دادی اماں کی درد انگیز بین سنی تو ایکا ایکی میرے دل نے پھریری سی لی اور سارے بدن میں سناٹا سا آ گیا۔ اسی وقت غش کھا کر تڑاق سے زمین پر گری، میرے گرتے ہی سب رونا پیٹنا بھول گئے۔ لوگوں کے اور بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کوئی کہتا ہے اب کیا کریں، وہ تو جو کچھ ہوا سو ہوا، دیکھیے یہ کیا ہوتا ہے، کسی نے گلاب کے چھینٹے دیے۔ کوئی کیوڑا عطر لائی، کسی نے لخلخہ سنگھایا۔ جب دس منٹ میں ہوش آیا، پھر تو میں بھی خوب ہی ڈاڑھیں (دھاڑیں) مار مار کر روئی۔ اور جی میں کہتی تھی کہ ہائے قسمت، سسرال میں تو ساس نے چین نہ لینے دیا، میکے آئی تو یہ سانحہ پیش آیا۔ بیت:
فلک نے تو اتنا ہنسایا نہ تھا
کہ جس کے عوض یوں رلانے لگا

ادھر ان کی بیویاں بین کر کر روتی تھیں۔ محل میں عجب طرح کا تلاطم پڑا ہوا تھا۔ آخر ان مرحوم کو اول منزل پہنچایا اور پاٹودی میں دفن کیا۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے۔ وہ بڑے نصیب والے تھے۔ ہمارے خاندان میں ایسا خوش نصیب آج تک نہیں ہوا۔ اگرچہ دادا فیض طلب خاں صاحب مرحوم بھی نصیبے کے سکندر ہی تھے، انہوں نے بھی مدت تک ریاست برتی اور عیش کیے مگر اس سے پہلے یہ مرتبہ حاصل کرنے کے لیے بڑی بڑی زحمتیں اٹھانی پڑی تھیں۔ لیکن ابا جان کی عمر ابتدا سے انتہا تک اقبال مندی کے ساتھ عیش میں گزری۔ اور یوں پوچھو تو یہ ساری ثروت و حشمت و ریاست، جو کچھ ہے دادا فیض طلب خاں ہی کا ظہورا ہے۔ کہ انہوں نے بڑی جان
جوکھوں کے ساتھ اپنی قوت بازو سے پیدا کیا تھا۔ یہاں اگر ان کا بھی مختصر حال لکھا جائے تو مناسب مقام ہو گا۔ اس لیے لکھا جاتا ہے۔

صفحہ 63

باب دوم

تاریخ مختصر خاندان پاٹودی


صفحہ 64

تاریخ مختصر خاندان پاٹودی

وجہ تسمیہ کا بیان:
اصل میں دادا فیض طلب خاں صاحب مرحوم قوم سے پٹھان اور یہ اور ان کے خاندان کے لوگ مشہور شیخان ہیں۔ مگر شیخان مشہور ہونے کی وجہ تسمیہ سمجھ میں نہیں آتی۔ کہ جب یہ پٹھان تھے تو شیخان کیوں مشہور ہوئے۔ ہر چند معتبر لوگوں سے بھی دریافت کیا اور تاریخ کی کتابوں میں بھی دیکھا مگر کہیں سے اس کی اصلیت نہ معلوم ہوئی۔ آخر اس وجہ سے کہ معلوم تھا کہ دادا فیض طلب خاں صاحب ایک صوفی کامل رکن الدین محمود نامی کی اولاد میں سے ہیں۔ پس تصوف کی کتابوں کی طرف رجوع کیا گیا۔ الحمداللہ کہ بہت تلاش کے بعد مطلب بخوبی بر آیا۔ اور معلوم ہوا کہ ان کے بزرگوں کے شیخان مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مورث اعلی رکن الدین محمود صوفی خواف کے رہنے والے جو نیشا پور کے قرب و جوار میں کوئی موضع تھا، حضرت مودود چشتی علیہ الرحمتہ کے خلفاء میں سے تھے۔ اور یہ اپنی بزرگی اور صاحب کشف و کرامت ہونے کی وجہ سے پہلے خواجہ شیخان کہلاتے تھے اور اس نظر سے حضرت مودود چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی شفقت اور مہربانی کی رو سے ان کو شاه شیخان کا لقب مرحمت فرمایا۔ جیسا کہ کتاب "نفحات الانس" اور "سیر الاقطاب"

صفحہ 65
میں مذکور ہے کہ رکن الدین محمود صوفی اس خطاب پر بہت ناز کرتے تھے۔ اس امر کی تصدیق کے لیے دونوں کتابوں کی عبارت لکھی جاتی ہے۔

عبارت "نفحات الانس":

شاہ شیخان علیہ الرحمتہ کہ لقب و نام دے رکن الدین محمود است و چند وقت در چشت اقامت نمودہ۔ میگویند کہ در وقت اقامت ہرگز در چشت نقص طہارت نہ کردہ۔ چوں درخواستی کہ طہارت کند سواری شد ۔ و از چشت بیرون آمدی و دور افت و طہارت ساختی و مراجعت نمودی۔ می گفتی کہ مزار چشت منزل مبارک و مقام متبرک است۔ روانہ باشد کہ آن جا بے ادبی کنند و گویند کہ پیش تر وے را خواجہ شیخان می گفت۔ خواجہ مودود وے را شاہ لقب نہاد۔ و وے ہمیشہ بہ آن می نازیدی و مفاخرت می کردی۔ وفات خواجہ مودود سبع وعشرین وخمسمايہ بوده است (567ھ) وفات شاه سبع وتسعين وخمسمایہ (597ھ)، صفحہ ۲۱۱

دیگر عبارت "سیر الاقطاب":

"شاد شیخان کہ اول او را خواجہ شیخان می گفت روزے از زبان مبارک حضرت خواجہ از روئے مہربانی شاہ شیخان برآمد۔ از آن باز بدین خطاب مشہور شد۔ و اندر اقران خود بدین اسم می نازید۔"
غرض اس سے بخوبی ظاہر ہے کہ شیخ رکن الدین محمود اپنی بزرگی کے سبب شیخ اور خواجہء شيخان اور شاہ شیخان کہلائے۔ ورنہ قوم سے پٹھان تھے۔ ان کی وفات 599ء میں ہوئی۔ اور موضع چشت میں فن کیے گئے۔ پھر ان کی اولاد میں جو لوگ ہوئے، وہ ان کے اس لقب کی وجہ سے شیخان کہلائے۔

صفحہ 66

ذکر شیخ الحسن پیر ماٹھا کا:

شیخ الحسن مشہور پیر ماٹھا اور زندہ پیر تھے۔ اور یہ شیخ رکن الدین محمود کے بارہویں پشت میں پوتے تھے۔ یہ نواح (كذا) نیشا پور سے آن کر شیر شاہ بادشاہ کے عہد میں شہر سمانہ میں مقیم ہوئے، جو اب ریاست پٹیالہ سے متعلق ہے۔ اس وجہ سے کہ شیخ لالہ حسن بڑے عابد اور زاہد اور صاحب اسرار تھے، یہاں کے پٹھانوں نے ان کی بڑی تعظیم اور توقیر کی۔ اور صدہا پٹھان ان کا مرید ہو گیا۔ تھوڑے عرصے کے بعد شیخ لالہ حسن صاحب نے شہر سمانہ کے دو کوس کے فاصلے پر شمائل (شمال) کی جانب ایک گاؤں ہے، جسے مراد پورہ کہتے ہیں، اس زمانے میں شہر سمانے اور مراد پورہ کے بیچ میں کوئی عمارت حائل نہ تھی۔ جب بڑنیچ لوگ آئے تو داؤد خاں بڑنیچ نے موضع بڑنیچان اس کے اور شہر سمانے کے بیچ میں آباد کیا۔ اور مراد پورہ کے شمال میں خداد پورہ آباد ہوا۔ تو اب اس کی یہ صورت ہے کہ شہر سمانے کے شمال میں ایک میل کے فاصلے پر موضع بڑینچان ہے اور موضع بڑینچان کے شمائل میں کوئی پانسو قدم کے فاصلے پر مراد پورہ ہے اور مراد پورہ کے شمال میں خداد پورہ ہے۔ یعنی مراد پوره، خداد پورہ اور موضع پڑینچان کے درمیان واقع ہے۔ اسی گاؤں میں شیخ لالہ حسن یعنی پیر ماٹھا نے سکونت اختیار کی اور اپنی زندگی بھر وہیں مقیم رہے۔

شیخ الحسن کی وفات کا ذکر:

آخر کار اکبر بادشاہ کے عہد سلطنت 973ء میں انہوں نے وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آج تک ان کا مزار وہاں موجود ہے اور یہ پیر ماٹھا اور زندہ پیر کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے مزار پر صدہا گھڑا لینی مٹکا نذر کے طور پر چڑھتا ہے۔ یہی سبب ہے جو ان کو اس نام سے منسوب کیا۔ یہ بڑے صاحب تصرف تھے۔ کہتے ہیں کہ آج تک ان کی اولاد میں یہ بات چلی آتی ہے کہ اگر کسی شخص کو باؤلا کتا کاٹے اور اس شخص کے منہ میں ان کی اولاد میں سے پانی کی کلی اپنے منہ

صفحہ 67
میں بھر کر ڈالے تو تمام عمر اس کو ہڑک نہیں اٹھتے اور ان کا یہ تصرف ان کی اولاد میں تا قیامت رہے گا۔

ذکر شیخ مصطفے کا:

شیخ لالہ حسن کی وفات کے بعد ان کے فرزند شیخ مصطفے ان کے جانشین ہوئے۔ یہ بھی بڑے صالح اور متقی اور صاحب علم تھے۔ انہوں نے بھی اپنی ساری عمر درس و تدریس و زہد و عبادت میں بسر کی۔ اور جو ان کے خاندان کا طریقہ تھا یعنی پیری مریدی کا جاری رکھا اور ان سے بھی بڑا رشد مخلوق کو حاصل ہوا۔ تمام اطراف کے لوگ جوق جوق آن کر ان سے بیعت کرتے تھے اور ہدایت پاتے تھے۔ ان کی وفات 100ھ میں ہوئی اور اپنے باپ کے پہلو میں دفن کیے گئے۔ ان کے ایک بیٹا ثابت خاں تھا۔

ثابت خاں کی حقیقت:

ثابت خاں کی طبیعت لڑکپن ہی سے سپہ گری کی طرف مائل تھی۔ پیری مریدی کا جو طریقہ ان کے آباؤ اجداد سے چلا آتا تھا، ان کو اس کی طرف مطلق خیال نہ رکھتے تھے۔ جب 1023ھ میں جہانگیر بادشاہ اور اس کے بیٹے شاہجہاں کا باہمی تنازع ہوا اور جہانگیر بادشاہ لاہور سے دہلی کی طرف روانہ ہوا تو اثناء راہ میں ثابت خاں قریب سو سوا سو سوار کی جمعیت سمیت بادشاہ کی فوج میں رسالداری کے عہدے پر مقرر ہو گئے۔ انہی دنوں میں بادشاہ نے عبداللہ خاں کو دس ہزار سوار کے ساتھ شاہجہاں کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ ان میں ثابت خاں بھی تھے۔ اور یہ بات مشہور ہے کہ عبداللہ خاں دس ہزار سوار سمیت شاہجہاں سے جا ملا اور ثابت خاں اکثر معرکوں میں عبداللہ خان کے ساتھ رہے۔ جب شاہ جہاں بادشاہ ہوا اور قندھار پر فوج کشی کی تو گریمشک کے مقام پر قزلباشوں سے بڑے بڑے میدان

صفحہ 68
ہوئے۔ انہیں معرکوں میں سے ایک لڑائی میں 104ء میں ثابت خاں گرشک کے مقام پر کام آئے۔

شیخ جمال اور اسحاق خاں کا حال:

ثابت خاں کے دو بیٹے تھے۔ ایک شیخ جمال، دوسرے اسحق خاں۔ شیخ جمال صاحب مشائخ کبار میں سے ہوئے اور ان کا طریقہ اپنے آباؤ اجداد کے موافق ہوا۔ ان سے خلق اللہ کو بہت فیض پہنچا۔ اور یہ شیخ عبدالخالق لاہوری کے مرید تھے۔ ان کا طریقہ صابری چشتی تھا، مگر لاولد تھے۔ ان کی وفات 1088ھ میں ہوئی اور مراد پورہ ہی میں دفن ہوئے۔ اور اسحاق خاں کا حال صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ ان کا ایک فرزند منصور خاں تھا۔

منصور خاں کا حال:

منصور خاں کا حال یہ ہے کہ یہ بہادر شاہ بادشاہ کے عہد میں وزیر خاں چکلہ دار سر ہند کے سرکار میں ملازم تھے۔ جب 1123ھ میں گرو بند (گرو گوبند) نے سرہند پر یورش کی اور وزیر خاں چکلہ دار مارا گیا تو اسی ہنگامے میں منصور خاں کے بائیں ہاتھ میں تلوار کا ایک زخم لگا کہ اس سے ان کے ہاتھ کی تین انگلیاں اڑ گئی تھیں۔ اس سبب سے یہ ٹنڈے منصور خاں مشہور ہو گئے تھے اور تھے یہ بڑے چست و چالاک۔ ان کی بوٹی بوٹی میں شجاعت بھری ہوئی تھی۔ اس ٹنڈے پن میں بھی نچلے نہ بیٹھتے تھے۔ انھوں نے پیشہ قزاقی اختیار کر لیا تھا۔ اور لوگوں کے دلوں میں ان کی ایسی دہشت بیٹھی تھی کہ جس گاؤں پر یہ چاہتے اکیلے حملہ کرتے تھے اور لوگ ان کی دہشت سے گاؤں چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ آخر کار 1124ھ میں پیمانہ عمر، ان کا لبریز ہوا اور ایک فرزند دولت خاں چھوڑ گئے۔
77

صفحہ 69

دولت خاں کا حال:

دولت خاں کا حال اتنا ہی دریافت ہوا ہے کہ یہ ایک سیدھے سادے پٹھان تھے۔ انہوں نے کسی سرکار میں ملازمت بھی نہیں کی۔ عمر بھر خانہ نشیں ہی رہے اور بطور زمینداروں کے اپنی گزر اوقات کرتے رہے۔ ایک فرزند ان کے بادل خاں تھے۔

ذکر بادل خاں کا:

بادل خاں کی حقیقت یہ ہے کہ جب مصطفے خان بڑنیچ، محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں تلاش روزگار کے واسے پانچ چھے ہزار کی جمعیت کے ساتھ ولایت سے ہندوستان کو آتا تھا، جب ہی قریب شہر سمانے کے پہنچا تو سکھوں کا فرقہ اس کا سد راه ہوا۔ اس نے سخت جنگ کے بعد ان کو شکست دی اور شہر سمانے میں بود باش اختیار کی۔ یعنی موضع بڑنیچان جو شہر سمانے اور مراد پورہ کے درمیان داؤد خان بڑنیچ نے آباد کیا تھا، وہاں اپنے قبائل چھوڑ کر ملازمت حاصل کرنے کے خیال میں منزل مقصود کی طرف روانہ ہوا۔ اس وقت بادل خاں بھی مصطے خاں بڑنیچ کے ہمراہ ہو لیے۔ یہ اپنی جمعیت سمیت جا کر نواب علی وردی خاں مہابت جنگ صوبہ بنگالہ کی سرکار میں ملازم ہو گیا۔ ایک عرصے کے بعد جب مہابت جنگ اور مصطفے خاں کی ناچاقی ہوئی تو مصطفے خاں ملازمت ترک کر کے مرشد آباد سے روانہ ہوا۔ راستے میں اس نے قلعہ منکیر ( مونگیر ) کا محاصرہ کیا ہر چند قلعہ دار منگیر بھی خوب لڑا پر آخرکار مارا گیا اور قلعہ منگیر اس نے فتح کر لیا۔ لیکن مصطفے خاں کا بھائی عبدالرسول خاں اور بادل خان، یہ دونوں اس لڑائی میں کام آئے۔ بادل خاں کے ایک فرزند الف خاں تھے۔

الف خاں کی حقیقت:

الف خاں کچھ عرصے تک تو نواب منصور علی خاں صوبہ اودھ کی سرکار میں

صفحہ 70
ملازم رہے، پھر وہاں سے نوکری چھوڑ کر دہلی چلے آئے اور یہاں ایک عرصے تک قیام کیا۔ نواح دہلی میں مغل پورہ، جو ایک بستی ہے، اس میں مرزا فاضل بیگ ایک مغل رہتے تھے۔ ان کی بیٹی سے شادی کی۔ ان کی اس بی بی کے بطن سے میرے دادا فیض طلب خاں صاحب پیدا ہوئے۔ ان کی ایک بی بی وطن مالوفہ یعنی شہر سمانے میں بھی تھیں۔ ان کے بطن سے ایک بیٹا تھا، جس کا نام غلام رسول خاں تھا۔ کچھ مدت کے بعد 1202ھ میں الف خاں صاحب نے سفر آخرت اختیار کیا۔ اور دو فرزند انہوں نے چھوڑے۔ بڑے غلام رسول خاں اور چھوٹے فیض طلب خاں۔

غلام رسول خاں اور ان کی اولاد کا حال:

غلام رسول خاں اور ان کی اولاد کا حال یہ ہے کہ ان کا بیٹا عبدالرسول خاں اور ان کا بیٹا محمد ابراہیم علی خاں۔ محمد ابراہیم علی خاں کو رئیس جھجر نے عبدالصمد خاں، فوج ریاست کے جرنیل سمیت سواروں کی ایک جمعیت کے ساتھ 1857ء میں بادشاہ کی مدد کے لیے دہلی بھیجا تھا۔ اس جرم میں محمد ابراہیم علی خاں کو انہیں دنوں میں مقام جھجر پھانسی دی گئی۔ ان کے چار بیٹے ہیں: محمد اشرف خاں، محمد اسماعیل خاں، محمد خاں، عبدالستار خاں۔ ان کو سرکار انگریزی کی طرف سے وظیفے کے طور پر کچھ ملتا ہے۔ محمد اشرف خاں کے ایک بیٹا عشرت علی خاں ہے۔ محمد اسماعیل خاں کے دو فرزند ہیں: احمد علی خان اور ولایت علی خاں۔ محمد خاں کے ایک بیا معین الدین خاں ہے۔ عبدالستار خاں کے کچھ اولا نہیں ہے۔

اب کچھ حال ریاست پاٹودی کا کیا جاتا ہے:

پاٹودی ایک قصبہ دہلی سے چوبیس کوس اور گوڑ گاؤں سے بارہ کوس کے فاصلے پر جنوب کی طرف واقع ہے اور اوسط درجے کے رئیس بااختیار کی ریاست گاہ ہے۔ یہ رئیس سرکار انگریزی کے سایہ عاطفت میں سرداری کرتا ہے اور اس کی ریاست
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 71
کمشنری دہلی سے متعلق ہے اور جناب صاحب کمشنر بہادر قسمت دہلی اس کے نگراں ہیں۔ اس وقت اس ریاست کا رئیس اپنی نوعمری کے سبب بے اختیار ہے اور لا ہور چیف کا لج میں تعلیم پاتا ہے۔ ریاست کے اہتمام پر ایک منتظم سرکار انگریزی کی طرف سے مقرر ہے۔ یہاں کے اول رئیس جو خاندان شیخان میں سے ہوئے، وہ نواب فیض طلب خاں صاحب مرحوم رئیس حال کے مورث اعلی تھے۔

فیض طلب خاں اور نجابت علی خاں کا حال:

کہتے ہیں کہ نواب فیض طلب خاں صاحب بڑے شجاع اور قوی ہیکل اور شکیل جوان تھے۔ ان کی شادی نواب نجابت علی خان رئیس اول جھجر کی بہن سے ہوئی تھی اور فیض طلب خاں ہمیشہ نواب نجابت علی خان ہی کے ساتھ رہے۔ نجابت علی خان ابتداء میں شاہ عالم بادشاہ کے حضور میں ایک جاگیردار تھے۔ جب مادھو راؤ سندھیا کا تسلط دہلی پر ہوا، تو اس نے بھی ان کی قدر اور منزلت بحال رکھی۔ اور انہوں نے بھی اس کی اطاعت اور خیر خواہی کا بخوبی حق ادا کیا۔ جب ملک جے پور میں راجہ دہراج پرتاب سنگھ کچھوا پر مادھو راؤ سندھیا نے چڑھائی کی نے اور قصبہ لال سوت اور خوشحال گڑھ پر لڑائی ہوئی کے تو نجابت علی خاں کے ہم راہیوں نے بھی میدان جنگ میں نہایت درجے کی داد شجاعت دی۔ چناں چہ غازی خاں، نجابت علی خاں کا چچا اس معرکے میں مارا گیا اور دادا فیض طلب خاں صاحب سے بھی اس جنگ میں بڑے بڑے کار نمایاں ہوئے۔ اس کارگزاری اور خیر خواہی کے صلے میں مادھو جی سندھیا نے نجابت علی خاں کو بادشاہ کے حضور سے "اسد الدولہ، ممتاز الملک، نواب نجابت علی خان بہادر ہزیر جنگ" کا خطاب دلوایا۔

جاگیر کی سند ملنے کا حال:

جب 1218ھ اور 1803ء میں سرکار انگریزی کی عمل داری دہلی میں ہو گئی تو

صفحہ 72
نواب نجابت علی خاں نے جرنیل لارڈ لیک صاحب بہادر کی اطاعت قبول کر کے اپنی جاگیر سابقہ کی ایک سند حاصل کی۔ اس کے بعد جب 1219ھ مطابق 1804ء میں انگریزی فوج جرنیل منسن صاحب بہادر کے ماتحت جسونت راؤ ہلکر کے دفيعے کے لیے روانہ ہوئی، تو نواب نجابت علی خاں نے بھی پانسو سوار اپنے بہنوئی فیض طلب خاں صاحب کی سرداری میں جرنیل صاحب کے ساتھ کر دیئے۔ اور سکندره (مکندرہ؟) کی گھاٹی کے مقام پر فوج ہلکر سے مقابلہ ہوا اور بڑے گھمسان کا رن پڑا۔ اس جنگ میں اگرچہ انگریزی فوج نے زک پائی اور ایک افسر بورکین صاحب مارا بھی گیا لیکن دادا فیض طلب خاں صاحب سے عجیب جواں مردی و ثابت قدمی و خیر خواہی ظاہر ہوئی۔ ان کا سارا بدن زخموں سے گل رنگ ہو گیا، بلکہ اس حال میں یہ فوج ہلکر میں پکڑے بھی گئے اور آخر کو محمد اعظم سردار ہلکر کی سفارش سے انہوں نے وہاں سے رہائی پائی۔ چناںچہ ای کارگزاری و حسن خدمات کے صلے میں لارڈ لیک صاحب بہادر نے دادا فیض طلب خاں صاحب کو پاٹودی کا پرگنہ جاگیر کے طور پر عنایت فرمایا اور اس کی سند مرقومہ 24 اکتوبر 1804ء مطابق 19 رجب 1219ھ ان کو عطا ہوئی اور نواب نجابت علی خاں صاحب کو محالات جھججمرو کا نونڈ وغیرہ کی، جو لارڈ لیک صاحب بہادر نے دوسری سند 10 مارچ 1806ء میں نسلاً بعد نسلاً مرحمت فرمائی۔ تاریخ جھجر والا لکھتا ہے کہ یہ فیض خاں صاحب کی جاں نثاری کا سبب تھا۔

فیض طلب خاں اور نجابت علی خاں کا اتفاق:

نواب نجابت علی خاں صاحب مرحوم اور دادا فیض طلب خاں صاحب آپس کے حسن سلوک اور باہمی قرابت قریبہ و اتفاق ہونے کے سبب سے سرکار انگریزی سے عطیہ، ملک جداگانہ حاصل کرنے کے بعد بھی، دونوں صاحب ایک ہی جگہ رہے اور اس نظر سے کہ نجابت علی خاں صاحب ایک سیدھے سادے پانی زادے تھے۔ انہیں ریاست کرنے کے کام میں زیادہ مداخلت نہ تھی۔ بس دونوں ریاستوں کا

صفحہ 73
بندوبست و عزل و نصب فیض طلب خاں صاحب کے اختیار میں رہا۔

فیض طلب خاں صاحب کا دوسری شادی کرنا اور نواب محمد اکبر علی خاں صاحب کا پیدا ہونا:

چند روز کے بعد 1223ھ میں فیض طلب خاں صاحب کی زوجہ یعنی ہمشیرہ نواب نجابت علی خاں اس عالم فانی سے انتقال کر گئیں تو انہوں نے 1224ھ میں الہ آباد کے ایک عالی خاندان سادات نیشا پوری میں حکیم میر عبداللہ کی دختر یعنی لاڈو بیگم صاحبہ سے شادی کی۔ چنانچہ ان کے بطن سے 25 شعبان 1229ھ کو میرے ابا جان نواب محمد اکبر علی خاں صاحب پیدا ہوئے۔ سنا ہے کہ نواب فیض طلب خاں صاحب نے بڑی خوشی کی تھی اور ان کی چھٹی میں کئی لاکھ روپیہ صرف کیا تھا۔

نجابت علی خان کا انتقال کرنا اور فیض طلب خاں کا علحدہ ہونا:

جب نجابت علی خاں صاحب نے 1229ھ میں وفات پائی اور نواب فیض محمد خان صاحب ریاست جھجر کے مسند نشیں ہوئے تو ان کے اور دادا فیض طلب خان صاحب کے درمیان تنازع پیدا ہوا۔ اور آخر کار یہ ان سے آزردہ ہو کر اپنی ریاست گاہ یعنیی پاٹودی چلے آئے۔ اور پھر تادم زیست نہیں رہے۔

نواب فیض طلب خاں صاحب کے عادات اور وفات کا حال:

نواب فیض طلب خاں صاحب فیاضی میں اسم با مسمی تھے۔ سخاوت، مروت، دوست پروری، نیک بختی، خوش اوقاتی کی صفتوں کے ساتھ موصوف تھے۔ ان کی

صفحہ 74
سخاوت کا یہ حال سنا ہے کہ روز یہ معمولی خیرات کے علاوہ سو یا سوا سو روپیہ شب کو ہمیشہ ایک رومال میں باندھ کر اپنے پاس رکھ لیا کرتے اور علی الصباح محتاجوں کوتقسیم کرا دیتے تھے۔ اس کے سوا جاڑے کے موسم میں مسکینوں کو لحاف تقسیم کرتے تھے۔ اکثر غربیوں کی بن بیاہی بیٹیوں کی شادی کے سامان کے لیے روپیہ دیتے تھے۔ قدردان اور دوست پرور ایسے تھے کہ اپنے وفادار متعلقین کے ساتھ علاوہ تو ماہواری کے انعامات کا طریقہ بھی جاری رکھتے۔ خاص کر حکیم ثناء الله خان مرحوم اور دریا خان اور حکیم فتح اللہ خاں کرنیل شیخ منگلو جیسے عزت دار لوگوں کے ساتھ بڑی خاطر داری سے پیش آتے تھے، اور ان سے ایسا برتاؤ برتے تھے جیسا کوئی اپنے قرابتیوں کے ساتھ برتتا ہے۔ چناں چہ ان کی شادی غمی میں بذات خود جاتے تھے اور ہر ایک کے ساتھ ان کی حیثیت کے موافق وجہ نقد سے سلوک کرتے تھے۔ نیک بخت ایسے تھے کہ تمام عمر برے کام کے پاس نہیں پھٹکتے۔ روزہ نماز کے ایسے پابند کہ کبھی قضا نہ کرتے۔ گورنمنٹ عالیہ سے عطیہ ملک حاصل کرنے کے بعد چھبیس برس ریاست کی۔ آخرکار بخار کے عارضے سے 1245ھ میں عقبی کا سفر اختیار کیا اور روشن چراغ دہلی میں دفن ہوئے۔ جب دادا صاحب کا انتقال ہوا ہے تو اس وقت میرے ابا جان نواب محمد اکبر علی خاں صاحب مرحوم کی عمر پندرہ سولہ برس کی تھی جو مسند نشین ریاست ہوئے۔

نواب محمد اکبر علی خاں صاحب کی خصلت کا بیان:

میرے والد ماجد نواب محمد اکبر علی خاں صاحب بھی سخاوت کی صفت میں گویا اپنے زمانے کے حاتم ثانی تھے۔ ہر بہانے دیتے تھے اور اپنی بساط سے بڑھ کر دیتے تھے۔ جب دینے کو کچھ پاس نہ ہوتا تھا تو بڑے اداس ہوتے۔ ان کی اداسی ان کی تنگ دستی کا نشان تھی۔ ان کو صرع کا مرض تھا۔ کبھی ہفتہ اور کبھی ماہوار اس کا دورہ ہوتا تھا۔ گو وہ اپنے ارادوں، عادتوں، طریقوں میں بڑے مستقل مزاج تھے، لیکن پھر بھی اس مرض نے ان کے مزاج میں ایک عجیب رنگ پیدا کر دیا تھا۔ اور ایک نئی

صفحہ 75
قسم کی خصلت پڑ گئی تھی۔ یعنی جب سب کچھ دے دلا کر ان کے پاس کچھ نہ رہتا تھا تو ان کی طبیعت میں اداسی پیدا ہو کر ایک جوش اٹھتا اور وہ غصہ بعض مصاحبین وغیرہ پر اترتا۔ ان پر ایسی خفگی ہوتی کہ ان کی برطرفی تک کی نوبت پہنچتی۔ اور معزولی کے بعد حکم ہوتا کہ ابھی صدر ریاست سے خارج ہو جاویں اور بعد خارج کرنے کے اکثر ان کے مکانات کھدوا کر پھنکوا دیتے۔ مگر اپنی لازمی صفت سخاوت کے اس باب میں بھی رعایت ملحوظ رکھتے۔ یعنی ان کو علاوہ تنخواہ کے زاد راہ کے طور پر اگر ممکن ہوتا تھا تو کچھ مدد خرچ دیتے تھے۔ پھر جہاں وہ جوش اتر چکتا، فورا اس نکالے ہوئے کی پھر بلانے کی امنگ جی میں اٹھتی۔ اس وقت چپراسی بھیجا جاتا۔ اگر کوئی معزز آدی ہے تو سوار چلا جاتا۔ اس سے بھی مقرب ہے، تو اس کے لینے کو ایک دو مصاحب روانہ ہوتے۔ سانڈنی سوار دوڑتے۔ غرض جس طرح ہوسکتا تھا، بلاتے تھے اور پھر اس سے اپنا قصور معاف کراتے۔ اس کو زر نقد پوشاک انعام میں دیتے اور عمدہ کھانے اپنے خاص باورچی خانے سے بجھواتے تھے۔ اور ہر طرح سے خوش کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اکثر لوگ یہ آرزو کیا کرتے تھے کہ ہم جلدی جلدی معزول ہوا کریں۔ تا کہ غیر معمولی مدارات کے ساتھ بلائے جائیں اور خلعت و انعام پاویں۔ اسی وجہ سے بعض لوگ ان کو مراق کا مرض بھی بتاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا کوئی مقرب ملازم ایسا نہ تھا جو دو چار مرتبہ نکالا نہ گیا ہو۔ سوائے حکیم فتح اللہ خاں صاحب مرحوم کے، کہ ان کا وہ بڑا لحاظ اور توقیر کرتے تھے۔ چناں چہ سنا ہے کہ دادا فیض طلب خان صاحب نے میرے ابا جان کو یہ وصیت کی تھی کہ حکیم فتح اللہ خاں کو تم میرے بعد میری جگہ سمجھنا اور ایسے رفیق کو ہرگز جدا نہ کرنا۔ سو حقیقت میں ان مرحوم نے ایسا ہی کیا۔ بلکہ انہوں نے حکیم صاحب مرحوم کے اکثر رشتے داروں اور عزیزوں کو رکھا اور ان کے بعد ان کے ایک نواسے کو ان کی جگہ طبابت کے عہدے پر مقرر کیا اور بڑی عزت کے ساتھ رکھا۔ مگر زمانے کا انقلاب ایسا ہوا کہ ریاست کے کاروبار میں اب وہ لوگ دخیل ہوئے جنہوں نے حکیم صاحب مرحوم کے خاندان میں سے ایک متنفس کو بھی کاروبار ریاست پر بحال نہ رکھا۔ یا بڑے بڑے کاموں پر وہ لوگ متعین تھے۔

صفحہ 76
میرے ابا جان رحم دل ایسے تھے کہ کسی کے دکھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جہاں تک ہو سکتا تھا، اس کی تکلیف دفع کرنے میں کوشش کرتے تھے۔ ان کی تمام رعایا اور ملازم اور اولاد تادم زیست ان سے سب خوش رہے۔ پندرہ سولہ برس کی عمر میں مسند نشین ریاست ہوئے۔ یوں چونتیس پینتیس برس ریاست کی۔ پچاس برس کی عمر میں دنیا سے سدھارے۔ خدا رکھے بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں، سو آدمیوں کا کنبہ بھرا ہوا چھوڑا۔ ایسا خوش نصیب تو لاکھوں آدمیوں میں سے بھی شاید کوئی ہو گا۔

بیٹوں کا حال:

میرے ابا جان کے پانچ بیٹے تھے۔ سب سے بڑے نواب محمد تقی علی خاں۔ صاحب یہ ابا جان کے انتقال کے بعد مسند نشین ریاست ہوئے تھے۔ ان کا تذکرہ آگے آوے گا۔ ان سے چھوٹے محمد اصغرعلی خاں۔ ان سے چھوٹے محمد جعفر علی خاں۔ یہ تینوں ابا جان کی وفات کے بعد فوت ہو گئے۔ محمد صادق علی خاں اور محمد عنایت علی خان، یہ دونوں اللہ رکھے زندہ ہیں۔ خدا ان کو زندہ رکھے اور ان کی اولاد کے کھیڑے برسائے۔ ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپے ماہوار ان کو وثیقے کے طور پر ریاست سے ملتا ہے۔

بیٹیوں کا حال:

بارہ بیٹیاں صغری بیگم، کبریٰ بیگم، کلثوم بیگم، سکینہ بیگم، زہرا بیگم، یہ عاجزہ یعنی شہر بانو بیگم، سلطان زمانی بیگم، امامی بیگم، سکندر بیگم، ملکہ بیگم، انور بیگم، باقری بیگم۔ ان سب کا وثیقہ ریاست سے ساٹھ ساٹھ روپے ماہوار مقرر ہے۔ ان میں تین بیٹیاں یعنی کبریٰ بیگم، کلثوم بیگم اور ملکہ بیگم فوت ہو گئیں۔ اور نو اس وقت زندہ موجود ہیں۔

صفحہ 77

بیویوں کا حال:

اور بارہ بیویاں چھوڑی تھیں۔ پہلی شادی بیگم صاحبہ۔ یہ بیاہتا بیوی تھیں۔ ان کے بطن سے صرف ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی، وہ خورد سالی ہی میں فوت ہو گئی تھی۔ ان کو دو سو روپے ماہوار ریاست سے ملتا تھا۔ دوسری سرفراز محل۔ یہ بھی منکوحہ تھیں۔ میرے بڑے بھائی جان نواب محمد تقی علی خاں صاحب مرحوم جو ابا جان کی وفات کے بعد مسند نشین ریاست ہوئے تھے، اور ایک بیٹی صغری بیگم، یہ دونوں ان کے بطن سے تھے۔ اور اس وجہ سے یہ رئیس کی ماں تھیں۔ سو روپے ماہوار ریاست سے ان کو وثیقہ ملتا تھا۔ تیسری والدہ محمد اصغر علی خاں۔ چوتھی والدہ جعفر علی خاں۔ پانچویں والده محمد صادق علی خاں۔ چھٹی والدہ کبریٰ بیگم۔ ساتویں والدہ کلثوم بیگم۔ آٹھویں والدہ سکینہ بیگم۔ نویں والده عاجزہ یعنی شہر بانو بیگم۔ یہ بھی منکوحہ ہیں اور نواب صاحب یعنی والد مرحوم کے حین حیات تک ان کو ایک سو ستر روپے ماہوار ملتا رہا، مگر ان کی ترش مزاجی نہایت درجے کی تھی اور نواب صاحب ان کی ترش مزاجی سے اکثر ناراض رہتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے اپنے وصیت نامے میں ان کا وثیقہ اوروں کے برابر پچاس روپے ماہوار لکھ گئے۔ چناں چہ بعد وفات نواب صاحب منجملہ ایک سو ستر روپے کے، پچاس روپے ماہوار ان کو ملتا ہے۔ دسویں والده امامی بیگم، گیارہویں والده انور بیگم، بارہویں والده باقری بیگم۔ بعد انتقال نواب صاحب شادی بیگم صاحبہ اور والده محمد تقی علی خاں صاحب اور والده اصغر علی خاں اور والدہ کبریٰ بیگم، یہ چار فوت ہو گئیں اور آٹھ اس وقت تک زندہ موجود ہیں۔ پچاس پچاس روپے ماہوار ان کو وثیقہ ریاست سے ملتا ہے۔

بیٹوں کی اولا د کا حال:

نواب محمد تقی علی خان صاحب کے ایک بیٹا نواب محمد مختار حسین خاں تھا، سو وہ اپنے باپ کی وفات کے بعد مسند نشین ریاست ہوا۔ اس کا تذکرہ آگے آوے گا۔

صفحہ 78
محمد اصغر علی خاں صاحب کے ایک دختر سعادت النساء تھی۔ پہلے باپ کا انتقال ہوا، ان کے بعد وہ بھی فوت ہو گئی۔ محمد جعفر علی خاں صاحب 1879ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے دو فرزند ہیں۔ ایک کا نام مظفر علی خاں اور دوسرے کا نام وصیت علی خاں اور ایک دختر ہے۔ محمد صادق علی خاں صاحب کے ایک فرزند محمد حبیب الرحمان خاں اور ایک دختر ہے۔ محمد عنایت حسین خاں صاحب کے دو فرزند ہیں۔ ایک کا نام محمد حسن خاں اور دوسرے کا نام محمد حسین خاں اور ایک دختر ہے۔

بیٹیوں کی اولاد کا حال:

صغریٰ بیگم کے ایک فرزند عبدالحمید خاں ہے۔ کبریٰ بیگم کے چار فرزند ممتازعلی خاں، مبارک علی خاں، حشمت علی خاں، ناصر علی خاں اور دو بیٹیاں ہیں۔ کلثوم بیگم کے ایک دختر حسن زمانی بیگم ہے۔ سکینہ بیگم کے ایک فرزند معین الدین خاں اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ زہرا بیگم کے ایک فرزند محمد اسحاق خاں ہے۔ امامی بیگم کے ایک فرزند
عباس علی خاں اور چار بیٹیاں ہیں۔ سکندر بیگم کے ایک فرزند ارشاد علی خاں اور دو بیٹیاں ہیں۔ ملکہ بیگم کے ایک دختر افضل بیگم ہے۔ باقری بیگم کے چار بیٹیاں ہیں۔ میرے ابا جان نواب محمد اکبر علی خاں صاحب کی یہ اولاد ہے۔

نواب محمد تقی علی خاں کا مسند نشین ہونا اور ان کا فوت ہونا:

بس جب والد کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ میرے بڑے بھائی جان نواب محمد تقی علی خاں صاحب مسند نشین ریاست ہوئے۔ مگر ان کی عمر نے زیادہ وفا نہ کی۔ کہ مسند نشیں ہونے کے صرف تین مہینے وہ بھی چند در چند امراض کی حالت میں زندہ رہے۔ چھٹی تاریخ بقر عید کی تھی کہ وہ بھی دنیا سے رحلت کر گئے اور اپنے باپ ہی کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ان کا داغ بھی ہمارے کلیجوں پر نقش ہو گیا۔ اللہ تعالی ان کو جنت نصیب کرے۔ چوبیس برس کی عمر تھی۔ اچھی طرح جوانی کا سکھ بھی تو نہ

صفحہ 79
دیکھا۔ اگرچہ میرے والد بزرگوار کے مرنے کا لوگوں کو بڑا غم ہوا تھا، کیوں کہ سخاوت میں وہ اپنے زمانے کے حاتم تھے مگر اس مرنے والے نے بھی اپنی نوابی کے عہد میں ایک ایک کی ایسی دل جوئی اور شفقت عام کی تھی، کہ والد مرحوم کا داغ لوگوں کے دلوں سے مٹا دیا تھا اور تین مہینے میں ریاست میں ایسی بہار آ گئی تھی کہ لوگ عش عش کرتے تھے۔ اور یہی مرزا ایوب بیگ، جو اب میرے ہاں مختار ہیں، میرے بھائی جان نواب محمد تقی علی خان صاحب مرحوم کے عہد میں ریاست کے مدار المہام تھے۔ ان کے حسن انتظام سے ریاست کے کل کارخانوں میں رونق تازہ آ گئی تھی۔ مگر افسوس کہ وہ بہار زیادہ نہ رہی۔ اور تھوڑی ہی مدت میں آخر ہو گئی۔ وہ بھی ایک زمانہ تھا جو خواب و خیال ہو گیا۔ ہم اچھی طرح ابا جان کا غم نہ بھولتے تھے کہ بھائی جان کا صدمہ جانکاه اٹھانا پڑا۔ بیت:
بھرے تھے نہ پہلے ہی زخم جگر
دیا آسان نے یہ داغ دگر

مختار حسین خاں کا مسند نشیں ہونا:

بھائی کے انتقال کے بعد ان کا فرزند نواب محمد مختار حسین خاں، جس کی عمر آٹھ برس کی تھی مسند نشین ریاست ہوا۔ اور میرے منجھلے بھائی محمد اصغرعلی خاں صاحب مرحوم منتظم ریاست ہوئے۔ یہ کچھ خوش انتظام نہ تھے۔ ان کی غفلت سے ریاست کے کاروبار میں ابتری پڑی اور آپس میں نزاع پیدا ہوئے۔ تمام بیگمات ان سے آزردہ ہو کر دہلی چلی آئیں۔ اور یہاں آ کر نالشی ہوئیں۔ غرض چار پانچ برس وہ ریاست کے منتظم رہے۔ بس یہی تکا فضیحتی ہوتی رہی۔ آخر یہ ہوا کہ ان کی بے پروائی اور بدنظمی سے فوج کی تنخواہ کئی مہینے کی چڑھ گئی اور تنگ ہو کر فوج کے ایک جتھے نے ان کے ایک کارندے کو ایک دن پکڑ لیا اور بے آبرو کیا۔

صفحہ 80

اصغرعلی خاں کا موقوف ہونا اور صفدر حسین خاں کا نظم ہونا:

آخر کار جناب مکنیل صاحب بہادر کمشنر دہلی نے 1866ء میں آصغر علی خاں صاحب کو ننتظمی سے موقوف کر کے ڈپٹی صفدر حسین خاں صاحب کو ان کی جبکہ منتظم ریاست مقرر کر کے بھیج دیا۔ ڈپٹی صفدر حسین خاں صاحب نے ریاست کا انتظام نہایت عمدہ کیا۔ ریاست جو مقروض ہو گئی تھی، وہ قرضہ بھی سب ادا کر دیا بلکہ سوا لاکھ روپیہ بنک میں جمع کرا دیا۔ ڈپٹی صاحب پانچ سال منتظم ریاست رہے۔ آخر 1871ء میں ان کی تبدیلی ہو گئی۔

مولوی حسام الدین کا منتظم ہونا اور رئیس کا آوارہ ہونا:

ان کی جگہ ایک تحصیل دار صاحب مولوی حسام الدین منظم ریاست مقرر ہوئے۔ ان کے وقت میں نواب محمد مختار حسین خاں رئیس کے چال و چلن میں جو حد بلوغ کو نہ پہنچنے کے سبب بے اختیار تھا، بہت فتور آ گیا۔ پس مولوی صاحب ریاست کے انتظام کی طرف ملتفت رہے۔ وہاں رئیس اندر ہی اندر صحبت بد میں مبتلا ہو کر ناؤ نوش و عیاشی کرنے لگا۔ مولوی صاحب شاید یہ سمجھے
محتسب رادرون خانہ چہ کار

روپیہ نقد تو اس کے پاس تھا نہیں، کیوں کہ منتظم اپنی تحویل میں رکھتا تھا، رئیس نے قرض لینے پر کمر باندھی۔ دینے والوں نے جان لیا کہ ایک دن اختیار ملے ہی گا۔ دوسرے، ریاست کا رئیس ہے، دستخطی نوشت لو، اور بے کھٹکے روپیہ دو۔ جو مانگا سو دیا اور جو دیا اس سے چوگنا لکھوا لیا۔ چند ہی روز میں قریب تیس چالیس ہزار روپیہ کے قرض کر لیا۔ رفتہ رفتہ منتظم صاحب کو بھی خبر پہنچی۔ سنتے ہی ہوش اڑ گئے اور اپنی بدانتظامی کا خیال آیا۔ انکوں نے جھٹ صاحب کمشنر بہادر کو اطلاع دی۔ کری کرافٹ صاحب کا زمانہ تھا۔ صاحب بہادر نہایت درجہ کے آسانی پسند اور نیک خو حاکم تھے۔ سن کر بہت ہی برافروختہ ہوئے اور فورأ کار ریاست کو اپنے محکمہ سے علیحدہ کر کے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر گوڑ گانوں کے ماتحت کر دیا۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 81

الیور صاحب کا اجنٹ ہونا اور حسن محل کا نکاح ہوتا:

اب الیور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر گوڑ گانوں ریاست کے اجنٹ مقرر ہوئے۔ اور مولوی حسام الدین صاحب کی تبدیلی ہو کر ان کی جگہ خدا بخش تحصیل دار صاحب منتظم ریاست ہوئے۔ اس پر چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک تازہ گل اور کھلا۔ وہ یہ کہ نواب محمد مختار حسین خاں صاحب نے ایک طوائف کے ساتھ عقد نکاح باندھ اس کو "حسن محل" خطاب بھی عنایت کر دیا۔ یہ سن کر منتظم صاحب کی تو بہت سٹی جھولی۔ گھبرائے اور فوراً صاحب بہادر اجنٹ بہادر کو اطلاع دی۔ سنتے ہی صاحب بہادر پاٹودی میں تشریف لائے اور بہت چیخے چلائے۔ مگر پھر کیا ہو سکتا تھا۔ وہاں تو نکاح بندھ چکا تھا اور پختگی ہو چکی تھی۔ خیر جو لوگ شریک نکاح ہوئے تھے کسی پر ملامت کی، کسی کو تعلق ریاست سے خارج کیا۔ پر جو ہونا تھا وہ ہو لیا۔ صاحب بہادر تنبیہ و تادیب کر کے چلے گئے۔

دادی اماں کا انتقال کرنا:

اس قصے کے تھوڑے دن بعد 14 شوال 1293ھ کو ہماری جدہ جناب لاڈو بیگم صاحبہ کو قضائے الٰہی سے سفر آخرت درپیش آیا۔ گو ان کی عمر نوے سال کی تھی لیکن پھر بھی ان کا دم ہم سب کے لیے اور خاص کر رئیس نو عمر کے واسطے بہت غنیمت تھا۔ محمد مختار حسین خاں رئیس کو انہوں نے پالا تھا اور ان کا ان کو کسی قدر دباؤ بھی تھا۔ بس دادی صاحبہ مکرمہ کے انتقال کے بعد تو وہ بالکل ہی بے باک ہو گئے۔

ممو خاں کا اتالیق مقرر ہو کر موقوف ہونا:

جب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے ان کی بے اعتدالیاں حد سے زیادہ سنیں تو اپنے ایک رفیق ممو خاثن نامی کو نوجوان نواب صاحب کا اتالیق مقرر کر کے بھیج

صفحہ 82
دیا۔ چند ہی روز کے بعد رئیس کی اتالیق سے بگڑی۔ انہی دنوں میں جناب کرنل ڈیوس صاحب بہادر کمشنر دہلی مقرر ہو کر آئے اور نواب محمد مختار حسین خاں بہادر بھی جناب صدر کمشنر بہادر کی ملاقات کو گئے۔ صاحب بہادر نے ان سے حال دریافت فرمایا۔ انہوں نے اتالیق وغیرہ کی خوب شکایت کی۔ اس پر صاحب کمشنر بہادر نے اتالیق کو موقوف کر دیا اور ریاست کا کام گوڑ گانوں سے علیحدہ کر کے پھر کمشنری سے متعلق کر لیا۔

پنڈت کشن لعل صاحب کا ملازم ہونا:

انہی دنوں میں پنڈت کشن لعل صاحب بھی کسی کی سفارشی چٹھی لے کر جناب صاحب کمشنر بہادر کی خدمت میں پہنچے۔ صاحب کمشنر بہادر نے ایک چٹھی یا مراسلہ نواب محمد مختار حسین خاں کے نام لکھا کہ یہ پنڈت جی آپ کے نمک خوار قدیمی ہیں۔ ان کو آپ پچاس روپیہ ماہوار تنخواہ دیا کریں اور یہ اتالیق کے طور پر آپ کے پاس رہیں گے۔ ان کی تقرری سے رئیس کچھ خوش تو نہ ہوا تھا بلکہ کشیده خاطر تھا، لیکن میری والدہ صاحبہ نے رئیس سے ان کی بہت سفارش کی اور کہا کہ یہ آپ کے بڑے قدیمی ہیں اور ایسے ایسے ایسے ہیں۔ آپ کو ان پر بڑی نظر عنایت رکھنی چاہیے۔ غرض پنڈت جی نے ایسی مبارک گھڑی اور شبھ لگن سے ریاست میں قدم رکھا تھا کہ آج تک موجود ہیں اور اب وہی ممتظم ریاست ہیں۔ خیر پنڈت صاحب کو آئے ہوئے چند ہی روز گزرے تھے۔

نواب محمد مختار حسین خاں کو اختیارات ہونا اور ان کا فوت ہونا:

اور نواب محمد مختار حسین خاں صاحب کو ریاست کے اختیارات ملے ہوئے کوئی تین مہینے ہوئے تھے، کہ رئیس موصوف بیمار ہو کر دہلی آئے۔ مرض روز بروز شدت پکڑتا گیا۔ دہلی آئے ہوئے آٹھ دس روز گزرے تھے کہ 13 مارچ 1878ء کو شب

صفحہ 83
کے وقت نواب محمد مختار حسین خاں نے دنیا سے کوچ کیا۔ کیا کہوں اس واقعہ جاں کاہ سے کس قدر قلق ہوا۔ ہائے میرے شفیق اور پیارے بھائی کا بیٹا تھا۔ اس کے باپ نے بھی چوبیس برس کی عمر میں عالم شباب ہی میں قضا کی تھی۔ اس کو بھی جوانی میں موت آتی۔ ع

ایں ما تم سخت است کہ گویند جواں مرد

ان کو بھی روشن چراغ دہلی میں دف0ن کیا۔ خدا بہشت بریں نصیب کرے۔

نواب محمد مختار حسین خاں کی اولاد کا حال:

اس کے ایک دختر اور ایک فرزند نواب محمد ممتاز حسین خاں بہادر ہے جو اب سلامتی سے رئیس ہے اور اس کی عمر اس وقت اللہ رکھے 13 سال کی ہے۔ خدا کے فضل سے لاہور چیف کالج میں تعلیم پاتا ہے۔ خدا اس کو پروان چڑھائے اور عمر طبعی کو پہنچائے اور ریاست برتنی نصیب کرے اور سعادت مند ہو اور ہماری آنکھوں کو اس کے دیدار سے روشن رکھے۔ میرے بھتیجے کا فرزند میرا پوتا۔ موئی مٹی کی نشانی ہے۔ خدا کی شان ہے۔ بوا ہمارے خاندان میں اب تو کوئی ایسا بزرگ
سب کا سرپرست رہا ہی نہیں۔ بھائی اصغر علی خاں تھے 1870ء میں ان کا انتقال ہوا۔ بھائی جعفر علی خاں تھے وہ 1879ء میں رحلت کر گئے۔ اسی سال میں ہماری والده شادی بیگم صاحبہ یعنی ہمارے والد کی بیاہتا بیوی تھیں، وہ بھی فوت ہو گئیں۔ ہر ایک کا جدا جدا قلق ہے۔ اس غم کی تحریر سے دیکھو تو سینہ ہی شق ہے۔ بیت:

کس کا افسانہ کہیں، کسی کو بھلا یاد کریں
غم مجنوں کریں یا ماتم فرہاد کریں

پنڈت کشن لعل صاحب کا منظم ریاست ہونا:

نواب محمد مختار حسین خاں کے انتقال کے بعد پنڈت کشن لعل صاحب نے

صفحہ 84
شاید اپنی قدامت کی اسناد وغیرہ صاحب کمشنر بہادر کو ملاحظہ کرائیں۔ اس پر صاحب بہادر نے پنڈت جی کو منتظم مقرر کر دیا۔ سو حقیقت میں پنڈت جی کی قدامت میں تو شک نہیں کیوں کہ ان کے والد اور یہ خود بھی میرے ابا جان کی نوابی کے عہد میں ریاست کی طرف سے وکالت کی خدمت پر مقرر تھے اور یہ خیر خواہ اور نیک نام بھی رہے اور اپنی ذات سے لائق فائق بھی بہت کچھ ہیں۔ مگر اب تو چند روز سے پنڈت صاحب نے ہم لوگوں سے ایسا برتاؤ شروع کیا ہے کہ قدیمی قدامت اور اعلی خیر خواہی کے برعکس نظر آتا ہے۔
اوہو، میں کیا کہتی تھی اور کیا کہنے لگی۔ کہاں سے کہاں چلی گئی۔ مجھے اپنی کہانی کہنی تھی یا اوروں کے قصے جھونے تھے۔ مقصد سے دور جا پڑی۔ نہیں نہیں، اگر غور سے دیکھا جائے تو مقصد کے قریب ہی قریب ہوں۔

صفحہ 85

باب سوم

بیتی کہانی کا اتمام


صفحہ 86

بیگمات کا اصغر علی خان سے بگڑ کر دہلی آنا:

بوا، جب میرے بھائی نواب محمد تقی خاں صاحب کا انتقال ہوا اور محمد مختار حسین خاں مسند نشین ریاست ہوئے اور منجھلے بھائی محمد اصغر علی خاں صاحب منتظم ریاست ہوئے تو آپس میں جھگڑے فساد پڑے تھے۔ اور محلوں کی تمام بیگمات اصغر علی خاں صاحب منتظم ریاست سے بگڑ کر دہلی چلی آئی تھیں اور یہاں صاحب کمشنر بہادر کی پیش گاہ میں اپنے اپنے وثیقوں کے ملنے کے لیے استغاثہ کیا تھا، چنانچہ میں بھی اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ دہلی آئی تھی۔ مجھے آئے ہوئے آٹھ دس روز گزرے تھے۔

میری ساس کا بیمار ہونا اور میرا لودهیانہ جانا:

کہ لودھیانہ سے آدمی آیا اور اس نے آن کر میری والدہ کو پیام دیا کہ آپ کی سدهن نور گل صاحبہ بہت بیمار ہیں۔ آپ کو مناسب ہے کہ ان کی بہو شہر بانو بیگم کو لودھیانہ بھیج دیں۔ بس یہ سنتے ہی میری روانگی کی صلاح ٹھہر گئی۔ ریل تو ان دنوں میں بھی نہیں، چالیس روپیہ کو شکرم کرایہ کر کے دوسرے روز ہی لودھیانہ کی طرف روانہ ہو گئی۔ مارا مار تیسرے روز لودھیانہ پہنچی۔ دیکھا تو حقیقت میں خوش دامن صاحبہ کا برا حال تھا۔ خیر جو کچھ بن پڑی، ان کی خدمت کی۔ دو تین مہینے ہی ان کو صحت ہوئی۔ مگر مجھ سے پھر وہی زکاوت، روکھا پن، ناک میں دم آ گیا۔ الٰہی کیا کروں۔ خاوند ہے تو اس کا عجب ڈھنگ ہے کہ کچھ پروا ہی نہیں۔ ساس ہے تو ان کا یہ رنگ ہے کہ گویا خون کی پیاسی ہیں۔

والدہ کا بیمار ہونا اور میرا طلب کرنا اور ساس کا نہ بھیجنا:

میں اس مصیبت میں مبتلا تھی کہ دہلی سے والدہ صاحبہ کا خط آیا۔ اس میں لکھا

صفحہ 87
تھا کہ میں سخت بیمار ہوں، جلد آ جاؤ۔ کھانا وہاں کھاؤ تو پانی یہاں پیو۔ خط دیکھ کر جی بہت پریشان ہوا۔ پر سوچا کہ کیا کروں، کیوں کر جاؤں۔ یہ مجھے کب جانے دیں گی۔ آخر وہ خط میں انورمحل صاحبہ کے پاس لے گئی۔ انہوں نے پڑھ کر سنا اور پھر لا کر میری ساس کو سنایا اور بہتیرا کچھ کہا سنا، ہر چند سمجھایا کہ "دیکھو بہو کو جانے دو۔ اس کی ماں بیمار ہیں۔ اس کا جانا ضرور ہے۔" ادھر میری ددا اور استانی جی نے طرح طرح سے کہا مگر ان کے کان پر جوں بھی نہ چلی۔ خیال بھی نہ کیا۔ گویا سنا ہی نہیں۔ میرا رنج کے مارے یہ حال ہوا کہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی۔ غیر لوگ دیکھ دیکھ کر ترس کھاتے اور کہتے کہ "ہے ہے کیسی ظلمن ساس ہے۔ ایسی غریب بہو اور اس پر یہ ظلم۔" لیکن اس خدا کی بندی نے آنکھ اٹھا کر بھی تو نہیں دیکھا کہ اس پر کیا بنی ہے؟ نہیں معلوم میری طرف سے انہیں کیا بغض تھا کہ انہوں نے میرے سامنے کبھی اپنی چتون کا بل نہیں کھولا۔ میری شادی ہوئے پر وہ بارہ تیرہ برس زندہ رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے مجھ سے کبھی کشادہ پیشانی ہو کر بات نہیں کی۔ خیر اس عذاب میں چار مہینے اور گزرے۔

والدہ کا صحت پا کر لودھیانہ جانا اور مجھے ہمراہ لے کر دہلی آنا:

جب والدہ صاحبہ کوصحت کلی حاصل ہوئی تو وہ خود لودھیانہ گئیں اور انہوں نے جا کر میری خوش دامن کی خوب خبر لی۔ اچھی طرح جھاڑا۔ اس پر بھی بڑی جنگ و جدل سے والدہ مجھے لے کر دہلی آئیں۔ یہاں آن کر میرے گلے کا گنڈا، جو مولوی مخصوص اللہ صاحب کے ہاتھ کا تھا، وہ بڑھایا۔ اور بڑی خوشی کے چند روز کے بعد عشرت محل، میری سوتیلی ساس، لودھیانہ سے بیمار ہو کر دہلی آئیں اور یہاں علاج معالجہ بہتیرا کیا، پر فائدہ نہ ہوا۔ دو مہینے کے بعد انہوں نے انتقال کیا۔ پھر تو سارا خاندان لودھیانہ سے دہلی آیا۔ میری خوش دامن صاحب بھی تشریف لائیں۔ کوئی دس بارہ روز رہ کر پھر لودھیانہ کی تیاری کی۔

صفحہ 88

میرا لودهیانہ جانا اور بال بچے کی امید کا ہونا:

اور میرے لے جانے کے واسطے بھی والدہ صاحبہ سے کہا۔ انہوں نے بہت سی شرطیں کر کے مجھے ان کے ساتھ بھیج دیا۔ لودھیانہ جا کر مجھے بال بچے کی امید ہوئی۔ دو مہینے کے بعد یکا یک والدہ صاحبہ بھی لودهیانہ آئیں۔ میں ان کے آنے سے بہت خوش ہوئی اور یہ سمجھی کہ شاید میرے پاس رہیں گی۔ تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ وہ تو اپنی تنخواہ بدستور سابق مقرر ہو جانے کے لیے درخواست کرنے لاہور جاتی ہیں۔ سن کر نہایت رنج ہوا۔ وہ دوسرے روز لاہور کی طرف روانہ ہو گئیں۔ کوئی دو تین مہینے گزرے ہوں گے۔

میرے شوہر اور ساس کے درمیان تکرار کا ہونا:

کہ ایک دفعہ میرے شوہر اور ان کی والدہ کا آپس میں تکرار اور جھگڑا ہوا اور وہ لڑ بھڑ کر اپنے چچا محمد یعقوب علی خاں صاحب مرحوم کے ہاں چلے گئے اور وہیں رہنے سہنے لگے۔ میں اپنی ساس ہی کے پاس رہیں۔ مگر اب تو خوش دامن صاحبہ کا یہ حال ہوا کہ کمال ہی مہربانی سے پیش آنے لگیں اور طرح طرح کی خوشامد کرنے گئیں۔ چھوکریوں پر بھی تاکید ہوئی کہ دیکھو خبر دار کوئی ایسی بات نہ کرنا جو بہو کو ناگوار گزرے۔ ایسا نہ ہو یہ بھی خفا ہو کر اپنے خاوند کے پاس چلی جائے۔ بھلا میں اس کی بدولت اپنے بچے کو دیکھ تو لیتی ہوں۔ اگر بہو یہاں نہ ہو گی تو پھر وہ کاہے کو آوے گا۔ میں تو اس کی صورت کو بھی ترس جاؤں گی۔ سچ ہے دنیا ہے اور مطلب اپنا ہے۔ وہی میں تھی جسے زہر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اب وہی میں ہوں کہ میری دل جوئیاں اور چاپلوسیاں ہوتی ہیں۔ ادھر تو یہ کیفیت تھی، ادھر میرے شوہر نے ایک خط میری والدہ کو اس مضمون کا لکھا کہ میں اپنی والدہ سے ناراض ہو کر اپنے چچا محمد یعقوب علی خاں صاحب کے ہاں چلا آیا ہوں اور میری اہل خانہ اپنی خوش دامن ہی کے پاس ہیں۔ آپ اس خط کے مضمون کو معلوم کرتے ہی ادھر کو روانہ ہو جائیں اور

صفحہ 89
یہاں آن کر ہمارا بندوبست کر جائیں۔ وہاں سے تو انہوں نے خط لکھ کر روانہ کیا اور یہاں سے میری ساس نے بھی اس باب میں ایک خط لکھا۔ اس میں بھی یہی تحریر کیا تھا کہ تم جلدی یہاں آ جاؤ۔ غرض چوتھے روز والدہ صاحبہ لاہور سے لودھیانہ آ گئیں۔ اول تو میرے شوہر کو بہت سمجھایا کہ اپنی والدہ سے سلوک کر لو۔ جب انہوں نے نہ مانا تو مجھے بھی میرے شوہر کے پاس بھیج دیا۔

ساس سے علیحدہ ہونا اور شوہر کا صحبت بد میں مبتلا ہونا:

اب ہم علیحدہ مکان میں رہنے بسنے لگے۔ مگر قسمت کی خوبی دیکھیے کہ ادھر تو میاں جو آزاد ہو گئے تو بری صحبت میں جا کر بیٹھنے لگے اور روز بروز ان کی عادتیں بگڑنے لیں۔ ان کے ڈھنگ دیکھ دیکھ کر جلتی۔ ادھر والدہ صاحبہ کو جو دیکھتی ہوں تو وہ بھی کچھ ہے رخ نظر آتی ہیں۔ نہ وہ اگلی سی محبت نہ وہ دل جوئی۔ چوں کہ مجھے بھی والدہ صاحبہ کے ساتھ کمال درجے کا انس تھا، اس لیے میں نے کچھ زیادہ خیال نہ کیا۔ بلکہ یہ جانا کہ میرے شوہر نے میرے ساتھ جو بے اعتنائی شروع کی ہے تو شاید اس وجہ سے یہ دل برداشتہ ہیں۔ کوئی بیس (20) روز میرے ہاں رہی ہوں گی، پھر وہ تو لاہور چلی گئیں۔ کوئی دو تین مہینے کے بعد میرے ہاں بال بچے پیدا ہونے کا وقت آیا۔

خوش دامن کا مجھے اپنے گھر لے جانا اور دختر اول کا میرے ہاں پیدا ہونا:

تو میری ساس کو بھی خبر ہوئی۔ وہ جھٹ ڈولی منگا، میرے مکان پر آئیں اور بہت منت سماجت کر کے مجھے شوہر سمیت اپنے مکان پر لے گئیں۔ میں تو ان سے کچھ روٹھی ہی نہیں تھی، البتہ ان کے بیٹے ان سے خفا تھے۔ خیر وہاں جا کر اسی روز

صفحہ 90
جمادی الاول کی پانچویں تاریخ 1281ء کو میرے ہاں لڑکی پیدا ہوئی۔ اسی وقت والدہ کو تار دیا گیا۔ کیوں کہ وہ لاہور میں تھیں۔ تیسرے روز وہ لاہور سے تشریف لائیں۔ ساتویں روز عقیقہ ہوا۔ اور صدیقہ بیگم نام رکھا۔ چھٹی کی رسم بھی اچھی طرح ادا ہوئی۔ میری ساس کا تو اس روز یہ حال تھا کہ مارے خوشی کے زہرہ پھٹا جاتا تھا۔

والدہ کا چھٹی نہ دینا اور میرا رنجیدہ ہونا:

مگر مجھ کو اس روز بڑا رنج تھا۔ اس لیے کہ میں اس گمان میں تھی کہ اماں جان ضرور چھٹی دیں گی۔ کیونکہ دستور کی بات ہے۔ نواسا نواسی پیدا ہونے کے چھٹے روز ننھیال سے بھاری مصالہ کے کرتے، ٹوپیاں، بھنسلی، کڑے، پنگوڑا، پلنگڑی، برتن، بچی کی نہالچی، پوتڑی، تمام کنبے کے جوڑے، کچھڑی، مسکینوں کے لیے نقد روپیہ یہ سب سامان کر کے لاہور سے لائی ہوں گی۔ یا ہزار بارہ سو روپیہ نقد چھٹی کے نام سے دے دیں گی۔ پر انہوں نے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ دی۔ اگرچہ ان دنوں میں پانچ چھ ہزار کا اثاثہ ان کے پاس تھا اور کچھ تنگ دست نہ تھیں۔ اس کے علاوہ ان کے روز مرہ کا خرچ میرے وثیقے میں سے ہوتا تھا۔ کیوں کہ جب تک وہ پاٹودی نہیں گئیں، میں اپنا زر وثیقہ ساٹھ روپے ماہوار برابر ان کو دیتی رہی۔ لیکن انہوں نے ایسے وقت میں اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی۔ اور سر سمدھانے کا کچھ خیال نہ کیا۔ پس مجھ کو ساس اور خاوند سے بڑی شرمندگی ہوئی۔ کیوں کہ تمام عمر کا یہ طعنہ ان کا مجھ پر رہا۔ اس پر بھی میں نے والدہ صاحبہ سے کسی طرح کی شکایت نہیں کی۔ خاموش ہو رہی۔ کوئی پندرہ روز کے بعد وہ لاہور چلی گئیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد میری خوش دامن صاحبہ بیمار پڑیں۔ کھانسی بخار شروع ہوا۔ طبیب نے مسہل دی، کچھ فائدہ نہ ہوا۔ روز بروز طبیعت بگڑتی ہی چلی گئی۔ عید کے چاند تو ان کا بہت ہی برا حال ہوا۔ میں نے گھبرا کر والدہ کو خط لکھا، وہ پانچویں روز لاہور سے لودهیانہ آئیں۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 91

خوش دامن صاحبہ کا انتقال کرنا:

جب ان کی حالت بہت ردئی ہوئی تو دم واپسیں سے دو گھنٹے پہلے میری ساس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور سامنے بٹھا کر مجھ سے کہا کہ میں نے تیرے ساتھ بہت سختیاں کی ہیں۔ اب للہ میرا قصور معاف کر دے۔ یہ کہہ کر لگیں ہاتھ جوڑنے اور منت کرنے۔ اس وقت تو میرا بھی دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ کیوں کہ مجھے خدا کا خوف آ گیا۔ اس وقت میں نے ان سے کہا کہ حضرت میں نے معاف کیا۔ 13 شوال 1281ھ تھی کہ شب کو اس جہاں سے انہوں نے رحلت کی۔
اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ وہ بہت اچھی آدمی تھیں اور جو کچھ سختیاں انہوں نے میرے ساتھ کیں، یہ میری قسمت کی خوبی تھی۔

بیت
برا ہے یا بھلا ہے جو ہے دنیا میں غنیمت ہے
کہ پیدا ہائے پھر انسان مر کر ہو نہیں سکتا

اب تقدیر کی اور خوبی سنو کہ جب میری ساس کا انتقال ہوا تو انور محل صاحبہ یعنی میری سوتیلی ساس نے صندوقوں اور کوٹھریوں کی کنجیاں میرے خاوند کے حوالے کر دیں۔

خاوند کی آوارگی اور مال کا لٹانا:

اب میاں کا حال سنو کہ وہ صحبت بد میں مبتلا ہو کر عجیب ہواؤں میں بھرے ہوئے تو تھے ہی، ماں کی مال و متاع پر جو دست رس ہوا تو پھر کیا ٹھکانہ تھا۔ گھر میں آتے ہیں تو چتون بی بدلی ہوئی ہے۔ تور ہی کچھ اور ہیں۔ یہ کوٹھری کھولی، جو بھی چاہا، نکال لے گئے۔ نہ کسی سے صلاح نہ مشورہ۔ نہ پوچھنا نہ گچھنا۔ چار پانچ مکینوں، گھر کے نمک حرام چیلوں اور باہر کے بدمعاشوں نے ایک سنگت بنا ان کو ورغلا لیا اور خوشامد کی باتیں بنا کر دمازیوں پر چڑھا لیا۔ اب یہ صورت ہو گئی کہ آج پانسو

صفحہ 92
روپیہ کی مرغی خرید لی اور کل دو سو روپیہ کا تیتر لے لیا۔ اسی طرح مرغ بازی اور تیتر بازی کے نقشے جم گئے اور لگی دولت اڑنے۔ گویا مال مفت دل بے رحم تھا۔ روپیہ زیور کنکر پتھر کر دیا۔ تیس بتیس ہزار روپیہ کا تو زیور میری ہی ذات کا تھا اور چالیس پچاس ہزار روپے کا اثاثہ اپنی ذات کا میری ساس چھوڑ کر مری تھیں۔ قریب اسی نوے ہزار روپیہ کے سب زیور سامان وغیرہ ہو گا۔ وہ یوں خاک میں ملنے لگا۔ بہتیرا خود سمجھایا، اوروں سے کہلوایا، مگر وہ کب سنتے تھے۔ آخر سب نے مل کر صلاح ٹھہرائی کہ نرمی سے کام نہیں چلتا، اب زبردستی ان سے یہ مال و اسباب اپنے حق میں لینا چاہیے۔ جب یہ صلاح ٹھہر گئی۔

مرزا ایوب بیگ سے صلاح لینا:

تو اس وقت مرزا ایوب بیگ کو بلا کر ان سے بھی اس امر میں مشورہ لیا گیا، انہوں نے ساری حقیقت سن کر یہ جواب دیا کہ ایسے نازک وقت میں تمہیں دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنی چاہیے۔ ایک تو یہ کہ اگر تم کو مال و زر زیادہ عزیز ہے اور خاوند سے ان بن ہونے کی کچھ پروا نہیں ہے تو بے شک نالش کر دو، البتہ مقدمے کی پیروی میں روپیہ بہت خرچ ہو گا۔ اس کا بندوبست کر لو۔ سرکار کی فیس، وکیل کا دینا، اہلکاروں کی منہ بھرائی۔ علاوہ اس کے تدبیر کرنی چاہیے کہ وہ مال جس کا تم دعوی کرو گی، ڈگری ہونے تک تلف یا پوشیدہ نہ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اگر ڈگری ہوئی تو اس کی نشان دہی تمہیں کرنی ہو گی۔ پس اس میں سے جتنے مال کی تم نشان دہی کرو گی وہ تمہیں مل جائے گا۔ مگر اس صورت میں خاوند سے تمہارا قطعی بگاڑ ہو جائے گا۔ اس بات پر بخوبی غور کر لو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ابھی تم دونوں کا لڑک پن ہی ہے۔ اور رشتہ اس قسم کا ہے کہ اسی رڈی سے گردن گھسنی ہے۔ بس جو تمہیں خاوند سے نباہنی ہے اور بنی رکھنی منظور ہے تو زر و زیور سے ہاتھ اٹھاؤ۔ اسے اٹھنے اور لٹنے دو۔ صبر کرو۔ مال و متاع جو ہے، یہ چند روزہ ہے۔ جس دن یہ اٹھ گیا، میاں کے سارے نشے ہرن ہو جاویں گے اور قلعی کی طرح اڑ جائیں گے۔ اس

صفحہ 93
وقت کوئی مونس و ہمدم نہ سوجھے گا۔ بس پھر یہی میاں بیوی ہوں گے اور یہی بیوی اور یہی گھر۔ ان دونوں صورتوں میں سے جونسے پر تمہارا دل تھکے، وہ اختیار کر لو۔
بس بوا، جب میں نے مرزا ایوب بیگ کی اس تقریر پر بخوبی غور کیا تو میرے خیال میں یہی آیا کہ روپیہ پیسہ آنی جانی چیز ہے۔ اگر میری تقدیر سیدھی ہوتی تو جھجر کی ریاست کیوں بگڑتی۔ زر و زیور کے واسطے خاوند کو چھوڑنا عین حماقت اور نادانی ہے۔ اگرچہ کسی نے میرے اس خیال کو پسند کیا اور کسی نے ناپسند۔ اول اول تو والدہ صاحب بھی کچھ ہیچر مچر کرتی رہیں، پر میں تو اس رائے پر ایسی جمی کہ بہتیرا لوگوں نے ورغلایا، میں نے کسی کی نہ سنی۔ آخر اماں جان نے جب مجھے خوب مستحکم پایا تو وہ بھی میری ہی طرف ہو گئیں۔ جب میری ساس کا چالیسواں ہو چکا تو بندی اپنی لڑکی کو لے کر والدہ صاحبہ کے ہمراہ دہلی چلی آئی۔ آخرکار وہی ہوا جو مرزا ایوب بیگ نے کہا تھا۔ کوئی پانچ مہینے گزرے ہوں گے جو سنا کہ جتنا زیور کپڑا مال و متاع تھا وہ سب میاں اڑا بیٹھے اور الف کر دیا۔ بلکہ اس پر طرہ یہ ہوا کہ بہت سا قرضہ بھی کر لیا اور نوبت فاقہ کشی کی آن پہنچی۔ اور جتنے جوان مرگ ان کو گھیرے ہوئے تھے وہ سب ففرو ہو گئے۔ اب میاں اپنا سا منہ لے کر اکیلے رہ گئے۔ یہ سن کر بھی تو بہت جلا، گو پہلے یقین نہ آیا کہ اتنی دولت ایسے تھوڑے دنوں میں کیوں کر اٹھا دی ہو گی۔ مگر جب ان کے اصراف پر خیال کیا تو جانا کہ ان کی فضول خرچی کے آئے تو اگر قارون کا خزانہ بھی ہوتا تو کیا مال تھا۔ یقین ہوا کہ بے شک وہ سب کچھ تباہ کر کے فارغ ہو بیٹھے ہوں گے۔ بس یہ سنتے ہی چند ہی روز گزرے ہوں گے۔

میرے شوہر کا خط والدہ کے نام آنا:

کہ کئی مہینوں کے بعد ایک دن شوہر کا ایک خط میری والدہ کے نام آیا۔ اس میں لکھا تھا کہ "جناب میری اہلیہ کو جو آپ اپنے ہم راہ دہلی لے گئی تھیں، اب عرصہ پانچ مہینے کا گزر گیا اور نور چشمی صدیقہ بیگم کو دیکھنے کو بہت جی چاہتا ہے، اس واسے ملتمس ہوں کہ اگر آپ مہربانی فرما کر میری اہل خانہ کو مع نور چشمی صدیقہ بیگم کے

صفحہ 94
اس طرف کو روانہ فرما دیں۔" بس جب یہ خط آیا تو اب کامل یقین ہو گیا کہ جو کچھ لوگوں سے سنا تھا وہ صحیح ہے۔

والدہ صاحبہ کا جواب لکھنا:

اس کا جواب والدہ صاحبہ نے انہیں یہ لکھا کہ "برخوردار من، خط تمہارا اپنی اہل خانہ و دختر کی طلب میں پہنچا۔ میں تم سے یہ دریافت کرتی ہوں کہ تمہارے پاس تو اتنا کچھ مال و متاع تھا کہ ایک بیوی کیا، چار نکاح کر سکتے تھے اور جب اتنے نکاح کر لیتے تو ایک دختر کیا، بہتیری اولاد پیدا ہو جاتی۔ مگر افسوس ہے کہ جب تمہارے
پاس روپیہ تھا تو اس وقت جورو بچوں کے گھر سے نکل جانے کا خیال بھی نہ کیا اور مہینوں بے فکر اور بے خبر بیٹھے رہے۔ اب جو لاکھ کا گھر خاک کر چکے اور مفلس قلانچ ہو کر بیٹھے تو جورو بچے یاد آئے۔ کس منہ سے بلاتے ہو۔ وہ وقت یاد کرو کہ بات بھی نہ پوچھتے تھے اور اتنی مدت یہ بھی نہ جانا کہ جورو بچے کہاں پڑے سڑتے ہیں۔ بارے اب تم کو ہوش آیا تو بڑی جلدی آیا۔"
بس ہوا، جس وقت یہ پھر سے بھی سخت جواب ان کو پہنچا تو میاں کی سٹی بھولی۔ لگے تیری میری خوشامد کرنے۔ آخر حکیم آغا علی خاں کے سامنے ہاتھ جوڑے اور انہیں منتیں کر کے میرے لینے کے واسے دہلی بھیجا۔

حکیم آغا علی خاں کا میرے لینے کو دہلی آنا اور میرا لودھیانہ جاتا اور گھر کی تباہی دیکھنا:

حکیم آغا علی خاں دہلی آئے اور میاں کی طرف سے میرے لے جانے کا پیام لائے۔ اماں جان کے روبرو بہت ہاتھ جوڑے اور پاؤں پڑے۔ نہایت اصرار و تکرار کے بعد اماں جان نے میرا بھیجنا منظور کیا۔ آٹھ دس روز سامان سفر میں گزرے۔

صفحہ 95

میرا لودھیانہ جانا اور گھر کو دیکھ کر پچھتانا:

جب تیاری ہوگئی تو 24 نومبر 1865ء کو میں سواری شکرم میں معہ اپنی دختر کے لودھیانہ کو روانہ ہوئی۔ حکیم صاحب بھی میرے ساتھ گئے۔ تیسرے روز قریب نو بجے شب کو لودھیانہ پہنچے۔ گھر میں جا کر اترے۔ گھر کو جو دیکھتی ہوں تو عجب حال ہے، جیسے کوئی لوٹ کر لے گیا۔ مکان کے صحن میں کیا دیکھتی ہوں کہ گھوڑے گھوڑے بندھے ہوئے ہیں۔ ہر طرف کوڑے کرکٹ کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ لڑکی دیکھ کر ہکا بکا ہوگئی۔ کیوں کہ وہ دہلی کے عمدہ مکان میں رہ کر گئی تھی۔ وہاں دیکھا تو ایک ڈھنڈار مکان دیکھا۔ خیر گھوڑے تو اس وقت کھلوا کر باہر اصطبل میں بیجھے۔ دالان میں جو گھسی تو دیکھتی کیا ہوں، کوٹھری کے آگے ایک پلنگ بچھا ہے اور اس پر ایک میلی کچیلی مٹی کے رنگ کی چادر کسی ہوئی ہے۔ جس کے دیکھنے سے گھن آتی تھی۔ اس کے آگے ایک تخت بچھا ہے۔ اس پر ایک میلا چیکر جوان کا چیتھڑا پڑا ہے۔ اس میں دو تین روٹیاں بیسنی خشک لپٹی دھری ہیں۔ میں نے جانا کسی ماما اصیل کی روٹی رکھی ہے اور ایک کونے میں فتیل سوز رکھا ہے۔ اس پر ریوڑی والے کی دکان کا سا چراغ دھرا ٹمر ٹمر جل رہا ہے۔ اب ادھر دیکھتی ہوں ادھر دیکھتی ہوں، فرش کا کہیں پتہ نہیں۔ الہیٰ بیٹھوں تو کہاں بیٹھوں۔ آخر جل کر میں نے کہا یہ تخت پر کس کا چیتھرا پڑا ہے، اسے تو اٹھاؤ۔ ماما نے جواب دیا کہ "بیوی یہ تو سلامتی سے میاں کا کھانا دھرا ہے۔ خدا رکھے ابھی کھانا کھانے بیٹھے تھے کہ اتنے میں آپ کی سواری آ گی۔" یہ سن کر تو اور بھی کلیجہ بھلسا۔ میاں کی طرف جو دیکھا تو وہ مارے ندامت کے عرق عرق ہو گئے۔ شرمندگی سے آنکھیں نیچی کر لیں۔ میں نے ماما سے کہا کہ "کچھ آٹا گھی نکال کر روٹی ووٹی پکاؤ، جو ساتھ کے آدمیوں کو دی جائے۔" ماما بولیں۔ "بیوی آٹا، گھی، اناج، پات تو گھر میں جمی جم ہے۔" خیر ناشتا جو اماں نے ساتھ کر دیا تھا وہ منگایا۔ دیکھا تو بچے ہوئے صرف دو پراٹھے اور پانچ چھ پوریاں اور کچھ کباب نکلے۔ اس میں کیا کسی کو دیتی، میں نے روپیہ نکال کر کالے خدمت گار کو دیا اور اس سے کہا کہ "بازار سے کچھ کچوریاں، پوریاں اور کچھ مٹھائی لے آ۔" وہ جا کر

صفحہ 96
لے آیا۔ پہلے ساتھ والوں کو دیا، پھر آپ کھایا، میاں کو کھلایا۔ کھانے پینے سے فارغ ہو کر سر منہ لپیٹ کر پڑ رہی۔
صبح کو اٹھ کر کوٹھری کھولی۔ دیکھا جن صندوقوں میں دو دو قفل لگے رہتے تھے وہ بھاڑ کی طرح کھلے پڑے ہیں۔ کسی میں پھٹے پرانے گدڑے چیتھڑے پڑے ہیں، کسی میں گھوڑے کی جھول دھری ہے۔ باقی جو ہیں ان میں چوہے قلابازیاں کھا رہے ہیں۔ دیکھ کر منہ پیٹ لیا کہ ہے ہے پانچ چھ مہینے میں لاکھ کا گھر خاک کر بیٹھے۔ پھر تو جو کچھ منہ میں آیا، خوب ہی ہکی جھکی۔ لیکن اللہ تعالی غریق رحمت کرے، ان کے منہ میں زبان کہاں تھی کہ جو جواب دیتے۔ آخر صبر کر کے چپ ہو رہی۔ اتنے میں ماما نے آن کر پوچھا کہ "بیوی کھانے پکانے کے واسطے کیا حکم ہے، کیا بندوبست ہو گا؟" میں نے اس سے کہا کہ "گھر والے سامنے بیٹھے ہیں، ان سے پوچھو۔" انہوں نے سن کر کیا کیا کہ اٹھ کر جا اپنا صندوقچہ لا میرے آگے رکھ دیا۔صندوقچی میں جو دیکھتی ہوں کہ ایک انگوٹھی اور دو چھلے طلائی اور دو روپیہ نقد پڑے ہیں۔ دیکھ کر آگ ہی تو لگ گئی۔ جی تو چاہا کہ منہ نوچ لوں۔ مگر کیا کرتی، غصہ پی لیا اور صبر کیا۔ یہ تو میاں کی پونجی رہ گئی اور خرچ پر نظر کرو تو دو تین روپیہ روز کا تو گھوڑوں کا خرچ تھا۔ گھر کا علیحدہ رہا۔ آخر جل بھن کر میں نے کالے خدمت گار کو بلوایا اور تیس روپیہ اپنی صندوقچی میں سے نکال کر اس کو دیے جو تمام سودا سلف، اناج، پات منگایا۔ خیر رہنے سہنے گی۔

قرضے کا زیادہ ہونا:

مگر حال یہ ہوا کہ قرض دوام پر خرچ روزمرہ کا مدار آن ٹھہرا۔ اس لیے کہ پہلے تو یہ تھا کہ پچھتر روپے ماہوار تو میری ساس کا وثیقہ تھا اور سو روپیہ میاں کے۔ ایک سو پچھتر روپے ماہوار کی آمدنی تھی اور پچاس ساٹھ روپے ماہوار کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔ تو وہ کچھ پرانا دھرانہ گوٹہ کناری یا کوئی ٹوٹی پھوٹی زائد رقم بیچ ڈالی۔ چار سو پانسو کا بندوبست کر لیا، سال بھر گزر گیا۔ اب نہ خوش دامن رہیں نہ ان کا وثیقہ رہا۔ اور نہ

صفحہ 97
میں نے گھر میں کچھ اثاثہ چھوڑا۔ خرچ جو کچھ پہلے تھا وہ وہیں کا وہی موجود رہا۔ آمدنی کم یعنی صرف سو روپیہ میاں کی رہ گئی۔ ہر مہینہ میں چالیس روپے کی رقم قرض کی بڑھنے لگی۔ حیران پریشان تھی کہ الہیٰ کیا کروں۔ اس گھر کا کیوں کر ٹھکانہ آئے گا۔ نہ تو آمدنی بڑھنے کی کوئی شکل ہوتی ہے اور نہ میاں خرچ کم کرنے دیتے ہیں۔

دوسری لڑکی کا پیدا ہونا اور اس کا فوت ہونا:

انہی دنوں میں میرے ہاں دوسری لڑکی پیدا ہوئی اور چالیس دن کے بعد چلا نہا کر میں تو والدہ کے ہاں دہلی چلی آئی اور میاں وہیں رہے۔ اور بھی قرضہ کر لیا۔ میں کوئی دو تین مہینے رہ کر پھر لودھیانہ کو واپس آ گئی۔ یہاں آئے کوئی دو تین مہینے گزرے ہوں گے کہ گود کی لڑکی کو ایسا جان ہار بخار چڑھا کہ جان ہی لے کر ٹلا۔ پلی پلائی پڑا سی لڑکی چار دن کے بخار میں چٹ پٹ ہو گئی۔ میں کلیجہ تھام رہ گئی۔ میرے کلیجہ پر اولاد کا یہ پہلا داغ تھا۔ لیکن خدا کی مرضی میں کیا چارہ تھا۔ صبر کیا، پر طبیعت کا یہ حال کہ دم بدم بگڑی جائے۔ اور کلیجہ منہ کو آئے۔ کسی سے بولنے بات کرنے کو بھی نہ چاہے۔ آخر بڑی لڑکی کو ساتھ لیے پھر دہلی چلی آئی۔ کوئی تین چار مہینے والدہ صاحبہ کے ہاں رہی اور پھر لودھیانہ کو واپس چلی گئی۔ رہی سہی کچھ مدت کے بعد پھر بال بچے کی مجھے امید ہوئی۔ میں نے والدہ صاحبہ کو اطلاع دی۔ اب کے انہوں نے کسی دہلی کے پیرزادے سے ایک گنڈا بنوا کر مجھے بھیجا اور ساتھ ہی یہ بھی کہلا بھیجا کہ نواں مہینہ شروع ہوتو دہلی چلی آ نا۔

میرا دہلی آنا اور لڑکی کا پیدا ہو کر دونوں کا فوت ہو جانا:

جب مجھے پورے دن شروع ہوئے تو میں دہلی چلی آئی۔ کوئی دس روز کے بعد بڑی لڑکی کے گلے پر ایک دانے نمودار ہوا۔ وہ دانہ کیا تھا گویا اجل کا پیغام تھا۔ کیا کہوں اس دانہ کی سوزش سے لڑکی ایسی تڑپتی تھی جیسے بن پانی کی مچھلی۔ بہتیرا علاج

صفحہ 98
کیا پر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آٹھویں روز دنیا سے کوچ کر گئی۔ ہنوز وہ غم نہ مٹا تھا کہ پانچویں روز ایک اور لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی پانچ ہی روز دنیا کی ہوا کھا کر عقبی کو سدھاری۔ اب تو غم کا پتلا بن گئی۔ اکیلی تنہا رہ گئی۔ عجب طرح کا حال ہوا، جینا وبال ہوا۔ دہلی سے بھی جی گھبرایا پھر لودھیانہ کا رستہ لیا۔

والدہ کا میرے ہمراہ لودھیانہ جانا اور بد مزاجی کر کے دہلی آنا:

اب کے والدہ صاحبہ بھی میرے ساتھ لودھیانہ تشریف لے گئیں۔ پانچ چھ مہینے رہیں مگر ایسی بدمزاجیاں کیں کہ نفس تنگ کر دیا۔ اور ایک روز تو ایسی بگڑیں کہ کہنے لگیں میں تو ابھی دہلی جاؤں گی۔ مجھے اس وقت سوار کرا دو میں دم بھر نہیں ٹھہرتی۔ خیر قہر درویش بر جان درویش۔ میں نگوڑی بذات خود ان کو پہنچانے دہلی آئی۔ یہاں آن کر تو انھوں نے میرا ایسا پیچھا لیا کہ دم ضیق میں کر دیا۔

میرا لودهیانہ واپس جانا اور والدہ کا پاٹو دی جانا:

آخر تنگ ہو کر میں میں بیس ہچیس ہی روز میں لودھیانہ کر چلی گئی۔ اب تو یہ ایسی بگڑیں کہ خط کتابت تک بھی موقوف کر دی۔ لیکن میں ان کی خدمت گزاری برابر اسی طرح کرتی رہی۔ یعنی ساٹھ روپے ماہوار جو میرا زر وثیقہ تھا، وہ ان کو دیتی رہی۔ پھر انھوں نے اپنے پاٹودی جانے کی تدبیر کر لی۔ شاید کوئی پانچ مہینے کے بعد وہ
پاٹودی تشریف لے گئیں۔ کیوں کہ میں دہلی سے آخر فروری 1869ء کو لودھیانہ چلی گئی تھی۔ اور والدہ صاحبہ نے 14 اگست 1869ء کو محکمہ (كذا) کمشنری دہلی میں اپنے زر وثیقہ کی درخواست کی تھی۔ تو وہ شاید اسی مہینے میں یا ستمبر میں پاٹودی تشریف لے گئیں۔ جب وہ وہاں پہنچ کر خاطر جمع سے بیٹھیں

صفحہ 99

والدہ صاحبہ کا مجھ سے روپیہ طلب کرنا:

تو چند روز کے بعد انہوں نے ایک ماما کو لودھیانہ میرے پاس بھیجا۔ اور وہ یہ پیام دلائی کہ تمہاری والدہ نے کہا ہے "میرے ذمے تین سو روپے کا قرضہ دہلی کا رہ گیا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کی ادا کا تم بندوبست کر دو۔" میں نے ماما کو جواب دیا کہ "بوا، اس وقت تو مجھ سے روپیہ کا کچھ بندوبست نہیں ہوسکتا، کیوں کہ میرے گھر میں آپ بے بند و بستی ہو رہی ہے۔ اور میرا اپنا بال بال قرضے میں گھٹا ہوا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ 'پیر آپ ہی درماندہ ہے شفاعت کس کی کرائے'۔ فی الحال تو قرض خواہوں کو دلاسا دے کر وعدہ وعید سے روکیں، تھامیں۔ انشاء اللہ تعالی آئنده کچھ تدبیر ہو جائے گی۔" ماما یہ جواب لے کر واپس گئی۔ والدہ صاحبہ نے اس کے بعد بھی خط کتابت بند ہی رکھی۔ خیر میں بھی خاموش ہو رہی۔ کیوں کہ میں اپنی مصیبت میں مبتلا تھی۔ قرض خواہوں کا ہجوم تھا اور خرچ کی تنگی۔ اس لیے کہ گھر لٹا لٹو کر جو میاں نے دھڑیوں قرضہ اپنے اوپر تھوپ لیا تھا، ساری آمدنی اس کی قسطوں میں لگی ہوئی تھی۔ اور پھر جو نیا قرضہ ہوا اس کی ادائیگی کی کوئی سبیل نہ تھی۔ اس واسطے نہایت درجے کی ابتری پڑی ہوئی تھی۔ جب میری اپنی یہ صورت تھی، تو اس حال میں ان کو میں اتنا روپیہ نقد بھیج کر کس طرح مناتی اور ایک مشت تین سو روپیہ کی رقم کہاں سے لاتی۔ خیر اب میری یہ صورت ہوئی کہ سوچتی ہوں الہیٰ کیا کروں۔ ان قرض خواہوں کے تقاضوں کا کیا تدارک ہو۔

مرزا ایوب بیگ سے مشورہ کرنا اور ان کا گھوڑے خرید کر لانا:

آخر میں نے مرزا ایوب بیگ کو بلا کر ان سے کہا کہ مرزا جی کوئی صلاح بتاؤ یا کچھ تدبیر کرو۔ میاں کو تو کچھ پروا نہیں اور میں قرض خواہوں کے بلوے سے سخت حیران ہوں، زیست سے تنگ ہوں۔ مرزا جی نے میری تشفی کی اور کہا کہ خاطر جمع رکھو اللہ تعالی مددگار ہے۔ ایک تدبیر کرتا ہوں۔ مرزا جی مجھ سے یہ کہہ کر چلے گئے

صفحہ 100
اور بطور خود کہیں سے چار سو روپیہ قرض لے آئے۔ دوسرے ہی دن وہ روپیہ لے امرتسر کو روانہ ہوئے۔ وہاں سال کے سال گھوڑوں کا میلہ ہوا کرتا ہے۔ ان دنوں میں بھی وہاں میلہ تھا۔ پانچ چھ روز کے بعد امرتسر سے دو گھوڑے بہت عمده خرید کر لائے۔ ادھر تو گھوڑوں کو پالنا شروع کیا، انہیں خوب کھلایا پلایا موٹا تازہ کیا، ادھر ادھر قرض خواہوں کو بھی دل دہی کرتے رہے۔ کہ دیکھو اب خدا چاہے تو ہمارے گھوڑے تیار ہو جاتے ہیں تو کیسی قیمت پاتے ہیں۔ یہ سمجھ لو کہ تم ہی لوگوں کے لیے یہ کھڑاگ کیا ہے۔ اب کچھ دیر نہیں، خاطر جمع رکھو۔ تم دیکھو گے کہ کتنی جلدی تمہارے روپوں کی سبیل ہو جاتی ہے۔ اور ذرا میاں صاحب کو بھی کچھ نشیب و فراز سمجھاتے رہے۔ دو تین مہینے میں ان گھوڑوں کو تیار کر مرزا جی پٹیالہ لے گئے۔

مرزا ایوب بیگ کا گھوڑے بیچ کر روپیہ لانا اور قرض خواہوں کو دینا:

اور چند ہی روز میں وہاں ان گھوڑوں کو دو ہزار روپیہ کو فروخت کر واپس آ گئے۔ یہاں آن کر انہوں نے وہ دو ہزار روپیہ میرے آگے رکھ دیے۔ کہ لو بیگم اب یہ تم قرض خواہوں کو دے کر کچھ سبک دوش ہو جاؤ۔ میں نے اس وقت وہ دو ہزار روپیہ لیے ریوڑیوں کی طرح سے قرض خواہوں کو بانٹ دیے۔ جب انہوں نے چین لیا اور مجھے بھی دم لینے دیا، اور قرضہ بھی کچھ ہلکا ہوا۔ خدا مرزا جی کا بھلا کرے۔ انہی دنوں میں مجھے بال بچے کی امید ہوئی۔ اس وقت یہ صلاح ٹھہری کہ اب کے پاٹودی میں جا کر بھائی محمد صادق علی خاں صاحب کے مکان پر یہ چلہ تمام کروں۔

میرا پاٹودی جانا اور لڑکا پیدا ہو کر اس کا فوت ہونا:

یہ سوچ کر لودھیانہ سے پاٹودی کی طرف روانہ ہوئی اور میں وہاں سے دہلی تک ریل میں آئی کیوں کہ لودھیانہ سے دہلی تک ریل جاری ہو گئی تھی۔ پھر دہلی سے ایک رتھ اور ایک ڈولی کرایہ کر کے پاٹودی پہنچی۔ وہاں بھائی محمد صادق علی خاں
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 101
کے مکان پر اتری۔ والدہ صاحبہ کو بھی خبر پہنچی، وہ بھی شب کو بھائی صاحب کے مکان پر آئیں اور بہت سی منتیں کر کے مجھے اپنے گھر لے گئیں۔ کوئی آٹھ روز کے بعد میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ سب کو خوشی ہوئی۔ والدہ صاحبہ نے سارے کنبے کو جمع کیا اور سب کی دعوت کی۔ سوا مہینے کا چلہ نہا کر وہاں سے رخصت ہو لودھیانہ کو آئی۔ ایک مہینہ وہ لڑکا زندہ رہا۔ بعد ایک مہینہ کے وہ بھی اتر گیا۔ میں کلیجہ پکڑ کر رہ گئی۔ اور اب بالکل مایوس ہو گئی کہ میری کوئی اولاد زندہ نہیں بچے گی۔ اسی طرح پیدا ہوتی جائے گی اور مرتی جائے گی۔ کیوں کہ یہ چوتھا داغ تھا، جو میرے کلیجے پر لگا:

احمد علی خاں کا پیدا ہونا:

چند روز کے بعد پھر مجھے امید ہوئی۔ اگرچہ اب کی دفعہ والدہ صاحبہ سے خط کتابت جاری تھی، پر وہ بال بچہ ہونے تک میرے پاس نہیں آئیں۔ یہاں تک کہ 18 رجب 1688ھ کو میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ اس کا نام احمد علی خاں رکھا۔ اس کے پیدا ہونے کی خوشی ہوئی۔ پر ساتھ ہی یہ رنج بھی تھا کہ یہ کاہے کو جیے گا۔ غرض کچھ خوشی کچھ رنج اسی شش و پنج میں تھی کہ بیمار پڑی۔ ایک مہینہ بعد کچھ صحت ہوئی تھی کہ رمضان شریف آ گئے۔

خاوند کا بیمار ہونا اور خانہ ویرانی کا ہونا:

رمضان شریف کی 13 تاریخ تھی کہ میاں شکار کو گئے۔ اچھی طرح تندرست، دوسرے روز دن پندرہ کو نہائے۔ روزہ کھول رات کو برف کھائے۔ برف کا کھانا تھا کہ درد سر شروع ہوا۔ وہ درد کیا تھا کہ قضا کا پیغام تھا۔ شدت کا بخار چڑھا۔ بس دوسرے ہی روز سرسام ہو گیا۔ حکیم طبیب جمع ہوئے۔ سینکڑوں علاج کیے۔ تدبیروں پر تدبیریں پلٹیں، دواؤں پر دوائیں بدلیں، مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ جو جو دوا کی مرض کی بگرتی ہی چلی گئی۔ 21 تاریخ رمضان کی تھی کہ میں بیوہ ہو گئی۔ میرا گھر برباد ہو گیا۔

صفحہ 102
میری خانما کی تباہی ہو گئی۔ میرے گھر کا مالک، میرے سر کا تاج، میرا افسر، میرا شوہر، اپنی بستی، اپنی نگری، کو چھوڑ کر یکا یک دنیا سے کوچ کر گیا۔ ہائے ہائے وہ دن میرے واسطے قیامت کا دن تھا۔ وہ گھڑی میری زندگی کی تباہی کی گھڑی تھی۔ کیا کہوں کیا گزری۔ سارے صدموں کو بھول گئی۔ سب داغ ہرے ہو گئے۔ آنکھوں میں دنیا اندھیر تھی اور دل پرغم کا پہاڑ ٹوٹا ہوا تھا۔ دیوانہ وار ایک ایک منہ تکتی تھی اور جی میں کہتی تھی کہ الہیٰ کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ دو گھڑی کے بعد ایک آہ کا نعرہ دل سے اٹھا اور غش کھا کر زمین پر گری۔ کچھ دیر کے بعد ہوش آیا تو کہتی تھی کہ کیا کروں، کدھر نکل جاؤں۔ کس سے فریاد کروں۔ ہے ہے جوانی کی موت اور جوان بھی شیر کا شیر۔ جس کی چوبیس برس کی عمر۔ دنیا میں کیا رہا، کیا جیا۔ اور کیا دیکھا۔ ایک تو یہ غم و الم تھا، دوسرے ناداری، تیسرے قرض خواہوں کا خوف، کیوں کہ ان کے دم سے قرض خواہوں کو اطمینان کی صورت تھی۔ غرض میں عجب طرح کے جنجال میں تھی اور جان وبال میں تھی۔ اسی ضرورت کا وقت اور گھر میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ حیران سرگردان۔ آخر میں نے مرزا ایوب کو بلا کر کہا کہ کچھ تدبیر کرو کہ میاں کا آخری سامان کیا جائے۔ جب مرزا جی کہیں سے سو روپیہ لائے تو ان کے تجہیز و تکفین میں اٹھائے۔ تیسرے روز پھول وغیرہ کیے۔ پھول ہو چکے تھے

قرض خواہوں کی چڑھائی اور سسرال والوں کی برائی:

کہ قرض خواہوں نے آن کر ہجوم کیا، آخر نالشیں کر دیں۔ گھر کی یہ صورت ہوئی کہ جس گھر میں ایک سو ساٹھ روپیہ کی آمدنی تھی اس میں ساٹھ روپیہ میرے زر وثیقہ کے رہ گئے۔ کیوں کہ ان کے سو روپیہ تو ضبط ہو گئے۔ اب کیا کروں۔ چار ہزار روپیہ کا میاں قرضہ چھوڑ گئے۔ مال و اسباب جو تھا وہ پہلے ہی سب خاک میں ملا چکے تھے۔ علاوہ اس کے دسویں بیسویں چالیسویں کا خرچ۔ یہ نہ ہو تو تمام خاندان میں ناک کٹے، کالا منہ ہو۔ آگے امیر کا بیٹا، گو گھر میں خاک نہ ہو۔ نام تو بڑا تھا۔ ادھر امیر محل صاحبہ، جو میری سوتیلی ساس تھیں، انہوں نے ساٹھ روپے کی ضمانت میاں

صفحہ 103
کی دی تھی۔ اس کا تقاضا شروع کیا۔ ہر چند میں نے منت کی اور ہاتھ تک جوڑے کہ میرے اوپر یہ وقت پڑا ہے۔ خدا کے لیے تھوڑے دن خاموش ہو جاؤ مگر وہ سنتی تھیں بھلا.... وہ تو میری ساس کی سوکن تھیں۔ سوسومون کی ایک سوم، ہزار کنٹگوں کی ایک کنٹگ۔ جو جھوٹے ہاتھ سے بھی کتے کو بھی نہ مارے، بھلا وہ میری منت سماجت کوکب خاطر میں لاتی تھیں۔ آخر کو انہوں نے بھی نالش کر دی۔

والدہ صاحبہ کی بے اعتنائی:

اب ایک سہارا مجھے اپنی ماں کا تھا۔ میں یہ جانتی تھی کہ ان کا اکیلا دم ہے پچاس روپے ماہوار کی آمدنی۔ ایک دم کا خرچ ہے۔ یقین ہے کہ سنتے ہی وہ میرے پاس آویں گی اور میرے رنج و راحت کی شریک ہو کر میری مدد کریں گے اور مجھے لے کر بیٹھیں گی۔ میں ان کی تشریف آوری کی منتظر تھی کہ یکا یک ایک خط ان کا ایسے مضمون کا آیا، جیسے کوئی رشتہ دار یا قرایی تعزیت کا لکھتا ہے۔ خط سنتے ہی میں تو سن ہو گئی اور دل میں کہتی تھی کہ اے ہے، ایسی ماں، جس کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ میں نے باقی نہیں رکھا۔ بوا، چھے برس تک والدہ صاحبہ کی پنشن ریاست سے بند رہی اور وہ اپنے مقدمات دہلی اور لاہور لڑاتی پھریں۔ جب تک یہ پاٹودی نہیں گئیں، برابر ساٹھ روپے ماہوار، جو میری پنشن کا تھا! انہیں دیتی رہی اور طرح طرح سے خبر لیتی رہی۔ ساس سے انہی کی بدولت بگاڑی۔ خاوند انہی کے سبب ناراض رہا۔ مگر میں نے کسی کی ناراضی کا کچھ خیال نہ کیا اور برابر ان کی خدمت کرتی رہی۔ اس کے عوض والدہ صاحبہ نے یہ کیا کہ ایسے نازک وقت میں مجھ سے بے مروتی
اختیار کی اور بیگانہ وار ہو گئیں۔ سچ ہے دنیا ہے اور مطلب اپنا ہے۔ بیت:
کیا امتحان میں نے اکثر سرور
ضرورت کی کچھ دوستی ہے ضرور

افسوس دنیا کا لہو سفید ہو گیا۔ اولاد کی محبت بھی نگوڑی جاتی رہیں۔ چار غیروں

صفحہ 104
کی طرح اگر پرسے کو بھی آ جائیں تو خاندان میں میری بات تو رہ جائے۔ سو یہ بھی نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی غرض کا ملنا تھا۔ بیت:
دوست احباب جو ہیں دنیا میں
جس کو دیکھا سو اپنے مطلب کا

میکے والوں کی یہ صورت ہوئی کہ کسی نے ایسے وقت میں اتنا بھی نہ پوچھا کہ تیرے منہ میں کے دانت ہیں۔ سسرال والے خود خرابی کے درپے ہو گئے۔ قرض خواہوں نے نالشیں کر ہی رکھی تھیں۔ بھلا میں عورت، پرده نشین اور ایک بچہ اور وہ بھی تین مہینے کی جان۔ حواس باختہ، عقل حیران۔ آگے عالم تنہائی۔ نہ پاس ماں نہ باپ نہ بھائی۔ عجب بے کسی کا وقت تھا۔ در و دیوار بھی دشمن نظر آتے تھے۔ اس بدحواسی کی حالت میں کچھ بن نہ آیا۔

مرزا ایوب بیگ کو بلانا اور اپنی بے کسی کا اظہار کرنا:

ایک دن مرزا ایوب بیگ کو بلوایا اور بہ منت ان سے کہا کہ "سنو مرزا جی یہ وقت میرے اوپر نہایت بے کسی کا ہے اور وقت نکل جاتا ہے، بات رہ جاتی ہے۔ اور تم ملازم قدیم ہو۔ اب سوائے خدا کے کوئی نظر نہیں آتا اور مجھ کو تمہارے اوپر نہایت بھروسہ ہے۔ اس وقت پہلو تہی نہ کرنا کہ میں تنہا ہوں اور قرض خواہوں کا بلوا ہے۔ یگانے بیگانے ہو کر مدعء بن گئے۔ میرا مونس اور مددگار کوئی نہیں رہا۔ میری حالت اس وقت ڈوبتے ہوئے کی ہے، جو ایک تنکے کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ تم میں اگر کچھ قدامت کی رفاقت اور ہمت ہے تو کچھ مدد کرو۔" یہ کہہ کر میں رونے لگی۔

مرزا ایوب بیگ کا رفاقت کرنا اور پینشن کا مقرر کرانا:

مرزا جی نے آب دیدہ ہو کر جواب دیا کہ "بیگم قسم ہے خدا کی، جب تک دم

صفحہ 105
میں دم ہے، آپ کی رفاقت سے کبھی منہ نہ موڑوں گا۔ آپ خاطر جمع سے اپنے گھر میں بیٹھیں اور کچھ فکر نہ کریں۔ خدا مددگار ہے۔" لو بوا، میں تو اس روز سے اپنے گھر میں آرام سے بیٹھی اللہ اللہ کرتی رہی اور مرزا جی نے کمر ہمت کی باندھ، اول تو میری اور میرے فرزند احمد علی خاں کی پینشن ہو جانے کے لیے درخواست کی تجویز کی۔ ہر چند سب یہ کہتے تھے کہ نواب عبدالرحمن خاں صاحب کی اولاد کی دوسری پشت میں پینشن نہیں ہو گی۔ مرزا جی دوسرے ہی دن صبح ہی انا کو میرے بچے احمد علی خاں سمیت ڈولی میں بٹھا، درخواست لکھ، صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی کوٹھی پر پہنچے اور پینشن کی درخواست دی۔ بچے کو صاحب بہادر کی گود میں ڈال دیا۔ چوں کہ صاحب بہادر نہایت رحم دل اور انصاف پسند حاکم تھے، اسی وقت پچاس روپے ماہوار کی رپورٹ پینشن کی اس مضمون سے کر دی کہ تیس روپے بچے کے اور بیس روپے بیوہ کے مقرر ہوں اور اگر لڑکا فوت ہو جائے تو تیس روپے بیوہ کوملیں۔ یہاں کانوں کان بھی کسی کو خبر نہیں۔ جب مرزا جی اس کام سے فارغ ہوئے تو اب قرضے کا انتظام کیا۔ کسی کی قسط کی اور کسی سے وعدہ کیا اور امیر محل سے تو ایک سال تک خوب ہی تکا فضیحتی رہی، بعد ایک سال کی پینشن کی منظوری بھی آ گئی۔ جب تو دشمن اور بھی جلے اور ہمیشہ اپنے جلے پھپھولے پھوڑتے رہے۔ پھر اتفاق ایسا ہوا کہ میں بیمار ہو گئی۔ میں نے والدہ صاحبہ کو اطلاع دی۔

والدہ کے ہم راہ دہلی جانا اور احمد علی خاں کا ختنہ اور نکاح کرنا:

بارے کچھ مہربان تھیں، میرے پاس آ گئیں۔ کوئی آٹھ روز لودھیانہ رہ کر پھر مجھ کو ہم راہ لیے دہلی چلی آئیں۔ یہاں علاج وغیرہ کیا۔ مجھ کو صحت ہوئی۔ انہی دنوں میں میری ایک نند نور جہاں بیگم دہلی میں رہتی تھیں ان کی دختر سے میرے فرزند احمد علی خاں کی نسبت ہو گئی۔ دوسرے ہی مہینے احمد علی خاں کا ختنہ کیا اور آخر ماه مئی 1877ء کو نکاح بھی کر دیا۔ اس کی شادی میں جو کچھ بن سکی، دھوم دھام کی اور دل غم زدہ کو زبردستی خوشی میں لگانا چاہا۔ کیوں کہ جانا کہ اب بچے کے سوا مجھے اور کس

صفحہ 106
کی تقریب کرنی ہے۔ مگر والدہ صاحبہ نے اپنی عادت کے موافق اس تقریب میں بھی مجھے خوش نہ ہونے دیا۔ اور طرح طرح سے ناک میں دم کیا۔ آخر ماہ جون کو زچ ہو کر لودھیانہ چلی گئی۔

میرا بیمار ہونا اور والدہ صاحبہ کا لودھیانہ جا کر مجھے دہلی لانا:

کوئی چھے مہینے گزرے تھے کہ ماو دسمبر 1877ء کو میں عارضہ فالج میں مبتلا ہوئی۔ میں نے والدہ صاحبہ کو لکھا۔ سنتے ہی وہ میرے پاس لودھیانہ پہنچیں۔ دیکھا تو میرا برا حال تھا۔ بارہ روز سے میرا دانہ پانی بند تھا۔ اسی وقت درخواست رخصت کی لکھوا کر جناب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر لودهیانہ کی خدمت میں گزرانی۔ دشمنوں نے وہاں بھی چین نہ لینے دیا۔ صاحب بہادر سے کہہ دیا یہ بیمار نہیں ہے، اس کو رخصت نہ ملے۔ صاحب بہادر نے درخواست پر حکم لکھا کہ ڈاکٹر صاحب ملاحظہ فرما کر ہمیں لکھیں تو ہم رخصت دیں۔ دوسرے روز ڈاکٹر صاحب کو بلا کر بھی نبض دکھائی، احوال کہا۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے ضعف اور ناتوانی کو ملاحظہ فرمایا تو واقعی سخت علیل پایا۔

ڈاکٹر صاحب کا سرٹیفکیٹ دینا، میرا دہلی آنا:

اسی وقت ڈاکٹر صاحب نے سرٹیفکیٹ لکھ کر عنایت فرمایا۔ جس کا مضمون یہ ہے "سرٹیفکیٹ دیا گیا شہر بانو بیگم زوجہ نور علی خاں کہ نہایت تنگ حال میں ہے اور بہت کم زور ہے۔ غالبا اس کے بحال ہونے کی کوئی امید نہیں اور دہلی کی آب و ہوا کے واسطے منقوی سفارش کی گئی۔ چونکہ صرف یہی وسیلہ اس کے فائدے کا معلوم ہوتا ہے۔" لودھیانہ۔ آررو صاحب بہادر، سول سرجن مورخہ4 جنوری 1878ء۔ دوسرے روز یکشنبہ تھا اور ڈپٹی کمشنر بہادر دورے پر تشریف لے گئے تھے۔ اتفاق سے مولا بخش، بھتیجا دادی زینت محل صاحبہ مرحومہ کا لودھیانہ آیا ہوا تھا۔ دو شنبہ کو مولا بخش کو

صفحہ 107
مع سٹیفکیٹ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی خدمت میں روانہ کیا۔ اور سبب مولا بخش کے ہاتھ بھیجنے کا یہ تھا کہ مرزا ایوب بیگ ان دنوں ایک کاغذ کی نقل لینے کے لیے رہتک گئے ہوئے تھے اور صاحب کا ڈیرہ لودھیانہ سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر تھا۔ مولا بخش نے جا کر سرٹیفکیٹ صاحب کے روبرو پیش کیا۔ سرٹیفکیٹ کے دیکھتے ہی صاحب نے حکم دیا کہ مریضہ کو اس وقت دہلی لے جاؤ۔ مولا بخش شام کے قریب لودھیانہ آئے۔ میں اسی شب کو سواری ریل میں بیٹھ کر دہلی آ گئی۔ دشمنوں کو خبر بھی نہ ہوئی۔ دہلی آ کر علاج معالجہ شروع کیا۔

دہلی رہنے کا مشورہ اور درخواست کا نامنظور ہونا:

لیکن اب سب کی صلاح یہ ٹھہری کہ لودهیانہ کی آب و ہوا موافق نہیں دوسرے، جتنے لوگ ہیں سارے دشمن ہیں اور دشمنوں میں رہنا اچھا نہیں۔ چنانچہ والدہ صاحبہ اور دادی زینت محل صاحبہ مرحومہ، کہ میری دو یا ساس تھیں، اللہ ان کو جنت نصیب کرے، ان سب کا مشورہ ہو کر تین درخواستیں ایک میرے نام سے، دوسری والدہ صاحبہ کی طرف سے، تیسری دادی زینت محل صاحبہ کی جانب سے جناب صاحب کمشنر بہادر دہلی کی معرفت لودھیانہ بھیجی گئیں۔ اور اللہ تعالی مغفرت کرے، نواب محمد مختار حسین خاں رئیس پاٹودی بھی اس زمانے میں زندہ تھا، اس نے بھی وعدہ کیا تھا کہ "پھوپھی صاحبہ آپ کی پینشن کی تبدیلی میں کرا دوں گا۔" خیر وہ درخواستیں جب لودھیانہ پہنچیں تو دشمنوں کو بھی خبر لگ گئی۔ آخر جناب بھائی صاحب محمد خادم علی خاں صاحب نے جا کر میری چغلی کھائی اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے کہا کہ "اگر آپ اس کی تبدیلی کریں گے تو لودھیانہ میں کوئی نہیں رہے گا۔ آپ تبدیلی نہ کریں۔" خدا کی شان، جس روز میرے پاس تبدیلی کی نامنظوری کا حکم آیا ہے، اسی روز نواب محمد مختار حسین خاں کا انتقال ہوا تھا۔ کمال ہی رنج تھا۔ خیر اب یہ تماشا ہوا کہ جب تبدیلی کی نامنظوری ہوئی تو جو لوگ اس معاملے میں شریک ہوئے تھے وہ سب آپ آپ کو ہو گئے۔ وہ کہنے لگے کہ اب جستجو کرنی بے فائدہ ہے۔

صفحہ 108
تبدیلی نہیں ہو گی۔ اس وقت میں بھی بہت مایوس ہوئی اور مجھ کو نہایت رنج ہوا۔ تو مرزا ایوب بیگ نے مجھ سے کہا کہ آپ بیمار آدمی ہیں، ہرگز فکر نہ کریں۔ اور رنجیده نہ ہوں۔ تبدیلی آپ کی ضرور ہو گی۔ آپ خاطر جمع رکھیں۔

تبدیلی کے منظور ہونے کا حال:

اس کے بعد ایک درخواست براہ راست جناب ڈپٹی کمشنر بہادر لودھیانہ کی خدمت میں اس مضمون سے بھیجی کہ "مجھ کو آب و ہوا لودهیانہ کے موافق نہیں ہے۔ اور دہلی کی موافق ہے اور یہاں علاج بھی ڈاکٹر صاحب سول سرجن دہلی کا ہو رہا ہے، سو میں درخواست کرتی ہوں کہ براہ مہربانی میری تبدیلی دہلی کی منظور فرما کر مجھ کو مطلع فرمائیں۔ اور اگر حضور کو میری بیماری میں کچھ شبہ ہو تو ڈاکٹر صاحب سول سرجن دہلی سے حلفاً میرا حال دریافت فرما دیں۔" اس پر جناب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر لودھیانہ نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر دہلی کے نام چٹھی اس مضمون سے لکھی کہ "آپ براہ مہربانی ڈاکٹر صاحب سول سرجن دہلی سے شہر بانو بیگم کا حال دریافت کر کے ہم کو اطلاع دیں۔" چنانچہ صاحب ڈپٹی کمشنر، بہادر دہلی نے ڈاکٹر صاحب سول سرجن دہلی سے دریافت فرمایا۔

ڈاکٹر صاحب کا بھی لکھنا اور تبدیلی کا منظور ہونا:

اس پر ڈاکٹر صاحب نے یہ جواب لکھا۔ "چٹھی نمبری 90، مورخہ 14 مئی 1878ء، بحوالہ آپ کی ڈاک نمبری پانسو انیس، مورخہ 11 مئی سنہ حال، لکھا جاتا ہے کہ مسمات شہر بانو بیگم کو دو دفعہ دیکھا، غالبا وہ کبھی صحت نہ پائے گی مرض ملحقہ سے، اگر اس کی زندگی چند سال ممکن ہے۔" جب یہ چھٹی ڈاکٹر صاحب کی جناب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر لودھیانہ کو پہنچی اور انہوں نے میرا حال معلوم کیا، تو اسی وقت میری
تبدیلی کی رپورٹ کر دی۔ چنانچہ 12 جون 1878ء کو میرا حلیہ تبدیل ہو کر دہلی کے

صفحہ 109
خزانہ پر آ گیا۔ پھر تو دشمنوں نے بہتیری تدبیریں کیں، مگر کچھ پیش نہ چلی۔ آخر رو پیٹ کر چپ ہو رہے۔

احمد علی خاں کا بیمار ہونا اور اس کا فوت ہونا:

لیکن بوا، تقدیر کی میں اسی پوری ہوں کہ خوش قسمت میں لکھی ہی نہیں۔ تبدیلی ہوئی تھی، جو لڑکا احمد علی خاں بیمار پڑا۔ نہیں معلوم کہ وہ کم بخت کیا بیماری تھی کہ کسی کی سمجھ ہی میں نہ آئی۔ چار برس بیمار رہا۔ ویسے حکیموں، انگریزی ڈاکٹروں، ہندی ویدوں سے علاج کرائے۔ مگر مرض کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ مرض کیا تھا گویا پیام اجل تھا اور مجھ کو اس کے ساتھ کچھ ایسا عشق تھا کہ اپنی بیماری یا دکھ سب کچھ بھول گئی تھی۔ رات دن اسی کا شغل تھا اور اسی کے دھندے میں رہتی تھی۔ آخر 16 محرم 1299ھ کی شب جمعہ کو پنجہ اجل نے اسے آن دبوچا۔ میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ میرے کئی بچے ہوئے، وہ چھوٹی عمر میں فوت ہو ہو گئے۔ اب خدا خدا کر کے ناک رگڑ کے اس بچے کو اتنا بڑا ہونا نصیب ہوا تھا، خدا نے اس کو بھی اٹھا لیا۔ صبح کو جمعے کے روز اکیلا جنگل میں جا کر سو رہا۔ میری دس برس کی محنت اللہ تعالی نے انا فانا میں لے لی۔ ہائے کیا خبر تھی کہ اس طرح مجھ کو بے وارث کر کے اور آپ قبر کی گود میں جا سوئے گا۔ ہے ہے ،میں تو یہ جانتی تھی کہ اپنے ہاتھ سے مجھے کو مٹی کر دے گا۔ افسوس منشی تقدیر نے میری پیشانی پر یہی لکھا تھا، جو پیش آیا۔ ہائے اس کی صورت، اس کا بانکپن، اس کی تمیز، کس کس بات کو یاد کروں۔ کیوں کر دل کو تسلی دوں۔ جینا وبال ہے۔ رات دن اسی کا خیال ہے۔ بیت:
نہ مرتی ہوں نہ جیتی ہوں عجب حالت ہے فرقت میں
کہ جاں عاجز قضا سے ہے، قضا عاجز ہے اب جاں سے

میری تو زندگی ہی خراب ہوئی اور موت بھی برباد ہوئی۔ نہ کوئی نام لیوا رہا، نہ پانی دیا۔ بیت:

صفحہ 110
صبر کس کس بلا پر کر گزروں
چاره اس بن نہیں جو مر گزروں

لیکن خدا کا دیا سر پر۔ سوائے صبر اور کچھ بن نہ آیا۔ پر اس روز سے یہ حال ہے کہ آج درد سر ہے تو کل بخار ہے۔ بیت:

مرض یہ پھیل پڑا ہے تپ جدائی سے
کہ پیٹھ لگ گئی یاروں کی چارپائی سے

نہیں معلوم کہ خدا ابھی اور کیا کیا دکھائے گا۔ کس کس طرح آزمائے گا۔ سو خیر زندگی کے دن پورے کرتی ہوں، جو ایسے ایسے دکھ بھرتی ہوں۔ بیت:
غنچہ رہا، نہ گل ہے، نہ بلبل، نہ باغباں
کس کس کو ہائے کیجئے فصل خزاں میں یاد

غرض چالیس برس کی عمر میں دنیا کا خوب تماشا دیکھا اور دیکھتی ہوں

دنیا کی شکایت:

دنیا بڑی مکار ہے، اس کا کیا اعتبار ہے۔ دیکھو ابتداء میں مجھے کیا سبز باغ دکھایا، آخر کو کس طرح خاک میں ملایا۔ ایک وہ وقت تھا کہ پانسو روپے خرچ پاندان کا مقرر ہوا تھا، اب وہی ہم ہیں کہ کلبم نوے روپے میں گزارہ کرتے ہیں۔ لاکھ طرح کے دکھ بھرتے ہیں۔ دنیا دل بستگی کا مقام نہیں۔ اس کا ایک جا قیام نہیں۔ اس پر گھمنڈ کرنا عین نادانی ہے۔ کیوں کہ سرائے فانی ہے۔ جو لوگ اس کا حظ اٹھاتے ہیں، عزت کے عوض میں ذلت پاتے ہیں۔ دنیا حسد کی جڑ ہے، دنیا بے ایمانی کا گھر ہے۔ جس نے دنیا کا لحاظ و پاس کیا، اس نے اپنی عقبی کا ناس کیا۔ حضرت معاذ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ عقل مند وہ شخص ہے کہ جو تین کام کرے، دنیا سے دستبردار ہو جائے، قبل اس کے کہ دنیا اس سے دستبردار ہو۔ اور قبر تعمیر کرائے، قبل
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 111
ازیں کہ قبر میں جائے اور حق سبحانہ تعالی کو خوشنود کرے، پیش ازآں کہ اس کے دیدار سے مشرف ہو۔ سچ فرمایا ہے، دنیا کی چق چق اور بق بق پر دل لگانا عین حماقت ہے۔ بس جس نے اس کی آرزو زیادہ کی، وہی خلق کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوا۔ اور جس نے اس کو چشم حقارت سے دیکھا، وہ لوگوں کی نظروں میں باوقار ہوا۔ جس نے دنیا کو چھوڑا اور اس سے منہ موڑا، وہی مراد کو پہنچا۔ اللہ تعالی مجھے عاجزه کو بھی ان نیکیوں کی پیروی نصیب کرے اور میری خطاؤں کو بخشے۔ سچ کہتی ہوں کہ دنیا سے میرا دل سرد ہو گیا اور یہ خیال آیا کہ دنیا میں اپنا ہے ہی کون۔ صرف ایک ماں کا دم ہے اور وہی قبلہ و مکرم ہے۔ اس کی خدمت گزاری اور رضا مندی کے کام خدا نصیب کرے تو یہی سعادت مندی کی راہ اور نیک بختی کی سڑک ہے۔ مگر قسمت کی برگشتگی سے وہ نصیب نہ ہوئی۔

احمد علی خاں کی بیوہ کا نالش کرنا اور وثیقہ مقرر ہونا:

جب احمد علی خاں دنیا سے سدھارا تو اس کی زوجہ کی طرف سے تنخواہ کا دعوی پیش ہوا۔ چنانچہ سرکار دولت مدار نے اس مرحوم کی پیشن میں دس روپے اس کی بیوہ کے اور دس روپے مجھے بدنصیب کے مقرر فرمائے۔ ہنوز یہ مقدمہ طے نہ ہوا تھا کہ

والدہ صاحبہ کا بیمار ہونا اور ان کا خط میری طلب میں آنا اور میرا پاٹودی جانا اور احمدی کا نکاح کرنا اور جبرا مجھ کو شریک کرتا اور میرے دشمنوں سے ملنا اور میری بربادی پر کمر ہمت کی باندھنا:

والدہ صاحبہ کا خط پاٹودی سے آیا کہ "میں سخت بیمار ہوں, دیکھتے ہی اس خط کے تم پاٹودی آؤ۔ اگر دانہ وہاں کھاؤ تو پانی یہاں پیو۔" میں خط کے دیکھتے ہی فوراً


صفحہ 112
پاٹودی پہنچی۔ ان کی خدمت کی۔ خدا نے ان کو شفا دی۔ جب غسل صحت کر چکیں تو یہ احمدی، جسے آپ میرے ہاں دیکھتی ہیں، اسے میں نے اپنے فرزند احمد علی خاں کی خدمت کے لیے پالا تھا، وہ فوت ہو گئے، یہ موجود ہے۔ والدہ صاحبہ نے اس کے نکاح کی تجویز پاٹودی ہی میں کی۔ ہر چند میں مانع ہوئی، مگر انہوں نے نہ مانا اور اس کا نکاح کر دیا۔ میں خاموش ہو رہی۔ اور کچھ شکایت میں نے نہیں کی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ میرے سوتیلے بھائی محمد جعفر علی خان مرحوم جو تھے، اللہ ان کو جنت نصیب کرے، ان کی دختر کی شادی خادم علی خاں کی نواسی سے قرار پائی۔ اور خادم علی خاں میرے دشمن جاں ہیں اور لڑکی کی سرپرست والدہ صاحبہ بنیں۔ اور انہوں نے اس کی شادی وہاں کرائی اور اس شادی میں جبرا مجھ کو بھی شریک کیا۔ ہر چند مجھ کو گوارا نہ تھا، لیکن والدہ صاحبہ کی خوشنودی کی خاطر میں شادی میں شریک ہوئی اور تیوری پر میل تک نہیں لائی۔ بعد اس کے والده صاحب لودھیانہ میرے دشمن کے مکان پر گئیں اور وہاں سے لڑکی کو لے کر میرے گھر تشریف لائیں۔ آٹھ دس روز رہیں۔ حالاں کہ کئی آدمی خادم علی خاں صاحب کی ان کی بہو کے ساتھ تھے، مگر میں نے کچھ خیال نہ کیا۔ اور برابر خاطر داری کرتی رہی۔ اس لحاظ سے کہ والدہ صاحب کی طبیعت پر کسی طرح کا میل نہ آئے۔

احمدی اور اس کے خاوند کا حال:

بعد اس کے والدہ صاحبہ نے یہ کیا کہ اس احمدی کو اس کے خاوند کے گھر سے بلا لیا اور چند ہی روز کے بعد اس کے خاوند سے کہا کہ تو بھی اپنے ماں باپ سے علیحدہ ہو کر میرے ہاں چلا آ۔ وہ بیچارہ ان کے کہنے کے موجب اپنے ماں باپ سے جدا ہو کر ان کے مکان پر چلا آیا۔ کوئی ایک مہینہ تو دونوں کو رکھا، بعد ایک ماہ کے دونوں کو اپنے گھر سے نکال دیا۔ اب نہ وہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ آخر لاچار ہو کر دونوں میاں بیوی میرے مکان پر چلے آئے۔ میں نے خوف خدا کا کر کے دونوں کو رکھ لیا کہ یہ موجود ہیں۔

صفحہ 113

والدہ صاحبہ کی ناحق کی چغلی:

بس احمدی کا میرے مکان پر آنا تھا کہ والدہ صاحبہ کی طرف سے ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ اور میں ایسی خطا وار ٹھہری کہ دنیا میں میرے برابر کوئی گناه گار نہ ہو گا۔ کہاں تک خفگی کا حال بیان کروں کہ خط کتابت تک بھی بند کر دی۔ اس پر بھی میں نے کچھ خیال نہ کیا، بلکہ یہ سمجھی کہ یہ چند روز کی خفگی ہے جاتی رہے گی۔

رئیس حال کی نانی کا مجھ کو طلب کرنا اور والدہ صاحبہ کا برافروختہ ہونا:

تھوڑے ہی دن کے بعد احمد النساء بیگم صاحبہ مرحومہ رئیس حال کی نانی نے مجھ کو طلب کیا اور والدہ صاحبہ کو بھی معلوم ہوا کہ وہ پاٹودی آئی ہے تو والدہ صاحبہ نے منتظم صاحب سے کہہ دیا کہ اس کو قلعے میں نہ آنے دو۔ جب میں اسٹیشن جاٹولی پر پہنچی تو منتظم صاحب نے مجھ کو حکمت عملی سے روکا۔ مگر میں سمجھ گئی کہ یہ اشاره والدہ صاحبہ کا ہے۔ مجھ کو اس وقت نہایت غصہ آیا۔ اگر میں چاہتی تو پاٹودی چلی جاتی، مجھ کو کون روک سکتا تھا، مگر میں پالکی گاڑی سے اتر پڑی اور یہ بھی چاہا کہ اسی وقت دہلی چلی جاؤں، مگر اس وقت کوئی گاڑی دہلی کی آتی جاتی نہ تھی۔ اسی وقت مرزا ایوب بیگ نے اسٹیشن ماسٹر سے ایک کمرہ کھلوا کر اس میں مجھے اتارا۔ مگر مجھے کو نہایت رنج تھا۔ جب پالکی گاڑی خالی پاٹودی پہنچی اور احمد النساء بیگم کو یہ معلوم ہوا کہ شہر بانو بیگم نہیں آئیں اور وہ اسٹیشن پر ہیں، تو خدا ان کی مغفرت کرے، وہ بذات خود اسٹیشن پر میرے لینے کو آ ئیں۔ ہر چند میں نے انکار کیا۔ پر انہوں نے نہ مانا۔ اور بہ منت مجھ کو پاٹودی لے گئیں۔ غرض ایک دن اور دو شب میں پاٹودی میں رہی اور پھر دہلی کو چلی آئی۔

صفحہ 114

والدہ صاحبہ کا برافروختہ ہونا اور میرا وثیقہ بند کرانا:

والدہ صاحبہ کو جو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اور بھی برافروختہ ہوئیں اور منتظم صاحب سے کہہ کر میرا زر وثیقہ رکوا دیا۔ میں نے منتظم صاحب کو خط لکھا۔ اس کا جواب منتظم صاحب نے نہ دیا۔ دوسرا خط لکھا، اس کا جواب بھی نہ دیا۔ جب لاچار ہوئی تو 23 فروری 1885ء کو مرزا ایوب بیگ کو زر وثیقہ کی رسیدات دے کر اور ایک خط منتظم صاحب کے نام لکھ کر پاٹودی کو روانہ کیا۔ مرزا جی ٹکٹ لے کر گاڑی میں سوار ہوئے کہ اتفاق سے منتظم صاحب بھی دہلی سے پاٹودی کو جاتے تھے۔ وہ بھی اسی گاڑی میں بیٹھے اور مرزا ایوب بیگ سے پوچھا کہ "آپ کہاں جاتے ہیں؟" مرزا جی نے جواب دیا کہ "آپ ہی کی خدمت میں زر وثیقہ وصول کرنے جاتا ہوں۔" اس کے جواب میں منتظم صاحب نے یہ فرمایا کہ "آپ واپس چلے جائیں، آپ کو وثیقہ نہیں ملنے کا۔" مرزا جی واپس چلے آئے۔ اب تو اور بھی ناچار ہوئی، کیوں کہ صاف جواب ملا۔

صاحب بہادر کمشنر کو مراسلہ دینا اور زر وثیقہ وصول کرنا:

تو تنگ ہو کر 24 فروری 1885ء کو ایک مراسلہ جناب مکناب صاحب کمشنر بہادر دہلی کی خدمت میں بسبیل ڈاک روانہ کیا۔ کیوں کہ صاحب کمشنر بہادر ان دنوں میں دورے پر تھے۔ چناں چہ میرا مراسلہ بمقام جھجر پیش ہوا۔ چوں کہ وہ حاکم نہایت رحم دل اور منصف مزاج تھے، فورا منتظم کے نام حکم بھیجا کہ شہر بانو بیگم کا زر وثیقہ جلد بھیج دو۔ جب منتظم صاحب نے میرا وثیقہ بھیجا۔

والدہ صاحب کا لودھیانہ جا کر دہلی آنا اور ہمشیرہ زہرا بیگم کے ہاں اترنا:

بس یہ امر تو والدہ صاحبہ کو اور بھی برا معلوم ہوا کہ منتظم صاحب کی شکایت

صفحہ 115
میں نے صاحب کمشنر بہادر سے کی۔ اس پر تو ایسے غیظ و غضب میں آئیں کہ کچھ بیان ہی نہیں۔ لو صاحب سب سے بالا بالا لودھیانہ پہنچیں اور وہاں میرے دشمنوں سے کچھ مشورہ کر ماہ اپریل 1885ء کو دہلی تشریف لائیں۔ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں۔ ان دنوں میں میری ہمشیرہ زہرا بیگم محل سرائے میں فروکش تھیں۔ وہاں آن کر اتریں۔ میرے بھانجے سید افضل حسین نے مجھ سے آن کر کہا کہ "شب کو تو نانی نواب محل صاحبہ تشریف لائی ہیں اور خالہ زہرا بیگم صاحبہ کے ہاں اتری ہیں۔ آپ کو مناسب ہے کہ آپ بھی ضرور جائیں۔" میں نے انکار کیا۔ اس پر مرزا ایوب بیگ نے بھی مجھ سے کہا کہ "آپ کو ضرور جانا چاہیے۔ کیونکہ آپ کی والدہ ہیں۔" جب دو آدمیوں نے یہی صلاح دی تو میں ڈولی منگا، سوار ہو، محل سرائے میں جا اتری۔ مجھے نگوڑی کو کیا خبر کہ ان کے دل میں کیا کچھ بھرا ہوا ہے۔ میں نے جا کر سلام کیا۔ میرے سلام کا جواب نہ دیا، بلکہ میری طرف سے منہ پھیر لیا اور مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ کون بلا ہے۔ جب بوا، میں نے یہ حال دیکھا تو میں بھی چپ ہو کر بیٹھ گئی۔ تمام دن ألٹ گیا مگر انہوں نے مجھ سے بات تک نہ کی جب رات ہوئی تو میری بہن کی طرف مخاطب ہو کر والدہ صاحبہ نے کچھ ایسے کلمات کہے کہ مجھے بہت ناگوار گزرے اور تمام رات گویا میں انگاروں پر لوٹی۔

مرزا ایوب بیگ کو اراده والدہ کا معلوم ہونا اور میرا گھر واپس آنا:

جب صبح ہوئی تو مرزا ایوب بیگ کو معلوم ہوا کہ جس کام کے لیے والدہ صاحبہ تشریف لائیں تھیں، وہ نہ ہوا۔ اس وقت مرزا جی نے مجھے کہلا بھیجا کہ "اب آپ چلی آویں، جو کچھ ہونا تھا وہ ہولیا۔" سنتے ہی بوا میں اپنے گھر آئی۔ جب مجھ کو مفصل معلوم ہوا کہ والدہ صاحبہ تو میرے رزق کھونے کی فکر میں تشریف لائی تھیں۔ مگر خدا نے ان کا چیتا نہ کیا۔ اس وقت تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور مجھ کو بڑا افسوس ہوا کہ ہے ہے جس ماں کی خاطر میں نے اپنا کھوجڑا کھو دیا، تمام زمانے کو دشمن بنایا، ہزارہا روپے کا نقصان کیا، وہ ماں میرے ساتھ یہ سلوک کرے۔ دنیا جاے

صفحہ 116
حیف ہے۔ خیر صبر اور شکر کر کے چپ ہو رہی۔ مگر مجھے ایسا صدمہ ہوا کہ اس کے سبب بیمار پڑ گئی۔

مس تھورن صاحبہ کا تشریف لانا اور مس فلیچر صاحبہ سے ملاقات ہونا:

مرزا ایوب بیگ نے مجھ سے کہا کہ ایک مس صاحبہ یہاں قریب رہتی ہیں اور وہ ڈاکٹری بھی کرتی ہیں، اگر آپ کہیں تو میں ان کو بلا لاؤں۔ میں نے کہا کہ بہتر ہے۔ دوسرے روز مرزا بھی جا کر مس تھورن صاحبہ کو لے آئے۔ انہوں نے مجھے دیکھا دوا دی۔ دوسرے روز مس صاحبہ پھر تشریف لائیں۔ مگر چوں کہ مس صاحبہ بہت ہوشیار اور دانا آدمی ہیں انہوں نے میرے بشرے سے دریافت کر کر فرمایا کہ "بیگم تم غم زدہ معلوم ہوتی ہو۔ اور تنہا رہتی ہو۔ کچھ دل بہلانے کی تجویز کرو۔" میں نے کہا کہ "مس صاحب میں کیا تجویز کروں۔" اس پر مس صاحبہ نے کہا کہ ایک مس فلیچر صاحبہ نامی تھوڑا عرصہ ہوا کہ ولایت سے تشریف لائی ہیں اور بہت شریف اور خاندانی ہیں اور وہ بالکل اردو نہیں جانتیں۔ اگر تم کہو تو میں ان کو تمہارے پاس لاؤں۔ تم ان کو اردو بولنا سکھانا، وہ تمہیں کتابیں پڑھائیں گی۔ تمہاری دل کی خوب ہو جائے گی۔" میں نے کہا۔ "بہت اچھا۔“ چنانچہ دوسرے روز مس تھورن صاحبہ آپ کو لے کر میرے مکان پر آئیں۔ مجھے یاد ہے کہ 21 مئی 1885ء تھی جو پہلے پہل میرے مکان پر آپ آئیں۔ اسی روز سے میں آپ کو اردو سکھانے لگی اور آپ نے مجھ کو اردو کی پہلی کتاب شروع کرائی۔ کوئی آٹھ مہینے گزرے ہوں گے کہ اس عرصے میں آپ سے میں چاروں کتابیں اردو کی پڑھ چکی تھی۔

میری طلب میں والدہ صاحبہ کا خط آنا اور میرا نہ جانا:

یکم فروری 1886ء کو ایک خط والدہ صاحبہ کا معرفت منتظم صاحب بہ دست شیخ

صفحہ 117

اکرام الدین نائب وکیل میرے پاس آیا۔ مضمون اس کا یہ تھا کہ "میں سخت بیمار ہوں اور زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ خیر جو کچھ ہوا سو ہوا۔ اب تم بغور دیکھنے خط ہذا کے جلد یہاں آ جاؤ اور ایک روپیہ کے ولایتی انار لیتی آنا۔" خط کو پڑھتے ہی میرا یہ حال ہوا کہ ایک شعلہ بدن میں سے اٹھا اور دماغ کے پار ہو گیا اور جو جو سلوک والدہ صاحبہ نے میرے ساتھ کیے تھے وہ سب ایک تصویر بن کر میرے رو برو آ گئے۔ بس جواب خط کا تو میں نے نہیں لکھا، مگر شیخ اکرام الدین سے زبانی کہہ دیا کہ "شیخ جی اب تو پانی سر سے بھی بلند ہو گیا، کیسا ملنا اور کیا جانا۔ کہہ دینا کہ مجھ سے کسی امر کی توقع رکھنا فضول ہے۔" یہ کہہ کر ان کو رخصت کیا اور آپ سے برابر سبق ہوتا رہا۔ آپ توجہ قلبی اور کوشش دل سے چاروں کتابیں اردو کی اور "تاریخ مختصر ہند" اور "حالات النساء" "مراۃ العروس" وغیرہ پڑھ چکں۔ جب آپ کی آمد و رفت کو عرصہ ایک سال کا گزر گیا اور گذشتہ حالات کا جو جو کچھ تذکرہ آپ سے ہوا تو آپ مصر ہوئیں کہ اپنی سوانح عمری لکھ کر مجھے دو۔ سو آپ کی خاطر میں نے اپنی بیتی کہانی یعنی روز پیدائش سے آج تک جو کچھ گزرا تھا وہ لکھ کر آپ کو دیا۔ اب تو آپ نے مجھے عاجزہ کا قصہ سنا، سچ کہنا کہ مجھ جیسے بدنصیب دنیا میں دیکھے کیا، سنے بھی نہ ہوں گے۔ اب آپ خیال کریں کہ روز پیدائش سے لوگوں کو مجھ سے حسد شروع ہوا۔ غدر میں کیسی مصیبت اٹھائی، ساس کی کیسی کیسی سختیاں سہیں، سسرال والوں نے کیا کیا بدسلوکیاں کیں، خاوند نے یوں برباد کیا، اولاد سے ہی پھل ملا کہ ایک بھی زندہ نہ بچا۔ ایک ماں تھی، سو اس نے یہ کیا کہ خون کی پیاسی ہو گئی۔ اگر چھری کو پائیں تو مجھ کو نہ پائیں۔ سو بوا، میرے ساتھ تو کسی نے بھی بھلائی نہ کی۔

مرزا ایوب بیگ کا شکریہ اور بیتی کہانی کا خاتمہ:

سوائے مرزا ایوب بیگ کے انہوں نے البتہ میری ایسی رفاقت کی کہ اپنی قدامت کا حق ادا کر دیا۔ اگر یہ شخص میری رفاقت نہ کرتا تو آج کو مجھے بھیک بھی نہ ملتی۔ یہ اسی شخص کا حسن انتظام تھا کہ اس وقت میرے قرضے کا کہ جو چار ہزار روپیہ

صفحہ 118
کا میرا خاوند چھوڑ کر مرا تھا بندوبست کیا۔ علاوہ اس کے دشمنوں کی زد سے مجھ کو بچایا۔ اور آج تک ساتھ آبرو کے اپنے گھر میں بیٹھی ہوں۔ اور جو کارخانہ میرے خاوند کے وقت میں تھا، اس وقت تک بدستور سابق موجود ہے۔ اگر اس شخص کا شکر یہ میرا ایک ایک رومٹا ادا کرے تو نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالی مرزا موصوف کو جزائے خیر عنایت کرے۔ اور مجھ کو بھی اپنے سیدھے رستے پر قائم رکھے۔

اهدنا الصراط المستقیم صراط الذين انعمتہ عليھم
غير المغضوب عليھم ولا الضالين
آمین۔ آمین
 
Top