صفحہ 51
واپس جانے کا ارادہ کیا۔ سب خوش ہوئے۔ بیت:
ہر ایک دیتا تھا آن آن کر مبارک باد
خدا نے خانہ ویراں کو پھر کیا آباد
پاٹودی کی آبادی کا حال:
ابا جان جھجر سے روانہ ہو کر پاٹودی پہنچے اور ہم ان کے سب متعلقین بھی ایک دوسرے کے بعد آ گئے۔ دیکھا تو عجب طرح کا سناٹا ہے۔ اب یہ دور اوجڑ بستی سونے دیس کی مثل صادق آتی ہے۔ گھر ہے کہ بھائیں بائیں کر رہا ہے۔ نہ کوٹھریوں میں اسباب ہے نہ دالانوں میں فرش۔ چیز بست کیا نام، جھاڑو دینے کو تنکا تک نظر نہیں آیا۔ چینی کے برتن ٹوٹے ہوئے پڑے ہیں۔ شیشہ کے آلات چکنا چور ہوئے دھرے ہیں۔ نہ پینگ ہے نہ چار پائی، نہ دری ہے نہ چٹائی۔ مال اسباب نقد و جنس جو جو کچھ تھا سارے گھروں سے موئے گنوار ان پر خدا کی مار، لوٹ کر لے گئے۔ آخر ان کی جانوں پر صبر کر کے نئے سرے سے پھر سامان درست کرنا شروع کیا۔ گو ہزاروں کا نقصان ہوا لیکن جس قدر اس کا رنج تھا اس سے زیادہ اپنے لئمٹے گھروں میں آ جانے کی خوشی ہوئی۔ اس ہماری مصیبت کو دو ڈھائی مہینے گزرے تھے
دہلی کی فتح کی خبر:
جو سنا کہ 14 ستمبر 1857ء کو فوج سرکار انگریز نے دہلی فتح کر لی اور دہلی پر قبضہ کر کے 17 اکتوبر 1857ء کو فوج سرکاری مقام پاٹودی آئی۔ چونکہ والد مرحوم نے باغیوں کی مفسده پردازی کے دنوں میں سرکار انگریز کی خیر خواہی کی تھی یعنی فورٹ صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر گوڑ گانوں نے ایک انگریز اور اس کی میم کو جو محفوظ رکھنے کے لیے بھیجا تھا، ان کو بحفاظت تمام رکھ کر پہاڑی پر انگریزی کیمپ میں بجھوا دیا تھا۔ اس کے علاوہ ان مفسدوں کو تہ تیغ کیا تھا جو باغی فوج کی حیثیت سے
صفحہ 52
پاٹودی پر چڑھ آئی تھی۔ اس نظر سے سرکار دولت مدار نے میرے والد کی جاگیر بحال اور برقرار رکھی۔ اور وہاں سے فوج دوسرے روز ریواڑی گئی۔ اس مقام کے قبضے کے بعد دادری پہنچی اور وہاں سے 17 اکتوبر 1857ء کو چھوچھک واپس پہنچ کر نواب عبدالرحمن خاں رئیس جھجر کو گرفتار کیا۔
رئیس جھجر کی گرفتاری:
کوئی آدھے بجے ہوں گئے، عین دوالی کی رات 27 ماه صفر کی تھی کہ نواب عبدالرحمن خاں کی گرفتاری اور ریاست جھجر کی بربادی کی وحشت ناک خبر سنی۔ ایسا صدمہ اور قلق ہوا کہ بیان کے قابل نہیں۔ پھر یہ فکر ہوا کہ دیکھیے انجام اس کا کیا ہوتا ہے۔ افسوس اس کا انجام یہ ہوا کہ نواب جھجر کو تو پھانسی ہوئی اور ریاست ضبط کی گئی، نوکر چاکر تباہ اور برباد ہوئے اور ان کے رشتے دار اور اہل و عیال جلا وطن کیے گئے۔ مردوں کو لودھیانہ جانے کا حکم ہوا۔ اور عورتوں کو یہ اجازت ملی کہ چاہیں لودھیانہ رہیں با جھجر کے سوا جہاں مرضی ہو وہاں۔ خیر ان سب میں میرے شوہر کو بھی لودھیانہ جانے کا حکم ملا۔
میری ساس کا خط ابا جان کے نام آنا:
اس پر نورگل بیگم جو میری ساس تھیں، انہوں نے اس مضمون کا ایک خط میرے ابا جان کے نام لکھا کہ ہم کو لودھیانہ جانے اور وہاں کے رہنے کا حکم ہوا ہے، اس لیے آپ کو لکھتی ہوں کہ آپ میری بہو شہر بانو بیگم کو بھی میرے ساتھ کر دیں کہ میں انہیں اپنے ہمراہ لودھیانہ نے جاؤں گی۔ کوئی پہر دن باقی ہو گا، دیکھتی کیا ہوں کہ ابا جان اداس چہرہ بنائے ہاتھ میں خط لیے چلے آتے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بے اختیار رونے لگے۔ انہیں روتا دیکھ کر میں بھی رونے گی۔ اماں جان نے جو رونے کی آواز سنی، وہ بے تحاشہ دوڑیں اور آن کر کہنے لگیں۔ "اے ہے خدا کے لیے کہو تو سہی
صفحہ 53
کیا ہوا۔" اس وقت ابا جان نے وہ خط پڑھ کر سنایا۔ بس کیا (کہوں) خط کا سننا تھا کہ سب کے عقل کے طوطے اڑ گئے۔ کہ ہے ہے یہ کیا ہوا۔ اور مجھے تو یہ سناٹا تھا کہ ہائے آب وطن چھوٹے گا۔ ماں باپ سے جدا ہوں گی (پرائے) شہر جانا پڑے گا۔ اور سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔ کہتے تھے کہ "جھجر والے کا خاندان کا خاندان مجرم ٹھہرا۔ وہ سب کے سب لودھیانہ جا کر قید کر لیے جائیں گے۔ اور پھر وہاں سے آنے نہ پائیں گے۔" میں ہر ایک کی سنتی تھی اور ایک ایک کا منہ تکتی تھی۔ اور کہتی تھی الہیٰ یہ آفت آسمانی جو نازل ہوئی تھی، میرے ہی سر پڑی۔ یہ غدر جو ہوا تھا میری ہی بربادی کے لیے ہوا تھا۔ بس زار و زار روتی تھی اور رو رو کر اپنی جان کھوتی تھی۔ میرا یہ حال دیکھ کر سہیلیاں بولیں کہ "بیگم کیوں اپنا جی کھوتی ہو، جو اس طرح بلک بلک کر روتی ہو۔ وہ دن خدا دکھائے گا کہ تم کو پھر ساتھ خیر کے یہاں لائے گا۔" بھلا ایسے دلاسوں سے مجھے چین کہاں۔ جان زار و نزار تھی اور دل ہے قرار تھا۔ کھانا کیسا اور نیند کیسی۔ جب ابا جان نے میرا یہ حال دیکھا تو گھبرا گئے اور کہنے لگے، میں تو لڑکی کو نہیں بھیجتا۔ ارادہ موقوف کرو۔ لیکن اماں جان نے نہ مانا اور میرا بھیجنا ہی مناسب جانا۔ سفر کی تیاری شروع کی۔
لودہیانہ کے سفر کے حالات
اول جھجر کا جانا:
جب میں جھجر روانہ ہوئی ہوں تو مجھے یاد ہے کہ شعبان کا آخری دہا تھا۔ اس روز کی حقیقت کیا کہوں۔ پاٹودی میں اس دن اسی اداسی چھائی ہوئی تھی کہ اپنا پرایا جو تھا غمگین تھا اور میرے والدین کا تو یہ حال تھا کہ جیسے بن پانی کی مچھلی تڑپتی ہے۔ ہائے میری اماں جان کی بے قراری و آہ و زاری سے تو کلیجے کے ٹکڑے اڑتے تھے۔ آخر دادی اماں نے اماں جان کو سمجھایا، کہا کہ "بیوی خدا سے خیر مانگو۔ دعا دینے کا
صفحہ 54
وقت ہے۔ اللہ اس کو اس کے سسرال میں آباد و شاد رکھے اور پھر صحیح سلامت یہاں لائے۔ خدا کرے یہ ست پوتی ہو اور بوا بیٹیوں کا تو یہی معاملہ ہے۔ کیسی کیسی مصیبتوں سے پالا پرورش کیا۔ پر یہ دھن پرائے کا پرایا کیا کریں۔ کچھ بن نہیں آتا۔ ورنہ شہر بانو بیگم کو کبھی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیتے۔ بس اٹھو اور اس کے سوار کرنے کی تیاری کرو" غرض سمجھا بجھا کر ان کو اٹھایا۔
ادھر میرا یہ حال تھا کہ جبھی حیرت میں نقش دیوار ہو جاتی تھی کبھی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگاتی تھی۔ اتنے میں مانی نے آن کر کہا کہ بیگم سواریاں تیار ہو کر آ گئیں پالکی دیوہڑی (دیوڑھی) پر لگی ہے، رتھیں قلعہ کے گھوگس میں کھڑی ہیں۔ سنتے ہی کلیجہ دھک ہو گیا۔ اسی وقت ابا جان آئے۔ مجھ سے مل کر بہت روئے اور دلاسا دے کر کہنے لگے "اچھا بیٹا سدھارو، میں تم کو اللہ کی امان میں رخصت کرتا ہوں۔ اور خدا چاہے تو جلدی بلا لوں گا۔ تم گھبرانا نہیں اور جی نہ کڑھانا۔" اماں جان نے مجھے کو لے میں بھر کر گود میں اٹھا لیا اور سب نے گلے لگایا۔ اور کہا کہ "لو بیوی، بسم اللہ کر کے سوار ہو، تمہارا اللہ بیلی، اللہ نگہبان، امام ضامن کی ضامنی، جس طرح تم ہمیں پیٹھ دکھاتی ہو، اسی طرح خدا تمہارا منہ دکھائے، غم دوری دلوں سے دور ہو جائے۔" خیر جبرا قیرأ سوار ہوئی۔ سوار ہوتے ہوتے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی تھی اور کہتی تھی بیت :
چلے جائیں گے اس جا کام ناکام
جہاں کا آ سکے نامہ نہ پیام
ہائے ماں باپ سے یہ آخری ملنا تھا اب قید فرنگ میں جاتی ہوں, کیوں کر رہائی پاؤں گی، جو پھر ان سے ملنے کو آوں گی۔ قہر درویش برجان درویش۔ ہم پاٹودی سے روانہ ہو کر قریب شام جھجر پہنچے۔ میری والدہ میرے ساتھ تھیں اور ایک استانی جی، ایک ددا اور ایک مانی، دو کنیز دو مامائیں، گو میری اتنی رفیق میرے ساتھ تھیں لیکن دل میں وہی کھٹکا لگا ہوا تھا کہ دیکھیے پھر بھی آنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔ اگرچہ میرے ابا جان نے میری آمد و رفت کے باب میں انگریز حاکموں سے بخوبی پختگی کر لی تھی، مگر اس پر بھی میری مایوسی بدستور تھی۔
صفحہ 55
جھجر سے لودہیانے کو جانا:
آخر رمضان کی ساتویں یا آٹھویں تاریخ 1274 ہجری میں لودہیانے کو ہم سب کا کوچ ہوا۔ اماں جان تو پاٹودی واپس چلی آئیں اور میں اپنی سسرال والوں سمیت کو لودھیانہ روانہ ہوئی۔ روز کا سفر ماں باپ کی جدائی کا غم، طبیعت نہایت اداس رہتی تھی۔ لیکن یہ غنیمت تھا کہ میری دو بہنیں کبریٰ بیگم اور کلثوم بیگم بھی میری شریک سفر تھیں۔ اس لیے کہ میری سسرال کے خاندان میں ان دونوں کی بھی شادیاں ہوئی تھیں۔ بس بوا رات بھر چلتے، صبح کو منزل پر اترے۔ گرمی کے دن تھے اور ریل ان دنوں میں تھی نہیں۔ ہزار بارہ سو آدمیوں کا قافلہ تھا۔ کچھ عورتیں تو پانی پت میں ہی رہ گئیں، کیونکہ ان کو وہیں رہنے کی اجازت ملی تھی۔ باقی قافلہ سیدھا لودہیانے کو چلا گیا۔
قافلے کا لودھیانہ پہنچنا:
خدا خدا کر کے بیس دن کے عرصے میں لودھیانہ پہنچے۔ شاید رمضان شریف کی 28 تاریخ تھی۔ کیونکہ ہم نے عید کا چاند اور لودھیانہ میں جا کر دیکھا تھا۔ وہاں کے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے ہم سب کے لیے پہلے سے مکان کا انتظام کر رکھا تھا۔ پرانی سرائے جو وہاں مشہور ہے وہ ساری کی ساری خالی کرا رکھی تھی۔ اس میں جا کر اترے مگر قافلہ بڑا تھا۔ گنجائش نہ ہوئی۔ اس واسطے لوگوں نے کرائے کے مکانات لے کر سکونت اختیار کی۔ مگر میری ساس اور ان کے سب متعلقین سرائے میں رہے۔ میرا یہ حال کہ دل اچاٹ رہتا۔ کیوں کہ نیا شہر نئے لوگ۔ سسرال میں بھی اتنا رہنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اول اول نہ کسی سے شناسائی نہ ملاپ، عجب طرح کی کشمکش میں مبتلا تھی۔
ساس کی ناحق کی خفگی:
اس پر طرہ یہ ہوا کہ خوش دامن صاحبہ کی ناحق کی خفگی مجھ پر ہونی شروع
صفحہ 56
ہوئی۔ وہ خوش دامنی کا نازیبا داب بٹھانے لگیں۔ صبح کو سلام کرنے کے لیے گھڑیوں کھڑی ہوں، آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔ چپ، ششدر ہوں کہ الہیٰ کیا کروں۔ کوئی خطا ہو تو معاف کراؤں۔ میرے میکے سے خط آتا ہے اور کسی کنیز یا ماما نے جا کر کہا کہ بیوی پاٹودی سے خط آیا ہے، تو اس کو جواب یہ دیتیں کہ پھر میں کیا کروں۔ کبھی خدا کی بندی نے یہ نہ پوچھا کہ خیر صلاح تو ہے یا اگر کوئی پیار ہے تو وہ کیسا ہے۔
میں اپنی ہمجولیوں میں بیٹھی ہوئی اگر کسی بات پر ہنس پڑتی تو کہتیں، "تمہیں کیا دکھائی دیا جو ہنستی ہو؟" اور جو مجھے کبھی اپنے ماں باپ یاد آئے اور میں رونے گئی تو پوچھتیں "کیا تمہارا کوئی مر گیا ہے یا سناونی آئی ہے جو روتی ہو۔" ناک میں دم آ گیا۔ میرے ساتھ کے جو آدمی تھے وہ بھی زچ ہو گئے۔ ایک دن استانی جی نے انور محل صاحبہ سے، جو میری سوتیلی ساس تھیں، جا کر کل حقیقت بیان کی:
سوکن کا سوکن کو سمجھانا:
انہوں نے آ کر میری ساس کو بہت سی ملامت کر کے اور پس و پیش سمجھا کر کہا کہ "دیکھو بہو کے ساتھ ایسا برتاؤ برتو جیسے دنیا جہاں کا دستور ہے۔ وہ بات نہ کرو جس میں لوگ تمہیں نکو بنا دیں۔ بہو کو شفقت اور دلاسے سے رکھو، کیوں کہ وہ ابھی نادان ہے نگوڑی نو برس کی جان ہے۔ پہلے ہی پہل وہ اپنے ماں باپ سے جدا ہوئی ہے۔ انہوں نے صرف تمہارے ہی بھروسے پر سینکڑوں کوس بھیج دیا ہے۔ کیا اس کے بدلے تمہیں یہی چاہیے کہ تم اس کے خون کی پیاسی ہو جاؤ۔ خدا کو کیا منہ دکھاؤ گی۔ آخر پچھتاؤ گی۔ اور دیکھو اپنی عزت اپنے ہاتھ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ تمہاری برابری میں جواب دینا سیکھ جائے تو کیا بات رہ جائے گی۔ علاوہ اس کے وہ کوئی غریب فقیر زادی تو نہیں ہے۔ امیر کی لڑکی ہے، اگر اس کے ماں باپ کو خبر ہو گئی تو کیسی تھڑی تھڑی ہو گی۔ بوا خدا کو مانو، ایسی باتوں سے باز آو۔ بہو کی دل داری کرو۔ گلے سے لگاؤ" ہزار طرح سے سمجھایا، مگر بھلا وہ کب مانتی تھیں۔
صفحہ 57
میری ددا اور سانس کی تکرار:
آخر ایک دن میری ددا اور ساس میں خوب چخ ہوئی۔ ددا بھی بھری تو بیٹھی تھی، ایسے پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑیں کہ انہیں پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا۔ پر بوا، مجھے تو ہمیشہ بک بک جھک جھک کرنے سے چڑ رہی ہے، جلتی بیٹھتی مگر دم نہ مارتی۔ چپ لگ گئی تھی۔ اور ایسا حال ہو گیا تھا کہ اچھی طرح نہ کھاتی تھی نہ پیتی تھی۔ رنگت زرد، آنکھوں میں حلقے، چہره اداس، صورت غمگین۔
استانی جی کا سمجھانا
ایک روز استانی جی نے مجھے دیکھ کر کہا کہ "بیگم ایسی چپ چپ کیوں رہتی ہو، بہو، ساس، نندوں کا تو ایسا ہی معاملہ ہے۔ ابھی سلامتی سے تمہارے میاں نادان ہیں۔ جس وقت ماشاء اللہ ہوشیار ہو جائیں گے، اپنے نیک و بد کو آپ سمجھنے اور اپنی بگڑی باتوں کا آپ بندوبست کرنے لگیں گے تو یہ سارے جھگڑے ٹنٹے جاتے رہیں گے۔" میں نے جواب دیا کہ "ہے ہے استانی جی، اتنی مدت تک یہ ظلم مجھ پر ہوتے رہیں گے اور میں اس ہر دم کی کوفت سے جب تک کیوں کر زندہ بچوں گی۔ استانی جی میں نے تو ایسی ساس نہ کسی کی سنی نہ دیکھی۔ میں تو ایسی زچ ہوئی ہوں کہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہوں۔ جو بات ہے سو ٹیڑھی، جو ادا ہے سونرالی۔" اس پر ددا نے کہا کہ "استانی جی، خدا خدا کرو، نوج ایسی ساس کسی کی ہو۔ دیکھتی ہو کہ بات بات پر لڑکی سے الجھتی ہیں۔ انھوں نے سمجھا کیا ہے۔ اب وہ ایک کہیں گی تو دس سنیں گی۔ کیوں کہ صبر کی حد ہو چکی۔ اب ہم سے نہیں رہا جا تا۔ تم کو یاد ہے، جس دن میرے منہ لگی تھیں تو میں نے کیسے کیسے جواب دیے تھے۔ چپ ہی تو ہو رہیں۔" بوا، چھے مہینے میں وہاں رہی، اس تکا فضیحتی میں کٹی۔
صفحہ 58
ابا جان کا خط میری ساس کے نام آنا اور میرا پاٹودی جانا:
چھے مہینے کے بعد ابا جان نے ایک خط میرے بلاوے کا میری ساس کے نام لکھ کر صوبیدار اسمعیل خاں کے ہاتھ بھیجا۔ اور دس سوار چار پہرے سپاہیوں کے ان کے ساتھ کیے۔ جس دن اسمعیل خاں مع اپنے ہمراہیوں کے لودھیانہ میں پہنچے ہیں اور انھوں نے وہ خط میری ساس کو دیا ہے اور اس کا مضمون مجھے معلوم ہوا ہے، اس روز کی خوشی کا کیا بیان کروں۔ مارے خوشی کے خود بخود تھیں کہ باچھیں کھلی جاتی تھیں اور یہ جی چاہتا تھا کہ اگر پر ہو جائیں تو اسی وقت اڑ کر چلی جاؤں۔ سہیلیاں آن آن کر چپکے چپکے مبارک باد دیتی تھیں۔ اور میں باغ باغ ہوتی تھی۔ چار پانچ روز اسمعیل خان، لود ہیانہ میں رہے۔ میں نے وہ دن گن گن کر کاٹے۔
لودہیانہ سے پاٹودی کو آنا:
چھٹے روز لودھیانہ سے روانہ ہوئی۔ منزل بمنزل چلتے تھے۔ چودہ پندرہ روز میں دہلی آئے۔ یہاں پہنچ کر ایک سوار کو پاٹودی روانہ کیا۔ اس نے جا کر وہاں میرے آنے کی خبر پہنچائی۔ سن کر ماں باپ کی جان میں جان آئی۔ دوسرے روز دہلی سے روانہ ہوئی اور گوڑ گاؤں میں پہنچ کر قیام کیا۔ شب وہاں گزار کر پاٹودی کا رخ کیا۔
بڑے بھائی صاحب کا پیشوائی کو آنا:
آدھی منزل طے کی ہو گی ، سنتی کیا ہوں کہ بڑے بھائی جان محمد تقی علی خاں صاحب مرحوم میرے لینے کے واسطے چلے آتے ہیں۔ قریب آئے تو سواریاں دیکھتے ہی گھوڑے پر سے کود پڑے۔ آن کر مجھ سے ملے۔ رتھ میں سے اتار کر پالکی میں سوار کیا۔ نو بجے کے قریب پاٹودی میں پہنچے، محل میں اترے۔ اماں جان نے بلائیں لیں۔ گلے سے لگایا، پیار کیا۔ ابا جان مل کر بہت خوش ہوئے۔ دور نزدیک سے مبارک باد کی
صفحہ 59
صدا پیدا ہوئی۔ مہمان آنے لگے۔ ڈومنیاں مبارک باد گانے لگیں۔ پیر دیدار کا کونڈا ہوا۔ بیوی کی نیاز دلائی۔ رات بھر رت جگا رہا۔ میں نے سسرال کا سارا قصہ سنایا، کبھی ہنسایا کبھی رلایا۔ پھر تو بوا ہم سوا برسں میکے میں رہے۔ نہایت خوش و خرم نہ کسی کا فکر غم۔ اپنی ہم جولیاں تھیں اور ہم۔ خوب آرام سے گزری۔ بعد سوا برسں کے پھر ساس نے بلاوا بھیجا۔ جی تو ہر گز جانے کو نہ چاہتا تھا، مگر ناچار روانگی کی تیاری کی۔
پاٹودی سے لودھیانہ کو جانا:
اور آخر ماں باپ بہن بھائیوں سے رخصت ہو کر ایک روز لودھیانہ کو روانہ ہوئی۔ اور رستے کی منزلیں طے کر کے سسرال میں پہنچی۔ اپنی ساس کو جو دیکھتی ہوں تو وہی بد مزاجی، بدزبانی، خود پسندی، جنگ جوئی۔ میں نے بہتیرا چاہا کہ اپنا ادب رکھیں اور میری زبان نہ کھلوائیں۔ اول اول تو بہت سا ٹالا، پر وہ کب مانتی تھیں۔ روز کی جھک جھک سے میرا دل جل گیا تھا۔
ساس بہو کا تکرار:
ایک دن یاد نہیں کیا بات تھی۔ اس پر جو وہ اپنی عادت کے موافق بھبک کر بولیں، ایسے کہ گویا ابھی کھا جائیں گی، تو بوا میں نے بھی ایسا پتھر توڑ جواب دیا کہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔ کیا کرتی کہاں تک سنتی، کلیجے میں آبلے پڑ گئے تھے۔ پھر تو اس کا خوب چرچا ہوا۔ رفتہ رفتہ انور محل صاحبہ کو بھی خبر پہنچی۔ انھوں نے میری ساس کو آن کر بہت شرمایا۔ اور کہا "کیوں، ہم نہ کہتی تھیں کہ تم ناحق بہو کے سر نہ ہوا کرو۔ اب راضی رہیں۔ دیکھو آخر ناچار ہو کر وہ بھی دو بدو جواب دینے آ گئی نا۔ بڑی شرم کی بات ہے۔ تم نے اپنا وقار اپنے ہاتھوں سے کھویا۔ ابھی کیا ہے، اگر تم اسی طرح روز کی رد و کد رکھو گی تو آئندہ دیکھنا کہ وہ تمہارا کیسا کھوجڑا کھوتی ہے۔ آخر شریف زادی، امیر زادی ہے، کوئی پجوڑی تو نہیں ہے۔" غرض انھوں نے ایسا جھنجھوڑا
صفحہ 60
کہ شرمندگی کے مارے عرق عرق ہو گئیں۔ اس روز سے میرے منہ تو پھر وہ لگی نہیں، میرا پیچھا تو چھوٹا۔ گو وہ تا مرگ میرے خون کی پیاسی رہیں مگر پھر میری طرف کوئی بدزبانی وغیرہ کا حملہ نہیں کیا۔ اس پر چند ہی روز گزرے تھے،
بھائی جعفر علی خاں کی شادی کا حال:
میرے بھائی محمد جعفر علی خاں صاحب مرحوم کا بیاہ رچا۔ ان کی برات لودھیانہ میں آئی۔ کیوں کہ میری ایک سوتیلی نند ان سے منسوب ہوئی تھیں۔ زیادہ اس سبب سے کہ امید تھی بیاہ کے بعد میں بھی بھائی کے ہم راہ اپنے میکے جاؤں گی۔ بس جب شادی ہو چکی اور برات رخصت ہونے لگی تو بھائی نے آن کر میری ساس سے کہا کہ "اگر آپ اجازت دیں تو میں بہن کو اپنے ساتھ لے جاؤں۔" پر بوا، وہ تو طوطے کی طرح دیده بدل گئیں، صاف انکار کر دیا۔ میری سوتیلی ماں اور بھائی نے بہتیری منتیں کیں، ہاتھ تک کے جوڑے، انھوں نے ایک نہ سنی۔ اور مجھ کو نہیں بھیجا۔ میں نے رو رو کر بہتیری اپنی نکڑی اڑائی مگر وہ ایسی سنگدل تھیں کہ ذرا بھی نہ پسیجیں۔ ناچار بھائی بیچارے، آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے ان کے پاس سے اٹھ کر میرے پاس آئے۔ مجھے بہت سے دلاسے دے کر سوار ہو گئے۔ میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی لیکن خدا کے واری جاؤں کہ اس نے میری آہ و زاری اور بے قراری پر رحم کیا اور ایسی داد دی کہ دو مہینے نہ گزرے تھے جو دلہن کی ماں نے میری ساس سے کہا کہ "بوا تم پاٹودی جاؤ اور میری بیٹی کو جا کر لے آؤ" ہر چند انہوں نے ٹالے بالے بتائے، مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور ایسا دبایا کہ بغیر جائے کچھ بن نہ آیا۔
لودہیانہ سے پاٹودی کو آنا:
غرض لودھیانہ سے روانہ ہوئے اور منزل بمنزل چل کر پاٹودی میں پہنچے۔ میں بھی شکر خدا کا بجا لائی۔ یوں کہ ساس کے ہم راہ اپنے میکے میں آئی۔ وہ پاٹودی آ