بیتاب کررہا ہے تیرا پھول سا لہجہ

بیتاب کررہا ہے تیرا پھول سا لہجہ
تیری ہنسی نئے موسموں کی خوشبو جیسے
کرلیں ہوائوں نے سازشیں موسم سے
چھو کہ آئ ہو تیرا بدن جیسے
تیری طرح ہم بھی تھے رہے معتبر مگر
یوں انا پرستی میں اعتبار اٹھ گئے جیسے
سفر سے قبل ہی تھکان یوں اتر آئ
صدیوں کے ہوں ہجر میں جیسے
میں سچ کہہ کہ بھی یونہی ہارتا رہا
وہ جھوٹ بول کہ بھی جیتے ہوں جیسے
 

نایاب

لائبریرین

نور وجدان

لائبریرین
واہ جناب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا خوب کہا ہے خیال اچھا ہے مگر یہ بحر کونسی ہے ؟ مجھے اس کی بحر ملی نہیں ہے
 
Top