بہکا دیا تھا دِل کو غریبانہ حال نے

بہکا دیا تھا دِل کو غریبانہ حال نے
شرمندہ کر دیا مجھے میرے سوال نے


بے حد بُری یہ میری تمنّائے شوق تھی
اُجڑا چمن بنایا تگ و دوئے مال نے


خالی تھے ہاتھ کوئی بھی زادِ سفر نہ تھا
ہجرِجہاں کمایا میری خام چال نے


ذوقِ نمو جو مِٹ گیا بنجر ہوا وجود
قیدی بنا لیا تھا اُمیدوں کے جال نے


اِک ذکر نے سہارا دے رکھّا تھا یوں فقط
سوکھے شجر کو جیسے تروتازہ ڈال نے


قصّہ تھا اِک غلام سا اپنی حیات کا
آخر سکوں رضا دیا مرگِ کمال نے
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے رضا سلیم صاحب۔ مطلع لاجواب ہے، واہ، کیا کہنے!

خالی تھے ہاتھ کوئی بھی زادِ سفر نہ تھا
دورِ ہجر کمایا میری خام چال نے

اس شعر میں 'ہجر' غلط تلفظ یعنی 'ہجَر' بندھ گیا ہے، صحیح تلفظ جیم ساکن کے ساتھ ہے یعنی بروزنِ فکر یا وصل یا درد ہے۔

قصّہ تھا اِک غلام سا اپنی حیات کا
آخر سکوں دیا رضا مرگِ کمال نے

میرے خیال میں تخلص کا 'الف' گرانا درست نہیں ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
محمد رضا سلیم صاحب! اس خوبصورت غزل کی تخلیق پر بہت مبارک باد اور شیئر کرنے پر آپ کا شکریہ!
وارث صاحب! میں بھی انھی دو اشعار کے متعلق یہی لکھ رہا تھا۔ آپ کا بھی شکریہ!
 
اچھی غزل ہے رضا سلیم صاحب۔ مطلع لاجواب ہے، واہ، کیا کہنے!



اس شعر میں 'ہجر' غلط تلفظ یعنی 'ہجَر' بندھ گیا ہے، صحیح تلفظ جیم ساکن کے ساتھ ہے یعنی بروزنِ فکر یا وصل یا درد ہے۔



میرے خیال میں تخلص کا 'الف' گرانا درست نہیں ہے۔


رہنمائی کا شکریہ وارث صاحب
میں درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں‌ انشااللہ
 

محمد وارث

لائبریرین
درست ہو گئے رضا صاحب۔

خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ بخوبی اور بہ آسانی یہ کام کر سکتے ہیں اور مزید خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ آپ نے برا نہیں مانا :)
 
Top