بہشت سے جو گِرا ہوں سیدھا میں خاک پر

ابن تراب

محفلین
بہشت سے جو گِرا ہوں سیدھا میں خاک پر
سوچتا ہوں یہ کیا ہوا؟ بیٹھا میں خاک پر

بندِ قبا بھی چاک ہے، برہنہ پا بھی ہوں
پُتلا بنا کے خاک کا، بیٹھا ہوں خاک پر

ہے ہجرِ بے کراں کا گذر آج کل یہاں
مَر مَر کے جی رہا ہوں، تڑپتا ہوں خاک پر

رہتے ہیں وہ دل مضطر میں اے رضا
مالک ہیں عرش کے، مگر عنایت ہے خاک پر

برادرانِ من میرا یہ پہلا کلام ہے جو میں باقاعدہ آپ لوگوں کے حوالے کر رہا ہوں اصلاح کیلئے

اب آگے آپ برادران و خواہران کی مرضی ہے جیسے بھی اس کی اصلاح کریں
 
ماشاءاللہ بہت خوب..... جناب مشقِ سخن جاری رکھئے.... اللہ پاک اپنی اور اپنے حبیب علیہ السلام کی حمد و ثنا کے گیت آپ کی زبان سے جاری فرمائے آمین
 

الف عین

لائبریرین
غزل میں ایک ضروری چیز ردیف قافیہ بھی ہوتا ہے۔ اس غزل میں خاک پر ردیف کے علاوہ قوافی درست موجود نہیں، بلکہ ردیف بھی مطلع میں ’میں خاک پر‘ ہے۔
اس کو درست کرنے کے علاوہ کئی مصرعے بحر سے خارج ہیں۔
 
Top