تعارف بہت مختصر سا تعارف ہے میرا

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
نجانے کیوں لگ رہا ہے کہ بندوق کا رُخ ہماری طرف ہے۔
مار کٹائی کی امید چھوڑ دیجئیے بالکل۔
ایکشن کا عنصر بھی کم کم ہی ملے گا۔ البتہ ڈائریکشن پر مرکوز رہنا اہم ہے۔
ڈائریکشن پر مرکوز رہنا ہی اہم ہوتا ہے۔۔۔ واقعی سمجھدار تو ہم پہلے بھی تھے ہی۔ نجانے لوگ کیوں انڈر اسٹیمیٹ کر جاتے ہیں۔
مار کٹائی سے تو دور کا واسطہ نہ رہا ۔ محفل کے ڈھائی سال گواہ ہیں اس بات کے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
شاید مزاج پر کچھ ایسی کیفیت طاری ہے اس لڑی کو شروع سے کھنگال کر۔۔۔
دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچے گا
جسکو دیکھو اسکا دامن بھیگا لگتا ہے

دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتیں ہیں
شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
یہاں تو سب محاذ بنائے بیٹھے ہیں۔
اوہ تو عادت نہ بدلی شروع سے آپ سب نے۔۔۔ وہ محاذ جو ہمارے آنے پر آپ سب نے مل کر بنایا تھا، آج بھی قائم و دائم ہے۔ اور ہم وہی اکیلے کے اکیلے۔ کبھی ایک کی ڈانٹ سنتے ہیں اور کبھی دوسری طرف سے کھنچائی ہونے لگتی ہے۔ مجال ہے جو کبھی کوئی ہماری حمایت میں ہمارے ساتھ کھڑا ہوا ہو کبھی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اف خدایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے ڈائیلاگ تو اس وقت ڈراموں میں سننے کو ملتے ہیں جب کسی کو رشتہ کے لئے پسند کرنے ان کے ہاں جایا جائے۔
بس جملہ تھوڑا ادھورا رہ گیا آپ کا۔
یعنی کہ تب بھی ہمیں ایسا ہی گمان گزرا تھا اور آج بھی کچھ دیر پہلے آپ کے اس مراسلے پر کچھ ملتا جلتا ہی جواب دیا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جی آیاں نوں:)
آپ آئیں اور واقعی بہار آئی (اسلام آباد میں بہار کا موسم ہے نا)
آپ نے اپنے تعارف میں چائے اور چائے کے مگ کا ذکر نہیں کیا۔۔۔چلیں کوئی بات نہیں ہم بتائے دیتے ہیں سب کو:)
آپ اور سیما آنی ہماری چائے buddies ہیں آج سے بولیے منظور؟؟؟
منظور بھی اور قبول بھی۔۔۔۔ چائے میں تو اپنی جان اٹکی رہتی صبح سویرے۔
اس کے بعد تو چائے کون گل کون۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جی جی منظور۔
چائے کاذکر اس لئے نہیں کیا کہ بندروں کا کر چکے تھے۔ اب یہ ذکر بھی چھیڑ دیتے تو داستان امیر حمزہ بن جانی تھی۔
چائے کا مگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں لگتا کہ اردو میں مگ کی جمع بھی مگ ہی ہوتی ہو گی۔ ایک خزانہ ہے۔ رنگ بدل بدل کر پیتے ہیں۔جیتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ نجانے کتنے مزید مگوں کا اضافہ ہو گیا۔ چند ایک ٹوٹے بھی۔۔۔ مگر ٹوٹنے ہی کے لئے تھے۔
دل تھوڑی نہ تھے کہ ٹوٹنے پر بازار سے اور لائے نہ جا سکتے۔
 
Top