بہت عرصے بعد ایک تُک بندی

دوست

محفلین
بہت عرصے بعد ڈرتے ڈرتے کچھ لکھا اور ڈرتے ڈرتے جناب وارث صاحب کو ذ پ کیا۔ حیرت کی بات ہے ایک بھی غلطی نہیں نکلی :) یعنی میں لائق ہوگیا ہوں اب۔ وارث صاحب کے مطابق یہ بحر ہندی میں ہے۔ فدوی کو تو اتنا پتا ہے کہ اس کا پیٹرن یہ بنتا ہے: 2 2 1 1 2 2 2 2
-------------
تم پاس رہو تو کیا ہے
تم آس رہو تو کیا ہے
پاگل سے بے کل اس من کی
تم پیاس رہو تو کیا ہے
بے روح سے تن میں بن کر
احساس رہو تو کیا ہے
اس عام سے انساں کے لیے
تم خاص رہو تو کیا ہے
کچھ راس نہیں ہے مجھ کو
تم راس رہو تو کیا ہے
--------------
وسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب ہے شاکر صاحب۔

ایک بات میں بھی بھول گیا تھا، خاص کا قافیہ، احساس پیاس وغیرہ کے ساتھ۔ اصولی طور پر تو غلط ہے کہ سین اور صاد دو علیحدہ علیحدہ اور اصلی حرف ہیں، لیکن آج کل کی جدید شاعری میں اس کو روا مانا جاتا ہے اور اس کو صوتی قافیہ کہتے ہیں۔

بے روح سے تن میں، بن کر
احساس رہو تو کیا ہے

بہت خوب۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ شاکر، اچھی چیز ہے، چیز اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بطور نظم تو مکمل درست ہے اور وزن میں ہے، لیکن اگر غزل ہے تو کم از کم دو مصرعے بحر سے خارج ہو رہے ہیں، یعنی ارکان کی تعداد بڑھ گئی ہے
پاگل سے بے کل اس من کی
اور
اس عام سے انساں کے لیے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ اعجاز صاحب، چونکہ شاکر صاحب نے مجھے غزل دکھائی تھی اور میں نے "او کے" کر دیا اور انہوں نے لکھ بھی دیا سو اخلاقی طور پر میں پابند ہوں کہ اس کے وزن پر بات کروں :)

دراصل اس غزل کی تقطیع "فعلن فعلن فعلن فع" پر ہو گی اور کوئی بھی سببِ خفیف، سببِ ثقیل میں بدلا جا سکتا ہے۔ جو پیٹرن (بحر) اشاری نظام میں شاکر صاحب نے لکھی ہے (مفعول مفاعیلن فع) وہ اس کی بحر بنتی نہیں بلکہ سرے سے یہ کوئی بحر ہے ہی نہیں اور اگر اس کو دھیان میں رکھیں گے تو آپ کا اعتراض واقعی درست ہے۔

لیکن اصل میں یہ غزل، بحرِ ہندی میں صحیح تقطیع ہوتی ہے جس میں ارکان کی تعداد بھی شاعر خود منتخب کرتا ہے اور کسی خفیف کو ثقیل میں توڑنے کی اجازت بھی ہوتی ہے، اور اس ساری غزل میں تیسرا سببِ خفیف، سببِ ثقیل میں ٹوٹ رہا ہے، اور ایک آدھ جگہ کچھ اور بھی خفیف ٹوٹے ہیں جیسے

تم پاس رہو تو کیا ہے

تم پا / فعلن
س ر ہو / فَعِلن / خفیف ثقیل میں بدل گیا
تو کیا / فعلن
ہے / فع

اسی طرح جن دو مصرعوں کی آپ نے نشاندہی کی ہے، وہ اس تقطیع سے موزوں رہیں گے

پاگل سے بے کل اس من کی

پاگل / فعلن
سِ بِ کل / فَعِلن / یعنی خفیف کو ثقیل میں توڑا
اس من / فعلن
کی / فع

اس عام سے انساں کے لیے

اس عا / فعلن
م سِ ان / فَعلِن / خفیف ثقیل میں بدلا
سا کِ لِ / اس میں بھی چھٹا خفیف پھر ثقیل میں ٹوٹا
یے / فع

امید ہے میں اپنی بات کی وضاحت کر پایا ہوں۔

والسلام
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ اعجاز صاحب، چونکہ شاکر صاحب نے مجھے غزل دکھائی تھی اور میں نے "او کے" کر دیا اور انہوں نے لکھ بھی دیا سو اخلاقی طور پر میں پابند ہوں کہ اس کے وزن پر بات کروں :)

دراصل اس غزل کی تقطیع "فعلن فعلن فعلن فع" پر ہو گی اور کوئی بھی سببِ خفیف، سببِ ثقیل میں بدلا جا سکتا ہے۔ جو پیٹرن (بحر) اشاری نظام میں شاکر صاحب نے لکھی ہے (مفعول مفاعیلن فع) وہ اس کی بحر بنتی نہیں بلکہ سرے سے یہ کوئی بحر ہے ہی نہیں اور اگر اس کو دھیان میں رکھیں گے تو آپ کا اعتراض واقعی درست ہے۔

لیکن اصل میں یہ غزل، بحرِ ہندی میں صحیح تقطیع ہوتی ہے جس میں ارکان کی تعداد بھی شاعر خود منتخب کرتا ہے اور کسی خفیف کو ثقیل میں توڑنے کی اجازت بھی ہوتی ہے، اور اس ساری غزل میں تیسرا سببِ خفیف، سببِ ثقیل میں ٹوٹ رہا ہے، اور ایک آدھ جگہ کچھ اور بھی خفیف ٹوٹے ہیں جیسے

تم پاس رہو تو کیا ہے

تم پا / فعلن
س ر ہو / فَعِلن / خفیف ثقیل میں بدل گیا
تو کیا / فعلن
ہے / فع

اسی طرح جن دو مصرعوں کی آپ نے نشاندہی کی ہے، وہ اس تقطیع سے موزوں رہیں گے

پاگل سے بے کل اس من کی

پاگل / فعلن
سِ بِ کل / فَعِلن / یعنی خفیف کو ثقیل میں توڑا
اس من / فعلن
کی / فع

اس عام سے انساں کے لیے

اس عا / فعلن
م سِ ان / فَعلِن / خفیف ثقیل میں بدلا
سا کِ لِ / اس میں بھی چھٹا خفیف پھر ثقیل میں ٹوٹا
یے / فع

امید ہے میں اپنی بات کی وضاحت کر پایا ہوں۔

والسلام

بہت شکریہ تفصیل سے جواب دینے کا، آپکے جواب نے میرے علمِ ناقص میں کافی اضافہ کیا ہے۔ ایک بار پھر شکریہ۔
 

دوست

محفلین
تمام احباب کا پسندیدگی کے لیے شکریہ۔ :)
بحروں کا تو مجھے نہیں پتا سائیں۔ میں نے تو ہجا (syllable) کی تعداد اور قسم کو یکساں رکھنے کی کوشش کی۔ اور جسے آپ و گرانا، ی گرانا وغیرہ کہتے ہیں اسے میں شارٹ واؤل سمجھتا ہوں چناچہ جہاں بھی لانگ واؤل آجائے وہاں میں شارٹ میں بدلنے کی رعایت لے کر پیٹرن میں رکھ لیتا ہوں۔
خاص کے سلسلے میں عرض ہے کہ اردو میں س کی ہی آواز ہے، ص عربی کی آواز ہے۔ چناچہ خاص، آس، ساس، باس وغیرہ کی آخری آواز ایک ہی ہے جو کہ س ہے یعنی سیٹی جیسی آواز سا۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ مذکورہ دو مصرعے جن کی اعجاز صاحب نے نشاندہی کی، اور برادرم فیضان بھی گوگل بز پر کچھ ایسی ہی بات کرچکے ہیں، یہ مصرعے 8 ہجا کے پیٹرن پر پورے اترتے ہیں۔ پھر یہ خارج الوزن کیوں ہیں؟ کیا لیے کو لی یے پڑھا جاتا ہے؟ یا مذکورہ بحر میں، جیسا کہ کئی بحروں میں ہے، پیٹرن بدل جاتا ہے کسی خاص مصرعے پر آکر۔ وارث صاحب کے مضامین کی کچھ کچھ جھلکیاں یاد ہیں، ان میں کوئی بحر اچھی بھلی چلتی چلتی آخری مصرعے میں آکر کوئی ایک آدھ رکن بدل لیتی تھی۔ اگر بحریں ایسے کام کرتی ہیں تو ان کو یاد رکھنا تو بڑا مشکل کام ہے۔
 

دوست

محفلین
لو جی اب سمجھ آئی کہ "اس عام سے انساں کے لیے" میں آخر میں گڑبڑ ہوجاتی ہے، ہجا 9 ہوجاتے ہیں۔
لیکن "پاگل سے بے کل اس من کی" میں تو 8 ہی رہتے ہیں۔ :rolleyes:
 

محمد وارث

لائبریرین
لو جی اب سمجھ آئی کہ "اس عام سے انساں کے لیے" میں آخر میں گڑبڑ ہوجاتی ہے، ہجا 9 ہوجاتے ہیں۔
لیکن "پاگل سے بے کل اس من کی" میں تو 8 ہی رہتے ہیں۔ :rolleyes:

اس میں نہ 8 ہجے ہیں نہ 9، اس میں 7 ہجائے بلند ہیں (لانگ سلیبیلز)، ٹرک اتنی ہے کہ کسی بھی ہجائے بلند کو دو ہجائے کوتاہ میں توڑا جا سکتا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ بحور کی تعداد اتنی ہے کہ "کلام" کسی نہ کسی بحر میں خود ہی جا پڑتا ہے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
دوست;706263 خاص کے سلسلے میں عرض ہے کہ اردو میں س کی ہی آواز ہے، ص عربی کی آواز ہے۔ چناچہ خاص، آس، ساس، باس وغیرہ کی آخری آواز ایک ہی ہے جو کہ س ہے یعنی سیٹی جیسی آواز سا۔ [/QUOTE نے کہا:
اصولی طور پر یہ غلط ہے، اس استدلال کی رُو سے عین کی بھی اردو میں کوئی ضررورت نہیں، الف کافی ہے (آخر عبداللہ کو ہم کہتے تو اَبد اللہ ہی ہیں)، اسی طرح ذ، ز، ظ اور ت، ط اور ث، س، ص وغیرہ وغیرہ۔ اردو عربی سے جدا نہیں ہے، اردو کے سارے حروفِ تہجی عربی کے ہی ہیں۔ اگر عوام الف اور عین اور سین اور صاد میں فرق نہیں کرتی تو اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ یہ فرق موجود نہیں ہے اور نہ ہی غلط العوام کو فصیح کا درجہ حاصل ہے اور نہ ہی ایک شاعر اور ادیب غلط العوام کو رواج دیتا ہے بلکہ وہ تو زبان و ادب کا محافظ ہوتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
واہ سائیں ۔۔۔۔ کیا خوب غزل کہی ہے ۔

کچھ راس نہیں ہے مجھ کو
تم راس رہو تو کیا ہے

جون ایلیا دوم کی آمد لگ رہی ہے ۔ ;)
 

الف عین

لائبریرین
وارث، بحر ہندی سہی، تقطیع درست ہو سکتی ہے، لیکن الفاظ کا تلفظ بدلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
بےکل کو بِکل، اور لئے کو ’لی اے‘ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے۔
 

دوست

محفلین
اس میں نہ 8 ہجے ہیں نہ 9، اس میں 7 ہجائے بلند ہیں (لانگ سلیبیلز)، ٹرک اتنی ہے کہ کسی بھی ہجائے بلند کو دو ہجائے کوتاہ میں توڑا جا سکتا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ بحور کی تعداد اتنی ہے کہ "کلام" کسی نہ کسی بحر میں خود ہی جا پڑتا ہے :)
1۔ پا 2
2۔ گل 2
3۔ سے 1
4۔ بے 1
5۔ کل 2
6۔ اس 2
7۔من 2
8۔ کی 2
جناب اس میں کونسے دو ہجا اصل میں ایک ہی ہیں؟ میرے حساب سے نمبر 3 اور 4 ہجائے بلند بھی ہوسکتے تھے، اگر ان میں لانگ واؤل شمار کیا جاتا۔ وہی جسے ہم الف، یے وغیرہ گرانا کہتے ہیں۔
1۔ اس 2
2۔ عا 2
3۔ م 1
4۔ سے 1
5۔ ان 2
6۔ ساں 2
7۔ کے 2
8۔ لی 1
9۔ یے1 (لیے پر سمجھ نہیں آرہی یہ شارٹ ہوگا یا لانگ)
اس والے میں 9 بن رہے ہیں۔ سات کیسے ہونگے :cool:
آپ کو مجھ سے مغز ماری کرنی پڑ رہی ہے جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ لیکن شاعری میرے لیے اردو کی صوتیات سیکھنے کا ذریعہ بھی ہے۔ چناچہ میں املاء نہیں الفاظ اور سلیبل بننے کی بنیاد پر سوال کررہا ہوں۔
اردو میں سلیبل دو تین طرح سے بن سکتے ہیں۔
مصوتہ جیسے ب زبر با
مصوتہ - حرف صحیح جیسے اب
حرف صحیح-مصوتہ - حرف صحیح جیسے بد، باد (باد کو اردو شاعری میں با (ہجائے بلند) اور د ساکن ہجائے کوتاہ کے طور پر لیا جاتا ہے، جبکہ صوتیات میں لانگ واؤل ہو یا شارٹ واؤل، سلیبل ایک ہی رہتا ہے)
حرف صحیح- حرف صحیح - مصوتہ - حرف صحیح۔ جیسے پریت وغیرہ۔ اور اردو شاعری میں گیت وزن میں پریت کے برابر ہوگا۔ دونوں میں ایک ہی ہجا یعنی ہجائے بلند ہے۔ (یہاں غلطی ہو تو تصحیح کردیجے گا)۔
حرف صحیح - مصوتہ - حرف صحیح - حرف صحیح جیسے دوست۔ لیکن اس کو اردو شاعری میں ہجائے بلند اور ہجائے کوتا میں توڑ دیا جائے گا۔ دوس ہجائے بلند، ت ساکن ہجائے کوتاہ۔ جبکہ صوتیات میں ہم اسے ایک ہی سلیبل سمجھیں گے۔ چلتے چلتے بتاتا چلوں کہ سلیبل کے لیے مصوتے یا واؤل کا ہونا لازمی ہے۔ جبکہ کانزوننٹ یا حروف صحیح اس کے آگے پیچھے لگ کر سلیبل کی تشکیل کرتے ہیں۔ انگریزی میں زیادہ سے زیادہ کانزونینٹ کی حد واؤل سے پہلے چار اور واؤل کے بعد تین کی ہے۔ اردو میں (میرے اندازوں کے مطابق، کوئی تصدیق شدہ بات نہیں) شروع میں دو حروف صحیح اور آخر میں دو حروف صحیح آسکتے ہیں۔ جیسا کہ پریت، دوست وغیرہ مثالوں سے واضح ہے۔
اب میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ مذکورہ دو مصروعوں میں 7 ہجا کیسے بنتے ہیں جبکہ میرے علم کے مطابق ایک میں 8 بنیں گے، دوسرے میں 9۔ 9 والے میں البتہ مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ لیے کو ویسے ہی سمجھا جاسکتا ہے جیسے پیاس میں موجود واؤل کو سمجھا جاتا ہے۔ پیاس کی املاء سے ایسا لگتا ہے کہ اس میں پِ اور یاس دو ہجا ہیں جبکہ اردو شاعری کے مطابق 1 2 1 کا وزن۔ لیکن اس میں موجود واؤل ذرا لمبا ہے جو دو واؤل کا تاثر دے جاتا ہے، اصل میں یہ ایک ہی واؤل ہے۔۔ صوتیات سے قطع نظر، میرا مقصد صرف علم کا اضافہ ہے۔ آپ کی توجہ کا منتظر رہوں گا کہ ہجا کی تعداد 7 کیسے ہے۔
وسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
شاکر صاحب اپنی سی کوشش کرتا ہوں۔

ہجائے بلند - دو حرفی لفظ، کسی بھی حرکت کے ساتھ، جیسے ہم، تم، دِل، وغیرہ۔ اس کو عروض میں سببِ خفیف کہتے ہیں اور اشاری نظام میں کسی بھی علامت سے ظاہر کر لیں جیسے 2

ہجائے کوتاہ - ایک اکیلا حرف چاہے متحرک ہو چاہے ساکن لیکن کسی دوسرے ہجے یا سلیبل کا حصہ نہ ہو، جیسے اسلام میں ساکن میم۔ یا چمن میں متحرک چ۔ اس کو 1 سے ظاہر کرتے ہیں۔ عروض میں دو ہجائے کوتاہ کو سببِ ثقیل کہتے ہیں۔

اشباع یا کھینچنا - کسی ہجائے کوتاہ 1 کو کسی حرکت کے ساتھ ملا کر کھینچ لینا اور ہجائے بلند بنا لینا جیسے مردِ مومن میں مرد کی دال ہجائے کوتاہ 1 ہے لیکن اسے زیر کی اضافت کے ساتھ ملا کر "دے" بنا لینا اور یوں یہ ہجائے بلند یا 2 ہو گیا۔ اسی طرح "دیوانِ غالب" کی نون۔ اسکا استعمال شاعر کی صوابدید پر ہے اور وہ اسے اس وقت استعمال کرتا ہے جب بحر ایسا کرنے کو کہہ رہی ہو۔

اخفا یا گرانا - کسی ہجائے بلند 2 میں سے الف، یے یا واؤ گرا کر اسے ہجائے کوتاہ 1 بنا لینا، جیسے "کا" 2 ہے لیکن اس کا الف گرا کر شاعر اسے "کَ" بنا لیتا ہے جو کہ 1 ہے۔ اسی طرح "کی" یا "سے" کی یے گرا دینا۔ اسکا استعمال بھی شاعر کی صوابدید پر ہے اور تب استعمال ہوتا ہے جب اسے بحر ایسا کرنے کو کہہ رہی ہو۔

ہندی بحر: اسکے رکن شاعر کی مرضی پر ہوتے ہیں کہ کتنے باندھے، جیسے 8 ہجائے بلند (2 2 2 2 2 2 2 2 یا فع فع فع فع فع فع فع فع یا فعلن فعلن فعلن فعلن) یہ آٹھ والی چھوٹی بحروں میں بہت استعمال ہوتی ہے جیسے محسن نقوی کی غزل "اتنی مدت بعد ملے ہو / کن سوچوں میں گم رہتے ہو" اس بحر میں ہے۔

یا 14 ہجائے بلند یا 15 یا 16، شاعر کی مرضی ہے۔ 13 والی کی ایک مثال "دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمھیں / ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کاہے سلگائیں تمھیں"

16 ہجائے بلند والی ایک مثال "وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا / کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچاشعر سنائیں کیا"

وغیرہ وغیرہ، یہ مثالیں اس لیے لکھیں کہ اگر تقطیع کرنا چاہیں تو مواد آپ کے پاس ہو۔

بحر ہندی کی خاص بات:
یہ ہے کہ کسی بھی ہجائے بلند کو دو ہجائے کوتاہ میں توڑا جا سکتا ہے لیکن ان دو ہجائے کوتاہ کو ایک ہجائے بلند ہی سمجھا جائے گا۔

مثلاً 8 ہجائے بلند والی بحر

2 2 2 2 2 2 2 2

اس میں کسی بھی 2 کو 1 1 میں توڑا جا سکتا ہے لیکن اسے گنیں گے ایک ہجا نہ کہ دو، مثلاً محسن نقوی کی غزل

کتنی مدت بعد ملے ہو
1- کت / 2
2- نی / 2
3- مد / 2
4- دت / 2
5- بع / 2
6- د م / 1 1 (نوٹ کریں چھٹے ہجائے بلند 2 کی جگہ بعد کی دال اور ملے کی م ہے یعنی اس 2 کو توڑ کر 1 1 بنا لیا لیکن گنا ایک ہی ہجا نہ کے دو ہجے)۔
7- لے / 2
8- ہو / 2

کن سوچوں میں گم رہتے ہو
1- کن / 2
2-سو / 2
3-چو / 2
4-مے / 2
5- گم / 2
6- رہ / 2
7- تے / 2
8- ہو / 2

نوٹ کریں دوسرے مصرعے میں محسن نقوی مرحوم و مغفور نے کسی ہجائے بلند 2 کو نہیں توڑا۔ جیسے آپ گن رہے ہیں تو اس لحاظ سے پہلے مصرعے میں 9 سلیبیلز بن رہے ہیں اور دوسرے میں 8، اس طرح تو شعر بے وزن ہو جائے گا لیکن شعر بے وزن نہیں ہے بلکہ انتہائی خوبصورت شعر ہے اور یہ صرف اسی وقت وزن میں آتا ہے جب کہ پہلے مصرعے میں چھٹے لانگ سلیبیل کو دو شارٹ سلیبیلز میں توڑ دیں لیکن سمجھیں اور گنیں ایک ہی۔

ایک اور شعر کی مثال

تیز ہوا نہ مجھ سے پوچھا
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو

1- تے / 2
2- ز ہ / 1 1 (پھر نوٹ کریں یہاں دوسرا ہجا ٹوٹا)
3- وا / 2
4- نے / 2
5- مج / 2
6- سے / 2
7- پو / 2
8- چھا / 2

1- رے / 2
2- ت پ / 1 1 (پھر نوٹ کریں)
3- کیا / 2
4- لکھ / 2
5- تے / 2
6- رہ / 2
7- تے / 2
8- ہو / 2

ایک اور مثال

کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو

1 - کو / 2
2- ن سِ / 11 (نوٹ کریں نہ صرف ہجا ٹوٹا بلکہ "سی" کی یے گرا کر اسے سِ بنایا ہے تا کہ وزن رہے)
3- با / 2
4- ت ہ / 11 (ایک اور لانگ سلیبل ٹوٹا اور "ہے" کی یے پھر گرائی)
5- تم / 2
6- میں / 2
7- اے / 2
8- سی / 2

اگر آپ کی گنتی کے مطابق گنیں تو یہاں 10 سلیبلز ہیں، لیکن یہاں اصل میں 8 ہی ہیں ورنہ شعر بے وزن ہے جو کہ وہ نہیں ہے۔

انتباہ: یہ ہجوں کو توڑنے والی رعایت صرف اور صرف بحر ہندی میں ہے، دیگر بحروں کا اپنا مزاج اور آہنگ اور چلن اور رعایتیں ہیں، جن کو لکھنے کا یہاں محل نہیں ہے۔

امید ہے میں اپنی بات کی وضاحت کر پایا ہوں، آپ کے مذکورہ مصرعوں کو چھوڑ رہا ہوں کہ پہلے ہی بہت جھک مار چکا :) انکی تقطیع خود کریں، اس یقین کے ساتھ کے وہ اصل میں 7 لانگ سلیبلز ہی ہیں لیکن کچھ مختلف جگہوں پر ٹوٹ رہے ہیں اور اسکی نشاندہی میں پہہلے ہی کر چکا ہوں۔
 

دوست

محفلین
اصولی طور پر یہ غلط ہے، اس استدلال کی رُو سے عین کی بھی اردو میں کوئی ضررورت نہیں، الف کافی ہے (آخر عبداللہ کو ہم کہتے تو اَبد اللہ ہی ہیں)، اسی طرح ذ، ز، ظ اور ت، ط اور ث، س، ص وغیرہ وغیرہ۔ اردو عربی سے جدا نہیں ہے، اردو کے سارے حروفِ تہجی عربی کے ہی ہیں۔ اگر عوام الف اور عین اور سین اور صاد میں فرق نہیں کرتی تو اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ یہ فرق موجود نہیں ہے اور نہ ہی غلط العوام کو فصیح کا درجہ حاصل ہے اور نہ ہی ایک شاعر اور ادیب غلط العوام کو رواج دیتا ہے بلکہ وہ تو زبان و ادب کا محافظ ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں بصد احترام اپنا ناقص علم پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ کسی ماہر کی رائے نہیں، تاہم بطور طالب علم لسانیات میں نے جو کچھ دیکھا، سمجھا اور پڑھا ہے اس کے مطابق ضروری نہیں کہ املاء میں جو حروف لکھے جائیں ان کے عین مطابق اس زبان میں آوازیں بھی ہوں۔ انگریزی اس کی بدنام ترین مثال ہے، جس میں موجود حروف اس زبان کی آوازوں سے مطابقت پذیر نہیں، چناچہ طلباء آواز کی بنیاد پر اکثر سپیلنگ کی غلطیاں کرجاتے ہیں۔ اردو کے سلسلے میں میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ بڑی حد تک یہ صوتیاتی زبان ہے، یعنی بولنے میں آنے والی آوازیں لکھنے میں آنے والے حروف سے مطابقت پذیر ہیں۔ چناچہ ہمیں قریبًا ہر آواز کے لیے ایک حرف ملتا ہے۔ تاہم یہ قاعدہ تمام حروف پر لاگو نہیں ہوتا۔ اردو میں کئی سارے ایسے حروف موجود ہیں جن کے لیے ہمارے پاس آوازیں نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ت اور ط، الف ع ء، ث س ص، ظ ذ ز ض وغیرہ کی مثال دینا چاہوں گا۔ عربی پڑھتے ہوئے قاری صاحب ص کی آواز نکلوایا کرتے تھے، ص منہ بھر کے، ق حلق کی گہرائی سے، ک قریبًا حلق سے، ظ منہ بھر کے، ض منہ بھر کے، ذ زبان کو دانتوں پر لگا کر، ز سیٹی کی طرح۔ تاہم اپنی 25 سالہ زندگی میں اردو کے بولنے والوں سے میری جو دعا سلام رہی ہے، اس میں میں نے ان کو ص اور س پر مشتمل الفاظ، یا ظ ذ ز ض پر مشتمل الفاظ کو بولتے ہوئے کبھی فرق کرتے نہیں سنا۔ ص اور س کی آواز سیٹی والی سا ہے۔ ظ ذ ز ض کی آواز سیٹی والی آواز زا ہے۔ جیسا کہ آپ بھی صوتی قافیے کا ذکر کرچکے ہیں، اردو میں عربی سے آنے والے ان حروف (ظ، ض وغیرہ) کے ساتھ ماخوذ آوازیں متروک ہوچکی ہیں۔ چناچہ اب یہ حروف املاء میں تو لکھے جاتے ہیں لیکن پڑھتے وقت آواز ایک ہی نکلتی ہے۔ اور آخر میں اتنا عرض کروں گا کہ شاید یہ غلط العوام ہی ہو، تاہم حقیقت یہی ہے کہ یہ آوازیں اردو میں اب نہیں ہیں، یہ اس کی مادری زبان (عربی) میں ہی رہ گئی ہیں۔
وسلام
 

دوست

محفلین
واہ جی واہ۔ یہ ایک شارٹ سلیبل اور ساکن حرف کو ملانے والی بات آپ نے خوب بتائی۔ آپ نے جتنی مثالیں دی ہیں ان سب میں پہلا حرف ساکن ہے، جسے ہجائے کوتاہ گنا جاتا ہے، اور دوسرا ایک کانزونینٹ شارٹ واؤل کا کمبی نیشن ہے۔ ان دو کو ملا کر ہجائے بلند سمجھا گیا۔ آگئی سمجھ۔ :)
بہت شکریہ جناب اتنی ساری مغز ماری کا، مجھ جیسے کوڑھ مغز کے لیے۔ جو رہنا لنگوئسٹ اور بننا شاعر چاہتا ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
اس سلسلے میں بصد احترام اپنا ناقص علم پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ کسی ماہر کی رائے نہیں، تاہم بطور طالب علم لسانیات میں نے جو کچھ دیکھا، سمجھا اور پڑھا ہے اس کے مطابق ضروری نہیں کہ املاء میں جو حروف لکھے جائیں ان کے عین مطابق اس زبان میں آوازیں بھی ہوں۔ انگریزی اس کی بدنام ترین مثال ہے، جس میں موجود حروف اس زبان کی آوازوں سے مطابقت پذیر نہیں، چناچہ طلباء آواز کی بنیاد پر اکثر سپیلنگ کی غلطیاں کرجاتے ہیں۔ اردو کے سلسلے میں میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ بڑی حد تک یہ صوتیاتی زبان ہے، یعنی بولنے میں آنے والی آوازیں لکھنے میں آنے والے حروف سے مطابقت پذیر ہیں۔ چناچہ ہمیں قریبًا ہر آواز کے لیے ایک حرف ملتا ہے۔ تاہم یہ قاعدہ تمام حروف پر لاگو نہیں ہوتا۔ اردو میں کئی سارے ایسے حروف موجود ہیں جن کے لیے ہمارے پاس آوازیں نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ت اور ط، الف ع ء، ث س ص، ظ ذ ز ض وغیرہ کی مثال دینا چاہوں گا۔ عربی پڑھتے ہوئے قاری صاحب ص کی آواز نکلوایا کرتے تھے، ص منہ بھر کے، ق حلق کی گہرائی سے، ک قریبًا حلق سے، ظ منہ بھر کے، ض منہ بھر کے، ذ زبان کو دانتوں پر لگا کر، ز سیٹی کی طرح۔ تاہم اپنی 25 سالہ زندگی میں اردو کے بولنے والوں سے میری جو دعا سلام رہی ہے، اس میں میں نے ان کو ص اور س پر مشتمل الفاظ، یا ظ ذ ز ض پر مشتمل الفاظ کو بولتے ہوئے کبھی فرق کرتے نہیں سنا۔ ص اور س کی آواز سیٹی والی سا ہے۔ ظ ذ ز ض کی آواز سیٹی والی آواز زا ہے۔ جیسا کہ آپ بھی صوتی قافیے کا ذکر کرچکے ہیں، اردو میں عربی سے آنے والے ان حروف (ظ، ض وغیرہ) کے ساتھ ماخوذ آوازیں متروک ہوچکی ہیں۔ چناچہ اب یہ حروف املاء میں تو لکھے جاتے ہیں لیکن پڑھتے وقت آواز ایک ہی نکلتی ہے۔ اور آخر میں اتنا عرض کروں گا کہ شاید یہ غلط العوام ہی ہو، تاہم حقیقت یہی ہے کہ یہ آوازیں اردو میں اب نہیں ہیں، یہ اس کی مادری زبان (عربی) میں ہی رہ گئی ہیں۔
وسلام

آپ بہت حد تک درست فرما رہے ہیں اسی لیے میں نے پہلے پیغام میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ جدید شاعر اسے جائز مانتے ہیں، اور انہی بنیادوں پر جس کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں، ادباء، شعرا، اور ناقدین کے درمیان اس موضوع پر بہت بحثیں ہو چکی ہیں اور اب بھی ہوتی ہیں۔

اور اب نتیجہ یہ ہے کہ "آرتھوڈاکس" قسم کے شاعر اور نقاد اسے غلط کہتے ہیں، جدید شعرا اور تازہ کاری کے شائق اسے جائز کہتے ہیں۔ جس کا جیسے دل کرتا ہے وہ ویسے ہی باندھتا ہے۔

اور ان جدید شعراء میں کون ہیں، انتہائی ثقہ شاعر افتخار عارف، آپ کی نظر سے شاید انکی مشہور نظم گزری ہو "بارھواں کھلاڑی" اسکے دو مصرعے ہیں

تم بھی افتخار عارف
بارھویں کھلاڑی ہو

جس مصرعے میں شاعر کا تخلص ہے، وہ صرف اور صرف اس وجہ سے وزن میں آتا ہے کہ شاعر نے عارف کی عین کو الف سمجھا ہے اور اسے الف سمجھ کر ساقط کر دیا ہے، کیونکہ الف کو ساقط کرنے کی اجازت ہے، عین کو نہیں، سو شاعر کے پاس واحد حل یہ تھا کہ عین کو الف سمجھے۔ اور افتخار عارف نے یہ کیا اور ایک قوی دلیل آپ کے مکتبۂ فکر والوں کے ہاتھ میں دے دی :)
 
Top