بھوپال کا تاج محل

505587_1302279_magazine.jpg

بھوپال کو جاننے والے، اسے جھیلوں کے شہر سے زیادہ نہیں جانتےلیکن بھوپال کی چھوٹی بڑی جھیلوں کے کنارے سنہری تاریخ کے بہت سے رنگ بکھرے پڑے ہیں۔ پہناوے، کھانے پینے کے ساتھ اس نوابی شہر کادريچہ اس عمارت میں بھی کھلتا ہے جو ایک بیگم کی محبت کی آخری نشانی تھا۔ہندوستان میں دو تاج محل ہیں، شاہجہاں کا بنایا’’ آگرہ کا تاج محل‘‘ اور دوسرا بیگم شاہجہاں کی تعمیر بھوپال کا تاج محل۔ اتفاق دیکھئے کہ دونوں ہی شاہکارمحلوں کی تعمیر میں شاہجہاں نام کی دو شخصیتیں تھیں، جن کے بنائے دونوں ہی تاج محل محبت کی یادگار ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے کہ ایک تاج محل بیگم ممتاز کی قبر ہے اور دوسرا تاج محل بیگم شاہجہاں اور نواب صدیق حسن کی محبت سے گلزار زندگی کاگواہ ہے۔
تاج محل شاہجہاں بیگم کا زمین پر اترا خواب، تیرہ سال بعد بن کر تیار ہوا تھا، اس محل کی بنیاد 1870 میں رکھی گئی تھی۔تقریباََ سترہ ایکڑ پر پھیلا یہ تاج محل شاہجہاں بیگم کی محبت کا آشیانہ تھا، جہاں وہ نواب صدیق حسن کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی تھیں۔ اسے بنوانے میں تیس لاکھ کا روپے خرچ آیا تھا۔ لیکن افسوس صدیق حسن ،شاہجہاں بیگم کے ساتھ یہاں طویل وقت نہیں گزارسکے، جبکہ شاہجہاں بیگم تاج محل میں اپنی آخری سانس تک رہیں۔بیگم کا خواب تھا کہ وہ تاج محل سے خدا کا گھر دیکھ سکیں، اسی لئے انہوں نے ایشیا کی دوسری سب سے بڑی تاجل مسجد تعمیر کروائی ، محل کی کھڑکیاں بھی اس طرح بنوائیں کہ وہاں سے مسجد صاف دکھائی دیتی تھی ۔
بھوپال کے اس تاج محل کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جو آگرہ کے تاج محل کو ہوا۔ نوابوں کا دور گزر جانے کے بعد طویل وقت تک یہ تاج محل تقسیم کے بعد صوبہ سندھ سے آئے سندھيوں کی پناہ گاہ بنا رہا، اس دوران تاج محل کے کئی حصے خراب ہو چکے تھے۔ دروازوں پر لوہے اور پیتل کی نقاشیاں تھیں ،جسے بعد میں لوگ نکال کر لے گئے۔
تاج محل میں داخل ہونے کے لیے ایک بلند دروازہ تھا،جس کا وزن ہاتھی کے برابرتھا ، جسے پورا کھالنا آسان نہیں تھا، لہذا مکمل دروازہ خاص موقعوں پر ہی کھلتا تھا ۔ تاج محل میں آنے جانے کے لیے بلند دروازے میں ایک چھوٹادروازہ بنایا گیا تھا۔
505587_550710_magazine.jpg

شاہجہاں بیگم چاہتی تھیں کہ صدیق حسن اور وہ جب چاہیں، برسات کا مزا لیں،اس لیے انہوں نے تاج محل میں ایک حصے کو اس طرح سے بنایا کہ اس کے درمیان سے گزرتے وقت دونوں طرف جھرنے ایسے گرتے تھے کہ جیسے برسات کی جھڑی سی لگی ہو۔تاج محل کے پورے حصے میں شیشے کی نقاشی تھی ۔ نوابی دور ختم ہو جانے کے بعد سب سے زیادہ نقصان اسی کو ہواا، حالانکہ حکومت نے اسے دوبارہ وہی رنگت دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔کہتے ہیں کی بیگم شاہجہاں نے اس محل کی تعمیر اپنی نگرانی میں ایسے کروائی تھی، جیسے کوئی ماں اپنے بچے کی پرورش کرتی ہے، لہذا انہیں فکر تھی کہ ان کی محبت کی اس نشانی کو کسی کی نظر نہ لگ جائے، اس کے لئے انہوں نے محل کے دروازے پر سورج کے رخ پر ایک بڑا سا آئینہ لگوایاتھا، تاکہ جو کوئی بھی بری نظر سے تاج محل کو دیکھے توشیشےسے ٹکراتی سورج کی کرنوں سے اس کی آنکھیں چندھيا جائیں۔ تاج محل کو بری نظر سے بچانے کی یہ کوشش بھی بیگم کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔آج یہ تاج محل، ایک بیگم کی محبت کی آخری نشانی سیاحوں کے انتظار میں خاموش کھڑی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شاہجہاں کی ممتاز بیگم سے بے انتہا محبت کی نشانی آگرہ کا تاج محل پوری دنیا میں محبت کی مثال بن گیا اور ایک نواب سے بے انتہار محبت کرنے والی ایک بیگم کی ضد میں کھڑی ہوئی یہ عمارت صدیوں سے گمنام ہے۔
ربط
 

سید عمران

محفلین
یہ بھی اچھا بنا ہوا ہے۔۔۔
لیکن وہ بات کہاں جو تاج محل میں ہے۔۔۔
لگتا ہے ایک سحر ہے کہ دیکھنے والا اپنی آنکھ تاج محل سے ہٹا نہیں سکتا !!!
 
Top