بھولی بسری چند امیدیں چند فسانے یاد آئے ٭ رضی ترمذی

بھولی بسری چند امیدیں چند فسانے یاد آئے
تم یاد آئے اور تمہارے ساتھ زمانے یاد آئے

دل کا چمن شاداب تھا پھر بھی خاک سی اڑتی رہتی تھی
کیسے زمانے اے غمِ جاناں تیرے بہانے یاد آئے

ہنسنے والوں سے ڈرتے تھے چھپ چھپ کر رو لیتے تھے
گہری گہری سوچ میں ڈوبے دو دیوانے یاد آئے

ٹھنڈی سرد ہوا کے جھونکے آگ لگا کر چھوڑ گئے
پھول کھلے شاخوں پہ نئے اور درد پرانے یاد آئے​
 
Top