بھولنے کو کہا نہیں کرتے

ایم اے راجا

محفلین
ایک اور غزل نما شے حاضرِ خدمت ہے۔

بھولنے کو کہا نہیں کرتے
دیکھو ایسی جفا نہیں کرتے

سنگ تو سنگ ہوتے ہیں ناداں
ان کو اپنا خدا نہیں کرتے

پھول جچتے ہیں کانٹوں پر ہی
کانٹوں سے جدا نہیں کرتے

اپنے تو پھر بھی اپنے ہوتے ہیں
اپنوں کو یوں خفا نہیں کرتے

بہنیں ہوتی ہیں سانجھی سب کی
بہنوں کو بے ردا نہیں کرتے

خاک اڑتی ہے عشق میں لوگو
عشق دیکھو کیا نہیں کرتے

دوست نعمت خدا کی ہوتے ہیں
دوستوں سے دغا نہیں کرتے

گر پڑیں گے یہ گھر گھروندے سب
بارشوں کی دعا نہیں کرتے

کافرِ عشق لوگ اے ہمدم
رسمِ قرباں ادا نہیں کرتے

جب کسی در پہ گر پڑو راجا
پھر وہاں سے اٹھا نہیں کرتے
 

فاتح

لائبریرین
ہممم اچھی ہے۔ مبارک باد قبول کیجیے۔
ذیل کے شعر کو ایک مرتبہ پھر دیکھ لیجیے گا:
پھول جچتے ہیں کانٹوں پر ہی
کانٹوں سے جدا نہیں کرتے
 

الف عین

لائبریرین
لو آج دن بھر یہی کام کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھولنے کو کہا نہیں کرتے
دیکھو ایسی جفا نہیں کرتے
جفا کرنا۔ یہ محاورہ کون سا ہے؟ جفا تو اسم ہے، جفا کرنا میری نظر سے نہیں گزرا۔ ممکن ہے کہ میں ہی غلطی پر ہوں۔ شعر وزن میں ہے۔
دوسرے اس پوری غزل میں لہجہ بتا رہا ہے کہ ‘نہیں کرتے‘ سے مراد ہے کہ ایسا مت کرو۔ (جیسے اچھے بچے ایسا نہیں کرتے) لیکن کہیں بھی یہ صاف نہیں ہے۔

سنگ تو سنگ ہوتے ہیں ناداں
ان کو اپنا خدا نہیں کرتے
درست۔

پھول جچتے ہیں کانٹوں پر ہی
کانٹوں سے جدا نہیں کرتے
’کانٹے‘ کا نون معلنہ نہیں ، غنہ ہے۔ یہ تقطیع میں نہیں آتا۔ دونوں مصرعوں میں ’کاٹوں‘ اور ’کاٹے‘ نظم ہونا چاہئے۔ اور اس صورت میں وزن سے خارج ہو جاتا ہے۔ اگر ہندی محاورہ قبول کرو تو یہ مصرع یوں ہو سکتا ہے
پھول کانٹوں/شاخوں پہ ہی ’سُہاتے‘ ہیں
’شاخوں ‘ کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔ دوسری صورت اس کی یوں ہو سکتی ہے
پھول شاخوں پہ زیب دیتے ہیں
لیکن دوسرا مصرع۔۔ یہاں بھی شاخوں کا ہی محل ہے، کانٹوں سے کون جدا کرتا ہے۔ اس طرح ایک ہلکا مصرع تو یوں ہو سکتا ہے۔
پھول شاخوں پہ زیب دیتے ہیں
ان کو ایسے جدا نہیں کرتے

اپنے تو پھر بھی اپنے ہوتے ہیں
اپنوں کو یوں خفا نہیں کرتے

درست ہے، لیکن کئی حروف دب رہے ہیں/گر رہے ہیں۔ جو مستحسن نہیں۔

بہنیں ہوتی ہیں سانجھی سب کی
بہنوں کو بے ردا نہیں کرتے

یہ ’سانجھی‘ کیا مطلب؟ اگر ہندی کا ’ساں جھی‘ مراد ہے تو تلفظ غلط ہے، یہاں بھی غنہ ہے، نون معلنہ نہیں۔ اور مطلب بھی ہندی کے لحاظ سے درست نہیں ہے، ہندی میں اس کا مطلب ’مشترک‘ ہوتا ہے۔ کیا اس کا وہی مطلب ہے اگر مصرع یوں ہو

بہنیں ہوتی ہیں مشترک سب کی ؟؟
دوسرے مصرع میں بھی بہنوں محض ’فعل‘ (یا "فاع" مستعمل بحر کے حساب سے) تقطیع ہو رہا ہے، جو درست تو ہے لیکن اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اس مصرع کو یوں کہہ سکتے ہو، جس میں ’بہنوں‘ کی تکرار سے بھی بچ سکتے ہو
ان کو یوں بے ردا نہیں کرتے

خاک اڑتی ہے عشق میں لوگو
عشق دیکھو کیا نہیں کرتے
یہ ’ کیا‘ سوالیہ نہیں نا؟ کِ یا ہی مراد ہے نا۔۔ ۔
پہلے مصرع میں خاک اڑتی ہے۔۔ کہاں، اس کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ ؔلوگو‘ بھی محض بھرتی کا ہے۔ شعر میں ’عشق‘ کی تکرار بھی اچھی نہیں لگتی۔

اس کو یوں کر دو تو کیسا زبان کا شعر بن سکتا ہے

خاک اڑاتا ہے دشتِ دل میں میاں
عشق دیکھو کِیا نہیں کرتے

دوست نعمت خدا کی ہوتے ہیں
دوستوں سے دغا نہیں کرتے
درست، لیکن وہی بات کہ ’دوست‘ کی تکرار دونوں مصرعوں میں ہے۔

گر پڑیں گے یہ گھر گھروندے سب
بارشوں کی دعا نہیں کرتے
یہاں بات واضح کر دی جائے کہ یہ نہ لگے کہ کسی سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بارشوں کی دعا نہیں کرتے۔ جب کہ مطلب ہی ہے کہ بارش کی دعا مت کرو!!
گر پڑیں گے یہ گھر گھروندے ، یوں
بارشوں کی دعا نہیں کرتے

کافرِ عشق لوگ اے ہمدم
رسمِ قرباں ادا نہیں کرتے
اے ہمدم‘ محض بھرتی کا ہے۔ اور ’رسمِ قربانی‘ تو ہوتی ہے، رسمِ قرباں نہیں سنا میں نے۔ ویسے کہنا کیا چاہ رہے ہو۔ عشق کے مذہب میں قربانی کی رسم ضروری ہے، اور یہ لوگ مذہبِ عشق کے بھی کافر ہیں، یعنی اچھے مخؒص پیرو نہیں؟ خیال تو اچھا ہے، لیکن بات واضح نہیں بنتی۔ ایک بات یوں بن سکتی ہے:
کیسے کافر ہیں عشق کے، یہ /جولوگ
رسمِ قررباں ادا نہیں کرتے
(یہ بھی اس صورت میں جب تمہارے نزدیک ’رسمِ قرباں‘ کا جواز ہو)

جب کسی در پہ گر پڑو راجا
پھر وہاں سے اٹھا نہیں کرتے
شعر اور اونچا ہو جاتا ہے اگر بات کو اس طرح کہو کہ مطلب یہ نہ نکلے کہ ’اچھے بچے‘ اٹھا نہیں کرتے۔ بلکہ ’راجا‘ اٹھا نہیں کرتے۔
جب کسی در پہ گر پڑیں راجا
پھر وہاں سے اٹھا نہیں کرتے

اب اٹھ جاؤ راجا، غزل کی اصلاح ختم ہو گئی!!
 

ایم اے راجا

محفلین
جی استادِ محترم سویا ہوا تھا اٹھ کر اصلاح دیکھ اور اب پھر آپ کے حکم پر اٹھ کر فریش ہونے جاتا ہوں، شکریہ کہ یاد دلایا اٹھنے کے لیئے ورنہ شام ہی کر دیتا یہاں:)
لگتا ہے آجکل میں زبردستی کہنے کی کوشش کر رہا ورنہ کچھ کہنے کے لیئے کچھ جواز ہی نہیں مل رہا اسی لیئے سب کی سب یوں بیٹھ جاتی ہیں:) نہ غم ہے آجکل اور نہ خوشی دونوں کیفیتوں کے بیچ ہو سو نہ دل ساتھ دیتا ہے اور نہ دماغ، بہرحال کوشش کرتا ہوں انکو درست کرنے کی۔ شکریہ۔

استادِ محترم آپ کی مندرجہ ذیل اصلاح کی تقطیع مجھے سمجھ نہیں آئی!

خاک اڑاتا ہے دشتِ دل میں میاں
عشق دیکھو کِیا نہیں کرتے
 

Imran Niazi

محفلین
بہت اچھی غزل ہے راجا صاحب،
اور اصلاح بھی کافی خوبصورتی سے کی ہے استادِ محترم نے،
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم اس بھولی غزل کو بھی دیکھیئے گا۔

بھولنے کو کہا نہیں کرتے
دیکھو ایسی| ایسے جفا| کیا نہیں کرتے
( ان میں سے کون سی صورت بہتر ہے)
سنگ تو سنگ ہوتے ہیں ناداں
ان کو اپنا خدا نہیں کرتے

پھول شاخوں پہ زیب دیتے ہیں
ان کو ایسے جدا نہیں کرتے

اپنے تو پھر بھی اپنے ہوتے ہیں
اپنوں کو یوں خفا نہیں کرتے

بہنیں ہوتی ہیں سبکی ہی ساجھی
ان کو یوں بے ردا نہیں کرتے

خاک اڑاتا ہے دشتِ دل میں میاں
عشق دیکھو کیا نہیں کرتے

دوست نعمت خدا کی ہوتے ہیں
دوستوں سے دغا نہیں کرتے

گر پڑیں گے یہ گھر گھروندے، یوں
بارشوں کی دعا نہیں کرتے

کیسے کافر ہیں عشق کے، جو لوگ
رسمِ قرباں ادا نہیں کرتے

جب کسی در پہ گر پڑیں راجا
پھر وہاں سے اٹھا نہیں کرتے
 

الف عین

لائبریرین
بھولنے کو کہا نہیں کرتے
دیکھو ایسے جفا نہیں کرتے
ہی بہتر ہے، حالانکہ میرے اعتراضات اب بھی بدستور قائم ہیں، جیسے اس شعر میں ’دیکھو‘ ہے، جو اگرچہ زائد لگ رہا ہے بظاہر، لیکن اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ بری بات ہے، جیسا میں نے لکھا تھا کہ ’اچھے بچے ایسا نہیں کرتے‘۔ لیکن دوسرے کچھ شعروں میں (’ایسے‘ اور ’یوں‘ کے اشعار چھوڑ کر) ایسا قرینہ مفقود ہے۔
اپنے تو پھر بھی اپنے ہوتے ہیں
اپنوں کو یوں خفا نہیں کرتے
یہاں پہلے مصرع میں ’پھر بھی‘ سے بہتر ہو گا کہ ’ہی‘ استعمال کیا جائے۔اپنے اپنے ہی ہوا کرتے ہیں سے بات واضح ہوتی ہے، اگرچہ یہ وزن سے خارج بیان ہے، مصرع نہیں۔ دوسرے مصرعے میں دہرانے کی بجائے یوں کہو۔
ان کو ایسے خفا نہیں کرتے
جب تک پہلا مصرع متبادل نہ کہا جائے، اسی کو چلنے دو۔
(تھوڑا غور کرنے پر ایک صورت سمجھ میں آئی ہے۔
اپنے اپنے ہی ہوتے ہیں، ان کو
اس طرح سے خفا نہیں کرتے

بہنیں ہوتی ہیں سبکی ہی ساجھی
ان کو یوں بے ردا نہیں کرتے
دوسرا مصرع تو بہت خوبصورت ہے، لیکن پہلا مصرع ابھی بھی مجھے پسند نہیں آ رہا۔ بہنیں سب کی ساجھی کیسے ہو سکتی ہیں، کسی کی بیٹی اور کسی کی بیوی بھی تو ہو سکتی ہے!!

دوست نعمت خدا کی ہوتے ہیں
دوستوں سے دغا نہیں کرتے
یہاں بھی دوستوں‘ کو دہرانے کی بجائے کوئی ایسا لفظ لانا بہتر ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ ایسا کرنا مستحسن نہیں۔ نہ کہ یہ غلط فہمی کہ ایسا کرنا چاہئے تھا مگر لوگ ایسا نہیں کرتے!! ایک صورت یوں ممکن ہے
ایسے ان سے دغا نہیں کرتے
 

ایم اے راجا

محفلین
بھولنے کو کہا نہیں کرتے
دیکھو ایسی جفا نہیں کرتے

سنگ تو سنگ ہوتے ہیں ناداں
اِن کو اپنا خدا نہیں کرتے

پھول شاخوں پہ زیب دیتے ہیں
ان کو ایسے جدا نہیں کرتے

اپنے تو پھر بھی اپنے ہوتے ہیں
ان کو ایسے خفا نہیں کرتے


جن کے سر پر ردا ضروری ہو
ان کو یوں بے ردا نہیں کرتے


خاک اڑاتا ہے دشتِ دل میں میاں
عشق دیکھو کیا نہیں کرتے

دوست نعمت خدا کی ہوتے ہیں
ایسے ان سے دغا نہیں کرتے

گر پڑیں گے یہ گھر گھروندے، یوں
بارشوں کی دعا نہیں کرتے

کیسے کافر ہیں عشق کے، جو لوگ
رسمِ قرباں ادا نہیں کرتے

جب کسی در پہ گر پڑیں راجا
پھر وہاں سے اٹھا نہیں کرتے

سر اب دیکھیں شاید کوئی صورت بنی ہو
 

ایم اے راجا

محفلین
بھولنے کو کہا نہیں کرتے
دیکھو ایسی جفا نہیں کرتے
سنگ تو سنگ ہوتے ہیں ناداں
اِن کو اپنا خدا نہیں کرتے
پھول شاخوں پہ زیب دیتے ہیں
ان کو ایسے جدا نہیں کرتے
اپنے تو پھر بھی اپنے ہوتے ہیں
اپنوں کو یوں خفا نہیں کرتے
جن کے سر پر ردا ضروری ہو
ان کو یوں بے ردا نہیں کرتے
خاک اڑاتا ہے دشتِ دل میں میاں
عشق دیکھو کیا نہیں کرتے
دوست نعمت خدا کی ہوتے ہیں
ایسے ان سے دغا نہیں کرتے
گر پڑیں گے یہ گھر گھروندے، یوں
بارشوں کی دعا نہیں کرتے
کیسے کافر ہیں عشق کے، جو لوگ
رسمِ قرباں ادا نہیں کرتے
جب کسی در پہ گر پڑیں راجا
پھر وہاں سے اٹھا نہیں کرتے
 
Top