بھارت میں مسلم کش فسادات

جاسم محمد

محفلین
یہ لوگ حقائق نہ جھٹلائیں تو ان کا چولہا روٹی کیسے چلے؟؟؟
چوں کہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اس لیے انسانیت کی ماں کا سینہ ٹھنڈا ہے۔۔۔
دیکھ لیں انسانیت کی ماں کا سینہ پیٹنے والوں کو کیسے سانپ سونگھا ہوا ہے۔۔۔
یہ حال مسلمان غیر مسلموں کا کرتے پھر دیکھتے کہ یہی لوگ کیسے کووں کی طرح کائیں کائیں کرکے اچھلتے پھرتے اور انسانیت کی ماں کا سینہ پیٹ پیٹ کر اسے لہولہان کردیتے!!!
آپ کا لہجہ تھوڑا تلخ ہے لیکن بات سولہ آنے سچ ہے۔

یکطرفہ پراپگنڈہ ذرا کم کیا کریں۔ آج تو وزیر اعظم عمران خان نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز مسلم ممالک سے زیادہ کافرممالک اٹھا رہے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کاش تقسیم کے بعد وہاں کے مسلمان منظم و مسلح ہوجاتے۔۔۔
کفار کے خلاف جہاد تو مسلمانوں کی گھٹی میں پڑا تھا۔۔۔
آپ تاریخ سے نابلد ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم تو عمل میں لائی ہی اس وجہ سے گئی تھی کہ مسلمانان ہند ہندو اکثریتی تسلط سے آزادی چاہتے تھے۔ اس لئے ہندوستان کے جن علاقوں میں یہ مسلم لیگی نظریہ جیتا وہ پاکستان بن گیا۔ دیگر علاقوں سے مسلمان جو اس نظریہ کوماننے والے تھے ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔
اب اس تقسیم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ بھارت میں باقی رہ گئے مسلمان ہندو اکثریت کے خلاف جہاد شروع کر دیں۔ اگر یہی کام کرنا تھا تو تقسیم ہند کی ہرگز ضرورت نہ تھی۔ یوں خطے کے مسلمان پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر میں تقسیم ہونے سے بچ جاتے۔ کیونکہ خطے کے ہندو تو آج بھی اکھنڈ بھارت میں متحد ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور مین اسٹریم میڈیا میں بار بار غزوہ ہند کا ذکر کیا جاتا ہے،کئی لوگوں نے یوٹیوب چینل شدت پسندوں نے بنا رکھے ہیں جس کے ذریعہ بے انتہا غزوہ ہند اور مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیزی کی جارہی ہے۔ غزوہ ہند کی کیا حقیقیت ہے اس کو تمام حضرات جانتے ہیں۔ جب کہ ہمیں اِس ملک میں رہتے ہوئے اس غزوہ ہند کے متعلق صفائی پیش کرتے کرتے ہماری زبانیں خشک ہوچکی ہیں۔ اس غزوہ کو لے کر اس قدر ہندؤوں میں خوف ہے کہ اس کو لے کر ابھی سے ہی تیاری شروع کرچکے ہیں، اور یہ فتنہ فساد اور مسلمانوں کا قتل عام اسی کا نتیجہ ہے۔ مجھے اس پر حیرانی ہے کہ ایک کافر جس کا ایمان رسول اکرم ﷺ پر نہیں ہے ، وہ اِس پر یقین کررہا ہے؛لیکن رسول اکرم ﷺ کے نام لیوا انﷺ کی فرمودات پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کچھ چیزیں اخفاء کی ہوتی ہیں، لیکن سرحد پار بیٹھے دانشوروں نے اپنی شہرت اور دانش وری کا سکہ بٹھانے کیلئے راز کو فاش کردیا، جس کا خمیازہ غریب اور نادار مسلمانوں کو اٹھانا پڑا ہے۔
غزوہ ہند چند نادانوں کا پرچار نہیں بلکہ اس کے پیچھے پوری پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا نظریہ جہاد کار فرما ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس کے ذریعہ وہ بھارت کو دباؤ میں لا کر کشمیر آزا د کروا لیں گے۔ کشمیر نے آزاد کیا خاک ہونا تھا الٹا بھارت میں رہنے والے مسلمان غزوہ ہند کی جوابی کاروائی کا نشانہ بن گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین

سید عمران

محفلین
آپ تاریخ سے نابلد ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم تو عمل میں لائی ہی اس وجہ سے گئی تھی کہ مسلمانان ہند ہندو اکثریتی تسلط سے آزادی چاہتے تھے۔ اس لئے ہندوستان کے جن علاقوں میں یہ مسلم لیگی نظریہ جیتا وہ پاکستان بن گیا۔ دیگر علاقوں سے مسلمان جو اس نظریہ کوماننے والے تھے ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔
اب اس تقسیم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ بھارت میں باقی رہ گئے مسلمان ہندو اکثریت کے خلاف جہاد شروع کر دیں۔ اگر یہی کام کرنا تھا تو تقسیم ہند کی ہرگز ضرورت نہ تھی۔ یوں خطے کے مسلمان پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر میں تقسیم ہونے سے بچ جاتے۔ کیونکہ خطے کے ہندو تو آج بھی اکھنڈ بھارت میں متحد ہیں۔

جو تاریخی موشگافیاں آپ نے کرنے کی کوشش کیں ان سے بچہ بچہ واقف ہے۔۔۔
ظاہر ہے آپ نے یہ تو بولنا ہی ہے، ہمیں اس پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔۔۔
جب مصیبت سر پر آپڑے چاہے اس کے عوامل کچھ بھی ہوں تو ان سے بچاؤ کی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہئیں۔۔۔!!!
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
یکطرفہ پراپگنڈہ ذرا کم کیا کریں۔ آج تو وزیر اعظم عمران خان نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز مسلم ممالک سے زیادہ کافرممالک اٹھا رہے ہیں۔
ہم نے ممالک کی بات نہیں کی چند مخصوص لوگوں کی بات کی ہے!!!
 
مدیر کی آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
جب مصیبت سر پر آپڑے چاہے اس کے عوامل کچھ بھی ہوں تو ان سے بچاؤ کی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہئیں۔۔۔
آپ لوگوں کا مشن یہی ہے کہ مسلمان نہتے ہوکر مرتے رہیں اور آپ مسلح ہوکر انہیں مارتے رہیں!!!
کمیونل فسادات میں صرف ایک طرف کے لوگ نہیں مرتے۔ دونوں اطراف اموات واقع ہوتی ہیں۔ گجرات، دہلی اور دیگر بھارتی شہروں میں فسادات کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صرف مسلمانوں کو شہید کیا گیا ہے۔ ساتھ میں ہمیشہ ہندو بھی مرتے رہے ہیں۔ ایسا کب تک جاری رہے گا معلوم نہیں۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ ان کمیونل فسادات کی روک تھام کیلئے بھارتی ریاست سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
 

سید عمران

محفلین
کمیونل فسادات میں صرف ایک طرف کے لوگ نہیں مرتے۔ دونوں اطراف اموات واقع ہوتی ہیں۔ گجرات، دہلی اور دیگر بھارتی شہروں میں فسادات کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صرف مسلمانوں کو شہید کیا گیا ہے۔ ساتھ میں ہمیشہ ہندو بھی مرتے رہے ہیں۔ ایسا کب تک جاری رہے گا معلوم نہیں۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ ان کمیونل فسادات کی روک تھام کیلئے بھارتی ریاست سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
قصہ مختصر حملہ آوروں سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے کو، اپنا دفاع کرنے کو دنیا کا کوئی قانون منع نہیں کرتا!!!
 

فاخر رضا

محفلین
President of Pakistan
@PresOfPakistan
Pakistan appreciates this response from Imam @khamenei_ir and we agree that there must be a unified stance on this dangerous issue. Looking at history of Nazi extremism, and that of Myanmar, this may lead to Muslim genocide in India. Let the world not ignore obvious similarities. Khamenei.ir
@khamenei_ir
The hearts of Muslims all over the world are grieving over the massacre of Muslims in India. The govt of India should confront extremist Hindus & their parties & stop the massacre of Muslims in order to prevent India’s isolation from the world of Islam.#IndianMuslimslnDanhttps://www.presstv.com/Detail/2020/03/05/620182/Leader-India-killing-Muslims-isolationger
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان زندہ باد
جاوید چوہدری جمع۔ء 6 مارچ 2020

لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کا آخری وائسرائے تھا‘ یہ مارچ 1947میں آیا اور جون 1948تک ہندوستان میں رہا‘یہ بادشاہ جارج ششم کا کزن تھا‘ وائسرائے ہندوستان روانہ ہونے سے پہلے سر ونسٹن چرچل سے ملاقات کے لیے گیا‘ چرچل دانش ور بھی تھا‘ سیاست دان بھی اور دوسری جنگ عظیم کا ہیرو بھی‘ چرچل نے لارڈ کو مشورہ دیا‘ تم ہندوستان جا کر تمام لیڈروں سے ملاقات کرو لیکن مہاتما گاندھی سے بچ کر رہنا‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ چرچل نے جواب دیا ’’قدرت نے اسے قائل کرنے‘ دوسروں کو اپنے ساتھ ملانے کی بے تحاشا قوت دے رکھی ہے‘ مجھے خطرہ ہے تم اس سے ملو گے تو تم اس کے قائل ہو جاؤ گے‘‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن خود بھی مقناطیسی شخصیت کا مالک تھا۔

وہ مشکل سے مشکل لوگوں کو قائل بھی کر لیتا تھاچناں چہ اس نے قہقہہ لگایا اور ہندوستان آ گیا‘ وہ ہندوستان آیا‘ہندوستانی لیڈروں سے ملا اور دو لیڈروں کی فراست اور سادگی نے اسے قائل کر لیا‘ پہلے لیڈر قائداعظم محمد علی جناح تھے اور دوسرے مہاتما گاندھی‘ وہ کہتا تھا قائداعظم کے دلائل اور ذہانت کا کوئی مقابلہ نہیں جب کہ مہاتما گاندھی کی سادگی اور موقف کی شفافیت دونوں لاجواب ہیں‘ وہ کہتا تھا یہ دونوں لیڈر ہندوستان میں امن چاہتے ہیں‘ یہ دونوں کشت وخون‘ جنگ وجدل اور مذہب اور کلچر کی بنیاد پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے خلاف ہیں‘ دونوں کا مقصد ایک ہے لیکن طریقہ کار مختلف ہے‘ قائداعظم محمد علی جناح کا خیال ہے مسلمانوں کو پاکستان اور ہندوؤں کو بھارت دو ملکوں میں رکھ کر ہی امن قائم ہو سکتا ہے۔

ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘ یہ مرنے تک لڑتے رہیں گے لہٰذا دونوں کو الگ الگ سرحدوں میں رکھ دیا جائے جب کہ گاندھی کا خیال ہے ہندوستان تقسیم نہیں ہونا چاہیے‘ ہم ایک ایسا آئین اور سسٹم بنا لیتے ہیں جس میں ہندو‘ ہندو اور مسلمان مسلمان رہ کر زندگی گزار سکیں‘ یہ دونوں ایک دوسرے کے عقائد پر اثرانداز ہوئے بغیر اکٹھے رہ سکیں‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا خیال تھا یہ دونوںسیکولر لیڈر ہیں‘ قائداعظم ایک ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو لیکن اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہوں‘ دوسری طرف گاندھی کا خیال ہے ہمارا انڈیا مکمل سیکولر ہو گا‘ اس میں کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر کسی شخص پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا‘ انڈیا کا ہر شہری صرف انڈین ہو گا‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا میں نے دونوں کی رائے کا احترام کیا‘ قائداعظم کو مسلمانوں کا ملک دے دیا اور گاندھی کو ہندوؤں کا انڈیا ‘ اقلیتیں دونوں کے پاس ہیں‘ پاکستان میں بھی ہندو‘ سکھ‘ عیسائی اور پارسی ہیں اور انڈیا میں بھی مسلمان‘ سکھ‘ عیسائی‘ پارسی اور بودھ ہیں‘ اب قائداعظم کا پاکستان جیتتا ہے یا پھر گاندھی کا یہ فیصلہ وقت کرے گا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان تقسیم کر کے برطانیہ چلا گیا لیکن انڈیا اور پاکستان کا نظریہ وقت کی لہروں پر آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ آج 73برس ہو چکے ہیں‘ ان 73برسوں نے چند حقائق ثابت کر دیے‘ پہلی حقیقت پاکستان کی میچورٹی ہے‘ یہ درست ہم اقلیتوں کو وہ حقوق نہیں دے سکے جو قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے ہندوؤں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور پارسیوں کو دینا چاہتے تھے‘ یہ آج بھی خود کو پاکستان میں اجنبی محسوس کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے جتنا عدم تحفظ پاکستان کی سرحدوں کی دوسری طرف ہے ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ آپ بھارت میں دنگوں اور فسادات کی تاریخ دیکھ لیں۔

آپ کو گلیوں میں ناچتی وحشت قے پر مجبور کر دے گی‘1992میں بابری مسجد شہید کر دی گئی‘ ایک مسجد نے کسی کا کیا بگاڑا تھا لیکن انتہا پسندوں نے گنبد پر چڑھ کر مسجد شہید کر دی‘ اس سانحے کو آج 28برس ہو چکے ہیں لیکن نفرت کی آگ نہیں بجھی‘ داؤد ابراہیم ہو‘ چھوٹا شکیل ہو یا پھر یعقوب میمن جیسے مسلمان گینگسٹر ہوں یہ سب بابری مسجد اور انتہا پسندوں کی نفرت کا جواب ہیں‘ نریندر مودی نے 2002 میں گجرات میں کیا کیا ؟ دو ہزارمسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا‘ گھر‘ دکانیں اور گاڑیاں جلا دیں اور مسلمان خواتین کو گلیوں میں سرعام ریپ کیا گیا‘ کشمیر کی داستان تو ہے ہی فرعونیت کی داستان‘ یہ خطہ 73برسوں سے سلگ رہا ہے۔

اس میں موت بوئی اور موت کاٹی جا رہی ہے‘ کشمیر میں کرفیو کو 215دن ہو چکے ہیں‘ اسپتال‘ اسکول اور مارکیٹیں بھی بند ہیں اور انٹرنیٹ اور فون سروس بھی‘ چھ ہزار نوجوان گھروں سے غائب ہیں اور آج دہلی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی پوری دنیا کے سامنے ہے‘ 8دنوں میں 40مسلمان شہید اور 200زخمی ہو چکے ہیں‘ لوگوں کے گھر‘ دکانیں اور گاڑیاں تک جلا دی گئیں اور پولیس تماشا دیکھتی رہی‘ بھارتی میڈیا اپنے منہ سے بول رہا ہے پولیس اور فوج نے کھل کر بلوائیوں کا ساتھ دیا‘ یہ مسلمانوں کو پکڑ کر انتہا پسندوں کے حوالے کر دیتے تھے اور وہ انھیں ڈنڈوں‘ راڈز اور پتھروں سے کچل دیتے تھے۔

خواتین کو ریپ بھی کیا گیا اور بچوں کو گاڑیوں تلے بھی روند دیا گیا‘ یہ ظلم صرف مسلمانوں تک محدود رہتا تو شاید گاندھی کے سیکولرازم کی عزت بچ جاتی لیکن 1984 میں سکھوں کے گولڈن ٹیمپل کے ساتھ کیاہوا؟ اندرا گاندھی کے حکم پر فوج گولڈن ٹیپمل میں داخل ہوئی اورتین ہزار زائرین کو بھون کر رکھ دیا‘ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھوں کے ساتھ دوبارہ کیا سلوک ہوا؟ سیکڑوںسکھ خواتین ریپ ہوئیں اور اربوں روپے کی پراپرٹیز جلا کر راکھ کر دی گئیں‘بھارت میںعیسائیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ بھارت عیسائیوں پر حملوں میں10 بدترین ممالک میں شامل ہے‘ 2018 میں مسیحی برادری پر 12000 حملے ہوئے‘درجنوں چرچ بھی جلادیے گئے اور سیکڑوںعیسائی قتل بھی کر دیے گئے‘ بھارت میں 1948 میں 30ہزاریہودی تھے‘ آج صرف پانچ ہزار ہیں‘ باقی بھارت چھوڑ کر جا چکے ہیں‘ بودھوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ آپ کسی دن یہ ڈیٹا بھی نکال کر دیکھ لیں اور آپ انڈیا میں 35کروڑ دلتوں کے ساتھ سلوک بھی دیکھ لیجیے۔

یہ لوگ آج بھی انسانوں کے برابر حقوق حاصل نہیں کر سکے‘ یہ آج 21 ویں صدی میں بھی جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم پاکستانی بھی نفرت سے بھرے ہوئے ہیں لیکن نفرت‘ شدت‘ تعصب اور جانب داری نے انسانیت کی جتنی دیواریں بھارت میں پھلانگی ہیں اور لوگ عقائد اور نسلوں کی جتنی سزا وہاں بھگت رہے ہیں ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ یہ درست ہے بھارت نے پچھلے 30 برسوں میں معاشی ترقی کی‘ آج وہاں 138ارب پتی ہیں‘ یہ دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت بھی ہے لیکن یہ سماجی‘ انسانی اور مذہبی سطح پر انسانیت سے جتنا نیچے گیا ہم وہ سوچ بھی نہیں سکتے‘ مسلمان‘ سکھ اور دلت آج بھی کسی برہمن کے گلاس میں پانی اور پلیٹ میں کھانا نہیں کھا سکتے۔

یہ ان کے سائے پر بھی پاؤں نہیں رکھ سکتے چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں بھارت جس تیزی سے معاشی ترقی کر رہا ہے یہ اس سے ہزار گنا تیزی سے شرف انسانیت سے نیچے جا رہا ہے اور یہ تیزی ثابت کر رہی ہے یہ اب زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکے گا۔مجھے آج قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ بار بار یاد آرہے ہیں‘ قائد نے کشمیری رہنماؤںسے کہا تھا‘ تم نے اگر پاکستان سے الحاق نہ کیا تو تمہاری نسلیں پچھتائیں گی‘ آج ہندوستان میں موجود ہر اقلیتی خاندان کی نسلیں پچھتا رہی ہیں۔

مجھے کل دہلی کے ایک مسلمان نے فون کر کے کہا ’’بھائی صاحب آپ لوگ یہاں سے نکل گئے‘ آپ پر اللہ نے بڑا کرم کیا‘ ہم لوگ جو یہاں رہ گئے وہ اب جان بچانے کے لیے ماتھے پر تلک لگاتے ہیں‘ اپنے ناموں کے ساتھ رام لکھتے ہیں اور اپنے بچوں کے ختنے نہیں کرتے‘‘ میں سکتے میں آ گیا‘ وہ بولے ’’جناب ہم اپنے بچوں کو بچپن میں تربیت دیتے ہیں‘ وہ باہر کسی جگہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام نہ لیں‘ ٹھڈا لگ جائے تو زبان سے ہائے رام اور دل میں یا اللہ کہیں لیکن ہم اس منافقت کے باوجود بھی یہاں محفوظ نہیں ہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’پاکستان کے ہر شخص کو میرا پیغام دے دیں‘ اسے کہیں دہلی کا محمد خالد کہہ رہا ہے تم ایک بار دہلی آ کر دیکھ لو‘ تم مان جاؤ گے‘ پاکستان کتنی بڑی نعمت‘ اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے لہٰذا اس کی قدر کرو‘ اللہ کا شکر ادا کرو‘ تم کم از کم اپنے بچوں کے کانوں میں اذان تو دے لیتے ہو‘ تم ان کے ختنے تو کر رہے ہو‘ ہم تو جان بچانے کے لیے ان سے بھی تائب ہو رہے ہیں‘ ‘میں کانپ گیا‘ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اٹھ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔

فاخر افتخاررحمانی شکیب
 

فاخر

محفلین
ان بچانے کے لیے ماتھے پر تلک لگاتے ہیں‘ اپنے ناموں کے ساتھ رام لکھتے ہیں اور اپنے بچوں کے ختنے نہیں کرتے‘‘ میں سکتے میں آ گیا‘ وہ بولے ’’جناب ہم اپنے بچوں کو بچپن میں تربیت دیتے ہیں‘ وہ باہر کسی جگہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام نہ لیں‘ ٹھڈا لگ جائے تو زبان سے ہائے رام اور دل میں یا اللہ کہیں لیکن ہم اس منافقت کے باوجود بھی یہاں محفوظ نہیں ہیں‘‘
میں اس اقتباس سے موافقت نہیں کرسکتا۔ یہ سچ ہے کہ دہلی میں اس وقت قتل عام ہوا ہے ،کئی مساجد کو آگ کے حوالے کردیا گیا ہے، جاوید چودھری کے مطابق 40 جب کہ میرے علم کے مطابق 100 سے زائد مسلمانوں کی شہادت ہوئی ہے، کئی دنوں سے مسلسل بڑے نالے سے لاش نکل رہی ہے ،اور اس لاش کی شناخت کسی مسلمان کے نام سے ہورہی ہے، لیکن ابھی یہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم اپنے شعائر سے بھی دست بردار ہوجائیں، اپنا نام ہندؤوں والا رکھ لیں ختنہ نہ کرائیں وغیرہ وغیرہ ۔ ہم اپنے بچوں کو یہ تربیت نہیں دیتے کہ وہ باہر کہیں اللہ کا نام نہ لیں ؛بلکہ اس کی تعلیم دیتے ہیں کہ وہ اللہ اور سول پاک ﷺ کا نام اپنی ہر مجلس میں لے ، ہم منافقت بھی اختیار نہیں کرتے ہیں، البتہ تالیف قلب کیلئے اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ اور یہ اخلاق سے پیش آنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے ،جسے کافروں نے مجبوری سمجھ لیا ہے۔
جاوید چودھری صاحب کی عظمت کو سلام،میں ان کو آج سے نہیں تقریباً 6 سال سے پڑھ رہا ہوں؛ لیکن ان کی یہ مبالغہ آرائی پسند نہیں آئی۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

فاخر

محفلین
ان کمیونل فسادات کی روک تھام کیلئے بھارتی ریاست سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
مجھے اس بات پر ہنسی آرہی ہے کہ ’’فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کیلئے بھارتی ریاست سنجیدہ نہیں نظرآتی‘‘۔ بھائی فرقہ وارانہ فسادات تو اس سیاست کی روح ہے تو پھر اس سے تائب ہوجانے کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ کئی لوگوں کا اور عالمی میڈیا کا بھی یہی سوال ہے کہ آخر فرقہ وارانہ فساد پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے؟ حکومت اس پر سنجیدہ کب نظر آئے گی ۔میرے بھائی بات یہ ہے کہ فرقہ وارانہ فساد اس ملک کی گھٹی میں پڑا ہے ، جب تک فرقہ وارانہ فساد نہ ہوں اس وقت تک سیاست نہیں چمک سکتی ہے۔ آپ پوری تاریخ دیکھ لیں۔ فرقہ وارانہ فساد پر قابو اسی وقت پایا جاسکتا ہے جب مذہب کی سیاست نہ کی جائے ؛بلکہ ترقی اور عوامی خدمات پر سیاست کی جائے،لیکن اس ہندوستان میں ایسا ’اب‘ ممکن نہیں ہے۔ اگر مذہب کی سیاست ختم ہوجائے گی تو پھر بی جے پی کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ اُس کے بڑے بڑے لیڈر یا تو غاروں اور گپھاؤں میں ہوں گے یا پھر چائے بیچتےنظر آئیں گے۔ میری نظر میں اس کی روک تھام کیلئے جب تک حکومتی سطح سے اقدامات نہ کئے جائیں گے اس وقت فرقہ وارانہ تصادم ہوتے رہیں گے۔حکومت اس کیخلاف بل لائے کہ مذہب کی سیاست اس ملک کیلئے حرام ہے۔ لیکن یہ ایک خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے۔
ستم تو دیکھیں کہ ایک مسئلہ ٹھنڈا نہیں ہوتا کہ دوسرا چھیڑ دیا جاتا ہے ۔ اس وقت بھارت کی معاشی حالت یہ ہے کہ بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہوگیا ہے، لیکن اس پر کوئی بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، کوئی سوال پوچھنے تک کی ہمت نہیں کررہا ہے ۔تمام سرکاری کمپنیاں دھیرے دھیرے ختم ہورہی ہیں ،سرکاری ٹیلی مواصلات کمپنی ( بی ایس این ایل) بند ہونے کے قریب ہے اس کے کئی سو ملازمین کو جبری مستعفی قراردیا گیا ہے۔ اور جو اس وقت کام کررہے ہیں وہ کئی ماہ سے تنخواہ سے محروم ہیں۔ بھارتی ریلوے (جو سونے کا انڈا دینے والی مرغی) ہے اسے نجی کمپنیوں کے ہاتھوں بیچا جارہا ہے۔ پھر بھی عوام تماشائی ہے۔ بیروزگاری عام ہوچکی ہے،بڑی بڑی غیر ملکی کمپیناں بھارت کو گڈبائی کہہ چکی ہیں۔ نیم سرکاری بینک دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں یا پھر دیوالیہ ہوچکے ہیں۔
آج کی خبر ہے کہ جس(YES) نامی بینک کے سربراہ نے نوٹ بندی کو حکومت کا ماسٹر اسٹروک کہا تھا اس بینک کے کھاتہ ہولڈروں کا پیسہ بینک میں پھنس گیا ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی کھاتہ ہولڈر پچاس ہزار سے زیادہ کی رقم نہیں نکال سکتا۔ مہنگائی اپنے شباب پر ہے،لیکن کوئی اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم ہی اس ظلم کی چکی میں نہیں پس رہے ہیں ؛بلکہ دوسرے لوگ بھی ہیں؛لیکن مذہب کے نام جو افیون کھلادیا گیا ہے اس کا نشہ ابھی بھی ہرن نہیں ہوا ہے۔شاید ان کا نشہ اس ٹوٹے گا جب وہ خود ’’پتھروں کے دور میں آجائیں گے‘‘ ۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں اس اقتباس سے موافقت نہیں کرسکتا۔ یہ سچ ہے کہ دہلی میں اس وقت قتل عام ہوا ہے ،کئی مساجد کو آگ کے حوالے کردیا گیا ہے، جاوید چودھری کے مطابق 40 جب کہ میرے علم کے مطابق 100 سے زائد مسلمانوں کی شہادت ہوئی ہے، کئی دنوں سے مسلسل بڑے نالے سے لاش نکل رہی ہے ،اور اس لاش کی شناخت کسی مسلمان کے نام سے ہورہی ہے، لیکن ابھی یہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم اپنے شعائر سے بھی دست بردار ہوجائیں، اپنا نام ہندؤوں والا رکھ لیں ختنہ نہ کرائیں وغیرہ وغیرہ ۔ ہم اپنے بچوں کو یہ تربیت نہیں دیتے کہ وہ باہر کہیں اللہ کا نام نہ لیں ؛بلکہ اس کی تعلیم دیتے ہیں کہ وہ اللہ اور سول پاک ﷺ کا نام اپنی ہر مجلس میں لے ، ہم منافقت بھی اختیار نہیں کرتے ہیں، البتہ تالیف قلب کیلئے اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ اور یہ اخلاق سے پیش آنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے ،جسے کافروں نے مجبوری سمجھ لیا ہے۔
جاوید چودھری صاحب کی عظمت کو سلام،میں ان کو آج سے نہیں تقریباً 6 سال سے پڑھ رہا ہوں؛ لیکن ان کی یہ مبالغہ آرائی پسند نہیں آئی۔
میں نے اسی لئے آپ کو ٹیگ کیا تھا تاکہ اس جاوید چوہدری نامی لفافے کے جھوٹے اور من گھڑت کالم کو ایکسپوز کیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مجھے اس بات پر ہنسی آرہی ہے کہ ’’فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کیلئے بھارتی ریاست سنجیدہ نہیں نظرآتی‘‘۔ بھائی فرقہ وارانہ فسادات تو اس سیاست کی روح ہے تو پھر اس سے تائب ہوجانے کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ کئی لوگوں کا اور عالمی میڈیا کا بھی یہی سوال ہے کہ آخر فرقہ وارانہ فساد پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے؟ حکومت اس پر سنجیدہ کب نظر آئے گی ۔میرے بھائی بات یہ ہے کہ فرقہ وارانہ فساد اس ملک کی گھٹی میں پڑا ہے ، جب تک فرقہ وارانہ فساد نہ ہوں اس وقت تک سیاست نہیں چمک سکتی ہے۔ آپ پوری تاریخ دیکھ لیں۔ فرقہ وارانہ فساد پر قابو اسی وقت پایا جاسکتا ہے جب مذہب کی سیاست نہ کی جائے ؛بلکہ ترقی اور عوامی خدمات پر سیاست کی جائے،لیکن اس ہندوستان میں ایسا ’اب‘ ممکن نہیں ہے۔ اگر مذہب کی سیاست ختم ہوجائے گی تو پھر بی جے پی کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ اُس کے بڑے بڑے لیڈر یا تو غاروں اور گپھاؤں میں ہوں گے یا پھر چائے بیچتےنظر آئیں گے۔ میری نظر میں اس کی روک تھام کیلئے جب تک حکومتی سطح سے اقدامات نہ کئے جائیں گے اس وقت فرقہ وارانہ تصادم ہوتے رہیں گے۔حکومت اس کیخلاف بل لائے کہ مذہب کی سیاست اس ملک کیلئے حرام ہے۔ لیکن یہ ایک خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے۔
ستم تو دیکھیں کہ ایک مسئلہ ٹھنڈا نہیں ہوتا کہ دوسرا چھیڑ دیا جاتا ہے ۔ اس وقت بھارت کی معاشی حالت یہ ہے کہ بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہوگیا ہے، لیکن اس پر کوئی بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، کوئی سوال پوچھنے تک کی ہمت نہیں کررہا ہے ۔تمام سرکاری کمپنیاں دھیرے دھیرے ختم ہورہی ہیں ،سرکاری ٹیلی مواصلات کمپنی ( بی ایس این ایل) بند ہونے کے قریب ہے اس کے کئی سو ملازمین کو جبری مستعفی قراردیا گیا ہے۔ اور جو اس وقت کام کررہے ہیں وہ کئی ماہ سے تنخواہ سے محروم ہیں۔ بھارتی ریلوے (جو سونے کا انڈا دینے والی مرغی) ہے اسے نجی کمپنیوں کے ہاتھوں بیچا جارہا ہے۔ پھر بھی عوام تماشائی ہے۔ بیروزگاری عام ہوچکی ہے،بڑی بڑی غیر ملکی کمپیناں بھارت کو گڈبائی کہہ چکی ہیں۔ نیم سرکاری بینک دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں یا پھر دیوالیہ ہوچکے ہیں۔
آج کی خبر ہے کہ جس(YES) نامی بینک کے سربراہ نے نوٹ بندی کو حکومت کا ماسٹر اسٹروک کہا تھا اس بینک کے کھاتہ ہولڈروں کا پیسہ بینک میں پھنس گیا ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی کھاتہ ہولڈر پچاس ہزار سے زیادہ کی رقم نہیں نکال سکتا۔ مہنگائی اپنے شباب پر ہے،لیکن کوئی اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم ہی اس ظلم کی چکی میں نہیں پس رہے ہیں ؛بلکہ دوسرے لوگ بھی ہیں؛لیکن مذہب کے نام جو افیون کھلادیا گیا ہے اس کا نشہ ابھی بھی ہرن نہیں ہوا ہے۔شاید ان کا نشہ اس ٹوٹے گا جب وہ خود ’’پتھروں کے دور میں آجائیں گے‘‘ ۔
یہ سب پڑھنے کے بعد پریشان ہوں کہ بھارت کا آئین سیکولر ہونے کے باوجود اسکی سیاست میں مذہب کی اتنی شدید آمیزش کیسے ممکن ہوئی؟ کیا بھارت کی سپریم کورٹ لمبی تان کر سو رہی ہے؟ بھارت کے سیکولر آئین کا دفاع کرنا کس کا کام ہے؟
 

فرقان احمد

محفلین
دراصل تقسیم میں وہ تمام مسلمان جو پڑھے لکھے اور باشعور تھے وہ پاکستان آگئے، البتہ جو غریب نادار اور کم پڑھے لکھے تھے وہ بھارت میں ہی بس گئے ۔
پہلی مرتبہ یہ بات پڑھنے کو ملی ہے اور معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس موضوع پر اگر کچھ مواد پڑھنے کو مل جائے تو عنایت ہو گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلی مرتبہ یہ بات پڑھنے کو ملی ہے اور معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس موضوع پر اگر کچھ مواد پڑھنے کو مل جائے تو عنایت ہو گی۔
مولانا ابوالکلام آزاد کوئی کم شعور والے تھے جو بھارت میں ہی رہے؟ میرے خیال میں یہ ایک سویپنگ سٹیٹمنٹ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
دہلی کا دل دہل گیا
دہلی میں انسانی حقوق کے بعض کارکنوں کے مطابق ’حالیہ قتل وغارت گری ہندوتوا کی بڑی فلم کا محض ٹریلر تھا۔ اصلی فلم مغربی بنگال، حیدرآباد اور ممبئی میں شروع ہونے والی ہے جہاں غیر بی جے پی سیاست دانوں کو زندگی بھر کا سبق سکھانا ہے۔‘
نعیمہ احمد مہجور سینیئر صحافی @nayeema1
جمعہ 6 مارچ 2020 6:45

73161-335157780.jpg

گذشتہ دنوں دہلی فسادات میں ہلاک ہونے والے 31سالہ محمد مدثر کے رشتہ دار ان کے جنازے پر رو رہے ہیں (اے ایف پی)

جب رات کے اندھیرے میں شیرخوار بچوں کو ماں کی چھاتیوں سے الگ کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا تو انسانیت بلک بلک کر رو رہی تھی۔ جب پولیس کی وردی میں ملبوس مردوں کی فوج عورتوں کی عصمت دری پر قہقہے لگا رہی تھی تو دلی کا آسمان سیاہ ہو رہا تھا۔

جب ہندو شدت پسند نوجوانوں کو کاٹ کاٹ کر پاس والی گندی نہر میں تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ رہے تھے تو نہر کی کیچڑ لال ہو رہی تھی۔ جب خون میں لت پت آدھ مروں کو طبی عملہ ’آتنک وادی‘ کہہ کر ہسپتالوں سے باہر نکال رہے تھے تو فلورنس نائٹینگیل کی روح لرز رہی تھی۔ جب عدالتیں بے بسوں کو انصاف دینے سے انکار کر رہی تھیں تو آنکھوں پر پٹی باندھے انصاف کی دیوی تلملا رہی تھی۔

دہلی کے اس المیے کا سکرپٹ دہلی کے ہی ایوانوں میں بہت پہلے لکھا گیا تھا، جو اصل میں گجرات، آسام، کشمیر اور اترپردیش کا تسلسل ہے جہاں انسانیت اور انصاف پر پہرے بٹھا کر بھٹکتی روحوں کو چیخنے کی اجازت تک نہیں۔

پچیس فروری کی رات شمال مشرقی دہلی میں رہنے والی عزیزی کے لیے ایک ایسی گھناؤنی رات تھی جس نے اس کا سب کچھ چھینا۔ وہ اب بات نہیں کر پاتیں لیکن آنکھوں میں ٹھہرے آنسو اس رات کی داستان خود بتاتے ہیں۔

’وہ خونخوار درندوں کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑے، میرے کپڑے تار تار کیے، دو سال کی بچی میری گود میں تھی، جب انہوں نے میری چھاتیوں کو نوچنا شروع کیا۔ وہ نیچے گر پڑی، وہ اس معصوم بچی پر بھی چڑھ گئے اور وہ وہیں پر بلک بلک کر ڈھیر ہوگئی۔ میرا بیٹا دوڑا دوڑا ہمیں بچانے کے لیے آیا تو اس کو ترشول پر لٹکا کر پیچھے والی نہر میں پھینک دیا گیا۔ وہ نہر کی کیچڑ میں دھنس گیا۔

’میرے شوہر کو ویلڈنگ کی دکان میں آگ لگا کر جلا دیا گیا۔ کسی نے رحم کھا کر مجھے ہسپتال پہنچا دیا جہاں میرے شوہر کی جھلسی ہوئی لاش رکھی گئی تھی۔ ڈاکٹروں نے تین دن تک نہ بات کی اور نہ لاش دی۔ پھر کسی نے بتایا کہ میں شوہر کو دیکھ نہیں سکتی جس کا جسم ناقابل شناخت ہو گیا ہے۔ ہندوستان کے لیڈروں سے کہہ دو کہ ہندو دہشت گردوں نے ادھورا کام کیا ہے مجھے مار کر میری کہانی بھی ختم کر دو۔‘

یہ صرف عزیزی کی دل دہلانے والی داستان نہیں بلکہ ان تمام سینکڑوں عورتوں کی بھی ہے، جن کو بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت کے دارالحکومت دہلی میں سینکڑوں سفارت خانوں، عالمی اداروں، عالمی اور قومی میڈیا کے ہزاروں چینلوں، درجنوں انسانی حقوق کے کمیشنوں، چھ سو سے زائد اراکین پارلیمان اور 70 سے زائد اسمبلی ممبروں کی موجودگی میں وحشت اور درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

ان کے بچوں کو قتل کردیا گیا، ان کی دکانوں اور مکانوں کو گیس چیمبر میں منتقل کر کے زندہ جلا دیا گیا، جسموں کے حصے کر کے گندے نالوں میں بہا دیا گیا اور ہسپتالوں میں ’آتنک وادی‘ کہہ کر باہر نکالا گیا۔

کسی نے روکا نہیں، کسی نے بات نہیں کی اور کسی نے سہارا نہیں دیا۔ ان مناظر کو بیان کرنے کے لیے پتھر دل ہونا چاہیے جو صرف ان چند بھارتی اینکرز کے پاس ہے جو مسلمانوں پر ہونے والی اس بربریت کو فرقہ وارانہ فسادات قرار دے کر ہندوؤں کی چند ہلاکتوں کا مسلمانوں کی ہلاکتوں سے موازنہ کر رہے ہیں۔

اتر پردیش کے بعد دہلی کے ہزاروں ان مسلمانوں کو کوئی نہیں روک رہا جو گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں، ان بےسہارا عورتوں کو کوئی تحفظ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے بیٹوں کو کوئی یقین نہیں دلا رہا کہ ان کو اب زندہ نہیں جلایا جائے گا۔ ان کے شیرخوار بچوں کو کوئی یہ تسلی نہیں دے رہا کہ ان کو یتیم نہیں کیا جائے گا۔

عزیزی کو کسی دور کے رشتہ دار سبحان نے پناہ دی جو خود مظفرآباد کے دنگوں کے دوران بےگھر ہوگئے ہیں اور غازی آباد کے اس علاقے میں رہتے ہیں جو اتر پردیش میں شامل ہے۔ سبحان کہتے ہیں کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتہ ناتھ نے مسلمانوں کو بےروزگار اور بےگھر کرنے کا جو پروگرام شروع کیا ہے، اس پر کس نے اب تک بات کی جو اب دہلی کی خون ریزی پر کریں گے۔

’ہندوستان کے 22 کروڑ مسلمانوں پر مودی کی شکل میں قہر نازل ہوا ہے، جس کی شروعات 2002 میں شروع ہوئی۔ ہر روز دو چار مسلمان ہندو دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ رہے ہیں۔ مسلمان مملکتیں اپنے ملکوں میں ہندوؤں کو نوکریوں پر رکھتے ہیں اور مودی کی سرکار مسلمانوں کا قتل عام، بےگھر، بےروزگار اور اب شہریت سے بےدخل کرتی جا رہی ہے۔ کون ہے جو ہماری بےبسی پر بات کرے۔ ہمیں دو ہی راستے نظر آ رہے ہیں یا خاموشی سے ان کے غلام بن جائیں یا ان کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہو جائیں۔ اب کوئی تیسرا راستہ نہیں۔‘

چند روز جاری رہنے والی دہشت گردی کی وجہ سے 50 سے زائد افراد ہلاک، 92 مکان، 60 دکانیں، 500 گاڑیاں، چھ گودام، دو سکول اور چار مسجدیں جل کر خاکستر ہو چکی ہیں اور ایک ہزار کروڑ بھارتی روپوں کے برابر نقصان ہوا۔ ہزاروں مسلمان اب سکھ گوردواروں یا کلیساؤں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

دہلی میں انسانی حقوق کے بعض کارکنوں کے مطابق ’حالیہ قتل وغارت گری ہندوتوا کی بڑی فلم کا محض ٹریلر تھا۔ اصلی فلم مغربی بنگال، حیدرآباد اور ممبئی میں شروع ہونے والی ہے جہاں غیر بی جے پی سیاست دانوں کو زندگی بھر کا سبق سکھانا ہے اور مسلمانوں کو بھارت میں سرے سے نیست و نابود کرنا ہندوتوا ایجنڈا کا آخری حصہ ہے۔‘

اتنی بربریت اور خون ریزی پر افسوس کے دو الفاظ بولنےکی بجائے جب وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ وہ کرونا وائرس کے کارن ہولی نہیں منائیں گے تو کیا یہ سمجھنا کافی نہیں کہ انہوں نے خود کو ایک بار پھر ہندو وزیر اعظم جتا کر مسلمانوں کو پس پردہ واضح پیغام دیا ہے؟
 
Top