بھارت میں مسلم کش فسادات

سید عمران

محفلین
پاکستان کا بھارت میں مسلم کش فسادات پر تشویش کا اظہار

اسلام آباد: پاکستان نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین پر تشویش کا اظہار کر دیا جبکہ مسلم کش فسادات کے خلاف تہران میں بھی مظاہرہ کیا گیا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت میں امتیازی قانون کا نفاذ کرکے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی زندگی تنگ کی جا رہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق شدت سے پامال کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سے خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔

مودی سرکار کے زیر سرپرستی بھارت میں جاری مسلمانوں کے قتل عام پر عالمی ادارہ بھی بول پڑا۔ بھارت میں شہریت کے متنازعہ قانون پر اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھارتی سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست کر دی۔

ایران کے دارالحکومت تہران میں بھارتی سفارتخانے کے باہر بھارت میں مسلم کش فسادات کے خلاف ایرانی طلبا اور سول سوسائٹی کے اراکین نے احتجاج کیا۔ مودی سرکار کے خلاف احتجاج میں خواتین سمیت مردوں کی بھی بڑی تعداد شریک تھی۔ مظاہرین نے بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب بھارتی وزیر داخلہ کے ترجمان رویش کمار نے شہریت کے قانون کو بھارت کا داخلہ معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی غیر ملکی فریق کو بھارت کے داخلی معاملے میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ کئی ہفتوں سے جاری ہے جبکہ نئی دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ جن میں اب تک 46 افراد جان کی باز ہار چکے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
بھارتی دارالحکومت دہلی اور بھارت کے دوسرے شہروں میں مودی سرکار کی سرپرستی میں راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور مودی سرکار کے پروردہ ہندو انتہاءپسندوں کی جانب سے جس دیدہ دلیری کے ساتھ مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع کیا گیا اس سے مودی سرکار کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیساتھ دشمنی پوری دنیا کے سامنے واضع ہوگئی ہے۔جہاں انتہا پسند بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے مسلح جتھوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں بربریت کا مظاہرہ کر تے ہوئے سینکڑوں افراد کو شہید ، جبکہ مسلمانوں کی املاک پر بے دریغ حملے کرکے انہیں تباہ کرنے اور مساجد تک پر حملوں کے بعد وہاں ترنگا لہرانے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت میں انتہاءپسند ہندوئوں کی جانب سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو سیاسی ، مذہبی، سماجی ، ثقافتی اور معاشرتی مسائل اور پابندیوں کا سامنا ہے۔ اور اب حالیہ مسلم کش فسادات نے دنیا کی سب سے بڑی جمہورےت اور تمام مذاہب کو مساوی حقوق دینے کے نام نہاد دعویدار کا مکروہ چہرہ دنیا بھر کے سامنے عیاں کردیا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ دنیا بھر میں اقلیتوں کے حقوق کی بحالی اور ان کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں عالمی طاقتیں بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کے واقعات سے آگاہی کے باوجود پراسرار طور پر خاموش کیوں ہیں ، اور بھارت میں انتہاءپسند ہندوئوں کی جارحیت رکوانے کے لئے عالمی سطح پر لب کشائی کیوں نہیں کی جارہی۔ان حالات میں نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور مسلم اکثریتی علاقوں میں بے بنیاد الزامات لگا کر مسلمانوں کو تشدد کرکے قتل کیا جارہا ہے۔ درحقیقت اس وقت بھارت میں ایک متشدد، تنگ نظر ، انتہا پسند ہندو تنظیم کی حکومت ہے جو کہ خطے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی حریف بنی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بین الاقوامی قوتیں جنگ لڑرہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ انتہاءپسندی اور مذہبی شدت پسندی عالمی امن کے لئے زبردست چیلنج اور بہت بڑا خطرہ ہے ، لیکن دوسری جانب بھارت جو ڈیرھ ارب سے زائد آبادی کا حامل ہے اور ایک ایٹمی ملک ہے عملاً ایک انتہاءپسند متعصب اور شدت پسند تنظیم کے تسلط میں جاچکا ہے جس پر کسی جانب سے کوئی تشویش ظاہر نہیں کی جارہی۔ بھارتی ظلم وزیادتی پر استعماری طاقتوں کی پر اسرار خاموشی اور دوہرے معیار کی وجہ سے فساد ، انتشار اور بدامنی فروغ پارہے ہیں ، اور عالمی امن کو لاحق خطرات کی شرح تیزی سے بلند ہورہی ہے، ان حالات سے واضح اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب بھارت امریکی جدید ہتھیاروں سے لیس ہو جائیگا تو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیا حشر نہیں اٹھائے گا۔

دنیا کا امن و سکون اور چین و اطمنان اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ سوچ اور رویے میں تبدیلی اور دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کی طرح مسلمانوں کے انسانی حقوق کا ہر سطح پر خیال رکھا جائے۔ بھارت کے اشتعال انگیز اور جارحانہ رویے سے صرف وہاں بسنے والے مقامی اقلیتوں کے حقو ق ہی پامال نہیں ہورہے بلکہ پاکستان اور جنوبی ایشیاءکے دیگر ممالک میں بھی بھارت کی بلاجواز دراندازی اور مداخلت جاری ہے جس سے ان ممالک میں امن ایک عالمی چیلنج بن چکا ہے ۔پاکستان کے خلاف بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی کی روش باہمی کشاکش کو ہوا دینے کا باعث بن رہی ہے جو کسی طور دونوں ملکوں کے کروڑوں باشندوں کے بہتر مستقبل اور پر امن ماحول کے لئے سازگار نہیں ۔ بھارت اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان ایک مضبوط ایٹمی قوت ہے اور اس کے لئے کسی بھی لحاظ سے تر نوالہ ثابت نہیں ہوسکے گا ، تاہم اندرونی اور بیرونی طور پر مملکت خداداد کے خلاف متواتر سازشیں اور ریشہ دوانیا ںکرکے اسے اس حد تک کمزورضرور کیا جاسکتا ہے کہ وقت آنے پر پاکستان کو پوری دنیا کے سامنے نقص امن کا شکار قراردے کر اس کی ایٹمی طاقت اور اقتصادی ترقی پر پابندیوں کا مطالبہ کرسکے۔لیکن پاکستان کے ارباب اقتدار و اختیار کو بھارت کی مکروہ چالوں سے مکمل آگاہی حاصل ہے اور پاکستانی فوج اور اس کے سپہ سالار جنرل قمر جاویدباجوہ بھارت کی چال بازیوں کا تدارک کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہیں، اور بخوبی جانتے ہیں کہ وطن عزیز کے استحکام و بقاءکے لئے دشمن کی چالوں کو ناکام بنانا از حد ضروری ہے۔ امریکہ اور عالمی امن کے علمبرداروں کو چاہیے کہ وہ دوہرا معیار ترک کرکے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر بے جا پابندیوں ، انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کا نوٹس لیں، تاکہ دنیا بھر میں پائیدار امن کا قیام عمل میں آسکے۔
لنک
 

فاخر

محفلین
حالات سنگین ہی نہیں ؛بلکہ ہولناک بھی ہیں جسے ہم گجرات-2 کہہ سکتے ہیں۔ یہ واقعہ گزشتہ ہفتہ اتوار کی شام سے شروع ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جعفرآباد ، موج پور، بابر پور جیسے کثیر مسلم آبادی کا محاصرہ کرلیا گیا، بلوائی بیرون دہلی سے منگائے گئے تھے، جنہوں نے نہایت ہی سفاکی سے مسلم علاقہ میں توڑ پھوڑ ، آگ زنی ، گولی باری کی۔ پولیس کا خصوصی تعاون رہا جس پر پوری دنیا سے انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ بی بی سی نے جو کچھ دکھایا ہے وہ پوری طرح سے سچ ہے؛بلکہ بی بی سی نے بعض ہولناک پہلو دکھانے سے گریز ہی کیا ہے ۔ شاید یہ اس کی پالیسی ہے۔
ظالموں کی سفاکی تو دیکھئے کہ انہوں نے اپنے ہندو بھائی کو بھی نہیں بخشا،( جَن چوک ) نامی ہندی ویب پورٹل کیلئے کام کرنے والے ہندو برہمن صحافی سوشیل مانو SHOSHIL MANOV کے ساتھ وہ وہ عمل انجام دیا گیا ہے ،جس کا اس نے کبھی ہندو ہونے کے ناطے گمان بھی نہیں کیا ہوگا۔ تشدد کی خبریں آنے لگیں تو وہ بطور صحافی اپنے ایک دوست کے ساتھ خبریں کور کرنے گیا۔ پہلے اس نے مسلم محلہ میں لوگوں سے انٹرویو لیا پھر وہ کثیر ہندو علاقے بابر پور (بابر پور یہ وہی علاقہ ہے جہاں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ :’ ای وی ایم کا بٹن اتنے غصہ سے دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے) گیا۔ جب وہ لائیو ویڈیو بنانے لگا تو دو لوگ اسے گھیر لئے اورگالیاں دینے لگے، ان کا کیمرہ اور موبائل چھین لیا۔ جب منع کیا تو اور پٹائی کرنے لگے۔ پھر کئی اور لوگ وہاں آگئے اور چاروں طرف سے اس کی پٹائی ہونے لگی ۔ اس نے کہا کہ میں کوئی اور نہیں ہوں بلکہ ایک صحافی ہوں اور ہندو بھی ہوں ،مجھے کیوں مار رہے ہیں ؛لیکن اس منت سماجت کا ان بلوائیوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ لاٹھی ڈنڈے ،لوہے کی راڈ (سریہ) سے مارنے لگے۔ اتنے میں کسی نے پستول اس کے پیٹ سے لگادی اور کہا کہ اگر تو ہندو ہے تو پھر ’’ہنومان چالیسا ‘‘ (ہندو مت کا کلمہ) پڑھ کر سنا ۔ اس نے ہنومان چالیسا بھی پڑھ کر سنایا ۔ پھر بھی وحشیوں کو یقین نہ ہوا پھر اس کی شلوار کھول کر دکھانے کو کہا کہ مختون ہے یا غیر مختون۔(ہندو ختنہ نہیں کراتے ہیں) اس نے یہ بھی کیا، کھول کر اپنے ہندو مذہب کی مخصوص شناخت دکھانی پڑی ۔ جب ان لوگوں کو یہ شناخت بھی دیکھ لی پھر بھی مارتے رہے۔ وہ کسی طرح سے اپنی جان بچا کر مسلم محلہ میں گیا جہاں اسے پانی پلایا گیا ، فرسٹ ایڈدے گیا ۔ اور پھر ایک مسلم آٹو ڈرائیور نے اسے محفوظ مقام تک چھوڑ آیا ۔ایسی ایک ہی کہانی نہیں ہے؛بلکہ کئی کہانیاں ہیں ۔ اب غور کیجئے ! کہ ان معصوم مسلمانوں کا کیا ہوا ہوگا جنہیں نہ تو ہنومان چالیسا آتا ہے اور نہ ہی وہ غیر مختون ہیں۔ یہ واقعہ اس نے خود آکر بتایا ہے۔ خیال رہے کہ اس کی ماں نے جانے سے قبل کہا تھا کہ بیٹا مسلمانوں کے محلہ میں جانے سے پرہیز ہی کرنا۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس بیچارے کو اسی مسلمانوں نے بچایا اور کسی طرح کی کوئی تکلیف نہیں دی۔
غیر سرکاری اطلاع کے مطابق اب تک 100 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جس میں تقریباً دو تہائی مسلمان ہیں ۔ البتہ ایک قلیل تعداد ہندؤں کی بھی ہے ،جو مسلم محلوں کا محاصرہ کرکے گالی گلوج اور آگ زنی کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی گولیوں کا شکار ہوا۔
انہوں نے ایک مسجد نہیں بلکہ 9 مساجد اور دو چھوٹے چھوٹے مدرسہ کو بھی آگ کے حوالے کردیا ہے۔ شیو وہار کی مسجد( وہی مسجد ہے جس کے مینار پر چڑھ کر بلوائیوں نے زعفرانی جھنڈا نصب کردیا تھا اور اس کی ویڈیو اس فساد کی شناخت بن گئی) کے ایک مدرسہ کے 80 سے زائد طلباء ابھی تک لاپتہ ہیں، جن کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اربوں نہیں کھربوں کامالی نقصان کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی دوکان چن چن کر نقصان پہنچایا گیا ، لوٹا گیا ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

فاخر

محفلین
عالمی فورم پر مذمت کے بعد ہندوستان کا موقف وہی ہے،جو ہمیشہ سے رہا ہے یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے ، یہ داخلی معاملہ کیسے اور کس طرح ہے؟ اگر داخلی معاملہ ہے تو کیا کسی مخصوص مذہب کے لوگوں کا نشانہ بناکر قتل ِ عام کرنا جائز ہے؟ یقیناً نہیں، دراصل اس میں ان اسلامی ممالک کی کمی ہے، جو تمام وسائل رہتے ہوئے بھی ایسے معاملہ پر کچھ نہیں بولتے ہیں۔ اگر سعودی عرب ، کویت ،قطر جیسے امیر ممالک تمام دنیا کے مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کا تہیہ کرلیں تو پھر کسی کی مجال نہیں ہے کہ کوئی مسلمانوں کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ اگر عرب ممالک اگر چاہ لے تو پھر ہفتوں اور دنوں کی بات تو بہت دور ہے ، منٹوں میں سارا گھمنڈ خاک میں مل جائے گا، لیکن شاید اب ایسا نہیں ہوسکتا؛کیوں کہ خلافت عثمانیہ ختم ہوچکی ہے۔محض چند ممالک جو بیچارے غریب ہیں ان کی مذمت سے کچھ نہیں ہوگا۔ دنیا جب کسی کو لاوارث سمجھ لیتی ہے تو پھر انجام وہی ہوتا ہے،جو دہلی مسلم کش فساد کا ہوا۔
 

سید عمران

محفلین
چوں کہ مارنے والے غیر مسلم اور مرنے والے مسلمان ہیں اس لیے انسانیت کی ماں مری ہوئی ہے۔۔۔
یہ مردار ماں اس وقت ہوش میں آتی ہے اگر مسلمان اس کا الٹ صرف سوچ بھی لیں!!!
 

فاخر

محفلین
س کا الٹ صرف سوچ بھی لیں
شايد اسى كى سزا ان مسلمانوں کی مل رہی ہے جنہوں نے دفاع میں ہاتھ پاؤں مارے تھے ۔ اور اسی دفاع سے پوری دنیا خوف کے مارے چیخ رہی ہے۔ دراصل ہمارے پاس سب کچھ ہے ،قوت اور دولت بھی ؛لیکن ہم اس قوت و دولت کو درست مصرف میں ا ستعمال نہیں کرتے۔ اتنی دولت و قوت ہونے کے بعد کس کی جرأت تھی کہ مسلمانوں کو آنکھ اٹھا کربھی دیکھ لے، جیسا کہ عیسائیوں کے ساتھ معاملہ ہے۔ ہندوستان میں کچھ بھی ہوتا ہے تو امریکہ اور برطانیہ چیخ چیخ کر آسمان سر پراٹھالیتے ہیں اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ جب ہمارے ساتھ معاملہ برعکس ہے ۔ ہم تو نئے ہٹلر کو ملک کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازتے ہیں۔ سعودی عرب اس کی مثال ہے۔ فیاحسرتا !!!!!!!!!!!!
 

جاسم محمد

محفلین
حالات سنگین ہی نہیں ؛بلکہ ہولناک بھی ہیں جسے ہم گجرات-2 کہہ سکتے ہیں۔ یہ واقعہ گزشتہ ہفتہ اتوار کی شام سے شروع ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جعفرآباد ، موج پور، بابر پور جیسے کثیر مسلم آبادی کا محاصرہ کرلیا گیا، بلوائی بیرون دہلی سے منگائے گئے تھے، جنہوں نے نہایت ہی سفاکی سے مسلم علاقہ میں توڑ پھوڑ ، آگ زنی ، گولی باری کی۔ پولیس کا خصوصی تعاون رہا جس پر پوری دنیا سے انگلی اٹھائی جارہی ہے۔ بی بی سی نے جو کچھ دکھایا ہے وہ پوری طرح سے سچ ہے؛بلکہ بی بی سی نے بعض ہولناک پہلو دکھانے سے گریز ہی کیا ہے ۔ شاید یہ اس کی پالیسی ہے۔
ظالموں کی سفاکی تو دیکھئے کہ انہوں نے اپنے ہندو بھائی کو بھی نہیں بخشا،( جَن چوک ) نامی ہندی ویب پورٹل کیلئے کام کرنے والے ہندو برہمن صحافی سوشیل مانو SHOSHIL MANOV کے ساتھ وہ وہ عمل انجام دیا گیا ہے ،جس کا اس نے کبھی ہندو ہونے کے ناطے گمان بھی نہیں کیا ہوگا۔ تشدد کی خبریں آنے لگیں تو وہ بطور صحافی اپنے ایک دوست کے ساتھ خبریں کور کرنے گیا۔ پہلے اس نے مسلم محلہ میں لوگوں سے انٹرویو لیا پھر وہ کثیر ہندو علاقے بابر پور (بابر پور یہ وہی علاقہ ہے جہاں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ :’ ای وی ایم کا بٹن اتنے غصہ سے دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے) گیا۔ جب وہ لائیو ویڈیو بنانے لگا تو دو لوگ اسے گھیر لئے اورگالیاں دینے لگے، ان کا کیمرہ اور موبائل چھین لیا۔ جب منع کیا تو اور پٹائی کرنے لگے۔ پھر کئی اور لوگ وہاں آگئے اور چاروں طرف سے اس کی پٹائی ہونے لگی ۔ اس نے کہا کہ میں کوئی اور نہیں ہوں بلکہ ایک صحافی ہوں اور ہندو بھی ہوں ،مجھے کیوں مار رہے ہیں ؛لیکن اس منت سماجت کا ان بلوائیوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ لاٹھی ڈنڈے ،لوہے کی راڈ (سریہ) سے مارنے لگے۔ اتنے میں کسی نے پستول اس کے پیٹ سے لگادی اور کہا کہ اگر تو ہندو ہے تو پھر ’’ہنومان چالیسا ‘‘ (ہندو مت کا کلمہ) پڑھ کر سنا ۔ اس نے ہنومان چالیسا بھی پڑھ کر سنایا ۔ پھر بھی وحشیوں کو یقین نہ ہوا پھر اس کی شلوار کھول کر دکھانے کو کہا کہ مختون ہے یا غیر مختون۔(ہندو ختنہ نہیں کراتے ہیں) اس نے یہ بھی کیا، کھول کر اپنے ہندو مذہب کی مخصوص شناخت دکھانی پڑی ۔ جب ان لوگوں کو یہ شناخت بھی دیکھ لی پھر بھی مارتے رہے۔ وہ کسی طرح سے اپنی جان بچا کر مسلم محلہ میں گیا جہاں اسے پانی پلایا گیا ، فرسٹ ایڈدے گیا ۔ اور پھر ایک مسلم آٹو ڈرائیور نے اسے محفوظ مقام تک چھوڑ آیا ۔ایسی ایک ہی کہانی نہیں ہے؛بلکہ کئی کہانیاں ہیں ۔ اب غور کیجئے ! کہ ان معصوم مسلمانوں کا کیا ہوا ہوگا جنہیں نہ تو ہنومان چالیسا آتا ہے اور نہ ہی وہ غیر مختون ہیں۔ یہ واقعہ اس نے خود آکر بتایا ہے۔ خیال رہے کہ اس کی ماں نے جانے سے قبل کہا تھا کہ بیٹا مسلمانوں کے محلہ میں جانے سے پرہیز ہی کرنا۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس بیچارے کو اسی مسلمانوں نے بچایا اور کسی طرح کی کوئی تکلیف نہیں دی۔
غیر سرکاری اطلاع کے مطابق اب تک 100 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جس میں تقریباً دو تہائی ہندوؤں کی بھی ہے ۔خیال رہے کہ یہ تعداد ان ہندوؤں کی ہے جو مسلم محلوں کا محاصرہ کرکے گالی گلوج اور آگ زنی کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی گولیوں کا شکار ہوا۔
انہوں نے ایک مسجد نہیں بلکہ 9 مساجد اور دو چھوٹے چھوٹے مدرسہ کو بھی آگ کے حوالے کردیا ہے۔ شیو وہار کی مسجد( وہی مسجد ہے جس کے مینار پر چڑھ کر بلوائیوں نے زعفرانی جھنڈا نصب کردیا تھا اور اس کی ویڈیو اس فساد کی شناخت بن گئی) کے ایک مدرسہ کے 80 سے زائد طلباء ابھی تک لاپتہ ہیں، جن کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اربوں نہیں کھربوں کامالی نقصان کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی دوکان چن چن کر نقصان پہنچایا گیا ، لوٹا گیا ہے۔
مسلم ہندو کمیونل فسادات بھارت میں ہمیشہ سے ہوتے چلے آئے ہیں البتہ مودی حکومت میں تو ریاستی پشت پناہی کی وجہ سے تمام حدود عبور کر دی گئی ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
عالمی فورم پر مذمت کے بعد ہندوستان کا موقف وہی ہے،جو ہمیشہ سے رہا ہے یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے ، یہ داخلی معاملہ کیسے اور کس طرح ہے؟ اگر داخلی معاملہ ہے تو کیا کسی مخصوص مذہب کے لوگوں کا نشانہ بناکر قتل ِ عام کرنا جائز ہے؟ یقیناً نہیں، دراصل اس میں ان اسلامی ممالک کی کمی ہے، جو تمام وسائل رہتے ہوئے بھی ایسے معاملہ پر کچھ نہیں بولتے ہیں۔ اگر سعودی عرب ، کویت ،قطر جیسے امیر ممالک تمام دنیا کے مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کا تہیہ کرلیں تو پھر کسی کی مجال نہیں ہے کہ کوئی مسلمانوں کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے۔ اگر عرب ممالک اگر چاہ لے تو پھر ہفتوں اور دنوں کی بات تو بہت دور ہے ، منٹوں میں سارا گھمنڈ خاک میں مل جائے گا، لیکن شاید اب ایسا نہیں ہوسکتا؛کیوں کہ خلافت عثمانیہ ختم ہوچکی ہے۔محض چند ممالک جو بیچارے غریب ہیں ان کی مذمت سے کچھ نہیں ہوگا۔ دنیا جب کسی کو لاوارث سمجھ لیتی ہے تو پھر انجام وہی ہوتا ہے،جو دہلی مسلم کش فساد کا ہوا۔
امیر عرب مسلم ممالک کی معیشتیں بھارتی تارکین وطنوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ اگر بھارتی مسلم کشی پر وہ کوئی سخت رد عمل دکھائیں گے تو گویا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا
 

جاسم محمد

محفلین
چوں کہ مارنے والے غیر مسلم اور مرنے والے مسلمان ہیں اس لیے انسانیت کی ماں مری ہوئی ہے۔۔۔
یہ مردار ماں اس وقت ہوش میں آتی ہے اگر مسلمان اس کا الٹ صرف سوچ بھی لیں!!!
غیر سرکاری اطلاع کے مطابق اب تک 100 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جس میں تقریباً دو تہائی ہندوؤں کی بھی ہے ۔
مرنے والوں میں دو تہائی ہندو ہیں۔ یکطرفہ رپورٹنگ سے گریز کریں
 

جاسم محمد

محفلین
شايد اسى كى سزا ان مسلمانوں کی مل رہی ہے جنہوں نے دفاع میں ہاتھ پاؤں مارے تھے ۔ اور اسی دفاع سے پوری دنیا خوف کے مارے چیخ رہی ہے۔ دراصل ہمارے پاس سب کچھ ہے ،قوت اور دولت بھی ؛لیکن ہم اس قوت و دولت کو درست مصرف میں ا ستعمال نہیں کرتے۔ اتنی دولت و قوت ہونے کے بعد کس کی جرأت تھی کہ مسلمانوں کو آنکھ اٹھا کربھی دیکھ لے، جیسا کہ عیسائیوں کے ساتھ معاملہ ہے۔ ہندوستان میں کچھ بھی ہوتا ہے تو امریکہ اور برطانیہ چیخ چیخ کر آسمان سر پراٹھالیتے ہیں اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ جب ہمارے ساتھ معاملہ برعکس ہے ۔ ہم تو نئے ہٹلر کو ملک کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازتے ہیں۔ سعودی عرب اس کی مثال ہے۔ فیاحسرتا !!!!!!!!!!!!
اگر پوری دنیا ان کمیونل فسادات کے بعد بھارت پر معاشی پابندیاں عائد کردے تو یہ ہندو ہٹلر تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں گے۔ وہ یہ سب کرنے کی جرات صرف اپنی معاشی قوت کے بل بوتے پر کر رہے ہیں
 

فاخر

محفلین
لم ہندو کمیونل فسادات بھارت میں ہمیشہ سے ہوتے چلے آئے ہیں
فرقہ وارانہ فساد بھارت کی گھٹی میں پڑی ہے ،لیکن گجرات اور دہلی فساد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس ملک میں کسی وقت بھی ہولو کاسٹ ہوسکتا ہے، جس کے لیے دنیا کو تیار رہنا چاہیے، کل ہی این ڈی ٹی پر ایک سکھ بھائی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ انہیں شدت پسند افراد جن کا تعلق ہندوتوا شدت پسند ذیلی گروپ سے ہے، نے سکھ بھائی کو فون کرکے بار بار دھمکی دی کہ وہ فساد زدگان کی اعانت نہ کریں ورنہ اس کے نتیجے میں ان کے گرودوارے کو بھی آگ لگادی جائے گی۔(خیال رہے کہ سکھ بھائی بلا تفریق مذہب انسانی جذبہ کے تحت مصیبت زدگان کی بھر پور امداد کرتے ہیں) یہ ہے اس ہندوستان کی اس وقت کی تازہ صورتحال۔
ٹوئٹر پر مستقل کئی دنوں سے اور وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کا ٹرینڈ چلایا جاتا ہے، آخر یہ کون لوگ ہیں، جو اس ٹرینڈ میں حصہ لیتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ بغیر کسی سیاسی پشت پناہی کے ایسا نہیں ہوسکتا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس ٹرینڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اورمسلمانوں کےخلاف جی بھر کے اشتعال انگیزی کرتے ہیں ،ان کے والد خلیجی ملک میں کسی عرب شیخ کی جوتیاں سیدھی کرکے دو وقت کی روٹیاں حاصل کرتے ہیں۔کسی منچلے نے ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے بڑا ہی درست جملہ ادا کیا، اس مسلم نوجوان نے کہا کہ :’ اگر مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ ہی کرنا ہے تو بہت خوب ، پہلے آپ عرب ممالک سے آنے والے پٹرول ڈیزل کا بھی بائیکاٹ کریں؛کیوں کہ یہ پٹرول ڈیزل ہندوستان کی پیداوار نہیں ہے ؛بلکہ یہ عرب ملکوں سے آتا ہے۔ لیکن جب بے حیائی اور بے حسی بڑھ جاتی ہے تو پھر اس کا کوئی جواب نہیں۔
یہ ہندو شدت پسند گروہ محض بیس یا پچیس کروڑ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں جب کہ اگر سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک کے سربراہان اس بات کا محض رسمی اعلان کردیں کہ ہم بھی ہندوستان کا معاشی بائیکاٹ کرتے ہیں تو یقین مانئے پورے ہندوستان میں کھلبلی ہی نہیں مچے گی بلکہ لوگ سڑکوں پر بلبلاتے ہوئے نظر آئیں گے۔
 

فاخر

محفلین
رنے والوں میں دو تہائی ہندو ہیں۔ یکطرفہ رپورٹنگ سے گریز کریں
جناب میں اُس ادارہ سے ہوا ہوں ،جہاں سے پورے ہندوستان کو اردو میں خبریں جاتی ہیں۔ یعنی اردو نیوز ایجنسی سے وابستہ ہوں ، میں نے جائے وقوعہ پر جاکر گراؤنڈ رپورٹنگ کی ہے۔ کم از کم اس وقت مجھے نہ جھٹلائیں!
 

جاسم محمد

محفلین
جناب میں اُس ادارہ سے ہوا ہوں ،جہاں سے پورے ہندوستان کو اردو میں خبریں جاتی ہیں۔ یعنی اردو نیوز ایجنسی سے وابستہ ہوں ، میں نے جائے وقوعہ پر جاکر گراؤنڈ رپورٹنگ کی ہے۔ کم از کم اس وقت مجھے نہ جھٹلائیں!
بھائی آپ ہی کی تائید کی ہے کہ مرنے والوں میں دو تہائی ہندو بھی ہیں۔
غیر سرکاری اطلاع کے مطابق اب تک 100 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جس میں تقریباً دو تہائی ہندوؤں کی بھی ہے
 
Top