بھارتی میڈیا مودی کا حامی کیوں ہوتا جا رہا ہے؟

گزشتہ ہفتے دہلی میں جب عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال نے اپنی کابینہ کے وزیروں کے ساتھ پارلیمنٹ کے نزدیک سڑک پر دھرنا دیا تو انہیں ابتدا میں میڈیا میں زبردست کوریج ملی اور میڈیا کا رویہ پوری طرح مثبت رہا لیکن دھرنا جیسے ہی دوسرے روز داخل ہوا تقریباً سارے ٹی وی چینل اچانک کیجریوال اور ان کے دھرنے کے مخالف ہو گئے۔
میڈیا کی مخالفت اتنی اچانک، اجتماعی اور واضح تھی کہ خود کیجریوال نے نامہ نگاروں سے پوچھا کہ یہ میڈیا کو اچانک کیا ہوگیا۔
‏عام آدمی پارٹی ابھی ایک برس قبل وجود میں آئی ہے اور خود اس کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ وہ پہلے ہی انتخابات میں ہی دہلی میں بر سرِ اقتدار آ جائے گی۔ اس وقت وہ پارلیمانی انتخابات کے لیے قومی سطح پر پارٹی کے امیدوار متعین کرنے اور اس سے بھی زیادہ اہم اپنا منشور یا مستقبل کا وژن پیر تیار کرنے میں مصروف ہے۔
اس مرحلے پر کسی کو بھی نہیں معلوم کہ عام آدمی پارٹی آئندہ انتخابات میں کیا کردار اداکرے گی لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس جماعت نے ایک بھی لیڈر اور امیدوار انتخابی میدان میں اتارے بغیر بھارت کی سیاست کا منظر ہی بدل دیا ہے۔
اس نئی جماعت نے کانگریس اور بی جے پی سے لے کر سبھی علاقائی جماعتوں تک میں ایک بےچینی پیدا کر دی ہے ۔
دوسری جانب بی جے پی کے رہنما نریند مودی کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وزارت عظمی کے لیے ان کا راستہ روز بروز ہموار ہوتا جا رہا ہے ۔ مودی کے بہتر امکانات کے تناسب سے ہی اب بھارت کا میڈیا بھی رنگ بدلتا جا رہا ہے اور تقریباً سارے ٹی وی چینلوں پر خبروں اور تبصروں میں اچانک مودی کی طرف جھکاؤ نظر آنے لگا ہے ۔
بعض تجزیاتی رپورٹوں کے مطابق کئی کارپوریٹ مالکوں نے اپنے چینلوں کو صاف طور پر ہدایت کی ہے وہ مودی کی مخالفت سے گریز کریں اور مودی مخالف تجزیہ کاروں اور ماہرین کر بحث ومباحثہ میں کم شریک کریں ۔
مودی کا مغرور اور یکطرفہ رویہ
نریندر مودی بیشتر انگریزی میڈیا کو شک و شبہے کی نطر سے دیکھتے رہے ہیں۔میڈیا کے تئیں ان کا رویہ کافی مغرور اور یکطرفہ رہا ہے۔وہ ابھی تک پریس کانفرنس سے گریز کرتے رہے ہیں اور انٹرویو صرف اسی صحافی کو دیتے ہین جسے وہ چاہتے ہیں ۔ انٹرویو سے پہلے وہ صحافی سے سارے سوال بھی طلب کرتے ہیں اور صحافی کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان میں کون سے سوال کرنے ہیں اور کون سے نہیں۔
ملک کے ایک سرکردہ جریدے نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ پچھلے چند ہفتوں میں کم ازکم پانچ سرکردہ مدیروں کو غیر جانبدار رہنے یا مودی مخالف خیالات کے سبب ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ یہی نہیں ٹی وی چینلوں پر اچانک ایسے تجزیہ کاروں اور مبصرین کی تعداد بڑھ گئی ہے جو دائیں بازو کے نظریات کے حامل ہیں۔
گجرات کے فسادات کے پس منظر میں نریندر مودی بیشتر انگریزی میڈیا کو شک و شبہے کی نطر سے دیکھتے رہے ہیں ۔ میڈیا کے تئیں ان کا رویہ کافی مغرور اور یکطرفہ رہا ہے۔
وہ ابھی تک پریس کانفرنس سے گریز کرتے رہے ہیں اور انٹرویو صرف اسی صحافی کو دیتے ہین جسے وہ چاہتے ہیں ۔ انٹرویو سے پہلے وہ صحافی سے سارے سوال بھی طلب کرتے ہیں اور صحافی کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان میں کون سے سوال کرنے ہیں اور کون سے نہیں۔
بھارت کے ایک سرکردہ صحافی نے چند برس قبل ایک انٹرویو کے دوران جب مودی سے گجرات فسادات کے بارے میں سوال کیا تو وہ انتہائی ناراضگی مین انٹرویو سے اٹھ کر چلے گئے ۔ اس کے بعد کسی بھارتی صحافی نے عموماً ان سے فسادات کے بارے سوال کرنے کی جرات نہیں کی اور اب بھی بھارتی میڈیا اپنی اسی روش پر قائم ہے ۔
بھارت کے کارپوریٹ ہاؤسز اور بڑے بڑے صنعتی گھرانوں نے مذہبی قتل عام ، ذات پرستی ، مذہبی تفریق اور دوسرے اہم سماجی معاملات پر شاید ہی کبھی کوئی پوزیشن لی ہو اور وہ ہمیشہ خاموش رہے ہیں۔
مودی میں انہیں ایک کھلی معیشت کا علمبردار اور اصلاح پسند رہنما نظر آتا ہے۔ مودی کا ساتھ دینا اس لیے بھی ان کے لیے فطری ہے کہ وہ موجودہ انتخابی سیاست کی بساط پر شکست خوردہ مہروں کے ساتھ اپنی وابستگی دکھا کر کوئی خطرہ مول نہیں لیں گے۔
بھارتی میڈیا بھی اچانک اسی لیے مودی کے رنگ میں رنگتا جا رہا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2014/02/140201_doosra_pehlu_media_modi_zs.shtml
 
Top