بچے - شفیق الرحمٰن (مسکراھٹیں)

بچے
شفیق الرحمٰن
ایک صاحب جو غالباً شکاری تھے اپنی آپ بیتی سنا رہے تھے کہ کس طرح وہ جنگل میں چھُپتے پھر رہے تھے اور ایک شیر ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ بچے طرح طرح کے سوال پوچھ رہے تھے۔ شیر کا رنگ کیسا تھا؟ آپ کی شیر سے دشمنی تھی کیا؟ شیر دُبلا تھا یا موٹا؟ آپ نے شیر کی کمر پر لٹھ کیوں نہیں مارا؟ کیا آپ ڈرپوک تھے جو شیر سے ڈر رہے تھے؟۔۔۔۔ وہ تھوڑی سی بات کرتے اور سب بچے چلّا کر پوچھتے، پھر کیا ہوا؟ اور ساتھ ہی بے تُکے سوالات کی بوچھاڑ ہو جاتی۔ وہ بالکل تنگ آ چکے تھے۔ ایک مرتبہ بچوں نے پھر پوچھا کہ پھر کیا ہُوا؟
” پھر کیا ہونا تھا۔” وہ اپنے بال نوچ کر بولے۔ ” پھر شیر نے مجھے کھا لیا۔”
اور بچوں نے تالیاں بجائیں۔ ہپ ہپ ہرے کیا۔ ایک ننھا اپنا ڈھول اٹھا لایا اور ساتھ ہی لکڑی کا نصف گھوڑا، جسے آری سے کاٹا گیا تھا۔ اس گھوڑے کا نام لوئی ساڑھے تین تھا۔ انہوں نے وجہ بتائی کہ پہلے انہوں نے اُسے کسی دوست کے ساتھ مل کر خریدا تھا۔ تب اس کا نام لوئی ہفتم تھا۔ دونوں‌دوستوں کی لڑائی ہوئی تو گھوڑے کو آری سے آدھا آدھا تقسیم کیا گیا۔ چنانچہ اس کا نام لوئی ساڑھے تین رکھ دیا گیا۔
۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اُدھر بچوں نے ہمیں پریشان کر دیا۔ ایک پوچھتا تھا، بھائی جان چڑیا گھر کو چڑیا گھر کیوں کہتے ہیں؟ دوسرا یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ یہ چیتے اور شیر وغیرہ سرکس سے پہلے کیا کیا کرتے تھے؟ ایک کا غبارہ اُڑ گیا۔ وہ یہ دریافت فرما رہے تھے کہ کششِ ثقل نے غبارے کو روکا کیوں نہیں؟ کششِ ثقل سے اُن کا اعتبار اُٹھ چلا تھا۔
ایک بچے نے بتایا کہ اس نے ایک شخص دیکھا تھا جس کا نصف چہرہ بالکل سیاہ تھا۔
“یہ کیسے ہو سکتا ہے؟” روفی نے پوچھا۔
“اس کا بقیہ نصف چہرہ بھی سیاہ تھا۔”
ایک بزرگ فرما رہے تھے۔ ” جب میں چھوٹا سا تھا تو اس قدر نحیف تھا، اتنا کمزور تھا کہ میرا وزن چار پونڈ تھا۔ مجھے دنیا کی بیماریوں نے گھیرے رکھا۔”
“تو کیا آپ زندہ رہے تھے؟” ایک ننھے نے دریافت کیا۔
ایک خاتون فرما رہی تھیں۔” اس وقت اپنے ملک میں ہم جاگ رہے ہیں، لیکن امریکہ کے بعض حصوں میں لوگ سو رہے ہوں گے۔”
” سُست الوجود کہیں کے۔” ایک ننھے نے بات کاٹی۔
۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
دوسرے کمرے سے ایک بچے نے صدائے احتجاج بلند کی اور نعرہ لگایا۔ ہم بھاگ کر پہنچے تو دیکھا کہ دو بچے لڑ رہے ہیں۔
بڑا چھوٹے کی خوب تواضع کر رہا تھا۔ مشکل سے دونوں کو علیحدہ کیا۔ دادی جان کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔ لڑائی کی تفصیل بیان کی جا رہی تھی۔ چھوٹا بچہ ڈینگیں مار رہا تھا کہ میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ” میں نے اس کو پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا اور اپنی ناک اس کے دانتوں میں دے دی۔ پھر میں نے اس کی کُہنی اپنی پسلیوں میں چبھو دی اور دھڑام سے اس کا مُکہ اپنی کمر میں رسید کیا۔ پھر زور سے اس کا تھپڑ اپنے منہ پر مارا۔ پھر میں نے اس کی ٹھوکر جو اپنے سینے میں لگائی ہے تو بس۔۔”
 

قیصرانی

لائبریرین
وہ بھی لگائیے گا جس میں ابا جان کی طلائی گھڑی کو بو کر وہ طلائی گھڑیال کی امید رکھے ہوئے تھے :)
اور وہ بھی جس میں بھیڑوں کی گنتی کی گئی تھی :)
 
Top