بچپن کی عید اور عید کارڈز

فرحت کیانی

لائبریرین
بھائی صاحب ، پکڑنے والا جملہ دوسرا تھا ، پہلے نہیں۔



ایک کزن کو دیے تھے معصومیت میں دو تین عید کارڈ ایک اور کزن کے توسط سے ۔ چند ماہ بعد رابطہ گر کزن کے کمرے میں وہی کارڈ دیکھ کر جو دل پر گزری اس کی یاد آج اس ظالم دھاگے سے پھر تازہ ہو گئی ہے۔ :cry:

:jokingly: :jokingly: :jokingly: :jokingly: :jokingly:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عید اور عید کارڈ کے لئے یہ شعر مجھے پہلے بھی بہت اچھا لگتا تھا اور اب بھی بہت اچھا لگتا ہے۔
محبت کی نئی دنیا بساؤ عید کا دن ہے
پرانی رنجشوں کو بھول جاؤ عید کا دن ہے
ذرا دم کو بھلا دو قصہء درد و جدائی، غم
بجھے دل سے سہی لیکن مناؤ عید کا دن ہے
زبردست۔
میری ایک سہیلی نے ایک بار مجھے کارڈ پر یہ لکھ کر بھیجا تھا اور اب میں ہر عید پر یہی الفاظ لکھتی ہوں۔
اے ہلالِ شب ، اے روشنی
ادھر آ کہ جشن ہو معتبر
نظر آ کہ ڈھنگ سے عید ہو!
 
دل میں ایک عدد تیر اور ساتھ خون کے ٹپکتے چند قطرے بھی ہوتے ہیں ایسے کارڈز میں۔
اس سے مجھے یاد آیا سفید کبوتر والے کارڈز ہوتے تھے جن کی چونچ میں کوئی ہار یا کارڈ کا لفافہ دبا ہوتا تھا :jokingly:
ابھی پچھلے ہفتے ہم لوگ مارکیٹ گئے تو ایک سٹال پر ایسے کارڈز بھی موجود تھے۔ یعنی کارڈز ابھی بھی ویسے ہی آتے ہیں۔:)

کیا خوب یاد دلایا ہے ، واقعی ان میں سے ایک میں دل میں ایک تیر پیوست تھا۔ :cowboy1:
 

پپو

محفلین
بہت شکریہ :)
جی رفتہ رفتہ بہت سی روایتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ نفسا نفسی شاید اسی کو کہتے ہوں۔
نہیں میرا ایسا خیال نہیں ہے میں یہ سمجھتا ہوں جب کوئی متبادل مل جاتا ہے اور وہ ہو بھی آسان کم خرچ تو وہی ریت رواج بن جاتا ہے شائد ہماری خوشی قسمتی ہے کہ ہم لوگ روایات کو تبدیل ہوتے دیکھ رہے ہیں ہمارا تعلق دور انسانی اس وقت کیساتھ ہے جہاں صبح سے شام تک بہت سی تبدیلیاں ہو جاتی ہیں اور اس تبدیلی کوسمونے کے لئے ہم کوپہلے موجود کسی ریت و رواج کو اٹھا دینا پڑتا ہے یہی زمانے کی طاقت ہے
 

فاتح

لائبریرین
بھائی صاحب ، پکڑنے والا جملہ دوسرا تھا ، پہلے نہیں۔



ایک کزن کو دیے تھے معصومیت میں دو تین عید کارڈ ایک اور کزن کے توسط سے ۔ چند ماہ بعد رابطہ گر کزن کے کمرے میں وہی کارڈ دیکھ کر جو دل پر گزری اس کی یاد آج اس ظالم دھاگے سے پھر تازہ ہو گئی ہے۔ :cry:
میں نے کہا نا کہ اب صفائیاں نہیں چلنے والیں۔۔۔ خصوصاً تمھارے دوسرے جملے نے تو خود ہی ساری کہانی کہہ ڈالی کہ "بن گیا رقیب آخر، جو تھا رازداں اپنا" :openmouthed:
 

فاتح

لائبریرین
ایک کزن کو دیے تھے معصومیت میں دو تین عید کارڈ ایک اور کزن کے توسط سے ۔ چند ماہ بعد رابطہ گر کزن کے کمرے میں وہی کارڈ دیکھ کر جو دل پر گزری اس کی یاد آج اس ظالم دھاگے سے پھر تازہ ہو گئی ہے۔ :cry:
تمھارا دوسرا جملہ جو دکھ بھری داستان سنا رہا ہے اس کا تجزیہ کچھ یوں ہے:
  1. ایک ہی کزن کو دیے۔۔۔
  2. وہ بھی اکٹھے دو تین کارڈز ایک ہی عید پر۔۔۔
  3. معصومیت میں۔۔۔
  4. اور "رابطہ گر" اس کزن کو تمھاری معصومیت سے بھرپور عید کارڈز نہیں دینا چاہتا تھا اس لیے کبھی نہیں دیے۔۔۔ "بن گیا رقیب آخر، جو تھا رازداں اپنا" :openmouthed:
  5. اس "رابطہ" گر کے پاس تم نے اپنی معصوم محبت کا جنازہ دیکھ لیا۔۔۔
  6. اور "جو دل پر گزری" ہائے ہائے۔۔۔
  7. آج اس کی یاد پھر تازہ ہو گئی ہے۔۔۔
  8. چونکہ اس دھاگے نے بچپن کے وہ زخم ہرے کرنے کا "ظلم" کیا لہٰذا یہ دھاگا ہی "ظالم" ٹھہرا۔۔۔
  9. اور آج اس کی یاد میں تمھارے آنسو ہیں کہ بہے جاتے ہیں ( :cry: )
اس سے زیادہ صاف صاف کیا لکھنا تھا تم نے۔۔۔ کاش میں تمھیں اپنا کندھا فراہم کر سکتا آج کے ان دکھ بھرے لمحات میں۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
بچپن کا تو پتہ نہیں البتہ لڑکپن اور دوران طالب علمی میں خوب خوب عید کارڈ بھیجا کرتا تھا۔ اور جب میرے بچے، بچے تھے (اب تو وہ بھی ”بڑے“ ہوگئے ہیں :D ) تو انہیں بھی، ان کی پسند کے عید کارڈ دلوایا کرتا تھا۔ پسندیدہ عید کارڈ کی خریداری کے لئے خصوصی طور پر کئی مرتبہ بازار جانا پڑتا تھا۔ جب کالج میں پہنچا (”بتلانے“ کا ”اصل“ مطلب یہ ہے کہ میں بھی ”پڑھا لکھا“ ہوں :D ) اور ٹیوشن کے وافر پیسے جیب میں آئے تو ایک مرتبہ ”عید مبارک“ پر ایک نظم لکھی تھی اور اس نظم کو سنہرے رنگوں میں اس طرح چھپوایا تھا کہ لفظ ”عید مبارک“ چاند تارہ بنا ہوا تھا اور اس کے نیچے ایک پگھلتی ہوئی موم بتی کے ”اندر“ اشعار نمایاں تھے۔ یہ ”ڈیزائن اور آرٹ ورک“ :D بھی اسی خاکسار کی تھی۔ نظم کے نیچے ”منجانب“ بھی چھپا ہوا تھا۔ اب کیا ہم نے یہ تھا کہ اس سال جتنے بھی عید کارڈ خریدے، اس میں ”عید مبارک“ لکھے ہوئے صفحہ کو ” خصوصی مہارت“ کے ذریعہ اپنے تیار کردہ صفحہ سے تبدیل کردیا اور جسے بھی کارڈ ملا، وہ یہی سمجھا کہ ہم نے پورا عید کارڈ خاص طور پے چھپوایا ہوا ہے۔ :D واؤ وہ بھی کیا دن تھے۔ اب تو عید مبارک کے تہنیتی پیغامات آئے ہوئے ای میل یا ایس ایم ایس کو فارورڈ کرکے ہی بھیجے جاتے ہیں :D
 

نیلم

محفلین
اور ہم عید والے دن کے لیےزیادہ تر فنی کارڈ خریدہ کرتے تھے.اور شرارت کے طور پر فرہنڈز کو بہجا کرتے تھے.اور شعر یہ ہی سارے ہوا کرتے تھے.
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک کزن کو دیے تھے معصومیت میں دو تین عید کارڈ ایک اور کزن کے توسط سے ۔ چند ماہ بعد رابطہ گر کزن کے کمرے میں وہی کارڈ دیکھ کر جو دل پر گزری اس کی یاد آج اس ظالم دھاگے سے پھر تازہ ہو گئی ہے۔ :cry:

خوب۔۔۔!

اس پر کچھ اس قسم کے اشعار ہوں گے۔

ادھر سے چاند تم دیکھو، ادھر سے چاند ہم دیکھیں​
نگاہوں کا تصادم ہو، ہماری عید ہو جائے​
:D

لیکن افسوس کہ کمیونیکیشن گیپ نے کام خراب کردیا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے عید کے دن جانے انجانے میں، مجھے یہ شعر بھی ضرور یاد آتا ہے۔
اور بڑھ جاتی ہے بھولی ہوئی یادوں کی کسک​
عید کا دن تو فقط زخم ہرے کرتا ہے​
 
تمھارا دوسرا جملہ جو دکھ بھری داستان سنا رہا ہے اس کا تجزیہ کچھ یوں ہے:
  1. ایک ہی کزن کو دیے۔۔۔
  2. وہ بھی اکٹھے دو تین کارڈز ایک ہی عید پر۔۔۔
  3. معصومیت میں۔۔۔
  4. اور "رابطہ گر" اس کزن کو تمھاری معصومیت سے بھرپور عید کارڈز نہیں دینا چاہتا تھا اس لیے کبھی نہیں دیے۔۔۔ "بن گیا رقیب آخر، جو تھا رازداں اپنا" :openmouthed:
  5. اس "رابطہ" گر کے پاس تم نے اپنی معصوم محبت کا جنازہ دیکھ لیا۔۔۔
  6. اور "جو دل پر گزری" ہائے ہائے۔۔۔
  7. آج اس کی یاد پھر تازہ ہو گئی ہے۔۔۔
  8. چونکہ اس دھاگے نے بچپن کے وہ زخم ہرے کرنے کا "ظلم" کیا لہٰذا یہ دھاگا ہی "ظالم" ٹھہرا۔۔۔
  9. اور آج اس کی یاد میں تمھارے آنسو ہیں کہ بہے جاتے ہیں ( :cry: )
اس سے زیادہ صاف صاف کیا لکھنا تھا تم نے۔۔۔ کاش میں تمھیں اپنا کندھا فراہم کر سکتا آج کے ان دکھ بھرے لمحات میں۔۔۔



مل گیا مل گیا مجھے تخیلاتی کندھا ۔ :applause:
 

نیلم

محفلین
عید کارڈ پہ اکثر ہم یہ شعر بھی لکھا کرتےتھے .بھولا بسرا شعر ہے غلطی کی گنجائش ہوگی .کسی کو یاد ہے ٹھیک طرح سے تو لکھ دے.
یہ عید کارڈ دستک ہے اُن کے ذہنوں پہ
جن کو عادت ہے اکثر بُھول جانے کی
 

محمداحمد

لائبریرین
عید کارڈ پہ اکثر ہم یہ شعر بھی لکھا کرتےتھے .بھولا بسرا شعر ہے غلطی کی گنجائش ہوگی .کسی کو یاد ہے ٹھیک طرح سے تو لکھ دے.
یہ عید کارڈ دستک ہے اُن کے ذہنوں پہ
جن کو عادت ہے اکثر بُھول جانے کی

جی ہم نے کچھ یوں پڑھا ہے:
لوگ کہتے ہیں عید کارڈ اسے​
یہ روایت ہے اس زمانے کی​
ایک دستک ہے اُن کے ذہنوں پر​
جن کو عادت ہے بھول جانے کی​
:)
 

زبیر مرزا

محفلین
فرحت کیانی ٹیگ کرنے کا شکریہ
عید کارڈ اوران میں لکھے اشعار عید سے قبل خوشی کا سامان ہوتے تھے
میں اب بھی بہت ذوق وشوق سے عید کارڈ بھیجتا ہوں فرق صرف اتنا کہ پہلے خریدتا تھا اب خود عید کارڈ ڈئیزائین کرکے
بذریعہ ڈاک بھیجتا ہوں :) اور محکمہ ڈاک نے چند سال قبل عید پرخصوصی ٹکٹ کا اجراء کرکے ہمارے کارڈزکو چارچاند لگا دیے تھے
عید کارڈ پر لکھا یہ شعر بہت پسند ہے
لوگ کہتے ہیں عید کارڈ جسے یہ تو رسم ہے نئے زمانے کی
یہ تو دستک ہے اُن ذہنوں پرجن کو عادت ہے بھول جانے کی
:)
EID2012.JPG
 
:)
ویسے کچھ لوگ روزے بے شک نہ رکھیں۔ افطاری اور عید پر ان کا ذوق و شوق اور اہتمام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ :openmouthed:
بقول شخصے؛ بیگم! روزے بھی نہ رہ سکے، نمازیں بھی سب کی سب قضا ہو گئیں، سحر و افطار سے بھی جاتے رہے، اور تو اور آج عید کی نماز دو گانہ سے بھی رہ گئے۔ اس سویاں بھی نہ کھائیں تو کیا کافر ہی مر جائیں؟ :) :) :)
 

یوسف-2

محفلین
بچپن میں اپنے دو بہت ہی عزیز دو کزنز (مرد)کو میں نے بہت ہی رنگین دل والے عید کارڈ ہاتھ سے دیئے تھے۔

چند دفعہ اور بھی عید کارڈ دیے تھے۔
ہا ہا ! یہ وضاحت بھی خوب ہے۔ کیا آپ کے بچپن میں آپ کے کزنز مرد ہوا کرتے تھے، لڑکے لڑکیاں نہیں :D
 
Top