وسیم

محفلین
کیا زبردست کی ریٹنگ کئی مرتبہ دی جا سکتی ہے؟


ایک زبردست کی ریٹنگ یہاں فورم پہ دے دیں۔ دوسری جوتے پہ پرنٹ کروا کے ان کی ممانی کے ہاتھ میں پکڑا دیں۔

اس کے بعد ممانی جان انہیں کم از کم سو زبردست کی ریٹنگ تو فورًا دے دیں گی لیکن





گنیں گی وہ بھی ایک ہی :LOL:
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
یعنی گل کا مطلب آج کل نائب ہے...
ویسے یہ سب کے چراغ گل کرکے غائب کردیتی ہیں!!!
تو وہ "سب" بول دیا کریں
"پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا"

ویسے ہے نا عجیب بات۔۔۔ کچھ پھونکیں چراغ جلانے کےکام بھی آتی ہیں۔
ہاں ہاں لگا لیں الزام کہ چراغ گل کر کے غائب کر دیتی ہے۔ ہم تو معصوم پرندوں کے لئے بھی چراغ جلائے رکھتے ہیں۔ پھر کسی کا چراغ کاہے کو گُل کرنے لگے۔ :lol:
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
نعمت خالہ کو ’’ہے گا‘‘ بولنے کی عادت پڑ گئی!!!

تب سے نعمت خالہ ہر جملہ کے آخر میں ’’ہے گا‘‘ لگانے لگیں۔ ایک دن ہم نے فون کیا:
’’فلسفی کو بلا دیں امتحان کے بارے میں پوچھنا ہے۔‘‘
’’وہ ناشتہ لینے گیا ہےگا۔‘‘
’’اچھا چیتا کہاں ہے؟‘‘
’’وہ اپنے ابو کے پاس بیٹھا پڑھ رہا ہےگا۔‘‘
’’اور گڑیا؟‘‘
’’وہ کھانا کھا رہی ہے گی۔‘‘

فلسفی نعمت خالہ کی اس عادت کی وجہ بتانے لگا:
امی کی سسرال میں نند کی جیٹھانی کی بھاوج کی سوتیلی بیٹی کی ساس نجانے کب سے ’’ہے گا‘‘ کا استعمال کر رہی تھیں پر امی ایک دن ان سے مل کر آئیں تو انہیں لگا کہ ’’ہے گا‘‘ کا فل اسٹاپ لگائے بغیر جملہ میں ذرا سی تشنگی، کچھ احساسِ محرومی اور کسی مکاں کی لامکانی کا احساس موجود رہتا ہے جو سننے والے کی شعوری سوچ کو کسی ایسے نکتہ پر مرکوز نہیں ہونے دیتا جو اس کے شعور کی آبیاری کے لیے آپ حیات کا کام دے اور۔۔۔‘‘
’’بس چپ ہوجاؤ۔ بہت فضول بول لیا۔‘‘ گڑیا نے ناگواری سے منہ بسورا۔
’’جب تمہارے شعور پر ادراک کی آگاہی کا دریچہ وا ہوگا تب تم دیکھو گی کہ جسے تم فضول بات کہتی ہو وہی مستقبل کے منصوبوں کے پنپنے کی پرورش گاہ ہے۔‘‘
گڑیا اٹھ کر چلی گئی۔

اس میں فلسفی کا بھی قصور نہیں تھا۔ ایک دن اپنے دوست کے بڑے بھائی کے ساتھ یونیورسٹی کی لائبریری گیا اور نجانے کہاں سے اس کے ہاتھ فرائیڈے کی کتابیں لگ گئیں۔ اب کبھی فلسفہ کی لاینحل گتھیاں سلجھاتا تو کبھی دست شناسی کی کتاب دیکھ دیکھ کر سب کے ہاتھوں کی لکیروں میں مستقبل کے انکشافات اور ماضی کے بھید تلاش کرتا۔ مگر اس کی باتوں پر کسی کو یقین نہیں آتا تھا۔ اور فلسفہ تو سب کے سر سے گزر جاتا۔

لیکن اس دن کرامت ہوگئی۔ لان میں سنگ مرمر کی بینچ پر فلسفی اور تاجور بیٹھے تھے۔ تاجور نعمت خالہ کی خالہ کی نواسی تھی۔اس نے فلسفی کے آگے ہتھیلی کھول رکھی تھی اور وہ ہتھیلی پر جھکا اس کی لکیروں میں کسی کھید کرید میں منہمک تھا۔ تب ہی ہم نے انگلی سے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور چیتے اور گڑیا کو دبے پاوں بینچ کے پیچھے لے آئے۔ اب دونوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ تاجور کہہ رہی تھی:
’’واقعی لکیروں سے ماضی کا پتا چل جاتا ہے؟‘‘
فلسفی نے اسے نہ سمجھ آنے والے فلسفہ کے شیشہ میں کس طرح اتارا تھا کہ از حد متاثر ہورہی تھی۔
’’یہی المیہ ہے کہ لوگ فرائیڈے کے فلسفہ کو نہ سمجھ سکے۔‘‘
’’یہ فرائیڈے سے مراد کسی خاص جمعہ کا دن ہے؟‘‘ تاجور نے بات کاٹی۔
فلسفی نے غصہ سے ہنکارا بھر ا:
’’اس بات کو چھوڑو اور دیکھو یہ جو قسمت کی دیوی زہرا کے گھر میں داخل ہورہی ہے یہ برے شگون کی علامت ہے۔‘‘
’’برا تو ہونا ہے زہرا کیسے برداشت کرے گی کوئی منہ اٹھائے اس کے گھر میں داخل ہوجائے۔‘‘ تاجور کی باتیں فلسفی کو زچ کرنے لگیں۔
’’میری مراد دولت کی اس لکیر سے ہے جو آج کل تم سے روٹھی ہوئی ہے۔ جب تک تین اتوار نہ گزر جائیں تم یہ سمجھ لو کہ تمہیں ایک کنگال کی حیثیت سے زندگی گزارنی ہوگی۔‘‘
’’سچ مچ؟‘‘ تاجور کی آواز میں خو ف لرز رہا تھا۔
’’اور کیا میں اتنی دیر سے اپنا قیمتی وقت ضائع کررہا ہوں؟‘‘
جس وقت کو فلسفی قیمتی بتارہا تھا وہ اس کے اونگھنے کا وقت تھا جب وہ نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں سسُتی سے پڑا رہتا تھا۔
’’نہیں بھائی۔‘‘ تاجور منمنائی کہیں فلسفی ہاتھ دیکھنا چھوڑ نہ دے۔
’’اور یہ دیکھو پوشیدہ لکیر۔‘‘
’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’یہ تمہارے ماضی کے پوشیدہ راز بتاتی ہے۔‘‘
تاجور ہاتھ چھڑا کر کھڑی ہوگئی:
’’دیر ہورہی ہے، امی انتظار کررہی ہوں گی۔‘‘ آواز میں گھبراہٹ تھی۔
’’مجھے تمہاری گھبراہٹ کی وجہ معلوم ہے۔‘‘
’’کیا بھلا؟‘‘
’’پوشیدہ لکیر۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ پوشیدہ لکیر نے تمہارا ایک اہم راز بتادیا ہے۔‘‘
’’کون سا؟‘‘ تھوک نگل کر پوچھا گیا۔
’’کوئی اجنبی سایہ ہے جو رات کو نو بجے ہلکے سے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور ۔۔۔‘‘
’’جھوٹ بولتی ہے پوشیدہ لکیر۔‘‘ بات کاٹ دی گئی۔
’’سنو لکیروں کو جھٹلاؤ گی تو پچھتاؤ گی یہ سائے کے نام کا پہلا حرف بھی بتاتی ہے۔‘‘ فلسفی کی آواز تیز ہوگئی۔
‘‘نہ کوئی سایہ ہے نہ کوئی نام۔‘‘ لہجہ میں گھبراہٹ عیاں تھی۔
’’ر سے نام شروع ہوتا ہے سائے کا۔ اور کہو تو آخری حرف بھی بتادوں کہ ’’د‘‘ ہے۔‘‘
تاجور دھم سے بیٹھ گئی۔
’’سب تکے ہیں۔‘‘
’’فرایئڈے کے مقام کو سمجھو۔ لکیریں جھوٹی نہیں ہوتیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ آواز میں تذبذب تھا۔
’’بولو کیا کہنا ہے؟‘‘ انداز سے آمادگی جھلک رہی تھی۔
’’اب تو جو کہنا ہے آنٹی سے کہنا ہے۔‘‘ فلسفی کے لہجہ سے لالچ ٹپکنے لگا۔
’’امی کو کیا بتاؤ گے؟‘‘ اس کے لہجہ میں بے یقینی اتر آئی جیسے جانچ رہی ہو کچھ دھوکہ تو نہیں ہے۔
’’یہی بتاؤں گا کہ رات کو نو بجے رشید دستک دے گا، دروازہ کھول کے ڈرائینگ روم میں بٹھا لیجیے گا۔‘‘ فلسفی نے بم پھوڑ دیا تھا۔
’’اف میرے اللہ!‘‘ تاجور کی آواز کانپ گئی۔
’’دیکھو امی کو کچھ نہ بتانا۔ میں آج کے بعد اسے منع کردوں گی، اب نہیں آئے گا۔‘‘
’’پر اب تک کا ہرجانہ؟‘‘ فلسفی مقصد پر آگیا۔
’’ کیا مطلب؟‘‘
’’ابھی بتاتا ہوں۔‘‘ فلسفی کی آواز سرگوشی میں تبدیل ہوکر مدہم ہوتی گئی۔

ہم فلسفی کے اٹھنے سے پہلے چپکے سے اندر آگئے۔
فلسفی ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو دیکھا گڑیا کمر پہ ہاتھ رکھے دروازہ پر کھڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ پیچھے ہم اور چیتا کھڑے تھے۔
’’کیا مسئلہ ہے۔راستہ چھوڑو۔‘‘
’’میں تو راستہ چھوڑ دوں لیکن جب امی کو پتا چلے گا تمہارے ہنروں کا تو وہ تمہیں نہیں چھوڑیں گی۔‘‘
’’مطلب؟‘‘ فلسفی بھنویں سکیڑ کر بولا۔
’’مطلب یہ کہ ہمارا حصہ۔‘‘ گڑیا نے ہاتھ پھیلا دئیے۔
’’کس چیز کا حصہ؟‘‘
’’بنو مت، ابھی امی کو ساری بات بتاتی ہوں جو تم تاجور سے کرکے آئے ہو۔ اور اس سے جو رقم ہتھیائی ہے وہ بھی امی پوری لے لیں گی۔‘‘ گڑیا تیزی سے نعمت خالہ کے کمرہ کی طرف لپکی۔ فلسفی گڑیا کی طرف لپکا:
’’خبردار جو زبان کھولی، مل جائے گا تمہارا حصہ۔‘‘
’’ابھی دو۔‘‘ گڑیا ڈھٹائی سے بولی۔
’’یہ لو شیطان کی خالہ۔‘‘ فلسفی نے کئی نوٹ اس کے آگے کردئیے جو آدھے آدھے تقسیم ہوگئے۔
’’چلو یہ مسئلہ تو حل ہوگیا۔ اب یہ بتاؤ کہ وہ رشید والی بات کیسے بتائی۔ یہ تو مجھے پتا ہے کہ لکیروں میں کوئی نام وام نہیں لکھا ہوتا۔‘‘ گڑیا نے برا سا منہ بنایا۔
’’جب میں رات کو ناشتہ لینے جاتا ہوں تو واپسی میں تاجور کی گلی سے آتا ہوں۔ وہیں یہ تماشہ لگا رہتا ہے۔‘‘
’’بہت خبیث انسان ہو تم۔‘‘ چیتے نے دانت کچکچائے۔ فلسفی کے چہرہ پر خبیث سی مسکراہٹ آگئی۔ گڑیا منہ بناتے ہوئے اپنے کمرہ میں چلی گئی۔

فلسفی بعد میں بھی ناشتہ لے کر تاجور کی گلی سے آتا تھا۔ مگر اسے دروازہ پر کبھی کوئی رشید کھڑا نظر نہیں آیا!!!
 
آخری تدوین:
نعمت خالہ کو ’’ہے گا‘‘ بولنے کی عادت پڑ گئی!!!

تب سے نعمت خالہ ہر جملہ کے آخر میں ’’ہے گا‘‘ لگانے لگیں۔ ایک دن ہم نے فون کیا:
’’فلسفی کو بلا دیں امتحان کے بارے میں پوچھنا ہے۔‘‘
’’وہ ناشتہ لینے گیا ہےگا۔‘‘
’’اچھا چیتا کہاں ہے؟‘‘
’’وہ اپنے ابو کے پاس بیٹھا پڑھ رہا ہےگا۔‘‘
’’اور گڑیا؟‘‘
’’وہ کھانا کھا رہی ہے گی۔‘‘

فلسفی نعمت خالہ کی اس عادت کی وجہ بتانے لگا:
امی کی سسرال میں نند کی جیٹھانی کی بھاوج کی سوتیلی بیٹی کی ساس نجانے کب سے ’’ہے گا‘‘ کا استعمال کر رہی تھیں پر امی ایک دن ان سے مل کر آئیں تو انہیں لگا کہ ’’ہے گا‘‘ کا فل اسٹاپ لگائے بغیر جملہ میں ذرا سی تشنگی، کچھ احساسِ محرومی اور کسی مکاں کی لامکانی کا احساس موجود رہتا ہے جو سننے والے کی شعوری سوچ کو کسی ایسی نکتہ پر مرکوز نہیں ہونے دیتا جو اس کے شعور کی آبیاری کے لیے آپ حیات کا کام دے اور۔۔۔‘‘
’’بس چپ ہوجاؤ۔ بہت فضول بول لیا۔‘‘ گڑیا نے ناگواری سے منہ بسورا۔
’’جب تمہارے شعور پر ادراک کی آگاہی کا دریچہ وا ہوگا تب تم دیکھو گی کہ جسے تم فضول بات کہتی ہو وہی مستقبل کے منصوبوں کے پنپنے کی پرورش گاہ ہے۔‘‘
گڑیا اٹھ کر چلی گئی۔

اس میں فلسفی کا بھی قصور نہیں تھا۔ ایک دن اپنے دوست کے بڑے بھائی کے ساتھ یونیورسٹی کی لائبریری گیا اور نجانے کہاں سے اس کے ہاتھ فرائیڈے کی کتابیں لگ گئیں۔ اب کبھی فلسفہ کی لاینحل گتھیاں سلجھاتا تو کبھی دست شناسی کی کتاب دیکھ دیکھ کر سب کے ہاتھوں کی لکیروں میں مستقبل کے انکشافات اور ماضی کے بھید تلاش کرتا۔ مگر اس کی باتوں پر کسی کو یقین نہیں آتا تھا۔ اور فلسفہ تو سب کے سر سے گزر جاتا۔

لیکن اس دن کرامت ہوگئی۔ لان میں سنگ مرمر کی بینچ پر فلسفی اور تاجور بیٹھے تھے۔ تاجور نعمت خالہ کی خالہ کی نواسی تھی۔اس نے فلسفی کے آگے ہتھیلی کھول رکھی تھی اور وہ ہتھیلی پر جھکا اس کی لکیروں میں کسی کھید کرید میں منہمک تھا۔ تب ہی ہم نے انگلی سے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور چیتے اور گڑیا کو دبے پاوں بینچ کے پیچھے لے آئے۔ اب دونوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ تاجور کہہ رہی تھی:
’’واقعی لکیروں سے ماضی کا پتا چل جاتا ہے؟‘‘
فلسفی نے اسے نہ سمجھ آنے والے فلسفہ کے شیشہ میں کس طرح اتارا تھا کہ از حد متاثر ہورہی تھی۔
’’یہی المیہ ہے کہ لوگ فرائیڈے کے فلسفہ کو نہ سمجھ سکے۔‘‘
’’یہ فرائیڈے سے مراد کسی خاص جمعہ کا دن ہے؟‘‘ تاجور نے بات کاٹی۔
فلسفی نے غصہ سے ہنکارا بھر ا:
’’اس بات کو چھوڑو اور دیکھو یہ جو قسمت کی دیوی زہرا کے گھر میں داخل ہورہی ہے یہ برے شگون کی علامت ہے۔‘‘
’’برا تو ہونا ہے زہرا کیسے برداشت کرے گی کوئی منہ اٹھائے اس کے گھر میں داخل ہوجائے۔‘‘ تاجور کی باتیں فلسفی کو زچ کرنے لگیں۔
’’میری مراد دولت کی اس لکیر سے ہے جو آج کل تم سے روٹھی ہوئی ہے۔ جب تک تین اتوار نہ گزر جائیں تم یہ سمجھ لو کہ تمہیں ایک کنگال کی حیثیت سے زندگی گزارنی ہوگی۔‘‘
’’سچ مچ؟‘‘ تاجور کی آواز میں خو ف لرز رہا تھا۔
’’اور کیا میں اتنی دیر سے اپنا قیمتی وقت ضائع کررہا ہوں؟‘‘
جس وقت کو فلسفی قیمتی بتارہا تھا وہ اس کے اونگھنے کا وقت تھا جب وہ نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں سسُتی سے پڑا رہتا تھا۔
’’نہیں بھائی۔‘‘ تاجور منمنائی کہیں فلسفی ہاتھ دیکھنا چھوڑ نہ دے۔
’’اور یہ دیکھو پوشیدہ لکیر۔‘‘
’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’یہ تمہارے ماضی کے پوشیدہ راز بتاتی ہے۔‘‘
تاجور ہاتھ چھڑا کر کھڑی ہوگئی:
’’دیر ہورہی ہے، امی انتظار کررہی ہوں گی۔‘‘ آواز میں گھبراہٹ تھی۔
’’مجھے تمہاری گھبراہٹ کی وجہ معلوم ہے۔‘‘
’’کیا بھلا؟‘‘
’’پوشیدہ لکیر۔‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ پوشیدہ لکیر نے تمہارا ایک اہم راز بتادیا ہے۔‘‘
’’کون سا؟‘‘ تھوک نگل کر پوچھا گیا۔
’’کوئی اجنبی سایہ ہے جو رات کو نو بجے ہلکے سے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور ۔۔۔‘‘
’’جھوٹ بولتی ہے پوشیدہ لکیر۔‘‘ بات کاٹ دی گئی۔
’’سنو لکیروں کو جھٹلاؤ گی تو پچھتاؤ گی یہ سائے کے نام کا پہلا حرف بھی بتاتی ہے۔‘‘ فلسفی کی آواز تیز ہوگئی۔
‘‘نہ کوئی سایہ ہے نہ کوئی نام۔‘‘ لہجہ میں گھبراہٹ عیاں تھی۔
’’ر سے نام شروع ہوتا ہے سائے کا۔ اور کہو تو آخری حرف بھی بتادوں کہ ’’د‘‘ ہے۔‘‘
تاجور دھم سے بیٹھ گئی۔
’’سب تکے ہیں۔‘‘
’’فرایئڈے کے مقام کو سمجھو۔ لکیریں جھوٹی نہیں ہوتیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ آواز میں تذبذب تھا۔
’’بولو کیا کہنا ہے؟‘‘ انداز سے آمادگی جھلک رہی تھی۔
’’اب تو جو کہنا ہے آنٹی سے کہنا ہے۔‘‘ فلسفی کے لہجہ سے لالچ ٹپکنے لگا۔
’’امی کو کیا بتاؤ گے؟‘‘ اس کے لہجہ میں بے یقینی اتر آئی جیسے جانچ رہی ہو کچھ دھوکہ تو نہیں ہے۔
’’یہی بتاؤں گا کہ رات کو نو بجے رشید دستک دے گا، دروازہ کھول کے ڈرائینگ روم میں بٹھا لیجیے گا۔‘‘ فلسفی نے بم پھوڑ دیا تھا۔
’’اف میرے اللہ!‘‘ تاجور کی آواز کانپ گئی۔
’’دیکھو امی کو کچھ نہ بتانا۔ میں آج کے بعد اسے منع کردوں گی، اب نہیں آئے گا۔‘‘
’’پر اب تک کا ہرجانہ؟‘‘ فلسفی مقصد پر آگیا۔
’’ کیا مطلب؟‘‘
’’ابھی بتاتا ہوں۔‘‘ فلسفی کی آواز سرگوشی میں تبدیل ہوکر مدہم ہوتی گئی۔

ہم فلسفی کے اٹھنے سے پہلے چپکے سے اندر آگئے۔
فلسفی ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو دیکھا گڑیا کمر پہ ہاتھ رکھے دروازہ پر کھڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ پیچھے ہم اور چیتا کھڑے تھے۔
’’کیا مسئلہ ہے۔راستہ چھوڑو۔‘‘
’’میں تو راستہ چھوڑ دوں لیکن جب امی کو پتا چلے گا تمہارے ہنروں کا تو وہ تمہیں نہیں چھوڑیں گی۔‘‘
’’مطلب؟‘‘ فلسفی بھنویں سکیڑ کر بولا۔
’’مطلب یہ کہ ہمارا حصہ۔‘‘ گڑیا نے ہاتھ پھیلا دئیے۔
’’کس چیز کا حصہ؟‘‘
’’بنو مت، ابھی امی کو ساری بات بتاتی ہوں جو تم تاجور سے کرکے آئے ہو۔ اور اس سے جو رقم ہتھیائی ہے وہ بھی امی پوری لے لیں گی۔‘‘ گڑیا تیزی سے نعمت خالہ کے کمرہ کی طرف لپکی۔ فلسفی گڑیا کی طرف لپکا:
’’خبردار جو زبان کھولی، مل جائے گا تمہارا حصہ۔‘‘
’’ابھی دو۔‘‘ گڑیا ڈھٹائی سے بولی۔
’’یہ لو شیطان کی خالہ۔‘‘ فلسفی نے کئی نوٹ اس کے آگے کردئیے جو آدھے آدھے تقسیم ہوگئے۔
’’چلو یہ مسئلہ تو حل ہوگیا۔ اب یہ بتاؤ کہ وہ رشید والی بات کیسے بتائی۔ یہ تو مجھے پتا ہے کہ لکیروں میں کوئی نام وام نہیں لکھا ہوتا۔‘‘ گڑیا نے برا سا منہ بنایا۔
’’جب میں رات کو ناشتہ لینے جاتا ہوں تو واپسی میں تاجور کی گلی سے آتا ہوں۔ وہیں یہ تماشہ لگا رہتا ہے۔‘‘
’’بہت خبیث انسان ہو تم۔‘‘ چیتے نے دانت کچکچائے۔ فلسفی کے چہرہ پر خبیث سی مسکراہٹ آگئی۔ گڑیا منہ بناتے ہوئے اپنے کمرہ میں چلی گئی۔

فلسفی بعد میں بھی ناشتہ لے کر تاجور کی گلی سے آتا تھا۔ مگر اسے دروازہ پر کبھی کوئی رشید کھڑا نظر نہیں آیا!!!
مطلب آپ بچپن سے ہی بلیک میلر ہیں ۔
 

سیما علی

لائبریرین
’’اس بات کو چھوڑو اور دیکھو یہ جو قسمت کی دیوی زہرا کے گھر میں داخل ہورہی ہے یہ برے شگون کی علامت ہے۔‘‘
’’برا تو ہونا ہے زہرا کیسے برداشت کرے گی کوئی منہ اٹھائے اس کے گھر میں داخل ہوجائے۔‘‘ تاجور کی باتیں فلسفی کو زچ کرنے لگیں۔
کیا کہنے مفتی صاحب ایک ایک لفظ کمال جیتے رہیے ۔۔
بہت زبردست !!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ہم فلسفی کے اٹھنے سے پہلے چپکے سے اندر آگئے۔
فلسفی ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو دیکھا گڑیا کمر پہ ہاتھ دروازہ پر کھڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ پیچھے ہم اور چیتا کھڑے تھے۔
کتنی بُری بات ایک تو باتیں سنیں اور پھر بلیک میلنگ :cool::cool::cool::cool::cool:درست تو کہہ رہے ہیں ہمارے معصوم بھیا
 
Top