بچپن سے پچپن تک،!!!!!!!!

جیہ

لائبریرین
جیہ جی ،!!!!!

خوش رھو،!!!!!
یہ زندگی مجھے تو صرف ایک بلبلے کی طرح لگتی ھے، کیونکہ جب میں یہاں 1978 میں آیا تھا، تو شادی نہیں ھوئی تھی، 1979 میں شادی ھوئی اور اب پانچ بچوں مین سے دو کی شادی بھی ھوگئی ھے، اتنی جلدی یہ زندگی کا سفر گزر گیا کہ بالکل پتہ ھی نہیں چلا، جب میں ماضی کی طرف دیکھتا ھوں تو مجھے ایسا لگتا ھے کہ جیسے کل کی ھی بات ھو،!!!!!!!!

لگتا ہے ہماری بھابی بہت اچھی ہیں جن کے ساتھ آپ کا وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اچھا گزر رہا ہے، میری شادی کو دو سال بھی نہیں ہوئے اور لگ رہا ہے کہ دوصدیاں بیت گئ ہیں (مذاق)
 
لگتا ہے ہماری بھابی بہت اچھی ہیں جن کے ساتھ آپ کا وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اچھا گزر رہا ہے، میری شادی کو دو سال بھی نہیں ہوئے اور لگ رہا ہے کہ دوصدیاں بیت گئ ہیں (مذاق)

میری شادی کو تو 29 سال ھوگئے، اور آپکی بات بالکل صحیح ھے، کہ ھماری فیملی کا وقت بہت اچھا گزرا، کیونکہ ھم میاں بیوی ھمیشہ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے رھے،ھر مشکل وقت میں بہت برداشت اور تحمل سے کام لیا اور ھماری بیگم نے ھر اچھے برے وقت میں میرا ساتھ دیا، مجھے حوصلہ بھی دیتی رھیں، وہی درس ھم نے اپنے بچوں کو بھی دیا، میرے پانچ بچے ھیں اور اب تو سب جوان ھی ھیں جن میں سے ایک بڑے بیٹے اور بڑی بیٹی کی شادی بھی ھوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ھو گیا ھے، مگر بیٹی کی رخصتی اور بہو کی آمد بھی اسی سال 2008
کے شروع میں ھی ھوگئی،!!!!!

اپنی اس زندگی کے دور میں ھم نے ھر نشیب و فراز سے گزرا، بہت سی غلطیاں بھی ھوئی، جس سے ھم نے بہت کچھ سیکھا، بیٹی کی شادی اور بیٹے کی شادی کے بعد حالات نے پھر ایک نیا موڑ لیا ھے، اسے اب میں اور میری بیگم اپنے گزرے ھوئے تجربات کی روشنی میں سنبھالنے کی کوشش میں لگے ھوئے ھیں، مگر یہ اتنا مشکل ھے، کہ میں بیان نہیں سکتا،!!!!!!

بیٹی کے بارے میں اتنا کہوں گا کہ وہ اپنے گھر میں بھی پرائی ھوتی ھے اور سسرال جاکر بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ھے، اصل وجہ یہ ھے کہ وہ اپنے والدین سے بہت زیادہ محبت کرتی ھے، دوسرے گھر جاکر وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں ڈھالنے کی کوشش تو بہت کرتی ھے، لیکن اسے کامیابی حاصل نہین ھوتی، چاھے اسکے ساس سسر کتنے ھی اچھے کیوں نہ ھو کیونکہ وہ اپنا میکہ کبھی نہیں بھولتی،!!!!!

بیٹے کیلئے کیا کہوں، والدین کا فرمانبردار ھے تو بھی اور نہیں ھے تب بھی، اسے شادی کے بعد اسے اپنے گھر میں دو طرف سے جنگ لڑنی پڑتی ھے، ایک طرف اسکے والدین خاص کر والدہ اور بہنیں، اور دوسری طرف اسکی بیوی، دونوں طرف سے وہ ایک سینڈوچ بن جاتا ھے، والدہ اپنی ممتا کی وجہ سے مجبور سمجھتی ھے کہ میرا بیٹا اب اپنی بیوی کا ھو گیا ھے، اور بہنیں بھی بھائی سے مایوس ھوجاتی ھیں کیونکہ انکا بھائی اب پہلے کی طرح بہنوں کو پوچھتا نہیں ھے اور زیادہ تر اپنی بیگم کے ساتھ ھی رھتا ھے، اور یہ حقیقت بھی ھے، لازمی بات ھے کہ وہ لڑکی اپنا گھر بار چھوڑ کر آتی ھے، کس لئے،؟؟؟؟! اور والد کو تو ھر طرف سنبھالنا پڑتا ھے، اور بیٹیاں تو اپنے والد کی لاڈلیاں ‌ھوتی ھیں اور اپنے والد سے بہت زیادہ محبت کرتی ھیں، گھر میں بھابھی کے آنے کے بعد ان کا بھائی بھابھی سے کھچاؤ بڑھ جاتا ھے اور یہ والد یا والدہ کو قطعاً برداشت نہیں ھوتا، جس کی وجہ سے گھر کے ماحول میں بدمزگی شروع ھو جاتی ھے،!!!!!!

اور بھی بہت سی باتیں ھیں، جو اپنی زندگی کا کڑوا سچ ھیں، جن کو لے کر ھم سب نے چلنا ھے، اگر ھم جذبات سے کام لیتے ھیں تو گھر کا نظام بگڑ جاتا ھے، اور دماغ سے سوچ کر مصلحتاً گھر میں ایک اچھی فضا کو قائم رکھا جائے، تو زندگی بہت سہل اور پرسکوں ھو سکتی ھے، اور یہی ھمارا اس دنیا میں امتحان بھی ھے،!!!!!
 

شمشاد

لائبریرین
لگتا ہے ہماری بھابی بہت اچھی ہیں جن کے ساتھ آپ کا وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اچھا گزر رہا ہے، میری شادی کو دو سال بھی نہیں ہوئے اور لگ رہا ہے کہ دوصدیاں بیت گئ ہیں (مذاق)

جیہ تمہارے پاس ڈاکٹر مشتاق صاحب کا نمبر تو ہو گا، ذرا مجھے دینا تو، کچھ ضروری بات کرنی ہے۔
 

ابو کاشان

محفلین
اچھی شیئرنگ ہے۔ اللہ عمر دراز فرمائے۔

ویسے عمر کتنی تیزی سے بھاگی جا رہی ہے، غالب نے کیا خوب کہا تھا۔

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیں تھمے
نے ہاتھ باگ پرہے نہ پا ہے رکاب میں
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
؟؟؟
 

پپو

محفلین
dsc01323nm7.th.jpg

اگلی توں ناں پچھلی توں میں صدقے جاواں وچلی توں
 
"بھولی بسری یادیں" حصہ اول سے ایک اقتباس،!!!!

dsc01323nm7.th.jpg

اگلی توں ناں پچھلی توں میں صدقے جاواں وچلی توں

پپو جی،!!!!

اسی دور کی وچلی داستان "بھولی بسری یادیں" حصہ اول سے ایک چھوٹا سا اقتباس ملاحظہ فرمائیں،!!!!!

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=12307&page=5

1967 کے بہار کے موسم میں سال داخل ھورھا تھا، سردیاں بھی آہستہ آہستہ اپنی آخری ھچکیاں لے رھی تھی اور میں اپنی زندگی کے 17 سترویں بہار کے موسم میں ایک خوبصورت موڑ میں داخل ھو رھا تھا، مجھے وہ دن اپنی زندگی کا کبھی نہیں بھولتا، جب شام کا وقت اور آسمان پر بادلوں کی گھٹایں، گھرے ھوئے کسی ظوفانی بارش کے آثار دکھائی دے رھے تھے، جس دن میں نے پہلی بار کسی کی آنکھوں میں میرے اپنے لئے ایک عجیب سی بسنت کی ایک خوبصورت کہکشاں کے رنگ کے ساتھ چمکتی ھوئی شرماتی سی جھلک دیکھی، جو میں خود نہیں سمجھ سکا کہ یہ کیا چیز ھے جو مجھے ایک حسیں خواب کی طرح ایک عجیب سے نشے میں ڈبوئے جارھی تھی، میں خود بخود اسکے نزدیک پہنچا اسے دیکھا، چند لمحے وہ آنکھیں میری آنکھوں کے سامنے تھیں جنہیں میں کبھی بھُلا نہیں سکتا تھا، یا یہ میری نظروں کا دھوکا تھا،!!!!!!!!!!!

اچانک اسے کسی نے آواز دی اور وہ دوڑتی ھوئی واپس اسی آواز کے ساتھ گم ھوگئی اور میں حیران پریشاں گم سم سا اس دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا رھا اور شام کا وقت ھلکی ھلکی خنکی سی کچھ بارش کی بوندا باندی شروع ھوچکی تھی، پانی کے قظرے میرے بالوں سے اترتے ھوئے میرے چہرے پر ٹپ ٹپ گر رھے تھے اور میں خاموش تھا، یہ کوئی خواب یا کوئی افسانوی ماحول نہیں تھا، یہ واقعی زندگی میں پہلی بار مجھے کچھ محسوس ھورھا تھا جسکے بارے میں میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا‌!!!!!!

وہ دیوار آج بھی اسی جگہ موجود ھے، اور جب بھی میں اسی دیوار کے نزدیک اسی جگہ پر جاتا ھوں تو مجھے وھی حسیں منظر ایک وھی بھینی بھینی بسنت کی خوشبو کے ساتھ وھی پیارا سا خوبصورت حسین معصوم سا چہرہ یاد آجاتا ھے،!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 

پپو

محفلین
جی بھائی عبدالرحمن صاحب میں نےیہ اقتباس ملاحظہ کیا ہے واقعی یہ عمر ایسی ہوتی ہے جس میں انسان بہت سی ایسی یادیں رکھتا جو زندگی بھر کے لیے اس کے ساتھ اسطرح ہو لیتی ہیں کہ اس دامن نہیں چھڑا سکتا اور اگر یوں کہوں وہ سنہری دن یا دور ہی ایسا ہے جس کی یادیں انسان کو باقی ماندہ زندگی میں سمبنھالے رکھتی ہیں اور اگر کوئی حوالہ ایسا مل جائے جس سے انسان اپنے بیتے دنوں کو یاد کرسکے تو بہت ہی محسور کن احساس ہوتا ہے
 
Top