ٹائپنگ مکمل بچوں کی کہانیاں : جگا ڈاکو اور جادوئی غار (محمد حسین مشاہدرضوی)

ہندی اور مراٹھی ادب سے اردو میں ترجمہ کی گئی ناچیز کی کتاب"جگا ڈاکو اور جادوئی غار" کی مکمل ٹائپنگ حاضر خدمت ہے

دوست ہو تو ایسا ہو

ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی ۔ اس ٹولی میں دو بچّے بھی تھے ، جو اتنے شرارتی تھے کہ ان کے ماں باپ بھی ان سے بہت زیادہ تنگ آگئے تھے۔
اسی جنگل میں ایک ننھا ژراف بھی رہتا تھا۔ وہ بہت ہی سیدھا سادا اوربھولا بھالا تھا۔ ایک مرتبہ چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے پتّے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی ۔دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے ژراف کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی ۔ کیوں کہ ان بندروں نے کبھی ایسا کوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔
بندر کے ایک بچّے نے کہا:’’ ارے! دیکھو تو کتنا عجیب و غریب جانور ہے ، آؤ اسے چھیڑتے اور ستاتے ہیں۔‘‘
دونوں بندر کودتے پھلانگتے اس درخت پر پہنچ گئے جس کے نیچے کھڑے ہوکر ژراف گھاس کھارہا تھا۔ اس درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر دونوں نے ژراف سے کہا:’’ اے لمبو! تیرا کیانام ہے؟‘‘
ژراف نے بڑی نرمی سے کہا:’’ مَیں ژراف ہوں ،کیا مجھ سے دوستی کروگے ؟ تم لوگوں کے نام کیا ہیں ؟‘‘
دونوں بندر شرارت سے کھلکھلا کر ہنس پڑے او رکہنے لگے کہ :’’ تجھ سے ہم کیوں دوستی کرنے لگے؟ کتنا بد صورت ہے تُو، مینا رکے جیسی گردن اور سیڑھی کے جیسے پیر۔ ہمیں نہیں کرنا ایسے بے ڈھنگے جانور سے کوئی دوستی! ‘‘ اتناکہہ کر دونوں بندر ژراف کو چڑانے لگے۔ اتناہی نہیں ایک بندر نے درخت سے ایک پکا ہوا پھل توڑ کر ژراف پر پھینک مارا۔ پھل ژراف کے منہ پر لگ کر پھوٹ گیا اور اس کا رس اور گودا ژراف کے چہرے پر پھیل گیا۔ یہ دیکھ کر دونوں بندر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے اور کود تے پھلانگتے جنگل میں دور بھاگ گئے۔
ژراف بے چارہ روہانسا ہوکر رہ گیا اور منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔
ایک دن دونوں شرارتی بندر وں نے یہ طَے کیا کہ وہ جنگل میں خوب دور تک اکیلے گھومنے اور سیر سپاٹا کرنے کے لیے چلیں گے۔ کیوں کہ وہ لوگ اپنی ماں باپ کی ڈانٹ پھٹکار سے بے حد تنگ آچکے تھے اور ان سے آزادی چاہتے تھے۔
صبح صبح جب باقی بندر سورہے تھے ، یہ دونوں شرارتی بندرچپکے سے نکل پڑے ۔ کچھ ہی وقت میں وہ بندروں کی ٹولی سے بہت دور نکل گئے۔ جب انھیں زوروں کی بھوک لگی تو ان دونوں نے پیڑوں کی پتیاں اور پھل فروٹ کھاکر اپنی پیٹ کی آگ بجھائی ۔ انھیں اس طرح گھومنے پھرنے اور موج مستی کرنے میں بڑا مزہ آرہا تھا۔
دوپہر ہوچلی تھی وہ دونوں گرمی سے بچنے کے لیے ایک درخت کی ہری بھری شاخوں پر جاکر بیٹھ گئے ، اُس درخت کے نیچے ایک شیر آرام کررہا تھا۔اور پیڑ کے آس پاس ایک بڑا ہرا بھرا میدان تھا اور میدان کے کنارے ایک ندی بہہ رہی تھی۔ بندراُس سہانے منظر میں ایسا کھوئے کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہ ہوا کہ یہاں ایک شیر بھی موجود ہے۔ لیکن جب شیر نے اُس کے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھیوں کو اڑانے کے لیے غرایا تو بندروں نے شیر کو دیکھ لیا۔ شیر کو دیکھتے ہی وہ بری طرح ڈر گئے ۔لیکن کچھ ہی دیر بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ ہم درخت کے اوپر محفوظ ہیں ۔ چوں کہ ان کے اندر شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لیے یہاں بھی انھیں شرارت سوجھنے لگی اور ان دونوں شرارتی بندروں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارا کیا اور درخت کا ایک پھل توڑ کر نیچے گرادیا۔ پھل سیدھا شیر کی ناک پر گرا ، شیر کو بہت درد ہوا ۔اس نے غصے سے دہاڑتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا جب اس نے اوپر کی طرف دیکھا تو اس کی نظر بندروں پر پڑی ۔
بندر کھی کھی کر کے ہنس رہے تھے ، لیکن وہ زیادہ دیر تک نہ ہنس سکے ، کیوں کہ شیر آپے سے باہر ہورہا تھا۔ اس نے گرج دار آواز میں دہاڑتے ہوئے کہا :’’کیا تمہیں معلوم نہیں مَیں اس جنگل کا راجا ہوں اسی وقت فوراً اس درخت سے نیچے اترومَیں تم دونوں کو کھا کر اس گستاخی کی سزا دوں گا۔‘‘
بندروں کو پھر ہنسی آگئی ۔ انھیں یقین تھا کہ ہم درخت پر محفوظ ہیں ۔ شیر ان کو اس طرح دوبارہ ہنستے ہوئے دیکھ کر مزید غصے سے آگ بگولہ ہوگیا اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر اسپرنگ کی طرح تیزی سے اچھلا۔ ان دونوں شرارتی بندروں نے دیکھا کہ شیر کا جبڑا کھلا ہوا ہے اور اس کے تیز نوکیلے دانت ان کی طرف ہیں اور وہ بڑی تیزی سے اچھلتے ہوئے بالکل ان کے قریب آگیا ہے ۔ دونوں بندروں کے تو ہوش ہی اڑ گئے اور ان کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی اور وہ دونوںڈر کے مارے ایک دوسرے سے بُری طرح لپٹ گئے ۔
شیر نے چھلانگ تو بہت اچھی لگائی تھی لیکن وہ وہاں تک نہیں پہنچ سکا جس شاخ پر وہ دونوں بندر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیر نے دوبارہ زبردست چھلانگ لگائی ۔ بندروں کی حالت بڑی پتلی ہوگئی تھی وہ ڈر کے مارے چیخنے چلانے لگے لیکن وہاں ان کی پکار سننے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ تو اپنی ٹولی اور اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کر آئے تھے۔ اس درخت کے آس پاس کوئی دوسرا درخت بھی نہ تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر اس پر چلے جاتے ، اور نہ ہی اس درخت پر کہ جس پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اونچائی کی طرف کوئی مضبوط شاخ تھی جس پر جاکر وہ بیٹھ سکتے یوں سمجھ لیں کہ شرارتی اور نافرمان بندر آج بُری طرح پھنس گئے تھے۔
شیر کی تیز دہاڑ اور غراہٹ سے ان کے کانوں کے پردے پھٹ رہے تھے۔ ان کا کلیجا بھی کانپ رہا تھا اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے۔
وہ اس حالت میں تھے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھاکہ یکایک ان کے کانوں میں دھیمے سے آواز آئی کہ :’’ گھبراؤ مت ! مَیں تم دونوں کو یہاں سے نکال لے جاؤں گا۔ چپکے سے میری گردن کے سہارے میری پیٹھ پر اترآؤ۔‘‘
وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ٹھیک اوپردرخت کے پتوں کے درمیان سے اسی ژراف کا سر نکلا ہواتھا جس کی ان لوگوں نے ابھی کچھ دن پہلے خوب مذاق اڑائی تھی۔ بندروں نے ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھا کہ آج وہی ژراف ہماری جان بچانے کے لیے تیار ہے ۔اس ژراف کو اس دن کی شرارتوں اور مذاق وغیر ہ کا ذرابھی خیال نہیں ہے ۔ دونوں بندروں نے اپنی نگاہیں نیچی کرلیں ۔
ژراف نے کہا:’’ میرے دوستو! جلدی کرو اگر شیر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ ہم تینوں کو کھاجائے گا۔‘‘
بندروں نے اب بلاجھجک اس کی گردن پر پھسلتے ہوئے ژراف کی پیٹھ پر سوار ہوگئے اور ژراف انھیں لیے ہوئے تیز رفتاری سے وہاں سے کھسک گیا۔
شیر کو پہلے تو پتا نہیں چل سکا کہ کیا ماجرا ہے ۔لیکن جب اس نے ژراف کی پیٹھ پر سوار ہوکر دونوں بندروں کو بھاگ نکلتے ہوئے دیکھا تو اس نے دہاڑتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔
بندر وں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے شیر کو دیکھا تو ان کی جان نکلنے لگی اور وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے ۔ شیر پوری قوت کے ساتھ بندروں کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگارہا تھا اور غراتے جارہا تھا۔ ژراف نے بندروں کو سمجھایا کہ :’’ ڈرنے کی کوئی بات نہیں اب تم دونوں بالکل محفوظ ہو ۔ شیر مجھے کبھی نہیں پکڑ سکتا ۔‘‘
اور سچ مچ ہوا بھی ایسا ہی کہ ژراف نے شیر کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ۔ایک محفوظ جگہ پر پہنچ کر ژراف رک گیا بندر چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ سے نیچے اتر گئے۔
تب ژراف نے ان دونوں سے کہا :’’ اس دن تم دونوں نے میری لمبی گردن اور میری ٹانگوں کی بہت مذاق اڑائی تھی نا ، آج دیکھ لیا نا کہ انھیں کی وجہ سے تم لوگوں کی جان بچ سکی ہے ۔ لمبی گردن کی وجہ سے ہی مَیں تم دونوں کو دور سے دیکھ سکااور درخت سے تم کو اتار سکا ۔ اور لمبی ٹانگوں کی وجہ سے تیز دوڑ سکا۔ ‘‘
بندر اس پر کیا کہہ سکتے تھے ، دونوں نے شرم کے مارے اپنی اپنی گردنیں جھکالیں اور خاموش رہے ۔
ان کی یہ حالت، خاموشی اور شرمندگی کو دیکھ کر ژراف نے ہنستے ہوئے خود کہا کہ :’’چلو! چھوڑو ان باتوں کو ، بھول جاؤ پچھلے قصے کو ، اب آج سے تو تم میرے دوست بن کر میرے ساتھ روزانہ کھیلو گے نا۔‘‘
ژراف کی یہ بھلائی دیکھ کردونوں شرارتی بندروں کی تو بولتی ہی بند ہوگئی ۔ انھیں خود کی حرکتوں پر سخت غصہ آنے لگا کہ ان لوگوں نے اتنے اچھے اور پیارے ژراف کو کیوں ستایاتھا اور اس کی مذاق کیوں اڑائی تھی؟ ان دونوں نے اسی وقت ژراف سے معافی مانگی ۔ ژراف نے کہا:’’ دوستو! معافی کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
اتنے بڑے دل والے ژراف کی یہ باتیں سن کر ان لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ آج کے بعد سے وہ شرارت نہیں کریں گے۔ اور بڑی نرمی اور پیار سے ان دونوں نے ژراف سے کہا کہ : ’’ ہم نے تمہیں جان بوجھ کر بہت ستایا تھا ، آج سے ہم کسی کو بھی نہیں ستائیں گے ، نہ کسی کو بُرا بھلا کہیں گے اور رہی تمہاری بات تو آج سے تم ہمارے سب سے اچھے دوست ہو۔ کیوں کہ دوست وہی سچا ہے جو سکھ سے زیادہ دکھ میں کام آئے اور آج تم نے دکھ میں ہمارا ساتھ دے کر یہ ثابت کردیا کہ تم ہمارے سچے دوست ہو ۔
دونوں بندروں کی یہ بات سن کر ژراف کو بڑی خوشی ہوئی اور وہ خوشی سے ناچنے لگا۔

(بال سبر امنیم)
 


زندگی کا سبق

ایک مرتبہ کی بات ہے جب کہ میں بہت چھوٹا تھا، میرے چاچا اور چاچی بس کے ذریعے اورنگ آباد آرہے تھے ۔ اسی دن کنڑ گھاٹ پر ایک بس کھائی میں گر گئی تھی او ر ایک بہت بڑا حادثہ ہوا تھا کئی لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں اور گئی لوگ بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔ چاچا اور چاچی سے ہمارا رابطہ نہیں ہوپارہا تھا بار بار ان کو موبائل کرنے پر وہ سوئچ آف ہی بتا رہا تھا ۔ میرے ابّو امّی اور پورے گھر والے بہت پریشان ہوگئے تھے ۔ اسی پریشانی میں پوری رات گذرگئی ہم صبح کے اخبار کا بڑی بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ تاکہ حادثے کی صحیح خبر سے واقف ہوسکیں۔
صبح جیسے ہی اخبار آیا میرے ابّو نے مرنے والوں کے ناموں کی فہرست کو بہ غور پڑھنا شروع کیا۔ اچانک میرے منھ سے یہ نکلا کہ ’’کاش! ان کا نام بھی فہرست میں ہو۔‘‘یہ سن کر گھر کے سبھی لوگ حیران رہ گئے اور مجھے دیکھنے لگے ، تھوڑی دیر بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ دراصل میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ’’کاش ! ان کا نام اس فہرست میں نہ ہو۔‘‘
اخبار میں مرنے والوں کی جو فہرست چھپی تھی اس میں چاچا اور چاچی کا نام نہیں تھا ، گھر کے سبھی لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔چاچا اور چاچی دوپہر کے بعد اورنگ آباد پہنچے اور یہ سب ماجرا سن کر وہ ہنسنے لگے ۔
اس واقعہ کے بعد مجھے یہ احساس ہوگیا کہ کبھی بھی کچھ بولنے سے پہلے سوچنا بے حد ضروری ہے کہ بغیر سوچے سمجھے بس اوٹ پٹانگ باتیں بگھارنے سے نقصان تو الگ ہوتا ہی ہے اور لوگوں کے نزدیک عزت اور قدر بھی گھٹ جاتی ہے ۔ (کے ۔ آر ۔ شرما)​
:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:

بھالو اور اس کی دُم

ایک پجاری پڑوس کے گاؤں میں ایک امیر آدمی کے یہاں سے جنگل کے راستے اپنے گاؤں کی طرف لوٹ رہا تھا ۔ وہ امیر آدمی بڑا سخی تھا ، وہ فقیروں اور پجاریوں کی بہت عزت کرتا تھا اور ان کو اشرفیوں اور قیمتی تحفے تحائف سے نوازتا تھا۔ اس امیر آدمی نے پجاری کو بھی ڈھیر ساری سونے کی اشرفیاں تحفے کے طور پر دی تھیں ۔ اتنے سارے سونے کے سکّے پاکر پجاری بہت خوش ہوا ۔ خوشی کے مارے وہ گنگناتے ہوئے جلدی جلدی چل رہا تھا تاکہ جنگل کا خطرناک راستہ کم وقت میں پار کرسکے۔
اپنی دُھن میں مگن پجاری کو اچانک اس وقت شدید جھٹکا لگا جب اس نے اپنے سامنے ایک بھالو کو دیکھا ۔ اب پجاری بڑی مشکل میں پھنس گیا تھا ۔اسے کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی تھی کہ وہ اب کیا کرے؟ آخر کار وہ پیچھے کی طرف بھاگنے لگا جب بھالو نے اس کو اس طرح بھاگتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔ دوڑتے دوڑتے پجاری بری طرح تھک گیا اس کا پاؤں کانپنے لگا ۔پجاری تھکن کے مارے ایک جگہ کھڑا ہوگیا بھالو بھی اس کے پاس پہنچ گیا ۔ اب دونوں آمنے سامنے تھے۔ پجاری سوچ میں پڑ گیاکہ اگر اپنی جان بچانی ہے تو اسے بھالو سے لڑنا پڑے گا۔یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بھالو پجاری کے اوپر کود گیا۔ پجاری بھی اس سے دو بہ دو لڑنے کے لیے بالکل تیار ہوگیا، لڑتے لڑتے اچانک پجاری کے ہاتھ میں بھالو کی دُم آگئی ۔ پجاری نے پوری طاقت سے دُم کو پکڑ کر گول گول گھمانا شروع کردیا ۔ پجاری اور بھالو دونوں گھومتے رہے ایسے میں پجاری کی کمر سے بندھی ہوئی تھیلی میں سے سونے کی اشرفیاں نکل نکل کر چاروں طرف گرنے لگیں ۔ پجاری کو اپنی جان بچانے کی فکر تھی اس لیے اُس کو سونے کے سکّوں کے اس طرح گرنے کاکوئی افسوس نہیں ہورہا تھا ۔ وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ اس مصیبت سے کسی طرح چھٹکارا ملے۔ وہ من ہی من میں سوچ رہا تھا کہ اگر اس نے بھالو کی دُم کو چھوڑ دیا تو بھالو اس کو جان سے مار ڈالے گا ۔
پجاری اسی سوچ میں ڈوبا رہا کہ بھالو کی دُم کو پکڑ کر اسی طرح گول گول گھماتے رہنے سے ہی اس کی جان بچ سکتی ہے۔ کچھ دیر تک یہی حالت رہی کہ ادھر سے ایک لکڑہارے کا گذر ہوا۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے سونے کے سکّوں اور گول گول گھومتے ہوئے پجاری اور بھالوکو دیکھ کر اسے بہت تعجب ہوا ، دونوں کے قریب آیا اور کھڑے ہوکر ان دونوں کوغور سے دیکھنے لگا۔ پھر اُس نے پجاری سے پوچھا :’’ پجاری جی ! یہ آپ کیا کررہے ہیںاور چاروں طرف سونے کے سکّے کیوں بکھرے ہوئے ہیں؟‘‘
پجاری نے لکڑ ہارے کی آواز سن کراس کی طرف دیکھا ۔ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی ۔ اس نے اسی طرح گول گول گھومتے ہوئے کہا :
’’اے لکڑ ہارے! یہ جو ہر طرف تم سونے کے سکّے بکھرے ہوئے دیکھ رہے ہو یہ بھالو کی دُم کو پکڑ کراس طرح گول گول گھمانے سے نکلے ہیں۔‘‘
لکڑ ہارے کے دل میں لالچ آگئی ، اس نے کہا:’’ آپ کو تو کافی اشرفیاں مل گئی ہیں۔ اب ذرا مجھے بھی بھالو کی دُم پکڑا دیجیے ،تاکہ مَیں بھی اُسے گھما کر کچھ سونے کے سکّے حاصل کرسکوں ۔‘‘
پجاری کچھ دیر تو یوں ہی دکھاوے کے لیے ٹالتا رہا ۔ پھر اُس نے لکڑ ہارے کو بھالو کی دُم پکڑا دی اور سونے کے سکّوں کو جلدی جلدی جمع کرکے وہاں سے بھاگ گیا ۔
لالچی لکڑا ہاراسونے کے سکّوں کے لیے اسی طرح پریشانی کے عالم میں بھالوکی دُم پکڑ کر گول گول گھومتا رہا اسے سکّے نہ ملنے تھے نہ ملے لیکن ہاں! جب وہ بُری طرح تھک گیا تو اس کو لالچ کی سز امل گئی یعنی بھالو نے اسے مار کر کھالیا ۔ (سجاتا ، کے ۔ بی)​
:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:
بے فکر چڑیا

ایک بار ایک ہاتھی جنگل میں گھومنے کے لیے نکلا ۔ ہاتھی بہت ہی زیادہ رحم دل اور اچھی عادتوں والا تھا۔ وہ ہاتھی اپنی دُم ہلاتا ، آنکھیں مٹکاتا، جھومتا ، گاتا چلا جارہاتھا۔
جب وہ ندی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ چوہے کا ایک چھوٹا سا بچّہ پانی میں ڈوبا جارہا ہے۔ وہ بچّہ زور زور سے بچاؤ بچاؤ بھی چلاتے جارہاتھا۔ ہاتھی کو اس پر رحم آگیا وہ فوراً پانی میں اترا اور چوہے کے بچّے کواپنی سونڈ میں اٹھاکر باہر نکال لایااور وہاں سے چلنے لگا۔
چوہے کے بچّے نے ہاتھی کا شکریہ ادا کیااور باے باے کہہ کراپنی بِل کی طرف چل دیا۔ ایک چڑیا درخت پر بیٹھی ہوئی یہ سب دیکھ رہی تھی ۔ اس کو خود اپنا انڈہ سیتنا بھاری پڑرہا تھا وہ اسی ادھیڑ بُن میں تھی کہ کوئی صورت نکل آئے کہ میں انڈے سے اٹھ کر کہیں اڑ جاؤں۔
وہ ہاتھی کو دیکھ کر ہنستے ہوئے اس سے بولی:’’ کہو! ہاتھی بھائی کہا ں جارہے ہو؟‘‘
ہاتھی بولا :’’ ’’ بس بہن! ذرا جنگل کی سیر پر نکلا ہوں۔‘‘
چڑیا بولی:’’ ہاتھی بھائی! میں نے دیکھا تم بہت رحم دل ہو ، ابھی ابھی تم نے چوہے کے ایک چھوٹے سے بچّے کی جان بچائی ، واقعی یہ ایک بہت اچھا کام کِیا تم نے ۔ میرا بھی ایک کام کردو گے ۔‘‘
ہاتھی نے کہا :’’ بولو بہن! کیا کام ہے؟‘‘ چڑیا بولی:’’ میں کل سے بھوکی پیاسی یہاں بیٹھی ہوں ، گھونسلے کو چھوڑ کر کہیں جانہیں سکتی ، کیوں کہ گھونسلے میں میرے انڈے ہیں ۔ اگر تم کچھ دیر اس کی دیکھ بھال کرو تو میں اپنے کھانے کا کچھ انتطام کر لیتی ہوں ۔ میرے آنے تک تم انڈے کو سیتے رہنا ۔‘‘
ہاتھی بولا:’’ کیا پھر تم مجھے اپنے بچّے کے ساتھ کھیلنے دو گی؟‘‘
’’ہاں ہاں ! کیوں نہیں ؟‘‘چڑیا کہنے لگی۔
بچّے کو دیکھنے اور اس کے ساتھ کھیلنے کے لالچ میں بے چارا ہاتھی مان گیا ۔ چڑیا نے سوچا کہ ہاتھی انڈے کو سیتا بھی رہے گا اور اس کے گھونسلے کی نگرانی بھی ہوتی رہے گی۔ اور وہ گھومتی پھرتی اور موج مستی اڑاتے رہے گی۔
بے چارہ سیدھا سادا ہاتھی انڈے پر بیٹھا اسے سیتا رہا اور بے فکر چڑیا نہ جانے کہاں کہا ں موج مستی اڑاتے پھرتی رہی۔ ہاتھی اس انتظار میں تھا کہ انڈے سے کب بچّہ نکلے اور میں اس کے ساتھ کھیلوں ۔ کئی دن گذر گئے انڈے سے بچّہ بھی نہ نکلا اور چڑیا بھی نہیں آئی۔
وہاں سے جو بھی جانور گذرتے وہ ہاتھی کا مذاق اڑاتے کہ :’’ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ ہاتھی کے سینے سے انڈے سے بچّہ نکلا ہو؟‘‘ ہاتھی بے چارا سنتا اور چُپ رہ جاتااور اسی طرح انڈے کو سیتا اور گھونسلے کی حفاظت کرتا رہا ۔ لیکن کئی دن بیت جانے کے باوجود چڑیا نہیں آئی۔
ایک دن سرکس والوں نے ہاتھی کو دیکھا وہ اسے پکڑ کر سرکس میں لے جانا چاہتے تھے ۔ لیکن ہاتھی بچّے کے انتظار میں ٹس سے مس نہ ہوا۔ سرکس والوں نے جب یہ دیکھا تو اسے گھونسلے سمیت اٹھا کر لے گئے۔ ہاتھی انڈے پربیٹھا ہی رہا وہ کسی بھی طرح سے کھڑا نہ ہوا۔ سرکس والوں نے لاکھ کوشش کی کہ وہ کوئی کرتب دکھائے لیکن ہاتھی بیٹھا ہی رہا ۔اور وہ جوبھی کرتا بیٹھے ہی بیٹھے کرتا ۔ وہ انڈے پر بیٹھے بیٹھے ہی بینڈ بجاتا اور لوگوں کو ہنساتا۔
یہ بھی لوگوں کے لیے ایک حیرت انگیزاور دل چسپ بات بن گئی کہ ہاتھی انڈے پر بیٹھا ہوا اُسے سیت رہا ہے ۔ دیکھیں بچّہ نکلتا ہے یا نہیں ؟
ایک دن انڈہ ہِلنے لگا۔ ہاتھی گھبرا گیا کہ یہ کیا ہوا؟ انڈہ چٹکا اور ٹوٹ گیا ۔ انڈے سے بچّہ باہر نکلا تو سب لوگ حیران رہ گئے کہ انڈے سے ایک چھوٹا سا خوب صورت عجیب و غریب بچّہ نکلا جو آدھا ہاتھی جیسا اور آدھا چڑیا جیسا تھا ۔ یہ تو لوگوں کے لیے ایک اچھا خاصا عجوبہ ہوگیا ۔ ہاتھی اور وہ بچّہ دونوں مل کر خوب کھیلتے کودتے اور سرکس میں طرح طرح کے کرتب دکھا کر لوگوں کو لطف اندوز کرتے ۔ ہاتھی اور اس کے بچّے کی وجہ سے اُس سرکس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔ یہاں تک کہ جنگل میں بھی اس سرکس کے اس عجیب و غریب بچّے کی خبر پہنچ گئی۔
جب بے فکر چڑیا کو اس بات کا پتا چلا تو وہ بھی ایک دن سرکس دیکھنے کے لیے شہر میں آئی ۔ اڑتے اڑتے جب وہ سرکس میں گھسی تو ایک نظر میں اس نے ہاتھی کو پہچان لیا ۔ کھیل ختم ہونے کے بعد جہاں ہاتھی بندھا ہوا تھا وہا ں جاکر چڑیا نے اس سے کہا :’’ اے بھائی ہاتھی ! مجھے پہچانا کہ نہیں ؟ میں وہی چڑیا ہوں جس کے انڈے سے یہ بچّہ نکلا ہے۔‘‘
ہاتھی نے کہا :’’ ہاں ہاں! تجھ جیسی بے فکر چڑیا کوکون بھول پائے گا؟ جسے خود اپنے انڈے اور بچّے کاخیال نہ ہو۔‘‘
چڑیا نے بہانا بنایاکہ :’’ میں راستا بھٹک گئی تھی ، اب بہت دنوں بعد جنگل میں پہنچی ہوں کہ مجھے تمہارے سرکس کی خبر ملی سو میں یہاں آگئی ۔ اب مجھے میرا بچّہ واپس کردو ۔‘‘
چڑیا کی یہ بات سُن کر ہاتھی کو دکھ پہنچا کہ انڈے کے پاس چھوڑ کر یوں مجھ سے دور چلی گئی اور اب بچّے پر حق جتانے آگئی ۔ اس نے کہا کہ :’’ اس معاملے میںمَیں خود کوئی فیصلہ نہیں کروں گا بل کہ بچّے سے پوچھا جائے کہ وہ کس کے ساتھ رہے گا؟‘‘
جب بچّے سے پوچھا گیا تو اس نے کہا:’’ اصل ماں تو میری ہاتھی ہی ہے کیوں کہ اسی نے انڈے سے نکلتے تک میری حفاظت کی اورمجھے پالا پوسا اور بڑا کیا ۔ اے چڑیا! تُو تو انڈہ دینے کے بعد اس کو سینے کی تکلیف سے نجات پانے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی ۔ اب جا یہاں سے میں تیرے ساتھ ہر گز ہرگز نہیں جاؤں گا ، بل کہ میں ہاتھی ہی کے ساتھ رہوں گا۔ ‘‘
اتنا سُن کر ہاتھی بہت خوش ہوا جب کہ بے فکر چڑیا وہاں سے منھ لٹکائے چُپ چاپ چلی گئی۔
(جگدیش چندر کیش)
:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:
 
نیلم چڑیا اور آگ

سندر بن واقعی بہت ہی زیادہ سندر اور خوب صورت تھا۔چاروں طرف قدرت نے اپنی خوب صورتی بکھیردی تھی۔ کل کل کرتے جھرنے ، اور خوب صورت چمکیلی ہری بھری گھاس، ایسے لگتی تھی جیسے جنگل میں کسی نے قالین بچھادی ہو۔ان مناظر کودیکھ کر جانوروں اور پرندوں کے دل باغ باغ ہوجاتے تھے۔ ہر طرف رنگ برنگے پھول تھے ۔ جن پر تتلیاں اور بھونرے منڈلاتے رہتے۔
یہ کہانی اس زمانے کی ہے جب لوگوں کو آگ کا پتا نہ تھا۔ جیسے ہی شام ہوتی لوگ گپھاوں میں چلے جاتے ، اُس وقت لوگ پوری طرح ماحول پر منحصر رہتے تھے۔ کچی جڑیں ، قند پھل فروٹ ، پتے ، سبزیاں اور بغیر پکے ہوئے گوشت لوگوں کی غذا تھی۔
لاتعداد درختوں کی وجہ سے شام سے پہلے ہی جنگل میں اندھیرا چھاجاتاتھا۔ سندر بن میں ایک گہرا تالاب تھا، جس کا پانی جانوروںاور پرندوں کے پینے کے کام آتاتھا۔ اسی تالاب کے کنارے ایک پیپل کا درخت تھا جس پر نیلم چڑیا اپنا گھونسلہ بناکر رہتی تھی ۔ سبھی جانور اسی تالاب پر پانی پینے آتے تھے۔ اس لیے نیلم چڑیا سے سبھی جانوروں کی دوستی ہوگئی۔
نیلم چڑیا کی ایک عادت سبھی جانوروں کو بہت اچھی لگتی تھی ، وہ تھی اس کی دوسروں کی مدد کرنے کی عادت ۔ کوئی پریشانی میں ہو وہ فوراً وہاں پہنچ جاتی تھی ۔ کوئی شکاری جنگل میں آجاتا تو وہ اڑتے ہوئے زور زور سے چیں چیں کی آوازیں بلند کرتی کہ سبھی جانور سمجھ جاتے کے کوئی خطرہ ہے۔ اور وہ اپنی حفاظت کرنے لگتے۔
نیلم چڑیا کے گھونسلے میں بہت اندھیرا تھا اور اس کے بچّے باہر جانے کی ضد کیا کرتے تھے۔ ایسے میں اس کی ایک خواہش ہوتی تھی کہ کاش! کہیں سے روشی کی ایک کرن آجائے۔
اُسی تالاب کے کنارے ایک بہت موٹا درخت تھا جس کی بڑی سی کھوہ میں ایک بھالو رہتا تھا ۔ وہ دن بھر سوتااور جب بھوک لگتی تو تالاب سے مچھلیاں پکڑتا ۔ بھالو بہت ہی مطلبی اور خود غرَض تھا ۔جنگل کے سبھی جانور اسے مطلبی بھالو کہتے تھے۔
ایک دن خوب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی جاری تھی ۔ گھونسلے میں نیلم چڑیا کے دونوں بچّے سہمے ہوئے اپنی ماں کے انتظار میں دبک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دونوں سخت بھوکے تھے ۔ بے چینی سے ماں کو یاد کرتے ہوئے ایک دوسرے کو تسلّی دے رہے تھے۔ اُدھر بونداباندی باندی کی وجہ سے نیلم چڑیا کے پر بھیگ گئے تھے۔ وہ بہت مشکل سے گھونسلے تک پہنچی ، بچّوں کو پیار کیا انھیں کھانا دانا کھلایا ، بچّے ماں سے لپٹ کر روتے ہوئے سو گئے۔
ابھی رات کا پہلا ہی پہر گذرا تھا کہ نیلم چڑیا کو پکے ہوئے کھانے کی خوشبو آنے لگی اس نے اپنی گردن گھونسلے سے باہر نکال کر اِدھر اُدھر کا جائزہ لیا تو وہ حیران رہ گئی کہ بھالو کی کھوہ میں ڈھیر ساری لکڑیاں رکھی ہوئی ہیں اور آگ جل رہی ہے اور وہ مزے لے لے کر مچھلیاں بھون کر کھا رہا ہے۔
نیلم چڑیا کو روشنی دیکھ کربڑی خوشی ہوئی ، وہ بھالو کے پاس آئی اور اس کو روشنی اور آگ کی مبارکباد دی اور بولی :’’ بھیا بھالو! تمہارے پاس تو ڈھیر ساری لکڑیاں ہیں ایک مجھے بھی دے دو مَیں بھی اپنے گھر میں روشنی کرلوں گی اور کھانا بھی پکا لوں گی۔‘‘
مطلبی بھالونے نیلم چڑیا کو ڈانٹ کروہاں سے بھگا دیا ، رات بھر نیلم سو نہ سکی ۔ وہ سوچتی رہی کہ ساری دنیا اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے اگر بھالو تھوڑی سے آگ دیدے تو لوگوں کا بھلا ہوسکتا ہے ۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے ایسا لگا جیسے سوکھے پتّوں پر کوئی چل رہا ہے ۔ اس نے گردن گھونسلے سے باہر نکال کر دیکھا تو کیا دیکھتی ہے کہ شیر بھالو کی گپھا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سخت سردی کا موسم تھا ، درخت کی کھوہ میں آگ کی گرمی کی وجہ سے بھالو بہت گہری نیند سویا ہوا تھا۔
تب ہی نیلم چڑیا نے چیں چیں کا شور مچادیا ،نیلم چڑیا کی چیخ سُن کر بھالو نیند سے جاگ گیا ، اس کے شور سے بھالو ہی نہیں بل کہ دوسرے جانور بھی جاگ اٹھے۔ اور نیلم کے گھونسلے کی طرف بڑھنے لگے ۔ اتنے سارے جانوروں کو دیکھ کر شیر فوراً ڈر کر وہاں سے رفو چکّر ہوگیا۔ سبھی جانوروں نے نیلم کی خوب خوب تعریف کی ۔
مطلبی بھالو کو جب حقیقت سمجھ میں آئی تو شرمندگی سے اس کا سر جھک گیا ۔ اس نے دوسرے دن نیلم چڑیا کو کئی لکڑیاں دیں اورکہا کہ :’’ بہن ! مجھے معاف کردو ،اگر تم نہ ہوتیں تو شیر تو مجھے کب کا کھا چکا ہوتا اگر آج میں زندہ بچا ہوں تو وہ تمہاری ہوشیاری کی وجہ سے، لو یہ لکڑیاں آگ جلا کر اپنے گھر میں روشنی بھی کرلو اور کھانا بھی پکالو۔ اور ہاں ! نیلم بہن ! تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘
نیلم چڑیا نے کہا کہ ’’ بھائی بھالو! شکریے کی کوئی بات نہیں ، ایک دوسرے کی مدد کرنے ہی میں سچی خوشی کا راز پوشیدہ ہے ، یہ تو میرا فرض تھا کہ میں تمہیں باخبر کروں ۔ مَیں تمہارے کسی کام آسکی یہی میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے ۔‘‘
بھالو بہت روہانسا ہوا اور اس دن کے بعد سے جنگل کے سبھی جانوروں کے ساتھ مِل جُل کررہنے لگا۔ اور اپنی گپھا میں سے اس نے چند جلتی ہوئی لکڑیاں نیلم چڑیا کو دے دیں۔ نیلم نے اس لکڑی سے پہلے تواپنے گھونسلے میں روشنی کی، کھانا پکایا اور پورے جنگل اور آس پاس کے جنگلوں میں حتیٰ کہ جہاں جہاں روشنی نہیں تھی وہاں وہاں پہنچ کر اس نے روشنی پھیلائی ۔ پیار کی روشنی، ایک دوسرے کی مدد کرنے کی روشنی اور مل جل کرر ہنے کی روشنی ۔
( شوبھا وِجیندر)


:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:


جگّا ڈاکو اور جادوئی غار

پہاڑیوں کے بیچ مستان پور نامی ایک خوش حال ریاست تھی۔ وہاں جگّا نامی ایک ڈاکوبھی رہتا تھا۔ وہ پہاڑیوں کے پاس سے گذرنے والے مسافروںاور بیوپاریوں کواپنا شکار بناکر لوٹ لیتا تھا۔ جگّاکو زندہ یا مُردہ گرفتاری کروانے پر راجا نے ڈھیر سارے انعامات کا اعلان کیا تھا۔ لیکن وہ بھیس بدلنے میں بہت ماہر تھااسی لیے آج تک آزادگھوم رہا تھا۔
ایک بار بھولا نام کا ایک لڑکا دو عربی گھوڑے لے کر جارہا تھا کہ اچانک جگّا نے اس کا راستہ روک لیا اور تلوار نکال کر کڑکتے ہوئے لہجے میں بولا:’’ اے چھوکرے! اگر جان کی سلامتی چاہتا ہے تو یہ گھوڑے مجھے دیدے۔‘‘
مشہور ڈاکو جگّا کو اپنے سامنے اس طرح تلوار لیے ہوئے کھڑا دیکھ کر بھولا پہلے تو بُری طرح سہم گیا لیکن پھر اپنے حواس پر قابوپاتے ہوئے پوری ہمت جٹا کر بولا:’’ سردار!ایک گھوڑا تو مَیں دے سکتا ہوں لیکن دوسرا گھوڑا مَیں کسی بھی قیمت پر نہیں دوں گا۔‘‘
’’کیوں نہیں دوگے؟‘‘ جگّا نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا۔
’اگر دونوں گھوڑے دے دیا تو پھر مَیں دوگُنا کیسے کروں گا؟‘‘بھولا نے سہم کرکہا۔
’’کیسا دوگُنا؟‘‘ جگّا نے جھٹ سے پوچھا۔
’’تھوڑی دور پر ایک جادوئی غار ہے ، مَیں روز اُس کے اندر ایک گھوڑا بھیجتا ہوں ۔ تھوڑی دیر میں وہ دوگُنا ہو کر آجاتا ہے ۔ اُس میں سے ایک گھوڑا مَیں شہر لے جاکر بیچ دیتا ہوں۔‘‘بھولا نے جگّاکوتفصیل سے بتایا۔
جگّا کو بھولا کی باتوں پر بھروسہ نہیں ہوا۔وہ اپنی بات پر اَڑا رہا کہ مجھے دونوں گھوڑے دیدے ورنہ مَیں تیری گردن کاٹنے سے دریغ نہیں کروں گا۔بھولا نہ مانا اس نے کہا ایک گھوڑا لے لو ، دوسرا میرے پاس دو گُنا کرنے کے لیے رہنے دو۔تھوڑی دیر بعد جگّا نے کچھ سوچ کر کہا کہ :’ ’ چل چھوکرے! مجھے بھی وہ جادوئی غار دکھادے۔‘‘
وہاں سے ۵؍ میل دور ایک سُنسان علاقے میں پہاڑی کی ڈھلوان پر ایک غار تھا۔ بھولا نے اپنا ایک گھوڑا اس غار میں بھیج دیا۔ آدھے گھنٹے بعد جب وہ گھوڑا واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک اور گھوڑا تھا۔
جگّا ڈاکو کو بہت تعجب ہوا۔اُس نے پوچھا :’’اس جادوئی غار میں اگر دوگھوڑے بھیج دیے جائیں تو کیا ہوگا؟ ‘‘
’’پتا نہیں مَیں نے کبھی یہ کوشش ہی نہیں کی مَیں ہمیشہ اس غار میں ایک ہی گھوڑا بھیجتا رہا ہوں۔ ‘‘ بھولا نے بڑے ہی بھولے پن سے جواب دیا۔
’’چلو! آج کوشش کرتے ہیں جگّا نے جواب دیا اور اُس نے غار میں دو گھوڑے داخل کردیے۔
آدھے گھنٹے بعد چار گھوڑے واپس آگئے ۔ یہ دیکھ کر بھولا اپنے منہ پر طمانچے مارتے ہوئے زور زور سے چلانے لگا کہ :’’ مَیں پاگل ہوں، مَیں پاگل ہوں۔‘‘
’’مَیں نے آج تک صرف دوگھوڑے بنائے ہیں ، جب کہ اس جادوئی غار میں دو کے چار ، چار کے آٹھ، آٹھ کے سولہ اور سولہ کے …… گھوڑے بن سکتے ہیں ۔ ہاے ہاے! اگر پہلے اس بات کا پتا ہوتا تو مَیں تو کب کا کروڑ پتی بن چکا ہوتا۔ ‘‘بھولا اپنے بال نوچتے ہوئے بول رہا تھا۔
’’کوئی بات نہیں بچّے! اب چار کے آٹھ، پھر سولہ، بتیس اور چونسٹھ گھوڑے بنالے۔‘‘ جگّا نے ہنستے ہوئے بھولا کو سمجھایا ۔
یہ سُن کر بھولا کے اوپر پاگل پن کا مزید دورہ پڑ گیا۔ وہ اپنی چھاتی پیٹتے ہوئے اور زیادہ زور زور سے رونے لگا۔ ’’اب کیا ہوگیا؟‘‘ جگّا نے پوچھا۔
’’جِس سادھو نے مجھے اِس غار کا پتا بتایا تھا اُس نے کہا تھا کہ اس جادوئی غار میں صرف گیارہ مرتبہ گھوڑے دو گُنے ہوسکتے ہیں ۔ مَیں دس بار گھوڑے دو گُنے کرچکا ہوں اب صر ف ایک ہی موقع بچا ہے ۔‘‘ یہ بات بتاتے ہوئے بھولا کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔
یہ بات سُن کر جگّا کا چہرہ بھی اُتر گیا۔ کافی دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے بھولا سے کہا :’’ کوئی بات نہیں ہم اب بھی کافی پیسا کما سکتے ہیں ۔ ‘‘-’’ وہ کیسے ؟‘‘بھولا نے فوراً پوچھا۔
جگّا بھولا کو اپنا منصوبہ سمجھانے لگا، جسے سُن کر بھولا بہت خوش ہوگیا۔جگّا یہ راز کسی اور کو بتانا نہیں چاہتا تھا اور اُسے بھولا جیسے بھولے بھالے لڑکے سے کوئی ڈر نہ تھا ۔ جگّا اور بھولا دونوں نے شہر جاکر جگّا کی تمام تر جمع شدہ دولت سے ڈھیر سارے گھوڑے خرید لیے اور ان گھوڑوں کو لے کر دونوں اُس جادوئی غار کے قریب آئے ۔
ایک ایک کرکے دونوں نے سارے گھوڑے غار میں داخل کردیے ۔ دھیرے دھیرے کئی گھنٹے گذر گئے دوگُنا ہونا تو دور کی بات جتنے گھوڑے اندر گئے تو وہ بھی واپس نہیں آئے ۔ جگّا پریشان ہو اُٹھا۔
’’چلو! اندر چل کر دیکھتے ہیں ۔‘‘ بھولا نے راے ظاہر کی۔
دونوں غار کے اندر گھس گئے ۔ وہ بہت لمبا تھا۔ چلتے چلتے دونوں کافی دورتک نکل گئے۔ لیکن گھوڑوں کا کچھ بھی پتا نہ چلا۔ اچانک ایک سرے پر انھیں روشنی دکھائی دی ۔ ’’ارے ! یہ تو غار نہیں بل کہ سرنگ ہے ۔‘‘جگّا روشنی دیکھ کر چونک پڑا۔
’’اور ہم نے تمہیں پکڑنے کے لیے اِس سرنگ کا سہارا لیا ہے۔‘‘ بھولانے ہنستے ہوئے کہا۔
اسی کے ساتھ اندھیرے میں چھپے بھولا کے گاؤں کے درجنوں نوجوان لاٹھی ڈنڈا لیے جگّا پر پِل پڑے اور اس کو زندہ گرفتا ر کرلیا۔ جگّا سمجھ گیا کہ جب وہ ایک یا دوگھوڑے اندر ڈالتے تھے تو بھولا کے گاؤں والے اس سے دوگُنا گھوڑے باہر نکا ل دیتے تھے۔
اس طرح بھولا کی عقل مندی سے خطرناک ڈاکو جگّا گرفتار ہوگیا ، لوگ اسے پکڑ کر راجا کے دربار میں لے گئے راجا نے بھولا کو خوب خوب انعام سے مالا مال کردیا ۔( ڈی۔ جی۔ سنجے )

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:

اورچڑیاں اُڑ گئیں

بچّوں نے دیکھا کہ کمرے کے روشن دان سے ایک چڑیا آئی اور ٹیوب لائٹ پر بیٹھ گئی۔ پھراُڑ کر چلی گئی۔
دوپہر تک چار چڑیاںپھر آئیں ، آکر ٹیوب لائٹ پر بیٹھ گئیں ۔ پھر باہر سے چاروں تنکا چونچ میں رکھ کر لاتیں اور باہر جاتیں ۔ تین دنوں تک چڑیا ں اپنا گھونسلہ بناتی رہیں ۔ اور بچّے اُن کو توڑتے رہے ۔ چڑیوں کے ذریعے لائے گئے گھاس پھوس اور تنکے بچّے اٹھا اٹھا کر گھر کے باہر مسلسل پھینکتے رہے۔
کئی دنوں تک بچّوں اور چڑیوں کی یہ جنگ جاری رہی ۔ چڑیاں گھاس پھوس، تنکے، ڈوری، روئی ، جو بھی ملتا لا لا کر اپنا گھونسلہ بناتی رہیں ۔ بچّے صبح اُس کو دیکھتے ہی توڑتاڑ کر پھینک دیتے ۔
بچّوں نے کچھ دن بعد دیکھا کہ چڑیے کا ایک بچّہ ٹیوب لائٹ پر بیٹھنے کی کوشش کررہا ہے۔ انھوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نہ ہم اسٹول پر کھڑے ہوکر ٹیوب لائٹ کے اوپری حصے کی طرف بنے ہوئے اس گھونسلے کو بھی توڑ کر باہر پھینک دیں ۔
بچّے گھونسلہ توڑ کر پھینکنے کی بات چیت کرہی رہے تھے کہ اُن کی ماں جو اُدھر سے گذررہی تھیں اس نے سُن لیا اور کہنے لگی:’’ بچّو ! کیا کررہے ہو؟‘‘ بچّے بولے:’’ ماں ماں ! دیکھو نا ایک تو چڑیوں نے ہمارے کمرے میں اپنا گھونسلہ بھی بنا لیا ہے اور اوپر سے ایک بچّہ بھی ہے جو گندگی پھیلا رہا ہے ہم اُس گھونسلے کو توڑنے کی بات کررہے ہیں ۔‘‘
ماں بولی:’’ نہیں نہیں ، بچّو! گھونسلہ مت توڑنا ، اگر چڑیا تمہار ا گھر توڑ دے تو تمہیں کیسا لگے گا؟‘‘
بچّوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر بولے:’’ ماں ماں! دیکھو نا انھوں نے ہمارا کمرہ کتنا گندہ کردیا ہے ہمارے بستر اور بیڈ پر بھی گندگی پھیلا دی ہے۔ ‘‘
ماں نے پیار سے بچّوں کو دیکھا اور انھیں نرمی سے سمجھایا کہ :’’ دیکھو بچّو! جیسے مَیں تمہاری ماں ہوں ، ویسے ہی چڑیاں بھی اپنے بچّوں کی ماں ہیں ، اگر کوئی تمہیں پریشان کرے گا تو مجھے دکھ ہوگا اور اگر کوئی تمہاری ماں کو پریشان کرے گا تو کیا تمہیں اچھا لگے گا؟‘‘
بچّے بولے:’’ نہیں نہیںماں! آپ کو اگر کوئی تکلیف دے گا تو ہم اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ ‘‘
ماں بولی :’’بچّو! اسی طرح تم بھی چڑیوں کو مت مارو، ان کا گھونسلہ مت توڑو، وہ تو اپنے بچّوں کے بڑا ہونے کا انتظار کررہی ہیں۔ جب ان کے بچّے اپنے پروں سے خود اُڑنے کے لائق ہوجائیں گے تو وہ یہاں سے خود بہ خود اُڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔ پھر وہ آسمان کی طرف اڑتے ہوئے تمہیں بہت بھلے لگیں گے۔ ‘‘
بچّے بولے:’’ جی امّی جان! اب ہمیں سمجھ میں آگیا ، ہم اب کبھی بھی گھونسلوں کو نہیں توڑیں گے۔ ‘‘ ماں نے خوش ہوکر بچّوں کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا:’ ’ شاباش! میرے لاڈلو! تم اسی طرح اچھی عادتیں اپنے اندر پیدا کرو۔
چند دنوں بعد چڑیا کے بچّے بڑے ہوگئے اور پھر کچھ دن اور گھونسلے میں رہنے کے بعدوہاں سے اُڑگئے ۔ ماں نے یہ دیکھ کر کہا کہ :’’ دیکھو بچّو! چڑیا ں اُڑ گئیں۔‘‘

(سریش آنند)


:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:


خوشی

ہمارے ملک بھارت کے شمالی علاقے میں ایک خوب صورت اور صاف ستھرا گاؤں تھا۔ جس کا نام تارا پور تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اس گاؤں میں سورج نکلنے اور ڈوبنے کا منظر، کویل کی میٹھی آواز، پپیہے کی کوک، چڑیوں کی چہچہاہٹ، عورتوں کا مٹکا لے کر کنویں پر پانی بھرنے جانا، کسانوں کا کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنااور چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی یہ سب چیزیں لوگوں کا دل کا لبھاتی تھیں ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے دور دور تک ہری چادر بچھادی ہو۔
اُس گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام تھا خوشی - جیسا نام ویسا ہی اس کا برتاو تھا۔ وہ بہت نیک ، اچھی اور سیدھی سادی لڑکی تھی ہر ایک سے محبت اور نرمی سے پیش آتی ، بڑوں کا کہنا مانتی ، بزرگوں کا ادب اور احترام کرتی ۔گھر کے کام کاج کے علاوہ پاس پڑوس کے لوگوں کا بھی کام کرواتی۔ سب ہی اس کا نام لیتے اور اس کی مثال دیتے کہ دیکھو خوشی کتنی اچھی لڑکی ہے۔ وہ اس وقت پانچویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ وہ روزآنہ سات بجے اسکول جاتی اور بارہ بجے گھر واپس آتی ۔ لیکن آج اسے اسکول سے آنے میں دیر ہوگئی تھی اس لیے اس کے ماں باپ اور گھر کے لوگ بہت پریشان ہوگئے تھے۔
خوشی جب اسکول سے گھر واپس آرہی تھی اس نے دیکھا کہ کچھ بد معاش آدمی ایک بوڑھے اور کم زور شخص کو بُری طرح مار پیٹ کر زخمی کرکے اس کے روپیوں اور پیسوں کی تھیلی چھین کر بھاگ رہے ہیں ۔ سڑک سنسان نہیں تھی لوگ آجارہے تھے اور خاموش تماشائی بن کر یہ ظلم دیکھ رہے تھے کسی میں ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ ان بدمعاشوں سے اس بوڑھے اور کم زور آدمی کو بچاتے۔ خوشی کو یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوا ۔ بدمعاش تو پیسوں کی تھیلی لے کر وہاں سے فرار ہوگئے اور وہ آدمی زخمی حالت میں وہاں تڑپ رہا تھا کوئی بھی اس کی مدد کو آگے نہیں بڑھا ۔ خوشی نے اس آدمی کو اسپتال پہنچایا اور پولیس اسٹیشن فون کرکے اِس حادثے کے بارے میں اطلاع دی۔ حال آں کہ ان بدمعاشوں نے جاتے وقت یہ دھمکی دی تھی کہ اگر کسی نے اس واقعہ کی خبر پولیس کو دی تو اسے جان سے ماردیا جائے گا۔ لیکن خوشی نے اس بات کی ذرّہ بھر بھی پروا نہ کرتے ہوئے ہمت سے کام لے کر پولیس کو بتادیا ۔
پولیس نے اسپتال پہنچ کر زخمی کا بیان لیا اور ان بدمعاشوں کا حلیہ پوچھا ۔ اور اسپتال سے روانہ ہوئے تھوڑی ہی دیر بعد پولیس نے ان بدمعاشوں کو گرفتار کرلیا ۔ خوشی ابھی تک اسپتال ہی میں تھی ۔ اس کے ماں باپ کو جب اس بارے میں پتا چلا تو انھیں بہت خوشی ہوئی کہ چلو ہماری خوشی کی وجہ سے کسی کی جان بچی ہے ۔
پولیس انسپکٹرنے خوشی کا شکریہ ادا کیا اور اس کے ماں باپ کی خوب تعریف کی ۔اور اسے لے کر کلکٹر صاحب کے پاس گئے جہاں خوشی کو بہادر بچّی کاخطاب اور سونے کا تمغا انعام میں دیا گیا اس طرح خوشی نے بہادری اور ہمت سے ایک کم زور اور بوڑھے آدمی کی مدد بھی کی، لوگوں کا دل بھی جیتا اور اپنے ماں باپ کا نام بھی روشن کیا ۔

( نیلیش ترپاٹھی)




:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:



جینوچوہابال بال بچا

ایک چوہا تھا۔اُس کا نام جینو تھا۔ وہ بہت ہی لالچی ، کاہل اور سُست تھا۔ کاہل چوہا بہت زیادہ پیٹّو بھی تھا۔ اس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا تھا۔
ایک دن کی بات ہے جینو کی ماں نے کہا کہ :’’بیٹا! تم بہت زیادہ کھاتے ہو ، لیکن کام کاج سے جی چراتے ہو ، تم اپنے حصے کے علاوہ میرے اور تمہارے پاپا کا کھانا بھی چٹ کر جاتے ہو، یہ اچھی بات نہیں ہے آج سے تم اپنا کھانا خود تلاش کروگے ۔ ہاں! ایک بات یاد رکھنا لالچ مت کرنا، زیادہ کھانے کے چکر میں کبھی کسی مصیبت میں مت پڑ جانا، اپنا دھیان رکھنا ۔‘‘
جینو بہت اُداس ہوگیا ۔ مگر اسے جانا ہی پڑا ۔ وہ کھانے کی تلاش میں نکل گیا ، ابھی وہ کچھ ہی دور گیاتھا کہ اُسے راستے میں ایک گیہوں کا دانا مِلا۔ وہ خوش ہو گیا۔ اس نے گیہوں کا دانا اٹھا لیا ۔ تب ہی اس کی نظر خرگوش پر پڑی ، خرگوش اسے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔
’’تم مجھے دیکھ کر کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘ جینو نے خرگوش سے پوچھا۔
’’مَیں تو تمہاری بے وقوفی پر ہنس رہا ہوں ، ارے! ایک کسان کی بیل گاڑی یہاں سے گذری ہے ۔ تھوڑا اور آگے جاؤ تمہیں گیہوں کی بالی مل جائے گی۔ ‘‘
خرگوش کی باتیں سن کر جینو کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ جھٹ سے آگے بڑھ گیا۔ اس کی نظر گیہوں کی بالی پر پڑی۔ بالی راستے میں پڑی ہوئی تھی ۔ جینو چوہے نے وہ بالی اٹھا لی اور خوشی کے مارے ناچنے لگا۔ تب ہی وہاں ایک گلہری آگئی اس نے چوہے سے کہا:’’ ایک گیہوں کی بالی کیا ملی تم تو اچھلنے کودنے اور ناچنے گانے لگے۔ ارے! اور محنت کرو ، تھوڑا آگے جاؤ تمہیں ایک بالی کی جگہ گیہوں کا پورا پَودا مل جائے گا۔‘‘
چوہے کو گلہری کی بات پسند آگئی وہ جھٹ سے آگے بڑھ گیا ۔ چلتے چلتے وہ تھک گیا تھاکہ اچانک اس کی نظر گیہوں کے پودے پر پڑی۔ گیہوں کا پودا راستے میں گِرا ہوا تھا۔ پودے میں بالیاں بالیاں تھیں۔ جینو خوشی کے مارے اچھلنے کودنے لگا۔ گیہوں کے پودے کو دیکھ کر جینو نے اپنے آپ سے کہا :’’ واہ! کیا مزہ آگیا؟ اب تو پیٹ خوب بھر ہی جائے گا۔‘‘
بندر نے جب چوہے کو اس طرح ناچتے گاتے اور اچھلتے کودتے دیکھا تو چھلانگ مار کر اس کے قریب آیا اور کہا :’’ تم بھی یا ر بڑے بے وقوف لگتے ہو، بڑا سوچو، بڑا کام کرو، اگر تمہیں کئی دنوں کا کھانا ایک ہی جگہ مل جائے تو ؟‘‘
’’ایسا! وہ جگہ کون سی ہے؟‘‘ چوہے نے بندر سے پوچھا ۔
’’بس یہاں سے صرف پچاس قدم کے فاصلے پر گیہوں کی فصل کا ایک بہت بڑا کھیت ہے وہاں چلے جاؤ اور زندگی بھر موج کرو۔‘‘بندر نے جینو کو بتایا۔
چوہا بندر کی باتو ں میں آگیا۔ چلتے چلتے وہ کھیت میں پہنچ گیا ۔ کھیت میں گیہوں کی لہلہاتی فصل کو دیکھ کر چوہے کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ اس نے آو دیکھا نہ تاو ، دوڑتا بھاگتا گیہوں کی بالیوں پر ٹوٹ پڑا۔ ابھی اس نے دوچار دانے ہی گیہوں کے کھائے تھے کہ تب ہی وہ ایک پھنکار سُن کر ڈر گیا۔
ایک سانپ اپناپھن پھیلائے ہوئے بیٹھا ہوا تھا ۔چوہا ڈر کے مارے کانپنے لگا۔ اسے اپنی موت نظر آنے لگی ۔ سانپ کی پھنکار سُن کر چوہے نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ اچانک ایک نیولا کہیں سے دوڑتا ہوا آیااور اس نے سانپ پر حملہ بول دیا اور اسے دبوچ کر ادھ مرا کرڈالا۔
جینو چوہا بال بال بچ گیا ۔ اس نے خود سے یہ عہد کیا کہ اب وہ ماں باپ کا کہنا مانے گااور کبھی بھی لالچ نہیں کرے گا کیوں کہ وہ ماں باپ کی نافرمانی اور لالچ کی وجہ سے ہی آج ایک بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا ۔ لیکن یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ بال بال بچ گیا۔
( منوہر، چ۔ م ۔)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:
 
مَیں کیا بنوں گی ؟

مَیں ہوںنینا۔ مَیں چھٹی جماعت میں پڑھتی ہوں ۔ ویسے تو مَیں پڑھائی میں بہت اچھی ہوں پر کھیل کود ، ناچنے گانے میں تو ہمیشہ پہلے نمبر پر آتی ہوں۔ اسکول میں میری ڈھیر ساری سہیلیاں ہیں اور سبھی ٹیچر مجھے بہت پسند کرتی ہیں۔ سب کچھ بہت اچھا چل رہاتھا لیکن ایک دن مَیں بہت پریشان ہو گئی۔
کلا س میں پڑھاتے وقت ایک دن ٹیچر نے بتایا کہ راستے میں پتھریلا راستا، اونچے پہاڑ ، بادلوں بھرا آسمان ملے گا۔ لیکن ہمیں ڈرنا نہیں ہے، ننگے پاوں اُن راستوں پر بس چلتے ہی جانا ہے۔ اگرکہیں پھول یا ہریالی نظر آئے تو بھی نہیں رُکنا ۔ مَیں نے اپنی سہیلیوں سے تو کچھ نہیں پوچھا لیکن مجھے بہت ڈر لگنے لگا۔ گھر پہنچ کر ممّی پاپا سے بات چیت کیے بغیر مَیں نے اسکول کا ڈریس بدلا اور اپنے کمرے میں جاکر بیڈ پر لیٹ گئی ۔ تھوڑی دیر ممّی کمرے میں آئی انھوں نے پیار سے سر پر ہاتھ رکھا اور میری اُداسی کی وجہ دریافت کی ۔ مَیں تو پہلے ہی سے ڈری ہوئی تھی ، ممّی کے پوچھنے پر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے ممّی سے کہنے لگی کہ مَیں اکیلے کبھی بھی اسکول نہیں جاؤں گی کیوں کہ پتھریلا راستا، کالے بادل ، اونچے پہاڑ مجھے روکیں گے اور مَیں ننگے پاوں ہوں گی ۔ ممّی نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا کہ:’’ کس نے ایسا کہا ہے؟‘‘تب مَیں نے سسکیاں لیتے ہوئے بتایا کہ:’’ اسکول میں میری کلاس ٹیچر نے سبق پڑھاتے ہوئے ایسا کہا ہے۔ ‘‘ ممّی نے اتنا سُن کر پیار سے مجھے ایک چپت لگائی اور دَھت ترے کی کہتے ہوئے بولیںکہ:’’ بیٹی! تمہاری ٹیچر نے ایسا صرف سمجھانے کے لیے کہا ہے ، اصل میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ، ہماری زندگی میں سکھ دُکھ آتے جاتے رہتے ہیں ہم سکھ سے تو بہت خوش ہوتے ہیں لیکن دکھ سے کافی غم گین ہوکر حوصلہ پست کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ چاروں طرف اندھیرا ہے ، آگے چلنا بہت مشکل ہے۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ مانو ہم ننگے پاوں اس پہاڑی ، پتھریلے راستے پر جارہے ہیں ۔اسی لیے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں سکھ اچھے لگتے ہیں تو دکھوں سے ڈر کر نہیں بیٹھنا چاہیے ۔ ان کا سامنا کرنا چاہیے ۔ راستا کتنا بھی ڈراؤنا کیوں نہ ہوہمیں بس اپنی منزل تک چلتے ہی جانا چاہیے۔ کوئی ہمیں لالچ دے گا۔ ہریالی، پھل اور پھول دکھائے گا لیکن ہمیں اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہنا چاہیے ۔ کیوں کہ لگاتار محنت اور مشقت کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے رہنے کا نام ہی زندگی ہے۔ ‘‘
ماں نے یہ سب بڑے پیار سے کہا لیکن مَیں تو زیادہ کچھ نہیں سمجھ سکی۔ ہاں! اتنا ضرور سمجھ گئی کہ مجھے کبھی بھی دکھ سے ڈرنا نہیں ہے۔
وقت گذرتا رہا ، مَیں اپنی پڑھائی میں مگن رہی ۔ اُدھر میری سبھی سہیلیوں نے سوچ لیا تھا کہ بڑی ہوکر کیا کیا بننا ہے۔ لیکن ابھی تک مَیں نے کچھ بھی نہیں سوچا تھا کہ مَیں بڑی ہوکر کیا بنوں گی کیوں کہ مجھے تو سارے کام ہی پسند ہیں۔ مَیں جب بھی کسی بڑے افسر یا آدمی کو دیکھتی تو بس سوچتی کہ مَیں ان کے جیسا بنوں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ مَیں ہر بڑے آدمی کی طرح بن سکوں گی ۔ اس لیے مَیں نے بھی سوچا کہ مجھے بھی کوئی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ مجھے بڑے ہوکر کیا بننا ہے؟
ثنا کے برتھ ڈے پر مَیں اُس کے گھر گئی ۔ اس کے پاپا مسٹر آفاق پولیس میں بہت بڑے اور ایک ایمان دار افسر ہیں۔ اُن کی وردی دیکھ کر مَیں نے سوچ لیا کہ مَیں تو پولیس میں ہی جاؤں گی کیوں کہ ان کے تو مزے ہی مزے ہیں ۔ پارٹی ختم ہونے کے بعد ثنا کے پاپا نے اپنے تجربات بتائے کہ کس طرح انھیں دیر رات یا کبھی ساری ساری رات چوروں ، ڈاکووں اور بدمعاشوں کا پیچھا کرنا پڑتا ہے ۔ ایک بار توان کے پاوں میں گولی بھی لگ گئی تھی۔ بس! ان کی ایک ٹانگ کاٹنی پڑی پھر انھوں نے اپنی نقلی ٹانگ دکھائی ۔
مَیں تو بالکل ڈر گئی ۔ مَیں نے اس وقت فیصلہ کرلیا کہ مَیں پولیس میں بالکل نہیں جاؤں گی۔ پھر کون ، کب ، کہاں، کیسے گولی مار دے کیا پتا ؟
دوسرے روز اسکول جاتے وقت مَیں نے ایک ٹی وی نیوز رپورٹر کو دیکھا ۔ وہ مائک لے کرکسی سے کچھ پوچھ رہا تھا۔ مَیں نے اسے بہت بار ٹی وی پر دیکھا ہے۔ مَیں نے من ہی من میں سوچا کہ یہ کام بہت اچھا ہے ۔ ساری دنیا ٹی وی پر آنے والے کو دیکھتی ہے جانتی اور پہچانتی ہے رپورٹر کی تو بات ہی الگ ہے۔ اس لیے مَیں رپورٹر ہی بنوں گی۔ اچانک مَیں نے اس کی بات سنی کہ وہ کسی سے فون پر بات کررہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ مَیں پچھلے تین گھنٹوں سے نیتا جی کا انتظارکررہا ہوں ، اور میرا بھوک پیاس کے مارے بُرا حال ہے اِدھر مَیں کھانے گیا اور اُدھر نیتاجی آگئے تو میری مٹی خراب ہوجائے گی ۔ نوکری بھی جاسکتی ہے۔ مَیں نے جب اُس کی یہ حالت سُنی اور دیکھی تو مَیں ڈر گئی اور یہ فیصلہ کرلیا کہ مَیں رپورٹر ہرگز نہیں بنوں گی۔
اسی ادھیڑ بُن میں مَیں اسکول کی طرف جارہی تھی کہ مجھے سامنے سے ڈاکٹر نرگس نظر آئیں ۔ مَیں نے سوچ لیا کہ مَیں بڑی ہوکر ایک اچھی ڈاکٹر بنوں گی اور مریضوںکی خوب خدمت کروں گی ۔ سو مَیں نے ڈاکٹر نرگس سے بات کرنے کے ٹھان لی اُن کو سلام کیا ، انھوں نے جواب دے کر پوچھا کہ ، کیسی ہو؟ مَیں نے اپنے من میں جوبات سوچ رکھی تھی وہ بتائی تو انھوں نے کہا کہ دن کے علاوہ رات کو کسی بھی وقت اگر کسی مریض کو دیکھنے کا بلاوا آتا ہے تو ہمیں جانا پڑتا ہے۔ مَیں سوچنے لگی کہ رات کومجھے گھر سے نکلتے ہوئے بہت ڈر لگے لگا ۔ اس لیے مَیں ڈاکٹر نہیں بنوں گی ۔
یہی سب سوچتے ہوئے جب مَیںاسکول پہنچی تو سامنے سے نسرین میڈم آرہی تھیں ۔ مَیں نے سوچا ، ارے! ٹیچر بننے کے بارے میں تو مَیں نے کچھ سوچا ہی نہیںٹیچر کے تو مزے ہی مزے ہیں ۔ اسکول بن سنور کر آؤ، کاپی چیک کرو، بچّوں پر غصہ اتارو، اسٹاف روم میں بیٹھ کر چاے پیو اور مزے کرو۔
لیکن کلاس میں جاتے جاتے سوچنے لگی کہ بے شک ٹیچر بننا کتنا بھی اچھا ہو ۔ صبح سب سے پہلے ٹیچر کو اسکول آنا پڑتا ہے اور شام کو چھٹی کے کافی دیربعد انھیں گھر جانا ملتا ہے ۔ اور تو اور چھٹیوں کے دنوں میں بھی ان کو اسکول آنا پڑتا ہے۔ اگر کلاس میں کسی بچّے کو پڑھنا لکھنا نہیں آتااور اس کے نمبر کم آتے ہیں تو ہیڈ مسٹریس سے ڈانٹ سننی پڑتی ہے وہ الگ۔ اگر کسی بچّے کو سزا دی یا ماردیا تو وہ دوسری بڑی مصیبت ۔
نابابا نا! مَیں نہیں بنوں گی کبھی ٹیچر۔ پھر کیا بنوں ؟ یہ سوا ل پھر سامنے آیا ۔
آج ہمارا کام کے عملی تجربے کا پریڈ بھی ہے جس میں ہمیں شجر کاری اور باغ بانی کے طریقے سکھائے جائیں گے۔ آج کے دن ہماری اسکول میں خاص طور پر شجر کاری اور باغ بانی کے ماہر ٹیچرس دوسری بڑی اسکولوں سے مہمان بن کر آئے ہوئے ہیں جو ہمار ی رہِ نُمائی کریں گے۔ مجھے باغ بانی کی باتیں سُن کر بہت اچھا لگا۔ اور جب انھوں نے بتایا کہ باغ بانی کرتے ہوئے بھی باغ بانی کابڑا افسر بنا جاسکتا ہے تو مَیں نے ٹھان لیا کہ اب کیا دقّت ہے مَیں باغ بان ہی بنوں گی اور جلد ہی ایک بڑی آفیسر بن جاؤں گی۔ گھر پہنچ کر درانتی سے پودے کے آس پاس کی زمین برابر کی اور پانی کے لیے چھوٹی سی کیاری بنانا شروع کی تو درانتی سے پودے کو اتنی زور سے دھکّا لگا کہ بے چارا پودا زمین سے اکھڑ کر خراب ہوگیا۔ لیکن میں کام میں جُٹی رہی ۔ مٹّی کی کھدائی کرتے وقت نہ جانے کب درانتی سے میرے ہاتھ میں چوٹ لگ گئی مجھے سمجھ میں ہی نہ آسکا۔ مٹّی صاف کرتے ہوئے ایک کیڑے نے میری انگلی میں زور سے کاٹ لیا۔ ایک تو چلچلاتی دھو پ میں مَیں کام کررہی تھی اوپر سے چوٹ پر چوٹ لگ رہی تھی ۔ درانتی کو ایک طرف پھینک کر مَیں نے سوچا کہ مَیں باغ بان افسر نہیں بنوں گی۔
نہا دھوکر جب کھانا کھانے بیٹھی تو کچن روم سے کھانے کی بہترین خوشبو آرہی تھی ۔ تب ہی مَیں نے سوچاکہ مَیں بڑی ہوکر ایک ماہر باورچن بنوں گی اور اپنا پروگرام ریڈیو، ٹی وی پر پیش کروں گی ۔ یہی نہیں بل کہ مَیں پکوان کے موضوع پر ڈھیر ساری کتابیں لکھوں گی ۔ یہ سوچ کر مَیں کچن میں گھس گئی ۔ میری ممّی روٹی پکارہی تھیں ۔ تَوے پر روٹی سینک رہی تھیں مَیں نے اُسے پلٹنا چاہا تو میری انگلی جل گئی ۔ اُدھر ممّی نے جب سبزی میں مصالحہ ڈالا تو اس کی تیز بُو سے مجھے بے ساختہ ایک کے بعد ایک چھینک آنے لگی۔ میرا بڑا بُرا حال ہوگیا مَیں پسینے میں شرابور کچن سے نکلی اور سوچ لیا کہ مَیں باورچن نہیں بنوں گی۔
ممّی میرے پاس آئیں اور میرے آنسو اپنے آنچل سے پونچھتے ہوئے پوچھنے لگیں کہ مَیں کیا سوچ رہی ہوں ؟ تب مَیں نے امّی کو سب کچھ سچ سچ بتلادیے تو امّی نے کہا کہ :’’ مَیں نے جو بہت پہلے پتھریلا راستا ، کالے بادل ، اونچے پہاڑ کی بات کی تھی وہ سب یہی ہیں ۔‘‘
’’ کوئی کام آسان نہیں ہوتا، دقّتیں ، پریشانیاں اور تکالیف ہر کام میں آتی ہیں لیکن ہمیں ڈرنا اور گھبرانا نہیں چاہیے ۔ اگر کچھ کرنے کی لگن اور امنگ ہے تو اس کے لیے اپنے حوصلوں کو مضبوط بنا نا بے حد ضروری ہے ۔ ہر قسم کی مصیبت ، پریشانی اور تکلیف سے لڑنا اور ان کو دور بھگاتے ہوئے محنت اور ہمت سے کام لینے سے ہی ہمیں کام یابی مل سکتی ہے ۔ کیوں کہ ہرے بھرے باغ انھیں کو ملیں گے جو سچی لگن سے محنت کریں گے۔ جو کام سے جی چراتے ہیں وہ زندگی کے ہر موڑ پر ناکام ہوجاتے ہیں ۔‘‘ ممّی نے مجھے سمجھایا ۔
مَیں نے ممّی کی باتیں غور سے سنیں اور مجھے اب سمجھ میں آگیا تھا کہ مجھے بڑا ہوکر کیا بننا ہے ۔ مَیں نے بہت غور کرنے کے بعد یہ طَے کرلیا کہ مجھے بڑا ہوکر ایک اچھا ڈاکٹر بننا ہے ۔ غریب مریضوں کی خدمت کرنا ہے ۔ مَیں اب کسی سے گھبراؤں گی نہیں اور خوب محنت اور لگن سے پڑھائی کروں گی اور کام یابی حاصل کرتے ہوئے ڈاکٹر بنوں گی ۔ اپنے ماں باپ ، خاندان اور گاؤں کا نام روشن کروں گی۔ اب مجھے شدت سے آنے والے کل کا انتظار تھا کہ مَیں جلدی سے اسکول پہنچ کر میری سہیلیوں کو بتاؤں کہ مَیں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ مَیں بڑی ہوکر کیا بنوں گی؟ آج میرے اندر ایک الگ قسم کی خوشی سرایت کیے ہوئے ہے ۔

( مونیکا گپتا)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:

کسان کی ڈِبیا

ایک تھا کسان ۔ بالکل سیدھا سادا ۔ وہ ہمیشہ اپنی فصل گاؤں کے ساہوکار کو بیچ دیتا تھا ۔ ایک بار اس کے کھیتوں میں فصل بہت اچھی ہوئی ۔ کسان نے سوچا اس بار شہر جاکر فصل بیچی جائے وہاں اِس کے اچھے دام ملیں گے۔
ایک دن وہ فصل کی کٹائی کرکے شہر لے کر آیا ۔ واقعی میں اُسے بہت اچھی قیمت ملی۔ کسان خوشی خوشی اپنے گاؤں لوٹ پڑا ۔
راستے میں دو ٹھگ اُس کے پیچھے لگ گئے۔ باتوں ہی باتوں میں انھوں نے پتا لگالیا کہ کسان پہلی بار شہر آیا ہے ۔ تینوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔ اچانک ایک ٹھگ اُن کا ساتھ چھوڑ کر دوسرے راستے سے جانے لگا۔ یہ دیکھ کر دوسرا ٹھگ اُس کو ڈانٹتے ہوئے کہنے لگا کہ :’’ تم کہاں جارہے ہو ، تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ میرے ساتھ رہوگے اور میری خدمت کروگے ؟‘‘
’’ مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ ، مَیں اپنے گھر جارہاہوں ۔‘‘ پہلے ٹھگ نے کہا اور تیزی سے چلا گیا۔
’’اگر تم مجھے چھوڑ کر جاسکتے ہو تو ضرور چلے جاؤ۔‘‘ دوسرے ٹھگ نے کہا اور زور زور سے ہنسنے لگا۔
اُس کی ہنسی دیکھ کر کسان کو بہت تعجب ہوا ، اس نے پوچھا :’’ آپ اس طرح کیوں ہنس رہے ہیں ؟‘‘
’’ مَیں اُس کی بے وقوفی پر ہنس رہا ہوں ۔ وہ سوچ ر ہا ہے کہ مجھے چھوڑ کر جاسکتا ہے ۔‘‘ دوسرے ٹھگ نے کسان سے کہا اور پھر قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔
’’ وہ تو آپ کو چھوڑ کر چلا گیا اب آپ بے کار میں ہنس رہے ہیں۔ ‘‘ کسان نے کہا۔کسان کو اس ٹھگ کی باتیں بے وقوفی لگ رہی تھیں۔
ٹھگ نے کسان کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ وہ اُسی طرح ہنستا رہا ۔ تھوڑی دیر بعد جب پہلا ٹھگ ایک موڑ پر مُڑ کر غائب ہوگیا تو تب اُس نے اپنی جیب سے ایک موبائل نکالا۔ کسان نے اب سے پہلے موبائل نہیں دیکھا تھااور اُس کو موبائل کے بارے میں کچھ بھی پتا نہ تھا۔ ٹھگ نے موبائل اُس کے سامنے لہراتے ہوئے کہا:’’ مَیں ایک جادوگر ہوں ، میری مرضی کے بغیر مجھے چھوڑ کر کوئی نہیں جاسکتا ، مَیں نے اُس بدمعاش کو اِس جادوئی ڈبیا میں بند کرلیا ہے۔‘‘
’’ اتنی چھوٹی سی ڈبیا میں بھلا اتنا بڑا آدمی کیسے بند ہوسکتا ہے؟‘‘ کسان سے حیرت سے پوچھا ۔
’’ تم دیکھنا چاہو گے اُسے ؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’ لو دیکھو!‘‘ ٹھگ نے کہا اور اس نے موبائل کا ویڈیو شروع کردیا ۔
’’ ہاے! چھوڑ دو مجھے ، نکالو اِس ڈبیا سے ، یہاں بہت تکلیف ہورہی ہے ۔ ہاے! … … مَیں گھٹن کی وجہ سے مر جاؤں گا ۔ میرے آقا مجھے چھوڑ دو ۔ مجھ پر مہربانی کرو۔‘‘ موبائل کے اسکرین پر ایک ویڈیو کلپ چل رہی تھی جس میں پہلا ٹھگ چیخ چیخ کر رحم کی بھیک مانگ رہا تھا۔
کسان نے بوتل میں قید جن کی کہانیا ں تو سنی تھیں ، اُس نے پہلی بار اس عجیب و غریب اور انوکھی ڈبیا میں ایک انسان کو قید اور رحم کی بھیک مانگتے دیکھا تو وہ پریشان ہوگیا ۔ اسے پہلے تو یقین نہیں آرہا تھا ، لیکن سب کچھ تو سامنے تھا۔ اسے بھروسا ہوگیا کہ اُس کے سامنے کھڑا آدمی کوئی بہت بڑا جادو گر ہے۔
کسان نے ٹھگ سے کہا :’’ بھائی صاحب! اِسے چھوڑ دیجیے وہ بہت رورہا ہے۔‘‘
’’اِس ڈبیا میں قید ہوجانے کے بعدکوئی باہر نہیں نکل سکتا۔‘‘ اُس ٹھگ نے کسان کہا۔ پھر کسان سے بولا:’ ’ خیر! فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ، وہ قید ہوگیا تو کیا ہوا مجھے تم مل گئے ہو۔اب تم زندگی بھر میرے ساتھ رہ کر میری خدمت کرنا۔‘‘
ٹھگ کی یہ باتیں سُن کر کسان بُری طرح گھبرا اُٹھا ۔ وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولنے لگا:’’ میری بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں، مجھے اُن کی دیکھ بھال کرنی ہے۔ مَیں بھلا آپ کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہوں۔‘‘
’’ اگر تم میرا کہنا نہیں ما نو گے تو مَیں تمہیں بھی اِس جادوئی ڈبیا میں بند کردوں گا۔ ‘‘ ٹھگ نے کسان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا۔
اب تو کسان کی دال پتلی ہوگئی ، وہ ٹھگ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گڑگراتے ہوئے رحم کی بھیک مانگنے لگا۔ اُسے روتا پیٹتا دیکھ کر ٹھگ نے کہا:’’ مَیں ایک شرط پر تمہیں چھوڑ سکتا ہوں۔‘‘
’’آپ صرف حکم کریں ، مجھے ساری شرطیں بلا چوں چرا منظور ہے۔‘‘
’’ مَیں جادو کے دیوتا کا ایک بڑا مندر بنوارہا ہوں ۔ اگر تم اپنے سارے پیسے اُس مندر کے لیے دان کردو تو مَیں تمہیں چھوڑ سکتا ہوں ۔ ‘‘ ٹھگ نے اپنی شرط بتائی۔
مرتا کیا نہ کرتا ۔ کسان نے ساری رقم ٹھگ کے حوالے کردی اور گرتا پڑتا وہاں سے بھاگ گیا۔
اُس کے جانے کے بعد پہلا ٹھگ واپس آگیا۔ دراصل ان دونوں ٹھگوں نے پہلے ہی سے ایک ٹھگ کی روتے چلّاتے ہوئے ایک ویڈیو کلپ تیار کرلی تھی، جسے دکھا کر ان لوگوں نے کئی دیہاتیوں اور کسانوں کو لوٹ لیا تھا۔
بدحال کسان خالی ہاتھ اپنے گھر لوٹا اور اس نے اپنی ساری بپتاسنائی ۔ خوش قسمتی سے اُس وقت کسان کا بھانجا موہن شہر سے آیاہوا تھا۔ وہ اس وقت پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ اس لیے اس کو موبائل کے بارے میں معلوم تھا۔
اُس نے کہا ماموں ایسی کوئی جادوئی ڈبیا نہیں ہوتی ۔ لگتا ہے کسی نے آپ کو موبائل پر ویڈیوبتا کر ٹھگ لیا ہے۔
وہ ایک پچھڑ اہوا علاقہ تھا ، وہاں اب تک موبائل نہیں پہنچا تھا۔ کسان موبائل کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ پوری بات سمجھ میں آنے پر اس کی کھوپڑی گھوم گئی ۔ اس نے ٹھگوں کو سبق سکھانے کا پکا ارادہ کرلیا۔
دوسرے روز وہ پھر شہر کی طرف چل دیا۔ وہ وہاں کئی دنوں تک سڑکوں پر چکر کاٹتارہا لیکن موبایٔل والا جادوگر دکھائی نہ دیا۔ ایک دن اناج کے بازار میں موبائل والا ٹھگ نظر آیا۔ کسان کو دیکھ کر وہ ٹھگ وہاں سے کھسکنے لگا ۔ لیکن کسان نے لپک کر اس کاراستا روک لیااور ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا: ’’ جادوگر صاحب! مجھے آپ سے بہت ضروری کام ہے۔‘‘
’’ مجھ سے کیا کام ہے ؟‘‘ ٹھگ نے تعجب سے پوچھا۔
’’ گاؤں میں میرا ایک دشمن ہے۔ آپ چل کر اُسے اپنی ڈبیا میں بند کر لیجیے۔‘‘ کسان نے التجا کی ۔
’’ مَیں بھلا اُسے کیسے بند کروں ؟ ‘‘ ٹھگ نے پوچھا۔
’’مَیں آپ کو اس کام کے لیے ڈھیر سارے روپے دوں گا۔‘‘ کسان نے یقین دلایا۔
ٹھگ نے سمجھا یہ کسان بہت بڑا بے وقوف ہے ۔ اِسے اچھی طرح سے ٹھگا جاسکتا ہے۔ کچھ سوچ کر وہ اس کے ساتھ جانے کے لیے راضی ہوگیااور کہنے لگا کہ:’’ بھائی! میری ڈبیا میں آج کل جگہ بہت کم بچی ہے کہو تو مَیں اُس آدمی کی آتما کو اس میں قید کرلیتا ہوں کیوں کہ اس میں جس آدمی کی آتما قید ہوجاتی ہے وہ دوبارہ کسی کام کا نہیں رہ جاتا۔‘‘
کسان فوراً مان گیا اور دونوں گاؤں کی طرف چل پڑے ۔ ٹھگ نے سوچا مَیں اُس آدمی کی ویڈیو اتار کر کسان کو بتاکر وہاں سے فوراًنو دو گیارہ ہو جاؤں گا۔
گاؤں پہنچ کر کسان نے کہا :’’ جادوگر بھیّا! میرے پاس بھی ایک بہت بڑی ڈبیا ہے ، مَیں اُس میں جس کو بند کردیتا ہوں وہ زندگی بھر اُسی میں گول گول گھومتا رہتا ہے۔ کیا آپ اُس ڈبیا کو دیکھنا چاہیں گے؟‘‘
’’ہاں ہاں! کیوں نہیں؟‘‘ ٹھگ نے جھٹ سے کہا۔اُسے ایسا لگا جیسے کسان کوئی بہت بڑی بے وقوفی کی بات کرنے والاہے۔
کسان کے گھر کے پچھواڑے تیل نکالنے والا ایک پُرانا کولھو لگا ہوا تھا۔ وہ ٹھگ کو لے کر وہاں پہنچا ۔ ایک بیل کولھو میں جُتا ہوا گول گول گھوم رہا تھا۔ کسان کا بھانجا موہن بھی وہیں کھڑا تھا۔ ٹھگ کو دیکھتے ہی موہن نے کولھو سے بَیل کو نکال دیااور کسان سے بولا:’’ ماما! چلو اپنا جادو دکھایا جائے ۔‘‘
یہ سنتے ہی کسان نے ٹھگ کی گردن پکڑ لی اور اسے زبردستی کولھو سے باندھ دیا۔ پھر اُس کی پیٹھ پر ڈنڈا جَڑتے ہوئے بولا :’’ چل بیٹا! اب زندگی بھر اِسی میں گول گول گھوم ۔‘‘
اب تو ٹھگ کی حالت خراب ہوگئی۔ وہ بہت رویا چلّایا لیکن کسان نے اُس کی ایک نہ سُنی ۔ وہ ٹھگ کی پیٹھ پر ڈنڈے پر ڈندا برساتا رہا ۔ مجبوراً ٹھگ کو کولھو گھمانا پڑا ، لیکن تین چار چکّر کاٹنے کے بعد ہی وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔
’’ کسان نے اُسے دوبارہ پیٹنا شروع کردیا۔ تب ٹھگ روتے ہوئے بولا:’’ مجھے چھوڑ دو! مَیں تمہارے سارے روپے واپس کردوں گا۔‘‘
’’ مجھے صرف اپنے نہیں بل کہ اب تک تم نے جتنے روپے لُوٹے ہیں سب چاہیے۔‘‘ کسان نے غصے سے اپنی شرط بتائی کہا۔
’’ ٹھیک ہے میرے ساتھ شہر چلو مَیں وہاں سارے روپے دے دوں گا۔‘‘ ٹھگ نے کہا۔
’’ مجھے بے وقوف سمجھتے ہو۔‘‘ کسان نے ٹھگ کی پیٹھ پر ایک اور ڈنڈا رسید کرتے ہوئے کہا کہ :’’ چلو! اپنے دوست کے نام ایک خط لکھو کہ ایک آدمی گاؤں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے شہر میں رہنے جارہا ہے اور اس وقت وہ گاؤں کی اپنی پوری زمین جائداد کَوڑیوں کے دام بیچنا چاہتا ہے۔ اس لیے تم فوراً شہر کی پوری زمین جائداد بیچ کر گاؤں آجاؤ۔ ہم گاؤں کی پوری زمین خرید لیں گے ۔ بعد میں اُسے مہنگے داموں میں بیچ کر اچھا خاصا منافع کمائیں گے ۔
ٹھگ تو کسان کو بے وقوف سمجھ رہا تھا لیکن کسان تو اُن ٹھگوں کا بھی استاد نکلا ۔ ٹھگ بہت پریشان ہوگیا ۔ اُس کے پاس اب جان بچانے کا کوئی دوسرا راستا نہ تھا ۔ اس لیے مرتا کیا نہ کرتا ، اُسے اپنے دوست کو جھوٹاخط لکھنا ہی پڑا۔
کسان نے ٹھگ کے دوسرے دوست کا مکمل پتا پوچھ کر موہن کے باپ کے ہاتھوں وہ خط شہربھجوایا۔ اُس ٹھگ نے جیسے ہی وہ خط پڑھا اُس کی تو باچھیں کھل اُٹھیں ۔ اس نے کہا :’’ دودن ہمارے یہاں رُک جاؤ، مَیں دودن میں سب کچھ بیچ کر تمہارے ساتھ گاؤں چلتا ہوں۔
شہر میں موجود ٹھگ نے جلدی جلدی دوروز کے اندر ساری زمین اور جائداد بیچ ڈالی اور نقد رقم لے کر گاؤں پہنچا۔
جیسے ہی ٹھگ نے گاؤں میں قدم رکھا کسان نے اُسے بھی دبوچ لیا اور کہا کہ چلو مَیں بھی تمہیں ایک جادو دکھاتا ہوں ۔ اور اس کو پکڑ کر موبائل والے ٹھگ کی طرح کولھو میں باندھ دیا اور اُس کی خوب جم کر پٹائی کی۔
اُس کے بعد اس ٹھگ سے ساری نقدی لے کر اُس میں سے اپنے پیسے نکال لیے اور بقیہ رقم گاؤں کے مکھیا کو دے دی۔ مکھیا نے دونوں ٹھگوں کو پولیس کے حوالے کردیا اور روپے حکومت کے خزانے میں جمع کروادیا ۔

( سنجیو جیسوال)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:




آم کا پیڑ کیسے گرا؟

’’ماں! آج تو اتوار ہے ۔ ہمیں پڑھنے نہیں جانا ہے۔ کیا ہم باغ میں جاکر کھیلیں؟‘‘ سنجو نے اپنی ماں سے پوچھا۔
’’ کیا تم نے اور اَنجو نے دانت صاف کرکے منہ ہاتھ دھولیے ؟‘‘
’’جی ہاں! ماں ہم دونوں دانت صاف کرکے منہ ہاتھ دھو چکے ہیں۔‘‘
آج صبح تو اپنے گاؤں کا موسم بڑا سہانا لگ رہا ہے۔ رات تو بڑی بھیانک تھی کیوں کہ زلزلے کے ہلکے ہلکے جھٹکے لگ رہے تھے۔ گھر کے دروازے کھڑکیاں ہِل اٹھی تھیں۔ مکان کے اس طرح ہِلنے سے چھوٹی اَنجو تو بُری طرح ڈر گئی تھی۔
’’ جاؤ بچّو! جاکر باغ میں کھیلو ، آدھے گھنٹے بعد مَیں آواز لگادوں گی تم دونوں ناشتہ کرنے آجانا۔‘‘ ماں نے اُن دونوں سے کہا۔
’‘ماں آج ناشتے میں کیا بناؤ گی؟‘‘
’ ’ بیٹی! آج ناشتے میں اُبلے چنے ہیں ، ساتھ میں گاے کا دودھ بھی ہے۔‘‘
’’ماں اپنی گوری گاے کا دودھ پینے میں بڑا مزہ آتا ہے اور گوری نے اس سال جو بچّہ دیا ہے وہ کتھئی رنگ کا کتنا خوب صورت لگتا ہے ۔ اُس کے ماتھے پر سفید رنگ کا چاند جیسا نشان اور اس کا کودنا پھاندنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ ‘‘
سنجو کی بات کی تائید کرتے ہوئے اَنجو نے اپنی پوپلی زبان میں کہا:’’ ماں! مُدے بی دود اچھا لدتا ہے۔‘‘
’’ تم دونوں باغ میں جاکردھوم مستی مت کرنا، سب بچّوں کے ساتھ مِل جُل کر کھیلنا ۔‘‘ ماں نے تنبیہ کی ۔
’’ٹھیک ہے ماں ! ہم دونوں جارہے ہیں ، باے باے۔‘‘ سنجو نے کہا۔
باغ میں کئی بچّے پہلے ہی سے موجود تھے۔ جو رات کے زلزلے کے جھٹکوں میں گرے ہوئے آم کے درخت سے بات چیت کررہے تھے۔ ان بچّوں کو کھیلنے سے زیادہ اُس گرے ہوئے آم کے درخت سے بات چیت کرنا اچھا لگ رہا تھا۔
رمیش نے کہا:’’ آم دادا! تمہیں زمین پر گرنے سے چوٹ توبہت آئی ہوگی۔‘‘
آم روہانسا ہوکر بولا:’’ ہاں بچّو! مجھے چوٹ تو بہت آئی ہے ۔میری کئی شاخیں توٹ گئی ہیں ، لیکن مَیں ہمت نہیں ہار رہا ہوں۔‘‘
’’آم دادا ! تم تو بہت بہادر تھے ۔ تم زلزلے کے جھٹکوں سے لڑ کیوں نہیں پائے؟‘‘ سنجو نے پوچھا ۔
’’پیارے بچّے! مَیں لڑتا کیسے ؟میرے ارد گرد کارخانے اور فیکٹریاں کھول کر ان کے زہریلے دھوئیں سے میری ہریالی کو ختم کردیا گیا ہے اورساتھ ہی میری جڑ کے آس پاس گاؤں والوں نے پیلی مٹّی کھود کھود کر ، کھوکھلا جو کردیا ہے ، اس وجہ سے میری طاقت کم ہوگئی ہے۔ اگر کسی کے پیروں کو کم زور کردیا جائے تو وہ کیسے چلے گا اور کھڑا ہو پائے گا؟ میرے گرنے سے کئی پرندوں کے گھونسلے بھی گر گئے ۔ بے چاروں کے انڈے اور کچھ کے بچّے بھی دب کر مر گئے۔ یہ سب انسانوں کی وجہ سے ہوا۔‘‘ آم دادانے سنجوسے کہا۔
سب بچّے ٹوٹے ہوئے گھونسلوں کو دیکھنے لگتے ہیں ۔ گھونسلوں اورمرے ہوئے بچّوں کو دیکھ کر بچّے افسوس کرتے ہیں۔
ان بچّوں میں سریش نام کا لڑکا عمر میں سب بڑا اور ہوشیار تھا۔ جو کہ پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ بولا:’’ آم دادا! میرے ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ اگر کسی مکان کی بنیاد کم زور کر دی جائے تو وہ جلد ہی گر جاتی ہے، اب اس بات کا مطلب سمجھ میں آیا۔‘‘
’’ ہاں ہاں! صحیح کہا ہے تمہارے ماسٹر صاحب نے، کسی کی بنیاد کو کم زور کرنا اچھی بات نہیں ، جیسا کہ گاؤں والوں نے میرے ساتھ کیا۔‘‘
سنجو نے دکھ ظاہر کرتے ہوئے کہا :’’ یہ تو ہمارے گاؤں والوں نے بہت بُرا کیا ۔ ایسا ہم سب کو نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘
’’ہاںبچّو! تم سب سمجھ گئے ہوکہ مَیں کس طرح اور کس وجہ سے گرا ہوں ۔ اب کوشش کرنا کہ میرے کسی بھائی کی ہریالی ختم نہ ہونے پائے اور نہ ہی میری جڑوں کے آس پاس جس طرح مٹّی کھودی گئی ہے میرے دوسرے درخت بھائیوں کی بنیادوں کو کم زور مت ہونے دینا اگر ایسا ہوا تو دنیا میں درخت ختم ہونے لگیں گے جس سے تازہ اور صاف ہوا ملنی مشکل ہوجا ئے گی۔ ‘‘ آم دادانے بچّوں کو نصیحت کی ۔
’’ کیا ہم سب مِل کر تمہاری کوئی مدد کرسکتے ہیں ، کیا تم کو ہی دوبارہ کھڑا کرسکتے ہیں ؟‘‘ سب بچّوں نے ایک ساتھ کہا۔
’’ اب تو بڑا مشکل ہے ، لیکن مَیں نے تم کو جو نصیحت کی ہے اُس پر عمل کرنا یہی میری اصل مدد ہے ۔ آج کے بعد سے تم عہد کرو کہ تم کسی بھی درخت کی جڑوں کو کم زور نہیں ہونے دو گے ۔‘‘
آم دادا کی بات سُن کر سب بچّوں نے وعدہ کیا کہ آج سے ہم ہر درخت کی حفاظت کریں گے ۔ اسی دوران سنجو اور اَنجو کی ماں نے ان کو ناشتے کے لیے پکارا اور وہ دونوں بھائی بہن ناشتہ کرنے کے لیے گھر کی طرف چل دیے۔

( راکیش لوہیا)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:


سادھو اور راجا

کسی ملک میں ایک راجا رہتا تھا۔ اس کے دربارمیں ایک مرتبہ ایک سادھو آیا۔ راجا نے اُس سے پوچھا:’’ سادھو مہاراج! دنیا میں رہ کر جو اپنی زندگی صحیح طریقے سے خدا کی عبادت اور لوگوں کی خدمت کرکے گذارتے ہیں وہ بڑے ہیں یا وہ جو دنیا سے دور رہ کر جنگل بیابان میں جابستے ہیں اور خدا کی عبادت کرتے ہیں وہ بڑے ہیں؟‘‘
سادھونے جواب دیا :’’ اے راجا! دونو ں ہی اپنی اپنی جگہ بڑاکہلانے کاحق رکھتے ہیں۔‘‘
راجا نے اُس کی کوئی مثال پوچھی ۔ تو سادھو نے کہا :’’ ٹھیک ہے لیکن اس کے لیے آپ کو کچھ دن میرے ساتھ سفر کرنا پڑے گا۔‘‘
راجا نے سادھو کی بات مان لی اور وہ دونوں گھومتے گھومتے ایک دن ایک ملک میں پہنچے ۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک میدان میں کافی مجمع لگا ہو ا ہے ۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ آج اس ملک کی شہزادی کا سوئمبر ہے ۔ وہاں کے راجا نے یہ منادی کروادی تھی کہ:’’ جس کے ساتھ شہزادی کی شادی ہوگی اُسے میری موت کے بعد پوری سلطنت سونپ دی جائے گی اور وہ اس ملک کا راجا کہلائے گا۔‘‘
شہزادی بہت زیادہ خوب صورت تھی اور وہ اپنے ہی جیسے کسی خوب صورت شہزادے سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔ یوں تو سوئمبر میں حصہ لینے کے لیے ایک سے ایک شہزادے آئے لیکن کوئی بھی شہزادی کو پسند نہ آیا۔ تب ہی وہاں ایک نوجوان سادھو آیا۔ راج کماری نے جیسے ہی اس جوان سادھو کو دیکھا اسے پسند کر بیٹھی اور اس کے گلے میں مالا ڈالنے چل پڑی لیکن وہ سادھو وہاں سے جانے لگا۔
تب راجا نے نوجوان سادھو سے کہا :’’ اگر تم میری بیٹی سے شادی کرلو گے تو مَیں اسی وقت میری آدھی سلطنت تمہیں دے دوںگا اور میری موت کے بعد تم پورے ملک کے راجا کہلاؤگے۔ ‘‘
’’ مَیں نے تو دنیا کو خیر باد کہہ دیا ہے اب مجھے شادی بیاہ اور دنیا سے کوئی مطلب نہیں ۔‘‘ اتنا کہہ کر سادھو وہاں سے چل پڑا ۔
نوجوان سادھو کو جاتے ہوئے دیکھ کر شہزادی بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی ۔ یہ سب منظر راجا اور سادھو دونوں غور سے دیکھ رہے تھے ۔ اچانک جنگل میں جاکر وہ نوجوان سادھو کہیںغائب ہوگیا ۔شہزادی ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔
اسی درخت پر ایک چڑیا اور چڑا اپنے تین بچّوں کے ساتھ رہتے تھے۔ سردی کا موسم تھا۔ چڑا نے چڑیا سے کہا:’’ یہ ہمارے مہمان ہیں ، ہمیں ان کی خاطر مدارات کرنی چاہیے ۔ انھیں ٹھنڈ لگ رہی ہے ۔ مَیں ایک جلتی ہوئی لکڑی لے کر آتی ہوں ۔‘‘ یہ کہہ کر چڑا وہاں سے اڑ گیا اور کچھ دیر بعد کہیں سے ایک جلتی ہوئی لکڑی لے کر آیا۔ چڑے نے اُس لکڑی کو نیچے گرا دیا اُس کے بعد دونوں نے اس میں اور لکڑیاں ڈال کر اُسے جلا دیا۔
اُس کے بعد چڑیا نے چڑے سے کہا :’’ انھیں بھوک لگی ہوگی ، لیکن ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ جب کہ یہ ہمارے مہمان ہیں اب ہم کیا کریں؟‘‘ یہ سُن کر چڑا اُسی آگ میں کود پڑا اور بھون گیا ۔
چڑیا نے سوچاکہ مَیں اپنے خاوند کی محنت کو ضائع نہیں جانے دوں گی ۔ یہ لوگ تین افراد ہیں ۔ جب کہ پرندہ ایک ہی ۔ چڑیا بھی آگ میں کودپڑی۔
سادھو نے راجا سے کہا :’’ دیکھا آپ نے - اگر آپ کو دنیا ترک کرنا ہے تو اُس نوجوان سادھو کی طرح بنو جس کے لیے اس شہزادی نے محل اور سلطنت چھوڑدی ہے اور اگر دنیا میں رہ کر کچھ اچھا کام بھی کرنا ہے تو چڑیا اور چڑے کی طرح بنو کہ ان لوگوں نے دوسروں کے لیے اپنی جان قربان کردی ۔ ( سمن چودھری)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:



فرض اور عادت

ایک بار ایک سنت ندی میں نہارہے تھے ۔ تب ہی اچانک انھیں ایک بچھوکک پانی میں بہتا ہوا دکھائی دیا۔ انھوں نے جھٹ سے اسے اپنی ہتھیلی پر اٹھایا اور کنارے پر رکھ دیا ۔ لیکن جیسا کہ بچھووں کی عادت ہوتی ہے ۔ اُس بچھو نے سنت کو ڈنک ماردیا ۔ سنت نے اس کی پروا نہیں کی۔ اور وہ پھر سے نہانے میں مصروف ہوگئے ۔ دوبارہ بچھو کو پانی کی لہریں بہاکر ندی میں لے آئیں ۔ یہ دیکھ کر سنت نے اُسے ہتھیلی پر اٹھا کر کنارے رکھ دیا۔ اِس بار بھی بچھو نے اُس کی جان بچانے والے سنت کو ڈنک مار دیا۔ بار بار یہی ہوتا رہا ۔ بچھو بار بار پانی کے ساتھ بہہ کر آتا اور سادھو بار بار اس کی حفاظت کرتے اور اس کی جان بچاتے ۔ لیکن بچھو کے ڈنک مارنے پر انھیں افسوس ہوتا ۔
اسی ندی میں ایک نوجوان بھی نہا رہا تھا جو کہ یہ منظر بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اُس سے نا رہ گیا تو اس نے پوچھا :’’ سادھو مہاراج! آپ بار بار اس بچھو کی جان بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور بچھو اتنا بے وفا ہے کہ وہ بار بار آپ کو ڈنک ماررہا ہے۔ یہ کیسی تعجب کی بات ہے؟‘‘
اِس پر سنت نے کہا :’’ مَیںایک سنت اور عالم ہوں میر افرض ہے کہ مَیں ہر ایک کے ساتھ نیکی کا برتاو کروں چاہے وہ انسان ہو یا حیوان - سو مَیں اپنا فرض ادا کررہا ہوں ۔بچھو کی عادت ہے ڈنک مارنا سو وہ اپنی عادت پر عمل کررہا ہے ۔اُسے یہ نہیں سمجھتا کہ کون اُس کی جان بچا رہا ہے اور کون اُ س کو نقصان پہنچا رہا ہے وہ تو ہر ایک کو ہی ڈنک مارتا ہے، ہم دونوں ہی اپنا اپنا کام برابر کررہے ہیں اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ ‘‘ یہ سُن کر وہ نوجوان بہت خوش ہوا اُسے سنت کی باتیں اچھی لگیں وہ ان کا شاگرد بن گیا۔ ( سمیت مشرا)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:
 
دل چسپ سفر

اسکول میں جب بھی گرمی کی چھٹیاں ملتی ہیں تو ہم کہیں نہ کہیں گھومنے اور سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں۔ پچھلے سال جب چھٹی ملی تو ممّی پاپا نے کہا کہ اس سال ہم فیض پور جائیں گے۔ فیض پور ایک تاریخی گاؤں ہونے کے ساتھ گھنے جنگل سے گھرا ہوا ہے ۔
میری تو باچھیں کھل گئیں۔ مَیں نے زور وشور سے سفر پر جانے کے لیے اپنی تیاری شروع کردی ۔ ممّی پاپا ، میرے چھوٹے بھائی اور دونوں بہنوں کی تیاریاں چل رہی تھیں ۔ ہم نے اپنااپنا سامان اپنی اپنی بیگ میں رکھا ، کھانے پینے کی چیزیں ، بسکٹ، ٹافیاں ، چاکلیٹ اور چوڑے وغیرہ بھی لے لیے ۔ چوں کہ ہمیں اگلے دن صبح سویرے اٹھ کر سفر پر جانا تھا ۔ اس لیے آج ہم سب رات کا کھانا کھانے کے بعد جلدی سے سوگئے ۔ لیکن میری آنکھوں سے تونیند اُڑی ہوئی تھی، میرا جی چاہتا تھا کہ جلدی سے صبح ہوجائے اور مَیں اُڑ کر فیض پور پہنچ جاؤں ۔
اگلے دن ہم صبح جلدی اٹھے اور نہادھوکر تیار ہونے لگے۔ ممّی پاپا، دادای، میری دونوں بہنیں اور چھوٹا بھائی ، ہم سب رکشا کے ذریعہ بس اسٹینڈ پہنچے اور وہاں سے فیض پور جانے والی بس پکڑی ۔
اِس سفر کے دوران ہم کافی خوش تھے ۔ ہم نے کئی قسم کے جانور دیکھے ، پیڑ پودوں کو دیکھا، پہاڑ ، ندی، جھرنے ، تالاب اور آب شار بھی دیکھے ۔ ساتھ میں ہم سب بچّے بس میں خوب انجوائے بھی کررہے تھے ۔
ہم گھنے جنگل کے کنارے سڑک سے گذررہے تھے کہ تب ہی اچانک ہماری بس خراب ہوگئی ۔ کئی مسافروں کا تو ڈر کے مارے بُرا حال ہوگیا ۔لیکن ہمیں تو مزہ مل رہا تھا کہ اب اب بس کو درست کرنے میں کافی وقت لگ جائے گا ۔ اور ہم سامنے کے جنگل کی سیر کرلیں گے ۔ یہ سوچ کر ہم فوراً بس سے باہر کود پڑے ۔ بس ڈرائیور نے کہا کہ بس کو درست کرنے میں ایک دوگھنٹے لگ سکتے ہیں ۔
جنگل میں گھومنے کا شوق تو ہمیں بچپن ہی سے رحمانی پبلی کیشنز سے چھپی ہوئی کہانیوں کی کتابیں پڑھ پڑھ کر ہوگیا تھا آج بڑا اچھا موقع ملا تھا جنگل کی سیر کرنے کا۔
جب پاپا سے اجازت چاہی تو انھوں نے منع کردیاکہ جنگل میں شیر چیتے اور دوسرے خطرناک جانور رہتے ہیں ، ممکن ہے تم لوگوں کو نقصان پہنچادیں ۔ ہم بچّے بڑوں کا کہنا کہاں مانتے ہیں؟ سو پاپا کی بات کو سنی اَن سنی کرکے نکل پڑے جنگل کی سیر کو ۔
جنگل میں گھومتے گھومتے ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ ہم کہاں آگئے۔ ہمیں بہت ڈر لگنے لگا۔ اور ایک بچّہ ہم کو ڈرانے کے لیے شیر کی آوازیں نکالنے لگا۔ جب ہم اور زیادہ ڈرنے لگے تو وہ ہمیں دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگا۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ ہمیں ڈرا رہا ہے۔
تب ہی اچانک مَیں نے ایک شیر کو دیکھا جو وہاں سے کافی فاصلے پر کھڑا ہماری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے جیسے ہی سب کو شیر کے بارے میں بتایا تو سب بچّے ڈر کے مارے بُری طرح اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ وہاں روڈ پر ممّی پاپا ہمیں تلاش کررہے تھے اور ہم بھی جنگل سے کسی طرح باہر نکلنے کا راستا ڈھونڈ رہے تھے ۔
جیسے تیسے کرکے ہمیں راستا سمجھ میں آیا دور سے ہی ہمیں ممّی پاپا گھبرائی ہوئی حالت میں ملے ۔ ہم ان کو لپٹ کر رونے لگے ۔ ہمیں اس بات کا پورا احساس ہوگیا کہ بڑوں کا کہنا نہ ماننے سے مصیبت کھڑی ہوجاتی ہے ، وہ تو آج ہم خدا کے فضل سے بچ گئے ورنہ شیر ہم کو دیکھ لیتا تو ہم اپنے ممّی پاپا سے بھی نہ مل پاتے اور نہ ہی فیض پور کی سیر کرپاتے ۔
ابھی ہم ممّی پاپاسے اپنے کیے کی معافی مانگ ہی رہے تھے کہ بس کا ڈرائیور آیا اور بولا بس ٹھیک ہوچکی ہے ۔ یہ سُن کر ہم سب بس کی طرف چل پڑے فیض پور جانے کے لیے ۔ ( کماری سپنا)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:

نافرمان چُن مُن

گوپال کے کھیت میں ایک مرغی تھی جس کا نام مُن مُن مرغی تھا ۔ اس کا ایک چوزہ تھا ۔ جسے گوپال کے گھر والے چُن مُن کے نام سے پکارتے تھے ۔ چُن مُن تھا بڑا شرارتی اور نافرمان۔ جب دیکھو تب کسی نہ کسی کو ستاتا اور پریشان کرتا ۔ اس کی ماں مُن مُن مرغی ہمیشہ اسے نصیحت کرتی لیکن وہ ایک کان سے سنتا دوسرے کان سے اڑا دیتا ۔
چُن مُن کو کھانے پینے کا بہت شوق تھا ۔ ہمیشہ پیٹ سے زیادہ کھاتا اور پھر تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ۔ ماں اسے سمجھاتی کہ زیادہ کھانا نقصان دہ ہے ۔ وہ اپنے چھوٹے منہ کا بھی خیال نہیں کرتا اور کبھی کبھی اپنے منہ سے بڑی چیزوں پر بھی بری طرح جھپٹ پڑتا ۔
ایک مرتبہ گوپال کے کھیت میں مٹر اور چنے کی فصل جب پک کر تیار ہوئی تو اس کے پاپا نے دانوں کو الگ کرنے کے لیے مشین منگوائی ۔ دانے نکلنا شروع ہوئے تو چُن مُن کے منہ سے رال ٹپکنے لگی اور اس نے مٹر کا ایک دانا چگنے کی کوشش کی دانا چکنا ہونے کی وجہ سے چونچ میں تو چلا گیا لیکن منہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ اندر جانے کی بجاے پھنس گیا ۔
اب تو بے چاری بڑی پریشان ہوگئی اسے بہت زور کی بھوک اور پیاس لگی تھی ۔ اس کی ماں اپنی سہیلی کے یہاں گئی ہوئی تھی وہ رونے لگی مگر آواز نہیں نکل پارہی تھی اس لیے کسی کو سمجھ میں نہ آیا ۔اب وہ اپنے کیے پر پچھتا رہی تھی ۔ اسے ماں کی نافرمانی کی سزا مِل رہی تھی۔ یکایک اس کی ماں کی آواز آئی ۔ وہ ماں کو منہ سے کچھ بول نہ سکی ۔ ماں نے اپنے شرارتی چُن مُن کو اس طرح خاموش بیٹھے دیکھا تو تعجب میں پڑ گئی۔ جب قریب آئی تو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسو دیکھ کرماں کو اس پر بہت پیار آیا۔
ماں نے اس سے پوچھا :’’ چُن مُن بیٹے! تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘
چُن مُن کے منہ میں تو مٹر کا دانا پھنسا ہوا تھا وہ کیا بول پاتا ؟ بس بغیر آواز کے روتا رہا ۔ ماں کو کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔ چُن مُن اشارے سے بکھری ہوئی مٹر کی طرف اشارا کرکے ماں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے مسلسل بے آواز روئے جارہا تھا۔
کافی دیر بعد ماں کو سمجھ میں آیا کہ چُن مُن نے مٹر کا دانا کھانے کی کوشش کی ہو گی اور وہ اس کے منہ میں پھنس گیا ہوگا اسی لیے وہ بول نہیں پا رہا ہے ۔ ماں سوچنے لگی کہ اب کیا کِیا جائے ۔ کیوں کہ اس کی چونچ اتنی لمبی نہیں ہے کہ وہ اپنے چُن مُن کے منہ سے مٹر کا دانا کھینچ کر نکال سکے ۔
آخراُس کو اپنے دوست بگلے کی یاد آئی ۔ مُن مُن مرغی اسے ڈھونڈنے نکلی ۔ بگلا اسے کھیت میں نظر آگیا ۔ وہ تیزی سے بگلے کی طرف بھاگتے ہوئے گئی اس سے پہلے کہ بگلا کہیں اڑ کر نہ چلا جائے۔ بگلے کے پاس پہنچ کر اس نے چُن مُن کی حرکت بتائی اور اس سے مدد کے لیے کہا۔
بگلے نے کہا:’’ مُن مُن بہن! مجھے خوشی ہوگی کہ مَیں تمہاری مدد کروں گی۔‘‘
دونوں اڑتے دوڑتے چُن مُن کے پاس پہنچے ۔ بگلے نے اپنی لمبی چونچ کی مدد سے چُن مُن کے منہ میں پھنسے ہوئے مٹر کے دانے کوکھینچ کر نکال لیا۔ اس طرح کافی دیر تک ماں کی نافرمانی اور لالچ کی سزا جھیلنے کے بعد چُن مُن کو چین کا سانس لینا نصیب ہوا۔
اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ چُن مُن نے نافرمانی ، بدمعاشی ، شرارت اور دوسری بُری عادتوں سے توبہ کرلی ۔

( نامعلوم)


:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:


ہری اور پری

سندر بن میںایک لڑکا رہتا تھا اس کانام ہری تھا۔ وہ جنگل میں بالکل اکیلا رہتا تھا۔ کیوں کہ اس کے ماں باپ انتقال کرچکے تھے اور اس دنیا میں اس کا کوئی دوسرا رشتے دار نہیں تھا ۔ وہ جنگل میں جنگلی جانوروں اور پرندوں کے ساتھ کھیلتا یہاں تک کہ اُن کی بولیاں بھی سمجھ لیتا تھا۔
وہ لکڑیاں کاٹ کر گاؤں میں لے جاتا اور وہاں اسے بیچ کر اپنے کھانے دانے کا انتظام کرتا ۔ ایک دن وہ لکڑیاں کاٹ کر واپس آرہا تھا کہ راستے میں اُس نے ایک خوب صورت بکری کا بچّہ شدید زخمی حالت میں پڑا دکھائی دیا ۔ بکری کی کیفیت ایسی نہ تھی کہ وہ از خود چل پھر سکے ۔ ہری اسے اٹھا کراپنے گھر لے آیا۔ اس کے زخموں کو پانی سے دھو کرصاف کیا اور جنگلی جڑی بوٹی پیس کر اس کالیپ لگادیا۔ وہ کئی روز تک اسی طرح اس کی دیکھ بھال کرتا رہا ۔ ہری کی کوششوں سے چند ہفتے بعد بکری کے بچّے کے زخم بھر گئے اور وہ تندرست ہوکر چلنے پھرنے کے قابل بن گئی۔
’’ مَیں ایک پری ہوں ۔ تم نے میری زندگی بچائی ہے ۔ مَیں تمہیں ضرور کوئی انعام دوں گی۔ ‘‘ بکری نے کہا۔
ہری کو حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی کہ اس نے کسی کی مدد کی ہے اور وہ بکری نہیں بل کہ ایک پری ہے۔ پری ہری کے ساتھ ہی اس کے گھر میں رہنے لگی ۔ اب ہری تنہا نہیں تھا بل کہ اس کے ساتھ ایک پری بھی تھی۔ ایک روز اس نے پری سے کہا :’’ اے پری !مجھے نئے کپڑے لادو نا۔‘‘
ابھی ہری کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ پری نے اس کے لیے بہت خوب صورت اور دل کش کپڑے حاضر کر دیے۔ ہری نے کپڑا لے لیا اور پری کا بہت شکریہ ادا کیا۔
ہری اپنی سب باتیں اس کو کہتا اس کے ماں باپ کے بارے میں بتاتا اور پری کوسندر بن کی کچھ دل چسپ کہانیا ں سناتا ۔ پری غور سے اس کی باتیں سنتی اور اس کی کہانیوں سے لطف اٹھاتی۔
ایک رات سندر بن میں اچانک موسلادھار بارش ہوئی جس کی وجہ سے ہری کی گھاس پھوس کی جھونپڑی ڈھے گئی ۔ وہ بہت دکھی ہوگیا ۔ پری نے جب ہری کو اداس دیکھا تو اس سے پوچھا کہ : ’ ’ پیارے ہری ! تم کیوں اُداس ہو؟‘ ‘
ہری نے کہا :’’ دیکھو نا! ہماری جھونپڑی کیسے برباد ہوگئی ۔ مَیں چاہتا ہوں تم ایک اچھا گھر بنادو تاکہ ہم آرام و سکون سے رہ سکیں ۔‘‘ فوراً پری نے ایک اچھا اور بڑا گھر بنادیا ۔ ہری اور پری اس گھر میں ہنسی خوشی رہنے لگے۔
ایک روز ہری اور پری سندر بن کی سیر و تفریح کے لیے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شکاری اپنی بندوق ہرن پر تانے ہوئے کھڑا ہے ۔ بکری( پری) نے ہری سے کہا :’’ ہری ہری ! یہی وہ شکاری ہے جس نے اس روز مجھے زخمی کیا تھا۔‘‘
ہری نے پری سے التجا کی کہ :’’ مہربانی کرکے ہرن کی مدد کرواور اس دن کا بدلہ بھی لے لو۔‘‘ پری نے کہا :’’ بدلہ لینا اچھی بات نہیں لیکن اس طرح جانوروں کی جان لینے والے کو ختم کرنا میرا فرض ہے سو مَیں اسے پورا کروں گی۔‘‘
پری نے اپنی زبان میں چند جملے تیز آواز میں پڑھے اُسی وقت شکاری زمین پر گر کر ڈھیر ہوگیا ۔ پری نے ہری سے کہا :’’ اگر کوئی بھی شکاری جنگل میں آیا اور جانوروں کا شکار کرنے کی کوشش کی تو اس کا انجام بھی اسی شکاری کی طرح ہوگا۔ اب ہمیں چوکنّا رہنا چاہیے۔‘‘
کچھ دنوں کے بعد ایک شکاری اور آیا اس کی بھی حالت پہلے شکاری کی طرح ہوگئی ایک کے بعد ایک کئی شکاری جب پُر اسرارحالت میں مرنے لگے تو سندر بن میں کسی شکاری کے آنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ اب سندر بن میں بکری پری ، ہری اور تمام جانور اور پرندے سکون سے رہنے لگے۔
( نامعلوم)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:

حق بات کا انعام

دولت آبادملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا ۔ وہ بڑا رحم دل اوررعایا پرور تھا۔ جو بھی اس کی پاس آتا وہ اسے ضرور کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتا۔ اگر کسی کو کوئی پریشانی ہوتی تو راجا خود اُس کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ غریبوں اور مجبوروں کا بہت خیال رکھتا ۔ یہی وجہ ہے کہ دولت آبادملک کے لوگ اپنے بادشاہ سے بہت خوش تھے اور اس سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کے سر میں غرورسمانے لگا۔ اور وہ اپنی جھوٹی تعریف سُن کر خوش ہونے لگا۔
جب یہ خبر عام ہوئی تو ایک دن بادشاہ کے محل میں ایک لالچی اور خوشا مدی فقیر آیا ۔ اُس فقیر نے بادشاہ کے محل میں جاکربادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتے ہوئے صدا لگانا شروع کی کہ: ’’ ہمارا بادشاہ بڑا سخی ہے جو کوئی نہ دے پائے وہ راجا دے ۔‘‘ بادشاہ کو یہ بات سُن کر بڑی خوشی ہوئی ۔ اس نے فقیر کو ایک پپیتا انعام میں دے کر اسے رخصت کیا ۔ فقیر نے پپیتا لیا اور منہ لٹکائے واپس ہوگیا اسے اِس انعام سے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی۔
پہلے فقیر کے جاتے ہی دوسرا فقیر محل میں داخل ہوا اور اُس نے حق بات کی صدا لگانا شروع کی کہ :’’ جو اللہ دے وہ کوئی نہ دے پائے نہ ہی ہمارے بادشاہ ۔‘‘ فقیر کی یہ بات بادشاہ کو ناگوار گذری ۔ لیکن چوں کہ وہ عام رعایا میں سخی اور رحم دل مشہور تھا اس لیے محل میں آئے ہوئے فقیر کو خالی ہاتھ واپس لوٹانا اس نے مناسب نہ جاناسواُس نے اس فقیر کو دو سونے کے سکّے دیے اور محل سے رخصت کردیا ۔ دوسرا فقیر دو سونے کے سکّے پاکر بہت خوش ہوا ۔
اتفاق سے دونوں فقیر وں کی بازار میں ملاقات ہوگئی ۔ پہلا فقیر بہت زیادہ دکھی نظر آرہا تھا۔ دوسرے فقیر نے اُس سے پوچھا : ’’دوست! تم اتنے دکھی کیوں دکھائی دے رہے ہو۔ ‘‘
پہلے فقیر نے جواب دیا :’’ مَیں بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور اس کی تعریف بھی کی اور اس نے انعام میں مجھے صرف ایک پپیتا دیا ہے جو میرے کسی کام کا نہیں۔‘‘
دوسرے فقیر نے کہا:’’ مَیں بھی بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور مَیں نے ایک صحیح اور سچی بات کہی تھی ، وہ سُن کر بادشاہ نے مجھے دو سونے کے سکّے ا نعام دیے جنہیںپاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ ‘‘
پہلے فقیر نے دوسرے فقیر سے کہا :’’ کیا تمہیں پپیتا پسند ہے؟ ‘‘ دوسرا فقیر جسے دولت سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی وہ لالچی تھا کہنے لگا کہ :’’ ہاں! مجھے پپیتا پسند ہے۔‘‘ پہلا فقیر یہ سُن کر کہتا ہے :’’ تو تم یہ پپیتا خرید لو۔‘‘ دوسر افقیر دونوں سونے کے سکّوں کے بدلے میں وہ پپیتا خرید لیتا ہے۔ پہلا فقیر سونے کا سکّہ پاکر بہت خوش ہوتا ہے اور وہاں سے چلا جاتا ہے۔
پہلا فقیر جب اپنے گھر لوٹتا ہے اور پپیتا کاٹتا ہے تو اس میں سے ہیرے جواہرات نکلتے ہیں وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کا انعام مِلا ہے۔
جب کہ دوسرالالچی اور خوشامدی فقیر چند ہی دن میںپورے پیسے اڑا کر دوبارہ بادشاہ کے محل میں بھیک مانگنے جاتا ہے ۔ جیسے ہی بادشاہ اُس کو دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے کہ :’’ اے فقیر مَیں نے تو تیری بات سُن کر خوشی میں تجھے ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا پپیتا انعام میں دیا تھا ، کیا ہوا کہ تُو پھر سے بھیک مانگنے لگا؟‘‘
پہلے فقیر نے دوسرے فقیر سے ملنے اور دوسکّوں کے بدلے میں پپیتا بیچنے کی بات بتائی۔ یہ سُن کربادشاہ کو بڑا تعجب ہوا اس نے دوسرے فقیر کو محل میں طلب کیا اور پوچھا کہ :’’ پپیتا کاٹنے پر اُس میں سے کیا نکلا؟‘‘ دوسرے فقیر نے سب کچھ سچ سچ بتلا دیا اور یہ بھی کہا کہ :’’ مَیں نے یہ پپیتا اس لیے پہلے فقیر کو واپس نہیں کیا کہ مَیں نے سن رکھا تھا بادشاہوں کے سامنے حق بات کہنے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انعام سے نوازتا ہے ۔ اس لیے مَیں سمجھ گیا کہ پپیتے کے ذریعے مجھ کو اللہ تعالیٰ نے انعام عطا کیا ہے۔ ‘‘ یہ سُن کربادشاہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ دوبارہ پہلے جیسا نرم دل اور تواضع والا بادشاہ بن گیا اور لالچی فقیر کو اس نے جِلا وطن کردیا۔ ( نامعلوم)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:

اماوس کی رات

رات کے ایک بج رہے تھے ۔ اماوس کی رات تھی ۔ ماسٹر صاحب کو آج پڑھاتے پڑھاتے دیر ہوگئی تھی۔اُن کا گھر بہت دور تھا ۔ انھیں دوسرے گاؤں جانا تھا۔ ماسٹر صاحب کو اپنے گاؤں جانے کے لیے دو راستے تھے۔ ایک سیدھا اور دوسرا جنگل کی طرف سے تھا ۔ جنگل کا راستا قریب کا تھا صرف ایک گھنٹے میں وہ اپنے گاؤں پہنچ سکتے تھے جب کہ سیدھا را ستا کافی لمبا تھا اس راستے سے انھیں گھر پہنچتے پہنچتے ڈھائی سے تین گھنٹے لگ سکتے تھے۔
ماسٹر صاحب نے جنگلی راستے کے بارے میں بھوت پریت کے بہت سارے ڈراؤ نے قصے سُن رکھے تھے۔ لیکن پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے ان کا ایسی باتوں پر یقین نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنے گھر جانے کے لیے جنگل ہی کا راستا چنا۔ اندھیرا اور جنگل دونوں ہی بہت گھنے تھے۔ ماسٹر صاحب کے ہاتھوں میں ایک ٹارچ اور کچھ کتابیں تھیں۔ وہ بہادری کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ اب تک صرف آدھا راستا ہی طَے ہوا تھا کہ اچانک انھیںکسی کے رونے کی آواز سنائی دی، وہ آواز کی سمت بڑھے کہ دیکھیں کون رورہا ہے؟ ماسٹر صاحب نے دیکھا کہ ایک بچّی سر جھکائے رورہی ہے۔ ماسٹر صاحب نے اس سے کچھ پوچھنا چاہا جیسے ہی اس نے سر اٹھایا تو وہ یہ دیکھ کر بُری طرح ڈر گئے کہ اس کے چہرے پر نہ تو آنکھیں تھیں نہ ناک، نہ کان اور نہ منہ۔
ڈر کے مارے ماسٹر صاحب کا بُرا حال ہوگیا ان کے ہاتھوں سے ٹارچ گر گئی اور کتابیں بھی اِدھر اُدھر بکھر گئیں۔ا ور وہ وہاں سے بھاگے اور بھاگتے بھاگتے کسی نہ کسی طرح اس جنگل سے نکلے۔
جنگل سے جیسے ہی سڑک پر آئے تو دیکھا کہ ایک چوکیدار بیٹھا تھا ۔ وہاں گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ جس کی وجہ سے اُس کا چہرہ صاف طور پر نظر نہیں آرہا تھا۔ ماسٹر صاحب نے سوچا چلوخدا کا شکر ہے کوئی تو مِلا جو انسان ہے۔ انھیں تھوڑا سکون محسوس ہوا۔ اور انھوں نے اس چوکیدار سے جنگل میںپیش آیا واقعہ سنایا۔
چوکیدار نے کہا :’ صاحب !اماوس کی رات کو اِس وقت جو بھی یہاںملتا ہے وہ مرا ہوا ملتا ہے ۔ اور آج تک اس جنگل سے کوئی بھی زندہ اور صحیح سلامت اپنے گھر نہیں پہنچا ہے ۔ ‘‘
ماسٹر صاحب نے یہ سُن کر کہا:’’ یہ تو پھر خدا کا شکر ہے کہ مَیں زندہ بچ کر آگیالیکن تم اِس جگہ پر کیا کررہے ہو؟‘‘
چوکیدار نے کہا :’’ جو کوئی جنگل سے زندہ بچ کر آتا ہے تو مَیں یہاں پر اُس کا کام تمام کردیتا ہوں ۔ ‘‘ اتنا کہہ کر چوکیدار نے سر اٹھایا تو ماسٹر صاحب نے دیکھا کہ اس کے بھی نہ آنکھیں تھیںنہ ناک، نہ کان اور نہ منہ۔ ڈر کے مارے ماسٹر صاحب نے بلند آواز میں مدد کے لیے پکارنا شروع کیا ۔
تب ہی مرغ نے بانگ دی ۔ ماسٹر صاحب بستر سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور انھیں یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ وہ سب صرف ایک خواب تھا۔


(سمیتا پاٹل)



:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:


رِنکو کی ضد

رِنکونے اسکول سے آتے ہی بستہ ایک طرف پھینکا اورماں کے گلے میں جھولتے ہوئے بولا:’’ ماں ماں! مجھے کل اسکول میں کلر پیٹی لے کر جانا ہے ہم اسکول میں ڈرائنگ بنائیں گے ۔ ‘‘
’’اچھا! ٹھیک ہے مَیں لے دوں گی۔‘‘ کہہ کر ماں گھر کے کاموں میں لگ گئی۔
لیکن رِنکوکو کہاں چین پڑتا ۔ اگلے پانچ منٹ میں اس نے تین بار ماں کو یاد کرا دیا ۔ ہار کر ماں نے ہاتھ کا کام چھوڑا۔ اور رِنکوکو ساتھ لے کر بازار کی طرف چل پڑیں ۔ اسٹیشنری کی دکان سے کلر پیٹی خرید کر رِنکو کے حوالے کردیں ۔ رِنکو کلر پیٹی پاکر بہت خوش ہوا۔ اچھلتا کودتا وہ گھر کی طرف آرہا تھا کہ اس نے ایک دکان کے آگے رنگ برنگی سائیکل دیکھی ، وہ وہیں ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا۔ ’’ ماں! مجھے یہ سائیکل لینا ہے۔ دیکھو نا! کتنی سندر ہے ؟‘‘
ماں نے دیکھا ، سچ مچ سائیکل بہت سندر تھی۔ لیکن ماں جانتی تھیں کہ یہ سائیکل خریدنا ان کے بس کی بات نہیں ۔پاپا کی تنخواہ سے جیسے تیسے گھر کا خرچ چلا رہی تھیں۔ پھر بھی رِنکوکی پڑھائی ، کھانے اور اس کی دوسری ضروریات میں وہ کوئی بھی کٹوتی نہیں کرتی تھیں۔ ماں نے رِنکو کو ٹالنے کی بہت کوشش کی ۔ لیکن ضدی رِنکو کہاں مانتا؟ وہ تو ضد پر اڑ گیا۔ زور زور سے رونے لگا اور وہیں زمین پر لوٹنے لگا ۔ آس پاس کے لوگ اُسے دیکھنے لگے۔ لوگوں کو انھیں یوں گھورتا دیکھا تو ماں کو بہت شرم محسوس ہوئی۔ رِنکو کو وہیں زمیں پر چھوڑ کر وہ دکان کے اندر گھس گئیں۔ رِنکونے سوچا ماں سائیکل خریدنے کے لیے دکان میں گھسی ہیں۔ وہ بھی اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑتا ماں کے پیچھے پیچھے دکان میں گھس گیا۔ ماں نے دکان دار سے سائیکل کے دام پوچھے۔
دکان دار نے بتایا :’’ ایک ہزار روپے۔‘‘
دام سُن کر ماں نے تھوک نگلتے ہوئے بڑے دکھ سے کہا:’’ اچھا!‘‘
ماں نے رِنکو سے کہا :’’ ابھی مَیں اِتنے پیسے لے کر نہیں آئی ہوں جب پاپا آفس سے گھر آئیں گے تو تم اُن کے ساتھ آکر سائیکل خرید لینا۔‘‘
رِنکونے جھٹ ہامی بھر لی اور دونوں گھر لوٹ آئے۔ شام کو جب رِنکوکے پاپا آفس سے لوٹے تو ماں نے اُن کو ساری بات بتائی ۔ رِنکو کی اس طرح کی بے جاضد سے اس کے پاپا کو بہت دکھ ہوا۔ پاپا نے رِنکوکو اپنے پاس بلایا اور اس کو پیار سے سمجھانے لگے۔ پاپا بولے:’’ دیکھو بیٹا! جتنی چادر ہو اتنا ہی پاؤں پھیلانا چاہیے ۔اپنی حیثیت سے بڑھ کر کوئی کام نہیں کرنا چاہیے ۔ ہم تمہیں اچھے اسکول میں پڑھوارہے ہیں۔ تمہاری پڑھائی کے لیے ہم کبھی کوئی کمی نہیں کرتے۔ تمہارے لیے دودھ، پھل فروٹ، بسکٹ ، ٹافی، اور اچھے اچھے چاکلیٹ لاتے ہیں۔ اب تمہیں بھی فضول کی ضد چھوڑ کر محنت سے پڑھائی کرنا چاہیے۔ تمہارے لیے اتنی مہنگی سائیکل خریدنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ تمہیں ایسی ضد نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
لیکن رِنکوکے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اُس نے سائیکل لینے کی ضد نہ چھوڑی اور زورزور سے دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ اُسے اِس طرح ضد کرتے ہوئے دیکھ کر پاپا نے کہا:’’ ٹھیک ہے! مَیں کل اپنے آفس سے قرض لے آؤں گا اور تمہیں سائیکل دلادوں گا ۔ پھر دھیرے دھیرے میری تنخواہ میں سے پیسے کٹ جائیں گے۔‘‘
دوسرے دن پاپا نے رِنکوکو سائیکل دلا دی۔ رِنکو بہت خوش ہوگیا اُسے اگلے دن کاانتظار تھا ۔ جب وہ اسکول جاکر اپنے سارے دوستوں کو اپنی نئی سائیکل کے بارے میں بتائے گا اور اپنی سائیکل دکھانے کے لیے گھر لے کر آئے گا۔
دوسرے دن اسکول جانے سے پہلے رِنکوپاپا کے ساتھ ناشتہ کرنے بیٹھا ۔ پاپا نے ماں کو آواز لگائی:’’ بھئی! جلدی دودھ لے کر آؤ رِنکوکو دیر ہوجائے گی۔ ‘‘
ماں ایک کپ دودھ لے آئی۔ ماں نے بتایا:’’ مَیں نے آدھا دودھ بند کروادیا ہے ۔ رِنکوکی سائیکل کے لیے آفس سے جو قرض لیا گیا ہے اُس کے پیسے کٹنے کی وجہ سے اب تنخواہ کم ملے گی اس لیے گھر کا خرچ چلانا مشکل ہوجائے گا۔ مجھے بچت کرکے ہی گھر چلانا پڑے گا۔‘‘
پاپا نے کہا :’’ تم نے ٹھیک کیا۔یہ ایک کپ دودھ تم رِنکو کو دے دو، آج سے میرا دودھ بند، اب مَیں بغیر دودھ پیے ہی آفس چلا جایا کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر پاپا نے آدھا ناشتہ کیا اور اُٹھ گئے۔ رِنکوکو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔
شام کو کھیل کود کر آنے کے بعد رِنکو ماں کے ساتھ بیٹھ کر پھل اور دودھ سے ہلکا پھلکا ناشتہ کرتا تھا۔ اُس دن ماں نے رِنکوکو کھانے کے لیے صرف ایک کیلا ہی دیا۔ کیلا ہاتھ میں لے کر رِنکو نے ماں سے کہا:’’ ماں! بس ایک ہی کیلااور دودھ ؟‘‘ ماں نے جواب دیا:’’ بیٹا ! آج ایک ہی کیلا کھالواور دودھ تو مَیں نے کم لینا شروع کردیا ہے ، اس لیے دودھ صرف صبح ملے گا۔تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ قرض ادا ہوجانے کے بعد اب دوبارہ پہلے جیسا کھانا پینا شروع کردیں گے۔
اچانک رِنکوکو خیال آیا کہ ماں کچھ بھی نہیں کھا رہی ہے۔ رِنکوبولا:’’ ماں! آپ کچھ نہیں کھائیں گی؟‘‘
اپنی نم آنکھیں چھپاتے ہوئے ماں نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیااور دھیرے سے کہا:’’ مجھے بھوک نہیں ہے، رِنکوتم کھالو۔‘‘ یہ کہہ کرماں گھر کے کام میں جٹ گئی۔
پاپا کو رات میں کتاب پڑھتے پڑھتے سونے کی عادت تھی۔ اُس رات رِنکونے دیکھا کہ پاپا کے کمرے کی لائٹ بند ہوگئی۔ رِنکوسوچنے لگا پاپا آج اتنی جلدی کیسے سوگئے ؟ اُن کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ وہ آہستہ آہستہ دبے پاؤں پاپاکے کمرے کی طرف گیا ، اُص نے دھیرے سے آواز لگائی :’’ پاپا!کیا مَیں اندر آؤں؟‘‘
اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پاپا بولے :’’ ہاں ہاں بیٹا آ جاؤ۔‘‘ اندر داخل ہوتے ہوئے رِنکو بولا:’’ آج آپ ہمیںکہانی نہیں سنائیں گے؟ اور آج آپ کچھ پڑھ بھی نہیں رہے ہیں؟ آپ نے لائٹ اتنی جلدی کیوں بجھا دی پاپا؟
پاپا نے دھیرے سے جواب دیا :’’ بیٹے ! کوئی خاص بات نہیں ۔‘‘ یہ سُن کر رِنکو کو اطمینان نہ ہوا اور پھر ضد کرنے لگا کہ :’’ پاپا صحیح صحیح بتائیے نا کیا مسئلہ ہے؟‘‘تو اُس کے پاپا نے کہا: ’’ چوں کہ مَیں نے سائیکل لانے کے لیے قرض لیے ہیں اور اِس مہینے سے میری تنخواہ میں سے پیسے کٹنے شروع ہوجائیں گے ، اِس مہینے بجلی کا بِل کم آئے اس لیے مَیں نے لائٹ جلدی سے بجھا دی۔‘‘
رِنکوکو احساس ہوگیا کہ میری بے جا ضد کی وجہ سے ممی پاپا دونوں بہت زیادہ پریشا ن ہوگئے ہیں ۔ ’’ اوہو! پاپا ‘‘ کہہ کر رِنکو اپنے پاپا کے گلے لگ گیا اور سسک سسک کر رونے لگا ۔پاپا نے جب رِنکو کو روتے دیکھا تو اُس کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا :’’ بیٹے ! تمہیں کیا ہوگیا ہے ، تم کیوں رورہے ہو؟‘‘
سسکتے ہوئے رِنکو بولا:’’ میری بے جا ضد کی سب کو اتنی بڑی سزا کہ گھر کے سب لوگوں کا سکون برباد ہوجائے ، پاپا! مجھے معاف کردو نا۔ مجھے نہیں چاہیے سائیکل ، پاپا! پلیز اسے کل واپس کردیں۔ مَیں اب آیندہ سے کبھی کوئی ضد نہیں کروں گا۔
رِنکو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پاپا بولے :’’ رو مت بیٹا! صبح کا بھولا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔

( رینو چوہان)



:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:
 
جھوٹ کی سزا

یہ ضرور کسی ڈائن کاکام ہے ۔ جنگل کے اوجھا نامی لکڑ بھگّے نے آنکھیں گول گول گھما کر کہا۔’’یہ جو آج کل ایک کے بعد ایک بچّے مرتے جارہے ہیں ، ضرور اس میں اُسی کا ہاتھ ہے وہ ڈائن ہے ۔ اب اُس کی نظر تیرے بچّے پر ہے۔‘‘
’’ تو ہمارا کیا ہوگا؟ ‘‘براؤنی بھالو لگا رونے ۔’’ہمارے دو بچّے ہوئے ایک تو پہلے ہی خدا کو پیارا ہوگیا۔ خدا جانے اسے کون سی بیماری لگی ہے۔ ‘‘
بنٹی لومڑی مانو سسکنے لگی :’’ بابا! کہیں یہ اُس سنہری ہرن کے کرتوت تو نہیں؟ اتنے بڑے کھیت اور کٹیا کی اکیلی مالکن بنی بیٹھی ہے۔‘‘
سنہری ہرن تھی تو اکیلی اس کا کوئی بھی نہ تھا مگر کھیتوں پر راج تھا تو اسی کا ۔ جیسے ہی بنٹی لومڑی نے ہرن کی بات کی، تو مانو اوجھالکڑ بھگّا اسی موقع کی تلاش میں تھا ۔اس نے کہا :’’ ارے ! وہی تو ڈائن ہے اگر اس کانٹے کو راستے سے ہٹا دیا جائے تو کتنا اچھا ہوگا ؟ پھر سارے کھیتوں پر ہماراحکم چلے گا۔ ‘‘ لکڑ بھگّے نے براؤنی بھالو کو اکساتے ہوئے مزید کہا کہ : ’’ ابھی اور اسی وقت جنگل کے راجا شیر سنگھ کے پاس چلو ۔ وہ پنچایت بلائے مَیں سب کے سامنے اس بات کااقرار کروں گا کہ سنہری ہرن ڈائن ہے اور اس کی نظر تمہارے بیٹے پر ہے ۔ وہ آنکھوں آنکھوں ہی سے بچّے کا خون چوس رہی ہے۔‘‘
براؤنی بھالو ان کے جھانسے میں آگیا:’’ ابھی چلو بابا! شیر سنگھ کے پاس ۔‘‘
پنچایت میں اوجھا لکڑ بھگّے اور بنٹی لومڑی نے سنہری ہرن کے خلاف گواہی دی ۔ شیر سنگھ نے فیصلہ سنادیا کہ :’’ سنہری ہرن ڈائن ہے، اس لیے آج رات جنگل کے تمام جانور میدان میں جمع ہوجائیں تاکہ اسے درخت سے باندھ کر زندہ جلادیا جائے۔‘‘
سنہری ہرن بہت روئی لیکن پتھر دل والے شیر سنگھ ، بنٹی لومڑی، اوجھا لکڑ بھگّے کے دل نہ پگھلے ۔ بل کہ بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے تو جیسے اسی بات کا انتطار کررہے تھے کہ کب راجا شیر سنگھ فیصلہ سنائے اور کب وہ سنہری ہرن کو دبوچ لیں؟ چناں چہ جیسے ہی راجا نے فیصلہ سنایا وہ دونوں دوڑے اور سنہری ہرن کو پکڑ کر درخت سے باندھنے لگے۔
ہرن کا کوئی بھی نہ تھا، وہ بالکل اکیلی تھی۔ جنگل کے کسی جانور میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ راجا شیر سنگھ کے فیصلے کے خلاف زبان کھولیں۔ لیکن کھوکھو بندر اور میکو خرگوش نے دل میں یہ ٹھان لی کہ بدمعاشوں کو ہم ضرور سبق سکھائیں گے۔ کیوں کہ انھیں یہ پتا تھا کہ یہ سب بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کی سازش ہے۔
سنہری ہرن کو درخت سے باندھ کر بنٹی لومڑی ، اوجھا لکڑ بھگّا اور اس کے دوسرے بدمعاش ساتھی درخت کے قریب ہی بیٹھ کر موج مستی کرتے ہوئے بے چاری سنہری ہرن کا مذاق اڑارہے تھے اور خوب کھاپی کر ناچتے گاتے ہوئے جشن منارہے تھے۔ جب شام ہوئی اور اندھیرا پھیلنے لگا تو ایک ایک کرکے دوسرے جنگلی جانور میدان میں درخت کے ارد گرد جمع ہونے لگے ۔ اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر کھوکھو بندر درخت پر چھلانگ مار کر بیٹھ گیا۔ جب سب جانور راجا شیر سنگھ کے آنے کی خبر سُن کر اس کے استقبال میں مصروف ہوگئے تو کھوکھو بندر نے سنہری ہرن کو درخت سے کھول دیااور اس سے کہا کہ :’’سنہری ہرن ! جنگل میں جھیل کے پاس جھاڑی میں بھاگ کر چھپ جاؤ کل ہم تم سے ملیں گے۔‘‘
اِدھر جیسے ہی سنہری ہرن کوکھوکھونے کھولا تو وہ چوکڑیاں بھرتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی ۔ میکو خرگوش چند لکڑیاں اور گھاس پھوس اور چند ہڈیوں کے ٹکڑے لیے پہلے ہی سے تیار تھا ، کھوکھو بندر اور میکو خرگوش دونوں نے آگ جلادی اور اوجھا لکڑ بھگّے کو دھوکا دینے کے لیے ہڈیاں بکھیر دیں۔
سب جانور گھبرانے لگے۔ شیرراجا نے جب یہ دیکھا تو کہا :’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ڈائن کو اس کے کیے کی سزا مل گئی ، آگ لگ گئی اور وہ اس میں جل کر مر گئی ۔‘‘
اتنا سُن کر بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے نے نعرہ مارتے ہوئے کہا کہ :’’ چلو اب اس کے کھیت اور کٹیا پر ہمارا قبضہ ہوجائے گا۔‘‘
لیکن یہ کیا براؤنی کے گھر سے خبر آئی کہ اُس کا دوسرا بچّہ بھی مرگیا ۔ تمام لوگ حیران رہ گئے کہ سنہری ہرن جو کہ ڈائن تھی وہ تو مر گئی پھر براؤنی کا بچّہ کیسے مرا؟
جنگل سے لگ کر ایک کارخانہ تھا جہاں سے زہریلا دھواں اور خراب پانی نکل کر جنگل کے چشمے میں مل جاتا تھا۔ اسی پانی کو جنگلی جانوروں کے بچّے پی لیتے تھے وہی ان کے مرنے کا سبب تھا۔ میکو خرگوش اور کھوکھو بندر براؤنی بھالو کو تسلی دینے لگے :’’ دیکھا تم نے تمہارے بھولے پن کا فائڈہ اٹھا کر ان لوگوں نے ایک بے گناہ ہرن پر غلط الزام بھی لگایااور اس کی جان بھی لے لی ، بے چاری سنہری ہرن کتنی سندر اورخوب صورت تھی۔ یہ سب بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کی سازش ہے وہ لومڑی کے کھیتوں اور کٹیا پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔‘‘
میکو خرگوش کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ اُسی رات سنہری ہرن کے کھیت میں بیٹھے بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّا جشن منارہے تھے۔ اچانک بنٹی لومڑی بُری طرح ڈر کر چلّانے لگی:’’ لکڑ بھگّا بابا! بھوت … بھوت…بچاؤ… بچاؤ !!‘ ‘
ان دونوں نے دیکھا کہ ایک سفید رنگ کی ہرن اُسی زمین پر یہاں سے وہاں بے تحاشہ دوڑ رہی ہے اور اُس کی سینگ پر آگ جل رہی ہے۔
میکو خرگوش اور کھوکھو بندر ایک جگہ چھپ کر سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ میکو خرگوش کے مشورے پر کھوکھو بندر نے سنہری ہرن کے جسم پر سفید رنگ پوت دیا تھا اور اس کے دونوں سینگوں پر موم بتّی جلا کر لگادی تھی اور اسے کہا تھا کہ جاکر تمہارے کھیت پر ان لوگوں سے تھورا فاصلے پر بے تحاشہ اِدھر اُدھر دوڑ لگاؤ۔
اوجھا لکڑ بھگّے کی ساری اوجھائی ہوگئی پھُر … لگا چلّانے :’’ ارے باپ رے… ارے باپ رے … کوئی ہے جو ہمیں اِس بھوت سے نجات دلائے … بچاؤ بچاؤ ۔‘‘
بنٹی لومڑی نے جب اوجھا لکڑ بھگّے کی یہ حالت دیکھی تو وہ لگی دھاڑیں مار مار کر رونے۔
میکو خرگوش ، کھوکھو بندر اور ان کے دوست نیٖل گائے، مور ،طوطا، بارہ سنگھاوغیرہ لگے زور زور سے چھپ کر چلّانے کہ :’’ سنہری ہرن کی آتما زمین پر لوٹ آئی ہے … اپنی موت کا بدلہ لینے… جھوٹوں کا پردہ فاش کرنے… اور بدمعاشوں کو سزادینے … بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کا خون چوسنے … ‘‘
بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے نے جب یہ آواز سُنی تو ڈر کے مارے بے ہوش ہوگئے ۔ میکو خرگوش اور کھوکھو بندر کے ساتھیوں نے دونوں کو رسیوں سے جکڑ لیا اور راجا شیر سنگھ کے دربار میں لے گئے اور وہاںان لوگوں کے دھوکے اور جھوٹ کی قلعی کھول دی۔
راجا شیر سنگھ کو جب اصلیت کا پتا چلا تو اس نے فیصلہ سنایا کہ:’’ آج رات بنٹی لومڑی اور اوجھا لکڑ بھگّے کو درخت سے باندھ کرزندہ جلایا جائے گا۔‘‘
براؤنی بھالو روتے ہوئے آگے بڑھا اور سنہری ہرن سے معافی مانگنے لگا۔ سنہری ہرن نے اسے معاف کردیا اور میکو خرگوش اور کھوکھو بندر کے گلے لگ کر رونے لگی ۔ اور کہتی جاتی کہ:’’ مَیں تم لوگوں کا شکریہ کیسے ادا کروں کہ تمہاری عقل مندی سے میری جان بچ گئی ، اور جھوٹے اور مکار لوگوں کو ان کے کیے کی سزا مل گئی۔


( نامعلوم)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:


بِٹّی

سات سال کی ننھی سی انشا لال رنگ کا فراک پہنے اِدھر اُدھر اِٹھلاتی پھر رہی تھی ۔ وہ دوڑ دوڑ کر کیاریوں کے پاس تتلیاں پکڑنے کی کوشش کررہی تھی، لیکن شوخ و چنچل تتلیاں تھیں کہ اُس کے ہاتھ ہی نہیں لگ رہی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کسی طرح کوئی تتلی ایک بار ہاتھ میں آجائے ، تو انھیں خوب پیار کروں گی۔ دیر تک ان کے ساتھ کھیلوں ، پیار بھری باتیں کروں اور پھر اڑادوں ۔ ننھے دل نے سوچا کاش! مَیں بھی اِن جیسی ہی ہوتی دور دراز ملکوں کی سیر کرتی ، آسمان میں اڑتی ۔ہاے! کتنے نرم و نازک سے چمکیلے ، خوب صورت اور رنگ برنگے پروں والی ہیں یہ تتلیاں ، وہ دل ہی دل میں کہتی۔ کچھ دیر تک وہ تتلیوں کے ساتھ بھاگتے بھاگتے تھک گئی تو آکر اپنے پیارے طوطے میاں کے پنجرے کے پاس بیٹھ گئی۔ چمکارتے ہوئے بولی:’’ کیا بات ہے طوطے میاں ؟تم کیوں اُداس ہو؟ کیا تمہارے ممّی پاپا بھی تمہیں اکیلا چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں؟ مَیں بھی تمہاری طرح بہت بور ہوجاتی ہوں ، آخر مَیں بھی کب تک بوڑھی ممانی کے ساتھ کھیلوں۔‘‘
انشا کی بات طوطے میاں کی سمجھ میں آئی یا نہیں انھوں نے پنجرے سے ٹیں ٹیں ٹیں بِٹّی بِٹّی پکارا، جیسے انشا کی تکلیف انھیں سمجھ میں آگئی ہو۔ انشا مسکرا اُٹھی۔ وہ بھاگ کر کچن روم میں گئی اور ڈھیر ساری ہری لال مرچیں لاکر پنجرے میں ڈال دی اور بولی:’’ کھالو طوطے میاں! تمہاری بِٹّی تمہارے لیے یہ مرچیں لائی ہے۔‘‘ طوطے میاں خوشی خوشی اپنی تیز چونچ سے مرچیں کتر کتر کر کھانے لگے۔ یہ دیکھ کر انشا کو بڑا اچھا لگا۔
انشا کو بھی اس وقت بھوک لگ رہی تھی۔ لیکن اُس کا کھانے کو من نہیں کررہا تھا۔ اُسے یاد آیا نوشین جو روز اپنی ممّی کے ہاتھ سے کھانا کھاتی ہے ۔انھیں کے پاس سوتی ہے ۔ اُس کے پاپا اُسے گھمانے لے جاتے ہیں ، لیکن میرے ممّی پاپا کے پاس تو میرے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ کئی بار جی میں آتا ہے کہ مَیں ضد کرکے اپنی بات پوری کراؤں ، لیکن اپنے ممّی پاپا سے مَیں بولنے کی ہمت ہی نہیں کرپاتی ۔
ننھی انشا ڈھیروں سوال اپنے دل میں لیے گھومتی رہتی۔ ایک بوڑھی ممانی ہی تھی جو اُس کے دکھ تکلیف کا خیال رکھتی تھی۔ اُس کے ممّی پاپا ممانی کواس کام کی تنخواہ دیتے تھے ۔
آج انشا کو تیز بخار تھا۔ پورا بدن بخار سے تپ رہا تھا۔ روتے روتے اُس کے آنسو گالوں پر ڈھلک کر آگئے اور ایک لکیر چھوڑ گئے۔ ممانی چاروں طرف میم صاحب ! میم صاحب! کی پکار لگارہی تھی ، ڈاکٹر کا موبائل نمبر یا فون نمبر انھیں پتا نہ تھا۔ اچانک کال بیل بجی۔ ممانی نے دوڑ کر دروازہ کھولا ۔ انشا کے ممّی پاپا دونوں دروازے پر کھڑے تھے۔ ممانی نے روتے روتے گھبراکر انشا کا سارا حال کہہ سنایا۔ ممّی پاپا دونوں بھاگ کر انشاکے پاس پہنچے ۔ وہ بے حال پڑی تھی۔ ساتھ ہی بولے جارہی تھی : ’’ ممّی پاپا! آپ لوگ مجھے پیار کیوں نہیں کرتے؟ مجھے کیوں اپنے ساتھ گھمانے نہیں لے جاتے؟ مجھے کیوں نہیں اپنے ساتھ کھلاتے اور اپنے پاس سلاتے؟‘‘
ننھی انشا کی یہ سب باتیں سن کر ممّی پاپا کو بہت شرمندگی ہوئی ۔ پاپا نے ڈاکٹر کو فون کرکے بلایا۔ ممّی نے اُسے گود میں لٹا لیا ۔ ڈاکٹر آیا دوا دی ۔ تھوڑی دیر میں انشا کا بخار اتر گیا۔ جب اُس کی آنکھیں کھلیں تو اُس نے اپنے آپ کو ممّی کی گود میں پایا۔ اُسے بہت خوشی ہوئی وہ ماں کے گلے لگ گئی۔
اُس کے پاپا نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ اب ساتھ میں گھومنے جائیں گے۔ آج سے انشا ہمارے ساتھ ہی سوئے گی۔ انشا کا خوشی کے مارے بُرا حال تھا ۔ وہ ماں کی گود سے اتر کر طوطے میاں کے پنجرے کے پاس گئی۔ اُس نے پنجرے کی کھڑکی کھول دی۔ طوطے میاں ٹیں ٹیں ٹیں کرتے بلندی کی طرف اڑ چلے اور دور سے بِٹّی بِٹّی پکارتے رہے ۔ انشا کھلکھلا کر ہنس پڑی، ممّی پاپا نے اسے گلے سے لگا لیا۔ ( آر۔ سیفی)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:


پِنکی اور آدم خور شیر

وڑ گاؤں نام کے ایک گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی۔ اس کا نام پِنکی تھاوہ بہت نیک تھی۔ ہر ایک کے کام آتی دوسروں کی مدد کرتی ۔ جانوروں ، پرندوں اوردرختوں سے اُسے بہت پیار تھا ۔اُ س گاؤں کے پاس سے ایک ندی بہتی تھی ، جس کا نام پوسی ندی تھا۔ پِنکی کو اِس ندی سے بڑا لگاوتھا۔ جب اسکول جاتی تو ندی کے کنارے کنارے چلتی ہوئی ندی کی کل کل بہتی موجوں، اُس میں اچھلتی کودتی مچھلیوں اور سفید سفید بگلوں کو دیکھ کر خوب خوش ہوتی۔ ندی کے دونوں جانب پھل دار درخت ماحول کی خوب صورتی اور ہریالی کو بڑھا رہے تھے۔ کبھی کبھی پِنکی ان درختوں کے پھلوں کو توڑ کر کھا بھی لیتی تھی۔ اسکول سے واپسی کے وقت وہ ندی کے سنسان کنارے پر کسی درخت کی کھوہ میں اپنا بستہ رکھ دیتی اور ندی کے صاف و شفاف اور ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منہ دھوتی ۔ اور اپنے خیالوں میں مگن ہوجاتی۔
ایک دن اسکول سے لوٹتے ہوئے روز کی طرح وہ ندی کے کنارے آہستہ آہستہ چل رہی تھی کہ اچانک اُس کو ہلکی سی آواز سنائی دی :’ ’ پِنکی ! مجھے بچاؤ۔‘‘اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا ندی کے کنارے کافی دور تک بڑھتی چلی گئی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک مچھلی ایک شاخ پرپھنسی ہوئی تھی۔ اُسی نے اسے آواز دی تھی۔ ندی میں کود پھاند کرتے ہوئے شاید و ہ شاخ میں پھنس گئی تھی۔
پِنکی نے فوراً مچھلی کو شاخ سے چھڑا کر اُسے دوبارہ پانی میںڈال دیا۔ پانی میں پہنچتے ہی مچھلی ایک سندر اور خوب صورت پری میں بدل گئی ۔ بالکل کہانیوں والی جل پری کی طرح دل کش۔ اُس نے پِنکی سے کہا:’’ بیٹی! تم نے میری جان بچائی ہے۔ اس کے بدلے میں مَیں تمہیں ایک طلسمی بول سکھادوں گی۔‘‘ اور اُس نے پِنکی کو طلسمی بول سکھا دیا کہ پِنکی اگرکسی کو دیکھ کر یہ کہہ گی کہ:’’ چپک جاؤ۔‘‘ تو فوراً اُس جاند ار کے ہاتھ پاؤں سب چپک جائیں گے۔ اور وہ جب ہی کھلیں گے جب پِنکی کہہ گی کہ :’’ کھل جاؤ۔‘‘ اِس کے بعد پری غائب ہوگئی ، اور پِنکی بھی اپنے گھر کی طرف چل پڑی ۔
راستے میں اُسے ایک بگلا دکھائی دیا ۔ جو ایک مینڈک کو پکڑنے ہی والا تھا ۔ پِنکی نے سوچا کہ پری نے جو طلسمی بول سکھایا ہے اُسے آزمانا چاہیے۔ تب ہی تو یہ معلوم ہوسکے گا کہ اُس پری نے صحیح کہا ہے یا نہیں؟ پِنکی نے بگلے کو دیکھ کرکہا کہ :’’ چپک جاؤ۔‘‘ فوراً ہی بگلے کی چونچ ، پیر اور پرایسے چپک گئے کہ وہ ساکت ہوگیا ۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر مینڈک وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ پری کے ذریعے سیکھے گئے طلسمی بول کو اس طرح کام کرتے دیکھ کر پِنکی بہت خوش ہوئی۔ اُس نے ’’کھل جاؤ‘‘کہہ کر بگلے کی چونچ ، پیر اور پر کو کھلوادیا۔ اور آگے بڑھ گئی ۔
آگے چل کر اُسے ایک کوا ملا جو کہ ایک گلہری کو کھانے جارہاتھا ۔پِنکی نے فوراً اُسے دیکھ کر کہا :’’ چپک جاؤ۔‘‘ کوے کے پیر اور پر آپس میں چپک گئے ۔ گلہری وہاں سے بھاگ گئی۔ دوبارہ پِنکی نے کہا کہ :’’ کھل جاؤ۔‘‘ کوا آزاد ہوگیا ۔ اس طرح پِنکی نے مینڈک اور گلہری کی جان بچاکر طلسمی بول کا تجربہ کیا۔
گاؤں میں پِنکی جیسے ہی داخل ہوئی تو اُس نے دیکھا کہ کالو کتّا شمّو کی بھوری بلّی کو پکڑنے کی کوشش کررہاہے ۔ فوراً پِنکی نے کہا:’’ چپک جاؤ۔‘‘ کتا وہیں چپک کر رہ گیا۔ جب بلّی وہاں سے بھاگ گئی تو دوبارہ پِنکی نے کہا:’’’کھل جاؤ۔‘‘ کتّا آزاد ہوگیا۔
اس طرح پِنکی نے پری کے ذریعہ بتائے گئے طلسمی بول سے کئی بے زبان جانوروں اور پرندوں کی جان بچائی ۔ اسے ایسا کرتے ہوئے بہت زیادہ خوشی حاصل ہورہی تھی۔ دھیرے دھیرے گاؤں میں پِنکی کے اس طلسمی بول کی خبر عام ہوگئی تو لوگ اُس سے ڈرنے لگے۔ لیکن پِنکی بہت اچھی لڑکی تھی ۔ا ُس نے اپنے اس طلسمی بول کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا۔
ایک دن اُس کے گاؤں کے پاس کے جنگل میں آدم خور شیر آگیا ۔اُس شیر نے آس پاس کے کئی آدمیوں کو مار کر کھالیا تھا ۔ اور خوب دہشت مچارکھی تھی۔ پِنکی کے گاؤں کے کچھ لوگ بھی اُس آدم خور شیر کا شکار ہوچکے تھے۔ آس پاس کے گاؤں اور وڑگاؤں کے لوگوں نے پِنکی سے کہا کہ وہ اُس شیر کو پکڑنے میں ہماری مدد کرے ۔
پِنکی تو تھی ہی سیدھی سادی اُس نے کہا چلو ابھی پکڑتے ہیں۔ یہ سُن کر گاؤں کے شکاری اور چند جوان پِنکی کو لیے کر جنگل کی طرف چل پڑے۔ بہت تلاش کرنے پر آخر ایک جگہ شیر کے قدموں کے نشانات دکھائی دیے ۔ ساتھ ہی تازہ خون کے دھبّے بھی دکھائی دئیے ایسا لگتاتھا کہ شیر نے پھر کسی آدمی کو شکار کیا ہے۔ تب ہی اچانک ایک جھاڑی کے پیچھے سے ان لوگوں کی طرف شیر دہاڑتے ہوئے لپکا ۔ اُسی وقت پِنکی نے فوراً اُس شیر کی طرف دیکھ کہا کہ :’’ چپک جاؤ۔‘‘ بس پھر کیا تھا شیر کی ابھی چھلانگ بھی پوری نہیں ہوپائی تھی وہ ہوا ہی میں تھا کہ اس کے پیر اور جبڑے آپس میں چپک گئے ۔ اور وہ دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔
یہ دیکھ کرگاؤں سے آئے ہوئے تمام لوگ آگے بڑھے اور شیر کومارنے کی کوشش کرنے لگے۔ پِنکی نے کہا کہ شیر اس وقت چپکا ہوا ہے کسی کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لیے اُسے رسیوں سے جکڑ کر قید کرلیا جائے اور وڑگاؤں لے جاکر سب کو بتادیا جائے تاکہ اِ س آدم خور شیر کا ڈر سب لوگوں کے دل سے نکل جائے۔
جب گاؤں کے تمام لوگوں نے شیر کو دیکھ لیا تو پِنکی نے چڑیا گھر فون کیا کہ وہ پنجرہ لے کر آئیں اور شیر کو لے جائیں ۔ چڑیا گھر کے ملازمین پنجرہ لے کر آئے اور شیر کو اس میں قید کرلیا ۔ تب پِنکی نے کہا :’’ کھل جاؤ۔‘‘ شیر کھل گیا مگر اُس نے اپنے آپ کو چڑیا گھر کے ملازمین کی قید میں دیکھ کر بہت دہاڑا ، چلایا ۔ لیکن اب وہ قید میں تھا ، جلدی سے پنجرہ جیپ میں رکھ کر اسے چڑیا گھر بھیج دیا گیا۔
سب لوگوں نے پِنکی کی دوسروں کی مدد کرنے کی عادت کی تعریف کرتے ہوئے اسے شاباشی دی۔ حکومت نے اُسے اچھے بچّے کا خطاب اور سونے کا تمغا انعام میں دیا ۔
( نامعلوم)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:
تم کون ہو؟

ایک بار راجا بھوج اور اس کے وزیرِ اعظم ماگھ جنگل میں شکار کھیلنے گئے۔ شکار کھیلتے کھیلتے جنگل میں دونوں بھٹک گئے۔ بھٹکتے ہوئے وہ چلے جارہے تھے کہ جنگل کے اندر انھیں ایک جھونپڑی دکھائی دی۔ اُس گھنے جنگل میں ایک جھونپڑی دیکھ کر ان دونوں کی ڈھارس بند ھ گئی کہ چلو جنگل سے نکلنے کا راستا اس جھونپڑی کے مکینوں سے معلوم ہوسکتا ہے۔ جب وہ دونوں جھونپڑی کے قریب پہنچے تو گھوڑوں کی ٹاپ سُن کر جھونپڑی سے ایک بوڑھی عورت باہر نکلی ۔
راجا نے بڑھیا سے پوچھا:’’ ماں! یہ راستا کہا جائے گا؟‘‘
بڑھیانے کہا:’’ یہ راستا تو یہیں رہے گا۔ اِس کے اوپر چلنے ولا ہی آگے یا پیچھے کہیں جائے گا۔ لیکن تم کون ہو؟‘‘
’’ہم تو مسافر ہیں۔‘‘اِس بار وزیرِ اعظم ماگھ بولے۔
’’ مسافر تو دو ہی ہیں ایک سورج دوسرا چاند۔ تم کون ہو۔‘‘ بڑھیا نے تسلی سے پوچھا ۔
’’ماں ! ہم تو مہمان ہیں۔‘‘ راجا بھوج نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
’’ مہمان تو دو ہی ہیں ۔ ایک دولت اور دوسری جوانی ، تم کون ہو؟‘‘ بڑھیا نے پھر ایک سوال داغ دیا۔
اِس بار دونوں ہی بڑھیا کا سوال سُن کر حیرت زدہ رہ گئے ۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد دونوں نے ایک ساتھ کہاکہ:’’ ہم تو ایک دوسرے کے کام آنے والے لوگ ہیں۔ ‘‘
’’ دوسروں کے کام آنے والے تو دو ہی ہیں ایک عورت، اور دوسرے زمین ، تم کیسے ایک دوسرے کے کام آتے ہو، تم کون ہو؟‘‘ اِس بار بڑھیا مسکراتے ہوئے بولی۔
’’ ارے مائی! ہم دونوں تو سادھو ہیں ۔‘‘ اب کی راجا بھوج نے جھلاتے ہوئے کہا تو وزیرِ اعظم ماگھ نے ان کا ہاتھ دبایا اور اشارے سے کہا کہ غصہ مت کرو۔
بڑھیا نے جب راجا کو اس طرح جھلاتے ہوئے دیکھا تو اسے بڑا لطف محسوس ہوا ۔ اُس نے پھرکہنا شروع کیا کہ:’’ سادھو تو دو ہی ہیں ایک سچائی اور دوسرے بہادری ۔ تم کون ہو؟‘‘
ماگھ وزیر نے کہا:’’ بوڑھی ماں! ہم پردیسی ہیں؟‘‘
یہ سُن کر بڑھیا کی مسکراہٹ میں اضافہ ہوا اور اس نے کہا: ’’ پردیسی دو ہی ہوتے ہیں ایک جان اور دوسرے درخت کے پتے۔ تم کون ہو؟‘‘
اب راجا بھوج اور وزیرِ اعظم ماگھ کو بڑھیا کی باتیں سُن کر جھلاہٹ نہیں ہوئی بل کہ ان کو بڑھیا کی حاضر جوابی بہت پسند آئی۔ اس کے بعد راجا، وزیرِ اعظم اور بڑھیا کے درمیان اور بھی ایسے کئی سوال و جواب ہوئے ۔ آخر میں راجا بھوج اور وزیرِ اعظم ماگھ نے ہار مان لی اور کہاکہ :’’ مائی! یہ اس ملک کے راجا اور مَیں اُن کا وزیر ہوں ۔ ہم دونوں شکار کھیلتے ہوئے راستا بھٹک گئے ہیں ہم کو محل واپس جانا ہے۔ ‘‘ بڑھیا یہ سُن کر بہت خوش ہوئی اُس نے دونوں کو دودھ پلایا اور خوب آو بھگت کی۔ اور انھیں راستا سمجھانے لگی تو راجا بھوج نے کہا کہ تم بھی ہمارے ساتھ محل چلو گی اور آج سے ہماری کابینہ کی مشیرِ خاص رہوگی۔ اس طرح بڑھیا کی رہِ نمائی میں راجا بھوج اور ویرِ اعظم ماگھ گھنے جنگل سے اپنے محل واپس لوٹے۔

(نانی ماں سے سُنی ہوئی کہانی پر منحصر تفریحی کہانی ۔ سنگیتا سیٹھی)


:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:


جادوگربن گیا بندر

اسلم، اکرم، نشا اور لالو چاروں آپس میں بہت گہرے دوست تھے۔وہ سب مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دن ان کے شہر میں ایک جادوگر آیا۔ اس جادوگر نے اپنے تھیلے سے ایک چھوٹا سا بندر نکالا ۔ اس چھوٹے سے بندر کے بچّے نے جادوگر کے کہنے پر خوب اچھا کرتب دکھلایا۔ اُس کے بعد جادوگر نے پھر سے بندر کو تھیلے میںبند کردیا۔ اسلم، اکرم، نشا اور لالونے دیکھا کہ بندر جب باہر تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت زیادہ اُداس ہے اور اس نے جو بھی کرتب بتائے جیسے وہ جادوگر کے ڈر سے زبردستی کررہا ہو۔
لالو نے تھیلے کے قریب جاکر پوچھا:’’ بندر بندر ! تم اتنے اُداس کیوں ہو؟‘‘ اس پر بندر نے خاموشی سے کہا:’’ اس طرح رسّیوں سے بندھے ہوئے تھیلے میں رہ کر بھلا کوئی خوش رہ سکتا ہے؟‘‘ سب بچّوں کی آنکھوں میں بندر کی اُداسی اور اس طرح اس کا قید میں رہنا دیکھ کر آنسو بھر آئے ۔ جادوگر لوگوں سے کرتب دکھانے کا پیسہ جمع کرنے میں مصروف تھا ۔ لالو نے موقع غنیمت جان کر تھیلے کی رسّی کھول دی ۔ اس طرح بندر آزاد ہوگیا۔ اور وہاں سے چھلانگ لگاتا ہوا دور جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
جب جادوگر نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔ اُس نے اپنی جادو کی چھڑی اٹھائی اور لالو کے سر پر لگائی دیکھتے ہی دیکھتے لالو بندر میں بدل گیا۔
سب بچّوں نے جب اپنے ایک دوست کو بندر بنا ہوا دیکھا تووہ بھی آپے سے باہر ہوگئے ۔ اور بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ لالو کو اِس جادو سے نجات دلانے کے لیے مشورہ کرنے لگے۔ اسلم جو اُن چاروں میں بڑا اور عقل مند تھا اس نے کہا جادوگر کو سبق سکھانے کے لیے طاقت نہیں بل کہ عقل سے کام لینا پڑے گا۔
انھوں نے روتے ہوئے جادوگر سے التجا کی کہ وہ ہمارے دوست لالو کو دوبارہ انسان میں بدل دو۔ لیکن ظالم جادوگر زور زور سے قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ :’’ جب تک تم لوگ میرا بندر واپس نہیں کرو گے مَیں تب تک تمہارے دوست کو بھی واپس نہیں کروں گا۔‘‘
اسلم، اکرم اور نشا جنگل کی طرف روانہ ہوئے ۔ جیسے ہی وہ جنگل میں پہنچے تو انھیں وہ بندر دکھائی دیا۔ بندر کے بچّے نے ان لوگوں کو پہچان لیا اور اپنے ماں باپ سے سارا ماجرا کہہ سنایا کہ اِن بچّوں نے اس کو جادوگر کی قید سے چھڑایا ہے ۔ بندر نے پوچھا :’’ دوستو! تم چار تھے ، جس نے مجھے قید سے آزاد کیا تھا وہ کہاں ہے؟‘‘
تب تینوں نے کہا کہ :’’ جادوگر نے اُسے اپنی جادو ئی چھڑی سے بندر بنادیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک ہم تمہیں پکڑ کر اس کے حوالے نہیں کریں گے تب تک وہ لالو کو دوبار ہ انسان میں نہیں بدلے گا۔‘‘
یہ باتیں سُن کر بندر کے ماں باپ نے کہا :’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، چلو ہم راج کماری مورنی کے پاس چلتے ہیں وہ ضرور اس کا کوئی حل بتائیں گی۔‘‘
وہ سب راج کماری مورنی کے گھر پہنچے اور سارا ماجراکہہ سنایا ۔ مورنی نے کہا :’’ بچّو! مجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم نے ہمارے جنگل کے ایک جانور کو ظالم جادوگر کی قید سے آزاد کرایا ۔ مَیں تمہیں ایک طلسمی پنکھ دیتی ہوں ، اس پنکھ کی یہ خاصیت ہے کہ یہ جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اُس پر کوئی بھی جادو اثر نہیں کرتا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے راج کماری مورنی نے طلسمی پنکھ اسلم کو دیتے ہوئے کہا کہ :’’ بہادر بچّے! یہ پنکھ اپنے پاس رکھنا اور اس جادوگر سے جادوئی چھڑی چھین کر اُس کے سر پر لگادینا بس وہ فوراً بندر بن جائے گا اور پھر تمہارے دوست لالو جسے جادوگر نے بندر بنادیا ہے اس کے سر پر لگادینا وہ دوبارہ انسان میں بدل جائے گا۔‘‘
بچّوں نے راج کماری مورنی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی شام ہونے میں کافی دیر تھی ۔ بچّوں نے فوراً جادوگر کے پڑاو کی طرف رُخ کیا اورکہا کہ ہمارے دوست لالو کو انسان میں بدل دو ورنہ ہم سے مقابلے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ جادوگر نے غصے سے کہا جب تک تم میرا بندر واپس نہیں کردیتے مَیں تمہارے دوست کو بندر ہی بنائے رکھوں گا۔ بچّوں نے اشاروں ہی اشاروں میں کچھ بات کی اور تھوڑا دور ہٹ گئے ۔
تھوڑی دیربعداسلم نے راج کماری مورنی کا دیا ہواطلسمی پنکھ ہاتھوں میں لے کر جادوگرکومقابلے کے لیے للکارا ۔ جادوگر نے اپنی جادوئی چھڑی اس کے سر پر لگائی ، لیکن اسلم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ جادوگر نے جب اپنی جادوئی چھڑی کاوار خالی دیکھا تو مزید غصے سے لال پیلا ہوگیا اب وہ بجاے اسلم کے اکر م اور نشا کی طرف بڑھنے لگا۔
اسلم نے بڑی پھرتی سے اسے زور کا دھکا دے کر گرا دیا ۔اس کی چھڑی دور بالکل اکرم کے پیروں کے پاس جاگری ۔ اکرم نے جلدی سے چھڑی اٹھائی اور اسلم کو دے دی۔ جادوگر تیزی سے اسلم کو مارنے اور اس سے جادوئی چھڑی چھیننے کے لیے جھپٹا ۔اس سے پہلے کہ وہ اسلم کو کچھ نقصان پہنچاتا ۔ پیچھے سے اکرم اور نشا نے ایسی زور کی لات رسید کی کہ اسے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ وہ بُری طرح بوکھلا اٹھا ۔ تب ہی اسلم تیزی سے آگے بڑھا اور جادوگر کے سر پر جادوئی چھڑی لگادی ، دیکھتے ہی دیکھتے جادوگر بندر بن گیا۔ تینوں نے زور زور سے تالی بجائی اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بندر بن گئے جادوگر کو رسیوں سے بُری طرح جکڑ لیا۔
پھر اسلم نے بندر بنے لالو کے سر پر جیسے ہی چھڑی لگائی ، لالو پھر سے ان کے سامنے موجود تھا۔ سب ہی بچّے لالو سے گلے ملے اور زور زور سے کھلکھلاکرہنس پڑے۔
بندر بنے جادوگر کو ایک درخت سے باندھ دیا اور دوسرے دن جنگل میں اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے جہاں جنگلی جانوروں نے اُس کی خوب پٹائی کی ، آخر میں بچّوں نے جادوئی چھڑی کو آگ میں ڈال کر جلا دیا۔
( آلوک گپتا)


:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:


نانی ماں نے جان بچائی

بہت پہلے کی بات ہے کہ ایک گاؤں میں ایک بوڑھی عورت اور اس کی عقل مند ، شوخ اور چنچل نواسی ایک ساتھ رہتے تھے۔بوڑھی عورت کو سب گاؤں والے نانی ماں کہتے تھے اور اس کی نواسی کو شیتل کہہ کر پکارتے تھے۔ نانی ماں کی بیٹی اور داماد ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھے تھے ، تب ہی سے اُن کی نواسی شیتل اُن کے پاس رہ رہی تھی۔ وہ دونوں اپنا پیٹ پالنے اور گھر چلانے کے لیے دن بھرسخت محنت مزدوری کرتے اور شام کو روکھا سوکھا کھا پی کر سوجاتے تھے۔ سب ہی گاؤں والے اُن کی محنت ، خوش مزاجی او ر عقل مندی کی تعریف کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر شیتل کی باتوں اور اس کی عادتوں کا تو سبھی گن گاتے تھے۔
نانی ماں کے بیٹے ، بہوئیں ، پوتے اور پوتیاں قریب کے ایک بڑے شہر میں رہتے تھے۔ انھیں ماں کا کوئی بھی خیال نہ تھا۔ لیکن ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ اس سال گرمیوں کے دن تھے نانی ماں کو اپنے بیٹوں ، بہووں اور پوتے پوتیوں کی یاد ستانے لگی۔ اس نے اپنی نواسی شیتل کو جب یہ بات بتائی تو اُس نے کہا :’’ نانی ماں! چلو مَیں تیاری کروادیتی ہوںکل ہی یہاں سے روانہ ہوجانا اور تمہارا جتنا دن چاہے ماموں ممانی کے گھر رہ کر واپس آجانا۔‘‘
نانی ماں نے یہ سُن کر کہا :’’ بیٹی! تم نہیں چلو گی؟‘‘ عقل مند اور خوش مزاج شیتل نے کہا :’’ نانی ماں جن بیٹوں کو ماں کاخیال نہیں ان کے پاس جاکر مَیں کیاکروں گی مَیں تو اُن کی بھانجی ہوں۔ کہیں میری ممانیوں کو میرا جانا پسند نہ آئے ۔ نانی ماں تم چلی جانا۔‘‘
نانی ماں نے اپنی پیاری نواسی کی اس عقل مندی والی باتوں پر بیٹوں سے ملنے کااردہ ترک کرنا چاہا لیکن شیتل نے انھیں منع کردیا ۔
اس طرح دوسرے روز صبح نانی ماں جب روانہ ہونے لگی تو شیتل نے کہا:’’ جنگل میں بھیڑیا ہے ذرا سنبھل کر جانا۔‘‘ نانی ماں نے ہاں ہاں ! کہتے ہوئے سامان کی پوٹلی سر پر رکھی اور وہاں سے روانہ ہوگئی ۔جب نانی ماں جانے لگی تو شیتل انھیں دور تک چھوڑنے آئی ۔
ابھی وہ جنگل میں تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ ایک خوف ناک بھیڑیا اس کے سامنے آگیااور بولا:’’ بڑھیا بڑھیا ! مَیں تجھے کھاجاؤں گا۔‘‘ نانی ماں ڈر گئی اور روتے ہوئے بولی:’’ بیٹا!مَیں اپنے بیٹے سے ملنے شہر جارہی ہوں ، مجھے جانے دے جب مَیں واپس آؤں گی تو مجھے کھالینا۔ ‘‘
نانی ماں کے رونے پر بھیڑیا مان گیا۔ اور کہا:’’ تو جب واپس آئے گی تو مَیں تجھے ضرور کھاؤں گا۔‘‘ … ’’ ٹھیک ہے۔‘‘ کہہ کر نانی ماں وہاں سے چل پڑی شہر کی طرف۔
بیٹے کے گھر پہنچ کر وہ بہت خوش ہوئی ۔ بیٹوں اور بہووں نے جب ماں کو دیکھا تو پوچھا ماں کب تم آئے اور کب جاؤگی؟‘‘نانی ماں نے کہا:’’ بیٹا ! ابھی تو آئی ہوں اور جانے کے بارے میں پوچھنے لگے۔‘‘نانی ماں کو دکھ ہوا اس نے کہا :’’ آج رہ کر کل ہی چلی جاؤں گی۔‘‘
پوتے پوتیوں نے جب یہ سنا تو کہا کہ :’’ ہم اس طرح دادای ماں کو جانے نہیں دیں گے بل کہ دادای ماں اب ہمارے ہی یہاں رہیں گی۔ ‘‘ نانی ماں کو پوتے پوتیوں کایہ رویہ بہت پسند آیااُس نے ان کو دل سے دعائیں دیں ۔ وہ جب تک وہاں رہیں ان کو کہانیاں سناتیں اور وہ اپنی دادی کی خوب آو بھگت کرتے۔اس طرح ایک ہفتہ گذر گیا۔
نانی ماں کو ایسا لگا کہ اس کا یہاں رہنا اپنے بیٹوں اور بہووں کو ناگوار گذررہا ہے تو اس نے دوسرے ہی روز اپنے گاؤں جانے کا فیصلہ کرلیا۔
نانی ماں اپنے گاؤں جانے کے لیے جب تیار ہوئیں تو انھوں نے اپنے پوتوں اور پوتیوں سے جنگل میں بھیڑیے کے ملنے کی بات کہی تو ان بچّوں نے کہا: ’’ دادی ماں ! پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔تم اپنے پیٹ پر راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی ایک بوری باندھ لینا اور جب بھیڑیے سے سامنا ہوتو اپنا پیٹ سامنے کردینا ۔‘‘
نانی ماں نے اپنے پوتوں اور پوتیوں کا کہنا مانااور اپنے پیٹ کر راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی بوری باندھ لی اور جنگل کے راستے اپنے گاؤں کو روانہ ہوگئی ۔ نانی ماں کے پوتے اور پوتی اپنی دادی کو دور تک چھوڑنے کے لیے آئے ، ان کے آنسو نکل رہے تھے، جب تک نانی ماں ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی تب تک وہ سب شہر کی سڑک کے کنارے ہاتھ ہلاتے کھڑے رہے۔
جب نانی ماں جنگل میں پہنچی تو پہلے بھیڑیے ہی سے سامنا ہوگیا جیسے بھیڑیا نانی ماں کا انتظار ہی کررہا تھا۔ بھیڑیا سامنے آیا اور بولا:’’ بڑھیا ! اب تو ہی بتا مَیں تجھے پہلے کہاں سے کھاؤں؟‘‘
نانی ماں بولی:’’ بیٹے! منہ تو میرا پتلا ہے… ہاتھ میرے ہڈی ہیں … پاؤں میرے گلے ہوئے ہیں … موٹا اور تگڑا صرف میرا پیٹ ہی ہے ، اس لیے تُو پہلے اسی کو کھا ۔‘‘ بھیڑیے نے دیکھا سچ مچ نانی ماں کی توند بہت موٹی ، تگڑی اور تازی لگ رہی تھی۔ فوراً وہ لپکا اور نانی ماں کے بیٹ پر اپنے نوکیلے دانت گاڑ دیے ۔ لیکن یہ کیا ؟ جیسے ہی اُس نے دانت گاڑے نانی ماں کے پیٹ پر بندی ہوئی راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری بوری پھٹ گئی اور اس کی راکھ اور کانچ اُڑ کر بھیڑیے کی آنکھوں میں گھس گئی ۔ اس طرح بھیڑیے کی آنکھ میں خوب زور کا درد ہونے لگا۔ وہ کراہتے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔ بھیڑیے کی اس حالت کودیکھ کرنانی ماں نے اپنے پوتے پوتیوں کی ذہانت کی داد دی اور ان کو دعائیں دیتے تو ہوئے جلدی جلدی جان بچا کرجنگل پار کرنے لگی۔ اور شام تک اپنے گھر پہنچ گئی ۔ جہاں شیتل اس کے لیے بے تاب دوازے پر ہی بیٹھی تھی ، وہ اٹھی اور نانی ماں کی بانہوں میں جھولنے لگی۔

( نامعلوم)

:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:

تین دوست

چیں چوبلی اور توتو کتا مل کر کھیل رہے تھے۔ چیں چو نے توتو کو دھکا مارا۔ توتو گر پڑا۔ چیں چو تالی بجانے لگی۔ ’’ گرا دیا ، … گرادیا …‘‘
تو تو اٹھ گیا۔ اس پر تھوڑی مٹّی لگ گئی تھی ۔ اس نے مٹّی جھاڑی اور چیں چو سے بولا:’’ مَیں گراؤں تو کہنا مت کہ گرا دیا۔‘‘ ایسا دھکا ماروں گا کہ تم لڑھکتی چلی جاؤ گی۔‘‘
’’ تم گرا ہی نہیں سکتے۔‘‘ چیں چو ہنسنے لگی۔
’’اچھا۔‘‘……’’ہاں!‘‘
’’ تو تیار ہوجاؤ۔‘‘……چیں چو پنجے گڑا کر کھڑی ہوگئی ۔
توتو جانتا تھا کہ چیں چو پنجے گڑا کر کھڑی ہوجائے گی اور وہ اسے گرانہیںپائے گا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس آیا اور دھکا مارا ۔ چیں چو ذرا سی ڈگمگا کر رہ گئی۔
تم میں توبہت طاقت ہے ۔ مَیں سچ مچ تم کو نہیں گرا پایا۔‘‘ توتو بولا۔
’’مَیں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا ۔‘‘ اتنا کہہ کر چیں چو آرام سے کھڑی ہوگئی۔ توتو ہوشیاری سے یہ سب دیکھ رہا تھا ۔ وہ ذرا سا پیچھے ہٹا اور تیزی سے آکر ایک دھکا مارا۔ چیں چو زور سے لڑھک کر زمین پر گر گئی۔ اب تالی بجانے کی باری توتوکی تھی وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔
چیں چو اور تو تو دونوں بہت کھلنڈرے تھے وہ دونوں اس وقت مذاق ہی تو کررہے تھے۔ چیں چو کھڑی ہوگئی ۔ اس نے بھی اپنے جسم پر لگی دھول مٹّی جھاڑی اور بولی :’’ ایسادھکا دینے سے کیا ہوتا ہے ؟ ذرا پہلے ہی بول کر دیتے تو سمجھ میں آتا مجھے نہیں گرا سکتے تھے۔‘‘
توتو کچھ نہیں بولا اور ہنستا رہا ۔
اس کے بعد توتو کہیں سے گیند اٹھا لایا ۔ دونوں کچھ دیر گیند سے کھیلتے رہے۔
شام ہورہی تھی ۔ توتو بولا:’’ چیں چو! اب مَیں گھر جاؤں گا۔ آج تو کھیلتے کھیلتے تھک گیا ہوں ۔ ماں انتظار کررہی ہوگی ۔ آج وہ کچھ دیر بعد مجھے کہیں گھمانے لے جائیں گی۔‘‘
’’ تو جلدی جاؤ!‘‘ چیں چو بولی ۔ ’ مَیں بھی تھک گئی ہوں ۔لیکن کل مجھے ضرور بتانا کہ تم کہاں گھومنے گئے تھے۔ ‘‘ وہ پھر بولی۔ ’’ کل میری ماں مجھے کچھ نئی چیز کھانے کو دینے والی ہیں مگر مجھے بتایا نہیں ہے۔ دیکھیں کیا دیتی ہیں؟ ‘‘
تو تو اپنے گھر چل دیا اور چیں چو اپنے گھر۔ دونوں کو الگ الگ سمت جانا تھا۔
جب چیں چو اپنے گھر جارہی تھی۔ راستے میں پھدکو بندر ملا ۔ وہ درخت کی ایک شاخ پر بیٹھا تھا۔ چیں چوکو دیکھتے ہی شاخ پر سے بولا:’’ کھو کھو… کھوکھو۔‘‘
چیں چوں سمجھ گئی کہ یہ پھدکو بندر ہے۔
’’ ارے بھئی! کیا حال ہے؟ نیچے تو آؤ۔ ‘‘ چیں چو بولی۔ ’’ کچھ کہنا ہے کیا؟‘‘
’’ کہنا تو ہے لیکن نہیں کہوں گا۔ آج کل تو تم توتو کے ساتھ زیادہ کھیلتی ہو۔ مَیں تو درخت کی شاخ پر اکیلا بیٹھا رہتا ہوں ،تم کو تو میرا خیال ہی نہیں رہتا۔‘‘ پھدکو نے شکایت کی ۔
’’ تو تم بھی کھیلا کرو ہمارے ساتھ ، بڑے برگد کے پاس آجایا کرو ۔ وہیں توتو آتا ہے ہم تینوں مل جُل کر کھیلا کریں گے۔ ‘‘ چیں چو نے دوستا نہ انداز میں کہا۔
’’ہاہا… ہاہا… ہاہا ‘‘ پھدکو زور سے ہنسا اور کہنے لگا: ’’ مَیں تو - توتو کے ساتھ نہیں کھیلوں گا ۔ نہ جانے کب وہ مجھے کاٹ لے ؟ جب وہ بھونکتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے بادل گرج رہا ہو۔ مجھے تو اُس سے بہت ڈر لگتا ہے ۔‘‘
’’ تم بے کار میں توتو سے ڈر رہے ہو۔‘‘ چیں چو بولی۔
’’ مَیں بے کار میں نہیں ڈررہا ہوں ۔ بل کہ صحیح معنوں میں ڈررہاہوں ۔‘‘ پھدکو نے کہا۔اور پھر سرگوشی کے انداز میں چیں چو کو بولنے لگا کہ :’’ مَیں تو کہوں گا کہ اب تم بھی اُس کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دو ۔ نہیں تو وہ کسی دن تمہیں بھی ضرور دھوکا دے گا ۔ اور تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھاجائے گایا تمہادی دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے ۔ ‘‘
’’ یہ سب سراسر غلط ہے ۔‘‘ چیں چو بولی۔
’’ غلط بات نہیں ہے۔ ‘‘ پھدکو نے بات کاٹی اور آگے بولا:’’ کیا بلی اور کتے کی کبھی دوستی رہ سکتی ہے ۔ بلی کتے کو دیکھ کر ہمیشہ ڈرتی رہی ہے ۔ کوئی وجہ ہوگی تب ہی تو بلی کتے سے ڈرتی ہے ۔ مَیں نے تمہاری بھلائی کے لیے یہ نصیحت کی ہے اب تمہاری مرضی تمہیں اس کے ساتھ کھیلنا ہے کھیلو یا مت کھیلو۔ لیکن یاد رکھنا وہ ضرور کسی دن تمہیں دھوکا دے گا ۔‘‘ پھدکو نے پھر سے یہ بات دہرائی کہ :’’وہ تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھاجائے گایا تمہادی دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے ۔ ‘‘
’’ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ بلی اور کتے کی کبھی نہیں نبھتی لیکن یہ سب کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے ، ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست ہیں ۔‘‘ چیں چو نے پھدکو سے کہا۔
’’اچھا! دوسری مثال بھی سنو۔‘‘ پھدکو بولا:’’ شیر اور ہرن میں کبھی دوستی نہیں سنی گئی ۔ جب بھی شیر ہرن کو دیکھتا ہے ، وہ اس کو مارنے دوڑتا ہے ۔ اگر پکڑ لیتا ہے تو وہ ہرن کو مار ہی ڈالتا ہے ۔ اس لیے شیر ہرن کو دیکھ کر بھاگتی ہے۔ اسی طرح بلی اور کتے کا معاملہ ہے۔‘‘
’’ مَیں تمہاری اس بات سے اختلاف نہیں کرتی ۔‘‘ چیں چو نے کہا۔اور بولی :’’ بل کہ مَیں ایک مثال اور دیتی ہوں ، وہ بھی کسی دوسرے کی نہیں خود اپنی یعنی بلی اور چوہے کی ۔ بلی چوہے کی دشمن ہے ، وہ جہاں کہیں چوہے کو دیکھتی ہے اس کو مارڈالتی ہے ۔ لیکن کہیں بلی اور چوہے کی دوستی ہوئی ہے؟ میری اور توتو کی دوستی کی بات الگ ہے۔‘‘
’’ مَیں نے جو سمجھا وہ تمہیں بتادیا۔‘‘ پھدکو بولا۔’’ تم میری اچھی دوست ہو ۔اس لیے تم کو بتادیا ، نصیحت کردی ، اب تمہاری مرضی تم میری بات مانو یا نہ مانو ، لیکن یاد رکھنا وہ ضرور کسی دن تمہیں دھوکا دے گا ۔‘‘ پھدکو نے پر سے یہ بات دہرائی کہ :’’وہ تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھاجائے گایا تمہادی دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے ۔ ‘‘
چیں چو کو پھدکو کی یہ باتیں اچھی نہیں لگیں۔ یہ تو کسی کی برائی بیان کرنا ہوا ، غیبت کرنا ہوا ۔ برائی اور غیبت تو دشمن کی بھی نہیں کرنی چاہیے ۔ غیبت کرنا یا کسی کی دوستی کو توڑنا یا کسی میں جھگڑا لگوادینا اچھی بات نہیں ہے بل کہ یہ تو سب سے بڑا دھوکا ہے ۔ اُس نے یہ باتیں پھدکو سے نہ کہی بل کہ من ہی من میں سوچتے ہوئے چپ چاپ اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی۔
چیں چو اور توتو ہمیشہ کی طرح کھیلتے رہے ، ہنستے بولتے ، گاتے رہے ۔ چیں چو روز پھدکو کو کھیلنے کے لیے بلاتی رہی لیکن وہ باربار بلانے کے باوجود بھی کبھی ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے نہیں آیا۔ وہ یہی کہتا رہا کہ توتو اُسے کاٹ لے گا ، وہ مجھے پسند نہیں ہے ۔ بل کہ وہ چیں چو سے اکثر کہتا کہ :’’ وہ کسی دن تمہیں دھوکا دے سکتا ہے وہ تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھاجائے گایا تمہادی دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے ۔ ‘‘
وقت گذرتا رہا کہ ایک دن جھاڑی کے قریب سے چند لڑکے جارہے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں غلیلیں تھیں ، وہ صورت شکل سے ہی بڑے شرارتی لگ رہے تھے۔ چیں چو اور توتو جہاں کھیل رہے تھے وہ لڑکے وہیں سے گذرے تھے۔ اُن میں سے ایک نے کہا:’’ میرا نشانہ ایسا پکا ہے کہ جس کو غلیل ماروں وہ بچ ہی نہیں سکتا ۔ مَیں اڑتے ہوئے پرندے کا بھی نشانہ لگا سکتا ہوں۔‘‘
’’ تو چلیں بندر کو غلیل ماریں۔‘‘ ایک لڑکے نے کہا۔’’ وہ دیکھو ! بندر شاخ پر بیٹھا ہے۔‘‘
’’ ہاں دیکھیں! کس کا نشانہ صحیح بیٹھتا ہے؟‘‘ ایک دوسرے لڑکے نے کہا۔
اُن لڑکوں کی باتیں چیں چو نے بھی سنا اور توتو نے بھی ۔ توتو بولا:’’ چیں چو! تم یہیں رہو۔ مَیں اِن لڑکوں کے ساتھ ساتھ جاتا ہوں۔ یہ جیسے ہی غلیل چلانے جائیں گے۔ مَیں اتنی زور سے بھونکوں گا کہ یہ ڈر کر بھاگ جائیں گے۔ اپنی بھوں بھوں سے مَیں انھیں ایسا ڈراؤں گا کہ پھر کبھی بھی وہ ادھر آنے کی ہمت نہیں کریں گے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے، لیکن مَیں بھی آتی ہوں ۔ تم جا کر اُن لڑکوں کو ڈراؤ۔‘‘ چیں چو نے کہا۔
لڑکے جلدی سے درخت کے پاس پہنچے ۔ ایک لڑکے نے کہا :’’دیکھومیرا نشانہ کتنا صحیح ہے مَیں غلیل چلاؤں گا تو میرا ڈھیلا سیدھا بندر کے سر پر لگے گا۔ ‘‘
توتو کے قریب آکر چیں چو بھی کھڑی ہوگئی۔ پھدکو بندر درخت پر سے دیکھ رہا تھا کہ ایک لڑکا اس کو غلیل مارنے والاہے۔ اُس نے سوچ لیا کہ جیسے ہی وہ لڑکا غلیل چلائے گاوہ چھلانگ لگاکر دوسری شاخ پر چلا جائے گا۔
لڑکے نے جیسے ہی غلیل سے نشانہ لگایا ۔ توتو نے ایسی زور سے بھوں بھوں بھونکا کہ وہ بُری طرح ڈر گئے اور غلیل وہیں پھینک کر نو دو گیارہ ہوگئے۔ پھدکو نے دیکھا کہ لڑکے ڈر کر وہاں سے بھاگ گئے اور اس نے یہ بھی دیکھا کہ ان کو توتو نے ڈراکر بھگایا ہے۔
اب پھدکو بڑا شرمندہ ہوا۔ کہیں ڈھیلا اسے لگ جاتا تو؟ توتو نے شرارتی لڑکوں کو بھگا کر اُس پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔
پھدکو شاخ سے کود کر نیچے آیا اور توتو سے بولا:’’ بھیا! مجھے معاف کردینا ۔‘‘
’’کس بات کے لیے ؟‘‘ توتو نے انجان بن کر پوچھا ۔ ’’ کیا چیں چو دیدی نے تمہیں کچھ نہیں بتایا؟‘‘ پھدکو نے کہا۔
’’ نہیں مجھے تو کچھ نہیں معلوم ۔‘‘ توتو بولااور چیں چو سے پوچھا:’’ کیا بات ہے چیں چو؟‘‘
’’ کچھ نہیں کوئی بات نہیں ہے ۔‘‘ چیں چو بولی۔ وہ توتو کو کچھ بتانا نہیں چاہتی تھی کہ کہیں پھدکو اور توتو میں دراڑ پڑ جائے۔
اب پھدکو خود ہی بولا :’’ مَیں نے ایک دن چیں چو سے کہا تھا کہ توتو تمہیں کسی دن دھوکا دے گا ، اُس کا ساتھ چھوڑ دو۔‘‘
توتو ہنسا :’’ بس اتنی سی بات ، اس کے لیے معافی مت مانگو ۔ تمہارے دل میں شک تھاسو وہ آج دور ہوگیا۔ ہم تینوں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
توتوکتے نے نے پھدکو بندر کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ پھدکو بندر کا ہاتھ چیں چو بلی نے پکڑ لیا اور تینوں کہتے جارہے تھے ہم تینوں دوست ہیں۔ (سی۔ ر۔ پرساد)


:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose:
 
Top