صدقہ جاریہ
از نذیر انبالوی ،ماہنامہ پھول دسمبر 2009
"کوئی ہے جو مجھے بچائے ۔۔۔ بچاو ۔۔ بچاو"
عباس اور شہزاد کے کانوں میں یہ آواز پڑ رہی تھی۔
کون ہے جو مدد کے لئے پکار رہا ہے؟ عباس بولا۔
یہ آواز تو اس درخت سے آ رہی ہے ۔ شہزاد نے کہا۔
درخت سے آواز آرہی ہے۔
وہ دیکھو ایک بچہ درخت کی شاخوں کو توڑ رہا ہے ، آو اس کو منع کرتے ہیں۔
درخت کی شاخوں کو مت توڑو ۔ عباس نے بچے کے پاس جا کر کہا۔
یہ سن کر بچے نے درخت کی شاخ کو چھوڑ دیا۔
دیکھو درختوں کی شاخوں کو اس طرح توڑنا ٹھیک نہیں۔ درخت ہمارے دوست ہیں۔
ان کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ شہزاد نے بچے کو سمجھایا تو وہ بولا
میں آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔
آو مل کر کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو صدقہ جاریہ ہو۔ رضا نے اپنے دوستوںکو مخاطب کیا۔
ایسا کون سا کام ہو سکتا ہے؟ ذیشان نے سوال کیا۔
ایسا ایک کام میں جانتا ہوں ، یہ کام ہم آسانی سے کر سکتے ہیں۔ رضا نے کہا۔
وہ کام کیا ہے؟ اکبر نے پوچھا
آو میں تمہیں بتاتا ہوں۔ رضا بولا۔
درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے ، میں نے اپنے حصے کا پودا لگا دیا ہے ، آپ لوگ بھی یہ ایک کام ضرور کریں۔
اکبر اور ذیشان کو اپنے سوالوں کا جواب مل گیا تھا۔
لو بھئی میں بھی اپنے حصے کا پودا لگا رہا ہوں۔ جب یہ پودا پھل دے گا تو میں اس جگہ ہوں گا یہ نہیں ، اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں یہ جانتا ہوں جب تک یہ پودا رہے گا میرے لئے صدقہ جاریہ رہے گا۔
یہ درخت میرے والد نے لگایا تھا۔ میں اب اس کا پھل کھا رہا ہوں۔ میرے لگائے ہوئے درختوں کا پھل میری اولاد کھائے گی۔
ہم سب کو شجر کاری مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے اور ہر لمحہ اور ہر جگہ درختوں کی حفاظت کرنی ہے۔
ہم نے یہ پیغام طلبہ تک پہنچانا ہے کہ درخت لگاو، زندگی بچاو۔ کیا تم میرا اس نیک کام میں ساتھ دو گے؟
ذیشان کی بات سن کر سب نے یک زبان ہو کر کہا۔
ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ، ہم درختوں کی حفاظت کریں گے۔
یہ سن کر آس پاس کے درختوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد کسی نے اس جگہ "مجھے بچاو ۔۔ مجھے بچاو" کی آواز نہیں سنی۔
از نذیر انبالوی ،ماہنامہ پھول دسمبر 2009
"کوئی ہے جو مجھے بچائے ۔۔۔ بچاو ۔۔ بچاو"
عباس اور شہزاد کے کانوں میں یہ آواز پڑ رہی تھی۔
کون ہے جو مدد کے لئے پکار رہا ہے؟ عباس بولا۔
یہ آواز تو اس درخت سے آ رہی ہے ۔ شہزاد نے کہا۔
درخت سے آواز آرہی ہے۔
وہ دیکھو ایک بچہ درخت کی شاخوں کو توڑ رہا ہے ، آو اس کو منع کرتے ہیں۔
درخت کی شاخوں کو مت توڑو ۔ عباس نے بچے کے پاس جا کر کہا۔
یہ سن کر بچے نے درخت کی شاخ کو چھوڑ دیا۔
دیکھو درختوں کی شاخوں کو اس طرح توڑنا ٹھیک نہیں۔ درخت ہمارے دوست ہیں۔
ان کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ شہزاد نے بچے کو سمجھایا تو وہ بولا
میں آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔
آو مل کر کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو صدقہ جاریہ ہو۔ رضا نے اپنے دوستوںکو مخاطب کیا۔
ایسا کون سا کام ہو سکتا ہے؟ ذیشان نے سوال کیا۔
ایسا ایک کام میں جانتا ہوں ، یہ کام ہم آسانی سے کر سکتے ہیں۔ رضا نے کہا۔
وہ کام کیا ہے؟ اکبر نے پوچھا
آو میں تمہیں بتاتا ہوں۔ رضا بولا۔
درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے ، میں نے اپنے حصے کا پودا لگا دیا ہے ، آپ لوگ بھی یہ ایک کام ضرور کریں۔
اکبر اور ذیشان کو اپنے سوالوں کا جواب مل گیا تھا۔
لو بھئی میں بھی اپنے حصے کا پودا لگا رہا ہوں۔ جب یہ پودا پھل دے گا تو میں اس جگہ ہوں گا یہ نہیں ، اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں یہ جانتا ہوں جب تک یہ پودا رہے گا میرے لئے صدقہ جاریہ رہے گا۔
یہ درخت میرے والد نے لگایا تھا۔ میں اب اس کا پھل کھا رہا ہوں۔ میرے لگائے ہوئے درختوں کا پھل میری اولاد کھائے گی۔
ہم سب کو شجر کاری مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے اور ہر لمحہ اور ہر جگہ درختوں کی حفاظت کرنی ہے۔
ہم نے یہ پیغام طلبہ تک پہنچانا ہے کہ درخت لگاو، زندگی بچاو۔ کیا تم میرا اس نیک کام میں ساتھ دو گے؟
ذیشان کی بات سن کر سب نے یک زبان ہو کر کہا۔
ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ، ہم درختوں کی حفاظت کریں گے۔
یہ سن کر آس پاس کے درختوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد کسی نے اس جگہ "مجھے بچاو ۔۔ مجھے بچاو" کی آواز نہیں سنی۔