بِن ترے رُک سا گیا دِل ہو ہمارا جیسے غزل نمبر 183 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر یاسر شاہ
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
بِن ترے رُک سا گیا دِل ہو ہمارا جیسے
ہم سے بِچھڑا ہو کوئی جان سے پِیارا جیسے

دل کو کُچھ بھی نہیں بھاتا ترے بِن جانِ غزل!
چِھن گیا ہو مری آنکھوں سے نظارا جیسے

آنکھ کُھل جاتی ہے شب میں مری اکثر جاناں
ایسا لگتا ہے مُجھےتُم نے پُکارا جیسے

جانے کیوں آج بھی یہ دِل میں گُماں رہتا ہے؟
اُس نے دیکھا ہو مُجھے مُڑ کے دوبارا جیسے

ایسی حالت ہوئی بِن تیرے ہماری جاناں!
جِیتی بازی کوئی اِک پل میں ہو ہارا جیسے

ایک تُو ہے کہ خساروں میں مُنافع جیسا
ایک میں ہُوں کہ مُنافع میں خسارا جیسے

بعد کھونے کے تُجھے ایسی ہے حالت میری
ڈُوبتے شخص سے ہو دُور کِنارا جیسے

ایسے رُوٹھی ہیں مری زِیست سے خُوشیاں
شارؔق
میری قِسمت کا گِرا ہو کوئی تارا جیسے
 

امین شارق

محفلین
نہیں، روانی فعل + دل ہو ہمارا... کی ہی گربڑ ہے، پورا مصرع ہی بدلنے کی ضرورت ہے
سر کیا اب درست رہے گا؟
عِشق میں ہوگئے بے یار و سہارا جیسے
یا
عِشق میں یوں ہُوئے بے یار و سہارا جیسے
ہم سے بِچھڑا ہو کوئی جان سے پِیارا جیسے
 
Top