بُرائیاں

تفسیر

محفلین

بُرائی
سید تفسیراحمد​

  • بُرائی کیا ہوتی ہے؟

    کیا ایک سے زیادہ برائیں ہوتی ہیں؟۔اور کیا سب بُرائیاں برابر ہیں؟
    کیا برائیوں کا اس دنیا میں کوئی مقام نہیں؟
    بُرائیوں کو کس طرح روکا جائے؟
    کہ برائیوں کو روکنا ضروری ہے؟ ایک چیز جو قدرتی طور پر موجود ہے ۔ اس کا روکنا کیا برائی نہیں؟

    آپ کا کیا خیال ہے؟

    بُرائی کیا ہوتی ہے؟

    میرے خیال میں۔۔۔

    بنیادی طور پرانسانی زندگی برائی اور اچھائی کےدو اعمال پرمنحصرہے۔ اسلئےاچھائی اور برائی کا امتیاز زندگی میں خوشیاں پیدا کرتاہے۔ برائ کےعمل کی طرف رغبت بدفعلی ہوتی ہے اور اچھائی کرنےسے بہتر خُو و خصلت پیدا ہوتی ہے۔

    میرے نزدیک بُرائی دو طرح کی ہیں ایک جس سےدوسروں کو نقصان پہنچتا ہے اور دوسری جس سےخود کی ذات کو نقصان پہنچانا ہے۔

    دوسروں کو نقصان پہنچانے والی چند برائیاں بدی، غبت، الزام ، جھوٹ اور بدلہ ہیں۔ بدچلنی، ہوس اور نفس پرستی، غصہ ، لالچ ، خود ثنائی، دنیاوی چیزوں سے بےجا لگاوٹ، تنگ نظری اور علیحدیت ذاتی نقصان پہنچانے والی برائیاں ہیں۔

    اچھا بنے کے لیئے اچھائی کے کام کرنا لازمی شرط ہے اور اچھائی ہمیشہ دو برائیوں کےدرمیان ہوتی ہے۔ یہ بُرائیاں کسی اچھےعمل کی انتہا یا زیادہ کمی سے پیدا ہوتی ہیں۔اس کےلئے یہ مثالیں پیش ہیں ۔

    شدید خطرے کی صورت میں زیادہ جراٴت ، بیباکی یا اجڈپن میں تبدیل ہوجاتی ہے یا جراٴت کی بےانتہا کمی بذدلی بن جاتی ہے۔

    لذت میں ذیادتی سے بےاعتدالی اور کم لذت میں فقدان احساس ہوتا ہے۔

    سخاوت کی ذیادتی، فضول خرچی اور انتہا سے زیادہ کمی کنجوسی بن جاتی ہے۔

    اجنبی سے تعلق میں ذیادتی منظورنظربنا دیتا ہے اور ذیاد کمی بد اخلاق اور بےمروت بنادیتاہے۔

    عالی ظرفی ، نمائش اور ناہمتی کے درمیان ہے۔


    کیا ایک سے زیادہ بُرائیں ہوتی ہیں؟۔اور کیا سب بُرائیاں برابر ہیں؟
    میرے نزدیک بُرائی دوطرح کی ہیں: ایک جس سےدوسروں کو نقصان پہنچتا ہے اوردوسری جس سےخود کی ذات کو نقصان پہنچانا ہے۔

    کیا یہ دونوں بُرائیاں برابر ہیں؟ میرے خیال میں نہیں۔

    وہ برائیاں جس میں انسان اپنےآپ کو نقصان پہنچاتا ہے ان کا شمار جرائم میں نہیں ہوتا۔ جرم ان افعال کا نام ہے جس میں ایک شحص دوسرے شحص کی ذات یا ملکیت کو نقصان پہنچائے۔جرم میں نیت ضروری ہے۔

    دوسری قسم کی برائیوں میں کچھ بُرائیاں ایسی ہیں جو جرائم کہلاتی ہیں۔ اسلئے بُرائیوں کی درجہ بندی ضروری ہے۔

    جس طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انگور، سیب، کیلا اور آم پھل ہیں ۔ اسلئے ہم ان کو پھل کہیں۔ اور انہیں انگور، سیب، کیلا اور آم سےنہ پہچانے ، تو یہ ایک طرح سے نامکمل سمجھ ہوگی۔

    تمام برائیاں غلطیاں ہیں جو انسان اپنی خوشی کی تلاش میں کرتا ہے۔لیکن کچھ بُرائیاں جرائم کہلاتے ہیں۔ بذات خود اس قسم کی برائیاں جرائم نہیں ہیں کیونکہ قانوق میں جرم کی بنیاد نیت پر ہے۔

    ایک عمل اس وقت جرم بنتا ہے جب کہ اس فعل میں کیسی شخص کو یا اسکی ملکیت کو نقصان پہنچانے کی نیت ہو۔

    انسان اپنی خوشی کی حصول کےلیئے بُرائی کرتا ہے کیسی شخص کو یا اسکی ملکیت کو نقصان پہنچانے کی نیت سے نہیں۔ بُرائی میں نیت نہیں چاہت ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات ثابت کرنا ناممکن ہے کہ کسی جان گی اور کسی کی جائیداد لوٹی اور یہ سب عمل کرنے والے کی حصولِ خوشی تھی۔ یہ علمی تفریق ہے اور ایک قاتل کو پھانس کے تختےسےنہیں اُتارسکتی ہے۔


    کیا برائیوں کا اس دنیا میں کوئی مقام نہیں؟​

    ابراہم لنکن اپنےذاتی تجربے کی بنا پر یہ کہتا ہے کہ جن لوگوں میں کوئی برائی نہیں ہوتی ان میں اچھی خصوصیات بھی بہت کم ہوتی ہیں۔

    قوت موجدہ کےمالکوں میں عموما نشہ کرنا ، تمباکو نوشی، جواء کھیلنا اور شہونیت کی برائیا ں ہوتی ہیں۔ ونسٹن چرچل نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جتنا میں ( شراب سےنقصان اٹھاے) شراب کودیا ہے اس سے کئی زیادہ مجھےشراب سےحاصل ( شراب پینے سےفائدہ ) ہوا ہے۔ دوسری طرف ارنیسٹ ہیمنگ وے سارا دن لکھنے کے بعد آرام اور ڈھیلا پن کے لیئےشراب استعمال کرتا تھا۔ مارک ٹوین تمام دن شراب پیتا تھا۔ شراب پبنے کی بُرائی نےان تمام لوگوں کی تخلیقی صلاحیوں کو ابھارا۔

    فریچ فلاسفرالبرٹ کامُس کو تمباکو نوشی پسند تھی اوروہ ہی اسکی موت کا باعث ہوئی۔ مشہور انٹرٹینر جارج برن کا تصور بغیرسگار یا مشہور آرٹنسٹ جیکسن پولاک کا تصور بفیر سگریٹ کےنہیں کرسکتے۔ سگریٹ نشاط انگیز ہوتی ہے اور دماغ کوخالی کرنےمیں مدد کرتی ہے۔اس طرح ذہن میں نئےخیالات کے لیئے جگہ بنتی ہے۔

    جوئے میں دو لطف ہیں ایک جیتنےاور دوسری ہارنے کا۔ قوت موجدہ کےمالک اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایسے تخلیقی قوت کے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نےایک بڑا داؤ لگا کر کامیابی ہوئی۔ اسٹیون اسپیلبرگ بغیراجازت ہالی وڈ کےایک فلم اسٹوڈیو میں داخل کو کر ایک آفس بنا لیتا ہے آج اسپیلبرگ کا شمار کامیاب اور مالدار ڈائریکٹرز میں ہے۔ ہنری میلر، تیس سال کی عمرمیں ایسا مصنف بناچاہتا جس کےمتعلق ہرشخص بات کرے۔ وہ سب کچھ داؤ پرلگا کر پیرس چلا جاتا ہے۔ اوراپنےمقصد میں کامیاب ہوتا ہے۔ دوسری طرف ایسے واقعیات کی بھی بہتاب ہے جس میں داؤ لگانےوالا سب کچھ لٹا کر بھی کچھ نہیں پاتا۔

    تخلیق کرنے والوں میں جنسی بھوک بھی ہوتی ہے اور عموما ان کےایک سےذیادہ محبوب ہوتےہیں۔ یہ شہونیت ان میں تخلیقی قوتوں کو بیدار کردیتی ہے ۔

    تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا برائیوں کا اس دنیا میں کوئی مقام نہیں؟

    میرے خیال میں تو ہے۔



    کیا برائیوں کو روکنا ضروری ہے؟

    ایک چیز جو قدرتی طور پرموجود ہے ۔ اس کا روکنا کیا برائی نہیں؟
    دنیا میں اچھائیاں اور برائیاں دونوں موجود ہیں۔ جہاں ایک اچھا ئی ہے وہاں برائی بھی موجود ہے۔

    سینکڑوں اچھائیوں کے درمیان مروت ، عالی ظرفی، ہمت، خوش اخلاقی، وفاداری، احتیاط۔ عاقبت اندیشی۔ بداعتدالی، انصاف، سخاوت، درد مندی، عفو، شکرانہ، انکساری، سادگی، تحمل، رواداری، پاکی، نرمی، انسانیت، نیک نیتی، ناز برداری، خوش طبع اور محبت کچھ اچھائیاں ہیں۔

    اور ہزاروں برائیائوں کےدرمیان بےمروتی، کم ظرفی، بزدلی، بد اخلاقی، بےوفائی، بےپرواہی، ناعاقبت اندیشی، بداعتدالی، نا انصافی، کنجوسی، بےرحمی،سنگدلی، ناشکری، غیرانکساری، نمائش، دکھاوا، غیرتحمل، عدم رواداری، ناپاکی، سختی، حیوانیات، بد نیتی، غیرطبعی اور نفرت کچھ برائیاں ہیں۔

    ہراچھائی دو برائیاں کےدرمیان ہے مثلاً شجاعت، بزدلی اور اجڈپن کےدرمیان ہے ۔

    اگر ہم برائی کو ختم کردیں تو کیا اچھائی موجود رہے گی؟ میرے خیال میں نہیں۔ برائی اور اچھائی ایک دوسرے میں توازن پیدا کرتیں ہیں ۔ اور ایک کےبغیردوسری نامکمل ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ دنیا سے برائی کو ختم کیا جاسکےاگر ایسا ممکن بھی ہو تو اچھائی مِٹ جائےگی اور یہ ایک غیر فطری عمل ہوگا۔


    بُرائیوں کو کس طرح روکا جائے؟

    بُرائیاں انسان کی تاریخ میں ہمیشہ سےموجود ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ بُرائیوں کو روکنا یاختم کرنا ممکن نہیں۔ تو پھر ہمارے پاس اس کا توڑ کیا ہے۔

    انسانی زندگی ایک تناسب ہے۔ اس تناسب میں تبدیلی کرنا انسان کےاختیار میں ہے۔ اچھائی برائی کی صفات بھی اس اصول کی ماتحت ہیں۔

    اچھائی اور برائی کا تناسب تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اور ہرانسان اپنی زندگی میں اس تناسب کو بدل سکتا ہے۔

    مکمل ہمیشہ ایک ہوتا ہے لیکن اس کی تکمیل حصوں سے بنتی ہے۔ انسانیت کا ایک ہے اوراچھائیاں اور پرائیاں اسکا تناسب۔ حصولِ انسان، انسانیت کے عروج پر پہنچنے کی کوشش کرنا ہے۔ انسان کو انسانیت کے عروج کی جستجو میں ان تناسب کو بدلنا ہے۔

    اگرہم انفرادی طور اپنےکردارمیں اچھائیاں بڑھادیں تو برائیاں کم ہوجائیں گی کیونکہ دونوں کا مکمل ایک بنتا ہے۔ جب دو چیزوں سےمل کر ایک بنتا ہے تو پھر ہمارے پاس ایک ذریعہ ہے ایک حصہ کم کریں تاکہ دوسرے حصہ میں اضافہ ہو۔
 
Top