مکمل بوٹی کھاساں ۔ سید ضمیر جعفری کا اپنی والدہ ماجدہ پر ایک مضمون

فرخ منظور

لائبریرین
بوٹی کھاساں
سید ضمیر جعفری صاحب کا اپنی والدہ ماجدہ پر ایک مضمون


ہماری آنکھ آیائوں کی گود میں نہیں کھلی، ماں کی گود اور ماں کی کمک پر محبت میں امڈی ہوئی ماسیوں، چاچیوں، پھوپھیوں اور رشتے کی بڑی بہنوں کی گود میں کھلی یوں بھی بے جی (والدہ مکرمہ) کے پاس عورتوں کا گزری میلہ سا لگا رہتا تھا۔ کچھ تو برادری کی معاصر خواتین ہوتیں جو ایک دوسرے کے گھروں میں باقاعدہ آتی جاتی رہتی تھیں کہ اپنی گائے بھینس کے تذکرے میں اپنی بہو کی بات ملا کر چلم کا تمباکو اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکیں، لیکن بڑی تعداد آس پاس کے دیہات کی چرواہوں کی ہوتی جو اپنے ڈھورڈنگروں کو ہانکتی پھراتی ہمارے گائوں کے رقبوں میں لے آتیں اور پھر کچھ سستانے، لسی پانی پینے یا یونہی گپ شپ لڑانے کے لیے بستی میں اپنی اپنی ’’سیدھ‘‘ (جان پہچان) کے گھروں میں پھیل جاتیں۔

یہ ایک جملہ کہ ’’بیوی جی‘ دو گھٹ لسی تے پلائو‘‘ ہر گھر میں داخلے کا پاسپورٹ تھا۔ گھر گھر گائے بھینسیں، گھر گھر دودھ لسی کی سبیل جو آئے بسم اللہ کا پیالہ پیے یا دوری… (بڑا پیالہ)۔ ہمارا مکان ایک تو گائوں سے باہر اس طور واقع تھا کہ اگر بیرونی دیواریں مضبوط نہ ہوتیں تو کھیتوں کی فصلیں ہمارے صحن میں آ کر لہلہانے لگتیں۔ پھر اس کے ساتھ کنواں بھی، پھر ملحق ایک کھلا میدان جس کو ہم ’’کھلا کہتے ہیں (شاید کھلیان سے) بہرحال ہمارے گھر میں ان سادہ روزگار اور سخت معاش چروایوں کی ریل پیل کچھ زیادہ ہی لگی رہتی۔

ہمارے گائوں میں رئیس کوئی بھی نہ تھا۔ یہ چھوٹے چھوٹے بکھرے ہوئے بارانی رقبوں کے مالک زراعت ورثہ، مگر ملازمت پیشہ اہل کاروں کی بستی ہے۔ ہمارے کنبے کی آمدنی اگر آج بھی وہی ہوتی تو ہمیں دو وقت کی روٹی مشکل ہوجاتی، لیکن اس زمانے میں ہمارا گھر بستی کے خوشحال گھروں میں شمار ہوتا اور ہماری حویلی اپنے چبارے کی وجہ سے، جو مدت تک گائوں کا اکلوتا چبارہ رہا، کسی قدر منفرد حیثیت رکھتی تھی، لیکن ہمارے گھر کی جانب اطراف و اکناف کی عورتوں کا رخ ہماری ’’آسودہ حالی‘‘ سے زیادہ دراصل بے جی کی دریادلی کی وجہ سے تھا۔ پیسے تو ان کے پاس ہوتے نہ تھے، البتہ حویلی کی تاریک ترین کوٹھڑی میں رکھی ہوئی لکڑی کی بنی ہوئی ایک اونچی مخروطی ’’گہی‘‘ (اجناس کی ذخیرہ دانی) سے گیہوں، باجرے، جوار کے ’’ٹوپے‘‘ اور پڑوپیاں‘‘ (اجناس مانپنے کے پیمانے) بھر بھر کر حاجت مندوں میں تقسیم کرتی رہتیں۔ بے جی کا نام سرداربیگم تھا اور وہ اپنی سخاوت سے تھیں بھی ایک سردارخاتون۔

پیسوں کے ذکر سے یاد آیا کہ بے جی کبھی پیسے گننے لگتیں تو بیس سے اوپر جا کر گویا خلا میں کھو جاتیں۔ رقم کو دس دس کی ڈھیریوں میں باٹ کر گنتیں۔ زیادہ ریزگاری سے سابقہ پڑ جاتا تو پہروں بیٹھی اپنے ’’جنرک فارمولے‘‘ سے حساب جوڑتی رہتیں۔

بے جی ہمیں گودسے اترنے ہی نہ دیتیں۔ گھر کے کام کاج بھی مجھے یا مجھے سے بڑے بھائی (سیدبشیر حسین شاہ صاحب بی اے، ایل ایل بی، مجھ سے ڈھائی تین برس بڑے ہیں۔ پنجاب کی صوبائی سول سروس میں رہے۔ ڈسٹرک بورڈ جہلم کے سیکرٹری اور جہلم ڈسٹرکٹ کوآپریٹوبینک کے آنریری سیکرٹری اور کالس یونین کونسل کے چیئرمین رہے۔ آج کل گوشہ نشین ہیں) کو کچھڑ (بغل) میں دبائے دبائے کرتی رہتیں۔ اس وقت ہم تین بھائی تھے۔ بڑے بھائی کو ہم لوگ ’’بھائیا، بھاپا‘‘ ’’لالہ‘‘ کہتے ہیں۔ ہمارے سب سے بڑے بھائی بھاپا نادر شاہ ہم سے اتنے بڑے تھے یا اتنے بڑے نظر آتے تھے کہ گھر میں اتنے بڑے بھائی کا ہونا کچھ عجیب سا لگتا اور ہم دونوں چھوٹے بھائی اتنے چھوٹے تھے کہ والدین کے اس ’’مرحلہ عمر‘‘ میں اتنے چھوٹے بھائیوں کا مستقلاً موجود ہونا بھی کچھ عجیب سا محسوس ہوتا۔ یوں اگر ہم سب بہن بھائی زندہ ہوتے تو نو دس کی نفری دگڑ دگڑ کرتی۔ بھپا نادر شاہ اور بھائی بشیر کے درمیان اوپر تلے چھ سات بہنیں متواتر پیدا ہو ہو کر التزام کے ساتھ شیرخوارگی کے ایام میں مرتی رہیں۔ کسی کو چنی اوڑھنے کی مہلت نہ ملی۔ دو بھائی یکمشت یعنی جڑواں پیدا ہوئے اور چوبیس گھنٹے اس دارِفانی میں لیٹے رہنے کے بعد جس طرح اکٹھے آئے تھے، اسی طرح ہاتھ میں ہاتھ ڈالے عالم جاودانی کو سدھار گئے۔

بے جی ہر چند ہمیں ’’کچھڑ‘‘ سے اتارتی نہ تھیں، تاہم ’’باربرداری‘‘ کے لحاظ سے وقت کی کچھ ’’راشننگ‘‘ انہوں نے کر رکھی تھی۔ مثلاً سحر کے وقت جب وہ چکی ’’بگڑتیں‘‘ تو بھائی جان ان کی گود میں ہوتے اور ہم بستر میں۔ (ہمارے رگ شاعری بیدار کرنے میں چکی کی گھرر گھرر کا بھی کچھ حصہ ہوگا) دودھ بلونے کے دوران میں، ہم گود میں ہوتے اور بھائی جان پاس پیڑھی پر بیٹھے دہی چاٹتے۔ اسی طرح جب بے جی بھینس دوہنے لگتیں (کبھی کبھی یہ کام بھی کرلیتیں) تو بھینس کے تھنوں سے براہ راست دودھ کی دھاریں بھائی جان پیا کرتے، البتہ نمازِفجر کے بعد جب بے جی مصلے پر بیٹھے بیٹھے سلطان العارفین پیرسید محمد شاہ کے عارفانہ ابیات گنگناتیں، جن کو وہ ’’مدح شریف‘‘ کہتیں تو سوزوگداز کی ان لہروں کو ہم ان کی گود میں بیٹھ کر اپنی روح میں جذب کرتے (ہمارے دل میں شعروسخن کی چنگاری ان ابیات سے بھی روشن ہوئی)۔

(سلطان العارفین پیر سید محمد شاہ رحمتہ اللہ علیہ آزاد کشمیر اور پوٹھوار کے مقبول صوفی شاعر، میری والدہ کے دادا سید احمد شاہ کے چھوٹے بھائی اور مثنوی سیف الملوک کے خالق میاں محمد صاحب کے ہمعصر۔ ان کا انتقال ۱۸۸۴ء کے لگ بھگ ہوا۔ کھنیارہ شریف (ضلع میرپور آزاد کشمیر) میں ان کا عرس ایک عظیم ثقافتی میلے کی حیثیت رکھتا تھا۔ ان کی مطبوعہ مثنوی ’’ہیر محمد شاہ‘‘ کو ان علاقوں میں جو مقبولیت حاصل ہے وہ ’’ہیر‘‘ کی کسی اور مثنوی کو حاصل نہیں۔ باواجی کا بیشتر کلام ہنوز غیرمطبوعہ ہے۔ وہ مکتبی تعلیم سے عاری تھے۔ منگلا ڈیم کے تعمیر ہونے پر جب کھنیارہ شریف زیرِآب آیا تو ان کے جسدِ مبارک کو مزار سے نکلا کر قصبہ مندرہ (ضلع راولپنڈی) کے قریب دوبارہ دفن کیا گیا جون ۱۹۶۷ء میں۔

بے جی اتنے تڑکے اٹھتیں کہ ہم دونوں بھائی ان کے ساتھ اٹھ کر پھر سوجاتے، پھر اٹھتے پھر سو جاتے، لیکن جب بھی اٹھے، مطلع عالم پر تاریکی کا پہرہ مسلط ہوتا۔ گھر کے کام کاج ان کو دن بھر سر اٹھانے کی مہلت نہ دیتے۔ آئے گئے والا گھر تھا، ایک گیا دو آگئے۔ تنور ہر وقت گرم رہتا۔ بارہ بارہ کوس میں وعظ کی مجلس خواہ کسی گائوں میں جمتی، واعظین کا پڑائو ہمارے گھر پر ہوتا۔ ہزاروں لاکھوں مریدوں کے پیرصاحبان اس علاقے میں قدم رنجا فرماتے تو ارادت مندوں کے جلو میں ایک وقت کی ضیافت ہمارے گھر پر بھی تناول فرماتے۔ خاندان کے متعدد بزرگوں کی سالانہ برسیاں جواب مہینے میں دو دو مرتبہ ہو رہی تھیں، مزید براں تھیں، چنانچہ صحن میں چاول کے ’’دیگ برے‘‘ (بڑے دیگچے) اور آلو گوشت کے ’’کٹوے‘‘ (مٹی کی بڑی بڑی ہانڈیاں) چولہوںپر چڑھے رہتے۔

(اللہ بخشے چاندی کمہار اور اللہ سلامت رکھے) بابا الف دین حجام نے (۷۵ء میں ان کی عمر سوبرس سے متجاوز ہوچکی ہے) اتنا آٹا اور سالن اپنے گھروں میں نہیں کھایا جتنا ہمارے گھر میں کھایا۔ عام دنوں میں ہانڈی ایک وقت شام ہی کو پکتی، دوپہر کے وقت تنور کی گرما گرم، گھی مکھن سے چپڑی ہوئی روٹی کے ساتھ چٹنی، اچار اور لسی کی دوری۔ ہماری روٹی پر بے جی چٹکی سے گڑھے ڈال کر ان میں گھی کی اچھی خاصی جھیل کھڑی کردیتیں۔ بے جی خود سارے ٹبر کو کھانا کھلانے کے بعد کھاتیں۔ دو چار لقمے کٹوی سے پونچھ پونچھ کر حلق سے اتارے اور الحمداللہ کہہ کر نمازِ عشاء کے لیے کھڑی ہوگئیں یا کسی کام دھندے میں لگ گئیں۔

بے جی گھر بار کے کسی کام کو اپنے ہاتھوں کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتیں۔ سمے کی معاشرت ہی ایسی تھی۔ بھینسیں دوہنا تو عورتوں کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی، ہم نے انہیں ایک دو مرتبہ راج مستریوں سے کرنڈی چھین کر چھت کی لپائی کرتے بھی دیکھا ؎

اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
ہانڈی پکانے سے چھت کی لپائی تک کسی دوسرے کا کیا ہوا کام انہیں مشکل ہی سے کبھی پسند آتا۔ آج تک ہم دونوں بھائیوں کی جتنی چخ چخ اپنی بیویوں کے ساتھ بینگن کے بھرتے پر ہوئی ہے، اس نے زندگی کا بھرتی کر رکھا ہے۔ سہ پہروں کو بے جی چادر کی ’’ڈوہنگی بکل‘‘ مار کر سر پر گیہوں کی بھری ’’پناتر‘‘ (دانوں سے بھری چنگیر یاصحنک) اٹھائے برادری کے گھروں میں ’’بیمارپُرسی‘‘ اور مبارک بادی کے مشن پر نکل پڑتیں۔ اگر خود نہ نکلتیں تو گائوں کی چار چھ بیبیاں یا کمیری عورتیں ان کے پاس آجاتیں۔ بیچ میں گڑگڑاتی ہوئی چلم اور نیم دائرے میں پیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی بیبیاں۔

کس کے گھر کیا پیدا ہوا… بیٹا، بیٹی، کٹا، کٹی؟‘‘ ’’قائم حوالدار جیل پور چھائونی سے چھٹی پر آیا ہے تو بہن کے لیے بھی کچھ لایا ہے یا نہیں؟‘‘… زبیدہ پھر میکے آ بیٹھی، ماں اس کو بسنے نہ دے گی…‘‘ ’’رسول بی بی کے نئے گوکھرو دیکھنے کے لائق ہیں۔‘‘ بس اس رخ اور سطح کی باتیں یا کہیں کہیں بیچ میں سرگوشی۔ سرگوشی میں کوئی ایسی بات کہ سب بیبیاں یکبارگی کھلکھلا کر ہنس پڑتیں یا توبہ استغفار کے ہاتھ کانوں پر رکھتی ہوئی ایک دوسرے سے کہتیں: ’’یا اللہ، کیسا کلجگ آگیا ہے۔ قرب قیامت کی نشانی ہے۔ (بڑی بہن، آپا، باجی)… دیدوں کا پانی مر گیا … میں خیر سے چھے بچوں کی ماں ہوں، مگر قسم لے لو جو آج تک کبھی جیٹھ کے سامنے اونچی آواز میں بات بھی کی ہو، حالانکہ مامے کا بیٹا ہے۔

اکثر عورتوں کی طبیعت لگائی بجھائی کی طرف زیادہ کھلتی تھی۔ خاندانوں میں رخنہ ڈالنے کا کوئی نہ کوئی شگوفہ کہیں نہ کہیں سے نکال لاتیں، مگر سبھی ایسی نہ تھیں۔ صلح کال طبیعت کی بعض عورتیں نفاق کی آگ بجھانے کے لیے ’’فائربریگیڈ‘‘ کا کام کرتیں جس گھر سے نفاق کی بو آتی وہاں ہاتھ ملتی ہوئی پہنچ جاتی اور منت ترلے سے مفاہمت کا رہ نکلی انہیں، اس ضمن میں برادری کی چند اہم معمر خواتین کے علاوہ ماسی بگی کمہارہ اور (اس زمانے میں) اسی نوے سالہ بابا منگل سنگھ کی اتنی ہی بوڑھی دھرم پتنی کا مولادئی کا رول ’’تمغہ امتیاز‘‘ کے لائق تھا۔ اگر وہ آج زندہ ہوتیں تو ہمارے گائوں کی ’’ہنری کسنجر‘‘ سمجھی جاتیں۔

دوسرے تیسرے دن بے جی چرخے میں پونی ڈال دیتیں۔ گھر کے کھیس، چادریں، دوہتیاں، سوسنیاں، دسترخوان اور نہ جانے کیا کیا دوسرے پارچات انہیں کے کاتے ہوئے سوت کے بنے جاتے۔ بے جی کے کام کرنے کی لگن اور ہمت کی کوئی حد نہ تھی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کو یہاں تھوڑی دیر کے لیے ماسی جی کے ہاتھوں میں چھوڑ کر کچھ بیان شاہ جی (والد صاحب قبلہ) کا ہوجائے کہ ان کو سمجھے بغیر بے جی سمجھ میں نہیں آسکتے۔ شاہ جی کی طبیعت کا رخ ابتدا ہی دنیا سے زیادہ دین کی طرف رہا، مگر جب ہماری ہوش کی آنکھیں کھلیں تو ہم نے ان کو دنیا سے قریب قریب فارغ یا کم از کم خالی الذہن پایا۔ درویش منش، گوشہ نشین، عابد شب زندہ دار اور بے نیاز

نہ گلہ ہے دوستوں سے نہ شکایت زمانہ

ارکان شرعیہ کے پابند، سبزہ خط جیسا نمودار ہوا تھا، عمر کے ساتھ ساتھ سیاہ ملگجا اور ملگجے سے سفید ہوتا چلا گیا۔ ڈاڑھی کم، مونچھیں زیادہ ترشواتے۔ آخری عمر میں ڈاڑھی کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی جو نور کا ایک مقدس ہالہ بن کر شخصیت کا ایک جزو بن گئی۔ ان کی بیشتر وقت عبادت، مطالعہ کتب دینی میں یا حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت پاک کی مجلسوں کی حاضری میں گزرتا۔ ہر ماہ نصف کے قریب آمدنی کتب و رسائل کی خریداری یا دینی اداروں کے چندوں پر اٹھ جاتی۔ (والد صاحب قبلہ و کعبہ کا اسم گرامی سیدحیدر شاہ تھا۔ ۱۰ فروری ۱۹۴۳ء کو انتقال ہوا۔ ہمارے گائوں کے سادات والد صاحب کو ’’شاہ جی‘‘ کہتے ہیں جو کثرت استعمال سے ’’شا جی‘‘ رہ گیا ہے۔

صبح و شام دو وقت کھیتوں میں دور دور تک گھومنا بھی ان کا معمول تھا۔ راست گو تھے، لہٰذا کم گو تھے۔ لباس میں موٹے جھوٹے کپڑے کا محمودوایاز کو ایک صف میں کھڑا کرنے والا تہبند اور کرتا، سر پر سرکنڈے کی سبک ٹوپی جو کبھی تیز ہوا میں اڑ جاتی تو دوسرے گائوں سے پکڑ کر لائی جاتی، شانوں پر تولیہ۔ محکمہ آبکاری میں انسپکٹری کے زمانے میں اتنا سا تکلف اور کر رکھا تھا کہ شلوار پر لمبا سا کوٹ پہن لیتے اور سر پر پگڑی رکھ لیتے۔ اب بھی سہ ماہی کی سہ ماہی ضلع کچہری میں پنشن لینے جاتے تو شلوار اور پگڑی نکلوالیتے۔ پگڑی جو سرکنڈے کی کلاہ پر بندی رہتی، چھ چھ پنشن وصول کرنے کے بعد کہیں کھلتی۔ بخل اور مزاحمت کا جذبہ جیسے ان کی طبیعت میں تھا ہی نہیں، البتہ انسانی ہمدردی کا دودھ چھلک چھلک پڑتا، اپنی ذات پر ایک پیسہ خرچ کرتے ہوئے دس مرتبہ سوچتے، مگر مشائخ، صوفیا اور علما و فضلا کی خاطر تواضع میں کسر نہ چھوڑتے۔ اپنے والدصاحب کی برسی کی تقریب پر سیرت النبی ﷺ کے جلسے کا اہتمام کرتے اور مساکین کو کھانا کھلاتے۔

ہمارے دادا کا اسم گرامی حضرت سید احمد شاہ صاحب تھا۔ آپ کا انتقال ۲۵ فروری ۱۹۱۴ء کو ہوا۔ اپنے والد کی برسی کے علاوہ خاندان کے چند ’’معلق‘‘ بزرگوں کی برسیاں منانے کا بیڑا بھی آپ ہی نے اٹھا رکھا تھا، کیونکہ ان کے براہ راست ورثا یا تو اب باقی نہ تھے یا وہ خود مساکین کی صف میں پہنچ گئے تھے۔ مہمان کی آمد پر خوش ہوتے۔ زور سے کھلکھلا کر ہنستے تو خیر ہم نے ان کو دیکھا ہی نہیں، مسکراتے بھی دیکھا تو مہمانوں کے ساتھ یا کبھی کبھی بے جی کے ساتھ، بالخصوص جب وہ ان کے ثقیل علمی جملے سمجھ نہ سکتیں، اور ہاں، یاد آگیا بابا الف دین حجام کے ساتھ جو مٹھی چاپی کے لیے اکثر ان کی اردل میں رہتا۔ مہمان رخصت طلب کرتا تو آزردہ ہوجاتے۔ شام کی سیر کو نکلتے تو کوئی نہ کوئی مہمان پکڑ لاتے جس پر بے جی بڑبڑ کرتیں۔

رات کو کھانے پر بیٹھنے سے پہلے اطمینان کرلیتے کہ مسجد میں شب بسری کے لیے کوئی مسافر تو موجود نہیں۔ قصبے سے پھیری والے قصاب، کنجڑے، اساطی بساطی سودا لاتے… تو وہ پہلے انہی کے پاس آتے اور آپ کچھ نہ کچھ ضرور خرید لیتے۔ جس پر بے جی بڑبڑاتیں کہ جب کریلے گھر میں لگے ہوئے ہیںتو آپ نے کیوں خرید لیے؟ اس پر کہتے ’’اوہ نیک بخت! وہ اتنا بوجھ اتنی دور سے اٹھا کر لایا تو کیا ہم اتنا بھی نہ کریں؟‘‘ مکتب میں دسویں تک پڑھے تھے، لیکن فارسی عربی پر وسیع نظر رکھتے۔ انگریزی میں بھی جبر ملازمت کے ہاتھوں خاصی دست گاہ پیدا کرلی تھی۔ ہماری شاعری کا کچھ کچھ چرچا ان کی زندگی میں چل نکلا تھا۔ ہم تو خیر جگر کہاں سے لاتے کہ اپنے نوجوانی کے ارمانوں میں شور بور رومانی شعروں کو، کہ ایک ایک شعر سے دو لڑکیاں جھانکتی تھیں، ان کو سناتے، لیکن اخبارات اور جرائد میں ہماری نظمیں ان کی نظر سے گزرتی ہوں گی۔ انہوں نے برملا کبھی خوشنودی کا اظہار فرمایا نہ اس جذبے کو کچلنے کے لیے مارشل لا نافذ کیا۔ ایک مرتبہ صرف اس قدر فرمایا ’’تم غزلیں وزلیں کیا لکھتے رہتے ہو، کبھی حضور نبی اکرمﷺ کی نعت بھی لکھا کرو۔ شاہ جی مجھ کو لاڈ سے ’’وردی میجر‘‘ کہا کرتے تھے۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ جوان ہو کر ہم نے فوج ہی کی وردی پہنی اور میجر کے رینک تک ہی جاسکے۔ بعض اوقات اب بھی شاہ جی سے روٹھنے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے اس وقت ’’وردی جنرل‘‘ کیوں نہ کہہ دیا، مگر شاید وہ بیٹے کی صلاحیتوں کا بھی اندازہ رکھتے تھے۔

ہمارے شاہ جی کو اپنے شا جی سے بے انتہا محبت تھی، بلکہ اس میں اولاد کی محبت کے علاوہ سچے مریدوں و معتقدوں والی ارادت و عقیدت بھی شامل تھی۔ اپنے والد کے خطوط انہوں نے ایک غلاف میں سنبھال کررکھے ہوئے تھے۔ روزانہ تلاوت قرآن مجید کے بعد باپ کے خطوط نکال کر آنکھوں سے لگاتے، چومتے، پڑھتے۔ ہم نے بھی یہ خطوط پڑھے ہیں۔ ہر حالت میں سچائی اور صبر کی تلقین، باطن کی سرگوشیوں کو سننے کی تاکید۔ بیٹے نے اپنی ناگوار طبع ملازمت سے استعفا دینا چاہا تو لکھا ’’اسے خدا کی طرف سے آزمائش سمجھو۔‘‘ کسی استفسار کے جواب میں ارشاد فرمایا ’’حقیقت کا علم صرف اللہ کی ذات کو ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ سے اپنی روح کے فساد سے پناہ مانگتا رہے۔‘‘ بس ایسی ہی باتیں جیسے مولانا اشرف علی تھانوی اپنے بیٹے کو خط لکھ رہے ہوں۔ خود شاہ جی بھی ہمیں اسی قسم کے خط لکھا کرتے جیسے زنگ آلود شیشوں کو چمکانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ آخری دو تین سطروں میں جب لکھتے… ’’بادی اشیاء مثل گوبھی، توری سے پرہیز کریں‘‘ یا ’’اس موسم میں صبح شام تازہ نمبو کا استعمال مفید رہے گا…‘‘ تو معلوم ہوتا کہ یہ باپ کا خط ہے۔

شاہ جی نے اپنی زندگی میں ایک قطعہ زمین خرید کر اپنے خاندان کے لیے علحٰدہ قبرستان بنوایا تھا، مگر چونکہ ان کے والد ایک دوسرے قبرستان میں دفن تھے، اس لیے جب اپنے دفن ہونے کی باری آئی تو وصیت کر گئے کہ مجھے شاہ جی کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ باپ بیٹا وہاں پہلو بہ پہلو خوابیدہ ہیں۔
حضرت سیداحمد شاہؒ کی زندگی سادگی اور تقویٰ اور اپنے فرائض منصبی کی بجاآوری میں محنت و دیانت کا نمونہ تھی۔ وہ تقریباً پچاس برس، مڈل اسکول قلعہ روہتاس کے صدر مدرس رہے جو ضلع جہلم کی قدیم ترین درسگاہ تھی۔ شاگردوں کو وہ اولاد کی طرح عزیز رکھتے۔ چار چھے شاگرد ہمیشہ ڈیرے پر رہتے جن کی کفالت اپنی گرہ سے فرماتے۔ جو دال روٹی خود کھاتے وہی شاگردوں کے لیے ہوتی، وہی بیٹوں کو ملتی۔ ہم نے ہوش سنبھالا تو اپنے علاقے کے جس پڑھے لکھے شخص سے ملاقات ہوئی ان کو خود یا ان کے والد کو باواجی کا گرویدہ پایا۔ لوگ محض اس لیے ہمارا بھی پیروں کا سا احترام کرتے کہ ہم سیداحمد شاہ صاحبؒ کی ذریت میں سے تھے۔ عجیب اتفاق ہے کہ ان کے بعد ان کے شاگرد رشید حضرت مولانا مولوی فتح محمد صاحب نصف صدی تک اس درس گاہ کے سربراہ رہے اور اپنے حسن خدمت اور حسن اخلاق کی وجہ سے خلق خدا کے دلوں پر حکومت کرتے رہے۔ دادا صاحب عملی خدمت سے سبکدوش ہوئے تو سرکار کی طرف سے ضلع لائل پور میں چند مربع اراضی ان کو دی گئی جو ہم لوگ آج تک کھا رہے ہیں۔

وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا تھی؟
ہمارے شجرہ نسب کی اونچی ٹہنیوں میں بعض بزرگوں کے ناموں پر شبہ ہوتا ہے کہ وہ علوم و فنون سے تمسک رکھتے ہوں گے، مگر انیسویں صدی میں ہمارے خاندان میں علمی روایت کی پہلی اینٹ سید احمد شاہ صاحبؒ ہی نے رکھی اور میں خیال کرتا ہوں اگر مجھے ذوق سلیم کی کچھ چاندنی ملی تو ددھیال کی طرف سے اس کا سرچشمہ حضرت ہی کی ذات گرامی تھی۔

اب پھر بے جی کی قدم بوسی کو جی چاہتا ہے۔ ماں کے ذکر سے سیری کہاں؟ ہمیں یاد نہیں کہ شاہ جی کے کسی قول یا فعل سے کبھی کسی کو شکایت کا موقع ملا ہو، مگر بے جی ہر وقت ان کے خلاف شکایات کا دفتر کھولے رکھتیں جو کچھ اس نوع کی ہوتیں۔
بکری آپ کے سامنے بوری میں سے کنک کھاتی رہی، مگر آپ سے ہشت بھی نہ ہوسکی۔
نورماہی ترکھان آیا تو آپ کو خیال نہ آیا کہ گھرمیں ٹوٹی چارپائیاں بھی پڑی ہیں۔
میں نے کہا تھا چھم والی زمین میں سرسوں دیکھ آئو۔ آپ غوث شاہ کے پاس جا کر بیٹھ رہے۔ جیسے آپ، ویسا وہ۔
خبردار! جو آیندہ برسی پر مولوی قطبی کو بلائیں۔ آٹھ سیر گوشت اکیلے کو چاہیے ’’شنا‘‘ (مشک) بھرنے کے لیے۔

شاہ جی یہ باتیں خاموشی سے سنتے رہتے۔ درمیان میں اگر جواب بھی دیتے تو (غالباً لطف لینے کے لیے) کچھ اس قسم کا خطاب ہوتا… ’’حادثات، مادہ، عناصر، اجسام، ہیئت یہ سب قدرت کے اسرار ہیں نیک بخت!‘‘ اس قسم کا آفاقی جواب سن کر، بے جی اور بھی مشتعل ہو کر مولوی قطبی کے خلاف نئے سرے سے محاذ کھول دیتیں۔ بے جی کے میکے کا گائوں کھنیارہ شریف، ضلع میرپور (ریاست جموں و کشمیر) ڈوڈیال کے مشہور قصبے کے قریب واقع تھا۔ اب یہ بستی منگلا جھیل میں ڈوب چکی ہے۔ پیرہجویر حضرت داتا گنج بخشؒ کا قول ہے کہ انسان اپنے ماحول میں دھنسا رہتا ہے اور اس پردے سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتا، جو اس کے اوپر تنا ہوا ہے۔ بے جی اپنے میکے سے عملی کھیتی باڑی کی بھی محکم روایت تر کے اور طبیعت میں لائی تھیں، مگر سسرال والوں نے کچھ مدت سے ’’ہل پنجالی‘‘ توڑ تاڑ کر اپنی زمینیں ’’پھکے‘‘ (بٹائی) پر مزارعوں کے سپرد کر رکھی تھیں۔ بے جی کو ’’بابوانہ‘‘ زندگی کا یہ اسلوب ایک آنکھ نہ بھاتا۔

ان کی دلی خواہش تھی جیسے ان کے میکے کی تمام تر معاشرت زمین سے اگی ہوئی تھی اور ان کے بھائی، بھتیجے، مامے، چاچے، تائے وغیرہ گھر سے زیادہ کھیتوں میں بودوباش رکھتے تھے اور پھر جیسے ان کی حویلیوں میں انسان اپنے بیلوں، بھینسوں، گھوڑوں، اونٹوں، بکریوں وغیرہ سے یگانگت کا قرب اور ان کے گلے میں پڑی حمیلوں کے گھنگھروئوں کی ٹن ٹن پر ایک دلی خوشی محسوس کرتا تھا… زندگی کا وہی چلن سسرال کی حویلی میں بھی قائم ہونا چاہیے، مگر وہ نقشہ یہاں کیونکر جمتا؟ میکے کا گائوں دو طرف سے پہاڑوں اور دو طرف سے دریائوں نے دنیا سے کاٹ رکھا تھا۔ مثل ہے کہ دور کون جو دریا پار، لیکن سسرال کے گائوں سے ریل کی پٹڑی اور جرنیلی سڑک دو ڈھائی میل کے فاصلے سے گزرتی تھی۔ ہم لوگ رفتہ رفتہ ملازمت پیشہ زمیندار بن گئے تھے۔ بے جی اس صورت حال سے مطمئن نہ تھیں۔

عورت، دال اسی طرح بگھارتی ہے جیسے اس کی ماں دال بگھارتی ہے۔ بے جی نے دو ایک مرتبہ حویلی میں ’’ہل پنجالیذ، کے احیا اور بیلوں کی آئوبھگت کا اہتمام کیا، لیکن کبھی بیل بھاگ نکلے اور کبھی ’’ہالی‘‘ ’’ہل پنجالی‘‘ چھوڑ کر بلوچ رجمنٹ میں بھرتی ہوگئے۔ آخرکار بے جی نے گھر میں کاشت کارانہ ماحول کی افزائش و پرورش کی یہ ترکیب نکالی کہ فصل کے پکنے پر بعض نادہند مزارعوں سے کھڑی فصل کھیت سے کٹوا کر کچھ کھلیان میں اور کچھ حویلی میں لا کر انبار کردیتیں۔ یہ ٹانڈے جب کھیت میں ہوتے تو یوں لگتا کہ پہنائے دو عالم میں نہ سمائیں گے۔ شاہ جی کو یہ کھڑاک ناپسند تھا۔ وہ اس موقع پر، ازراہ تفنن گھر کے باقی لوگوں سے کہا کرتے۔ ’’آئو ہم لوگ چن (شاہ جی اپنے چھوٹے بھائی سید چنن شاہ صاحب کو چن کہا کرتے۔ ان کا انتقال دسمبر ۱۹۵۴ء میں ہوا) کے گھر چلے چلیں۔ ہمارے گھر میں تو تمہاری والدہ کے ٹانڈے آ رہے ہیں۔‘‘ لیکن جب ٹانڈے، سٹے اور پھلیاں گھر میں انبار ہوجاتے تو پھر یہ احساس ہوتا کہ حویلی میں ہر چیز کے لیے جگہ موجود تھی اور جیسے ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر ہی تو رکھی ہوئی تھی۔

حویلی میں کھلیان کا نقشہ جم گیا تو اب چھان پھٹک کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لیجیے، مہینوں چھاج کھڑکتے اور منگلیاں بجتی رہیں۔ پتھر کا ایک رستم زمان ’’چٹو‘‘ جو سال بھر گھر کے کسی کونے میں اونگھتا رہتا تھا، اس رت میں ’’حاضرنوکری‘‘ پر طلب کرلیاجاتا۔ یہ ’’چٹو‘‘ خاندانی ورثے کے طور پر نہ جانے کتنی منگلیاں کھاتا ہوا اب ہم تک آ پہنچا تھا۔ اس کا خمیر تو سنگ سفید سے اٹھایا گیا تھا، مگر مرور ایام نے سیاہ کردیا تھا۔ اپنے حلوہ نیابت میں موصوف کو ’’چٹو‘‘ کونڈا، یا لنگڑا‘‘ کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ داداجان کی وفات پر باقی تمام منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد تو مع رسدی پانچ بھائیوں میں تقسیم ہوگئی، مگر ’’چٹو‘‘ کو ایک ناقابل تقسیم ثقافتی یونٹ سمجھ کر، سب سے بڑے بھائی یعنی ہمارے والد صاحب کی سپردداری میں رکھ دیا گیا۔ جیسے مجلس اقوام متحدہ کسی ملک کو، کسی دوسرے کے انتداب میں رکھ دیتی ہے۔ چٹو کا مستقل سیکرٹریٹ ہر چند ہمارے گھر میں تھا، مگر اس کا ’’جلوس‘‘ اکثر چلتا پھرتا نظر آتا۔ کبھی ایک چچا کے ہاں کبھی دوسرے کے گھر۔ چار پانچ نفراس کو اٹھانے کے لیے درکار ہوتے!
سادات لا ’’لنگرا‘‘ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔

’’کونڈے‘‘ کی افادیت بے شک مسلم تھی۔ خالی منگلیوں کی ٹھک ٹھک سے جو کام ہفتوں میں نہ ہوسکتا تھا ’’کونڈا‘‘ دنوں بلکہ گھنٹوں میں کر ڈالتا۔
ہاں، ایک قباحت تھی کہ چٹو ایک تھا اور براہ راست سلب میں سے نکلے ہوئے پتی دار پانچ تھے۔ علاوہ ازیں پندرہ بیس مستحقین وہ رشتے داروں کے نظام شمسی میں دائیں بائیں گھومتے رہتے۔ اس ’’چٹو‘‘ کی ’’الاٹمنٹ‘‘ ہر چند، پاکستان زرعی بینک کے ٹریکڑوں کی الاٹمنٹ کے طریقِ کار پر… پہلے آئو، پہلے پائو… کے اصول پر کی جاتی، تاہم اختلافات کے پہلو اکثر نکلتے رہتے اور چھٹائی کے موسم میں تو نندوں، جٹھانیوں، دیورانیوں اور دوسری رانیوں کے درمیان ایسی ایسی نزاعیں پیدا ہوتیں کہ ’’چٹو‘‘ کو کسی دوسری ’’چٹو‘‘ پر رکھ کر سرمہ کردینے کو جی چاہتا۔ ’’کونڈے اور ڈندے‘‘ کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، لیکن ہمارے ’’کونڈے‘‘ کا ’’ڈنڈا‘‘ مدت سے وفات پاچکا تھا، لہٰذا ڈنڈا جسے موسل بھی کہتے تھے، تمام متوسلین نے اپنا اپنا بنوا رکھا تھا۔

اب اسے اتفاق سمجھیے کہ جب سے خاندان کا مشترکہ ڈنڈا ٹوٹا تھا، خاندان کا سنگھٹن بھی کمزور پڑ گیا تھا اور مشترکہ بیٹھک بھی ٹوٹ گئی تھی۔ خیر جانے دیجیے ہم ’’چٹو‘‘ کی کارکردگی کی بات کرتے کرتے ’’چٹو‘‘کے فلسفلے میں جا پڑے، مگر ہاں چٹو کے ایک ذاتی احسان کا اعتراف ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ تیسری یا چوتھی جماعت کا واقعہ ہے۔ نواحی موضع نکرور میں ایک تگڑے، دو ڈھائی سو گھمائوں زمین کے مالک، جاٹ کے بیٹے کے بیاہ پر، نیلی بار کے ایک طائفے نے رات کے وقت دیار اور چیڑ کی لکڑی کی مشعلیں جلا کر بیت بازی اور پیررانجھے کے سوانگ کا اکھاڑہ لگایا تھا جو ہم نے بھی ہزارہا تماشائیوں کے ہجوم میں، اپنے جگری ہمجولیوں راجہ عنایت خاں ولد صوبیدار میجرمحمد خاں اور سید عنایت حسین شاہ ولد سید ولایت شاہ شہال کے ساتھ ایک موٹے تنے والے درخت کے ’’دوسانگے‘‘ میں بیٹھ کر دیکھا۔ پروگرام میں پنجابی کا یہ مقبول گیت بھی شامل تھا۔

چینا اینج چھڑیندا یار چینا اینج چھڑیندا یار
(چینا۔ (اناج کی ایک قسم) اے دوست چینا اس طرح چھڑا جاتا ہے)
حضرت بلھے شاہ کے یہ ابیات موسیقاروں نے ڈھولک اور چمٹے کے ساتھ کچھ ایسے والہانہ انداز میں جھوم جھوم کر اور ناچ ناچ کر گائے کہ ساری فضا ان کے ہمراہ رقص کناں معلوم ہوئی۔ میری روح پر اس کا ایسا نقش بیٹھا کہ سیانا ہونے کے بعد بھی جب کبھی عورتیں ہمارے ’’چٹو‘‘ میں پھلیاں کوٹتیں تو موسل اندازی کی دھنا دھن دھنا دھن میں مجھے ایسے لگتا جیسے کوئی گا رہا ہو۔

چینا اینج چھڑیندا یار چینا اینج چھڑیندا یار
کیا عجب ہے کہ میری شاعری کے سوتے کو اس آہنگ شیریں نے بھی جگایا ہو۔ لیجیے ایک اور منظر یادوں کے پردے پر ابھر آیا۔ بڑے بھائی گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج گجرات میں تھے اور میں گورنمنٹ ہائی اسکول جہلم میں نویں دسویں جماعت میں پڑھ رہا ہوں۔ اتنا ’’پٹھور‘‘ ہوچکا ہوں کہ کبھی کبھی لنگوٹ باندھ کر تیل کی مالش کرکے کبڈی کے اکھاڑوں میں اتر جاتا ہوں۔ حسینوں کے مکھڑوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کی حس بھی بیدار ہو چکی ہے۔ جاڑے کے دن ہیں۔ بورڈنگ ہائوس سے اتوار کی چھٹی گزارنے گھر آیا ہوں۔ پیر کی صبح کو ’’دینہ‘‘ ریلوے اسٹیشن سے چھے بجے کی گاڑی سے جہلم جانا ہے۔ گھر میں الارم والی گھڑی موجود ہے، مگر بے جی اس پر کبھی بھروسہ نہیں کرتیں۔ کیا معلوم بجے نہ بجے۔ رات کو ان کے سونے جاگنے کا انحصار ’’دب اکبر‘‘ کی نقل وحرکت پر ہوتا جس کو عرفِ عام میں ’’ترنگڑ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ترنگڑ‘‘ مدد کالس کے کنویں پر ہوتے تو وہ سو جاتیں اور دو میل آگے جب معضع خانہ بوکی کی منڈیروں پر ہوتے تو آپ اٹھ جاتیں، مگر آج بمشکل ایک فرلانگ چلے ہوں گے کہ بے جی اٹھ بیٹھیں۔ پہلے کتنی دیر چکی پیستی رہیں۔ پھر دو وقتوں کا بارہ چودہ سیر دودھ بلویا۔ پھر وضو کرکے مصلے پر بیٹھ گئیں اور کافی دیر تک باوا جی کے یہ ابیات

چار دناں دا آنی ٹاپا، دو دن کھانا پینا
ماں مئی تے مل گئے پیکے، کی کڑیاں دا جینا

ہوسی اوہ جو آپ کریسیں، ایہہ دنیا دے چالے
کون پرائیاں کندھاں لنبے، کیڑا دیوے بالے

بھلیاں نال تے کردے آئے سب لوکی بھلیائی
چنگا اوہ جو اڑیاں تھڑیاں نال کے چنگیائی

در مرداںدا پھڑلے جو ہیں ماندا یا درماندا
لکڑی نال محمد شاہا، لوہا بھی ترجاندا

الاپ کر چولہے میں آگ روشن کی اور دو ایسے جبرنگ پراٹھے پکائے کہ ہر پراٹھے کے پانچ پانچ پرت اور ہر پرت میں ایک ایک چھٹانک گھی۔ اب کبھی تلوے، کبھی ماتھا چھو کر ہمیں جگایا۔ ہم جاگے تو منہ ہاتھ دھلایا، کپڑے لا کر دیے، ’’پھر ادھ رڑکے دودھ‘‘ کے ساتھ ایک پراٹھا ہمیں کھلایا۔ دوسرا ساتھ میں رکھ دیا کہ بورڈنگ ہائوس میں کام آئے گا۔ اب میں گھر سے نکل آیا ہوں۔ افق بھی تاریک ہے، بستی سوئی ہوئی ہے، کتے بھونک رہے ہیں۔ جب ہم چلے تھے تو شاہ جی اپنے لمبے وظیفے کے بعد خداحافظی کی دوپھونکیں ہمارے چہرے پر بکھیر گئے تھے۔ اولاد سے ان کی محبت کا اظہار صبح و شام کی انہی دو پھونکوں سے ہوتا۔

ہم ’’کھلا‘‘ عبور کرکے کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر ہو لیے۔ بے جی ساتھ ساتھ آ رہی ہیں۔ میں بار بار کہتا ہوں بے جی لوٹ جائو، میں کوئی بچہ نہیں۔ میں کوئی لالہ موسیٰ نہیں جا رہا، مگر وہ برابر چلی آ رہی ہیں، یہاں تک کہ وہ گرانڈیل سلیٹی پتھر آگیا جس کو ہم لوگ ’’سرڈا‘‘ (غالباً اصل لفظ، دسہ حدا‘‘ یا ’’سرحدا‘‘ یا ’’ترے حدا‘‘ ہو۔ پنجابی میں بمعنی ۳ کے) کہتے ہیں جو گائوں ہمارے چک عبدالخالق اور دوسرے دو موضعات ہڈالی اور ڈہوک کھوکھر کی سرحد پر شاید ۱۸۶۰ء کے جرنیلی بندوبست میں بھی نصب کیا گیا تھا۔ یہاں بے جی میرے ماتھے اور میرے دونوں رخساروں کو باری باری چوم کر لوٹ جاتی ہیں کہ اب پو پھٹ رہی تھی۔ کسان گھروں سے نکل رہے تھے۔ قصبہ سامنے نظر آرہا تھا، بلکہ جب تک میں وہاں پہنچوں قصبے کے کھتری اور سکھ دکاندار اور ان کی آدھی جاگتی، آدھی سوئی ہوئی کھترانیوں اور سکھنیوں کے غول کے غول، منہ میں پھلائی کے دانتن (مسواک) دبائے، ہاتھوں میں پیتل کی گڑویاں اٹھائے، کھیتوں کی طرف آتے، کیرتی کرتے، شبدا الاپتے ملیں گے۔

کلیائی کتے موہیں کھاج، ہو یا مردار گو سائی
راجے باپ کماوندے ، الٹی واڑ کھیت کھو کھائی

لیکن الوداعی پیار کے بعد بے جی واپس کہاں گئی ہیںَ جب تک کھیت میں کھڑی، باجرے یا گیہوں کی فصلوں یا کچی سڑک کے دورویہ ایستادہ بوڑھے شیشم کے درختوں نے مجھے اوجھل نہیں کردیا۔ وہ ’’تہرڈے‘‘ کے ساتھ لگی کھڑی ہاتھ ہلا رہی ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ جب وہ اسی طرح ہاتھ ہلاتی ہیں تو ساتھ ساتھ منہ سے یہ لفظ بھی کہتی جاتی ہیں۔
’’ماں گھمائی صدقے جائے۔ ‘‘ (اماں قربان جائے)
’’اللہ تے اللہ دا رسولؐ تیرا راکھا ہوئے۔‘‘
ہمارے سب سے بڑے بھائی بھاپا نادر شاہ جو پہلوٹھی کی اولاد تھے، یوں تو چوڑے چکلے ہاڑکے، دو تین منزلہ، تگڑے تنومند آدمی تھے، مگر ان کا سر، شاہ دولہ کے چوہوں کی طرح تھا جیسے لمبوترا سا خربوزہ ہو۔ بچپن میں ان کو دیکھ کر ڈر لگتا، ہنسی بھی آتی کہ بھاپا کے سر کو یک لخت یہ کیا ہوگیا۔ (میرا ایک شعر ہے۔

جناب شیخ، گردن تک تو کچھ کچھ ٹھیک آتے ہیں
مگر پھر بعد کی گڑبڑ میں سر پیدا نہیں ہوتا

کچھ عجب نہیں کہ مجھے غیرشعوری طور پر یہ شعر بھاپا کے سر ہی سے سوجھا ہو۔)
ہمیں کچھ عقل آئی تو معلوم ہوا کہ بھاپا کا سر جتنا پتلا تھا، عقل اتنی ہی موٹی تھی، بلکہ باقاعدہ پاگل پن کے دورے پڑتے تھے جن کا کوئی ٹائم ٹیبل مقرر نہ تھا۔ اچھے بھلے بیٹھے ہوتے کہ دفعتاً چنگھاڑنے لگتے۔ اس عالم میں اونچی اونچی آواز میں نادیدنی پیکروں (بلکہ پری پیکروں) کو گالیاں دیتے اور ان پیکروں کی طرف لپکتے۔ جوانی کے ساتھ ساتھ یہ جنون بھی جوان ہوتا چلا گیا۔ یوں عام نارمل حالت میں بھی، پھٹی پھٹی آنکھوں سے خلا میں کچھ تلاش کرتے رہتے۔

بظاہر ہیں بھری محفل میں لیکن
خداجانے کہاں بیٹھے ہوئے ہیں

جنون کی کیفیت میں جو سامنے آجاتا، دھول دھپہ بھی کر بیٹھتے، گالیاں دیتے، البتہ شاہ جی کا اس حالت میں بھی لحاظ کرتے۔ وہ سامنے آجاتے تو بھاپا ان کا ہلکا سا منہ چڑا کو کترا کرنکل جاتے یا پھر چچا چنن شاہ صاحب سے کتراتے کہ انہوں نے ایک مرتنہ بھاپا کی خوب مرمت کی تھی کہ اس نے بے جی پر کیوں ہاتھ اٹھایا تھا، مگر بے جی اس واقعے پر مہینوں اپنے دیور سے روٹھی رہی تھیں کہ اس نے میرے لخت جگر کر کیوں مارا۔ بھاپا سب سے زیادہ پیار بے جی سے کرتے۔ کوئی بات کہنے ہوتی تو انہیں سے کرتے۔ بولتے بھی انہیں کے بلانے سے تھے۔ مارکٹائی بھی زیادہ انہیں کی ہوتی۔ جو بولے سو کنڈی کھولے… یہ تو تھا تصویر کا وہ رخ جو ہم دیکھتے تھے، لیکن اگر بھاپا نادر سے پوچھتے اور اگر جذبہ گرفتار گریباں ہوپاتا تو شاید یہ شعر ان کی قلبی کیفیات کی کچھ ترجمانی کرسکتا۔

کچھ اپنوں کے نام بھی ہوں گے، ناحق کی رسوائی ہوگی
دیوانہ یہ کیسے بتائے، کس نے، کس نے مارے پتھر

بھنا ہو اگوشت بھاپا کا مرغوب کھاجا تھا۔ بے جی، ہانڈی بھوننے لگتیں تو آکر ان کے ’’گوڈے‘‘ (گھٹنے) سے لگ کر بیٹھ جاتے اور چیخ چیخ کر اپنا کھاجا مانگتے۔
’’بے بے بوٹی کھاساں، بے بے بوٹی کھاساں‘‘
(امی بوٹی کھائوں گا۔ بھاپا والدہ کو بے بے کہتے، جبکہ ہم بے بے یا بے جی کہتے)۔ اور ’’بے بے‘‘ ہانڈی سے بھنی ہوئی بوٹیاں نکال نکال کر انہیں کھلاتی جاتیں اور ساتھ ساتھ نرم نرم چاہتوں کی باتیں بھی بیٹے سے کرتی جاتیں۔
نادرا تو گالیاں نہ بکا کر۔
نادرا، اڑیا میں سوچتی ہوں اب تیری شادی کردوں۔
نادرا… شاہ جی کو صبح اٹھ کر سلام کیا کر۔
نادرا… پرسوں جمعرات کو میرے ساتھ میاںصاحب کی خانقاہ پر چلنا۔

اور نادرا، ہوں ہاں کرتا جاتا کہ یہی چند ساعتیں ان کے ’’نرمانے‘‘ کی ہوتی تھیں، لیکن باہمی خیرسگالی کی یہ پینگ اکثر بدمزگی پر ٹوٹتی۔ وہ یوں کہ جہاں بے جی نے بوٹی دینے سے ہاتھ روکا تاکہ باقی ٹبر کے واسطے دو چار بوٹیاں بچا کر رکھ سکیں کہ بھاپا آگ بگولہ ہوجاتے۔ ہانڈی اٹھا کر ’’چٹو‘‘ پر دے مارتے یا ہانڈی سمیت گلی میں نکل جاتے۔
(ہمارے جدِامجد حضرت سید محمد عبدالخالق شاہ رحمتہ اللہ علیہ کو ہم لوگ ’’میاں صاحب‘‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ ہمارا گائوں انہی کے نام پر چک عبدالخالق کہلاتا ہے۔) آس پاس کے دیہات کے لوگ ان کو سائیں نادر کہتے اور لحاظ اور درگزر سے پیش آتے یعنی گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہ ہوتے۔ لحاظ کی ایک وجہ تو شاہ جی لا لحاظ تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ
دیوانہ ہے دیوانہ، دیوانے کو کیا کہیے
لیکن بہتوں کے دل میں یہ خیال بھی جاگزیں تھا، مبادا مجذوب ولی ہوں۔ خاص کرکے اکثر عورتیں تو ان کا سائیں نادر شاہ بادشاہ کہتی تھیں۔ بھاپا جس گھر میں چلے جاتے، گھر کے سب سے اونچے پلنگ پر سب سے بڑھیا کھیس بچھ جاتا، تکیہ لگ جاتا، دودھ بالائی، حریرے، حلوے کے کٹورے دوڑنے لگتے، عورتیں زمین پر سامنے بیٹھ جاتیں۔
سائیں جی دعا کرو، بھینس کٹی دے۔
شاہ جی دعا کرو میرا اللہ دتہ حوالدار بن جائے۔
شاہ جی یہ بتائو میری نتھ اور ہنسلی کس نے چرائی ہے؟
بھاپا ان باتوں پر ’’جلی‘‘ (عالم جذب میں زور سے چلانا) مارتے ہوئے جو بے ربط جملے بھی کہتے، زود اعتقاد عورتیں اپنی طرف سے ان میں معنی پیدا کرتی رہتیں…
سائیں بادشاہ کی اپنی فرمائش بس ایک ہوتی۔ ’’بوٹی کھاساں۔

نوجوان عورتوں کے جھرمٹ میں بھاپا خصوصاً نہال ہوتے۔ کسی گھر میں شادی بیاہ کی بھنک پڑجاتی تو اڑ کر وہاں پہنچتے۔ مائیوں سے لے کر ولیمے تک وہیں پڑے رہتے۔ ناچتے، گاتے گلے میں ڈھول ڈال کر بجاتے۔ نوشہ کا ایک شہ بالا قبیلے سے ہوتا، دوسرا شہ بالا سائیں نادرشاہ بادشاہ… گھوڑی پر خواہ نوشہ کے لیے بھی گنجائش ہو یا نہ ہو، آپ ضرور سواری کرتے ہوئے دلہن والوں کے گھر پہنچتے… جیسا سہرا دولہا کا، عین ویسا ان کا ہوتا۔ دو تین روز بعد گھر آتے تو جیب سلامی کی دونیوں، چونیوں، اٹھنیوں سے بھری ہوتی۔ وہ یہ ریزگاری لا کر بے جی کے دوپٹے کے پلو سے باندھ دیتے جس پر ماں ایک ہلکی سی پیار بھری چپت بھاپا کے گالوں پر لگاتے ہوئے کہتی۔
نادرا، اڑیا ہن تیرا ویاہ کردیے۔ نادرا، اب تیری شادی کر دی جائے

اور بھاپا جواب میں نعرہ لگاتا۔ ’’بے بے بوٹی کھاساں۔

بھاپا، بعض اوقات تین تین، چار چار مہینے… گھر سے غائب رہتے۔ ریلوے کے مسافرخانوں اور گاڑیوں کو چھانا جاتا، دریائوں میں بانس ڈالے جاتے، مگر تلاش کرنے سے وہ کبھی نہ ملتے۔ ہاں کسی روز خود ہی واپس آجاتے۔ کبھی گز گز سر کے بال بڑے ہوتے، کپڑے تار تار… برے حال بانکے دہاڑے۔ کبھی نیا جوڑا زیب تن کیے۔ گلاب کی طرح تروتازہ۔ جیب چونیوں، اٹھنیوں، روپوں سے بھری ہوتی۔ شاہ جی جن دنوں انبالے میں ملازم تھے، بھاپا بھاگ کر گائوں آجاتے… شاہ جی گائوں میں اٹھ آئے تو بھاپا بھاگ کر انبالے کا رخ کرنے لگے جہاں کے ایک حلوائی لالہ گوجر مل کا ’’بھگا‘‘ ان کو بے حد مرغوب تھا، مگر گوجر مل کا نام تو یا دتھا، لیکن انبالے کی سمت بھول چکے تھے… گھر واپس پہنچتے تو ڈیوڑھی سے صدا لگاتے۔

بھگا، گوجرمل دا۔‘‘ اور ’’بے بے بوٹی کھاساں۔
اور آدھی ہنستی اور آدھی روتی ’’بے بے‘‘ اپنے چوہے پتر سے لپٹ جاتی اور اس کے چہرے پر پڑی گرد چاٹ لیتی۔ ایک مرتبہ دوچار مہینے کی جہاں گردی کے بعد آپ واپس آئے تو ران پر چھے ساتھ انچ لمبا، دو ڈھائی انچ گہرا شگاف تھا۔ سر پر بھی زخم تھا جو اگرچہ چھوٹا تھا، مگر ان کے سر کے لیے وہ بھی بہت بڑا تھا۔ مرغی کے لیے تکلے کا زخم بھی بہت ہوتا ہے… بے جی مہینوں ان کی پیپ دھوتی اور ان سے گالیاں سنتی رہیں۔ بھنے ہوئے گوشت کے علاوہ ان کی دوسری ترنگ یہ تھی کہ کپڑے بدل بدل کر پہنتے رہیں۔ راہ چلتے کسی آدمی کے تہبند کا رنگ پسند آجاتا تو وہیں اپنا تہبند اس کے تہبند سے تبدیل کرلیتے۔

اپنے گائوں میں اعجاز علی جازو (جوانی میں وفات پائی) ایک خوش پوش نوجوان کے ریشمی لاچے اور تریزوں والے کرتے اکثر بھاپا کے کام آتے۔ ایک مرتبہ ایک نواحی گائوں مدوکالس کے ایک چودھری صاحب جو کلکتہ پولیس میں انسپکٹر تھے، چھٹی پر وطن آئے اور برجس پہن کر چچا چنن شاہ صاحب کی بیٹھک میں آگئے تو بھاپا پر جس پر مچل پڑے اور اگلے روز انسپکٹر صاحب کی برجس، بھاپا نے ڈانٹ رکھی تھی۔ صرف برجس ہی نہیں، ان کی پولیس انسپکٹری کا ڈنڈا بھی ہاتھ میں گھماتے ہوئے نادیدہ پری پیکروں پر جھپٹ رہے تھے کہ… ’’ادھر آئو تہاڈی…

شاہ جی کا بہت لحاظ کرتے، لیکن اگر ان کو کبھی کوٹ پہنے ہوئے دیکھ لیتے تو بے اختیار نعرہ لگاتے۔ ’’شاہ جی کوٹ پاساں!
غربت کے حق میں صرف ایک دلیل دی جا سکتی ہے کہ غریب آدمی آزاد آدمی ہوتا ہے، مگر سب سے زیادہ آزاد مست اور ملنگ ہوتا ہے۔ یہ شاید ۱۹۲۸ء یا ۱۹۲۹ء کی بات ہے۔ کھیتوں میں سرسوں پھولی ہوئی تھی۔ بھاپا اچانک گھر سے غائب ہوگئے اور آج تک نہیں لوٹے۔ شاہ جی نے تو خیر اپنی ذات ہی کو درمیان سے نکال رکھا تھا۔ یوں بھی غمِ روزگار کو وہ رازی و رومی کے تانے بانے میں تحلیل کیے رکھتے، مگر بھاپا کی لمبی گم شدگی پر بے جی کی آنتیں ان کے بقول ’’ڈھینگروں‘‘ (کانٹوں) سے الجھ گئی تھیں۔ ہمیں ایسا کوئی دن یاد نہیں جب بے جی نے اپنے نادر کو یاد نہ کیا ہو… اس کے لیے روئی نہ ہو، اس کے لیے دعا نہ کی ہو، اس کے نام کی روٹی نہ نکالی ہو… گائوں میں اتفاقاً کوئی شاہ دولے کا ’’چوہا‘‘ بھیک مانگتا آنکلتا تو بے جی اس کو بڑے پیار سے دیکھتیں، اسے گھر کے اندر بلا کر چوکے میں اپنے پاس بٹھا کر بھنی ہوئی بوٹیاں کھلاتیں۔ خود جب بھی لقمہ توڑتیں، آہ بھر کر کہتیں اللہ جانے، میرے نادر کو بھی روٹی ملی یا نہیں۔

نادر، گھر سے نکل گیا تھا، مگر نادر گھر میں موجود تھا۔ بے جی کا انتقال ۱۹ مئی ۱۹۷۳ء کو تقریباً سو برس کی عمر میں ہوا۔ اپنی آکری سانس تک ان کو یہ آس بندھی رہی کہ نادر زندہ ہے، انبالے گیا ہوا ہے، فقط راستہ بھول گیا ہے۔ دیکھنا کسی روز اچانک ڈیوڑھی سے آواز سے گا۔ ’’بے بے بوٹی کھاسان‘‘ اور اب
ما، نامہ بہ برگ گل نوشیتم
شاید کہ صبا بہ او رساند
 

جاسمن

لائبریرین
بہت ہی اعلی مضمون ہے۔
زبردست شراکت۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
اب تو لوگ ایسے دیوانوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔انہیں مارتے ہیں۔ان کی بے عزتی کرتے ہیں۔
ہم اللہ کو بھولے ہوئے ہیں۔
رب تو دیوانوں کا رب بھی ہے اور فرزانوں کا رب بھی ہے۔
اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
 
Top