بنگلہ دیش بن گیا

سیما علی

لائبریرین

بنگلہ دیش بن گیا

  • آمنہ مفتی
  • 19 دسمبر 2021
آمنہ مفتی

بنگلہ دیش کو دنیا کے نقشے پر آزاد ملک کی حیثیت سے ابھرے اس دسمبر میں 50 برس ہو گئے۔ کیا ایک برادر اسلامی ملک کے طور پر ہمیں انہیں مبارکباد دینی چاہیے؟
یہ سوال بارہا ذہن میں اٹھتا ہے اور ایک ان کہی کی صورت دل میں دبا رہ جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے اس علیحدگی پر ہم نے کبھی بات نہیں کی۔
ہمارے دور میں سب سے اہم مسئلہ روس کی اینٹ سے اینٹ بجوانا تھا سو بجا دی گئی۔ بنگلہ دیش کی یاد صرف اس صورت ہم تک پہنچی کہ الماری کے سب سے اوپر کے خانے میں ڈھاکہ سے خریدا ہوا ایک ننھا سا نوکا سجا تھا اور اسی کے ساتھ ’ملاح کی بیٹی‘ نامی آدم جی ایوارڈ یافتہ ناول کی ایک نیم شکستہ جلد رکھی تھی۔
اداکارہ شبنم کی لمچھوئی، موتی کٹی جادوئی آنکھیں اور شہناز بیگم کی آواز میں گایا ہوا ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے‘ بنگال سے ہمارے ایک گئے گزرے رشتے کی چند نشانیاں تھے۔
پچاس سال سرگوشیوں میں کی جانے والی یہ گفتگو کہ مارچ 1971 سے دسمبر 1971 کے درمیان مشرقی پاکستان پر کیا گزری تھی، اچانک ذرائع ابلاغ پر فلموں اور ڈراموں کی صورت نمودار ہونے لگی۔
پہلے ایک فلم دکھائی دی، ’کھیل کھیل میں‘، پھر ’ہنگور‘ نامی ایک ٹیلی فلم نظر آئی، اس کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل پر ’جو بچھڑ گئے‘ نامی سیریل نمودار ہوا اور پھر جاوید جبار صاحب کی لکھی ایک ڈاکیومنٹری نظر سے گزری۔
اسی دوران کئی ویب سائٹس پر تاریخی حقائق کی چھان بین کرتے ہوئے بہت سے مضامین نظر سے گزرے۔ تاڑنے والے تاڑ گئے کہ پس پردہ کون بول رہا ہے۔ https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59106760
آمنہ مفتی

بولنا اچھا ہوتا ہے۔ بات کرنی چاہیے۔ پچاس برس بعد ہی سہی مگر ہم نے اتنی ہمت تو کی کہ اس مسئلے پر بات کر رہے ہیں۔ مگر بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ اب مسئلہ نہیں۔
بنگال میں آج سے 50 برس پہلے کیا ہوا؟ کس نے کیا کیا اور کس کو کیا نہیں کرنا چاہیے تھا یہ وہ سچائیاں ہیں جو وقت کے ساتھ سامنے آئیں گی۔
پچاس برس بعد اعداد و شمار کی اس درستی سے کیا تاریخ کے دھارے پلٹ جائیں گے؟ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ جو ہونا تھا ہو گیا، جو گزرنا تھا گزر گیا۔ سانپ کو نکلے اتنی مدت ہو چکی ہے کہ اب لکیر پیٹنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ مزید گرد اٹھے گی اور فضا پہلے سے بھی زیادہ مسموم ہو جائے گی۔
جو وسائل، وقت اور محنت ایک ایسے گاؤں کو بسانے پر لگائی گئی جو تھا ہی نہیں اگر یہی مغز پاشی بلوچستان کے مسائل پر کر لی جاتی تو وہ نعرے جو آج گوادر کے ساحل پر لگ رہے ہیں کچھ مختلف ہوتے۔
تاریخ سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ لکھوائی ہوئی تاریخ کی کتابوں اور اپنے ہی ملک میں دیکھے جانے والے بھرتی کے ڈراموں فلموں سے اگر کسی مسئلے کا حل نکلتا تو آج دنیا میں کوئی مسئلہ باقی نہ رہ گیا ہوتا۔
وہ قلم جو کسی کے کہے پر لکھے، وہ کیمرہ جو کسی کی بتائی دکھائے اور وہ گیت جو سنگین کی نوک پر گوایا جائے نہ تو انقلاب کا نقیب ہوتا ہے اور نہ ہی تاریخ کے خرابوں سے سچ کے موتی بیند سکتا ہے۔
بنگلہ دیش ایک حقیقت کی صورت ہمارے سامنے ہے اور حقیقت کے جواز نہیں تراشے جاتے، نہ ہی اسے تسلیم کرنے کے بعد چوں چرا کی جاتی ہے۔
عرض یہ ہے کہ ہم نے تسلیم کر لیا کہ بنگال میں جو ہوا اس میں آپ کا کچھ قصور نہیں تھا۔ ہم تو پہلے ہی سے مانے ہوئے تھے کہ ایسا ہونا ہی تھا۔ مگر ازراہ کرم و ذرہ نوازی، بلوچستان کی خبر لیجیے۔
تاریخ صرف غلط ہی نہیں لکھی جاتی، یہ بےدرد خاکم بدہن کبھی خود کو دہرا بھی جاتی ہے۔ حذر کیجیے تاریخ کے اس چلن سے اور رہے یہ ڈرامے فلمیں تو صاحب یہ کام ہم کمی کمین خوب کر گزریں گے، بس آپ ذرا ہماری دھوپ چھوڑ دیجیے۔
 
Top