بلیک ہول، سائنس اور ہم ۔ اطہر شاہ خان جیدیؔ

فرخ منظور

لائبریرین
بلیک ہول، سائنس اور ہم
تحریر: اطہر شاہ خان جیدیؔ
سائنس سے ہمارا تعلق اتنا ہی افسوس ناک رہا ہے جتنا ہمارے ملک کے اکثر سیاست دانوں کا ملک کی معاشی پیچیدگیوں اور بنیادی مسائل سے، ان بے چاروں کو یہ معلوم نہیں کہ وطن کا بنیادی مسئلہ کیا ہے اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ” کوانٹم تھیوری “ کس علاقے کی چڑیا کا نام ہے، سائنس سے ہماری یہ دشمنی عمر عزیز کے ایک طویل عرصے پر محیط ہے ! میٹرک میں ہمیں زبردستی سائنس پڑھنا پڑی تھی اور کیمسٹری مسلسل تین دن پڑھ لینے کے بعد ہمیں سخت بخار آ جایا کرتا تھا، طبعیات سے ہماری طبعیت ویسے ہی نالاں رہتی تھی، پھر وہ وقت بھی آیا جب سالانہ امتحانات ہونے والے تھے اور ہمارے وہ قارئین جو میٹرک کرنے کے جاں گسل لمحات سے گزر چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امتحانات کے دنوں میں ” گیس پیپرز “ کا سیلاب سا آ جایا کرتا ہے، کچھ راز ہائے سربستہ سینہ بہ سینہ بھی چلتے ہیں اور اکثر لڑکے قسم کھا کر بتاتے ہیں کہ پرچے میں آنے والے کچھ سوالات انہیں نہایت باوثوق ذرائع سے معلوم ہوگئے ہیں چنانچہ ایسے ہی ایک طالب علم نے سخت رازدارنہ انداز میں ایک معتبر ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس بار کیمسٹری کے پرچے میں ”نائیٹروجن“ کے بارے میں سوال لازمی طور پر ہوگا، چونکہ یہ راز ہمیں پرچہ ہونے سے صرف ایک دن پہلے بتایا گیا تھا اس لئے ہم نے آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ وغٰرہ کو ایک طرف رکھا اور نائیٹروجن کا ” رَٹّا “ لگانا شروع کردیا !
اس مسلسل محنت سے ہم چند ہی گھنٹوں میں خود کو نائیٹروجن کا شمس العلماء کہلانے کے مستحق ہو گئے تھے … صبح کو ہم نہایت ہشاش بشاش اٹھے، کتاب کھول کر ایک بار پھر نائیٹروجن پر نظر ڈالی اور اپنے حافظے کو داد دیتے ہوئے امتحان گاہ کی طرف روانہ ہو گئے، وہاں حالت یہ تھی کہ ہم بلاوجہ گنگنا رہے تھے بلکہ جب امتحانی پرچہ ہمیں دیا گیا تو ہم نے قہقہہ تک لگا دیا، پھر وہ قیامت خیز لمحہ آیا جب ہم نے پرچے پر نظر ڈالی اور اچانک نظروں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا، یوں لگا جیسے یہ کائنات آکسیجن کی طرح بالکل بے بو، بے رنگ اور بے ذائقہ ہو چکی ہے، پرچے میں نائیٹروجن کا ذکر بالکل نہیں تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خواص بیان کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ ہمارے پاؤں لرزنے لگے، ذہن چکرانے لگا، دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ آنکھوں میں پھرنے لگا اور اپنے قریب کھڑے نگرانی کرنے والے شخص کی صورت ہمیں بالکل ملک الموت جیسی نظر آنے لگی مگر کرتے تو کیا کرتے کہ نائیٹروجن کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمیں یوں لگ رہی تھی جیسے ہم ناشتے میں چائے کے ساتھ کوئی دستی بم نگل کر آئے ہوں، مجال ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کبھی ہماری ذرا سی بھی واقفیت یا سلام دعا رہی ہو… ہم نے نائیٹروجن کے بارے میں زیر لب کچھ ایسے الفاظ کہے جن سے اس شریف گیس کی توہین کا نہایت غیر اخلاقی پہلو نکلتا تھا پھر قلم سنبھالا اور دوسرے سوالات حل کرنے کے لئے بساط بھر کوشش شروع کردی مگر کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ سوال لازمی تھا چنانچہ آخر میں ہم نے اس لڑکے کو چند نہایت دلگداز اور عبرت انگیز کوسنے دیئے جس نے ہمیں نائیٹروجن کے بارے میں بتایا تھا۔ لگے ہاتھوں ایسا مشکل پرچہ ترتیب دینے والے کے لئے بھی کچھ جدید کوسنے ایجاد کئے اور قلم سنبھال کر پرچے کو ایک بار پھر دیکھا کہ سہو نظر نہ ہوا ہو مگر وہاں نائیٹروجن کی جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی لکھا تھا لہٰذا ہم نے نہایت خوش خط انداز میں امتحانی کاپی پر لکھا ” کاربن ڈائی آکسائیڈ “ اور اس کے نیچے وہ سب کچھ لکھ دیا جو نائیٹروجن کے بارے میں یاد کیا تھا۔ ہمارا اشہب قلم تیزی سے دوڑ رہا تھا اور ہم نے نائیٹروجن کے خواص کے علاوہ اس کے عادات و خصائل تک کے بارے میں ایک وسیع و عریض مقالہ تحریر کر ڈالا !
اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میٹرک کے سالانہ امتحان کا نتیجہ آنے پر ہم نہایت امتیازی نمبروں سے فیل ہوئے ہوں گے… جی نہیں ! ہم پاس ہوگئے تھے اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں، یعنی جسے اللہ رکھے اسے کون ممتحن چکھے !! پاس ہونے کی خبر پاتے ہی ہم نے شکرانے کے نفل پڑھے اور آخر میں کیمسٹری کے پرچے کے نابینا ممتحن کی درازیٴ عمر کے لئے رقت انگیز انداز میں دعا مانگی کہ اس کے درجات بلند ہوں، وہ ہیڈ ماسٹر بنے، رزق کشادہ ہو، بال بچے روز افزوں ترقی کریں اور آخر میں شدت جذبات سے یہ تک کہہ بیٹھے کہ اللہ اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے !
اب اتنے برسوں کے بعد پھر ایک سائنسی مسئلہ ہمارے سامنے ہے جسے حل کرنا یا سمجھنا ہمارے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا وزیر توانائی و بجلی کے لئے یہ سمجھنا کہ جب ملک میں بارہ چودہ گھنٹے روز تک کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے تو بجلی کی قیمتوں میں ایسے ہوش ربا اضافے کا جواز کیا ہے!!اخباری خبر مختصر طور پر کچھ یوں ہے کہ ” آج دنیا میں طبعیات کا سب سے طاقتور تجربہ کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد کائنات میں Big bang کے چند لمحوں کے بعد حالات کو ایک مرتبہ پھر تخلیق کرنا ہے۔ نیو کلیائی ریسرچ کے یورپی ادارے کے زیر اہتمام ہونے والے اس تجربے کے دوران انجینئرز اور سائنسدان ایٹم کے مثبت چارج والے ” ذرات “ ” پروٹانز “ کو ستائیس کلومیٹر طویل زیر زمین سرنگ نما مشین سے گزاریں گے اور دو مخالف سمت سے آنے والی پروٹانز کی شعاعوں کو تقریباً روشنی کی رفتار سے 10 کھرب ڈگری سینٹی گریڈ پر آپس میں ٹکرادیا جائے گا۔ مادے کے باریک ذرات کو حرکت دینے والی مشین انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مشین ہے، بیس برس کی تیاریوں کے بعد 10 ارب ڈالر لاگت سے تیار ہونے والی 27 کلومیٹر سرنگ نما اس مشین میں پروٹون کی شعاعوں کو دہشت ناک طاقت سے آپس میں ٹکرایا جائے گا جس سے نئی طبعیات میں ” بگ بینگ “ جیسی کیفیت پیدا کی جا سکے، کئی ایسے سائنسدان بھی ہیں جو کائنات کی تخلیق کے آغاز کے لئے بگ بینگ جیسے کسی مفروضے کو نہیں مانتے اور ہم تو بحیثیت مسلمان کسی بھی بگ بینگ پر یقین نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس کائنات کی تخلیق کسی بھی بگ بینگ نے نہیں خداوند کریم نے لفظ ” کُن “ کہہ کر کی تھی اور کُن فیکون پر ہمارا پختہ ایمان ہے مگر وہ دوسرے سائنسدان بھی جو بگ بینگ تھیوری پر یقین نہیں رکھتے آخر اس منصوبے پر 10 ارب ڈالر خرچ کر دینے والے ان فضول خرچ سائنس دانوں سے یہ احتجاج کیوں نہیں کرتے کہ بھوک اور افلاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں اتنی بڑی رقم خوراک اور صاف پانی جیسے وسائل کی فراہمی پر خرچ کی جاتی تو کتنے پسماندہ ممالک اور ان کے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔
سائنس دانوں کے ایک گروپ کی جانب سے یہ خدشہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ اس بڑے لرزہ خیز دھماکے کے نتیجے میں زمین پر ایک بڑا بلیک ہول بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بلیک ہول کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ بڑی سے بڑی اشیاء کو نگل لیتا ہے۔ اگر ایسا کوئی بلیک ہول پیدا ہو تو ہماری خوشگوار خواہش ہے کہ اس کا پہلا نوالہ یہ خطرناک تجربہ کرنے والے ہزاروں سائنس دان ہی بنیں، اگر دو چار آدمی کم پڑ جائیں تو ہم اپنے ملک کے چند بے مصرف موقع شناس سیاست داں بھجوانے پر تیار ہیں۔
 
Top