شعیب
محفلین
مجھے یاد ہے آج سے تین سال قبل جب ایک مقامی اخبار میں پہلے صفحے کی کمپوزنگ کرنے کے بعد رات تین بجے گھر واپس آیا کرتا تھا اور روزانہ آوارہ کتّوں سے جنگ جیت کر آتا ۔ گھر سے اخبار کا دفتر تقریبًا 13 کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور ہر موڑ پر تقریبًا آٹھ دس کتّوں کا قافلہ ۔ اِس راستے میں آنے والے سبھی کتّوں نے مجھے اور میری بائیک کو اچھی طرح پہچان رکھا تھا یہاں تک کہ میری بائیک کی آواز پر اپنے کان کھڑے کرلیتے اور شاید قسم کھا رکھی تھی کہ ایک نہ ایک دن وہ مجھ پر فتحیاب ہوپائیں گے ۔ ایک راستے کے کتوں سے بچ نکلا تو وہ زور سے بھونکتے ہوئے اگلے مورچے کے کتوں کو آواز دیتے کہ ہم سے بچ گیا اب تم دیکھ لو ۔ ہمارے محلّے کا بلیک ٹائیگر (کتّا) جو یہاں کے آوارہ کتّوں کا سردار تھا، میرے یہاں آنے سے دو ہفتے قبل بیچارہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا ۔ اِسکی اچانک موت پر جہاں علاقے کے سبھی آوارہ کتّوں میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی وہیں میرا دِل خوشی سے باغ باغ ہوگیا ۔ اِس بلیک ٹائیگر (گلی کے لوگ پیار سے ٹائیگر کہتے ہیں) نے تقریبًا چار سال تک میری ناک میں دم کر رکھا تھا، ہر دن آدھی رات کو آفس سے گھر تک کئی کتّوں سے جنگ جیتنے کے بعد اپنے محلّے میں داخل ہوتے ہی سامنے ہٹّا کٹّا موٹا تازہ بلیک ٹائیگر میرے انتظار میں اپنے بھونکنے کی تیاری کر رہا ہوتا ۔ بلیک ٹائیگر کے دائرے سے میرے گھر کا فاصلہ صرف چند منٹوں کا ہے اور بلیک ٹائیگر کے دائرے کو عبور کرکے جانا گویا ہند و پاک کی سرحد کو چوری چوری عبور کرنا ہے جہاں دونوں طرف سے فائرنگ چلتی ہے اور ناچتے کودتے بھاگنا پڑتا ہے اور مَیں پچھلے چار سالوں تک روزانہ بلیک ٹائیگر کی سرحد کو عبور کرتا رہا اور اِس موقع پر میری بائیک ہوا سے باتیں کر رہی ہوتی، اَوسان خطا ہوچکے ہوتے ۔ میں ابھی بھی پوری طرح خوش نہیں، سوچ رہا ہوں بلیک ٹائیگر کو اُسوقت موت کیوں نہیں آئی جب آدھی رات کو مَیں بیچارہ محنت مزدوری کرکے گھر واپس آتا تھا ۔
شعیب
ِِِِِِِِِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعیب
ِِِِِِِِِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔