بلا عنوان

ع عائشہ

محفلین
کارخانے کے مینیجر نے دیکھا کہ ایک نوجوان دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے مزے سے فارغ بیٹھا ہے تو وہ آہستگی سے اس کے پاس گیا اور نہائت تحمل کے ساتھ پوچھا:
تمہاری تنخواہ کتنی ہے؟
نوجوان ایک دھیمے طرزِ عمل اور بردبار شخصیت کا مالک تھا، وہ اس کے زاتی نوعیت کے سوال سے حیران تو ہوا مگر اس نے ینیجر کو جواب دیا:
پانچ ہزار ڈالر، لیکن آپ مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھ رہے ہیں، جنابِ والا !!!؟
مینیجر نے نوجوان کے سوال کو در خور اعتنا جانتے ہوئے خاموشی سے اپنا پرس نکالا اور اس میں سے پانچ ہزار ڈالر گن کر علیحدہ کیئے اور پھر یہ پیسے نوجوان کی طرف (حساب چکتا کرنے کی غرض سے) بڑھاتے ہوئے کہنے لگا:
میں لوگوں کو تنخواہ اس لیئے دیتا ہوں کہ وہ میرے کارخانے میں پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کریں نا کہ اِدھر اُدھر فارغ بیٹھ جایا کریں۔ یہ پکڑو پیسے، اپنی راہ لو اور دوبارہ ادھر کا رُخ بھی نہ کرنا
نوجوان نے پیسے پکڑنے میں ذرا سی بھی دیر نہ لگائی اور پیسے لیتے ہی یہ جا وہ جا
مینیجر نے آس پاس تماشہ دیکھتے مزدوروں کی طرف منہ کرکے تادیباً کہا کہ
یہاں موجود ہر شخص جان لے کہ اس کے ساتھ یہی حشر و سلوک ہوگا جو یہاں آکر اپنے فرائض سے غفلت برتے گا، اس کا حساب چکتا کرکے اسے فوراً کام سے نکال دیا جائے گا
پھر مینیجر آنکھیں پھاڑ کر اپنی طرف دیکھنے والے ایک مزدور کے پاس گیا اور اس سے پوچھنے لگا:
لگتا ہے تم اُس نوجوان کو زاتی طور پر جانتے تھے، ویسے یہ نوجوان اِدھر کام کیا کرتا تھا؟
حیران و پریشان مزدور کا جواب مینیجر کے لیئے کسی صدمے کم نہیں تھا، کہنے لگا
جنابِ عالی ۔۔۔!!! یہ نوجوان تو ادھر کام ہی نہیں کرتا تھا، یہ تو یہاں محض پیزا دینے آیا ہوا تھا

۔کاپی پیسٹ)
 
آخری تدوین:
Top