بلا عنوان غزل

ایمان و دیں کی چھوٹ کا پیغام نقش ہے
ہر سو جہاں میں صورتِ اصنام نقش ہے

حسرت نہ آرزو ہی رہی اس میں اب کوئی
دل پر مرے فقط وہ گل اندام نقش ہے

صورت تری بنائے ہوئی ساحروں کی ہے
کاریگروں کا نقش پہ ہر نام نقش ہے

بہتر یہی ہے بند اب آنکھوں کو کیجیے
ساری ہی کائنات میں ایہام نقش ہے

اچھا ہوا زمیں پہ بسر کیں شبانِ غم
زیرِ زمیں نصیب میں آرام نقش ہے

پیغمبرانِ عشق کی فہرست دیکھیے
اوپر سبھی کے غالبِ بدنام نقش ہے

جامِ جہاں نما کو میں ریحان دیکھوں کیوں
میرے لیے جہان پہ سب جام نقش ہے
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو بلا عنوان ہی ہوتی ہے!!!
یہ دو اشعار مبہم ہیں۔
صورت تری بنائے ہوئی ساحروں کی ہے
کاریگروں کا نقش پہ ہر نام نقش ہے

جامِ جہاں نما کو میں ریحان دیکھوں کیوں
میرے لیے جہان پہ سب جام نقش ہے
’سب جام‘ سمجھ میں نہیں آیا۔
باقی درست ہیں۔
 
لڑی عنوان مانگتی ہے اور وہ نئے سے نیا ہونا چاہیئے (ضروری نہیں ہے ویسے ہی تسلی کے لیے)
مقطع میں نے تبدیل کر دیا ہے
سارے جہاں پہ میرے لیے جام نقش ہے
خیال یہ تھا کہ جام جم میں احوالِ عالم کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے مگر مجھے سارے عالم پر جام ہی نظر آتا ہے الٹی کیفیت ہے۔
وہ کاریگروں والے شعر کا مضمون تھا کہ ہر تصویر پر مصور کا نام نقش ہے۔ لیکن مصور شعر میں کسی طرح نہیں آ رہا تھا کاریگر لے آیا۔ پہلے مصرعے میں یہ کہا گیا ہے کہ محبوب کی صورت جادوگروں کی بنائی ہوئی ہے اسے تبدیل کر دوں گا۔ غزل کے مطلع میں ایہام گوئی کی بھی کوشش کی ہے یا تو بتوں کی صورت وہ پیغام نقش ہے یا پھر پیغام ایسے نقش ہے کہ بتوں کی تصویریں ہر جگہ بنی ہوئی ہیں۔
ویسے غزل گزارہ لائق ہے؟ یا محظ قافیہ پیمائی ہی نظر آ رہی ہے؟
 
Top